ایک ملاقات

صائمہ شاہ

محفلین
ہمارے نزدیک صائمہ اپیا کی شخصیت کا جو تاثر ہے وہ ہنوز قائم ہے، وہ تاثر کم از کم منفی ہر گز نہیں ہے، یہ بات تو ان کے انداز کو لے کے ہم نے ازراہ مذاق کی تھی :)
اٹس اوکے لاریب :)
اور اچھا نظر آنے اور بننے کے بہت سے مضر صحت اثرات ہوتے ہیں جنہیں نبھانا بہت مشکل ہوتا ہے اس لئے مجھے یہ تاثر بہت بہتر لگتا ہے اسے زیادہ مینٹین نہیں کرنا پڑتا :):)
ہے نا زیک ؟
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
صائمہ شاہ سے ملاقات
عہد حاضر میں بیرونی حملہ آوروں کی پیش قدمی سے متعلق معلومات کا سب سے بڑا ذریعہ فیس بک ہی ہے۔ یوں تو کوئی کتنا ہی محتاط رہے لیکن کوئی نہ کوئی ایسی حرکت ضرور کر بیٹھتا ہے کہ پکڑا جاتا ہے۔ایسے ہی ایک دن میں فیس بک کی نیوز فیڈ پر سرسری سی نظر گھما رہا تھا۔سیاست پر لفظوں کی جگالی، نصیحتو ں کے پند، مذہب پر مقالے لکھنے والے لڑکے بالوں کے اقوال، لڑکیوں کی تصاویر پر لکھے اشعار اور شئیر کرنے کی قسموں وعدوں والی پوسٹوں کے درمیان ایک تصویر نے توجہ کھینچ لی۔ لاہور کے بیچوں بیچ بہتی نہر۔ لاہور کا اپنا کوئی جغرافیہ تو ہے نہیں، لے دے کے ایک نہر ہی ہے جو اس شہر میں کسی سمت کا تعین کرنے میں مدد دیتی ہے۔ لہذا اس کی اہمیت کے مسلّم ہونے میں کس کافر کو شبہ ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ تصویر اس پروفائل پر کیوں۔ شئیر کرنے والے سے رابطہ کیا۔ عرض گزاری۔ حضور! یہ کیا حرکت ہے؟ یہ تصویر کب کہاں کیسے؟ فرمانے لگے کہ بس فون اٹھایا جا رہا تھا تم سے رابطے کے لیے۔ ہم نے گپت آمد کا سبب پوچھا۔ پتا چلا کہ بوجوہ ہنگامی دورہ ہے۔ چند دن کا قیام ہے۔ جس میں سے نصف چند دن گزر چکے ہیں۔ اور بقیہ چند دن بھی جلد معیاد پوری کرتے نظر آتے ہیں۔ قصہ مختصر کہ موصوفہ نے ہمیں ملاقات کا شرف بخشنے کا فیصلہ کیا۔اگرچہ جس انداز میں کہا، اس کو ٹرخانے پر بھی محمول کیا جا سکتا تھا۔
مؤرخہ 29 اکتوبر بروز ہفتہ کیفے کوسٹا میں ایک مختصر سی ملاقات ہوئی۔ وقت کی بےحد پابند نکلیں۔ (اے اللہ! مجھے معاف کر دے۔) دیدہ زیب شلوار قمیص میں ملبوس شاہ صاحبہ کو جیسا سوچا تھا، ویسا ہی پایا۔ بلاشبہ ان کی شخصیت اپنے اوتار کا عکاس تھی۔ کھانا وہ کھا کر آئی تھیں اور ثبوت کے طور پر "لیفٹ اوورز" فیس بک پر بھی لگا آئی تھیں کہ میں کہیں کھانے کا اصرار نہ کروں۔ ہم نے چائے آرڈر کی۔ کیفے کا ماحول بہت ہی بد مزا کرنے والا تھا۔ رش اور بےجا شور۔ ساتھ والے میز پر براجمان فیملی کے بچوں کو صائمہ بےحد اچھی لگیں۔ جس کا اظہار انہوں نے بارہا زبردستی ان کی گود میں آکر کیا۔ میرے سر کے عین اوپر ایک سپیکر لگا تھا جس کی بلند آواز مجھے کیفے کی بجائے "منٹھار" میں بیٹھا محسوس کروا رہی تھی۔ دو بار آواز آہستہ کرنے کا کہنے کے باوجود آواز کم نہ ہوئی۔ یا اگر ہوئی تو مجھے بہرحال کم ہوتی محسوس نہیں ہوئی۔
ہم دونوں اس اونچی دکان پھیکا پکوان قسم کے وینیو کو کوس رہے تھے جس کی وجہ سے محفلین کو کوسنے کا وقت ہی نہیں ملا۔ باتوں باتوں میں فرمانے لگیں کہ فراز سے ملے بغیر نہیں جا سکتی۔ اس سے ملنے کا وعدہ بہت عرصے سے ہے۔میں نے کہا فراز بھائی کو ڈھونڈنے والا کام مجھ پر چھوڑ دیجیے۔ موصوف کے تمام ٹھکانے میری نظروں میں ہیں۔ چاہ کر بھی نہیں چھپ سکتے۔ اگلے دن انہوں نے میرے گھر کے قریب ہی اپنی خالہ کے گھر آنا تھا۔ میں نے اپنے گھر آنے کی دعوت بھی دی جو اس طرح قبول کی گئی کہ" اگر اُدھر اتنا وقت نہ لگا ، یا اگر وہاں ایسا نہ ہوا اور پھر اس کے بعد اِدھر بھی جانا ہے اور وہاں سے جلد خلاصی ہوگئی اور پھر تم نے فراز کو بھی وہاں بلوا لیا تو۔۔۔۔۔۔۔" اس "یہاں وہاں" میں لاہور کا جغرافیہ مکمل ہوتا تھاسو بقول شاعر۔۔۔ "ہم ہنس دیے ہم چپ رہے"۔ یہ بتانے کی تو ضرورت نہیں ہے کہ اگلے دن یہ میرے گھر نہیں آئیں۔
ہماری یہ مختصر سی ملاقات چائے کے کپ اور فریڈیز کیفے میں لنچ کے منصوبے کے ساتھ ختم ہوگئی۔بعد ازاں فراز بھائی نے بھی اس کومحمود پایا اور تصویب فرمائی۔
اکتیس اکتوبر بروز سوموار منصوبہ یہ تھا کہ میں فراز بھائی کو پک کروں گا اور پھر فریڈیز پہنچا جائے گا۔ لیکن بھلا ہو لاہور کی سلجھی ٹریفک اور خالی سڑکوں کا۔ دونوں چیزیں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتیں۔ اوپر سے ایک پولیس کانسٹیبل نے مجھے روک لیا ۔ دس منٹ کی چھان پھٹک کے بعد بھی جب چالان کرنے کی کوئی وجہ نہ ملی تو مجھے جانے دیا۔ اسی اثنا شاہ صاحبہ کا میسج ملا کہ وہ کیفے میں محو انتظار ہیں۔ میں نے فراز بھائی کو فون کیا کہ آپ خود جلد پہنچ جائیں۔ اور سیدھا کیفے پہنچا۔ سلام دعا کے بعد جناب نے پہلی بات کی۔ "پاکستان میں کیسے رہتے ہو تم لوگ؟ اللہ کی پناہ! صبح سے لائٹ نہیں ہے۔"یقین مانیےدل کو ٹھنڈ سی پڑ گئی۔ اپنی ڈھٹائی کا عالم ہائے ہائے۔ "نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے۔ ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں"۔ دل کیا قہقہہ لگا کر ہنسیں۔ خوب مذاق اڑائیں۔ لیکن مروت بھی کوئی چیز ہے۔ سو ایک سنجیدہ سی رونی سی صورت بنا کر کہا۔ لائٹ کیسے جا سکتی ہے؟ آجکل تو شیڈول پر سختی سے عمل ہو رہا ہے؟قبل اس کے ہمارے اس طرح کے جوابات سے شاہ صاحبہ شاہی جلال میں آتی۔ فراز بھائی بھی پہنچ گئے۔ فراز بھائی کی آمد کے بعد احباب نے کھانا تناول فرمانے کا فیصلہ کیا۔ کھانے کے دوران بھی ہلکی پھلکی گپ شپ کا سلسلہ جاری رہا۔ کھانے کے اختتام تک شاہ صاحبہ کی والدہ ، بہن اور بیٹا بھی آگئے۔ ان سب کے ساتھ کچھ دیر گپ شپ رہی۔ آنٹی اتنی شفیق اور مہربان شخصیت۔ اللہ پاک ان کو جلد از جلد شفائے کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے۔ آمین
صائمہ کی شخصیت کا تاثر جو محفل نے دیا۔باذوق، نفیس اور بامعنی بات کرنے والی، ویسا ہی قائم رہا۔ البتہ جو جارحانہ انداز یا سخت لہجہ اپنانے والا محفلی تاثر ہے۔ وہ کہیں نظر نہیں آیا۔ بہت نرم لہجے میں ایک خوبصورت شخصیت سے سلجھے انداز میں باتیں سننے کا موقع ملا۔ فراز بھائی کے بارے میں اس لیے تاثرات قلمبند نہیں کیے کہ ان کے بارے میں چار سال قبل بھی لکھ چکا ہوں۔ اور ان سے بہت زیادہ ملاقاتیں بھی چلتی رہتی ہیں۔ لہذا ان کی تعریف کو لوگ اقربا پروری کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ اور بدتعریفیاں ایکدوسرے کی ہم اکثروبیشتر کرتے ہی رہتے ہیں۔ اور ہمارا معاہدہ ہے کہ یہ سرعام نہیں کی جائیں گی۔
صائمہ کی اگلی صبح فلائٹ تھی۔ اس کے باوجودجس طرح انہوں نے اپنی گونا گوں مصروفیات سے وقت نکالا، وہ یقینی طور پر قابل ستائش ہے۔اور اس کے لیے میں تہہ دل سے ان کا شکرگزار ہوں۔​
 

