اگر کوئی شخص 1981 کا سویا، آج 2023 میں اٹھے تو اسے سب سے زیادہ کیا چیز حیران کرے گی؟

محمد وارث

لائبریرین
اس سوال میں ایک چیز اہم تھی جس کا خیال نہیں رکھا گیا اوروہ یہ کہ سونے والا، سویا کس جگہ تھا۔ اگر وہ کسی بڑے میٹرو شہر میں سو یا تھا اور وہیں اٹھا تو ہکا بکا رہ جائے گا اور اگر وہ، مثال کے طور پر، پنجاب کے کسی دور افتادہ مقام یا اندرون سندھ یا بلوچستان کے کسی قبیلے میں سویا تھا تو شاید اسے کچھ تبدیلیاں تو محسوس ہوں لیکن بہت کچھ بدلا ہوا نہ ملے۔ بقولِ شخصے پاکستان کے دور افتادہ علاقوں میں آج بھی کھیتی باڑی کے وہی طریقے ہیں جو کبھی ہزاروں سال قبل موہنجودڑو کے دور میں تھے!
 

محمد وارث

لائبریرین
اور اس سوال کا دوسرا جواب یہ ہے کہ میں نے اور میری عمر کے تمام "بزرگوں" نے یہ تبدیلیاں اپنے اوپر ہوتی ہوئی بنفس نفیس بچشم خود دیکھی ہیں۔ میں ستر کی دہائی کے اختتام اور اَسی کی دہائی کے اوائل کے مناظر کیسے بھول سکتا ہوں، جب کسی کسی گھر میں ٹی وی ہوتا تھا اور اگر کسی گھر میں وی سی آر آ جاتا تھا تو وہاں شادی کا سا سماں بن جاتا تھا اور پورا محلہ ایک ساتھ فلم دیکھتا تھا اور اب آمنے سامنے بیٹھے میاں بیوی اور بچے سب اپنی اپنی پسند اپنے فون پر دیکھ رہے ہوتے ہیں اور ساتھ والے کو کچھ خبر نہیں ہوتی اور نہ وہ خبر رکھنا چاہتا ہے۔ میں نے سب دیکھا ہے، مجھے سب یاد ہے۔۔۔۔۔۔۔اللہ اللہ
 

فرخ منظور

لائبریرین
1995 میں میری نانی جو کہ خط کی عادی تھیں انھیں جب میں ہر دوسرے تیسرے روزاپنے بھائی کی ای میل پڑھ کر سناتا تو وہ کہتیں کہ تم جھوٹ بول رہے ہو اتنی جلدی خط کیسے پہنچ سکتا ہے۔ میں ان کی سادہ لوحی پر مسکراتا اور انھیں سمجھانے کی کوشش کرتا کہ یہ کیسے ممکن ہوتا ہے لیکن وہ میری بات کا یقین نہ کرتیں۔ 1981 کے لوگوں کے لیے تو صرف ای میل ہی ایک حیران کن بات ہو گی چہ جائیکہ وہ انڈرائیڈ فون پر براہِ راست ایک دوسرے سے بات چیت کر رہے ہوں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اور اس سوال کا دوسرا جواب یہ ہے کہ میں نے اور میری عمر کے تمام "بزرگوں" نے یہ تبدیلیاں اپنے اوپر ہوتی ہوئی بنفس نفیس بچشم خود دیکھی ہیں۔ میں ستر کی دہائی کے اختتام اور اَسی کی دہائی کے اوائل کے مناظر کیسے بھول سکتا ہوں، جب کسی کسی گھر میں ٹی وی ہوتا تھا اور اگر کسی گھر میں وی سی آر آ جاتا تھا تو وہاں شادی کا سا سماں بن جاتا تھا اور پورا محلہ ایک ساتھ فلم دیکھتا تھا اور اب آمنے سامنے بیٹھے میاں بیوی اور بچے سب اپنی اپنی پسند اپنے فون پر دیکھ رہے ہوتے ہیں اور ساتھ والے کو کچھ خبر نہیں ہوتی اور نہ وہ خبر رکھنا چاہتا ہے۔ میں نے سب دیکھا ہے، مجھے سب یاد ہے۔۔۔۔۔۔۔اللہ اللہ

