اہل سنت و الجماعت پنجاب کے صدر مولانا شمس الرحمان قتل

آبی ٹوکول

محفلین
جی نہیں ۔۔۔ میرے سوال کا جواب ٰ ٰ ٍ ٍ نہیں آیا۔
میرا سوال اپنی جگہ باقی ہے۔۔۔ سوال میں موجود اشکال ان احادیث پر بھی ہے جو آپ نے پیش کی ہیں۔
لہذا ان احادیث کی حجیت بھی مشکوک ہو جائے گی۔
اس کے علاہ کتنے ہی القاب ایسے ہیں جن کی کوئی واقعیت نہیں ہے۔۔۔ لہذا جذباتیات سے زیادہ تعقل کی ضرورت ہے۔
آپ کوئی معقول سوال کریں تو جواب بھی آئے کیا کاتب وحی ہونے کے لیے شرعی کرائٹیریہ یہ ہے کہ نزول قرآن کی کم و بیش 23 سالا مدت کا ایک ایک لمحہ تمام کاتبین وحی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حضر وسفر کی معیت میں لازما گذارا ہو ؟؟ فیا للعجب ؟؟ ۔
 
امجد میانداد میں تم کو اس قابل ہی نہیں سمجھتا کہ تمہارے کسی مراسلے کا جواب دوں کیونکہ میرے خیال سے تم میں اور اخروٹ میں کوئی فرق نہیں ہے
ظاہر ہے ایک کیڑا اخروٹ مسخر نہ کر سکنے کے بعد اسی طرح کی باتیں کرے گا۔
انگور بھی کھٹے ہوں گے
 

گرائیں

محفلین
آپ کوئی معقول سوال کریں تو جواب بھی آئے کیا کاتب وحی ہونے کے لیے شرعی کرائٹیریہ یہ ہے کہ نزول قرآن کی کم و بیش 23 سالا مدت کا ایک ایک لمحہ تمام کاتبین وحی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حضر وسفر کی معیت میں لازما گذارا ہو ؟؟ فیا للعجب ؟؟ ۔
جناب آپ بھول رہے ہیں، اس کا "مومن " ہونا بھی ضروری ہے۔ ورنہ کوئی نہیں مانے گا۔
 

نایاب

لائبریرین
صحیح مسلم: 6409

حَدَّثَنِي عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ ، وَأَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَعْقِرِيُّ ، قَالاَ : حَدَّثَنَا النَّضْرُ ، وَهُوَ ابْنُ مُحَمَّدٍ الْيَمَامِيُّ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ ، حَدَّثَنَا أَبُو زُمَيْلٍ ، حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ ، قَالَ: كَانَ الْمُسْلِمُونَ لاَ يَنْظُرُونَ إِلَى أَبِي سُفْيَانَ وَلاَ يُقَاعِدُونَهُ ، فَقَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا نَبِيَّ اللهِ ثَلاَثٌ أَعْطِنِيهِنَّ ، قَالَ: نَعَمْ قَالَ: عِنْدِي أَحْسَنُ الْعَرَبِ وَأَجْمَلُهُ ، أُمُّ حَبِيبَةَ بِنْتُ أَبِي سُفْيَانَ ، أُزَوِّجُكَهَا ، قَالَ: نَعَمْ قَالَ: وَمُعَاوِيَةُ ، تَجْعَلُهُ كَاتِبًا بَيْنَ يَدَيْكَ ، قَالَ: نَعَمْ قَالَ: وَتُؤَمِّرُنِي حَتَّى أُقَاتِلَ الْكُفَّارَ ، كَمَا كُنْتُ أُقَاتِلُ الْمُسْلِمِينَ ، قَالَ: نَعَمْ.
قَالَ أَبُو زُمَيْلٍ: وَلَوْلاَ أَنَّهُ طَلَبَ ذَلِكَ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَعْطَاهُ ذَلِكَ ، لأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يُسْأَلُ شَيْئًا إِلاَّ قَالَ: نَعَمْ.

Ibn 'Abbas said: "The Muslims would not look at Abu Sufyan nor sit with him. He said to the Prophet (s.a.w): 'O Prophet of Allah, give me three things.' He said: 'Yes.' He said: 'I have with me the most beautiful and best (woman) of the Arabs, Umm Habibah bint Abi Sufyan, and I will give her to you in marriage.' He said: 'Yes.' He said: 'Make Mu'awiyah your scribe.' He said: 'Yes.' He said: 'And appoint me as a commander so that I can fight the disbelievers as I used to fight the Muslims.' He said: 'Yes.'" Abu Zumail said: "If he had not asked the Prophet (s.a.w) for that, he would not have given him that, because whenever he was asked for something he would say: 'Yes.'"

