اب کتنی فصلیں بیت گئیں ۔۔ اب یاد وہ کیا ہمیں آئیں بھی
وہ زخم جو اب کی بھر بھی گئے، اب آؤ انہیں سہلائیں بھی
یہ آنکھیں خزاں میں زرد رہیں ۔ یہ آنکھیں بہار میں سرخ رہیں
جب پھول کھلیں تو جل جائیں ۔ جب چاند بجھے مرجھائیں بھی
وہ قافلے شاہ سواروں کے اب دھول اڑاتے گزر گئے
یہ شہر پناہ کھلی رکھو شاید کہ وہ واپس آئیں بھی
اب اور ہمیں دکھ دینے کو وہ شخص نہیں آنے والا
اب بیٹھے اپنے زخم گنیں، اپنے دل کو سمجھائیں بھی
اب تو یہ چاند بھی ڈوب چلا، اب آؤ عبیدؔ ادھر آؤ
دیکھو ۔ یہ الاؤ جلا ہے ادھر ۔۔ بیٹھو ۔۔ کچھ دل بہلائیں بھی
1976ء