وارث بھائی! یہ جنریشن ایکس والا معاملہ ہے کہ جنہوں نے مختصر سےوقت میں بہت سی تبدیلیاں دیکھی ہیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
جنریشن ایکس سے متعلق ایک تحریر:

عمرانیات کے ماہرین کا خیال ہے کہ ہماری نسل کے افراد جن کی عمریں پینتالیس سال سے زائد ہے انہوں نے انسانی تاریخ میں دنیا کو سب سے زیادہ بدلتے ہوئے دیکھا، یہی ماہرین 1961ء سے 1981ء کے درمیان پیدا ہونیوالی نسل کو جنریشن ایکس کہتے ہیں۔ اس جنریشن نے بارشوں کے موسم میں ٹپکتے ہوئے چھت سے ڈاکئے کے ہاتھ سے لیتے ہوئے خط تک اور ٹاٹ سکول سے گمشدہ مرغی کی تلاش میں گاؤں چھان مارنے تک وہ دور دیکھا جس کے آخری چشم دید گواہ یا کردار بھی ہم ہی ہیں، یہی جنریشن ایکس ہی ہے، جس نے وی سی آر کی آمد بھی دیکھی اور اسے الوداع بھی کہا، ٹیپ ریکارڈ سے یو ایس بی تک کا سفر ٹی وی ڈرامہ دیکھنے کے لئے بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی رکھنے والے گھر کی خوشامد سے سمارٹ فونز تک، لیکن جب یہی نسل پرانے زمانے کے واقعات اور باتیں موجودہ ڈیجیٹل جنریشن کے سامنے بیان کرتی ہے تو وہ یا تو ایک طنزیہ قہقہہ لگاتے ہیں یا شدید حیرت کے ساتھ ان کی نظریں ہمارے چہروں پر جم جاتی ہیں۔

جنریشن گیپ یقیناً انسانی تہذیب میں ہر نسل اور ہر معاشرے کو ہمیشہ سہنا پڑا لیکن موجودہ دور میں جنریشن ایکس کو ڈیجیٹل جنریشن سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنے میں جس دشواری اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ ہماری نسل کو یقیناً انسانی تاریخ کی سب سے مظلوم اور قابل رحم نسل ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔

چونکہ جنریشن ایکس کا بچپن اور جوانی اس ماحول کے حصار میں رہی جس ماحول کو درپیش ضرورتوں نے مختلف روایات، رسوم و رواج رشتوں اور طرز زندگی کی بنیادوں پر کھڑا کیا تھا اور یہی ماحول صدیوں سے بہت ہی معمولی ردو بدل کے ساتھ بہت ہموار لیکن سست روی کے ساتھ تمام نسلوں کو ہمراہ لئے چلتا رہا یہی وجہ تھی کہ ایک نسل کو دوسری نسل کو سمجھنے اور انہیں کمیونیکیٹ کرنے میں زیادہ دشواری اور مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑتا جبکہ اس کے برعکس موجودہ دور کی دونوں نسلوں (جنریشن ایکس اور ڈیجیٹل جنریشن ) کو ایک شدید مشکل کا شکار ہونا پڑ رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ دور کے ڈیجیٹل انقلاب اور سمارٹ فون میں سمیٹتی ہوئی دنیا نے اسی طرز زندگی اور ماحول کو عملی طور پر رد کر دیا ہے۔جس سے پرانی نسل کا نہ صرف زندگی کا بڑا حصہ جڑا ہوا ہے بلکہ اس ماحول نے اس نسل کی بنیادی نفسیات کو تخلیق کرنے میں بھی انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے اور اسی ماحول کا اثر ہی ہے جس نے پرانی نسل کو رشتوں، ذاتی تعلقات اور رکھ رکھاؤ کے حوالے سے ذمہ دار اور حساس بنائے رکھا ہے جبکہ جدید نسل کے ہاں یہ رویہ کافی حد تک مفقود ہے مثلاً جنریشن ایکس دور دور تک رشتوں اور ٹبروں سے لے کر آباؤاجداد کی دوستیوں اور تعلقات کا گہرا ادراک اور شعور رکھتی ہے جبکہ ڈیجیٹل جنریشن کی پہنچ کزنز سے فیلوز تک محدود ہے لیکن دوسری طرف نئی نسل کمیونیکیشن کے جدید ذرائع استعمال کرتے ہوئے پوری دنیا کے کونے کونے سے ہر قسم کی معلومات چند سیکنڈ میں اپنے سیل فون کی سکرین پر اپنے سامنے پھیلا دیتی ہے۔جبکہ پرانی نسل عمومی طور پر اس حوالے سے کافی پسماندہ ہے، گویا علمی حوالے سے جدید نسل جبکہ فکری اور تہذیبی حوالے سے پرانی نسل کو برتری حاصل ہے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں نسلیں ایک دوسرے سے فاصلے بڑھانے اور دوری اختیار کرنے کی بجائے ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں جس کے انتہائی دور رس نتائج مرتب ہوں گے، جنریشن ایکس کے ہاں تجربے اور بصیرت کی فراوانی ہے جس میں یقیناً عمر کا عمل دخل بھی ہے لیکن جو ماحول اس نسل کو میسر تھا وہ موجودہ نسل کے حصے میں بہت کم آرہا ہے۔

یعنی ایک اجتماعی فضاء میں عملی طور پر سیکھنے کے مواقع نئی نسل کو اس طرح دستیاب نہیں جس طرح جنریشن ایکس نے اس کی دستیابی سے فائدہ اٹھایا، یہی وہ اجتماعی بصیرت سے بھر پور طرز زندگی تھی جو باپ سے لے کر عام بزرگوں تک نئی نسل کو وزڈم اور تجربہ بخشتی رہی، چونکہ یہ نسل عملی طور پر اس میں خود بھی کردار ادا کرتی رہی اس لئے اس کے ہاں پختگی اور سمجھ بدرجہ اتم موجود ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہ لیا جائے کہ نئی نسل اس حوالے سے مکمل طور پر بے بہرہ ہے چونکہ جنریشن ایکس کی موجودگی اور تاریخ کی پرچھائیاں ابھی تک پوری توانائی کے ساتھ اپنی موجودگی کا احساس دلارہی ہیں اس لئے ماضی کے تجربے اور مشاہدے میں اس کی دلچسپی ایک فطری امر ہے۔جسے نئی نسل کا تاریخی شعور بنانے کی اشد ضرورت ہے اس کے ساتھ ساتھ جنریشن ایکس پر بھی لازم ہے کہ وہ عصری شعور اور ارتقائی عمل کے ساتھ اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنے کے لئے ڈیجیٹل جنریشن کے تجربے سے استفادہ کرے۔

تجربہ اور تاریخ ترقی اور جدت کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلے تو ایک ایسی نسل تخلیق پا سکتی ہے جس کی جڑیں زمیں کی گہرائی میں اور شاخیں آسمان کی وسعتوں تک پھیلی ہوں گی۔لازم ہے کہ نئی نسل ہر وقت سیل فون پر جھکنے اور انٹر نیٹ میں گھسنے سے کچھ وقت نکال کر فنا ہوتی ہوئی نسل کے تجربے اور مشاہدے کو بھی سمیٹ لے تاکہ تاریخ کا امین کوئی تو ہو۔ساتھ ساتھ پرانی نسل یعنی جنریشن ایکس کو بھی چاہئیے کہ عصری تقاضوں کو زندگی کا حصہ بنائے، محض ناسٹیلجیا کے مریض بن کر روایات اور تاریخ کی قبروں پر نوحہ خوانی کا فائدہ کوئی نہیں۔
https://sunonews.tv/25/11/2023/latest/56185/
تحریر: حماد حسن
 

