اپنی برہنہ پائی پر۔۔ اعجاز عبید

الف عین

لائبریرین
اب کتنی فصلیں بیت گئیں ۔۔ اب یاد وہ کیا ہمیں آئیں بھی
وہ زخم جو اب کی بھر بھی گئے، اب آؤ انہیں سہلائیں بھی
یہ آنکھیں خزاں میں زرد رہیں ۔ یہ آنکھیں بہار میں سرخ رہیں
جب پھول کھلیں تو جل جائیں ۔ جب چاند بجھے مرجھائیں بھی
وہ قافلے شاہ سواروں کے اب دھول اڑاتے گزر گئے
یہ شہر پناہ کھلی رکھو شاید کہ وہ واپس آئیں بھی
اب اور ہمیں دکھ دینے کو وہ شخص نہیں آنے والا
اب بیٹھے اپنے زخم گنیں، اپنے دل کو سمجھائیں بھی
اب تو یہ چاند بھی ڈوب چلا، اب آؤ عبیدؔ ادھر آؤ
دیکھو ۔ یہ الاؤ جلا ہے ادھر ۔۔ بیٹھو ۔۔ کچھ دل بہلائیں بھی

1976ء
 

الف عین

لائبریرین
جس بار بھی ہم اس سے جدا ہونے لگے ہیں
لگتا ہے گنہ گارِ جفا ہونے لگے ہیں
وہ چہرہ نظر آتے ہی کھل جاتی ہیں آنکھیں
اب خواب بہت خواب رُبا ہونے لگے ہیں
خود پر ہی چلانے کی جنھیں مشق بہم تھی
اب سارے وہی تیر خطا ہونے لگے ہیں
اب شاہ نشینوں پہ نہیں کوئی بھی منظر
اب ظلم ان آنکھوں پہ سوا ہونے لگے ہیں
آنکھوں میں چھپانے میں بہت طاق تھے جن کو
لو، دکھ وہی شعروں میں ادا ہونے لگے ہیں

1977ء
 

الف عین

لائبریرین
تیرے دامن کی تھی ۔ یا مست ہوا کس کی تھی
ساتھ میرے چلی آتی وہ صدا کس کی تھی
کون مجرم ہے کہ دوری ہے وہی پہلی سی
پاس آ کر چلے جانے کی ادا کس کی تھی
دل تو سلگا تھا مگر آنکھوں میں آنسو کیوں آئے
مل گئی کس کو سزا اور خطا کس کی تھی
شام آتے ہی اتر آئے مرے گاؤں میں رنگ
جس کے یہ رنگ تھے ، جانے وہ قبا کس کی تھی
یہ مرا دل ہے کہ آنکھیں ، کہ ستاروں کی طرح
جلنے بجھنے کی سحر تک، یہ ادا کس کی تھی
چاندنی رات گھنے نیم تلے کوئی نہ تھا
پھر فضاؤں میں وہ خوشبوئے حنا کس کی تھی

1977ء
 

الف عین

لائبریرین
کس سے ملا چاہیے، کس سے جفا پائیے، کس سے وفا کیجیئے
یہ تو عجب شہر ہے ، دل بھی لگائیں کہاں، کس سے لڑا کیجیئے
رات میں کرنوں کی جنگ، دشت میں اک جل ترنگ ، دیدۂ حیراں کا رنگ
حلقۂ زنجیر تنگ، کیسے شعاعِ نظر اپنی رِہا کیجیئے
آشیاں کتنے بچے، کتنے گھروندے گرے ، کون یہ گنتا پھرے
رات کی آندھی کے بعد سر پہ ہے دستار تو! ۔۔۔ شکر ادا کیجیئے
زور ہوا کا عجب، شور ہوا کا غضب ، ٹوٹتے گرتے ہیں سب
اپنی ہی آواز تک کانوں میں آتی نہیں، کس کی سنا کیجیئے
کیسے لٹی سلطنت ، کیسے مٹی تمکنت ، ہم بھی کبھی شاہ تھے
جو یہ بتائے ہمیں، اب وہ رعایا کہاں، ذکر بھی کیا کیجیئے
آبلہ پا تھے تو ہم، اور بھی کچھ چاہ تھی؟ اپنی یہ کیا راہ تھی!
دشت وفا چھوڑ کر آج ہم آئے کہاں، کس سے پتا کیجیئے
شب کے مسافر عبیدؔ، ایک ہیں شاعر عبیدؔ، قانع و صابر عبیدؔ
ان کو نہ کچھ دیجیے، ان سے نہ کچھ لیجیے، شعر پڑھا کیجیے