عثمان

محفلین
صائمہ شاہ سے ملاقات
عہد حاضر میں بیرونی حملہ آوروں کی پیش قدمی سے متعلق معلومات کا سب سے بڑا ذریعہ فیس بک ہی ہے۔ یوں تو کوئی کتنا ہی محتاط رہے لیکن کوئی نہ کوئی ایسی حرکت ضرور کر بیٹھتا ہے کہ پکڑا جاتا ہے۔ایسے ہی ایک دن میں فیس بک کی نیوز فیڈ پر سرسری سی نظر گھما رہا تھا۔سیاست پر لفظوں کی جگالی، نصیحتو ں کے پند، مذہب پر مقالے لکھنے والے لڑکے بالوں کے اقوال، لڑکیوں کی تصاویر پر لکھے اشعار اور شئیر کرنے کی قسموں وعدوں والی پوسٹوں کے درمیان ایک تصویر نے توجہ کھینچ لی۔ لاہور کے بیچوں بیچ بہتی نہر۔ لاہور کا اپنا کوئی جغرافیہ تو ہے نہیں، لے دے کے ایک نہر ہی ہے جو اس شہر میں کسی سمت کا تعین کرنے میں مدد دیتی ہے۔ لہذا اس کی اہمیت کے مسلّم ہونے میں کس کافر کو شبہ ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ تصویر اس پروفائل پر کیوں۔ شئیر کرنے والے سے رابطہ کیا۔ عرض گزاری۔ حضور! یہ کیا حرکت ہے؟ یہ تصویر کب کہاں کیسے؟ فرمانے لگے کہ بس فون اٹھایا جا رہا تھا تم سے رابطے کے لیے۔ ہم نے گپت آمد کا سبب پوچھا۔ پتا چلا کہ بوجوہ ہنگامی دورہ ہے۔ چند دن کا قیام ہے۔ جس میں سے نصف چند دن گزر چکے ہیں۔ اور بقیہ چند دن بھی جلد معیاد پوری کرتے نظر آتے ہیں۔ قصہ مختصر کہ موصوفہ نے ہمیں ملاقات کا شرف بخشنے کا فیصلہ کیا۔اگرچہ جس انداز میں کہا، اس کو ٹرخانے پر بھی محمول کیا جا سکتا تھا۔
مؤرخہ 29 اکتوبر بروز ہفتہ کیفے کوسٹا میں ایک مختصر سی ملاقات ہوئی۔ وقت کی بےحد پابند نکلیں۔ (اے اللہ! مجھے معاف کر دے۔) دیدہ زیب شلوار قمیص میں ملبوس شاہ صاحبہ کو جیسا سوچا تھا، ویسا ہی پایا۔ بلاشبہ ان کی شخصیت اپنے اوتار کا عکاس تھی۔ کھانا وہ کھا کر آئی تھیں اور ثبوت کے طور پر "لیفٹ اوورز" فیس بک پر بھی لگا آئی تھیں کہ میں کہیں کھانے کا اصرار نہ کروں۔ ہم نے چائے آرڈر کی۔ کیفے کا ماحول بہت ہی بد مزا کرنے والا تھا۔ رش اور بےجا شور۔ ساتھ والے میز پر براجمان فیملی کے بچوں کو صائمہ بےحد اچھی لگیں۔ جس کا اظہار انہوں نے بارہا زبردستی ان کی گود میں آکر کیا۔ میرے سر کے عین اوپر ایک سپیکر لگا تھا جس کی بلند آواز مجھے کیفے کی بجائے "منٹھار" میں بیٹھا محسوس کروا رہی تھی۔ دو بار آواز آہستہ کرنے کا کہنے کے باوجود آواز کم نہ ہوئی۔ یا اگر ہوئی تو مجھے بہرحال کم ہوتی محسوس نہیں ہوئی۔
ہم دونوں اس اونچی دکان پھیکا پکوان قسم کے وینیو کو کوس رہے تھے جس کی وجہ سے محفلین کو کوسنے کا وقت ہی نہیں ملا۔ باتوں باتوں میں فرمانے لگیں کہ فراز سے ملے بغیر نہیں جا سکتی۔ اس سے ملنے کا وعدہ بہت عرصے سے ہے۔میں نے کہا فراز بھائی کو ڈھونڈنے والا کام مجھ پر چھوڑ دیجیے۔ موصوف کے تمام ٹھکانے میری نظروں میں ہیں۔ چاہ کر بھی نہیں چھپ سکتے۔ اگلے دن انہوں نے میرے گھر کے قریب ہی اپنی خالہ کے گھر آنا تھا۔ میں نے اپنے گھر آنے کی دعوت بھی دی جو اس طرح قبول کی گئی کہ" اگر اُدھر اتنا وقت نہ لگا ، یا اگر وہاں ایسا نہ ہوا اور پھر اس کے بعد اِدھر بھی جانا ہے اور وہاں سے جلد خلاصی ہوگئی اور پھر تم نے فراز کو بھی وہاں بلوا لیا تو۔۔۔۔۔۔۔" اس "یہاں وہاں" میں لاہور کا جغرافیہ مکمل ہوتا تھاسو بقول شاعر۔۔۔ "ہم ہنس دیے ہم چپ رہے"۔ یہ بتانے کی تو ضرورت نہیں ہے کہ اگلے دن یہ میرے گھر نہیں آئیں۔
ہماری یہ مختصر سی ملاقات چائے کے کپ اور فریڈیز کیفے میں لنچ کے منصوبے کے ساتھ ختم ہوگئی۔بعد ازاں فراز بھائی نے بھی اس کومحمود پایا اور تصویب فرمائی۔
اکتیس اکتوبر بروز سوموار منصوبہ یہ تھا کہ میں فراز بھائی کو پک کروں گا اور پھر فریڈیز پہنچا جائے گا۔ لیکن بھلا ہو لاہور کی سلجھی ٹریفک اور خالی سڑکوں کا۔ دونوں چیزیں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتیں۔ اوپر سے ایک پولیس کانسٹیبل نے مجھے روک لیا ۔ دس منٹ کی چھان پھٹک کے بعد بھی جب چالان کرنے کی کوئی وجہ نہ ملی تو مجھے جانے دیا۔ اسی اثنا شاہ صاحبہ کا میسج ملا کہ وہ کیفے میں محو انتظار ہیں۔ میں نے فراز بھائی کو فون کیا کہ آپ خود جلد پہنچ جائیں۔ اور سیدھا کیفے پہنچا۔ سلام دعا کے بعد جناب نے پہلی بات کی۔ "پاکستان میں کیسے رہتے ہو تم لوگ؟ اللہ کی پناہ! صبح سے لائٹ نہیں ہے۔"یقین مانیےدل کو ٹھنڈ سی پڑ گئی۔ اپنی ڈھٹائی کا عالم ہائے ہائے۔ "نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے۔ ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں"۔ دل کیا قہقہہ لگا کر ہنسیں۔ خوب مذاق اڑائیں۔ لیکن مروت بھی کوئی چیز ہے۔ سو ایک سنجیدہ سی رونی سی صورت بنا کر کہا۔ لائٹ کیسے جا سکتی ہے؟ آجکل تو شیڈول پر سختی سے عمل ہو رہا ہے؟قبل اس کے ہمارے اس طرح کے جوابات سے شاہ صاحبہ شاہی جلال میں آتی۔ فراز بھائی بھی پہنچ گئے۔ فراز بھائی کی آمد کے بعد احباب نے کھانا تناول فرمانے کا فیصلہ کیا۔ کھانے کے دوران بھی ہلکی پھلکی گپ شپ کا سلسلہ جاری رہا۔ کھانے کے اختتام تک شاہ صاحبہ کی والدہ ، بہن اور بیٹا بھی آگئے۔ ان سب کے ساتھ کچھ دیر گپ شپ رہی۔ آنٹی اتنی شفیق اور مہربان شخصیت۔ اللہ پاک ان کو جلد از جلد شفائے کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے۔ آمین
صائمہ کی شخصیت کا تاثر جو محفل نے دیا۔باذوق، نفیس اور بامعنی بات کرنے والی، ویسا ہی قائم رہا۔ البتہ جو جارحانہ انداز یا سخت لہجہ اپنانے والا محفلی تاثر ہے۔ وہ کہیں نظر نہیں آیا۔ بہت نرم لہجے میں ایک خوبصورت شخصیت سے سلجھے انداز میں باتیں سننے کا موقع ملا۔ فراز بھائی کے بارے میں اس لیے تاثرات قلمبند نہیں کیے کہ ان کے بارے میں چار سال قبل بھی لکھ چکا ہوں۔ اور ان سے بہت زیادہ ملاقاتیں بھی چلتی رہتی ہیں۔ لہذا ان کی تعریف کو لوگ اقربا پروری کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ اور بدتعریفیاں ایکدوسرے کی ہم اکثروبیشتر کرتے ہی رہتے ہیں۔ اور ہمارا معاہدہ ہے کہ یہ سرعام نہیں کی جائیں گی۔
صائمہ کی اگلی صبح فلائٹ تھی۔ اس کے باوجودجس طرح انہوں نے اپنی گونا گوں مصروفیات سے وقت نکالا، وہ یقینی طور پر قابل ستائش ہے۔اور اس کے لیے میں تہہ دل سے ان کا شکرگزار ہوں۔​
بہت خوب!
(فراز) صاحب آجکل کہاں مصروف ہوتے ہیں۔ محفل نظر نہیں آتے۔ :)
 

