اک ترا غم ہے اور بس میں ہوں۔

ایم اے راجا

محفلین
ایک غزل جو کافی پہلے کہی تھی آج آپکی اصلاح و رائے کی نذر کرتا ہوں۔

اک ترا غم ہے اور بس میں ہوں
رات نم نم ہے اور بس میں ہوں

حسنِ دلبر ہے ، شانِ دلبر ہے
زلف کا خم ہے اور بس میں ہوں

چھیڑ ڈالا ہے ساز یہ کس نے
ہر طرف غم ہے اور بس میں ہوں

جاؤں قربان خواب پر اپنے
شہرِ زم زم ہے اور بس میں ہوں

شام تنہا ہے ، رات تنہا ہے
جشنِ شبنم ہے اور بس میں ہوں

دل میں جب سے یہ عشق اترا ہے
چشمِ پرنم ہے اور بس میں ہوں

اک سمندر ہے ٹوٹی کشتی ہے
بادِ برہم ہے اور بس میں ہوں

جب سے جانا ہے ذات کو تیری
درد باہم ہے اور بس میں ہوں

چار سو تیرگی سی ہے راجا
اِک عجب رم ہے اور بس میں ہوں
 

ظفری

لائبریرین
واہ جناب بہت خوب مزا آگیا ۔
حسنِ دلبر ہے ، شانِ دلبر ہے
زلف کا خم ہے اور بس میں ہوں

کیا بات ہے ۔۔۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بنیادی طور پر انتہائی اچھی غزل ہے راجا صاحب، آپ کے کلام میں بہتری کے واضح آثار ہیں اس غزل میں، کچھ مصرعے معمولی ترامیم سے مزید رواں ہو جائیں گے، سب سے اچھی بات یہ کے ردیف پوری غزل میں کہیں بھی لاتعلق نہیں ہوئی۔ بہت خوب!
 

الف عین

لائبریرین
اک ترا غم ہے اور بس میں ہوں
رات نم نم ہے اور بس میں ہوں
///شعر وزن میں بھی ہے، اور درست بھی۔ اگرچہ ’نم نم‘ کچھ کھٹک رہا ہے۔

حسنِ دلبر ہے ، شانِ دلبر ہے
زلف کا خم ہے اور بس میں ہوں
/// پہلا مصرع بدلو دو تو اچھا ہے، جیسے
رخ جاناں کا یوں تصور ہے

چھیڑ ڈالا ہے ساز یہ کس نے
ہر طرف غم ہے اور بس میں ہوں
/// شعر دو لخت ہے، دونوں مصرع الگ الگ مفہوم دے رہے ہیں۔

جاؤں قربان خواب پر اپنے
شہرِ زم زم ہے اور بس میں ہوں
/// درست

شام تنہا ہے ، رات تنہا ہے
جشنِ شبنم ہے اور بس میں ہوں
///پہلا مصرع تو بے پناہ ہے، لیکن دوسرا مصرع۔۔ کیا مفہوم ہے؟ جشنِ شبنم؟ شام اور رات کیا علیحدہ علیحدہ ہیں؟

دل میں جب سے یہ عشق اترا ہے
چشمِ پرنم ہے اور بس میں ہوں
/// یہاں بھی پہلا مصرع درست سہی، لیکن دوسرے مصرع کے معیار کا نہیں ہے۔

اک سمندر ہے ٹوٹی کشتی ہے
بادِ برہم ہے اور بس میں ہوں
/// مزاج برہم ہوتا ہے، مزاجِ باد کہا جا سکتا ہے، مثلاً
ٹوٹی کشتی ہے، اور ہوا کا مزاج
آج برہم ہے۔۔۔۔
اس طرح روانی بھی بڑھ جاتی ہے۔

جب سے جانا ہے ذات کو تیری
درد باہم ہے اور بس میں ہوں
/// جاننے سے درد کا کیا تعلیق؟

چار سو تیرگی سی ہے راجا
اِک عجب رم ہے اور بس میں ہوں
یہاں بھی شعر دو لخت ہے، رم سے تیرگی کا کیا رشتہ؟

راجا، اب تمہارا معیار بہتر ہو رہا ہے، اس لئے اصلاح کا معیار بھی بڑھا رہا ہوں۔ اب ذرا سختی سے دیکھوں گا، برا مت ماننا۔
 

ایم اے راجا

محفلین
استاد میں سمجھ گیا ہوں کہ اب آپ کی اصلاح بہت سخت ہوتی جا رہی ہے، لیکن ہم بھی ذرا کوشش کرتے ہیں سخت ہونے کی :) ، باقی میں دوبارہ دیکھتا ہوں آج رات لگاتا ہوں اس پر، انشاء اللہ۔
 

mfdarvesh

محفلین
بہت خوب، راجا صاحب مجھے تو ایسے بھی اچھی لگ رہی ہے، استاد محترم تو استاد ہے نا، شکریہ آپ کا بھی
 

ایم اے راجا

محفلین
کچھ تبدیلیوں کے بعد غزلِ بالا دوبارہ عرض ہے۔

اک ترا غم ہے اور بس میں ہوں
رات نم نم ہے اور بس میں ہوں

یادِ دلبر ہے، حسنِ دلبر ہے
زلف کا خم ہے اور بس میں ہوں

ساز چھیڑا ہے زیست نے کیسا
ہر طرف غم ہے اور بس میں ہوں

جاؤں قربان خواب پر اپنے
شہرِ زم زم ہے اور بس میں ہوں

رات بھیگی ہے آنکھ بھیگی ہے
رقصِ شبنم ہے اور بس میں ہوں

دل میں جب سے یہ عشق اترا ہے
چشمِ پرنم ہے اور بس میں ہوں

اک سمندر ہے، ٹوٹی کشتی ہے
بادِ برہم ہے اور بس میں ہوں

جب سے کھویا ہوں ذات میں تیری
درد باہم ہے اور بس میں ہوں

دشت ہے اور تیرگی راجا
دل میں اک رم ہے اور بس میں ہوں
 

عین عین

لائبریرین
راجا اچھی غزل ہے۔ واقعی معیار کی طرف جارہے ہو۔ میں نے پہلے بھی دو غزلوں پر کہا تھا کہ بالکل پسند نہیں آئین۔ ان میں خیال کوئی خاص نہیں تھا۔ تک بندی سی معلوم ہوئی تھی۔ یہ اچھی کاوش ہے۔ امید ہے تم مزید عمدہ غزلیں پیش کرو گے اور سطحی خیالات پیش کرنے سے دور رہو گے۔ نئے شعرا کا مطالعہ بھی کرو، میرا مشورہ ہے۔ کئی نام اچھے ہیں۔ میں کسی ایک شاعر کی بات نہیں کر رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو بھی ہاتھ لگے پڑھو۔ مشکل ردیف اور قافیے کا چناؤ خاص طور پر مت کرو۔ عام قافیے اور ردیفیں اور غیر دشوار زمین پر ہو تو خود بخود نکھرتا جائے گا فن، اور میں اکثر کرتا تھا کہ کسی سے کوئی مصرع مانگ لیتا تھا اور اس پر غزل کہتا تھا۔ تم الف عین اور وارث بھائی سے کوئی مصرع لیا کرو اور اس پر غزل کہو۔ یہ تجربہ اچھا رہے گا۔
 
Top