نور وجدان

لائبریرین
پاکستان کو اقبال کے خواب کہا جاتا ہے جبکہ قائد اعظم کو اس کی تعبیر کہا جاتا ہے ۔ دونوں رہنماؤں کی انتھک کاوشوں کی بدولت پاکستان دنیا کے نقشہ پر اُبھرا ۔ پاکستان بنتے ناجانے کتنی قربانیاں دینی پڑیں ۔ ماں کو بیٹا ، بہن کو بھائی اور بیٹی کو باپ سے جدا ہونا پڑا اور کچھ نے اپنی عزت کی خاطر خودکشی کرلی ۔ کچھ کی عزتوں کے جنازے ہندؤں ، سکھوں کے سر پر ٹھہرے تو مسلمانوں نے انتقامی کاروائی کرتے ہوئے ، دین اسلام کی حرمت برقرار رکھتے سکھوں کی ماؤں ، بہنوں اور بیٹوں کی عزت پر ہاتھ ڈالا ۔ اس بات کی روایت پاکستانی کی مقامی آبادی بڑے فخر سے کہتی ہے کہ جنہوں نے ہماری عزتوں کو پائمال کیا ، ہم نے بھی ان کی عزتوں کو پائمال کیا ۔ خون کی ہولی کھیلی تقسیم کے بعد کھیلی گئی اور کشمیر انا کی جنگ بنتے پاکستان اور بھارت کے درمیان لٹکتی تلوار بن گیا ۔ قائد اعظم نے اس خطے کی افادیت کو اجاگر کرتے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ سے تشبیہ دیتے پہلا اسلامی جہاد شروع کروایا ۔ پاکستان پر پہلا اسلامی تجربہ کرتے قائداعظم سکون کی نیند سو گئے ۔ بقول شخصے ان کو زہر دے کے شہید کیا گیا ۔

اقبال اور سر سید دو ایسی شخصیات ہیں جنہوں نے اسلام کا نام روشن کرنے کے لیے انتھک کوشش کی ۔ دونوں باہر سے پڑھ کے آئے تھے جبکہ ایک سر سید احمد خان کو اس بات پر کافر اور ملحد کا خطاب مل گیا انہوں نے انگریزوں کو سپورٹ کرنے کا کہا تھا ، انہوں نے منقولات سے ہٹتے معقولات کی طرف توجہ دلائی تھی ، انہوں نے سائنسی دروازے مسلمانوں پر کھولتے ہوئے یونیورسٹیز کھولنے کا عزم کیا اور تعلیم کو فروغ دیا۔ قران مجید کو الہامی کتاب کہتے اجہتاد کے بارے توجہ دلائی ۔اقبال نے بھی مسلمانوں کے لیے شکوہ کیا ، تہذیبی زوال پر روشنی ڈالتے قرانی افکار سے وہی باتیں اشعار میں ڈھالیں جو بیشتر منقولات تھیں ۔ اس طرح ایک بطور رہنما پاکستانی کا قومی شاعر ٹھہرا دیا گیا۔ اکبر کے زمانے میں سائنس نے کافی ترقی کی جس کی وجہ یقینا اسلام نہیں تھا مگر اسلام کا جزولاینفک تفکر ، تدبر کو اپنانا۔معقولات کی انتہا پر پہنچ کے اکبر نے اسلامی افکار کو غلط ملط کردیا ۔معاشرتی بگاڑ کو دور کرنے کے لیے شیخ احمد سرہندی نے تمام صوفیانہ افکار کو رد کرتے شریعت کی اہمیت کو اجاگر کردیا ۔ اورنگ زیب کی اس سلسلے میں فتاوی عالمگیری بہت اہم کتاب ہے ۔ اس طرح معاشرے میں لبرل ایکسٹریمست اور کنزرویٹو اکسٹریمسٹ پیدا ہوگئے ۔ جبکہ سر سید سکول آف تھاٹ سے نکلتے لوگ درمیان راہ اپناتے منقولات و معقولات سے کام لیتے اسلام کا اچھا تاثر چھوڑ گئے ۔

میری چند خواتین سے گفتگو اس تحریر کو لکھنے کا محرک بنی ہے ۔ معاشرتی جائزہ اسی گفتگو میں بہتر کھلتا ہے ۔ معاشرے میں ہر فرد دوسرے کا ''کانا '' ہے ۔ اگر کوئی بھتہ خور ہے تو دکاندرا نے فحاشی کے لیے راہیں ہموار کررکھیں اس لیے دونوں کا کام ایک ہی ہے ، دونوں کے مفادات یکساں ہیں ۔ اپنے نفس کی تسکین ، پیسے کا حصول ، لوگوں میں اثر رسوخ ----- دہی بھلے کی دکان سے لے کے ، آئس کریم پارلز سے شنگریلا تک اور شنگریلا سے ہارڈیز اور نا جانے کتنی ایسی جگہوں پر کھلے عام اسلامی افکار کی توہین ہوتی رہتی ہے ۔ اور تو ایسے تماشے کھلے عام سڑکوں پر اسکول گرلز اور بوائز کے مابین دیکھے گئے ۔ کہیں پر کوئی خاص سڑک مقرر ہے جس میں حوا کی بیٹی اللہ تعالیٰ کی قائم شدہ حدوں کو پھلانگ رہی ہے تو کہیں یہ کام کھلے عام اکیڈمیز میں چل رہا ہے ۔ یہ روداد ملتان اور لاہور کی سن کے میرے رونگھٹے کھڑے ہوگئے کہ دو قومی نظریہ تو کب کا ناکام ہوگیا جب پختونون نے اور بلوچیوں نے اپنا ملک بنانے کا عزم کیا ۔ میرے دل میں خیال آیا ہے کہ پہلے ہندوؤں سے آزاد ہونا چاہتے تھے اب ہم کس سے آزادی چاہتے ہیں ؟ وہ جو دکاندار جو سڑک پر چلتی حوا کی بیٹی کو زبردستی اڑا لے جانے والے لوگوں کے حامی ہوتے ہیں کیونکہ ایک دوسرے کے کان ہیں ۔ کیا وہ ٹیچر جو ایک اپنی شاگرد کے ساتھ ایسا سلوک کرتا ہے یا وہ مولوی جس نے معاشرتی بگاڑ کو سدھارنے کے بجائے مزید بگاڑ پیدا کردیا ہے ؟ اس وقت غازی علم دین کو شہید قرار دینے والے اقبال سے کون پوچھے کہ جب مسلمان مسلمان کو قتل کرے گا تو تب کیا ہوگا ؟ قانون وہی ہوگا مگر قاتل بھی مسلمان ہوگا اور مقتول بھی ۔۔۔ دونوں ہی شہیدا کہلائیں گے مگر دونوں ہی جھٹلا دیے جائیں گے ۔ اس سب کا ذمہ دار کون ہے ؟ کیا سر سید ؟ کیا اقبال ِ؟ کیا قائد؟ کیا اکبر ؟ کیا صوفی ازم ؟ کیا اورنگ زیب ؟ آج بھی وہی قربانیاں دی جارہی ہیں جو تقسیم کے وقت دی گئیں ۔ آج پھر سے پاکستان کے ٹکروں کی بات ہو رہی ہے ؟ آج اگر بیٹی اپنے باپ کے گھر ، اسی کے ہاتھوں محفوظ نہیں تو اس سب کا ذمہ دار کون ہے ؟ آج ایک ماں اپنی بیٹی کو اپنے مقاصد کے لیے قربان کردیتی ہے اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ کیا تقلید یا استدالال ؟ آج پولیس انسپکٹر کے ہاتھ عورت محفوظ نہیں ہے بلکہ وہ بھی اسی گھناؤنے کام میں مصروف ہے تو اس کا سبب کیا ہے ؟