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مسلمان ، حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ سے بات نہیں کرتے تھے ، اور نہ ہی ان کے ساتھ نشست برخاست کرتے تھے ، انہوں نے نبی ﷺسے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ﷺ! میری تین باتیں قبول فرمائیے ، آپ ﷺنے فرمایا: اچھا ، انہوں نے کہا: حضرت ام حبیبہ بنت ابی سفیان عرب کی سب سے حسین و جمیل لڑکی ہیں میں آپ کا اس سے نکاح کرتا ہوں ، آپﷺنے فرمایا: اچھا ، پھر انہوں نے کہا: حضرت معاویہ کو آپ اپنا کاتب بنا لیجئے ، آپﷺنے فرمایا: اچھا ، پھر کہا: آپ مجھے لشکر کا امیر بنا دیجئے تاکہ میں کفار سے جنگ کروں ، جس طرح میں مسلمانوں سے جنگ کرتا تھا ، آپﷺنے فرمایا: اچھا ! ابو زمیل نے کہا: اگر وہ خود نبی ﷺسے درخواست نہ کرتے تو آپﷺیہ کام نہیں کرتے ، لیکن آپ ﷺکی عادت کریمہ یہ تھی کہ جب بھی آپﷺسے سوال کیا جاتا تو آپﷺہاں فرمادیتے تھے۔
شاید اسی حدیث کو بنیاد بنا کر سلمان رشدی نے " سٹینک ورسز " کا تانا بانا بنا تھا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔؟
استغفراللہ
یہ حدیث تو کھلے طور اللہ کے رسول پہ تہمت کے مقام پر ہے ۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت سے نوازے آمین
 

حسینی

محفلین
آپ کوئی معقول سوال کریں تو جواب بھی آئے کیا کاتب وحی ہونے کے لیے شرعی کرائٹیریہ یہ ہے کہ نزول قرآن کی کم و بیش 23 سالا مدت کا ایک ایک لمحہ تمام کاتبین وحی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حضر وسفر کی معیت میں لازما گذارا ہو ؟؟ فیا للعجب ؟؟ ۔
فیا للعجب ثم العجب۔۔۔
اس سے معقول سوال اور کیا ہو سکتا ہے۔۔ کہ جو شخص رسول کی معیت میں رہا ہی نہیں ہو اس کو آپ کاتب وحی ونامہ ہائے رسول بنا رہے ہیں۔
یہ ہرگز ضروری نہیں کہ پورے 23 سال ساتھ رہے ہوں۔
لیکن آپ تواریخ سے ثابت تو کریں کہ معاویہ بن ابی سفیان نے فتح مکہ کے بعد مدینہ ہجرت کی ہو۔
صحیح بخاری کا ہی آپ غور سے مطالعہ کر لیتے تو کافی تھا۔
امام بخاری صحیح بخاری کے باب فضائل صحابہ میں جب
سالم کا ذکر آتا ہے تو "باب مناقب سالم مولی ابی حذیفہ لکھتے ہیں۔
اس ک بعد "باب مناقب عبد اللہ بن مسعود" لکھتے ہیں۔ٰ
لیکن جب معاویہ کا ذکر آتا ہے تو ان کو کئی فضیلت نہیں ملتی اور "باب ذکر معاویہ " لکھتے ہیں۔
کاتب وحی ہوتے یہ ٍ فضیلت ہی لکھ لیتے۔۔۔
اور اس کے بعد "باب مناقب فاطمہ علیہا السلام" کا ہے۔
(ضمنا حضرت فاطمہ اور امام حسن وحسین کے لیے علیہ السلام خود امام بخاری نے بھی لکھا ہے۔ جبکہ بعض اپنوں کو ان کے ساتھ علیہ السلام لکھنے پر بھی اعتراض ہے۔)
کوئی بتا سکتا ہے جب ہر صحابی کے لیے باب مناقب بیان کر رہے تھے۔۔۔ تو معاویہ بن ابی سفیان کے لیے مناقب نہیں لکھا۔ ان کا صرف تذکرہ کیا۔

لیکن الحمد للہ مولا علی علیہ السلام کی شان میں اتنی فضیلتیں ہیں کہ ۔۔ دسیوں جلدوں کی کتابوں میں نہ سما سکے۔
 
آخری تدوین:

حسینی

محفلین
صحیح مسلم: 6409
۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مسلمان ، حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ سے بات نہیں کرتے تھے ، اور نہ ہی ان کے ساتھ نشست برخاست کرتے تھے ، انہوں نے نبی ﷺسے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ﷺ! میری تین باتیں قبول فرمائیے ، آپ ﷺنے فرمایا: اچھا ، انہوں نے کہا: حضرت ام حبیبہ بنت ابی سفیان عرب کی سب سے حسین و جمیل لڑکی ہیں میں آپ کا اس سے نکاح کرتا ہوں ، آپﷺنے فرمایا: اچھا ، پھر انہوں نے کہا: حضرت معاویہ کو آپ اپنا کاتب بنا لیجئے ، آپﷺنے فرمایا: اچھا ، پھر کہا: آپ مجھے لشکر کا امیر بنا دیجئے تاکہ میں کفار سے جنگ کروں ، جس طرح میں مسلمانوں سے جنگ کرتا تھا ، آپﷺنے فرمایا: اچھا ! ابو زمیل نے کہا: اگر وہ خود نبی ﷺسے درخواست نہ کرتے تو آپﷺیہ کام نہیں کرتے ، لیکن آپ ﷺکی عادت کریمہ یہ تھی کہ جب بھی آپﷺسے سوال کیا جاتا تو آپﷺہاں فرمادیتے تھے۔
اس حدیث کے مطابق اچھی خاصی بارگینیگ ہوئی تھی۔۔۔۔ ان کے درمیان۔
گویا ام حبیبہ سے نکاح کے بدلے بہت کچھ مانگا گیا تھا۔۔۔ حب رسول اور ان سے رشتہ منسلک کرنے کی خواہش شاید نہ تھی میان میں؟؟؟
 

