اٹھائے کون حجاباتِ شاہد و مشہود - از اختر حسین جعفری

فرخ منظور

لائبریرین
اختر حسین جعفری کی طویل نظم "آئینہ خانہ" سے ایک اقتباس

اٹھائے کون حجاباتِ شاہد و مشہود
کہاں کسی پہ طلسم ِ پس ِ نگاہ کھلا

بتائے کون کہ کاغذ کی سطح ِ خالی پر
بغیرحرف بھی نقطہ وجود رکھتا ہے

وہ قتل گاہ کہاں ہے جہاں پہ لفظوں نے
فراق ِ حسن ِ تمنّا میں خود کشی کرلی

ہجوم ِ راہگزر منتظر ہے کس کے لیے
سحر ہوئی تو در ِنیم وا پہ قفل پڑا

چلی صبا تو پہاڑوں نے راستہ نہ دیا
جواں ہوئیں تو گھروں سے نہ لڑکیاں نکلیں
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ زرقا صاحبہ! نظم کا یہ اقتباس کافی دن سے پوسٹ کیا ہوا تھا لیکن شائد کسی کو پسند نہیں‌ آیا سوائے آپ کے- میں آپ کے ذ وق کی داد دیتا ہوں-
 
Top