اقبال کے شکوہ سے منقولات سے خودی کا سفر مسلمانوں کے لیے زادہ سفر اور رہنما ہے ؟
سر سید احمد خان کا منقولات اور معقولات کو لے کے چلنا معاشرتی انجیرنگ میں مددگار ہو سکا ؟
قائد اعظم کا پاکستان بنانا ---مسلم اکثریتی صوبوں کی تقسیم ہونا ، مسلم ریاستوں کا ہندوستان میں رہنے دینا جس نے کشمیر کے لیے راہ ہموار کردی ، اس نے موجود پاکستان کی بنیاد رکھی ؟
 
آخری تدوین:

لاریب مرزا

محفلین
مسلمانوں نے انتقامی کاروائی کرتے ہوئے ، دین اسلام کی حرمت برقرار رکھتے سکھوں کی ماؤں ، بہنوں اور بیٹوں کی عزت پر ہاتھ ڈالا ۔ اس بات کی روایت پاکستانی کی مقامی آبادی بڑے فخر سے کرتی ہے کہ جنہوں نے ہماری عزتوں کو پائمال کیا ، ہم نے بھی ان کی عزتوں کو پائمال کیا ۔
نور سعدیہ بہنا!! یہ بات آپ نے کہاں سے سنی یا پڑھی ہے؟؟ حوالہ دیں پلیز!!
 

نور وجدان

لائبریرین
نور سعدیہ بہنا!! یہ بات آپ نے کہاں سے سنی یا پڑھی ہے؟؟ حوالہ دیں پلیز!!
لاریب بہنا ۔ جب ہجرت کرتے وقت لوگ پاکستان تشریف لاتے ہیں وہ خود ہی حوالہ بن جاتا ہے ۔ ملتان میں مندر ، ہندو ، سکھ آبادی بھی ہے اور یہیں وہ مسلمان لوگ ہیں جو بڑے فخر سے کارنامے بتاتے ہیں کہ جدھر وہ مقیم تھے انہوں نے کیا سلوک کیا تھا ۔ ان کا سلوک جائز ہے کہ یہی انتقام کا تقاضہ ہے ۔
 

