آپ ﷺ کی شان میں اشعار

سیما علی

لائبریرین
الہام کی رم جھم کہیں بخشش کی گھٹا ہے
یہ دل کا نگرہے کہ مدینے کی فضا ہے

سانسوں میں مہکتی ہیں مناجات کی کلیاں
کلیوں کے کٹوروں پہ تیرا نام لکھا ہے

آیات کی جھرمٹ میں تیرے نام کی مسند
لفظوں کی انگوٹھی میں نگینہ سا جڑا ہے

اب کو ن حدِ حسن طلب سوچ سکے گا
کونین کی وسعت تو تہہ دستِ دعا ہے

ہے تیری کسسک میں بھی دمک حشر کے دن کی
وہ یوں کہ میرا قریہ جاں گونج اُٹھا ہے

خورشید تیری راہ میں بھٹکتا ہوا جگنو
مہتاب تیرا ریزہ نقشِ کف پا ہے

ولیل تیرے سایہ گیسو کا تراشا
ولعصر تیری نیم نگاہی کی ادا ہے

لمحوں میں سمٹ کر بھی تیرا درد ہے تازہ
صدیوں میں بھی بکھر کر تیرا عشق نیا ہے

یا تیرے خدوخال سے خیرہ مہ و انجم
یا دھوپ نے سایہ تیرا خود اُوڑھ لیا ہے

یا رات نے پہنی ہے ملاحت تیری تن پر
یا دن تیرے اندازِ صباحت پہ گیا ہے

رگ رگ نے سمیٹی ہے تیرے نام کی فریاد
جب جب بھی پریشان مجھے دنیا نے کیا ہے

خالق نے قسم کھائی ہے اُس شہر اماں کی
جس شہر کی گلیوں نے تجھے ورد کیا ہے

اِک بار تیرا نقشِ قدم چوم لیا تھا
اب تک یہ فلک شکر کے سجدے میں جھکا ہے

دل میں ہو تیری یاد تو طوفاں بھی کنارہ
حاصل ہو تیرا لطف تو صرصر بھی صبا ہے

غیروں پہ بھی الطاف تیرے سب سے الگ تھے
اپنوں پہ بھی نوازش کا انداز جدا ہے

ہر سمت تیرے لطف و عنایت کی بارش
ہر سو تیرا دامانِ کرم پھیل گیا ہے

ہے موجِ صبا یا تیرے سانسوں کی بھکارن
ہے موسم گل یا تیری خیراتِ قبا ہے

سورج کو اُبھرنے نہیں دیتا تیرا حبشی
بے زر کو ابوزر تیری بخشش نے کیا ہے

ثقلین کی قسمت تیری دہلیز کا صدقہ
عالم کا مقدر تیرے ہاھتوں پہ لکھا ہے

اُترے گا کہاں تک کوئی آیات کی تہہ میں
قرآن تیری خاطر ابھی مصروفِ ثنا ہے

اب اور بیاں کیا ہو کسی سے تیری مدحت
یہ کم تو نہیں ہے کہ تو محبوبِِ خداﷺ ہے

اے گنبدِ خضرا کے مکین میری مدد کر
یا پھر یہ بتا کون میرا تیرے سوا ہے

بخشش تیری آٓنکھوں کی طرف دیکھ رہی ہے
محسنؔ تیرے دربار میں چپ چاپ کھڑا ہے

محسن نقوی
 

سیما علی

لائبریرین
دل کو ہو تجھ سے واسطہ لب پہ ہو نام مصطفیﷺ
وقت جب آئے !!!!!!اے خدا خاتمۂ حواس کا

طے نہ کسی سے ہوسکا تیرے سوا معاملہ
جان ِ اُمید وار کا !!حسرتِؔ محو یاس کا
مولانا حسرت موہانی
 

سیما علی

لائبریرین
موجب ناز عارفاں باعثِ وفخر صادقاں
سرورِ خیر انبیاء!!! صلی علیٰ محمدؐ ﷺ

حسرتؔ اگر رکھے تو بخشش حق کی آرزو
و رد زبان رہے صداصلی علیٰ محمدؐ ﷺ
 

سیما علی

لائبریرین
مصیبت بھی راحت فزا ہوگئی
تری آرزو رہنما ہوگئی

یہ وہ راستہ ہے دیار وفا کا
جہاں باد صرصر صبا ہوگئی

میں درماندہ اس بارگاہ عطاء کا
گنہگار ہوں اک خطا ہوگئی

ترے رتبہ داں محبت کی حالت
ترے شوق میں کیا سے کیا ہوگئی

پہنچ جائیں گے انتہا کو بھی حسرتؔ
جب اس راہ کی ابتداء ہوگئی۔
مولانا حسرت موہانی
 

سیما علی

لائبریرین
خدا کے بعد جن کا مرتبہ ہر اک سے اعظم ہے
عطاے کبریا سے ان کی مدحت لب پہ پیہم ہے

