اپنی برہنہ پائی پر۔۔ اعجاز عبید

الف عین

لائبریرین
مہک اٹھے گا گل موج سے سمندر بھی
جو فصل آئی تو مہکیں گے رہ کے پتھر بھی
سزا ملی ہے مجھے اپنے جھوٹ کی شاید
کہ جی رہا ہوں، ابھی تک میں تجھ کو کھو کر بھی
نہ فصل، گل ادھر آئی نہ کشتِ زخم پھلی
نہ سینچ پائی اسے جوئے دیدۂ تر بھی
اب اور رنگ نہیں خوں میں تر سحر کے بعد
لو آج ٹوٹ گیا بازِ شب کا شہ پر بھی
دریچۂ شبِ ہجراں کا فضل ہے یہ عبیدؔ
وہ شعر اُترے ہیں، مرہم بھی ہیں جو نشتر بھی

1978ء
 

الف عین

لائبریرین
اس اندھیرے میں پھر دعا مانگوں
جلتے سورج کا سامنا مانگوں
پاؤں میں حلقۂ جنوں چاہوں
چہرے پر چشمِ خواب زا مانگوں
سر کا سودا تو رائیگاں ٹھہرا
پیر میں کوئی سلسلہ مانگوں
پا شکستہ کھڑا ہوں تیرے حضور
اب ہتھیلی میں آبلہ مانگوں
کیا خبر کوئی معجزہ ہو جائے
آج میں ننگے سر دعا مانگوں
کچھ ، بجز خود ، میں دے سکوں نہ تجھے
تجھ سے میں کیا ترے سوا مانگوں
سخنِ خوں چکاں ہی لکھوں عبیدؔ
عشق کی اور کیا سزا مانگوں

1978ء
 

الف عین

لائبریرین
دل کو کیسی بے چینی ہے
کیا جنگل میں آگ لگی ہے
کیا کیا نہ تجھ کو میں نے ستایا
اب چپ ہوں، جب سزا ملی ہے
تیرے ہاتھوں میں سونا ہے
میرے ہاتھوں میں مٹی ہے
ہاتھوں پر ترے ہونٹ نہیں ہیں
خوابوں والی رات ڈھلی ہے
کھلیانوں میں رکھ دو یادیں
ہوا یہ فصل جلا دیتی ہے
تجھ سے کیا کیا گلے کئے تھے
بدلے میں بس دعا ملی ہے
فصلِ گل رستے میں ہو شاید
آنکھوں میں کچھ نمی نمی ہے
ابھی ابھی محسوس ہوا ہے
تو کھڑکی سے جھانک رہی ہے
اب تو کانٹے بونے ہوں گے
پھولوں کی رُت بیت چلی ہے
میں خود اپنے پاس نہیں ہوں
کیسی ستم کی تنہائی ہے
کہتا ہوں پل پل ساتھ گزارا
لیکن یہ سب تحریری ہے
خط بھیجوں ، خود آؤں نہ آؤں
کہہ دے جو تیری مرضی ہے
تیرے بنِا میں بدل گیا ہوں
مجھ سے جدا تو پھر بھی وہی ہے
میں بھی دیوانہ پاگل ہوں
تو بھی بے حد جذباتی ہے
میرے بنا کیا کھایا تو نے
جانے کیا ساری پہنی ہے
یہ میرا کیا پاگل پن ہے
کیسی الٹی سوچ لگی ہے
تم بھی عبیدؔ اب تو سو جاؤ
رات کو بھی نیند آنے لگی ہے

1978ء
 

الف عین

لائبریرین
(روح ناصر کے نے ایک اور غزل)
رات تھی اور گھنا بن تھا
دل کا کیا وحشی پن تھا
پیار میں کیا کیا لڑتے تھے
ہم میں کتنا بچپن تھا
تو مرے گیتوں کی لے تھی
میں ترے پاؤں کی جھانجھن تھا
ہم دونوں زنجیر بپا
کیسا اپنا بندھن تھا
آگ تو تھی جنگل میں لگی
میں کیوں اس میں ایندھن تھا
پتوں کے گھنگھرو سے بجے
ورنہ گُپ چُپ آنگن تھا
ہلتے ہاتھ جو نیچے آئے
پھر سونا اسٹیشن تھا