arifkarim

معطل
پاکستان کو اقبال کے خواب کہا جاتا ہے جبکہ قائد اعظم کو اس کی تعبیر کہا جاتا ہے ۔ دونوں رہنماؤں کی انتھک کاوشوں کی بدولت پاکستان دنیا کے نقشہ پر اُبھرا ۔ پاکستان بنتے ناجانے کتنی قربانیاں دینی پڑیں ۔
میرے خیال میں اصل قربانی تو پاکستان بننے کے بعد پاکستانیوں کو دینی پڑیں اور ابھی تک دے رہے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں رہنا کیا کسی قربانی سے کم ہے؟
ماں کو بیٹا ، بہن کو بھائی اور بیٹی کو باپ سے جدا ہونا پڑا اور کچھ نے اپنی عزت کی خاطر خودکشی کرلی ۔ کچھ کی عزتوں کے جنازے ہندؤں ، سکھوں کے سر پر ٹھہرے تو مسلمانوں نے انتقامی کاروائی کرتے ہوئے ، دین اسلام کی حرمت برقرار رکھتے سکھوں کی ماؤں ، بہنوں اور بیٹوں کی عزت پر ہاتھ ڈالا ۔ اس بات کی روایت پاکستانی کی مقامی آبادی بڑے فخر سے کرتی ہے کہ جنہوں نے ہماری عزتوں کو پائمال کیا ، ہم نے بھی ان کی عزتوں کو پائمال کیا ۔
ایسا تو ہر خانہ جنگی میں ہوتا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔
خون کی ہولی کھیلی تقسیم کے بعد کھیلی گئی اور کشمیر انا کی جنگ بنتے پاکستان اور بھارت کے درمیان لٹکتی تلوار بن گیا ۔ قائد اعظم نے اس خطے کی افادیت کو اجاگر کرتے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ سے تشبیہ دیتے پہلا اسلامی جہاد شروع کروایا ۔ پاکستان پر پہلا اسلامی تجربہ کرتے قائداعظم سکون کی نیند سو گئے ۔ بقول شخصے ان کو زہر دے کے شہید کیا گیا ۔
اسلامی جہاد قائد اعظم نے نہیں، قبائیلیوں نے اپنی مدد آپ کے تحت 1947 میں شروع کیا تھا۔ قائد اعظم نے اس خودساختہ جہاد کو پاکستانی افواج کی امداد دینی چاہی تو اسوقت کے انگریز چیف آف آرمی اسٹاف ڈگلس گریسی نے یہ کہہ کر صاف انکار کر دیا کہ ایک ہی ملک کی افواج (برٹش انڈیا) ایک دوسرے کیخلاف کیسے لڑ سکتی ہیں۔ پاک فوج کی جنگ میں شرکت 1948 سے پہلے ممکن نہ ہو سکی تھی۔ اس سے پہلے چترال اسکاؤٹس، قادیانیوں کی فرقان فورس اور دیگر قبائیلی جہادی گروہ کشمیر کو"آزاد" کرانے کے چکر میں بھارتی افواج سے جنگ ہار رہے تھے۔
اقبال اور سر سید دو ایسی شخصیات ہیں جنہوں نے اسلام کا نام روشن کرنے کے لیے انتھک کوشش کی ۔ دونوں باہر سے پڑھ کے آئے تھے جبکہ ایک سر سید احمد خان کو اس بات پر کافر اور ملحد کا خطاب مل گیا اس نے انگریزوں کو سپورٹ کرنے کا کہا تھا ، جس نے منقولات سے ہٹتے معقولات کی طرف توجہ دلائی تھی ، جس نے سائنسی دروازے مسلمانوں پر کھولتے ہوئے یونیورسٹیز کھولنے کا عزم کیا اور تعلیم کو فروغ دیا۔ قران مجید کو الہامی کتاب کہتے اجہتاد کے بارے توجہ دلائی ۔اقبال نے بھی مسلمانوں کے لیے شکوہ کیا ، تہذیبی زوال پر روشنی ڈالتے قرانی افکار سے وہی باتیں اشعار میں ڈھالیں جو بیشتر منقولات تھا ۔ اس طرح ایک بطور رہنما پاکستانی کا قومی شاعر ٹھہرا دیا گیا۔
اقبال بلاشبہ ایک اچھا شاعر تھا پر اسے شاعر مشرق جیسے القابات سے نوازنا دیگر مشرقی اقوام کیساتھ زیادتی ہے۔
اکبر کے زمانے میں سائنس نے کافی ترقی کی جس کی وجہ یقینا اسلام نہیں تھا مگر اسلام کا جزولاینفک تفکر ، تدبر کو اپنایا ۔معقولات کی انتہا پر پہنچ کے اکبر نے اسلامی افکار کو غلط ملط کردیا ۔معاشرتی بگاڑ کو دور کرنے کے لیے شیخ احمد سرہندی نے تمام صوفیانہ افکار کو رد کرتے شریعت کی اہمیت کو اجاگر کردیا ۔ اورنگ زیب کی اس سلسلے میں فتاوی عالمگیری بہت اہم کتاب ہے ۔ اس طرح معاشرے میں لبرل ایکسٹریمست اور کنزرویٹو اکسٹریمسٹ پیدا ہوگئے ۔ جبکہ سر سید سکول آف تھاٹ سے نکلتے لوگ درمیان راہ اپناتے منقولات و معقولات سے کام لیتے اسلام کا اچھا تاثر چھوڑ گئے ۔
تمام تر جدید سائنس مغرب کی ایجاد ہے جو 16 ویں سے لیکر 19ویں صدی عیسوی کے درمیان ہونے والے سائنسی انقلاب کے ذریعہ وجود میں آئی۔
میری چند خواتین سے گفتگو اس تحریر کو لکھنے کا محرک بنی ہے ۔ معاشرتی جائزہ اسی گفتگو میں بہتر کھلتا ہے ۔ معاشرے میں ہر فرد دوسرے کا ''کانا '' ہے ۔ اگر کوئی بھتہ خور ہے تو دکاندرا نے فحاشی کے لیے راہیں ہموار کررکھیں ۔ دہی بھلے کی دکان سے لے کے ، آئس کریم پارلز سے شنگریلا تک اور شنگریلا سے ہارڈیز اور نا جانے کتنی ایسی جگہوں پر کھلے عام اسلامی افکار کی توہین ہوتی رہتی ہے ۔ اور تو ایسے تماشے کھلے عام سڑکوں پر اسکول گرلز اور بوائز کے مابین دیکھے گئے ۔ کہیں پر کوئی خاص سڑک مقرر ہے جس میں حوا کی بیٹی اللہ تعالیٰ کی قائم شدہ حدوں کو پھلانگ رہی ہے تو کہیں یہ کام کھلے عام اکیڈمیز میں چل رہا ہے ۔
جنسی بے راہ روی کا تعلق اسلامی افکار سے نہیں بلکہ نوجوانوں کے ہارمونز سے ہے۔ یہ عمر کا ایسا حصہ ہوتا ہے کہ انسان نہ چاہتے ہوئے بھی اس میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہ سب چیزیں جدید سائنس کے مطابق ثابت ہو چکی ہیں۔ اور مغربی معاشرے میں اسے معیوب سمجھا نہیں جاتا۔ اسپر پابندیاں لگا کر جنسی بے راہ روی تو کم نہ ہوگی اُلٹا یہی کام اندر خانے ہوگا جیسا کہ آپکے مطابق جگہ جگہ ہو ہی رہا ہے۔ یہی کچھ یہاں مغرب میں سب کے سامنے ہوتا ہے کیونکہ ہم سب ایک ہی مادے سے بنے ہیں۔ مسلمان اور کافر کا ڈی این اے مختلف تو نہیں ہے۔
یہ رودا ملتان اور لاہور کی سن کے میرے رونگھٹے کھڑے ہوگئے کہ دو قومی نظریہ تو کب کا ناکام ہوگیا جب پختونون نے اور بلوچیوں نے اپنا ملک بنانے کا عزم کیا ۔
بنگالیوں کا قصہ بھول گئیں؟ سقوط ڈھاکہ کے وقت ہی دوقومی نظریہ فیل ہو گیا تھا۔
میرے دل میں خیال آیا ہے کہ پہلے ہندوؤں سے آزاد ہونا چاہتے تھے اب ہم کس سے آزادی چاہتے ہیں ؟
ہندو تو پاکستان میں آج بھی موجود ہیں۔ انسے آزادی کیسے حاصل ہوئی؟
وہ جو دکاندار جو سڑک پر چلتی حوا کی بیٹی کو زبردستی اڑا لے جانے والے لوگوں کے حامی ہوتے ہیں کیونکہ ایک دوسرے کے کان ہیں ۔ کیا وہ ٹیچر جو ایک اپنی شاگرد کے ساتھ ایسا سلوک کرتا ہے یا وہ مولوی جس نے معاشرتی بگاڑ کو سدھارنے کے بجائے مزید بگاڑ پیدا کردیا ہے ؟
یہ تو انسانوں کے عمومی معاشرتی رویے ہیں۔ انکو سدھارنے کیلئے ہی تو جنسی زیادتی کے قوانین بنائے جاتے ہیں۔ یہاں ناروے میں ان جرائم کی سزا قتل سے زیادہ ہے۔
اس وقت غازی علم دین کو شہید قرار دینے والے اقبال سے کون پوچھے کہ جب مسلمان مسلمان کو قتل کرے گا تو تب کیا ہوگا ؟ قانون وہی ہوگا مگر قاتل بھی مسلمان ہوگا اور مقتول بھی ۔۔۔ دونوں ہی شہیدا کہلائیں گے مگر دونوں ہی جھٹلا دیے جائیں گے ۔ اس سب کا ذمہ دار کون ہے ؟ کیا سر سید ؟ کیا اقبال ِ؟ کیا قائد؟ کیا اکبر ؟ کیا صوفی ازم ؟ کیا اورنگ زیب ؟ آج بھی وہی قربانیاں دی جارہی ہیں جو تقسیم کے وقت دی گئیں ۔ آج پھر سے پاکستان کے ٹکروں کی بات ہو رہی ہے ؟ آج اگر بیٹی اپنے باپ کے گھر ، اسی کے ہاتھوں محفوظ نہیں تو اس سب کا ذمہ دار کون ہے ؟ آج ایک ماں اپنی بیٹی کو اپنے مقاصد کے لیے قربان کردیتی ہے اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ کیا تقلید یا استدالال ؟ آج پولیس انسپکٹر کے ہاتھ عورت محفوظ نہیں ہے بلکہ اسی گھناؤنے کام میں مصروف ہے تو اس کا سبب کیا ہے ؟
ذمہ دار ہم سب بحیثیت امت خود ہیں۔ اسکی ابتداء مسلمان، کافر کے مابین فرق کرنے سے شروع ہوتی ہے جو چلتے چلتے متعدد فرقوں، طبقات ، لسانی گروہوں میں جاکر ٹوٹتی ہے۔ جب تک ہم اس بات کا ادراک نہیں کریں گے کہ ہم سب انسان ہیں اور ہم سب کی ترجیحات و ضروریات یکساں ہیں، تب تک پاکستان میں امن و قیام نہیں آنے والا۔ مغرب میں استحکام اور ترقی مسیحیت، لادینیت، دہریت کی دین نہیں ہے بلکہ انسانیت کو ان سب پر اونچا درجہ دینے کی وجہ سے ہے۔ ہم کہتے تو ہیں کہ انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے پر اسپر عمل نہیں کرتے۔ جب عمل داری کی بات آتی ہے تو پھر وہی ذات، برادری، مذہبی فرقہ گروہ بندی کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں۔ اور پھر ناکامیوں پر یہود و ہنود کی سازشیں کا رونا بھی روتے ہیں۔
اقبال کے شکوہ سے منقولات سے خودی کا سفر مسلمانوں کے لیے زادہ سفر ہے ؟
سر سید احمد خان کا منقولات اور معقولات کے لے کے چلنا معاشرتی انجیرنگ میں مددگار ہے ؟
قائد اعظم کا پاکستان بنانا ---مسلم اکثریتی صوبوں کی تقسیم ہونا ، مسلم ریاستوں کا ہندوستان میں رہنے دینا جس نے کشمیر کے لیے راہ ہموار کردی ، اس نے موجود پاکستان کی بنیاد رکھی ؟
میری ذاتی رائے میں ہندوستانی مسلمانوں کو پاکستان بنانے کی ضرورت نہیں تھی۔ کیونکہ پاکستان بننے کی ہی وجہ سے ہندوستانی مسلمانوں کا آج پاکستان، بنگلہ دیش اور کشمیر میں بٹوارا ہو چکا ہے جبکہ ہندوستانی ہندو، سکھ وغیرہ آج بھی اپنے اکثریتی علاقوں میں متحد ہیں۔ یہ بٹوارا ہمارے آباؤاجداد نے تحریک پاکستان کیلئے جد و جہد کر کے خود کیا ہے اور اسکا خم زیادہ بھگتنے کیلئے ہمیں، ہماری آنے والی نسلوں کو چھوڑ گئے ہیں۔ اگر آج ہندوستان کا بٹوارا نہ ہوا ہوتا تو بنگلہ دیش نہ ہوتا، کشمیر تنازعہ نہ ہوتا، اسکی بنیاد پر ڈھیروں جنگیں نہ ہوتیں، اس خطے میں معاشی بحران اور تنزلی نہ ہوتی جو ان جنگوں اور ٹینشن کا پیش خیمہ ہیں۔ یہاں جمہوریت ہوتی، مسلمانوں کی متعدد جماعتیں ہوتیں، اور آمریت کا دور دور تک کوئی وجود نہ ہوتا۔ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئی کھیت۔
یاز آپ کا کیا تجزیہ اس بارہ میں؟
 

