سندباد
لائبریرین
جو بھی پیتا ہے پھر نہیں اٹھتا
موت اس جام میں بھرا کیا ہے
ہر طرف بے خودی سی طاری ہے
تیری آنکھوں میں یہ نشہ کیا ہے
ایسے پھرتی ہے پاگلوں کی طرح
تجھ کو بادِ صبا ہوا کیا ہے
سب کھلونے ہیں ٹوٹ جائیں گے
شاہ کیا چیز ہے گدا کیا ہے
رات دن کیوں ہے ایک چکّر میں
تجھ کو تکلیف اے ہوا کیا ہے
کون رکھتا ہے پھول میں خوشبو
یہ ستاروں کا قافلہ کیا ہے
کیوں زمانہ ہے ایک گردش میں
رات دن کا یہ سلسلہ کیا ہے
ہے مکاں سے پَرے مکاں جس کا
اُس کو دنیا میں ڈھونڈتا کیا ہے
کس لئے موت سے گریزاں ہے
زندگی نے تجھے دِیا کیا ہے
آسمانوں کو تکتا رہتا ہوں
آسمانوں سے ماورا کیا ہے
جی میں آتا ہے جو بھی کر گذرو
یاں روا کیا ہے ناروا کیا ہے
ساری آنکھیں ہیں اس کی آنکھوں میں
ان میں کھو جاؤ سوچتا کیا ہے
کون رس گھولتا ہے کانوں میں
دل کے نزدیک یہ صدا کیا ہے
سب کے ہونٹوں پہ ایک قصّہ ہے
شاعری میں نیا دھرا کیا ہے
پھر کوئی خون ہوگیا دل میں
آنسوؤں میں یہ رنگ سا کیا ہے
اب بھی اُس بے وفا پہ مرتا ہے
اور اس دل کا سانحہ کیا ہے
خاک میں سب کو کیوں ملاتا ہے
ساری مخلوق کی خطا کیا ہے
۔ ۔ ۔ ٭٭٭۔ ۔ ۔