الف عین
ظہیراحمدظہیر
صابرہ امین
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع :راحل:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسے تو کبھی مجھ سے چاہت نہ بیاں ہو گی
جب رعبِ حسن ہو اتنا ِ گنگ زباں ہو گی
-----------
جتنی ہے مرے دل میں چاہت وہ تمہاری ہے
لفظوں میں کبھی مجھ سے ہرگز نہ بیاں ہو گی
----------
اک جان یہ میری ہے ،چاہو تو تمہیں دے دوں
مجھ سے نہ گلہ کرنا جب تم پہ گراں ہو گی
---------
چاہت جو ملی تجھ سے کیسے میں بھلاؤں گا
تولوں گا اگر اس کو وہ سب سے کلاں ہو گی
-----------
وہ فوج ہی لڑتی ہے اللہ کے رستے میں
بے خوف جو دنیا کے ہر سود و زیاں ہو گی
-----------
جس قوم کو آتا ہو انداز نہ جینے کا
وہ قوم بھلا کیونکر آگاہِ زیاں ہو گی
-----------
لوگوں نے تو آنا ہے رستے پہ خدا کے ہی
دنیا کی حقیقت جب لوگوں پہ عیاں ہو گی
------------
دنیا کی حقیقت بس اتنی ہے ذرا سمجھو
اک وقتِ معیّن پر دنیا نہ یہاں ہو گی
---------
ہلچل سی مچی ہو گی سارے ہی زمانے میں
ہر سمت ہی لوگوں کی ، دیکھو گے فغاں ہو گی
-------------
اک سمت کو بھاگیں گے جب حشر بپا ہو گا
---------یا
چھاؤں نہ کہیں ہو گی ، سورج بھی تپا ہو گا
اس وقت مقدّم بس اپنی ہی یہ جاں ہو گی
-----------
خالق ہے خدا سب کا دیتا ہے وہی سب کو
عظمت نہ کبھی ہم سےاس رب کی بیاں ہو گی
------------
ارشد یہ تری نیکی ممکن ہے دکھاوا ہو
محشر میں تو جانا ہے ، تصدیق وہاں ہو گی
--------------
 

الف عین

لائبریرین
ایسے تو کبھی مجھ سے چاہت نہ بیاں ہو گی
جب رعبِ حسن ہو اتنا ِ گنگ زباں ہو گی
----------- مصرع ثانی میں تو آپ وہی پرانی غلطی کر گئے! 'اتنا' دو حصوں میں ٹوٹ رہا ہے کہ یہ منقسم بحر ہے! اس کے علاوہ حسن کا تلفظ بھی غلط باندھا گیا ہے
چاہت بیاں ہونا یا کرنا بھی محاورہ نہیں، چاہت یا اس کے کسی بھی ہم معنی لفظ، کا اظہار کیا جاتا ہے۔ ہاں چاہت کی داستان بیان کی جا سکتی ہے

جتنی ہے مرے دل میں چاہت وہ تمہاری ہے
لفظوں میں کبھی مجھ سے ہرگز نہ بیاں ہو گی
---------- ہر گز اور کبھی دونوں ایک ساتھ استعمال کرنا درست نہیں
پہلے مصرع کا خیال عجیب ہے

اک جان یہ میری ہے ،چاہو تو تمہیں دے دوں
مجھ سے نہ گلہ کرنا جب تم پہ گراں ہو گی
--------- گراں جان کے لئے ہے تو فاصلہ زیادہ ہو گیا
مجھ سے نہ گلہ کرنا، بس جان ہی اپنی ہے
تم کو جو اسے دے دوں، کیا تم پہ گراں ہو گی
کچھ بہتری آئی ہے لیکن مطمئن اب بھی نہیں!

چاہت جو ملی تجھ سے کیسے میں بھلاؤں گا
تولوں گا اگر اس کو وہ سب سے کلاں ہو گی
----------- کلاں کا قافیہ اچھا نہیں، تولنے سے کوئی چیز بھاری ہوتی ہے، خورد یا کلاں تو ناپنے سے ہو گی

وہ فوج ہی لڑتی ہے اللہ کے رستے میں
بے خوف جو دنیا کے ہر سود و زیاں ہو گی
----------- دوسرا مصرع مہمل ہے، سود و زیاں 'سے' کے بغیر

جس قوم کو آتا ہو انداز نہ جینے کا
وہ قوم بھلا کیونکر آگاہِ زیاں ہو گی
----------- درست، زیاں کا قافیہ متصل مت رکھو