عدنان عمر

محفلین
اسلام کا اچھا تاثر چھوڑ گئے ۔
خدا را اسلام کو اچھا تاثر چھوڑنے سے مشروط نہ کیجیے۔ کیا وہ اسلام قابل قبول ہو گا جو کسی مخصوص زمانے میں پائے جانے والے کسی گروہِ انسانی کے مائنڈ سیٹ پر اچھا تاثر چھوڑے گا؟
 
نور سعدیہ بہنا!! یہ بات آپ نے کہاں سے سنی یا پڑھی ہے؟؟ حوالہ دیں پلیز!!
لاریب بہنا! ہمیں آزادی اورجنگوں کے بارے میں صرف اتنا بتایا جاتا ہے جتنا ارباب اختیار چاہتے ہیں۔ یہ سب جو ہمیں معلوم ہے ،یہ آدھا سچ ہے اور آدھا سچ خطرناک ہوتا ہے۔
 

arifkarim

معطل
لاریب بہنا! ہمیں آزادی اورجنگوں کے بارے میں صرف اتنا بتایا جاتا ہے جتنا ارباب اختیار چاہتے ہیں۔ یہ سب جو ہمیں معلوم ہے ،یہ آدھا سچ ہے اور آدھا سچ خطرناک ہوتا ہے۔
اب ارباب اختیار انٹرنیٹ روابط منقطع کرنے سے تو رہے۔ تمام تر تاریخ مختلف زاویوں سے نیٹ پر موجود ہے۔ اسے پڑھنے کے بعد بھی اگر کوئی ارباب اختیار کا رونا روئے تو وہ مگرمچھ کے آنسوں شمار ہوں گے۔
 