یتیموں بے کسوں کے سیدِ ابرار یاور ہیں
انھیں کی غمگساری دہر میں سب سے مکرم ہے

وہ جن پر جان کے دشمن بھی جاں سے ہوگئے قرباں
وہی ہیں جن کا خُلقِ پاک عالی ہے، معظم ہے

مصائب میں پکار ان کو مٹیں گے سب الم تیرے
ترے غم خوار جب ہیں مصطفیٰ تو تجھ کو کیا غم ہے

عطا فرمائیں گے اذنِ مدینہ دیکھنا اک دن
مری امید لطفِ سیدِ ابرار سے ضم ہے

بروزِ حشر بخشش عام ہوگی جانِ رحمت کی
دل مضطر میں کیوں کر تیرے بے تابی کا عالم ہے

مشاہد تجھ سے کب ممکن ہے مدحت پیارے آقا کی
ثنا خواں ان کا جب قرآن میں خود ربِ اکرم ہے

محمد حسین مشاہد رضوی

 

سیما علی

لائبریرین
در دل مسلم مقام مصطفیٰ ﷺاست
آبروئے ما ز نام مصطفیٰ ﷺاست
1. مسلمان کے دل میں مصطفیٰ ﷺ کا مقام ہے، ہماری عزت و آبرو مصطفیٰ ﷺکے نام سے ہے۔
ہرکہ عشق مصطفیٰ ﷺسامانِ اوست
بحروبر در گوشۂ دامانِ اوست
2. جس کسی نے مصطفیٰ ﷺکے عشق کو اپنی زندگی کا سرمایہ بنالیا تو خشکی و تری (تمام چیزیں) اس کے گوشۂ داماں میں سمٹ آتی ہیں (یعنی عشق رسول ﷺکی بدولت اس کو اقتدار و تمکین فی الارض حاصل ہوتی ہے یا اس کے روحانی مقامات اس کو صاحب تصرف وکرامت بناتے ہیں)۔


علامہ اقبالؒ

 

سیما علی

لائبریرین
شاہ کونین سے محبت ہے
یہی احساس میری دولت ہے

شاخ کن کا ہے تو گلِ تازہ
باغِ کن میں تری ہی نکہت ہے

آ گئے وجد میں زمان و مکاں
آمدِ تاجدارِ خلقت ہے

کیسے جنت نشاں کہوں اس کو
تیرا کوچہ تو رشک جنت ہے

یہ کرم ہے ترا کہ میری طرف
ملتفت تیری چشمِ رحمت ہے

اے سحابِ سخائے شاہ امم
تیری ہر موڑ پر ضرورت ہے

میرے دامن میں ان کا برگ عطا!
یہ عنایت بڑی عنایت ہے

آمدو رفت میری سانسوں کی
یادِ آقا! تری بدولت ہے

سب کو ارزاں نہیں ہوا کرتی
نعت گوئی تو ایک نعمت ہے

کس لیے میں درِ ثنا سے ہٹوں
اے صدف یہ مری عبادت ہے
  • شمائلہ صدف عزیزی
 

یاسر شاہ

محفلین
شاہ کونین سے محبت ہے
یہی احساس میری دولت ہے

شاخ کن کا ہے تو گلِ تازہ
باغِ کن میں تری ہی نکہت ہے

آ گئے وجد میں زمان و مکاں
آمدِ تاجدارِ خلقت ہے

کیسے جنت نشاں کہوں اس کو
تیرا کوچہ تو رشک جنت ہے

یہ کرم ہے ترا کہ میری طرف
ملتفت تیری چشمِ رحمت ہے

اے سحابِ سخائے شاہ امم
تیری ہر موڑ پر ضرورت ہے

میرے دامن میں ان کا برگ عطا!
یہ عنایت بڑی عنایت ہے

آمدو رفت میری سانسوں کی
یادِ آقا! تری بدولت ہے

سب کو ارزاں نہیں ہوا کرتی
نعت گوئی تو ایک نعمت ہے

کس لیے میں درِ ثنا سے ہٹوں
اے صدف یہ مری عبادت ہے
  • شمائلہ صدف عزیزی
واہ ۔کیا بات ہے۔صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
 

سیما علی

لائبریرین
پیغام صبا لائی ہے گلزارِ نبیﷺ سے
آیا ہے بلاوا مجھے دربارِ نبیﷺ سے

بھاتی نہیں ہمدم مجھے جنّت کی جوانی
سنتا نہیں زاہد سے میں حوروں کی کہانی
عاشق ہوں مجھے عشق ہے دیوار نبیﷺ سے
آیا ہے بلاوا مجھے دربارِ نبی سے

واللہ! رازدار ہیں طیبہٰ کے باب کے
بکھرے ہوئے ورق مِری دل کی کتاب کے
مجھ کو سنبھالیے مجھے اپنی جناب سے
آیا ہے بلاوا مجھے دربارِ نبیﷺ سے

