احمد جاوید ہوراں ایہ گل پنجابیاں لئی آکھی سی۔![]()
اپنی زبان کو چھوڑنا ایسا ہی ہے جیسے اپنے ماں باپ کو عاق کر دینا
(احمد جاوید صاحب)
ہم بھی حیران ہیں، پرائمری مادری زبان پھر اردو آخر میں انگلش
تعلیمی بجٹ اتنا نہیں پہلے سے پورا نہیں ہورہاایک تجویز یہ بھی ہے کہ ہر صوبے میں دوسرے صوبے کی زبان پڑھائی جائے۔
مثلا کے پی کے میں پنجابی اور سندھی میں سے ایک مضمون ، پنجاب میں پشتو اور سندھی میں سے ایک مضمون اور سندھ میں پنجابی اور پشتو میں سے ایک مضمون بچوں کو پڑھایا جائے۔
پاکستان کے کثیر اللسانی معاشرے کا تضاد یہ ہے کہ ہم بیرونی ممالک کی زبانیں تو سیکھنا چاہتے ہیں لیکن اپنے ملک کی زبانیں سیکھنے کی طرف توجہ نہیں ہے۔
غلط۔تعلیمی بجٹ اتنا نہیں پہلے سے پورا نہیں ہورہا
اچھی صلاح ہے۔ تاہم میں ذاتی طور پر یہ بھی سمجھتی ہوں کہ علم اور تعلیم دینا فقط اداروں کا فرض نہیں۔ وہ تو وہی کچھ کریں گے جس میں مفاد وغیرہ ہوگا قومی یا حکومتی یا جو بھی۔ ہم اپنے بچوں کو learning-how-to-learn سکھائیں۔ علم دوست بنائیں تاکہ وہ بس انہی چیزوں پہ نہ چلتے رہیں جو اوپر والوں نے کہہ دیں۔ آج کے دور میں کچھ بھی سیکھنا مسئلہ ہے ہی نہیں۔ مستقل مزاجی ہمیشہ سے مسئلہ تھی اور اب اٹینشن سپین بھی۔۔۔ایک تجویز یہ بھی ہے کہ ہر صوبے میں دوسرے صوبے کی زبان پڑھائی جائے۔
مثلا کے پی کے میں پنجابی اور سندھی میں سے ایک مضمون ، پنجاب میں پشتو اور سندھی میں سے ایک مضمون اور سندھ میں پنجابی اور پشتو میں سے ایک مضمون بچوں کو پڑھایا جائے۔
پاکستان کے کثیر اللسانی معاشرے کا تضاد یہ ہے کہ ہم بیرونی ممالک کی زبانیں تو سیکھنا چاہتے ہیں لیکن اپنے ملک کی زبانیں سیکھنے کی طرف توجہ نہیں ہے۔
پہلےایسٹ انڈیا کمپنی نے پنجاب پر قبضے کے بعد اس زبان پر پابندی لگائی پھر پاکستان بننے کے بعد اشرافیہ نے اس زبان کو نظر انداز کیا۔ پھر نجی سکولوں نے اس کو فاول لینگوئج کہا ، پھر دوسری زبانیں بولنے والوں نے اس کا ٹھٹھا اڑایا۔ اب بھی اس زبان کا حق نہیں کہ سکولوں میں پڑھائی جائے۔ افسوس !اچھی صلاح ہے۔ تاہم میں ذاتی طور پر یہ بھی سمجھتی ہوں کہ علم اور تعلیم دینا فقط اداروں کو فرض نہیں۔ وہ تو وہی کچھ کریں گے جس میں مفاد وغیرہ ہوگا قومی یا حکومتی یا جو بھی۔ ہم اپنے بچوں کو learning-how-to-learn سکھائیں۔ علم دوست بنائیں تاکہ وہ بس انہی چیزوں پہ نہ چلتے رہیں جو اوپر والوں نے کہہ دیں۔ آج کے دور میں کچھ بھی سیکھنا مسئلہ ہے ہی نہیں۔ مستقل مزاجی ہمیشہ سے مسئلہ تھی اور اب اٹینشن سپین بھی۔۔۔
میں ایسا نہیں کہہ رہی کہ حق نہیں۔۔۔میں یہ کہہ رہی ہوں کہ اوپر والوں کا مینڈیٹ اوپر والوں کے مفاد کے حساب سے ہوتا ہے اکثر۔۔۔پہلےایسٹ انڈیا کمپنی نے پنجاب پر قبضے کے بعد اس زبان پر پابندی لگائی پھر پاکستان بننے کے بعد اشرافیہ نے اس زبان کو نظر انداز کیا۔ پھر نجی سکولوں نے اس کو فاول لینگوئج کہا ، پھر دوسری زبانیں بولنے والوں نے اس کا ٹھٹھا اڑایا۔ اب بھی اس زبان کا حق نہیں کہ سکولوں میں پڑھائی جائے۔ افسوس !
پھر اردو انگریزی بھی بچوں کو خود ہی سکھا لیجیے سکولوں میں پڑھانے کی کیا ضرورت ہے؟
میں ایسا نہیں کہہ رہی کہ حق نہیں۔۔۔
تو اس سے ہمارا موقف کیسے غلط ہو گیا یا ہم اپنے اس موقف سے کیوں ہٹ جائیں کہ سکولوں میں پنجابی پڑھائی جائے۔میں یہ کہہ رہی ہوں کہ اوپر والوں کا مینڈیٹ اوپر والوں کے مفاد کے حساب سے ہوتا ہے اکثر۔۔۔
میں نے بالکل بھی ہٹنے کا نہیں کہا۔۔۔نہ غلط سمجھتئ ہوں۔ میں یہ کہہ رہی ہوں بس کہ جن حالات میں جو ہو سکتا ہو سیکھنے یا عمل میں وہ تو کرنا چاہیے۔ ہم اکثر آئیڈیل حالات لانے کی کوشش یا انتظار تو کرتے رہتے ہیں مگر جب وہ حالات آ بھی جاتے ہیں تب بھی وہ کام نہیں ہو پاتا۔ پہلا مقصد تو یہ ہے کہ اندر اس شے کی بھوک ہو (یعنی اب بچوں میں)۔تو اس سے ہمارا موقف کیسے غلط ہو گیا یا ہم اپنے موقف سے کیوں ہٹ جائیں کہ سکولوں میں پنجابی پڑھائی جائے۔
کیا شاہ مکھی میں پنجابی کی ہر لیول کی تدریسی کتب ہیں؟تو اس سے ہمارا موقف کیسے غلط ہو گیا یا ہم اپنے اس موقف سے کیوں ہٹ جائیں کہ سکولوں میں پنجابی پڑھائی جائے۔