منصور مکرم

محفلین
شاید اسی حدیث کو بنیاد بنا کر سلمان رشدی نے " سٹینک ورسز " کا تانا بانا بنا تھا ۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔؟
استغفراللہ
یہ حدیث تو کھلے طور اللہ کے رسول پہ تہمت کے مقام پر ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت سے نوازے آمین

یہ حدیث خود محدثین وغیرہ کے درمیان بھی منکرات میں شامل ہے۔

شارح صحیح مسلم امام نوؤی فرماتے ہیں کہ
واعلم أن هذا الحديث من الاحاديث المشهورة بالاشكال ووجه الاشكال أن أبا سفيان إنّما أسلم يوم فتح مكة سنة ثمان من الهجرة وهذا مشهور لا خلاف فيه وكان النبي صلى الله عليه وسلم قد تزّوج أم حبيبة قبل ذلك بزمان طويل.

قال أبو عبيدة وخليفة بن خياط وإبن البرقي والجمهور: تزّوجها سنة ست وقيل سنة سبع ... .

قال القاضي: والذي في مسلم هنا أنّه زوّجها أبو سفيان غريب جدّاً وخبرها مع أبي سفيان حين ورد المدينة في حال كفره مشهور ولم يزد القاضي على هذا .

وقال ابن حزم هذا الحديث وهم من بعض الرواة ؛ لأنّه لا خلاف بين الناس أنّ النبي صلى الله عليه وسلم تزّوج أم حبيبة قبل الفتح بدهر وهي بأرض الحبشة وأبوها كافر وفي رواية عن ابن حزم أيضاً أنّه قال: موضوع. قال: والآفة فيه من عِكْرِمَة بن عمار الراوي عن أبي زميل ... .


امام ذہبی نے ميزان الإعتدال میں لکھا ہے :

وفي صحيح مسلم قد ساق له أصلا منكرا عن سماك الحنفي عن ابن عباس في الثلاثة التي طلبها أبو سفيان وثلاثة أحاديث أخر بالإسناد .

اس حدیث اور دوسری تین احادیث صحیح مسلم میں منکرات نقل ہوئی ہیں ... .

ميزان الاعتدال ، ج 5 ، ص 116 .


إبن ملقن شافعي (متوفي804 ه۔) نے بھی اس روایت پر لکھا ہے :

هذا من الأحاديث المشهورة بالإشكال المعروفة بالإعضال ، ووجه الإشكال : أنّ أبا سفيان إنّما أسلم يوم الفتح ، والفتح سنة ثمان ، والنبي كان قد تزّوجها قبل ذلك بزمن طويل . قَالَ خليفة بن خياط : والمشهور على أنّه تزّوجها سنة ست ، ودخل بها سنة سبع . وقيل : تزّوجها سنة سبع ، وقيل : سنة خمس .

یہ حدیث ان احادیث میں سے ہے جو اشکال اور اعتراض میں مشہور ہیں اورکراہیت میں معروف ہیں اعتراض یہ ہے کہ ابوسفیان یوم فتح کو مسلمان ہوا ہے اور وہ ۸ ہجری ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ نے ام حبیبہ سے ایک زمان قبل شادی کر لی تھی خلیفہ بن خیاط نے کہا ہے مشہور ہے شادی ۶ ہجری میں ہوئی اور زفاف ۷ ہجری میں کیا ۔بعض نے سات اور بعض نے پانچ ہجری کہا ہے

(البدر المنير في تخريج الأحاديث والأثار الواقعة في الشرح الكبير، ج 6 ، ص 731)
 

منصور مکرم

محفلین
فیا للعجب ثم العجب۔۔۔
اس سے معقول سوال اور کیا ہو سکتا ہے۔۔ کہ جو شخص رسول کی معیت میں رہا ہی نہیں ہو اس کو آپ کاتب وحی ونامہ ہائے رسول بنا رہے ہیں۔
یہ ہرگز ضروری نہیں کہ پورے 23 سال ساتھ رہے ہوں۔
لیکن آپ تواریخ سے ثابت تو کریں کہ معاویہ بن ابی سفیان نے فتح مکہ کے بعد مدینہ ہجرت کی ہو۔
صحیح بخاری کا ہی آپ غور سے مطالعہ کر لیتے تو کافی تھا۔
امام بخاری صحیح بخاری کے باب فضائل صحابہ میں جب
سالم کا ذکر آتا ہے تو "باب مناقب سالم مولی ابی حذیفہ لکھتے ہیں۔
اس ک بعد "باب مناقب عبد اللہ بن مسعود" لکھتے ہیں۔ٰ
لیکن جب معاویہ کا ذکر آتا ہے تو ان کو کئی فضیلت نہیں ملتی اور "باب ذکر معاویہ " لکھتے ہیں۔
کاتب وحی ہوتے یہ ٍ فضیلت ہی لکھ لیتے۔۔۔
اور اس کے بعد "باب مناقب فاطمہ علیہا السلام" کا ہے۔
(ضمنا حضرت فاطمہ اور امام حسن وحسین کے لیے علیہ السلام خود امام بخاری نے بھی لکھا ہے۔ جبکہ بعض اپنوں کو ان کے ساتھ علیہ السلام لکھنے پر بھی اعتراض ہے۔)
کوئی بتا سکتا ہے جب ہر صحابی کے لیے باب مناقب بیان کر رہے تھے۔۔۔ تو معاویہ بن ابی سفیان کے لیے مناقب نہیں لکھا۔ ان کا صرف تذکرہ کیا۔