لاریب مرزا

محفلین
صائمہ شاہ سے ملاقات
عہد حاضر میں بیرونی حملہ آوروں کی پیش قدمی سے متعلق معلومات کا سب سے بڑا ذریعہ فیس بک ہی ہے۔ یوں تو کوئی کتنا ہی محتاط رہے لیکن کوئی نہ کوئی ایسی حرکت ضرور کر بیٹھتا ہے کہ پکڑا جاتا ہے۔ایسے ہی ایک دن میں فیس بک کی نیوز فیڈ پر سرسری سی نظر گھما رہا تھا۔سیاست پر لفظوں کی جگالی، نصیحتو ں کے پند، مذہب پر مقالے لکھنے والے لڑکے بالوں کے اقوال، لڑکیوں کی تصاویر پر لکھے اشعار اور شئیر کرنے کی قسموں وعدوں والی پوسٹوں کے درمیان ایک تصویر نے توجہ کھینچ لی۔ لاہور کے بیچوں بیچ بہتی نہر۔ لاہور کا اپنا کوئی جغرافیہ تو ہے نہیں، لے دے کے ایک نہر ہی ہے جو اس شہر میں کسی سمت کا تعین کرنے میں مدد دیتی ہے۔ لہذا اس کی اہمیت کے مسلّم ہونے میں کس کافر کو شبہ ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ تصویر اس پروفائل پر کیوں۔ شئیر کرنے والے سے رابطہ کیا۔ عرض گزاری۔ حضور! یہ کیا حرکت ہے؟ یہ تصویر کب کہاں کیسے؟ فرمانے لگے کہ بس فون اٹھایا جا رہا تھا تم سے رابطے کے لیے۔ ہم نے گپت آمد کا سبب پوچھا۔ پتا چلا کہ بوجوہ ہنگامی دورہ ہے۔ چند دن کا قیام ہے۔ جس میں سے نصف چند دن گزر چکے ہیں۔ اور بقیہ چند دن بھی جلد معیاد پوری کرتے نظر آتے ہیں۔ قصہ مختصر کہ موصوفہ نے ہمیں ملاقات کا شرف بخشنے کا فیصلہ کیا۔اگرچہ جس انداز میں کہا، اس کو ٹرخانے پر بھی محمول کیا جا سکتا تھا۔
مؤرخہ 29 اکتوبر بروز ہفتہ کیفے کوسٹا میں ایک مختصر سی ملاقات ہوئی۔ وقت کی بےحد پابند نکلیں۔ (اے اللہ! مجھے معاف کر دے۔) دیدہ زیب شلوار قمیص میں ملبوس شاہ صاحبہ کو جیسا سوچا تھا، ویسا ہی پایا۔ بلاشبہ ان کی شخصیت اپنے اوتار کا عکاس تھی۔ کھانا وہ کھا کر آئی تھیں اور ثبوت کے طور پر "لیفٹ اوورز" فیس بک پر بھی لگا آئی تھیں کہ میں کہیں کھانے کا اصرار نہ کروں۔ ہم نے چائے آرڈر کی۔ کیفے کا ماحول بہت ہی بد مزا کرنے والا تھا۔ رش اور بےجا شور۔ ساتھ والے میز پر براجمان فیملی کے بچوں کو صائمہ بےحد اچھی لگیں۔ جس کا اظہار انہوں نے بارہا زبردستی ان کی گود میں آکر کیا۔ میرے سر کے عین اوپر ایک سپیکر لگا تھا جس کی بلند آواز مجھے کیفے کی بجائے "منٹھار" میں بیٹھا محسوس کروا رہی تھی۔ دو بار آواز آہستہ کرنے کا کہنے کے باوجود آواز کم نہ ہوئی۔ یا اگر ہوئی تو مجھے بہرحال کم ہوتی محسوس نہیں ہوئی۔
ہم دونوں اس اونچی دکان پھیکا پکوان قسم کے وینیو کو کوس رہے تھے جس کی وجہ سے محفلین کو کوسنے کا وقت ہی نہیں ملا۔ باتوں باتوں میں فرمانے لگیں کہ فراز سے ملے بغیر نہیں جا سکتی۔ اس سے ملنے کا وعدہ بہت عرصے سے ہے۔میں نے کہا فراز بھائی کو ڈھونڈنے والا کام مجھ پر چھوڑ دیجیے۔ موصوف کے تمام ٹھکانے میری نظروں میں ہیں۔ چاہ کر بھی نہیں چھپ سکتے۔ اگلے دن انہوں نے میرے گھر کے قریب ہی اپنی خالہ کے گھر آنا تھا۔ میں نے اپنے گھر آنے کی دعوت بھی دی جو اس طرح قبول کی گئی کہ" اگر اُدھر اتنا وقت نہ لگا ، یا اگر وہاں ایسا نہ ہوا اور پھر اس کے بعد اِدھر بھی جانا ہے اور وہاں سے جلد خلاصی ہوگئی اور پھر تم نے فراز کو بھی وہاں بلوا لیا تو۔۔۔۔۔۔۔" اس "یہاں وہاں" میں لاہور کا جغرافیہ مکمل ہوتا تھاسو بقول شاعر۔۔۔ "ہم ہنس دیے ہم چپ رہے"۔ یہ بتانے کی تو ضرورت نہیں ہے کہ اگلے دن یہ میرے گھر نہیں آئیں۔
ہماری یہ مختصر سی ملاقات چائے کے کپ اور فریڈیز کیفے میں لنچ کے منصوبے کے ساتھ ختم ہوگئی۔بعد ازاں فراز بھائی نے بھی اس کومحمود پایا اور تصویب فرمائی۔
اکتیس اکتوبر بروز سوموار منصوبہ یہ تھا کہ میں فراز بھائی کو پک کروں گا اور پھر فریڈیز پہنچا جائے گا۔ لیکن بھلا ہو لاہور کی سلجھی ٹریفک اور خالی سڑکوں کا۔ دونوں چیزیں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتیں۔ اوپر سے ایک پولیس کانسٹیبل نے مجھے روک لیا ۔ دس منٹ کی چھان پھٹک کے بعد بھی جب چالان کرنے کی کوئی وجہ نہ ملی تو مجھے جانے دیا۔ اسی اثنا شاہ صاحبہ کا میسج ملا کہ وہ کیفے میں محو انتظار ہیں۔ میں نے فراز بھائی کو فون کیا کہ آپ خود جلد پہنچ جائیں۔ اور سیدھا کیفے پہنچا۔ سلام دعا کے بعد جناب نے پہلی بات کی۔ "پاکستان میں کیسے رہتے ہو تم لوگ؟ اللہ کی پناہ! صبح سے لائٹ نہیں ہے۔"یقین مانیےدل کو ٹھنڈ سی پڑ گئی۔ اپنی ڈھٹائی کا عالم ہائے ہائے۔ "نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے۔ ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں"۔ دل کیا قہقہہ لگا کر ہنسیں۔ خوب مذاق اڑائیں۔ لیکن مروت بھی کوئی چیز ہے۔ سو ایک سنجیدہ سی رونی سی صورت بنا کر کہا۔ لائٹ کیسے جا سکتی ہے؟ آجکل تو شیڈول پر سختی سے عمل ہو رہا ہے؟قبل اس کے ہمارے اس طرح کے جوابات سے شاہ صاحبہ شاہی جلال میں آتی۔ فراز بھائی بھی پہنچ گئے۔ فراز بھائی کی آمد کے بعد احباب نے کھانا تناول فرمانے کا فیصلہ کیا۔ کھانے کے دوران بھی ہلکی پھلکی گپ شپ کا سلسلہ جاری رہا۔ کھانے کے اختتام تک شاہ صاحبہ کی والدہ ، بہن اور بیٹا بھی آگئے۔ ان سب کے ساتھ کچھ دیر گپ شپ رہی۔ آنٹی اتنی شفیق اور مہربان شخصیت۔ اللہ پاک ان کو جلد از جلد شفائے کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے۔ آمین
صائمہ کی شخصیت کا تاثر جو محفل نے دیا۔باذوق، نفیس اور بامعنی بات کرنے والی، ویسا ہی قائم رہا۔ البتہ جو جارحانہ انداز یا سخت لہجہ اپنانے والا محفلی تاثر ہے۔ وہ کہیں نظر نہیں آیا۔ بہت نرم لہجے میں ایک خوبصورت شخصیت سے سلجھے انداز میں باتیں سننے کا موقع ملا۔ فراز بھائی کے بارے میں اس لیے تاثرات قلمبند نہیں کیے کہ ان کے بارے میں چار سال قبل بھی لکھ چکا ہوں۔ اور ان سے بہت زیادہ ملاقاتیں بھی چلتی رہتی ہیں۔ لہذا ان کی تعریف کو لوگ اقربا پروری کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ اور بدتعریفیاں ایکدوسرے کی ہم اکثروبیشتر کرتے ہی رہتے ہیں۔ اور ہمارا معاہدہ ہے کہ یہ سرعام نہیں کی جائیں گی۔
صائمہ کی اگلی صبح فلائٹ تھی۔ اس کے باوجودجس طرح انہوں نے اپنی گونا گوں مصروفیات سے وقت نکالا، وہ یقینی طور پر قابل ستائش ہے۔اور اس کے لیے میں تہہ دل سے ان کا شکرگزار ہوں۔​
زبردست!! نیرنگ خیال بھائی کا اندازِ بیان تحریر میں جان بھر دیتا ہے.. بہت مزا آیا روداد پڑھ کے :)
 