محمداحمد

لائبریرین
مجھے تو اس بات کی بڑی خوشی ہوتی ہے کہ میں نے وہ دور دیکھا کہ جب خط لکھے جاتے تھے، اخبار، رسالے اور کتابیں پڑی جاتی تھیں۔

میں نے خط لکھے بھی اور وصول بھی کیے۔ کیسٹ پر موسیقی بھی سنی۔ کتابیں بھی پڑھیں۔ ہر طرح کے انڈور اور آؤٹ ڈور کھیل بھی کھیلے۔ اور پھر بعد میں ٹیکنالوجی سے بھی رفتہ رفتہ فیض یاب ہوتا گیا۔ یہ سب کے سب واقعی بے حد دلچسپ تجربات رہے ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
جنریشن ایکس سے متعلق ایک تحریر:

عمرانیات کے ماہرین کا خیال ہے کہ ہماری نسل کے افراد جن کی عمریں پینتالیس سال سے زائد ہے انہوں نے انسانی تاریخ میں دنیا کو سب سے زیادہ بدلتے ہوئے دیکھا، یہی ماہرین 1961ء سے 1981ء کے درمیان پیدا ہونیوالی نسل کو جنریشن ایکس کہتے ہیں۔ اس جنریشن نے بارشوں کے موسم میں ٹپکتے ہوئے چھت سے ڈاکئے کے ہاتھ سے لیتے ہوئے خط تک اور ٹاٹ سکول سے گمشدہ مرغی کی تلاش میں گاؤں چھان مارنے تک وہ دور دیکھا جس کے آخری چشم دید گواہ یا کردار بھی ہم ہی ہیں، یہی جنریشن ایکس ہی ہے، جس نے وی سی آر کی آمد بھی دیکھی اور اسے الوداع بھی کہا، ٹیپ ریکارڈ سے یو ایس بی تک کا سفر ٹی وی ڈرامہ دیکھنے کے لئے بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی رکھنے والے گھر کی خوشامد سے سمارٹ فونز تک، لیکن جب یہی نسل پرانے زمانے کے واقعات اور باتیں موجودہ ڈیجیٹل جنریشن کے سامنے بیان کرتی ہے تو وہ یا تو ایک طنزیہ قہقہہ لگاتے ہیں یا شدید حیرت کے ساتھ ان کی نظریں ہمارے چہروں پر جم جاتی ہیں۔

جنریشن گیپ یقیناً انسانی تہذیب میں ہر نسل اور ہر معاشرے کو ہمیشہ سہنا پڑا لیکن موجودہ دور میں جنریشن ایکس کو ڈیجیٹل جنریشن سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنے میں جس دشواری اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ ہماری نسل کو یقیناً انسانی تاریخ کی سب سے مظلوم اور قابل رحم نسل ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔

چونکہ جنریشن ایکس کا بچپن اور جوانی اس ماحول کے حصار میں رہی جس ماحول کو درپیش ضرورتوں نے مختلف روایات، رسوم و رواج رشتوں اور طرز زندگی کی بنیادوں پر کھڑا کیا تھا اور یہی ماحول صدیوں سے بہت ہی معمولی ردو بدل کے ساتھ بہت ہموار لیکن سست روی کے ساتھ تمام نسلوں کو ہمراہ لئے چلتا رہا یہی وجہ تھی کہ ایک نسل کو دوسری نسل کو سمجھنے اور انہیں کمیونیکیٹ کرنے میں زیادہ دشواری اور مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑتا جبکہ اس کے برعکس موجودہ دور کی دونوں نسلوں (جنریشن ایکس اور ڈیجیٹل جنریشن ) کو ایک شدید مشکل کا شکار ہونا پڑ رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ دور کے ڈیجیٹل انقلاب اور سمارٹ فون میں سمیٹتی ہوئی دنیا نے اسی طرز زندگی اور ماحول کو عملی طور پر رد کر دیا ہے۔جس سے پرانی نسل کا نہ صرف زندگی کا بڑا حصہ جڑا ہوا ہے بلکہ اس ماحول نے اس نسل کی بنیادی نفسیات کو تخلیق کرنے میں بھی انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے اور اسی ماحول کا اثر ہی ہے جس نے پرانی نسل کو رشتوں، ذاتی تعلقات اور رکھ رکھاؤ کے حوالے سے ذمہ دار اور حساس بنائے رکھا ہے جبکہ جدید نسل کے ہاں یہ رویہ کافی حد تک مفقود ہے مثلاً جنریشن ایکس دور دور تک رشتوں اور ٹبروں سے لے کر آباؤاجداد کی دوستیوں اور تعلقات کا گہرا ادراک اور شعور رکھتی ہے جبکہ ڈیجیٹل جنریشن کی پہنچ کزنز سے فیلوز تک محدود ہے لیکن دوسری طرف نئی نسل کمیونیکیشن کے جدید ذرائع استعمال کرتے ہوئے پوری دنیا کے کونے کونے سے ہر قسم کی معلومات چند سیکنڈ میں اپنے سیل فون کی سکرین پر اپنے سامنے پھیلا دیتی ہے۔جبکہ پرانی نسل عمومی طور پر اس حوالے سے کافی پسماندہ ہے، گویا علمی حوالے سے جدید نسل جبکہ فکری اور تہذیبی حوالے سے پرانی نسل کو برتری حاصل ہے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں نسلیں ایک دوسرے سے فاصلے بڑھانے اور دوری اختیار کرنے کی بجائے ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں جس کے انتہائی دور رس نتائج مرتب ہوں گے، جنریشن ایکس کے ہاں تجربے اور بصیرت کی فراوانی ہے جس میں یقیناً عمر کا عمل دخل بھی ہے لیکن جو ماحول اس نسل کو میسر تھا وہ موجودہ نسل کے حصے میں بہت کم آرہا ہے۔

یعنی ایک اجتماعی فضاء میں عملی طور پر سیکھنے کے مواقع نئی نسل کو اس طرح دستیاب نہیں جس طرح جنریشن ایکس نے اس کی دستیابی سے فائدہ اٹھایا، یہی وہ اجتماعی بصیرت سے بھر پور طرز زندگی تھی جو باپ سے لے کر عام بزرگوں تک نئی نسل کو وزڈم اور تجربہ بخشتی رہی، چونکہ یہ نسل عملی طور پر اس میں خود بھی کردار ادا کرتی رہی اس لئے اس کے ہاں پختگی اور سمجھ بدرجہ اتم موجود ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہ لیا جائے کہ نئی نسل اس حوالے سے مکمل طور پر بے بہرہ ہے چونکہ جنریشن ایکس کی موجودگی اور تاریخ کی پرچھائیاں ابھی تک پوری توانائی کے ساتھ اپنی موجودگی کا احساس دلارہی ہیں اس لئے ماضی کے تجربے اور مشاہدے میں اس کی دلچسپی ایک فطری امر ہے۔جسے نئی نسل کا تاریخی شعور بنانے کی اشد ضرورت ہے اس کے ساتھ ساتھ جنریشن ایکس پر بھی لازم ہے کہ وہ عصری شعور اور ارتقائی عمل کے ساتھ اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنے کے لئے ڈیجیٹل جنریشن کے تجربے سے استفادہ کرے۔

