ابھی اس طرف نہ نگاہ کر میں غزل کی پلکیں سنوار لوں
مرا لفظ لفظ ہو آئینہ تجھے آئنے میں اتار لوں

میں تمام دن کا تھکا ہوا تو تمام شب کا جگا ہوا
ذرا ٹھہر جا اسی موڑ پر تیرے ساتھ شام گزار لوں

اگر آسماں کی نمائشوں میں مجھے بھی اذن قیام ہو
تو میں موتیوں کی دکان سے تری بالیاں ترے ہار لوں

کہیں اور بانٹ دے شہرتیں کہیں اور بخش دے عزتیں
مرے پاس ہے مرا آئینہ میں کبھی نہ گرد و غبار لوں

کئی اجنبی تری راہ میں مرے پاس سے یوں گزر گئے
جنہیں دیکھ کر یہ تڑپ ہوئی ترا نام لے کے پکار لوں​
 
مدیر کی آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
براہ کرم ہر دو اشعار کے مابین عمودی وقفہ دے دیجیے اور متن کو صفحہ کے درمیان لکھیے۔

ابھی اس طرف نہ نگاہ کر میں غزل کی پلکیں سنوار لوں
مرا لفظ لفظ ہو آئینہ تجھے آئنے میں اتار لوں

میں تمام دن کا تھکا ہوا تو تمام شب کا جگا ہوا
ذرا ٹھہر جا اسی موڑ پر تیرے ساتھ شام گزار لوں

اگر آسماں کی نمائشوں میں مجھے بھی اذن قیام ہو
تو میں موتیوں کی دکان سے تری بالیاں ترے ہار لوں

کہیں اور بانٹ دے شہرتیں کہیں اور بخش دے عزتیں
مرے پاس ہے مرا آئینہ میں کبھی نہ گرد و غبار لوں

کئی اجنبی تری راہ میں مرے پاس سے یوں گزر گئے
جنہیں دیکھ کر یہ تڑپ ہوئی ترا نام لے کے پکار لوں
 

الف عین

لائبریرین
شاعر کا نام ضرور لکھیں۔منتظمین اسے درست زمرے میں منتقل کر دیں۔
 
آخری تدوین:
کھو کے دیکھا تھا پا کے دیکھ لیا

ہر طرح دل دکھا کے دیکھ لیا


پھر کھلے ابتدائے عشق کے باب

اس نے پھر مسکرا کے دیکھ لیا


یاد کچھ بھی رہا نہ اس کے سوا

ہم نے اس کو بھلا کے دیکھ لیا


زندگی نے خوشی کے دھوکے میں

ربط غم سے بڑھا کے دیکھ لیا


ایسے بچھڑے کہ پھر ملے نہ کبھی

خوب دامن چھڑا کے دیکھ لیا


خواب مبہم خیال بے معنی

رنج دوری اٹھا کے دیکھ لیا


کتنے بیتے دنوں کا غم تھا سحرؔ

آج جس نے رلا کے دیکھ لیا
ابو محمد سحر
 
Top