ربیع م

محفلین
صائمہ شاہ سے ملاقات
عہد حاضر میں بیرونی حملہ آوروں کی پیش قدمی سے متعلق معلومات کا سب سے بڑا ذریعہ فیس بک ہی ہے۔ یوں تو کوئی کتنا ہی محتاط رہے لیکن کوئی نہ کوئی ایسی حرکت ضرور کر بیٹھتا ہے کہ پکڑا جاتا ہے۔ایسے ہی ایک دن میں فیس بک کی نیوز فیڈ پر سرسری سی نظر گھما رہا تھا۔سیاست پر لفظوں کی جگالی، نصیحتو ں کے پند، مذہب پر مقالے لکھنے والے لڑکے بالوں کے اقوال، لڑکیوں کی تصاویر پر لکھے اشعار اور شئیر کرنے کی قسموں وعدوں والی پوسٹوں کے درمیان ایک تصویر نے توجہ کھینچ لی۔ لاہور کے بیچوں بیچ بہتی نہر۔ لاہور کا اپنا کوئی جغرافیہ تو ہے نہیں، لے دے کے ایک نہر ہی ہے جو اس شہر میں کسی سمت کا تعین کرنے میں مدد دیتی ہے۔ لہذا اس کی اہمیت کے مسلّم ہونے میں کس کافر کو شبہ ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ تصویر اس پروفائل پر کیوں۔ شئیر کرنے والے سے رابطہ کیا۔ عرض گزاری۔ حضور! یہ کیا حرکت ہے؟ یہ تصویر کب کہاں کیسے؟ فرمانے لگے کہ بس فون اٹھایا جا رہا تھا تم سے رابطے کے لیے۔ ہم نے گپت آمد کا سبب پوچھا۔ پتا چلا کہ بوجوہ ہنگامی دورہ ہے۔ چند دن کا قیام ہے۔ جس میں سے نصف چند دن گزر چکے ہیں۔ اور بقیہ چند دن بھی جلد معیاد پوری کرتے نظر آتے ہیں۔ قصہ مختصر کہ موصوفہ نے ہمیں ملاقات کا شرف بخشنے کا فیصلہ کیا۔اگرچہ جس انداز میں کہا، اس کو ٹرخانے پر بھی محمول کیا جا سکتا تھا۔
مؤرخہ 29 اکتوبر بروز ہفتہ کیفے کوسٹا میں ایک مختصر سی ملاقات ہوئی۔ وقت کی بےحد پابند نکلیں۔ (اے اللہ! مجھے معاف کر دے۔) دیدہ زیب شلوار قمیص میں ملبوس شاہ صاحبہ کو جیسا سوچا تھا، ویسا ہی پایا۔ بلاشبہ ان کی شخصیت اپنے اوتار کا عکاس تھی۔ کھانا وہ کھا کر آئی تھیں اور ثبوت کے طور پر "لیفٹ اوورز" فیس بک پر بھی لگا آئی تھیں کہ میں کہیں کھانے کا اصرار نہ کروں۔ ہم نے چائے آرڈر کی۔ کیفے کا ماحول بہت ہی بد مزا کرنے والا تھا۔ رش اور بےجا شور۔ ساتھ والے میز پر براجمان فیملی کے بچوں کو صائمہ بےحد اچھی لگیں۔ جس کا اظہار انہوں نے بارہا زبردستی ان کی گود میں آکر کیا۔ میرے سر کے عین اوپر ایک سپیکر لگا تھا جس کی بلند آواز مجھے کیفے کی بجائے "منٹھار" میں بیٹھا محسوس کروا رہی تھی۔ دو بار آواز آہستہ کرنے کا کہنے کے باوجود آواز کم نہ ہوئی۔ یا اگر ہوئی تو مجھے بہرحال کم ہوتی محسوس نہیں ہوئی۔
ہم دونوں اس اونچی دکان پھیکا پکوان قسم کے وینیو کو کوس رہے تھے جس کی وجہ سے محفلین کو کوسنے کا وقت ہی نہیں ملا۔ باتوں باتوں میں فرمانے لگیں کہ فراز سے ملے بغیر نہیں جا سکتی۔ اس سے ملنے کا وعدہ بہت عرصے سے ہے۔میں نے کہا فراز بھائی کو ڈھونڈنے والا کام مجھ پر چھوڑ دیجیے۔ موصوف کے تمام ٹھکانے میری نظروں میں ہیں۔ چاہ کر بھی نہیں چھپ سکتے۔ اگلے دن انہوں نے میرے گھر کے قریب ہی اپنی خالہ کے گھر آنا تھا۔ میں نے اپنے گھر آنے کی دعوت بھی دی جو اس طرح قبول کی گئی کہ" اگر اُدھر اتنا وقت نہ لگا ، یا اگر وہاں ایسا نہ ہوا اور پھر اس کے بعد اِدھر بھی جانا ہے اور وہاں سے جلد خلاصی ہوگئی اور پھر تم نے فراز کو بھی وہاں بلوا لیا تو۔۔۔۔۔۔۔" اس "یہاں وہاں" میں لاہور کا جغرافیہ مکمل ہوتا تھاسو بقول شاعر۔۔۔ "ہم ہنس دیے ہم چپ رہے"۔ یہ بتانے کی تو ضرورت نہیں ہے کہ اگلے دن یہ میرے گھر نہیں آئیں۔
ہماری یہ مختصر سی ملاقات چائے کے کپ اور فریڈیز کیفے میں لنچ کے منصوبے کے ساتھ ختم ہوگئی۔بعد ازاں فراز بھائی نے بھی اس کومحمود پایا اور تصویب فرمائی۔
اکتیس اکتوبر بروز سوموار منصوبہ یہ تھا کہ میں فراز بھائی کو پک کروں گا اور پھر فریڈیز پہنچا جائے گا۔ لیکن بھلا ہو لاہور کی سلجھی ٹریفک اور خالی سڑکوں کا۔ دونوں چیزیں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتیں۔ اوپر سے ایک پولیس کانسٹیبل نے مجھے روک لیا ۔ دس منٹ کی چھان پھٹک کے بعد بھی جب چالان کرنے کی کوئی وجہ نہ ملی تو مجھے جانے دیا۔ اسی اثنا شاہ صاحبہ کا میسج ملا کہ وہ کیفے میں محو انتظار ہیں۔ میں نے فراز بھائی کو فون کیا کہ آپ خود جلد پہنچ جائیں۔ اور سیدھا کیفے پہنچا۔ سلام دعا کے بعد جناب نے پہلی بات کی۔ "پاکستان میں کیسے رہتے ہو تم لوگ؟ اللہ کی پناہ! صبح سے لائٹ نہیں ہے۔"یقین مانیےدل کو ٹھنڈ سی پڑ گئی۔ اپنی ڈھٹائی کا عالم ہائے ہائے۔ "نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے۔ ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں"۔ دل کیا قہقہہ لگا کر ہنسیں۔ خوب مذاق اڑائیں۔ لیکن مروت بھی کوئی چیز ہے۔ سو ایک سنجیدہ سی رونی سی صورت بنا کر کہا۔ لائٹ کیسے جا سکتی ہے؟ آجکل تو شیڈول پر سختی سے عمل ہو رہا ہے؟قبل اس کے ہمارے اس طرح کے جوابات سے شاہ صاحبہ شاہی جلال میں آتی۔ فراز بھائی بھی پہنچ گئے۔ فراز بھائی کی آمد کے بعد احباب نے کھانا تناول فرمانے کا فیصلہ کیا۔ کھانے کے دوران بھی ہلکی پھلکی گپ شپ کا سلسلہ جاری رہا۔ کھانے کے اختتام تک شاہ صاحبہ کی والدہ ، بہن اور بیٹا بھی آگئے۔ ان سب کے ساتھ کچھ دیر گپ شپ رہی۔ آنٹی اتنی شفیق اور مہربان شخصیت۔ اللہ پاک ان کو جلد از جلد شفائے کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے۔ آمین
صائمہ کی شخصیت کا تاثر جو محفل نے دیا۔باذوق، نفیس اور بامعنی بات کرنے والی، ویسا ہی قائم رہا۔ البتہ جو جارحانہ انداز یا سخت لہجہ اپنانے والا محفلی تاثر ہے۔ وہ کہیں نظر نہیں آیا۔ بہت نرم لہجے میں ایک خوبصورت شخصیت سے سلجھے انداز میں باتیں سننے کا موقع ملا۔ فراز بھائی کے بارے میں اس لیے تاثرات قلمبند نہیں کیے کہ ان کے بارے میں چار سال قبل بھی لکھ چکا ہوں۔ اور ان سے بہت زیادہ ملاقاتیں بھی چلتی رہتی ہیں۔ لہذا ان کی تعریف کو لوگ اقربا پروری کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ اور بدتعریفیاں ایکدوسرے کی ہم اکثروبیشتر کرتے ہی رہتے ہیں۔ اور ہمارا معاہدہ ہے کہ یہ سرعام نہیں کی جائیں گی۔
صائمہ کی اگلی صبح فلائٹ تھی۔ اس کے باوجودجس طرح انہوں نے اپنی گونا گوں مصروفیات سے وقت نکالا، وہ یقینی طور پر قابل ستائش ہے۔اور اس کے لیے میں تہہ دل سے ان کا شکرگزار ہوں۔​
عمدہ احوال !
 