1978ء
 

الف عین

لائبریرین
پردۂ خزاں کے آر پار کون ہے؟
گرد اڑا گیا جو شہسوار کون ہے؟
اس طرف تو بس گئے ہیں صرف اس کے رنگ
دیکھتا ہوں آئینے کے پار کون ہے؟
یہ خزاں کے پاؤں کی صدا کے ساتھ ساتھ
گا رہا ہے نغمۂ بہار کون ہے؟
راہ میں بکھر گئے دھنک کے سات رنگ
رنگ جس کے ہیں وہ گُل عذار کون ہے؟
ہر کتاب سے مٹا رہے ہیں ایک نام
کیا چھپاتے ہیں، وہ طرحدار کون ہے
سرخ سرخ نیلے نیلے پیلے پیلے پھول
یہ قبا ہے کس کی، یہ بہار کون ہے؟
میں تو ہوں فصیل کے اِدھر کھڑا عبیدؔ
خوں میں تر یہ پیشِ کوئے یار کون ہے؟

1978ء
 

الف عین

لائبریرین
رنگ کیا کیا بکھیر کر کوئی
یاں سے گزرا تھا خوں میں تر کوئی
دل کھنڈر کر گیا ہے راتوں رات
بسنے آیا تھا اپنے گھر کوئی
شام تک کیا بسا بسایا تھا
رات کو لُٹ گیا نگر کوئی
شام آئے تو گدگدائے اسے
چُپ سی بیٹھی ہے دوپہر کوئی
مدّتوں پر ملے ہے ایسا شخص
جان کھوتا ہے جان کر کوئی!
میں نے کھڑکی سے چھپ کے دیکھا تھا
صحن میں ننگے پاؤں ڈر کوئی
(ق)
اب نکل کر کہیں نہ جائے گا
لوٹ آیا ہے اپنے گھر کوئی
اب تو دن کو بھی نیند آنے لگی
اب نہیں پاؤں میں سفر کوئی
آج دیکھا کہ ختم ہوتی ہے
چلتی جاتی تھی رہگزر کوئی
خوف کے سائرن خموش ہوئے
اب نہیں شہر میں خطر کوئی

1978ء
 

الف عین

لائبریرین
(علی گڑھ 79۔1978)
آس بر آئی تھی پانی کی مگر روشن رہا
خار و خس جلتے رہے ہر بام و در روشن رہا
کتنی امیدوں کے لوباں خوشبوئیں دیتے رہے
سرخ شعلوں سے جو گھر گھر رات پھر روشن رہا
کیسی کیسی قدِّ آدم مشعلیں جلتی رہیں
کیسی دیوالی تھی کل، سارا نگر روشن رہا
اس کنارے سے بندھی سب کشتیاں جلتی رہیں
اور یہ دریا کا کنارہ ، بے خبر، روشن تہا
رات کیسا چاند اترا تھا مری انگنائی میں
کوئی سایہ تک نہ تھا اور سارا گھر روشن رہا
وہ مرا دارالاماں تھا یا تھا جانے کیا عبیدؔ
کچھ تو صحرا کے پرے تھا، تا سحر روشن رہا

1979ء
 

الف عین

لائبریرین
ٹھیک کہا، یوں دل ہی کسی سے لگائے کون
ایک دیا جب جل ہی گیا تو بجھائے کون
آئینہ ہی بدلا بدلا لگتا ہے
اپنے پر جھوٹا الزام لگائے کون
کرفیو ہے اور گشت سپاہی کرتے ہیں
یادوں کی سنسان ڈگر پر جائے کون
میں تو اپنے اندر اندر جلتا ہوں
شعر سنا کر محفل کو گرمائے کون ؟
اب یہ مکھوٹا چہرے جیسا لگتا ہے
اب اپنے اس خول سے باہر آئے کون؟
کس کو وقت مزار پہ فاتحہ پڑھنے کا
دل کے قبرستان میں عود جلائے کون؟
وہ تو یہ بستی چھوڑ چکا اب یہاں عبیدؔ
نئے نئے ملبوس پہن کر آئے کون؟