لیکن الحمد للہ مولا علی علیہ السلام کی شان میں اتنی فضیلتیں ہیں کہ ۔۔ دسیوں جلدوں کی کتابوں میں نہ سما سکے۔

پہلی بات
تو یہ کہ فتح مکہ کے بعد ہجرت ختم ہوگئی تھی،کیونکہ تقریبا تمام عرب دار الاسلام بن گیا تھا،تو ہجرت کیسی۔


دوسری بات
یہ کہ کتابت وحی کے بارے میں بات اسی دھاگے کے مراسلہ نمبر 52 اور مراسلہ نمبر 60 پر کی گئی ہے کہ ابن حزم وغیرہ اور بیہقی کی ایک حدیث میں بھی ابن عباس (رض) نے اسکی کتابت وحی کی بات کی ہے، بلکہ ابن عباس والی حدیث میں تو صاف ذکر ہے کہ حضور (ص) نے مجھے حضرت معاویہ کو بُلانے کیلئے بھیجا تھا۔

تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضور (ص) اور حضرت معاویہ (رض) کی رہایش ایک ساتھ تھی ،یا کم از کم ایک مدت تک دونوں حضرات ایک جگہ رہ رہے تھے۔

نیز کتابت وحی کیلئے مدینہ شرط اسلئے نہیں کہ وحی صرف مدینہ کے ساتھ خاص نہیں تھی،بلکہ جہاں جہاں حضور جاتے ،وہی ضرورت کے موافق وحی نازل ہوتی۔

تیسری بات یہ کہ خود ابن ابی الحدید شیعہ (شارح نہج البلاغہ ) نے بھی حضرت معاویہ(رض) کیلئے حضور (صل اللہ علیہ وسلم) کے دوسرے ملکوں کے بادشاہوں کے کاتب ہونے کا اقرار کیا ہے۔ جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضور (صل اللہ علیہ وسلم) اور حضرت معاویہ کئی مجالس میں ایک ساتھ رہے ہیں،کہ جس میں حضور (صل اللہ علیہ وسلم) نے حضرت معاویہ سے خطوط لکھوائے ہیں۔

تو اگر حضرت معاویہ کی حضور (صل اللہ علیہ وسلم) کے مجالس میں شرکت ثابت نہ ہوتی ،تو شیعہ ابن ابی الحدید نہج البلاغہ میں اسکا اقرار نہ کرتا۔


تیسری بات
یہ کہ امام بخاری (رح) کا حضرت معاویہ (رض) کے مناقب نقل نہ کرنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ حضرت معاویہ کیلئے مناقب ثابت ہی نہیں ہے۔اور نا ہی یہ بات درست ہے کہ بخاری شریف کے علاوہ صحیح احادیث دوسری کتب احادیث میں سے نہیں مل سکتی۔بلکہ بے شمار صحیح احادیث ہیں جو امام بخاری کو نہ مل سکے،اور دوسرے کتب احادیث میں موجود ہیں۔
 

نایاب

لائبریرین
افسوس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قران جو کہ واضح روشن ہدایت قرار پایا تھا رب جلیل کی زبانی
وہ احادیث کے انبار میں دب کر رہ گیا ۔۔۔۔۔۔۔
احادیث مبارکہ تو اسوہ حسنہ "اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم " کے زندگی بسر کرنے کے طریقے بیان کرنا تھا ۔
تاکہ لوگ اسوہ حسنہ کا اتباع کرتے اپنی زندگی آسان و کامیاب بنائیں ۔ اور آخرت کے حساب و کتاب سے آسانی سے گزر جائیں ۔
ہم نے ان احادیث مبارکہ کو "تفرقے " کی بھٹی بنا لیا ۔۔۔۔۔۔۔ سامنے والے کو پکڑو اس بھٹی میں تپاؤ اور " کافر و مسلم " کی مہر لگاؤ ۔
انسان نہ بھی ہو " مسلمان " ہو بس ۔۔۔۔۔۔۔ بیڑا پار ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم جناب مولانا شمس الرحمان معاویہ صاحب اپنے حساب کتاب سے گزر رہے ہوں گے ۔
دنیا میں جیسی فصل بوئی تھی ویسی کاٹ رہے ہوں گے ۔۔۔
بلا شک سچا ہے قران کا یہ فرمان کہ
ہر کوئی اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی سے نسبت کام نہ آئے گی ۔
اللہ تعالی ہم سب کو احادیث مبارکہ (اسوہ حسنہ )کے مطالعے سے دوسروں پر کفر کے فتوے لگانے کی بجائے
اپنی اصلاح کی توفیق سے نوازتے سچا انسان بننے کی توفیق سے نوازے ۔آمین
 

حسینی

محفلین
پہلی بات
تو یہ کہ فتح مکہ کے بعد ہجرت ختم ہوگئی تھی،کیونکہ تقریبا تمام عرب دار الاسلام بن گیا تھا،تو ہجرت کیسی۔


دوسری بات
یہ کہ کتابت وحی کے بارے میں بات اسی دھاگے کے مراسلہ نمبر 52 اور مراسلہ نمبر 60 پر کی گئی ہے کہ ابن حزم وغیرہ اور بیہقی کی ایک حدیث میں بھی ابن عباس (رض) نے اسکی کتابت وحی کی بات کی ہے، بلکہ ابن عباس والی حدیث میں تو صاف ذکر ہے کہ حضور (ص) نے مجھے حضرت معاویہ کو بُلانے کیلئے بھیجا تھا۔

تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضور (ص) اور حضرت معاویہ (رض) کی رہایش ایک ساتھ تھی ،یا کم از کم ایک مدت تک دونوں حضرات ایک جگہ رہ رہے تھے۔

نیز کتابت وحی کیلئے مدینہ شرط اسلئے نہیں کہ وحی صرف مدینہ کے ساتھ خاص نہیں تھی،بلکہ جہاں جہاں حضور جاتے ،وہی ضرورت کے موافق وحی نازل ہوتی۔

تیسری بات یہ کہ خود ابن ابی الحدید شیعہ (شارح نہج البلاغہ ) نے بھی حضرت معاویہ(رض) کیلئے حضور (صل اللہ علیہ وسلم) کے دوسرے ملکوں کے بادشاہوں کے کاتب ہونے کا اقرار کیا ہے۔ جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضور (صل اللہ علیہ وسلم) اور حضرت معاویہ کئی مجالس میں ایک ساتھ رہے ہیں،کہ جس میں حضور (صل اللہ علیہ وسلم) نے حضرت معاویہ سے خطوط لکھوائے ہیں۔

تو اگر حضرت معاویہ کی حضور (صل اللہ علیہ وسلم) کے مجالس میں شرکت ثابت نہ ہوتی ،تو شیعہ ابن ابی الحدید نہج البلاغہ میں اسکا اقرار نہ کرتا۔


تیسری بات
یہ کہ امام بخاری (رح) کا حضرت معاویہ (رض) کے مناقب نقل نہ کرنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ حضرت معاویہ کیلئے مناقب ثابت ہی نہیں ہے۔اور نا ہی یہ بات درست ہے کہ بخاری شریف کے علاوہ صحیح احادیث دوسری کتب احادیث میں سے نہیں مل سکتی۔بلکہ بے شمار صحیح احادیث ہیں جو امام بخاری کو نہ مل سکے،اور دوسرے کتب احادیث میں موجود ہیں۔

پہلی بات تو یہ کہ ابن ابی الحدید معتزلی ہرگز شیعہ نہ تھا۔۔۔ بلکہ معتزلی مذہب کا تھا۔۔۔ جو کہ اہل سنت کا ہی اک عقیدتی فرقہ تھا۔
اور اس کی شرح نہج البلاغہ میں ہر جگہ آپ کو سنی عقائد ہی نظر آئیں گے۔۔ البتہ بہت ساری جگہوں پر شیعوں کی طرح اس نے اہل بیت کرام کی بہت زیادہ مدح کی ہے۔
شرح نہج البلاغہ کا مقدمہ ہی پڑھ لیں تو یہ جملہ آپ کو ملے گا۔۔ جو کہ خلافت کے بارے میں ہے:
الحمد للہ الذی ٖ قدم المفضول علی الافضل لمصلحۃ اقتضاھا
یعنی اس پروردگار کا شکر جس نے مفضول کو (خلافت میں) افضل پر مقدم کیا، اک خاص مصلحت کی وجہ سے۔
تو یہاں حضرت ابوبکر کی تقدیم کی بات کی ہے۔۔ جو کہ شیعہ عقائد کے خلاف ہے۔
دوسری بات:
ہجرت کے بغیر مسئلہ صرف یہ رہ جاتا ہےکہ جب رسول خدا مدینہ میں تھے اور معاویہ مکہ میں تو کیسے وحی اور نامے لکھواتے تھے۔
اور میں یہ کہ رہا ہوں کہ معاویہ بن سفیان کا مدینہ کی طرف ہجرت نہ کرنا مورخین میں متفق علیہ ہے۔
 

منصور مکرم

محفلین
پہلی بات تو یہ کہ ابن ابی الحدید معتزلی ہرگز شیعہ نہ تھا۔۔۔ بلکہ معتزلی مذہب کا تھا۔۔۔ جو کہ اہل سنت کا ہی اک عقیدتی فرقہ تھا۔
اور اس کی شرح نہج البلاغہ میں ہر جگہ آپ کو سنی عقائد ہی نظر آئیں گے۔۔ البتہ بہت ساری جگہوں پر شیعوں کی طرح اس نے اہل بیت کرام کی بہت زیادہ مدح کی ہے۔
شرح نہج البلاغہ کا مقدمہ ہی پڑھ لیں تو یہ جملہ آپ کو ملے گا۔۔ جو کہ خلافت کے بارے میں ہے:
الحمد للہ الذی ٖ قدم المفضول علی الافضل لمصلحۃ اقتضاھا
یعنی اس پروردگار کا شکر جس نے مفضول کو (خلافت میں) افضل پر مقدم کیا، اک خاص مصلحت کی وجہ سے۔
تو یہاں حضرت ابوبکر کی تقدیم کی بات کی ہے۔۔ جو کہ شیعہ عقائد کے خلاف ہے۔
دوسری بات:
ہجرت کے بغیر مسئلہ صرف یہ رہ جاتا ہےکہ جب رسول خدا مدینہ میں تھے اور معاویہ مکہ میں تو کیسے وحی اور نامے لکھواتے تھے۔
اور میں یہ کہ رہا ہوں کہ معاویہ بن سفیان کا مدینہ کی طرف ہجرت نہ کرنا مورخین میں متفق علیہ ہے۔
ابن ابی الحدید اہل سنت میں سے نہیں تھا بلکہ اہل سنت سے الگ اپنا راستہ اختیار کرنے والے معتزلہ(جو ہ کئی عقائد میں اہل سنت کے مخالف ہیں)میں سے تھا،لیکن شیعت کی طرف زیادہ مائل تھا۔
جسکا اظہار خود ہی اسی عبارت سے ہو رہا ہے۔جو آپ نے نقل کیا ہے۔