عباد اللہ

محفلین
پاکستان کو اقبال کے خواب کہا جاتا ہے
اور اقبال کا شعر پکار پکار کر کہتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے !!!
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے۔۔۔
اور بہت اشعار ہیں کس کس کو نقل کیا جائے لیکن یہ اقبال کی فکر کے ساتھ مذاق ہے کہ پاکستان کو ان کا خواب کہا جائے

باقی تمام باتوں پر عارف کریم بھائی سے متفق ہوں
 

یاز

محفلین
یاز آپ کا کیا تجزیہ اس بارہ میں؟
ہمارا تجزیہ یہی ہے کہ بہت خوب جناب۔ آپ نے خاصے جامع طریقے سے مختلف نکات پہ روشنی ڈالی ہے۔ میں بھی تقریباً سبھی نکات سے متفق ہوں۔

میرے خیال میں اصل قربانی تو پاکستان بننے کے بعد پاکستانیوں کو دینی پڑیں اور ابھی تک دے رہے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں رہنا کیا کسی قربانی سے کم ہے؟
کافی حد تک متفق۔ لیکن یہ موضوع ایک جملے میں نہیں سمیٹا جا سکتا، بلکہ ایک طویل بحث کا متقاضی ہے۔ اس کو کسی اچھے وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔

ایسا تو ہر خانہ جنگی میں ہوتا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔
بالکل متفق۔ اس طرح کی باتوں کا زیادہ تذکرہ عوام الناس کے جذبات کو مشتعل کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔

اسلامی جہاد قائد اعظم نے نہیں، قبائیلیوں نے اپنی مدد آپ کے تحت 1947 میں شروع کیا تھا۔ قائد اعظم نے اس خودساختہ جہاد کو پاکستانی افواج کی امداد دینی چاہی تو اسوقت کے انگریز چیف آف آرمی اسٹاف ڈگلس گریسی نے یہ کہہ کر صاف انکار کر دیا کہ ایک ہی ملک کی افواج (برٹش انڈیا) ایک دوسرے کیخلاف کیسے لڑ سکتی ہیں۔ پاک فوج کی جنگ میں شرکت 1948 سے پہلے ممکن نہ ہو سکی تھی۔ اس سے پہلے چترال اسکاؤٹس، قادیانیوں کی فرقان فورس اور دیگر قبائیلی جہادی گروہ کشمیر کو"آزاد" کرانے کے چکر میں بھارتی افواج سے جنگ ہار رہے تھے۔
ہو سکتا ہے کہ میں غلط ہوں، لیکن میری معلومات کچھ مختلف ہے۔ کشمیر کی جنگ فوج نے شروع کرنی چاہی، لیکن جناح صاحب ایک قانون پسند انسان تھے۔ انہوں نے آزادی کی تحریک میں تشدد یا لڑائی کو سپورٹ نہیں کیا تو اس کی کیسے کر سکتے تھے۔ فوج نے اجازت نہ ملنے کی وجہ سے پراکسیز کا استعمال کیا، یعنی قبائل کو جوق در جوق جنگ کے لئے بھیجا۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت بھی مذہبی کارڈ استعمال کر کے قبائل کے جذبات کو بروئے کار لایا گیا ہو گا۔ بدقسمتی سے 68 سال بعد بھی ہمارے اہلِ نظر کو پراکسیز میں اپنی بقا نظر آتی ہے۔

اقبال بلاشبہ ایک اچھا شاعر تھا پر اسے شاعر مشرق جیسے القابات سے نوازنا دیگر مشرقی اقوام کیساتھ زیادتی ہے۔
بالکل درست بات۔ کاش ہم اپنی ناک سے آگے دیکھنے کی صلاحیت حاصل کر سکیں۔

تمام تر جدید سائنس مغرب کی ایجاد ہے جو 16 ویں سے لیکر 19ویں صدی عیسوی کے درمیان ہونے والے سائنسی انقلاب کے ذریعہ وجود میں آئی۔
دریں چہ شک۔ ہم میں سے زیادہ تر یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ تھیوری دینا اتنا مشکل نہیں تھا،جتنا فنشڈ حالت میں انڈسٹریل پراڈکٹ بنانا۔ اسی وجہ سے یہ باتیں سن سن کے کان پک چکے ہیں کہ فلاں چیز کا تصور ہمارے آبا نے دیا، فلاں چیز کا تصور بھی فلاں نے دیا۔

جنسی بے راہ روی کا تعلق اسلامی افکار سے نہیں بلکہ نوجوانوں کے ہارمونز سے ہے۔ یہ عمر کا ایسا حصہ ہوتا ہے کہ انسان نہ چاہتے ہوئے بھی اس میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہ سب چیزیں جدید سائنس کے مطابق ثابت ہو چکی ہیں۔ اور مغربی معاشرے میں اسے معیوب سمجھا نہیں جاتا۔ اسپر پابندیاں لگا کر جنسی بے راہ روی تو کم نہ ہوگی اُلٹا یہی کام اندر خانے ہوگا جیسا کہ آپکے مطابق جگہ جگہ ہو ہی رہا ہے۔ یہی کچھ یہاں مغرب میں سب کے سامنے ہوتا ہے کیونکہ ہم سب ایک ہی مادے سے بنے ہیں۔ مسلمان اور کافر کا ڈی این اے مختلف تو نہیں ہے۔
درست بات۔ کسی بھی چیز کو شجرِ ممنوعہ بنانے سے ہم اس کی کشش کو مزید بڑھا دیتے ہیں۔ خوش قسمتی سے اس کا آسان علاج ہمارا مذہب بتاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہم اس پہ عمل کے قریب سے بھی نہیں گزرتے۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے شادیوں کی عمومی عمریں بیس بائیس سال سے اٹھ کر اٹھائیس تیس ہو چکی ہیں۔

بنگالیوں کا قصہ بھول گئیں؟ سقوط ڈھاکہ کے وقت ہی دوقومی نظریہ فیل ہو گیا تھا۔
یہ ایک طویل بحث کی متقاضی چیز ہے۔ دو قومی نظریہ سقوطِ ڈھاکہ کے وقت فیل نہیں ہوا تھا، بلکہ 1952 یا اس سے پہلے ہی ختم ہو چکا تھا، جب سرحدوں کو مزید مہاجرین کے لئے بند کر دیا گیا۔ یعنی ان کو یہ پیغام دیا گیا کہ اب یہ ملک مسلمانوں کا نہیں، بلکہ پاکستانیوں کا ہے۔