صائمہ شاہ سے ملاقات
عہد حاضر میں بیرونی حملہ آوروں کی پیش قدمی سے متعلق معلومات کا سب سے بڑا ذریعہ فیس بک ہی ہے۔ یوں تو کوئی کتنا ہی محتاط رہے لیکن کوئی نہ کوئی ایسی حرکت ضرور کر بیٹھتا ہے کہ پکڑا جاتا ہے۔ایسے ہی ایک دن میں فیس بک کی نیوز فیڈ پر سرسری سی نظر گھما رہا تھا۔سیاست پر لفظوں کی جگالی، نصیحتو ں کے پند، مذہب پر مقالے لکھنے والے لڑکے بالوں کے اقوال، لڑکیوں کی تصاویر پر لکھے اشعار اور شئیر کرنے کی قسموں وعدوں والی پوسٹوں کے درمیان ایک تصویر نے توجہ کھینچ لی۔ لاہور کے بیچوں بیچ بہتی نہر۔ لاہور کا اپنا کوئی جغرافیہ تو ہے نہیں، لے دے کے ایک نہر ہی ہے جو اس شہر میں کسی سمت کا تعین کرنے میں مدد دیتی ہے۔ لہذا اس کی اہمیت کے مسلّم ہونے میں کس کافر کو شبہ ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ تصویر اس پروفائل پر کیوں۔ شئیر کرنے والے سے رابطہ کیا۔ عرض گزاری۔ حضور! یہ کیا حرکت ہے؟ یہ تصویر کب کہاں کیسے؟ فرمانے لگے کہ بس فون اٹھایا جا رہا تھا تم سے رابطے کے لیے۔ ہم نے گپت آمد کا سبب پوچھا۔ پتا چلا کہ بوجوہ ہنگامی دورہ ہے۔ چند دن کا قیام ہے۔ جس میں سے نصف چند دن گزر چکے ہیں۔ اور بقیہ چند دن بھی جلد معیاد پوری کرتے نظر آتے ہیں۔ قصہ مختصر کہ موصوفہ نے ہمیں ملاقات کا شرف بخشنے کا فیصلہ کیا۔اگرچہ جس انداز میں کہا، اس کو ٹرخانے پر بھی محمول کیا جا سکتا تھا۔
مؤرخہ 29 اکتوبر بروز ہفتہ کیفے کوسٹا میں ایک مختصر سی ملاقات ہوئی۔ وقت کی بےحد پابند نکلیں۔ (اے اللہ! مجھے معاف کر دے۔) دیدہ زیب شلوار قمیص میں ملبوس شاہ صاحبہ کو جیسا سوچا تھا، ویسا ہی پایا۔ بلاشبہ ان کی شخصیت اپنے اوتار کا عکاس تھی۔ کھانا وہ کھا کر آئی تھیں اور ثبوت کے طور پر "لیفٹ اوورز" فیس بک پر بھی لگا آئی تھیں کہ میں کہیں کھانے کا اصرار نہ کروں۔ ہم نے چائے آرڈر کی۔ کیفے کا ماحول بہت ہی بد مزا کرنے والا تھا۔ رش اور بےجا شور۔ ساتھ والے میز پر براجمان فیملی کے بچوں کو صائمہ بےحد اچھی لگیں۔ جس کا اظہار انہوں نے بارہا زبردستی ان کی گود میں آکر کیا۔ میرے سر کے عین اوپر ایک سپیکر لگا تھا جس کی بلند آواز مجھے کیفے کی بجائے "منٹھار" میں بیٹھا محسوس کروا رہی تھی۔ دو بار آواز آہستہ کرنے کا کہنے کے باوجود آواز کم نہ ہوئی۔ یا اگر ہوئی تو مجھے بہرحال کم ہوتی محسوس نہیں ہوئی۔
ہم دونوں اس اونچی دکان پھیکا پکوان قسم کے وینیو کو کوس رہے تھے جس کی وجہ سے محفلین کو کوسنے کا وقت ہی نہیں ملا۔ باتوں باتوں میں فرمانے لگیں کہ فراز سے ملے بغیر نہیں جا سکتی۔ اس سے ملنے کا وعدہ بہت عرصے سے ہے۔میں نے کہا فراز بھائی کو ڈھونڈنے والا کام مجھ پر چھوڑ دیجیے۔ موصوف کے تمام ٹھکانے میری نظروں میں ہیں۔ چاہ کر بھی نہیں چھپ سکتے۔ اگلے دن انہوں نے میرے گھر کے قریب ہی اپنی خالہ کے گھر آنا تھا۔ میں نے اپنے گھر آنے کی دعوت بھی دی جو اس طرح قبول کی گئی کہ" اگر اُدھر اتنا وقت نہ لگا ، یا اگر وہاں ایسا نہ ہوا اور پھر اس کے بعد اِدھر بھی جانا ہے اور وہاں سے جلد خلاصی ہوگئی اور پھر تم نے فراز کو بھی وہاں بلوا لیا تو۔۔۔۔۔۔۔" اس "یہاں وہاں" میں لاہور کا جغرافیہ مکمل ہوتا تھاسو بقول شاعر۔۔۔ "ہم ہنس دیے ہم چپ رہے"۔ یہ بتانے کی تو ضرورت نہیں ہے کہ اگلے دن یہ میرے گھر نہیں آئیں۔
ہماری یہ مختصر سی ملاقات چائے کے کپ اور فریڈیز کیفے میں لنچ کے منصوبے کے ساتھ ختم ہوگئی۔بعد ازاں فراز بھائی نے بھی اس کومحمود پایا اور تصویب فرمائی۔
اکتیس اکتوبر بروز سوموار منصوبہ یہ تھا کہ میں فراز بھائی کو پک کروں گا اور پھر فریڈیز پہنچا جائے گا۔ لیکن بھلا ہو لاہور کی سلجھی ٹریفک اور خالی سڑکوں کا۔ دونوں چیزیں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتیں۔ اوپر سے ایک پولیس کانسٹیبل نے مجھے روک لیا ۔ دس منٹ کی چھان پھٹک کے بعد بھی جب چالان کرنے کی کوئی وجہ نہ ملی تو مجھے جانے دیا۔ اسی اثنا شاہ صاحبہ کا میسج ملا کہ وہ کیفے میں محو انتظار ہیں۔ میں نے فراز بھائی کو فون کیا کہ آپ خود جلد پہنچ جائیں۔ اور سیدھا کیفے پہنچا۔ سلام دعا کے بعد جناب نے پہلی بات کی۔ "پاکستان میں کیسے رہتے ہو تم لوگ؟ اللہ کی پناہ! صبح سے لائٹ نہیں ہے۔"یقین مانیےدل کو ٹھنڈ سی پڑ گئی۔ اپنی ڈھٹائی کا عالم ہائے ہائے۔ "نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے۔ ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں"۔ دل کیا قہقہہ لگا کر ہنسیں۔ خوب مذاق اڑائیں۔ لیکن مروت بھی کوئی چیز ہے۔ سو ایک سنجیدہ سی رونی سی صورت بنا کر کہا۔ لائٹ کیسے جا سکتی ہے؟ آجکل تو شیڈول پر سختی سے عمل ہو رہا ہے؟قبل اس کے ہمارے اس طرح کے جوابات سے شاہ صاحبہ شاہی جلال میں آتی۔ فراز بھائی بھی پہنچ گئے۔ فراز بھائی کی آمد کے بعد احباب نے کھانا تناول فرمانے کا فیصلہ کیا۔ کھانے کے دوران بھی ہلکی پھلکی گپ شپ کا سلسلہ جاری رہا۔ کھانے کے اختتام تک شاہ صاحبہ کی والدہ ، بہن اور بیٹا بھی آگئے۔ ان سب کے ساتھ کچھ دیر گپ شپ رہی۔ آنٹی اتنی شفیق اور مہربان شخصیت۔ اللہ پاک ان کو جلد از جلد شفائے کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے۔ آمین
صائمہ کی شخصیت کا تاثر جو محفل نے دیا۔باذوق، نفیس اور بامعنی بات کرنے والی، ویسا ہی قائم رہا۔ البتہ جو جارحانہ انداز یا سخت لہجہ اپنانے والا محفلی تاثر ہے۔ وہ کہیں نظر نہیں آیا۔ بہت نرم لہجے میں ایک خوبصورت شخصیت سے سلجھے انداز میں باتیں سننے کا موقع ملا۔ فراز بھائی کے بارے میں اس لیے تاثرات قلمبند نہیں کیے کہ ان کے بارے میں چار سال قبل بھی لکھ چکا ہوں۔ اور ان سے بہت زیادہ ملاقاتیں بھی چلتی رہتی ہیں۔ لہذا ان کی تعریف کو لوگ اقربا پروری کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ اور بدتعریفیاں ایکدوسرے کی ہم اکثروبیشتر کرتے ہی رہتے ہیں۔ اور ہمارا معاہدہ ہے کہ یہ سرعام نہیں کی جائیں گی۔
صائمہ کی اگلی صبح فلائٹ تھی۔ اس کے باوجودجس طرح انہوں نے اپنی گونا گوں مصروفیات سے وقت نکالا، وہ یقینی طور پر قابل ستائش ہے۔اور اس کے لیے میں تہہ دل سے ان کا شکرگزار ہوں۔​
زبردست نینی بھائی مزہ آگیا ملاقات کا احوال جان کر