رہی دوسری بات آپ صرف ایک بات بتائیں کہ کیا فتح مکہ کے بعد ہجرت باقی رہ گئی تھی؟
اسکے بعد میں جواب دونگا۔
 

حسینی

محفلین
ابن ابی الحدید اہل سنت میں سے نہیں تھا بلکہ اہل سنت سے الگ اپنا راستہ اختیار کرنے والے معتزلہ(جو ہ کئی عقائد میں اہل سنت کے مخالف ہیں)میں سے تھا،لیکن شیعت کی طرف زیادہ مائل تھا۔
جسکا اظہار خود ہی اسی عبارت سے ہو رہا ہے۔جو آپ نے نقل کیا ہے۔

رہی دوسری بات آپ صرف ایک بات بتائیں کہ کیا فتح مکہ کے بعد ہجرت باقی رہ گئی تھی؟
اسکے بعد میں جواب دونگا۔

معتزلہ فرقہ اہل سنت کا ہی اک مسلک شمار ہوتا ہے۔۔ اس حوالے سے آپ اپنے علماء کے اقوال کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔
جب بھی تاریخ ادیان کی کتابوں میں اسلامی مسالک کا ذکرکیا جاتا ہے تو معتزلہ کو سنی مذاہب کے ضمن میں بیان کیا جاتا ہے۔

رہی دوسری بات تو مسئلہ اس میں نہیں ہے کہ فتح مکہ کے بعد ہجرت باقی رہ جاتی ہے یا نہیں۔
ہر دو صورت میں اشکال اپنی جگہ ہے۔۔ چاہے ہم کہیں باقی رہ جاتی ہے۔۔ یا کہیں نہیں۔

مسئلہ فضیلت ہجرت کا نہیں۔۔۔ مکہ میں رہ کر کاتب وحی بننے کا ہے۔
 
شاید اسی حدیث کو بنیاد بنا کر سلمان رشدی نے " سٹینک ورسز " کا تانا بانا بنا تھا ۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔؟
استغفراللہ
یہ حدیث تو کھلے طور اللہ کے رسول پہ تہمت کے مقام پر ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت سے نوازے آمین
نایاب بھائی میں قطعی حدیث کا راوی نہیں :)

ہو سکتا ہے مزید احادیث بھی ہوں اور کہیں مستند واقعات اور احادیث موجود ہوں حضرت امیر معاویہ کے بارے میں۔ میں نہ تو اس سلسلے میں مطالعہ رکھتا ہوں اور نہ کبھی حدیثوں کی بحث میں پڑھا۔ چونکہ اس میں کتابت کی بات کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اب یہ مکالمہ کس تناظر میں تھا کیا واقعات تھے اور کیسے پیش آئے شاید اس مکالمے کا اصل وجود حالات و واقعات کے بغیر کسی تناظر میں خود سے کوئی معنی لینا غلط ہو گا لیکن کم از کم اس میں یہ گنجائش موجودنظر آئی مجھے کہ حضرت امیر معاویہ کے کاتب بننے کے چانسز موجود تھے اور وہ بنے بھی ہوں گے اگر بیان کیا جاتا ہے۔ یعنی ان کا کاتب ِ وحی ہونا ناممکنات میں سے نہیں تھا جیسا کہ یہاں کہیں ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔
اس سلسلے میں ضرور کو مستند حوالے موجود ہوں گے لیکن میں اس فیلڈ میں تحقیق سے قاصر ہوں۔
بات کاتب ہونے نہ ہونے کی ہو رہی تھی، اور اس میں جیسے بھی سہی ایک مکالمہ محدث ہے جس میں آئندہ کے بارے میں بات ہو رہی ہے، کہیں حدیث کی تفاسیر اور تفصیلی وضاحت میں شاید آپ کے سیاق و سباق کے حوالے سے یہ مکالمہ ایسا نظر نہ آئے جیسا کہ نظر آ رہاہے ۔
 
اس حدیث کے مطابق اچھی خاصی بارگینیگ ہوئی تھی۔۔۔ ۔ ان کے درمیان۔
گویا ام حبیبہ سے نکاح کے بدلے بہت کچھ مانگا گیا تھا۔۔۔ حب رسول اور ان سے رشتہ منسلک کرنے کی خواہش شاید نہ تھی میان میں؟؟؟
کیا اسے ہم ایسے نہیں لے سکتے کہ ایک جنگجو جو اسلام کی مخالفت میں شہرت رکھتا تھا اسلام لانے کے بعد جب اسے اپنے سابقہ رویوں کی وجہ سے اس قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑا جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے تو اس نے حضور سے ملاقات کر کے اپنا کردار ادا کرنے اور اہمیت بنانے کی کوشش کی ہو۔ایک فطری تقاضا، اور حضور کی ذات تو ایسی تھی کہ ہر ایک کی خواہش ہوتی تھی کہ ان سے کچھ نسبت بن جائے ۔ جو کہ بعد کی ہونے والی جنگوں میں ان کے اور ان کے خاندان کے کردار سے واضع ہو گیا کہ انہوں نے کتنی خدمات انجام دیں۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
انا للہ وانا الیہ راجعون