لوگوں نے تو آنا ہے رستے پہ خدا کے ہی
دنیا کی حقیقت جب لوگوں پہ عیاں ہو گی
------------ لوگوں کو.. درست محاورہ ہے
اللہ کے رستے پر
زیادہ روان ہو گا

دنیا کی حقیقت بس اتنی ہے ذرا سمجھو
اک وقتِ معیّن پر دنیا نہ یہاں ہو گی
--------- ٹھیک،

ہلچل سی مچی ہو گی سارے ہی زمانے میں
ہر سمت ہی لوگوں کی ، دیکھو گے فغاں ہو گی
------------- کب؟
دیکھو گے، بھرتی کا ہے

اک سمت کو بھاگیں گے جب حشر بپا ہو گا
---------یا
چھاؤں نہ کہیں ہو گی ، سورج بھی تپا ہو گا
اس وقت مقدّم بس اپنی ہی یہ جاں ہو گی
-----------
خالق ہے خدا سب کا دیتا ہے وہی سب کو
عظمت نہ کبھی ہم سےاس رب کی بیاں ہو گی
------------ درست

ارشد یہ تری نیکی ممکن ہے دکھاوا ہو
محشر میں تو جانا ہے ، تصدیق وہاں ہو گی
-------------- محشر میں تو جس کو جانا ہے؟
جاؤ گے جو محشر میں
پھر وہی بات کہ اگر یہی بات ہر مختلف پیرائے میں کہنے کی کوشش کرتے اور پھر خود ہی بہترین آپشن منتخب کرتے تو بہتر تھا
 

صابرہ امین

لائبریرین
استتادِ محترم کے اصلاحی نکات کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ اشعار ذہن میں آگئے۔ شائد قابلِ توجہ ہوں۔

ایسے تو کبھی مجھ سے چاہت نہ بیاں ہو گی
جب رعبِ حسن ہو اتنا ِ گنگ زباں ہو گی
----------- مصرع ثانی میں تو آپ وہی پرانی غلطی کر گئے! 'اتنا' دو حصوں میں ٹوٹ رہا ہے کہ یہ منقسم بحر ہے! اس کے علاوہ حسن کا تلفظ بھی غلط باندھا گیا ہے
چاہت بیاں ہونا یا کرنا بھی محاورہ نہیں، چاہت یا اس کے کسی بھی ہم معنی لفظ، کا اظہار کیا جاتا ہے۔ ہاں چاہت کی داستان بیان کی جا سکتی ہے
ایسے تو کبھی مجھ سے چاہت نہ بیاں ہو گی
وہ سامنے ہوں میرے، تو گنگ زباں ہو گی

یا
جب حسن عیاں ہو تو یہ گنگ زباں ہو گی


جتنی ہے مرے دل میں چاہت وہ تمہاری ہے
لفظوں میں کبھی مجھ سے ہرگز نہ بیاں ہو گی
---------- ہر گز اور کبھی دونوں ایک ساتھ استعمال کرنا درست نہیں
پہلے مصرع کا خیال عجیب ہے

میں تم سے جو چاہت کا اظہار اگر چاہوں
میں جانتا ہوں مجھ سے ہرگز نہ بیاں ہوگی
یا

چاہوں بھی اگر کرنا مجھ سے نہ بیاں ہو گی

یا
لفظوں میں کبھی مجھ سے ہرگز نہ بیاں ہو گی

اک جان یہ میری ہے ،چاہو تو تمہیں دے دوں
مجھ سے نہ گلہ کرنا جب تم پہ گراں ہو گی
--------- گراں جان کے لئے ہے تو فاصلہ زیادہ ہو گیا
مجھ سے نہ گلہ کرنا، بس جان ہی اپنی ہے
تم کو جو اسے دے دوں، کیا تم پہ گراں ہو گی
کچھ بہتری آئی ہے لیکن مطمئن اب بھی نہیں!