اور صائمہ شاہ اب امی طبیعت کسی ہے پاکستان کا ٹور کتنے دن کا تھا ؟
 

اکمل زیدی

محفلین
صائمہ شاہ سے ملاقات
عہد حاضر میں بیرونی حملہ آوروں کی پیش قدمی سے متعلق معلومات کا سب سے بڑا ذریعہ فیس بک ہی ہے۔ یوں تو کوئی کتنا ہی محتاط رہے لیکن کوئی نہ کوئی ایسی حرکت ضرور کر بیٹھتا ہے کہ پکڑا جاتا ہے۔ایسے ہی ایک دن میں فیس بک کی نیوز فیڈ پر سرسری سی نظر گھما رہا تھا۔سیاست پر لفظوں کی جگالی، نصیحتو ں کے پند، مذہب پر مقالے لکھنے والے لڑکے بالوں کے اقوال، لڑکیوں کی تصاویر پر لکھے اشعار اور شئیر کرنے کی قسموں وعدوں والی پوسٹوں کے درمیان ایک تصویر نے توجہ کھینچ لی۔ لاہور کے بیچوں بیچ بہتی نہر۔ لاہور کا اپنا کوئی جغرافیہ تو ہے نہیں، لے دے کے ایک نہر ہی ہے جو اس شہر میں کسی سمت کا تعین کرنے میں مدد دیتی ہے۔ لہذا اس کی اہمیت کے مسلّم ہونے میں کس کافر کو شبہ ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ تصویر اس پروفائل پر کیوں۔ شئیر کرنے والے سے رابطہ کیا۔ عرض گزاری۔ حضور! یہ کیا حرکت ہے؟ یہ تصویر کب کہاں کیسے؟ فرمانے لگے کہ بس فون اٹھایا جا رہا تھا تم سے رابطے کے لیے۔ ہم نے گپت آمد کا سبب پوچھا۔ پتا چلا کہ بوجوہ ہنگامی دورہ ہے۔ چند دن کا قیام ہے۔ جس میں سے نصف چند دن گزر چکے ہیں۔ اور بقیہ چند دن بھی جلد معیاد پوری کرتے نظر آتے ہیں۔ قصہ مختصر کہ موصوفہ نے ہمیں ملاقات کا شرف بخشنے کا فیصلہ کیا۔اگرچہ جس انداز میں کہا، اس کو ٹرخانے پر بھی محمول کیا جا سکتا تھا۔
مؤرخہ 29 اکتوبر بروز ہفتہ کیفے کوسٹا میں ایک مختصر سی ملاقات ہوئی۔ وقت کی بےحد پابند نکلیں۔ (اے اللہ! مجھے معاف کر دے۔) دیدہ زیب شلوار قمیص میں ملبوس شاہ صاحبہ کو جیسا سوچا تھا، ویسا ہی پایا۔ بلاشبہ ان کی شخصیت اپنے اوتار کا عکاس تھی۔ کھانا وہ کھا کر آئی تھیں اور ثبوت کے طور پر "لیفٹ اوورز" فیس بک پر بھی لگا آئی تھیں کہ میں کہیں کھانے کا اصرار نہ کروں۔ ہم نے چائے آرڈر کی۔ کیفے کا ماحول بہت ہی بد مزا کرنے والا تھا۔ رش اور بےجا شور۔ ساتھ والے میز پر براجمان فیملی کے بچوں کو صائمہ بےحد اچھی لگیں۔ جس کا اظہار انہوں نے بارہا زبردستی ان کی گود میں آکر کیا۔ میرے سر کے عین اوپر ایک سپیکر لگا تھا جس کی بلند آواز مجھے کیفے کی بجائے "منٹھار" میں بیٹھا محسوس کروا رہی تھی۔ دو بار آواز آہستہ کرنے کا کہنے کے باوجود آواز کم نہ ہوئی۔ یا اگر ہوئی تو مجھے بہرحال کم ہوتی محسوس نہیں ہوئی۔
ہم دونوں اس اونچی دکان پھیکا پکوان قسم کے وینیو کو کوس رہے تھے جس کی وجہ سے محفلین کو کوسنے کا وقت ہی نہیں ملا۔ باتوں باتوں میں فرمانے لگیں کہ فراز سے ملے بغیر نہیں جا سکتی۔ اس سے ملنے کا وعدہ بہت عرصے سے ہے۔میں نے کہا فراز بھائی کو ڈھونڈنے والا کام مجھ پر چھوڑ دیجیے۔ موصوف کے تمام ٹھکانے میری نظروں میں ہیں۔ چاہ کر بھی نہیں چھپ سکتے۔ اگلے دن انہوں نے میرے گھر کے قریب ہی اپنی خالہ کے گھر آنا تھا۔ میں نے اپنے گھر آنے کی دعوت بھی دی جو اس طرح قبول کی گئی کہ" اگر اُدھر اتنا وقت نہ لگا ، یا اگر وہاں ایسا نہ ہوا اور پھر اس کے بعد اِدھر بھی جانا ہے اور وہاں سے جلد خلاصی ہوگئی اور پھر تم نے فراز کو بھی وہاں بلوا لیا تو۔۔۔۔۔۔۔" اس "یہاں وہاں" میں لاہور کا جغرافیہ مکمل ہوتا تھاسو بقول شاعر۔۔۔ "ہم ہنس دیے ہم چپ رہے"۔ یہ بتانے کی تو ضرورت نہیں ہے کہ اگلے دن یہ میرے گھر نہیں آئیں۔
ہماری یہ مختصر سی ملاقات چائے کے کپ اور فریڈیز کیفے میں لنچ کے منصوبے کے ساتھ ختم ہوگئی۔بعد ازاں فراز بھائی نے بھی اس کومحمود پایا اور تصویب فرمائی۔
اکتیس اکتوبر بروز سوموار منصوبہ یہ تھا کہ میں فراز بھائی کو پک کروں گا اور پھر فریڈیز پہنچا جائے گا۔ لیکن بھلا ہو لاہور کی سلجھی ٹریفک اور خالی سڑکوں کا۔ دونوں چیزیں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتیں۔ اوپر سے ایک پولیس کانسٹیبل نے مجھے روک لیا ۔ دس منٹ کی چھان پھٹک کے بعد بھی جب چالان کرنے کی کوئی وجہ نہ ملی تو مجھے جانے دیا۔ اسی اثنا شاہ صاحبہ کا میسج ملا کہ وہ کیفے میں محو انتظار ہیں۔ میں نے فراز بھائی کو فون کیا کہ آپ خود جلد پہنچ جائیں۔ اور سیدھا کیفے پہنچا۔ سلام دعا کے بعد جناب نے پہلی بات کی۔ "پاکستان میں کیسے رہتے ہو تم لوگ؟ اللہ کی پناہ! صبح سے لائٹ نہیں ہے۔"یقین مانیےدل کو ٹھنڈ سی پڑ گئی۔ اپنی ڈھٹائی کا عالم ہائے ہائے۔ "نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے۔ ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں"۔ دل کیا قہقہہ لگا کر ہنسیں۔ خوب مذاق اڑائیں۔ لیکن مروت بھی کوئی چیز ہے۔ سو ایک سنجیدہ سی رونی سی صورت بنا کر کہا۔ لائٹ کیسے جا سکتی ہے؟ آجکل تو شیڈول پر سختی سے عمل ہو رہا ہے؟قبل اس کے ہمارے اس طرح کے جوابات سے شاہ صاحبہ شاہی جلال میں آتی۔ فراز بھائی بھی پہنچ گئے۔ فراز بھائی کی آمد کے بعد احباب نے کھانا تناول فرمانے کا فیصلہ کیا۔ کھانے کے دوران بھی ہلکی پھلکی گپ شپ کا سلسلہ جاری رہا۔ کھانے کے اختتام تک شاہ صاحبہ کی والدہ ، بہن اور بیٹا بھی آگئے۔ ان سب کے ساتھ کچھ دیر گپ شپ رہی۔ آنٹی اتنی شفیق اور مہربان شخصیت۔ اللہ پاک ان کو جلد از جلد شفائے کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے۔ آمین
صائمہ کی شخصیت کا تاثر جو محفل نے دیا۔باذوق، نفیس اور بامعنی بات کرنے والی، ویسا ہی قائم رہا۔ البتہ جو جارحانہ انداز یا سخت لہجہ اپنانے والا محفلی تاثر ہے۔ وہ کہیں نظر نہیں آیا۔ بہت نرم لہجے میں ایک خوبصورت شخصیت سے سلجھے انداز میں باتیں سننے کا موقع ملا۔ فراز بھائی کے بارے میں اس لیے تاثرات قلمبند نہیں کیے کہ ان کے بارے میں چار سال قبل بھی لکھ چکا ہوں۔ اور ان سے بہت زیادہ ملاقاتیں بھی چلتی رہتی ہیں۔ لہذا ان کی تعریف کو لوگ اقربا پروری کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ اور بدتعریفیاں ایکدوسرے کی ہم اکثروبیشتر کرتے ہی رہتے ہیں۔ اور ہمارا معاہدہ ہے کہ یہ سرعام نہیں کی جائیں گی۔
صائمہ کی اگلی صبح فلائٹ تھی۔ اس کے باوجودجس طرح انہوں نے اپنی گونا گوں مصروفیات سے وقت نکالا، وہ یقینی طور پر قابل ستائش ہے۔اور اس کے لیے میں تہہ دل سے ان کا شکرگزار ہوں۔​

بابا جی نظر نہیں آئی صرف آمد ہوئ اور کھانا کھایا گیا ...پھر ...........ندارد . . . صائمہ صاحبہ کے بھی ریمارکس درکار ہیں . ان کا کیا تاثر رہا اس بلمشافہ ملاقات میں والدہ کی دعا صحت پر آمین ..نیز فراز صاحب بھی کچھ عرض کریں ...چاہے اپنے ملنگانہ سٹائل میں ہی سہی ۔ ۔ :) باقی نیرنگ صاحب کے انداز تحریر کی تو کیا ہی بات ہے ..یہ تو دکان سے دہی لینے کے جانے کے احوال بھی لکھیں تو لوگ محو ہوجائیں ....اتنے لطیف اور باریک نکات تو اس میں بھی مل جائینگے . . . کے بندہ محظوظ ہوئے بغیر نا رہے . . :)
 

اکمل زیدی

محفلین
کراچی آیئے گا ...تو بتائے گا ... زاہد کی نہاری اور سٹوڈنٹ بریانی پکّی . . . :cool:. ( ملاقات تو پکّی ہی سمجھوں نا اسی لئے اس کا ذکر غیر ضروری سمجھا میں نے :rolleyes:)
 
