ایک بھی چھینٹ نہ اُڑنے دی کہیں پانی کی ۔ واجد امیر

فرخ منظور

لائبریرین
یہ غزل کل کے حلقۂ اربابِ ذوق، لاہور کے اجلاس میں تنقید کے لئے پیش کی گئی۔

غزل

ایک بھی چھینٹ نہ اُڑنے دی کہیں پانی کی
ریت نے آپ سمندر کی نگہبانی کی

کانچ کے جسم پہ پہنی ہے قبا پانی کی
پھر بھی تہمت نہ لگے حسن پہ عریانی کی

زندگی کاہشِ بے سود کا خمیازہ ہے
عمر بھر ہم نے پس انداز پشیمانی کی

اتنے ہی تُو نے مری راہ میں کانٹے بوئے
جس قدر میں نے تری راہ میں آسانی کی

ہاتھ اگر خون میں رنگ لو گے تو روزِ محشر
ہو گی محراب سے توقیر نہ پیشانی کی

اتنا منظر میں تحیّر نہیں ہوتا اکثر
جتنی ہوتی ہے جگہ آنکھ میں حیرانی کی

جس طرح رکھتا ہے وہ اپنے اسیروں کا خیال
کون یوں خیر خبر رکھتا ہے زندانی کی

صرف آنکھیں ہی تحیّر کا پتہ دیتی ہیں
ہم سے تصویر تو بنتی نہیں حیرانی کی

(واجد امیر)
 

مغزل

محفلین
بہت خوب فرخ بھائی ، چہ خوب۔ واہ واہ ۔۔
تنقید کیا ہوئی ، یہ بھی تو بتائیے ناں ۔ ) الگ لڑی میں سہی )
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ مغل صاحب، نقوی صاحب، وارث صاحب اور بنتِ حوا صاحبہ۔ وارث صاحب کی ہدایت پر ہی یہ غزل پوسٹ کی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ حلقہ میں جو بھی کلام تنقید کے لئے پیش ہو اسے یہاں ضرور شئیر کیا کریں۔
 
Top