ذمہ دار ہم سب بحیثیت امت خود ہیں۔ اسکی ابتداء مسلمان، کافر کے مابین فرق کرنے سے شروع ہوتی ہے جو چلتے چلتے متعدد فرقوں، طبقات ، لسانی گروہوں میں جاکر ٹوٹتی ہے۔ جب تک ہم اس بات کا ادراک نہیں کریں گے کہ ہم سب انسان ہیں اور ہم سب کی ترجیحات و ضروریات یکساں ہیں، تب تک پاکستان میں امن و قیام نہیں آنے والا۔ مغرب میں استحکام اور ترقی مسیحیت، لادینیت، دہریت کی دین نہیں ہے بلکہ انسانیت کو ان سب پر اونچا درجہ دینے کی وجہ سے ہے۔ ہم کہتے تو ہیں کہ انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے پر اسپر عمل نہیں کرتے۔ جب عمل داری کی بات آتی ہے تو پھر وہی ذات، برادری، مذہبی فرقہ گروہ بندی کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں۔ اور پھر ناکامیوں پر یہود و ہنود کی سازشیں کا رونا بھی روتے ہیں۔
بالکل درست بات۔

میری ذاتی رائے میں ہندوستانی مسلمانوں کو پاکستان بنانے کی ضرورت نہیں تھی۔ کیونکہ پاکستان بننے کی ہی وجہ سے ہندوستانی مسلمانوں کا آج پاکستان، بنگلہ دیش اور کشمیر میں بٹوارا ہو چکا ہے جبکہ ہندوستانی ہندو، سکھ وغیرہ آج بھی اپنے اکثریتی علاقوں میں متحد ہیں۔ یہ بٹوارا ہمارے آباؤاجداد نے تحریک پاکستان کیلئے جد و جہد کر کے خود کیا ہے اور اسکا خم زیادہ بھگتنے کیلئے ہمیں، ہماری آنے والی نسلوں کو چھوڑ گئے ہیں۔ اگر آج ہندوستان کا بٹوارا نہ ہوا ہوتا تو بنگلہ دیش نہ ہوتا، کشمیر تنازعہ نہ ہوتا، اسکی بنیاد پر ڈھیروں جنگیں نہ ہوتیں، اس خطے میں معاشی بحران اور تنزلی نہ ہوتی جو ان جنگوں اور ٹینشن کا پیش خیمہ ہیں۔ یہاں جمہوریت ہوتی، مسلمانوں کی متعدد جماعتیں ہوتیں، اور آمریت کا دور دور تک کوئی وجود نہ ہوتا۔ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئی کھیت۔
اس پہ طویل مباحثہ منعقد کیا جا سکتا ہے۔ میرے خیال سے الگ ملک بنانا ایک جغرافیائی ضرورت کے طور پہ سوچا گیا تھا۔ اسی دوران اپنی اپنی دوکان چمکانے کے چکر میں اس کو کوئی اور رنگ دے دیا گیا۔ جغرافیائی ضرورت کے تحت الگ ملک بننے میں کوئی حرج نہیں تھا۔ عربی زبان اور نسل سے تعلق رکھنے والے علاقے میں بھی ایک ہی مذہب اور زبان ہونے کے باوجود الگ الگ ملک بنے۔ اسی طرح یورپ میں ایک ہی مذہب اور کافی کیسز میں ایک ہی نسل یا زبان ہونے کے باوجود الگ الگ ملک بنے۔
ویسے ہندوستانی مسلمانوں کا الگ الگ ملکوں میں بٹوارا ہونا بھی کچھ ایسا غلط نہیں تھا۔ شاید ابتدا میں سوچا بھی ایسا ہی گیا تھا۔ میں نے چوہدری رحمت علی کے مضمون کا ایک حصہ پڑھا تھا۔ اس میں یونائیٹڈ سٹیٹس آف پاکستان کے نام سے کنفیڈریشن کا تصور تھا شاید۔ یہ بذاتِ خود ایک دلچسپ قصہ ہے کہ چوہدری رحمت علی پاکستان کے قیام کے کچھ ہی بعد یہاں سے روتے پیٹتے کہیں چلے گئے، کہ سوچا کیا تھا اور بن کیا گیا۔
فی الحال اتنا ہی :time-out:۔
 
آخری تدوین:

عدنان عمر

محفلین
کیا ہمارے ساتھ آزادی حاصل کرنے والے ملک ہندوستان میں بھی عوامی سطح پر ایسے مباحث کثرت سے ہوتے ہیں؟
کیا ملک کی ترقی کے لیے ایسے مباحث کا انعقاد وقت کی اہم ضرورت ہے؟
اگر ہے تو بتا دیجیے، میں بھی اپنے اختلافی موقف کے ساتھ میدان میں کود پڑتا ہوں۔
 

arifkarim

معطل
اگر ہے تو بتا دیجیے، میں بھی اپنے اختلافی موقف کے ساتھ میدان میں کود پڑتا ہوں۔
ہماری سمجھ سے بالکل باہر ہے کہ دیسی عوام اختلاف سے اتنا دور کیوں بھاگتی ہے۔ ناروے میں ایک مثل مشہور ہے کہ:
Når alle tenker likt, tenker ingen
یعنی جب سب ایک جیسا سوچ رہے ہوں تو سمجھ لیں کہ کوئی کچھ نہیں سوچ رہا۔
مطلب قوموں کی ترقی کا راز ہی اختلاف سے نکلنے والے متفقہ فیصلوں پر منحصر ہے۔ جب کوئی کسی سے اختلاف ہی نہیں کریگا اور لکیر کی فقیری اپنائے گا تو قوم نے کیا خاک ترقی کرنی ہے۔
دوسرا یہاں اس بات کی وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ اختلاف رائے کا ہونا برائی نہیں، اختلاف کا برداشت نہ کرنا اصل بیماری ہے۔
 