1977ء
 

الف عین

لائبریرین
وہ لغت نگار بھی تھا مرا درد آشنا ہی
مری زندگی کے معنی جو رقم کئے تباہی
کوئی موڑ ، شہ نشیں پر، ہو کوئی چراغ روشن
مجھے یاد جو دلا دے مرے گھر کا راستہ ہی
مرے جاں نشین لوگو، مرا ننگا سر نہ دیکھو
مرے بعد تم رکھو گے وہی میری کج کلاہی
مرے رب تو اس کے آنچل میں خوشی کے رنگ بھر دے
مجھے جس نے غم دیئے ہیں مرے ظرف سے سوا ہی
مرے آنسوؤں کے موتی ، تری نور نور آنکھیں
تری آنکھ کا ہے کاجل مری رات کی سیاہی
وہ جو ایک پل لگی تھی مری آنکھ آخرِ شب
مجھے یاد آیا تیرا وہ نویدِ صبح گاہی

1977ء
 

الف عین

لائبریرین
تجھ چشم نمی گواہ رہیو
مجھ دل کی لگی گواہ رہیو
اُن آنکھوں کی سازشیں عجب ہیں
اے سادہ دلی ۔ گواہ رہیو
آنکھیں بھی ہیں خشک ، چپ بھی ہوں میں
شائستہ لبی ، گواہ رہیو
مجھ لب پہ نہ اس کا نام آیا
اے نزع دمی ، گواہ رہیو
ٹھہروں بھی تو کیا زمیں رکے گی؟
پیہم سفری ، گواہ رہیو
تم بِن نہ کبھی قرار آیا
بستر شکنی ، گواہ رہیو
اوروں سا تمہیں بھی میں نے چاہا
تم خود بھی کبھی گواہ رہیو

1977ء
 

الف عین

لائبریرین
شہ مقدّر میں شہ کو مات کہاں
وہ کہاں ، اپنی یہ بساط کہاں
چاندنی قطرہ قطرہ پی ڈالو
آج کے بعد ایسی رات کہاں
اب کسی راہ میں چراغ نہیں
اب مرے ہاتھ اس کے ہاتھ کہاں
سنگ بن کر کہیں ٹھہر جائے
دل کی چپ میں کچھ ایسی بات کہاں
رات بھر شمع لے کے ہاتھوں میں
ایسے پھرتی ہیں راہبات کہاں
آ کے اس دل میں کچھ ٹھہر جائے
یوں بھٹکتی پھرے گی رات کہاں
صرف میدانِ کربلا ہے عبیدؔ
اب وہ دجلہ کہاں فرات کہاں

1977ء
 

الف عین

لائبریرین
تھی ساتھ یاد تری، تیز گام کیا کرتا
قدم قدم پہ نہ رکتا تو کام کیا کرتا
اٹھا اور اُٹھ کے ترے شہر میں ہی جادہ کیا
سفر تو پاؤں میں تھا اہتمام کیا کرتا
یہی بہت ہے شکم پُر ہے اور تن پہ لباس
ترے بغیر میں کچھ تام جھام کیا کرتا
پہاڑ سی سہی، خوابوں میں بیت جاتی رات
مگر بتا کہ سحر کو میں شام کیا کرتا
زباں سکوت کی میں نے کبھی نہ سیکھی تھی
میں اپنی خلوتِ دل سے کلام کیا کرتا
تری ہی نام کا حصہ بنا رہے تا حشر
سوائے اس کے بھلا میرا نام کیا کرتا

