ایک کہانی بہت پرانی۔ ۔ ۔ ۔

آج نوید صادق کی خوبصورت نظم 'تکمیل شکست' پڑھی تو یکایک مجھے بیس سال پرانی اپنی ایک نظم یاد آئی جس میں واردات تو کچھ ایسی ہی تھی لیکن اسکا اظہار 19 سالہ لڑکے کا ہی ہے جس میں کوئی پختگی یا شائد خیال کی گہرائی آپ کو نہ ملے۔ ۔ ۔ بد مزہ ہونے والے احباب سے پیشگی معذرت کے ساتھ۔ ۔ ۔ ۔
ایک کہانی بہت پرانی​
اک لڑکا سیدھا سادہ سا۔ ۔ ۔
خوابوں کا متوالا تھا
اپنی ذات میں گم صم رہنا
چپ چپ رہنا۔ ۔ ۔
سدا سے اسکا شیوہ تھا۔۔۔۔۔۔۔
اپنی انا کی چادر اوڑھے۔ ۔ ۔
جاگتی آنکھوں سے وہ ہمیشہ
سپنے چنتا رہتا تھا۔ ۔ ۔ ۔
سمٹا سہما رہتا تھا !
اک دن اسکے سُونے گھر میں
خوابوں کے سنسان نگر میں
ایک کرن کی آہٹ گونجی۔ ۔ ۔ ۔
دل کے بند دریچوں پر
اک میٹھی میٹھی دستک تھی
اُس کے خوابوں کی شہزادی
چاند نگر سے آئی تھی !!
جانے کتنی صدیاں گذریں۔ ۔ ۔
اُسکو خود سے لڑتے لڑتے،
اور آخر جب اُس لڑکے نے۔ ۔ ۔
خولِ انا سے باہر آکر۔ ۔ ۔
دل کے بند دریچے کھولے۔ ۔ ۔
تو اسکے خوابوں کی شہزادی
کہیں نہیں‌تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہیں‌سے واپس لوٹ گئی تھی
یا پھر شائد آئی ہی نہیں تھی !!
مدّتیں گذر گئی ہیں لیکن۔ ۔ ۔
اُس شوخ کرن کی آہٹ اب بھی گونجتی ہے۔ ۔ ۔
آنکھوں کے بے خواب نگر میں،
اور وہ میٹھی میٹھی دستک
اب بھی سنائی دیتی ہے
یاد کے سُونے آنگن میں !!!
لیکن وہ نادان سا لڑکا۔ ۔
وہ خوابوں کے نگر کا باسی۔ ۔ ۔
پھر لوٹ کر نہیں‌آیا
جھوٹے سپنوں کی دنیا میں۔
راہیں بھی لاعلم ہیں اب تک
چُپ چاپ جانے کدھر گیا وہ۔۔۔۔۔
شائد وہ ملے اُس بستی می
جہاں بے حس انساں بستے ہیں۔ ۔ ۔
جہاں خواب نہیں حقائق ہیں۔ ۔ ۔
حقائق۔۔۔۔
جو تلخ تر ہیں !!!!
 
یارو اس کو کسی نے بالکل ہی قابلِ اعتناء نہیں سمجھا۔ ۔ :)۔ ۔ ۔ مانا کہ انیس سالہ لڑکے کے جذبات ہیں لیکن کیا 'کاش میں تیرے ہاتھ کا کنگن ہوتا' سے بھی گئے گذرے ہیں:grin:
 

مغزل

محفلین
محمود بھائی ، بہت خوب ، ماشا اللہ ، اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔۔۔۔ اچھی کوشش ہے ، ۔ اس وقت بھی اور آج بھی ۔ میں ابھی آیا ہوں ، ورنہ ’’ اعتنا ‘‘ سے بے اعتنائی کا شکوہ نہ ہوتا۔تاخیر کی معذرت چاہتا ہوں۔
 

الف عین

لائبریرین
مبارک ہو محمود غزنوی ۔ انیس سالہ نظم بتا رہی ہے کہ تیور تو اس وقت بھی عمدہ ہی تھے۔ ویسے واقعی اچھی نظم ہے، صرف آخری چار پانچ سطریں نکال دیں تو تاثر بڑھ جاتا ہے، کچھ ابہام بھی رہنے دو۔
معاف کرنا میں مکمل نام لکھتا ہوں تمہارا، اس لئے کہ خیال ہوتا ہے کہ محمود مغل اپنے بارے میں نہ سوچ لیں!!!۔ میری عادت نہیں ہے کہ جواب جس بات کا دیا جائے، اس پوسٹ کو بھی اپنے جواب کے ساتھ ملا دوں۔
 
خیر یہ بات دہرانے میں کوئی مزائقہ نہیں کہ شاعر تو پیدا ہوتے ہیں اور یہ جراثیم شاید انھیں دنوں سرایت کر جاتے ہیں جب انسان میں کسی طرح کی پختگی نہیں ہوتی۔ ورنہ ہم تو اس بڑھاپے میں‌بھی ایسے تخیل سے کورے ہیں۔
 

سید زبیر

محفلین
محمود احمد غزنوی صاحب ! ماشا اللہ ، بہت خوب لکھی ہے ۔ واہ
جھوٹے سپنوں کی دنیا میں۔
راہیں بھی لاعلم ہیں اب تک
چُپ چاپ جانے کدھر گیا وہ۔۔۔ ۔۔
شائد وہ ملے اُس بستی میں
جہاں بے حس انساں بستے ہیں۔ ۔ ۔
جہاں خواب نہیں حقائق ہیں۔ ۔ ۔
حقائق۔۔۔ ۔
جو تلخ تر ہیں !!!!

سر ! بہت شکریہ
 
یارو اس کو کسی نے بالکل ہی قابلِ اعتناء نہیں سمجھا۔ ۔ :)۔ ۔ ۔ مانا کہ انیس سالہ لڑکے کے جذبات ہیں لیکن کیا 'کاش میں تیرے ہاتھ کا کنگن ہوتا' سے بھی گئے گذرے ہیں:grin:
ایکسکیوز می۔۔۔
اس نام کے کاپی رائٹ میرے پاس محفوظ ہیں۔۔۔
 
ہممممم تو جناب شاعری بھی فرماتے ہیں :thinking:
نظم بہت ہی خوب لکھی ہے
جذبوں کا اظہار اور الفاظ کا چناؤ بہت خوب ہے
کسی طور سے محسوس نہیں ہوا کہ نو آموز کی مشقِ سخن ہے
اللہ کرے زور قلم زیادہ
مزید کچھ لکھیں نا :)
انتطار رہے گا
 

نایاب

لائبریرین
بلا شبہ بہت خوب نظم
محترم زبیر بھائی کا شکریہ جو اسے سامنے لائے ۔۔۔۔۔۔۔
 
Top