لاشوں پر "سیاہ ست" کیسے ہوتی ہے۔ شاید یہ دھاگا اس مظہر کی منہ بولتی مثال ہے۔۔۔ چلا گیا دنیا سے جانے والا۔۔۔۔۔ پیچھے بیٹھے اپنی اپنی موت سے بے خبر اس کی جنت جہنم کے فیصلے کر رہے ہیں۔۔۔۔ بیمار ذہنیت اور کس چیز کا نام ہے۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
فیا للعجب ثم العجب۔۔۔
اس سے معقول سوال اور کیا ہو سکتا ہے۔۔ کہ جو شخص رسول کی معیت میں رہا ہی نہیں ہو اس کو آپ کاتب وحی ونامہ ہائے رسول بنا رہے ہیں۔
یہ ہرگز ضروری نہیں کہ پورے 23 سال ساتھ رہے ہوں۔
لیکن آپ تواریخ سے ثابت تو کریں کہ معاویہ بن ابی سفیان نے فتح مکہ کے بعد مدینہ ہجرت کی ہو۔
صحیح بخاری کا ہی آپ غور سے مطالعہ کر لیتے تو کافی تھا۔
امام بخاری صحیح بخاری کے باب فضائل صحابہ میں جب
سالم کا ذکر آتا ہے تو "باب مناقب سالم مولی ابی حذیفہ لکھتے ہیں۔
اس ک بعد "باب مناقب عبد اللہ بن مسعود" لکھتے ہیں۔ٰ
لیکن جب معاویہ کا ذکر آتا ہے تو ان کو کئی فضیلت نہیں ملتی اور "باب ذکر معاویہ " لکھتے ہیں۔
کاتب وحی ہوتے یہ ٍ فضیلت ہی لکھ لیتے۔۔۔
اور اس کے بعد "باب مناقب فاطمہ علیہا السلام" کا ہے۔
(ضمنا حضرت فاطمہ اور امام حسن وحسین کے لیے علیہ السلام خود امام بخاری نے بھی لکھا ہے۔ جبکہ بعض اپنوں کو ان کے ساتھ علیہ السلام لکھنے پر بھی اعتراض ہے۔)
کوئی بتا سکتا ہے جب ہر صحابی کے لیے باب مناقب بیان کر رہے تھے۔۔۔ تو معاویہ بن ابی سفیان کے لیے مناقب نہیں لکھا۔ ان کا صرف تذکرہ کیا۔

لیکن الحمد للہ مولا علی علیہ السلام کی شان میں اتنی فضیلتیں ہیں کہ ۔۔ دسیوں جلدوں کی کتابوں میں نہ سما سکے۔
حسینی بھائی اب میرا خیال ہے کہ مجھے انا للہ وانا الیہ راجعون یہاں پڑھ ہی لینا چاہیے کیونکہ سوال گندم اور جواب چنا والا حساب ہوگیا ہے بحرحال آپ کو تو شاید بحث و مباحثہ "نوا ں نواں " شوق چڑھا ہے جب کہ بندہ خاکسار مدتوں سے اس دشت کی سیاحی میں غرق رہا ہے اور اب مزید مساعی اوقات ان افعال کے لیے روا نہیں جانتا ۔۔۔۔لہذا اسے میرا آخری مراسلہ تصؤر کیجیئے گا فبھا ۔۔۔۔
میرے بھائی تاریخ اہل تشیع کے ہاں ایک معتبر شئے سمجھی جاتی ہے جبکہ اہل تسنن کے ہاں اسکا درجہ احادیث کے بعد ہے لیکن پھر بھی اہل تشیع تاریخی ماخذات اور اہل سنت کے معتبر تاریخ ماخذات ہر دونوں میں حضرت امیر معاویہ کے کاتب وحی ہونے کی روایات موجود ہیں جبکہ اہل سنت کے ہاں تو تاریخ کے علاوہ احادیث سے بھی یہ بات ثابت ہے کیونکہ فتح مکہ کے بعد حضرت امیر معاویہ مدینہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں کافی عرصہ رہے انھوں نے اپنے بھائی اور والد سمیت غزوہ حنین اورغزوہ طائف میں حصہ بھی لیا ۔۔ اور غزوہ حنین میں ان کے والد ابو سفیان کی آنکھ بھی شہید ہوگئی تھی کہ جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کا وعدہ بھی فرمایا تھا حضرت ابوسفیان سے ۔ ۔ ۔ خیر حضرت امیر معاویہ کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کاتب ہونا اتنی مشھور بات ہے کہ اسکا انکار نہیں کرسکے گا مگر کوئی متعصب ۔۔۔
باقی آپکی باقی باتوں کا جان بوجھ کر جواب نہیں دے رہا ہوں کہ بحث کو بڑھانا نہیں چاہتا اور ویسے بھی ان باتوں کا یہ محمل نہ تھا کیونکہ حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ رض اللہ عنھما کا کیا تقابل ؟؟؟ اور کس نے کیا اور نہ ہی کیا جانا چاہیے ۔۔۔ کیونکہ اوللذکرتو "السابقون الاولون " میں سے ہیں بدری ہیں خلفائے راشدین میں سے ہیں عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں ہاشمی ہیں مطلبی ہی اور بقول اقبال علیہ رحمہ تاجدار ھل اتٰی مشکل کشا مولا علی ہیں جبکہ ثانی الذکر کے لیے ہمارے لیے انکا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جلیل القدر صحابی ہونا ہی کافی و شافی و وافی ہے لہذا دونوں کا آپس میں کوئی جوڑ نہیں بنتا حضرت علی کی خدمات اسلام کے لیے بالاجماع بہت زیادہ ۔ ہیں لہذا وہ مقام و مرتبہ و فضیلت میں بھی بلاشبہ بہت بڑھ کر ہیں ۔اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہ کوئی بھی صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کسی بخاری یا مسلم یا تاریخ کا محتاج نہیں کہ اسکی فضیلت کا ثبوت وہاں سے فراہم کیا جائے اگر چہ وہاں سے بھی ماشاء اللہ سے وافر مقدار میں موجود ہے ۔۔۔والسلام
 