سرمایہ مرا تو بس یہ جان ہے، حاضر ہے
ٹھکرایا اگر اس کو، تو تم پہ گراں ہو گی

چاہت جو ملی تجھ سے کیسے میں بھلاؤں گا
تولوں گا اگر اس کو وہ سب سے کلاں ہو گی
----------- کلاں کا قافیہ اچھا نہیں، تولنے سے کوئی چیز بھاری ہوتی ہے، خورد یا کلاں تو ناپنے سے ہو گی


چاہت جو ملی تجھ سے کیسے میں بھلاؤں گا
دنیا میں ترے جیسی ہستی ہی کہاں ہو گی

یا
کوشش جو کبھی کی تو مجھ سے وہ کہاں ہو گی


وہ فوج ہی لڑتی ہے اللہ کے رستے میں
بے خوف جو دنیا کے ہر سود و زیاں ہو گی
----------- دوسرا مصرع مہمل ہے، سود و زیاں 'سے' کے بغیر


ہلچل سی مچی ہو گی سارے ہی زمانے میں
ہر سمت ہی لوگوں کی ، دیکھو گے فغاں ہو گی
------------- کب؟
دیکھو گے، بھرتی کا ہے


ہلچل سی مچی ہو گی اس روزِ قیامت میں
ہر سمت ہی لوگوں کی ،بس آہ و فغاں ہو گی

وہ فوج ہی لڑتی ہے اللہ کے رستے میں
بے خوف جو دنیا کے ہر سود و زیاں ہو گی
----------- دوسرا مصرع مہمل ہے، سود و زیاں 'سے' کے بغیر

وہ فوج جو لڑتی ہے اللہ کے رستے میں
اندیشہِ مال و جاں نہ سود و زیاں ہو گی

 
الف عین
(استادِ محترم--صابرہ بہن کے اشعار آپ دیکھ چکے ہوں گے،میں نے بھی اصلاح کی کوشش کی ہے ،ملاحظہ فرما لیں پھر آپ جو حکم فرمائیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الفت کی کہانی یوں مجھ سے نہ بیاں ہو گی
جب حسن ہو جلوہ گر ، پھر گنگ زباں ہو
------یا
ان حسن کے جلووں سے گنگ زباں ہو گی
-------------
اظہار محبّت کا تجھ سے میں کروں کیسے
لفظوں میں کبھی مجھ سے ہرگز نہ بیاں ہو گی
-----------یا
لفظوں میں تو مجھ سے یہ ہرگز نہ بیاں ہو گی
----------------
جو فوج بھی لڑتی ہے اللہ کے رستے میں
بس فتح مقدّر ہے ،وہ فوج جہاں ہو گی
--------
چاہت جو ملی تجھ سے ہرگز نہ بھلاؤں گا
ہر آن مری چاہت تجھ پر بھی عیاں ہو گی
-----------
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
الفت کی کہانی یوں مجھ سے نہ بیاں ہو گی
جب حسن ہو جلوہ گر ، پھر گنگ زباں ہو گی
----- یہ مطلع بہتر ہے، صابرہ کی تجویز کی نسبت بھی

اظہار محبّت کا تجھ سے میں کروں کیسے
لفظوں میں کبھی مجھ سے ہرگز نہ بیاں ہو گی
----------- ہو گی کا فاعل کون ہے؟ اظہار تو مذکر ہے! چاہت ضرور مؤنث ہے لیکن چاہت بیان ہونے کے بارے میں لکھ چکا ہوں
صابرہ کی تجویز میں بھی یہی گڑبڑ ہے

جو فوج بھی لڑتی ہے اللہ کے رستے میں
بس فتح مقدّر ہے ،وہ فوج جہاں ہو گی
وہ فوج جو لڑتی ہے اللہ کے رستے میں
اندیشہِ مال و جاں نہ سود و زیاں ہو گی.. صابرہ
------- صابرہ کا پہلا مصرع بہتر ہے لیکن 'فوج جو' کی تکرار اچھی نہیں لگتی۔
دوسرا مصرع تمہارا کوئی خاص نہیں، صابرہ کے مصرعے میں اندیشہ مذکر ہے، ردیف ہو گی غلط ہے۔ بیانیہ ایسا ہو کہ ردیف فوج سے متعلق ہو جائے
..... نے فکر زیاں ہو گی
لانے کی کوشش کرو

چاہت جو ملی تجھ سے ہرگز نہ بھلاؤں گا
ہر آن مری چاہت تجھ پر بھی عیاں ہو گی
-------- صابرہ کا شعر بہتر ہے، دونوں مترادفات اچھے ہیں
 
الف عین
(اصلاح )
----------
اظہار محبّت کا تجھ سے میں کروں کیسے
لفظوں میں تری چاہت مجھ سے نہ بیاں ہو گی
-------------
جو فوج بھی لڑتی ہے اللہ کے رستے میں
اس فوج کو میداں میں کب فکرِ زیاں ہو گی
-------------
 
Top