1979ء
 

الف عین

لائبریرین
پتہ نہیں کہ مجھے واقعی محبت ہے
مگر وہ میرے لیے اک اہم ضرورت ہے
وہ غیر کب ہے جو شکوہ کروں جدائی کا
وہ مجھ میں ہے، مجھے کیوں اپنے سے شکایت ہے
خزاں کا بوجھ اٹھائے جھکی ہوئی اک شاخ
یہ لگ رہا ہے مجھے، میری ہی علامت ہے
یہ پیڑ جیسے مری فوج کے سپاہی ہیں
یہ سبز سبز سمندر مری حکومت ہے
خدا بھی خوش ہے بہت آسماں پہ بٹیھا ہوا
یہاں مجھے بھی کسی سے نہ کچھ شکایت ہے
بِتا دئے کئی دن جس کے ساتھ اب اس سے
عجیب لگتا ہے کہنا ’’مجھے محبّت ہے‘‘
ہمارے بعد کئی شہ گزر گئے لیکن
غزل کے شہر میں پھر اپنی بادشاہت ہے
جو ایک نار کو دل دے دیا، سو ٹھیک مگر
میان ہٹاؤ۔ یہ سب شاعری حماقت ہے
یہ سرخ جنگلی پودے کنارِ آب عبیدؔ
کسی کے چہرے کی ان میں بڑی شباہت ہے

1980ء
 

الف عین

لائبریرین
محفل یاراں۔۔۔۔۔۔۔ خوشی، غم سارے مدغم ہو گئے
قہقہے ایسے لگے، سب دیدۂ نم ہو گئے
دھوپ تھی تو نیلے پیلے پھول روشن تھے تمام
رات کیا آئی کہ سارے رنگ مدھم ہو گئے
اک نظر سے زیر اس نے کر دئے کیا کیا جواں
ہائے کیسے کیسے شعلے تھے کہ شبنم ہو گئے
زخم مہکا اور نم تمکیں ہوا چلنے لگی
شعر کہنے کے سبب سارے فراہم ہوگئے
رنگ تھا وہ یا کوئی خوشبو تھی یا سُر تھا عبیدؔ
خیر مقدم کو حواس اپنے جو باہم ہوگئے

1980ء
 

الف عین

لائبریرین
دوغزلہ۔ایک
(قحط زدہ گاؤں میں غزل)
وہ ہولیاں منانے والے کس طرف چلے گئے
وہ تعزئے اٹھانے والے کس طرف چلے گئے
سویرے گاؤں کی فضا کا وہ دھواں کہاں گیا
وہ بیل دھول اڑانے والے کس طرف چلے گئے
یہ پنگھٹوں کو کیا ہوا۔ جو چُپ سی لگ گئی انہیں
وہ رنگ دل لبھانے والے کس طرف چلے گئے
پہاڑیوں پہ چرنے والی بکریاں کدھر گئیں
وہ بانسری بجانے والے کس طرف چلے گئے
وہ ’’پیاس پیاس‘‘ چیختی ٹٹہرباں کہاں گئیں
وہ ہنس موتی کھانے والے کس طرف چلے گئے
الاؤ جل رہا ہے اور لوگ سب خموش ہیں
وہ ماہیا سنانے والے کس طرف چلے گئے
تڑخ رہی ہے گرم دھرتی پیر کس طرف رکھیں
وہ میگھ راگ گانے والے کس طرف چلے گئے