تجربہ اور تاریخ ترقی اور جدت کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلے تو ایک ایسی نسل تخلیق پا سکتی ہے جس کی جڑیں زمیں کی گہرائی میں اور شاخیں آسمان کی وسعتوں تک پھیلی ہوں گی۔لازم ہے کہ نئی نسل ہر وقت سیل فون پر جھکنے اور انٹر نیٹ میں گھسنے سے کچھ وقت نکال کر فنا ہوتی ہوئی نسل کے تجربے اور مشاہدے کو بھی سمیٹ لے تاکہ تاریخ کا امین کوئی تو ہو۔ساتھ ساتھ پرانی نسل یعنی جنریشن ایکس کو بھی چاہئیے کہ عصری تقاضوں کو زندگی کا حصہ بنائے، محض ناسٹیلجیا کے مریض بن کر روایات اور تاریخ کی قبروں پر نوحہ خوانی کا فائدہ کوئی نہیں۔
جنریشن ایکس
تحریر: حماد حسن
اس تحریر کی کئی ایک باتوں سے اتفاق کیا جا سکتا ہے اور بہت سی باتوں سے اختلاف۔ مثال کے طور پر میں اگر جنریشن ایکس کا رکن ہوں تو میرے والدین کی جو بھی ماہرین عمرانیات کے حساب سے جنریشن بنتی ہے اس میں اتنا ہی فرق تھا جتنا ایکس اور ما بعد کی جنریشن میں ہے۔ ہمارے والدین بھی ہم سے اتنے ہی نالاں تھے جتنے کے آج کل کےوالدین اپنے بچوں سے ہیں، ہم بھی کھانے پر ایسے ہی ضد کرتے تھے جیسے اب ہمارے بچے کرتے ہیں و علی ہذا القیاس۔ یہ سلسلہ شاید ابد تک چلتا رہے گا، اور جنریشن ایکس نے اس دور میں سب سے زیادہ تبدیلیاں دیکھی ہیں تو اس جنریشن کا سوچیے جس نے پہیہ ایجاد ہونے کے بعد دنیا کو دیکھا ہوگا۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
اس تحریر کی کئی ایک باتوں سے اتفاق کیا جا سکتا ہے اور بہت سی باتوں سے اختلاف۔ مثال کے طور پر میں اگر جنریشن ایکس کا رکن ہوں تو میرے والدین کی جو بھی ماہرین عمرانیات کے حساب سے جنریشن بنتی ہے اس میں اتنا ہی فرق تھا جتنا ایکس اور ما بعد کی جنریشن میں ہے۔ ہمارے والدین بھی ہم سے اتنے ہی نالاں تھے جتنے کے آج کل کےوالدین اپنے بچوں سے ہیں، ہم بھی کھانے پر ایسے ہی ضد کرتے تھے جیسے اب ہمارے بچے کرتے ہیں و علی ہذا القیاس۔ یہ سلسلہ شاید ابد تک چلتا رہے گا، اور جنریشن ایکس نے اس دور میں سب سے زیادہ تبدیلیاں دیکھی ہیں تو اس جنریشن کا سوچیے جس نے پہیہ ایجاد ہونے کے بعد دنیا کو دیکھا ہوگا۔ :)

جی وارث بھائی! یہ بات بھی آپ کی درست ہے کہ کچھ چیزیں تو خیر ایک سی ہی رہتی ہیں۔
 

زیک

مسافر
عمرانیات کے ماہرین کا خیال ہے کہ ہماری نسل کے افراد جن کی عمریں پینتالیس سال سے زائد ہے انہوں نے انسانی تاریخ میں دنیا کو سب سے زیادہ بدلتے ہوئے دیکھا
ایک وہ جنریشن بھی تھی جس نے بچپن تانگوں پر سفر کرتے گزارا اور پھر کار سے ہوائی جہاز تک میں سفر کیا۔ انسان کو چاند پر جاتے دیکھا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ایک وہ جنریشن بھی تھی جس نے بچپن تانگوں پر سفر کرتے گزارا اور پھر کار سے ہوائی جہاز تک میں سفر کیا۔ انسان کو چاند پر جاتے دیکھا۔
کافی حد تک منحصر ہے اس بات پر کہ اس کا بستر کہاں تھا جس پر وہ سویا ۔
اور ہم اس نسل کے نمائندے ہیں جو چاند پر اترنے کے ربع صدی بعد بھی تانگے میں سکول جاتے رہے ۔ اور آج اردو محفل پر بیٹھے ہیں :) ۔
 
Top