ہر آہ گئی عرش پہ، یہ آہ کی قسمت
ہر اشک پہ اک خُلد ہے ہر اشک کی قیمت
تحفہ یہ ملا ہے مجھے دربار نبیﷺ سے
آیا ہے بلاوا مجھے دربارِ نبیﷺ سے

حاضر گدائے در ہے شہنشاہ! السلام
مولاﷺ! سلام سرورِ ذی جاہ! السلام
دونوں جہاں کے قبلۂ حاجات! السلام
آیا ہے بلاوا مجھے دربارِ نبیﷺ سے

پیغام صبا لائی ہے گلزارِ نبیﷺ سے
آیا ہے بلاوا مجھے دربارِ نبیﷺ سے
 

سیما علی

لائبریرین
gB2YVvs.jpg
 

سیما علی

لائبریرین
رحمۃ اللعٰلمیں فرمائیں گے یا امتی
نفسی نفسی جب کہیں سب انبیاء یومِ جزا

معجزہ شاہِ دو عالم کی قدم بوسی کا دیکھ
تھا جو پتھر دل نظرؔ پہلے جو پارس ہو گیا
محمد عبد الحمید صدیقی نظر لکھنوی
 

سیما علی

لائبریرین
حسن یوسف میں ترا نور تھا اے نور خدا
چارۂ دیدۂ یعقوب ہوا خوب ہوا

تھے سبھی پیش نظر معرکۂ کرب و بلا
صبر میں ثانیٔ ایوب ہوا خوب ہوا

فخر آدم کو نہ ہوتا جو فرشتہ ہوتا
بنی آدم سے جو منسوب ہوا خوب ہوا

داغؔ ہے روز قیامت مری شرم اس کے ہاتھ
میں گناہوں سے جو محجوب ہوا خوب ہوا
  • داغ دہلوی
 

سیما علی

لائبریرین
کھلا ہے سبھی کے لیے بابِ رحمت وہاں کوئی رتبے میں ادنیٰ نہ عالی
مرادوں سے دامن نہیں کوئی خالی، قطاریں لگائے کھڑے ہیں سوالی

میں پہلے پہل جب مدینے گیا تھا، تو تھی دل کی حالت تڑپ جانے والی
وہ دربار سچ مچ مرے سامنے تھا، ابھی تک تصور تھا جس کا خیالی

جو اک ہاتھ سے دل سنبھالے ہوئے تھا، تو تھی دوسرے ہاتھ میں سبز جالی
دعا کے لیے ہاتھ اٹھتے تو کیسے ، نہ یہ ہاتھ خالی نہ وہ ہاتھ خالی
جو پوچھا ہے تم نے ، کہ میں نذر کرنے ، کو کیا لے گیا تھا، تو تفصیل سن لو

تھا نعتوں کا اک ہار اشکوں کے موتی، درودوں کا گجرا، سلاموں کی ڈالی

دھنی اپنی قسمت کا ہے تو وہی ہے ، دیارِ نبیؐ جس نے آنکھوں سے دیکھا
مقدر ہے سچا مقدر اسی کا، نگاہِ کرم جس پہ آقاؐ نے ڈالی

میں اُس آستانِ حرم کا گدا ہوں، جہاں سر جھکاتے ہیں شاہانِ عالم
مجھے تاجداروں سے کم مت سمجھنا، مرا سر ہے شایانِ تاجِ بلالی

میں توصیفِ سرکارؐ تو کر رہا ہوں مگر اپنی اوقات سے باخبر ہوں
میں صرف ایک ادنیٰ ثنا خواں ہوں اُن کا ، کہاں میں کہاں نعتِ اقبال و حالی

جناب پروفیسر اقبال عظیم
 

سیما علی

لائبریرین
پلکوں پہ جو روشن ہے مدینے کے سفر میں
یہ شمع ہے اے بامِ فلک اور طرح کی

کرتا ہوں میں جب مدحِ محمدؐ کا ارادہ
ملتی ہے مدینے سے کمک اور طرح کی

سرور نے سنا ہے یہی شاہانِ سخن سے
ہے نعت کے لکھنے میں جھجک اور طرح کی
سرور حسین نقشبندی
 

سیما علی

لائبریرین
بروزِ حشر جو کام آئیگا خدا کے حضور
نصیب نے وہ نگینہ دکھا دیا مجھ کو

نبی جی اب مجھے دیدار بھی عطا کیجے
یہ کیا کہ صرف مدینہ دکھا دیا مجھ کو
  • منظر بھوپالی
 

یاسر شاہ

محفلین
یا قافلتی زیدی اجلک رحمے بر حسرت تشنہ لبک
مورا جیرا لرجے درک درک طیبہ سے ابھی نہ سنا جانا

الروح فداک فزد حرقا یک شعلہ دگر برزن عشقا
مورا تن من دھن سب پھونک دیا یہ جاں بھی پیارے جلا جانا


مولانااحمد رضا خان
 
Top