1977ء
 

الف عین

لائبریرین
گلے لگ کر مرے وہ جانے ہنستا تھا کہ روتا تھا
نہ کھِل کر دھوپ پھیلی بھی نہ بادل کھُل کے برسا تھا
کبھی دل بھی نہیں، اک زخم ، آنکھوں کی جگہ آنسو
کبھی میں بھی نہ تھا، بس ڈائری میں شعر لکھا تھا
وہ ہر پل ساتھ ہے میرے، کہاں تک اس کو میں دیکھوں
گئے وہ دن کہ اس کے نام پر بھی دل دھڑکتا تھا
یہاں پر کشتئِ جاں پر کئی مانجھی مقرر تھے
ادھر سازش تھی پانی کی، ادھر قضیہ ہَوا کا تھا
چھپا کر لے گیا اپنے دکھوں کو ساری دنیا سے
لگا تھا یوں تو ہم تم سا، وہ جادوگر بلا کا تھا

1977ء
 

الف عین

لائبریرین
میں نے کیا کام لاجواب کیا
اس کو عالم میں انتخاب کیا
کرم اس کے ستم سے بڑھ کر تھے
آج جب بیٹھ کر حساب کیا
کیسے موتی چھپائے آنکھوں میں
ہائے کس فن کا اکتساب کیا
کیسی مجبوریاں نصیب میں تھیں
زندگی کی کہ اک عذاب کیا
ساتھ جب گردِ کوئے یار رہی
ہر سفر ہم نے کامیاب کیا
کچھ ہمارے لکھے گئے قصّے
بارے کچھ داخلِ نصاب کیا
کیا عبیدؔ اب اسے میں دوں الزام
اپنا خانہ تو خود خراب کیا

1977ء
 

الف عین

لائبریرین
وہ مل گیا تھا رہِ خواب سے گزرتے ہوئے
میں سو گیا جو تھا پھر اس کا دھیان کرتے ہوئے
میں دیکھتا رہا دستار کو سنبھالے وہاں
تمام منظرِ دیوار دور بکھرتے ہوئے
کبھی دکھا تو نہ تھا مجھ کو اس کنارے پر
مجھے یہ کون ملا ساتھ پار اترتے ہوئے
کبھی افق کے پرے جاؤں ، دیکھوں شب کا سنگھار
کبھی تو دیکھو سکوں چاند کو سنورتے ہوئے
جو چار دن کے لیے گل لٹانے آیا تھا
چلا گیا وہ بہت دور اداس کرتے ہوئے

1978ء
 

الف عین

لائبریرین
(ناصر کی یاد میں)
(مسلسل)
آپ اپنا ہی دل دکھانا ہے
آج پھر اس کو چھوڑ جانا ہے
آج پھر قید ہو گئے بادل
دھوپ میں پھر بدن جلانا ہے
اپنے ہاتھوں سے فرش پر گر کر
شیشے کی طرح ٹوٹ جانا ہے
پھر وہ نرگس کے زرد پھولوں کو
داغ سینے کے جا دکھانا ہے
بجھ گئے قہقہوں کے آتشدان
خود کو اشکوں سے پھر جلانا ہے
شمع کی لو پہ ہاتھ رکھتے ہوئے
پھر سلگنے کی قسمیں کھانا ہے
پھر لہو سرخ ہوگئیں راتیں
پھر اندھیرے دنوں کو آنا ہے
لمبے، میلے، سلگتے رستوں پر
اپنے قدموں کو پھر تھکانا ہے
گود میں اس اندھیری شب کے چلو
کتنا آساں اسے بھلانا ہے
لکھ کے ایسے اداس شعر عبیدؔ
اپنی تنہائی کو سنانا ہے
(ق)
رات آئے تو بھیگے تکیے پر
خواب کی رہ میں شب بِتانا ہے
چلو آنکھیں تو اب بھی اپنی ہیں
خواب میں ہی پھر اس کو آنا ہے
کتنے شاداب ہیں یہ شب کے چِنار
ہم کو ملنے وہیں تو جانا ہے