arifkarim

معطل
میں نے چوہدری رحمت علی کے مضمون کا ایک حصہ پڑھا تھا۔ اس میں یونائیٹڈ سٹیٹس آف پاکستان کے نام سے کنفیڈریشن کا تصور تھا شاید۔ یہ بذاتِ خود ایک دلچسپ قصہ ہے کہ چوہدری رحمت علی پاکستان کے قیام کے کچھ ہی بعد یہاں سے روتے پیٹتے کہیں چلے گئے، کہ سوچا کیا تھا اور بن کیا گیا۔
After the creation of Pakistan he returned to Pakistan in April 1948, planning to stay in this country, but he was ordered by the then Prime Minister Liaquat Ali Khan to leave the country. His belongings were confiscated, and he left empty-handed for England in October 1948.
Source: Khursheed Kamal Aziz. Rahmat Ali: a biography.1987,P.303, 316​
پاکستان کے پہلے جمہوری وزیر اعظم جب تجویز نام ’’پاکستان ‘‘کے خالق کیساتھ ایسا احسن سلوک کر کے ملک بدر کریں گے تو اسپر رونا دھونا تو بنتا ہے۔
 

arifkarim

معطل
ہو سکتا ہے کہ میں غلط ہوں، لیکن میری معلومات کچھ مختلف ہے۔ کشمیر کی جنگ فوج نے شروع کرنی چاہی، لیکن جناح صاحب ایک قانون پسند انسان تھے۔ انہوں نے آزادی کی تحریک میں تشدد یا لڑائی کو سپورٹ نہیں کیا تو اس کی کیسے کر سکتے تھے۔ فوج نے اجازت نہ ملنے کی وجہ سے پراکسیز کا استعمال کیا، یعنی قبائل کو جوق در جوق جنگ کے لئے بھیجا۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت بھی مذہبی کارڈ استعمال کر کے قبائل کے جذبات کو بروئے کار لایا گیا ہو گا۔ بدقسمتی سے 68 سال بعد بھی ہمارے اہلِ نظر کو پراکسیز میں اپنی بقا نظر آتی ہے۔
یاز آپکو ان معلومات کا کوئی جامع حوالہ مہیا کرنا چاہئے۔ یہ میرے لئے نہایت ہی معلوماتی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد افواج پاکستان گورنر جنرل محمد علی جناحؒ کے نیچے نہیں، اپنی مرضی آپ کے تحت کام کر رہی تھیں۔ اگر یہ واقعی درست ہے تو پھرکسی سیانے کی یہ بات بھی صحیح ثابت ہو جائے گی:
"Every Country has Army, Pakistan Army has a country"
 

نور وجدان

لائبریرین
اقبال بلاشبہ ایک اچھا شاعر تھا پر اسے شاعر مشرق جیسے القابات سے نوازنا دیگر مشرقی اقوام کیساتھ زیادتی ہے۔
اقبال اچھے اور اعلی پائے کے شاعر تھے اور اس میں کوئی شک کی بات نہیں ہے مگر اقبال ایک سیاسی لیڈر بھی رہ چکے تھے ۔ سر سید احمد خان بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔کیا وجہ ہے کہ اقبال کو شاعر مشرق کا خطاب دیا گیا
 

نور وجدان

لائبریرین
تمام تر جدید سائنس مغرب کی ایجاد ہے جو 16 ویں سے لیکر 19ویں صدی عیسوی کے درمیان ہونے والے سائنسی انقلاب کے ذریعہ وجود میں آئی۔

میں نے اکبر کے حوالے سے بات کی تھی جس میں بطور خاص زور معقولات یا استدالال کی جانب تھی ۔ بذات خود سائنس بھی کچھ نہیں بلکہ ایک انداز فکر ہے جس کے مسلم قوم میں بھی پایا جاتا تھا ۔ اس کی مثال یہی ہے کہ اکبر کی بہت سی اصطلاحات دور جدید میں شامل ہے جس میں بطور خاص سیاسی نظام ہے

جنسی بے راہ روی کا تعلق اسلامی افکار سے نہیں بلکہ نوجوانوں کے ہارمونز سے ہے۔ یہ عمر کا ایسا حصہ ہوتا ہے کہ انسان نہ چاہتے ہوئے بھی اس میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہ سب چیزیں جدید سائنس کے مطابق ثابت ہو چکی ہیں۔ اور مغربی معاشرے میں اسے معیوب سمجھا نہیں جاتا۔ اسپر پابندیاں لگا کر جنسی بے راہ روی تو کم نہ ہوگی اُلٹا یہی کام اندر خانے ہوگا جیسا کہ آپکے مطابق جگہ جگہ ہو ہی رہا ہے۔ یہی کچھ یہاں مغرب میں سب کے سامنے ہوتا ہے کیونکہ ہم سب ایک ہی مادے سے بنے ہیں۔ مسلمان اور کافر کا ڈی این اے مختلف تو نہیں ہے۔

جنسی بے راہ روی بھی اس میں شامل ہے مگر میں نے ان لوگوں کا ذکر کیا جو مجبور کرتے ہیں یا اس کام کو قانونی جائز سمجھتے ایک کاروبار چلا رہے جس میں کیمرے نصب کیے جاتے ہیں تاکہ اس سے دوہری انڈسٹری چلائے جاسکے ۔ اگر ایسا پاکستان لینا تھا تو ہندوستان کیا برا تھا ؟
بنگالیوں کا قصہ بھول گئیں؟ سقوط ڈھاکہ کے وقت ہی دوقومی نظریہ فیل ہو گیا تھا۔

دو قومی نظریہ تب تک ہے جب تک پاکستان کا نام ہے مگر اس پاکستان کی تقسیم کتنی بار ہوگی یہ سوچنا ہے

یہ تو انسانوں کے عمومی معاشرتی رویے ہیں۔ انکو سدھارنے کیلئے ہی تو جنسی زیادتی کے قوانین بنائے جاتے ہیں۔ یہاں ناروے میں ان جرائم کی سزا قتل سے زیادہ ہے۔

ایسے قانون پاکستان میں بن جائیں تو مردانگی پر بہت بڑی چوٹ ہوگی ۔ اس لیے انتظار کیجیے