1980ء
 

الف عین

لائبریرین
دو غزلہ ۔ دو
وہ ہاتھ گدگدانے والے کس طرف چلے گئے
وہ بچے چہچہانے والے کس طرف چلے گئے
وہ چار دن کی چاندنی تھی یہ اندھیری رات ہے
وہ جگنو جگمگانے والے کس طرف چلے گئے
جو ہاتھ خشک بالوں کو سنوارتے تھے کیا ہوئے
سکوں کی نیند لانے والے کس طرف چلے گئے
کتابوں میں لکھا تھا، ایسے ہی یُگوں میں آئیں گے
وہ جو نبی تھے آنے والے ، کس طرف چلے گئے
ادھر تو شہرِ گریہ ہے ، فصیل کے اُدھر مگر
وہ ہونٹ مسکرانے والے کو طرف چلے گئے
ہر اک طرف پکار دیکھا کوئی بھی نہیں یہاں
وہ بستیاں بسانے والے کس طرف چلے گئے

1980ء
 

الف عین

لائبریرین
ایک اک کر کے ہر اک زخم دہائی دے گا
یہ سفر کچھ نہ سوا آبلہ پائی دے گا
اک ذرا اور بلندی پہ چڑھو۔ پھر دیکھو
رات کو شہر بھی آکاش دکھائی دے گا
بجتے بجتے سبھی اک لمحے میں تھم جائیں گے ساز
پھر یگوں کچھ بھی کسی کو نہ سنائی دے گا
پیار کے پھول میں ہر دن نے بھرا اک نیا رنگ
اگلا دن اب اسے اک رنگِ جدائی دے گا
آخرش طے کیا ناکردہ کو بھی کرے قبول
یوں کہاں تک وہ بھلا روز صفائی دے گا
وہ کئی نوری برس دور تھا، یہ کہا تھی خبر
میرے کاندھوں پہ رکھے ہاتھ دکھائی دے گا

1980ء
 

الف عین

لائبریرین
اشک تھا یا شرار تھا ۔ کیا تھا
کچھ سرِ چشمِ یار تھا کیا تھا
لب تلک نام بھی نہ آیا کبھی
دل میں کچھ پاسِ یار تھا۔ کیا تھا
ہم تھے تنہا کہ قافلہ بھی تھا
اپنے آگے غبار تھا ۔ کیا تھا
اک دیا سا کہیں چمکتا تھا
کچھ سرِ رہگزار تھا۔ کیا تھا
لو نہتّی ہوئی سپاہ تمام
ایک تنہا سوار تھا۔ کیا تھا
اب بھی امید تم کو کیا تھی عبیدؔ
دل میں کچھ اعتبار تھا۔ کیا تھا

1981ء
 

الف عین

لائبریرین
خامشی یوں ڈرا رہی ہے ہمیں
اک ندا ہے بلا رہی ہے ہمیں
بن گئے گیت کس کے سُر سے ہم
زندگی گنگنا رہی ہے ہمیں
ڈوبنے آئے تھے۔ مگر یہ ندی
بہتے رہنا سکھا رہی ہے ہمیں
پہلے جو لوریاں سناتی تھی
یاد اس کی جگا رہی ہے ہمیں
اب تو یہ یاد بھی نہیں ہم کو
یاد یہ کو کی آرہی ہے ہمیں
غمِ یار آ لپٹ کے سو جائیں
رات لوری سنا رہی ہے ہمیں
پھر کوئی شعر اترنے والا ہے
دن میں بھی نیند آرہی ہے ہمیں
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائے صبح عبیدؔ
آکے پھر تھپتھپا رہی ہے ہمیں