انا للہ وانا الیہ راجعون

لاشوں پر "سیاہ ست" کیسے ہوتی ہے۔ شاید یہ دھاگا اس مظہر کی منہ بولتی مثال ہے۔۔۔ چلا گیا دنیا سے جانے والا۔۔۔ ۔۔ پیچھے بیٹھے اپنی اپنی موت سے بے خبر اس کی جنت جہنم کے فیصلے کر رہے ہیں۔۔۔ ۔ بیمار ذہنیت اور کس چیز کا نام ہے۔
کچھ زیادہ ہی general statement نہیں لگ رہی یہ بات؟ میرے خیال میں کسی نے بھی دنیا سے جانے والے کی جنت جہنم کا فیصلہ کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ البتہ ایک واقعہ جو پیش آیا ، اسکے پس منظر، پیش منظر اور عواقب و جوانب اپنے اپنے نقطہ نظر سے جسکو جیسے نظر آئے، وہ بیان کر رہے ہیں لوگ۔ :)
 
کیا اسے ہم ایسے نہیں لے سکتے کہ ایک جنگجو جو اسلام کی مخالفت میں شہرت رکھتا تھا اسلام لانے کے بعد جب اسے اپنے سابقہ رویوں کی وجہ سے اس قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑا جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے تو اس نے حضور سے ملاقات کر کے اپنا کردار ادا کرنے اور اہمیت بنانے کی کوشش کی ہو۔ایک فطری تقاضا، اور حضور کی ذات تو ایسی تھی کہ ہر ایک کی خواہش ہوتی تھی کہ ان سے کچھ نسبت بن جائے ۔ جو کہ بعد کی ہونے والی جنگوں میں ان کے اور ان کے خاندان کے کردار سے واضع ہو گیا کہ انہوں نے کتنی خدمات انجام دیں۔
یہ لیں مزید آسان الفاظ میں: کچھ الجھنوں کی سلجھن۔

معاويه از ديدگاه رسول اکرم صلي الله عليه وسلم

معاويه -رضي الله عنه- پس از اظهار نمودن اسلام خويش در روز فتح مکه، به يکی از نزديکان و مقربان جناب رسول الله -صلي الله عليه وسلم- تبديل شد، تا جايی که در سلک کاتبان وحی الهی در آمده و اين بزرگترين شرف و کرامت است، که به جهت آن بسياری ازاوقات خويش را درمصاحبت وهمراهی جناب رسول الله -صلي الله عليه وسلم- بسر می برد.
نقل است که ابوسفيان نيز پس از اسلام آوردن به خاطر علاقه ای که به پيامبر -صلي الله عليه وسلم- داشت روزی در محضر رسول اکرم -صلي الله عليه وسلم- حاضر شد و گفت: يا رسول الله من قبل از اسلام آوردن در مقابل مسلمانان صف آرايی می کردم و بر عليه شماها شمشير می کشيدم، الان مرا دستور بده تا جبران گذشته بکنم و رسول الله -صلي الله عليه وسلم- در جواب فرمود: بله؛ سپس ابوسفيان گفت: يا رسول الله، معاويه را برای خدمت خويش قبول فرما و در کار کتابت و نوشتن نامه ها از او کار بگير.
رسول الله -صلي الله عليه وسلم- باز فرمود: بله؛ بعد از آن ابوسفيان به خاطر علاقه شديد به رسول اکرم -صلي الله عليه وسلم- فرمود: يا رسول الله -صلي الله عليه وسلم- می خواهم دختر کوچکم را نيز به عقد شما درآورم.
رسول الله -صلي الله عليه وسلم- برای خواسته سومی پاسخ منفی داد. چون در آن وقت دختر ديگر ابوسفيان، يعنی ((ام حبيبه)) را در نکاح داشت و فرمود: اين برايم حلال نيست که در يک زمان دو خواهر را در نکاح داشته باشم.
پس از آن معاويه-رضي الله عنه- مدام در خدمت رسول الله -صلي الله عليه وسلم- بود و بعد از ((زيد بن ثابت)) از جملهء مقربترين کاتبان رسول الله -صلي الله عليه وسلم- به شمار می رفت.
 
Top