صائمہ شاہ سے ملاقات
عہد حاضر میں بیرونی حملہ آوروں کی پیش قدمی سے متعلق معلومات کا سب سے بڑا ذریعہ فیس بک ہی ہے۔ یوں تو کوئی کتنا ہی محتاط رہے لیکن کوئی نہ کوئی ایسی حرکت ضرور کر بیٹھتا ہے کہ پکڑا جاتا ہے۔ایسے ہی ایک دن میں فیس بک کی نیوز فیڈ پر سرسری سی نظر گھما رہا تھا۔سیاست پر لفظوں کی جگالی، نصیحتو ں کے پند، مذہب پر مقالے لکھنے والے لڑکے بالوں کے اقوال، لڑکیوں کی تصاویر پر لکھے اشعار اور شئیر کرنے کی قسموں وعدوں والی پوسٹوں کے درمیان ایک تصویر نے توجہ کھینچ لی۔ لاہور کے بیچوں بیچ بہتی نہر۔ لاہور کا اپنا کوئی جغرافیہ تو ہے نہیں، لے دے کے ایک نہر ہی ہے جو اس شہر میں کسی سمت کا تعین کرنے میں مدد دیتی ہے۔ لہذا اس کی اہمیت کے مسلّم ہونے میں کس کافر کو شبہ ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ تصویر اس پروفائل پر کیوں۔ شئیر کرنے والے سے رابطہ کیا۔ عرض گزاری۔ حضور! یہ کیا حرکت ہے؟ یہ تصویر کب کہاں کیسے؟ فرمانے لگے کہ بس فون اٹھایا جا رہا تھا تم سے رابطے کے لیے۔ ہم نے گپت آمد کا سبب پوچھا۔ پتا چلا کہ بوجوہ ہنگامی دورہ ہے۔ چند دن کا قیام ہے۔ جس میں سے نصف چند دن گزر چکے ہیں۔ اور بقیہ چند دن بھی جلد معیاد پوری کرتے نظر آتے ہیں۔ قصہ مختصر کہ موصوفہ نے ہمیں ملاقات کا شرف بخشنے کا فیصلہ کیا۔اگرچہ جس انداز میں کہا، اس کو ٹرخانے پر بھی محمول کیا جا سکتا تھا۔
مؤرخہ 29 اکتوبر بروز ہفتہ کیفے کوسٹا میں ایک مختصر سی ملاقات ہوئی۔ وقت کی بےحد پابند نکلیں۔ (اے اللہ! مجھے معاف کر دے۔) دیدہ زیب شلوار قمیص میں ملبوس شاہ صاحبہ کو جیسا سوچا تھا، ویسا ہی پایا۔ بلاشبہ ان کی شخصیت اپنے اوتار کا عکاس تھی۔ کھانا وہ کھا کر آئی تھیں اور ثبوت کے طور پر "لیفٹ اوورز" فیس بک پر بھی لگا آئی تھیں کہ میں کہیں کھانے کا اصرار نہ کروں۔ ہم نے چائے آرڈر کی۔ کیفے کا ماحول بہت ہی بد مزا کرنے والا تھا۔ رش اور بےجا شور۔ ساتھ والے میز پر براجمان فیملی کے بچوں کو صائمہ بےحد اچھی لگیں۔ جس کا اظہار انہوں نے بارہا زبردستی ان کی گود میں آکر کیا۔ میرے سر کے عین اوپر ایک سپیکر لگا تھا جس کی بلند آواز مجھے کیفے کی بجائے "منٹھار" میں بیٹھا محسوس کروا رہی تھی۔ دو بار آواز آہستہ کرنے کا کہنے کے باوجود آواز کم نہ ہوئی۔ یا اگر ہوئی تو مجھے بہرحال کم ہوتی محسوس نہیں ہوئی۔
ہم دونوں اس اونچی دکان پھیکا پکوان قسم کے وینیو کو کوس رہے تھے جس کی وجہ سے محفلین کو کوسنے کا وقت ہی نہیں ملا۔ باتوں باتوں میں فرمانے لگیں کہ فراز سے ملے بغیر نہیں جا سکتی۔ اس سے ملنے کا وعدہ بہت عرصے سے ہے۔میں نے کہا فراز بھائی کو ڈھونڈنے والا کام مجھ پر چھوڑ دیجیے۔ موصوف کے تمام ٹھکانے میری نظروں میں ہیں۔ چاہ کر بھی نہیں چھپ سکتے۔ اگلے دن انہوں نے میرے گھر کے قریب ہی اپنی خالہ کے گھر آنا تھا۔ میں نے اپنے گھر آنے کی دعوت بھی دی جو اس طرح قبول کی گئی کہ" اگر اُدھر اتنا وقت نہ لگا ، یا اگر وہاں ایسا نہ ہوا اور پھر اس کے بعد اِدھر بھی جانا ہے اور وہاں سے جلد خلاصی ہوگئی اور پھر تم نے فراز کو بھی وہاں بلوا لیا تو۔۔۔۔۔۔۔" اس "یہاں وہاں" میں لاہور کا جغرافیہ مکمل ہوتا تھاسو بقول شاعر۔۔۔ "ہم ہنس دیے ہم چپ رہے"۔ یہ بتانے کی تو ضرورت نہیں ہے کہ اگلے دن یہ میرے گھر نہیں آئیں۔
ہماری یہ مختصر سی ملاقات چائے کے کپ اور فریڈیز کیفے میں لنچ کے منصوبے کے ساتھ ختم ہوگئی۔بعد ازاں فراز بھائی نے بھی اس کومحمود پایا اور تصویب فرمائی۔