1981ء
 

الف عین

لائبریرین
کیا رنگ بھلا دستِ ستم گر میں نہیں تھا
جاں زیب کوئی زخم مقدّر میں نہیں تھا
کل ’’چھم‘‘ سے اچانک مرے آنگن میں وہ آیا
اور شومئی تقدیر کہ میں گھر میں نہیں تھا
کیا پیش کروں میں تری آنکھوں کا جواب اب
ایسا دُرِ خوش آب سمندر میں نہیں تھا
بے موسم گُل اس نے جو فرمائشِ گل کی
اک برگِ خزاں میرے مقدر میں نہیں تھا
یہ پیچ کہاں سے مری تقدیر میں آیا
وہ خم جو ترے گیسوئے عنبر میں نہیں تھا
خوشبوئیں عبیدؔ ایک سی ساری نہیں ہوتیں
جو تھا ترے بالوں میں ، گلِ تر میں نہیں تھا

1981ء
 

الف عین

لائبریرین
عبیدؔ کیا ہوا غزلیں سنا رہا ہے بہت
جو خوش کرے ہے، تو دل بھی دُکھا رہا ہے بہت
بس ایک رنگِ شفق ذہن میں ہے، نام نہ تقش
وہ کون شخص ہے جو باد آرہا ہے بہت
ہے ایک ترکِ تعلق کا نشّہ صرف اسے
ہمیں تو اس سے سدا واسطہ رہا ہے بہت
ہم اپنے دل سے کہیں کیا۔ عجیب پاگل ہے
شبِ فراق ہے اور گنگنا رہا ہے بہت
اے رنگِ پیرہنِ یار۔ یہ ہے دورِ خزاں
خیال رُت کا نہیں، گل کھلا رہا ہے بہت
ہم اب نہ بھول کے بھی یاد اسے کریں گے عبیدؔ
جو وعدہ کر کے سدا بھول جا رہا ہے بہت

1981ء
 

الف عین

لائبریرین
یہ دن ایسے ستم گر ہو گئے ہیں
ہم اپنے گھر میں بے گھر ہو گئے ہیں
مری آنکھوں سے جو نکلے تھے آنسو
تری آنکھوں میں گوہر ہو گئے ہیں
جہاں اک دن دھنک لہرائی اس نے
ہم اس رستے کے پتھر ہو گئے ہیں
صدا اپنے ہی در پر دے رہے ہیں
عجب پاگل گداگر ہو گئے ہیں
لہو سے یوں لکھو گے شعر کب تک
اُٹھو دفتر کے دفتر ہو گئے ہیں
کریں تبلیغِ دینِ عشق گھر گھر
عبیدؔ اب تو پیمبر ہو گئے ہیں

1981ء
 

الف عین

لائبریرین
ابھی کھلا تھا گلِ عشق، پل میں مر بھی گیا
ابھی چڑھا نہ تھا دریا، ابھی اتر بھی گیا
کبھی گری تو تھی دستار اپنی پہلے بھی
ان آندھیوں میں تو اس بار اپنا سر بھی گیا
تری قبا کا کوئی گل، کہ آنکھ کا موتی
وہ کیا تھا جو شب ہجراں میں رنگ بھر بھی گیا
میں تیرے خواب سے چونکا کہ جیسے تو آئی
مگر وہ جھونکا بہت نرم رو گزر بھی گیا
عبیدؔ جیتا رہا عمر زندگی کے بغیر
نہ آئی موت بھی ، لیکن وہ آج مر بھی گیا

1982ء
 

الف عین

لائبریرین
ہم ہوں تنہا تو نہیں دشت کی پنہائی بہت
ساتھ تیرا ہو تو چھوٹی سی یہ انگنائی بہت
اک یہی ہے مرا سرمایہ اسے بھی لے لے
تیری بے مہری سلامت ہے تو رسوائی بہت
چاندنی شب بھی نہ تھی آج ۔ نہ رُت پھولوں کی
کیوں چلی ایسی ہوا ، یاد تری آئی بہت
یہ نہ تھی پہلی دفعہ کی تو جدائی کوئی
جانے کیوں آج طبیعت مری گھبرائی بہت
تجھ سے بچھڑیں کہ کوئی اور بہانہ مل جائے
ہم کو رہتی ہے سدا غم سے شناسائی بہت

1982ء
 
Top