ذمہ دار ہم سب بحیثیت امت خود ہیں۔ اسکی ابتداء مسلمان، کافر کے مابین فرق کرنے سے شروع ہوتی ہے جو چلتے چلتے متعدد فرقوں، طبقات ، لسانی گروہوں میں جاکر ٹوٹتی ہے۔ جب تک ہم اس بات کا ادراک نہیں کریں گے کہ ہم سب انسان ہیں اور ہم سب کی ترجیحات و ضروریات یکساں ہیں، تب تک پاکستان میں امن و قیام نہیں آنے والا۔ مغرب میں استحکام اور ترقی مسیحیت، لادینیت، دہریت کی دین نہیں ہے بلکہ انسانیت کو ان سب پر اونچا درجہ دینے کی وجہ سے ہے۔ ہم کہتے تو ہیں کہ انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے پر اسپر عمل نہیں کرتے۔ جب عمل داری کی بات آتی ہے تو پھر وہی ذات، برادری، مذہبی فرقہ گروہ بندی کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں۔ اور پھر ناکامیوں پر یہود و ہنود کی سازشیں کا رونا بھی روتے ہیں۔
یہاں میں نے اقبال کے فکر کے حوالے سے بات کی تھی کیونکہ ہم سے بیشتر اقبال کے اشعار اور تخیل کو لے کے سوچتے ہیں اور اسپر ڈٹ جاتے ہیں ۔ اس فکر کو ختم میں یا آپ نہیں کرسکتے ہیں ۔۔۔ اس فکر کو ختم کرنے کے لیے کاوئنٹر آرگومینٹ کی ضرورت ہے جس پر آج کے مسلمان راضی بھی نہیں ہیں کیونکہ '' فلسفہ ء خودی سے پہلے اقبالیات نے زیادہ تر اشعار و خیال قران پاک سے نقل کیا ۔ اس پر استدالال نہیں کیا ۔ آج کا مسلمان استدالال نہیں کرتے کیونکہ ہم گروہوں میں بٹ گئے ۔۔ انتہا پسند گروہوں میں ۔۔انتہا پسند قدامت ، انتہا پسند روشن خیال

میری ذاتی رائے میں ہندوستانی مسلمانوں کو پاکستان بنانے کی ضرورت نہیں تھی۔ کیونکہ پاکستان بننے کی ہی وجہ سے ہندوستانی مسلمانوں کا آج پاکستان، بنگلہ دیش اور کشمیر میں بٹوارا ہو چکا ہے جبکہ ہندوستانی ہندو، سکھ وغیرہ آج بھی اپنے اکثریتی علاقوں میں متحد ہیں۔ یہ بٹوارا ہمارے آباؤاجداد نے تحریک پاکستان کیلئے جد و جہد کر کے خود کیا ہے اور اسکا خم زیادہ بھگتنے کیلئے ہمیں، ہماری آنے والی نسلوں کو چھوڑ گئے ہیں۔ اگر آج ہندوستان کا بٹوارا نہ ہوا ہوتا تو بنگلہ دیش نہ ہوتا، کشمیر تنازعہ نہ ہوتا، اسکی بنیاد پر ڈھیروں جنگیں نہ ہوتیں، اس خطے میں معاشی بحران اور تنزلی نہ ہوتی جو ان جنگوں اور ٹینشن کا پیش خیمہ ہیں۔ یہاں جمہوریت ہوتی، مسلمانوں کی متعدد جماعتیں ہوتیں، اور آمریت کا دور دور تک کوئی وجود نہ ہوتا۔ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئی کھیت۔
یاز آپ کا کیا تجزیہ اس بارہ میں؟

میری بھی ذاتی رائے یہی ہے کہ پاکستان کو بنانے کی ضرورت نہیں تھی ۔ اس کی تشکیل نے مزید بٹوارے کیے ، مزید فسادات ہوئے اور مزید کی توقع ہے
 

نور وجدان

لائبریرین
خدا را اسلام کو اچھا تاثر چھوڑنے سے مشروط نہ کیجیے۔ کیا وہ اسلام قابل قبول ہو گا جو کسی مخصوص زمانے میں پائے جانے والے کسی گروہِ انسانی کے مائنڈ سیٹ پر اچھا تاثر چھوڑے گا؟

مسئلہ سارا یہی ہے ''وہ اسلام '' ہے ۔ کہاں پر حضرت محمد صلی علیہ والہ وسلم کا اسلام ہے ؟
 

نور وجدان

لائبریرین
ویسے ہندوستانی مسلمانوں کا الگ الگ ملکوں میں بٹوارا ہونا بھی کچھ ایسا غلط نہیں تھا۔ شاید ابتدا میں سوچا بھی ایسا ہی گیا تھا۔ میں نے چوہدری رحمت علی کے مضمون کا ایک حصہ پڑھا تھا۔ اس میں یونائیٹڈ سٹیٹس آف پاکستان کے نام سے کنفیڈریشن کا تصور تھا شاید۔ یہ بذاتِ خود ایک دلچسپ قصہ ہے کہ چوہدری رحمت علی پاکستان کے قیام کے کچھ ہی بعد یہاں سے روتے پیٹتے کہیں چلے گئے، کہ سوچا کیا تھا اور بن کیا گیا۔
فی الحال اتنا ہی :time-out:

اگر ایسا تھا تو مسلمانان ہند کو کیبنٹ مشن پلان میں خود مختاری مل تو رہی تھی ۔۔۔اس کو رد کیوں کر دیا گیا ۔۔۔ ؟
 

نور وجدان

لائبریرین
اور اقبال کا شعر پکار پکار کر کہتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے !!!
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے۔۔۔
اور بہت اشعار ہیں کس کس کو نقل کیا جائے لیکن یہ اقبال کی فکر کے ساتھ مذاق ہے کہ پاکستان کو ان کا خواب کہا جائے

باقی تمام باتوں پر عارف کریم بھائی سے متفق ہوں
اقبال کا یہ شعر جھوٹ کہ رہا ہے ۔میں بھی یہی کہتی ہوں ۔ مگر کیا وجہ ہے ایک نہرو رپورٹ کے بعد، چودہ نکات کے بعد ، اقبال نے علیحدہ وطن کا مطالبہ کرتے اس کی سرحدیں بھی تجویز کیں ۔ اقبال کے قول و فعل میں بہت بڑا تضاد ہے ۔ ان کی فکر مستحکم ان کی '' خودی '' کے فلسفہ سے ہوئی ۔۔۔مگر اس فلسفے سے معاشرے پر کیا اچھا اثر پڑا؟ کیا ہم ترقی کر گئے ؟ کیا زوال عروج میں بدل گیا؟ یا سر سید کی اصلاحات زیادہ اہم تھیں ، جن کی فکر مستحکم بھی تھی ۔ کبھی دو باتیں نہیں کہیں تھیں مگر ان کو آج یاد نہیں کیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔سر سید نے کب پاکستان کی پہلی اینٹ رکھی تھی ؟ الٹا ان کی سوچ پر دھاوا بول دیا گیا ۔
 
آخری تدوین:
Top