اکتیس اکتوبر بروز سوموار منصوبہ یہ تھا کہ میں فراز بھائی کو پک کروں گا اور پھر فریڈیز پہنچا جائے گا۔ لیکن بھلا ہو لاہور کی سلجھی ٹریفک اور خالی سڑکوں کا۔ دونوں چیزیں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتیں۔ اوپر سے ایک پولیس کانسٹیبل نے مجھے روک لیا ۔ دس منٹ کی چھان پھٹک کے بعد بھی جب چالان کرنے کی کوئی وجہ نہ ملی تو مجھے جانے دیا۔ اسی اثنا شاہ صاحبہ کا میسج ملا کہ وہ کیفے میں محو انتظار ہیں۔ میں نے فراز بھائی کو فون کیا کہ آپ خود جلد پہنچ جائیں۔ اور سیدھا کیفے پہنچا۔ سلام دعا کے بعد جناب نے پہلی بات کی۔ "پاکستان میں کیسے رہتے ہو تم لوگ؟ اللہ کی پناہ! صبح سے لائٹ نہیں ہے۔"یقین مانیےدل کو ٹھنڈ سی پڑ گئی۔ اپنی ڈھٹائی کا عالم ہائے ہائے۔ "نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے۔ ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں"۔ دل کیا قہقہہ لگا کر ہنسیں۔ خوب مذاق اڑائیں۔ لیکن مروت بھی کوئی چیز ہے۔ سو ایک سنجیدہ سی رونی سی صورت بنا کر کہا۔ لائٹ کیسے جا سکتی ہے؟ آجکل تو شیڈول پر سختی سے عمل ہو رہا ہے؟قبل اس کے ہمارے اس طرح کے جوابات سے شاہ صاحبہ شاہی جلال میں آتی۔ فراز بھائی بھی پہنچ گئے۔ فراز بھائی کی آمد کے بعد احباب نے کھانا تناول فرمانے کا فیصلہ کیا۔ کھانے کے دوران بھی ہلکی پھلکی گپ شپ کا سلسلہ جاری رہا۔ کھانے کے اختتام تک شاہ صاحبہ کی والدہ ، بہن اور بیٹا بھی آگئے۔ ان سب کے ساتھ کچھ دیر گپ شپ رہی۔ آنٹی اتنی شفیق اور مہربان شخصیت۔ اللہ پاک ان کو جلد از جلد شفائے کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے۔ آمین
صائمہ کی شخصیت کا تاثر جو محفل نے دیا۔باذوق، نفیس اور بامعنی بات کرنے والی، ویسا ہی قائم رہا۔ البتہ جو جارحانہ انداز یا سخت لہجہ اپنانے والا محفلی تاثر ہے۔ وہ کہیں نظر نہیں آیا۔ بہت نرم لہجے میں ایک خوبصورت شخصیت سے سلجھے انداز میں باتیں سننے کا موقع ملا۔ فراز بھائی کے بارے میں اس لیے تاثرات قلمبند نہیں کیے کہ ان کے بارے میں چار سال قبل بھی لکھ چکا ہوں۔ اور ان سے بہت زیادہ ملاقاتیں بھی چلتی رہتی ہیں۔ لہذا ان کی تعریف کو لوگ اقربا پروری کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ اور بدتعریفیاں ایکدوسرے کی ہم اکثروبیشتر کرتے ہی رہتے ہیں۔ اور ہمارا معاہدہ ہے کہ یہ سرعام نہیں کی جائیں گی۔
صائمہ کی اگلی صبح فلائٹ تھی۔ اس کے باوجودجس طرح انہوں نے اپنی گونا گوں مصروفیات سے وقت نکالا، وہ یقینی طور پر قابل ستائش ہے۔اور اس کے لیے میں تہہ دل سے ان کا شکرگزار ہوں۔​
اب سورج کو کیا روشنی دکھائی جائے. حضور کے اندازِ تحریر کے تو ہم پہلے ہی قتیل ہیں. بہت خوب جھٹ پٹ ملاقات رہی.

فیس بک پر تصویریں اور محفل پر کیفیات تو میں نے بھی ڈالی تھیں. :unsure:

اللہ تعالیٰ جلد از جلد مکمل صحت عطا فرمائے صائمہ بہن کی والدہ محترمہ کو. آمین
 

صائمہ شاہ

محفلین
بابا جی نظر نہیں آئی صرف آمد ہوئ اور کھانا کھایا گیا ...پھر ...........ندارد . . . صائمہ صاحبہ کے بھی ریمارکس درکار ہیں . ان کا کیا تاثر رہا اس بلمشافہ ملاقات میں والدہ کی دعا صحت پر آمین ..نیز فراز صاحب بھی کچھ عرض کریں ...چاہے اپنے ملنگانہ سٹائل میں ہی سہی ۔ ۔ :) باقی نیرنگ صاحب کے انداز تحریر کی تو کیا ہی بات ہے ..یہ تو دکان سے دہی لینے کے جانے کے احوال بھی لکھیں تو لوگ محو ہوجائیں ....اتنے لطیف اور باریک نکات تو اس میں بھی مل جائینگے . . . کے بندہ محظوظ ہوئے بغیر نا رہے . . :)
میری قسط کے لئے انتظار فرمائیے ( مدت غیر معینہ ) :)
 

صائمہ شاہ

محفلین
کراچی آیئے گا ...تو بتائے گا ... زاہد کی نہاری اور سٹوڈنٹ بریانی پکّی . . . :cool:. ( ملاقات تو پکّی ہی سمجھوں نا اسی لئے اس کا ذکر غیر ضروری سمجھا میں نے :rolleyes:)
اس دعوت نامے پر نام نہیں لکھا زیدی صاحب اسے دعوت عامہ سمجھا جائے یا دعوت خاص ؟
 
Top