1978ء
 

الف نظامی

لائبریرین

الف عین

لائبریرین
کچھ دعا بار یاب بھی دیکھوں
زندگی کے عذاب بھی دیکھوں
خشک آنکھیں ہوں تو مقابلتاً
کوئی گنگا چناب بھی دیکھوں
جو نہ کہہ پایا، لکھ دیا سارا
جو نہ دیکھا وہ خواب بھی دیکھوں
کچھ تو فرصت دے دل کی سوختگی
آبلوں کا حساب بھی دیکھوں
خواہشیں ختم ہو چکیں ساری
نیند آئے تو خواب بھی دیکھوں
مدتوں سے نہیں ملی فرصت
کچھ غزل کی کتاب بھی دیکھوں
کون سا سندباد ہوں میں عبیدؔ
جو سفر کامیاب بھی دیکھوں

1978ء
 

الف عین

لائبریرین
بجھ گئے بام دور نیند آنے لگی، شام کو اور ہم جاگتے رہ گئے
ڈور یادوں کی لے کر جو الجھی تھی یوں، ہاتھ میں صرف اپنے سِرے رہ گئے
شعر میرے، ترا پیار تھا جانے کیا، اسمِ اعظم تھا یا اللہ دیں کا دِیا
سب سے پہلے مجھے کیسے منزل ملی، راستے میں سبھی قافلے رہ گئے
چند راتوں کا کاجل، دِنوں کی چمک، چند خوابوں کے پھولوں کی جنگلی مہک
میں تو دست تہی اُن سے رخصت ہوا، میرے پیچھے بہت سلسلے رہ گئے
دل کے آنگن میں کل شب تماشہ ہوا، چاندنی مثلِ پازیب بجتی رہی
بریط و نغمہ و جام سب تھے مگر، صبح تک جھیل میں دائرے رہ گئے
گنگنانے لگیں گھر کی انگنائیاں، بج اٹھیں پائیں باغوں میں پُروائیاں
مدتوں بعد شعر اترے یوں عرش سے، کہکشاں کہکشاں راستے رہ گئے

1978ء
 

الف عین

لائبریرین
(ابن انشاء اور خلیل الرحمٰن اعظمی کی یاد میں)

جو جا چکے ہیں غالباً، اتریں کبھی زینہ ترا
اے کہکشاں! اے کہکشاں! روشن رہے رستا ترا
خونابۂ دل کی کشید، آخر کو ترے دم سے ہے
کہنے کو مرا مے کدہ، لیکن ہے مے خانہ ترا
پل بھر میں بادل چھا گئے اور خوب برساتیں ہوئیں
کل چودھویں کی رات میں کچھ یوں خیال آیا ترا
’’اے زندگی اے زندگی ‘کچھ ’روشنی‘‘کچھ ’’روشنی‘‘
چِلّا رہا تھا شہر میں مدت سے دیوانہ ترا
اب گایکوں میں نام ہے، ورنہ جو اپنے گیت تھے
وہ سارے دل کے زخم تھے، دراصل احساں تھا ترا
غزلیں مری تیرے لیے یادیں تری میرے لیے
یہ عشق ہے پونجی مری ، یہ شعر سرمایہ ترا

1978ء
 

الف عین

لائبریرین
تھا وہ جنگل کہ نگر یاد نہیں
کیا تھی وہ راہگزر یاد نہیں
یہ خیال آتا ہے، میں خوش تھا بہت
کس طرف تھا مرا گھر یاد نہیں
کیا تھی وہ شکل ، پہ بھولی تھی بہت
پیارا سا نام تھا، پر یاد نہیں
زخموں کے پھول ہیں دل میں اب بھی
کس نے بخشے تھے، مگر یاد نہیں
اک گھنی چھاؤں میں دن بیتا ہے
شب کہاں کی تھی بسر، یاد نہیں
ایک لمحہ تو دھڑکتا ہے ضرور
کئی صدیوں کا سفر یاد نہیں
طاق تھے داستاں کہنے میں عبیدؔ
اب بجز دیدۂ تر، یاد نہیں

1978ء
 
Top