1945 میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر ہندوستان اور پاکستان کی فوج کی تعداد کتنی اور کتنی تھی؟ جلدی جلدی گوگل کریں ۔ اتنی بڑی فوج کے ہوتے ہوئے انگریز کو کسی "امن پسند " کی بہت ہی شدید ضرورت تھی۔ ورنہ انگریزی قیمہ بھی مشکل سے ملتا ۔ لہذا کچھ اس قسم کی حکمت عمل اپنائی گئی کہ جذبات بھی رہ جائیں اور کام بھی نکل جائے۔
 

arifkarim

معطل
1945 میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر ہندوستان اور پاکستان کی فوج کی تعداد کتنی اور کتنی تھی؟ جلدی جلدی گوگل کریں ۔ اتنی بڑی فوج کے ہوتے ہوئے انگریز کو کسی "امن پسند " کی بہت ہی شدید ضرورت تھی۔ ورنہ انگریزی قیمہ بھی مشکل سے ملتا ۔ لہذا کچھ اس قسم کی حکمت عمل اپنائی گئی کہ جذبات بھی رہ جائیں اور کام بھی نکل جائے۔
 

آوازِ دوست

محفلین
جناب والا کا ملتان میں قیام چند ماہ کا تھا جس کے بعد ان کا ٹرانسفر کر دیا گیا ۔ ایسا کیوں ہوتا ہے اگر گنتی کے کچھ افراد دیانت دار ہوتے ہیں تو ان کا ٹرانسفر یا دور دراز مقام پر کردیا جاتا ہے یا ان کو مستعفی ہونا پڑتا ہے ۔ سول بیوروکریسی کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے ۔
پاکستان کی موجودہ حالت کی اکیاون فیصد ذمّہ داری سول بیوروکریسی پر عائد ہوتی ہے۔ یہ ہر ڈکٹیٹر اور کرپٹ سول حکمران کو حکومت اور ریاستی وسائل کی لوٹ مار کی راہ اور راہنمائی مہیا کرنے کی خدمات دےکر اپنے دام کھرے کرتے ہیں عوام کی گالیاں عمومی طور پر جائز و ناجائز حکمرانوں کو ہی پڑتی ہیں اور یہ دودھ دُھلے رہ کر بھی پچاس پچاس پلاٹ اور اربوں روپے کے نذرانے سمیٹتے ہیں۔ وقت مگر بدل رہا ہے اور ایسے مکروہ قسم کے پردہ نشینوں کے نقاب اُترنا شروع ہو گئے ہیں۔ نسیم صادق اگر صرف ایک ڈی سی او ہوتا تو بیوروکریسی کے لمبے چوڑے جال میں اُس کی کوئی نمایاں حیثیت نہ ہوتی وہ ایک ایماندار آدمی اور وزیرِاعلیٰ پنجاب کے خاص آدمی کا کامیاب کمبینیشن ہے اور ملتان کے کرپٹ لوگوں کو ڈی سی او کے اختیار سے نہیں بلکہ وزیرِ اعلیٰ کے پورے پاور بیک اپ سے ہینڈل کرتا تھا۔ قانون موجود ہیں مگر عمل درآمد صفر ہے۔ میڈیا بھی بحیثیتِ مجموعی ذاتی اور صحافتی مفادات سے آگے کی سوچ نہیں رکھتا۔ نسیم صادق صرف ایک علمی تجربہ ہی سمجھیں کہ کیسے ایماندار قیادت سے ظلمت کے اندھیرے چھٹتے ہیں۔ نسیم صادق یا ایسے ہی کسی اور شخص کو وزیرِ اعظم بنا دیا جائے تو وہ صدیوں کا سفر ہفتوں میں طے کردے گا :)
 

آوازِ دوست

محفلین
میں نے تحریر میں ایک سوچ پر بات کی کہ کون درست تھا؟ اقبال ؟ سر سید ؟ قائد اعظم
کوئی بھی انسان پرفیکٹ نہیں ہے اور تمام بڑے بڑے لیڈران پر بھی یہ قول صادق ہے۔ عمومی انسانی عقل و شعور ہمیشہ ارتقائی مراحل میں رہتے ہیں۔ ایک وقت میں ایک درست قرار دی گئی بات پھر اُسی شخص سے یکسر غلط بھی کہی جا سکتی ہے اور اگر اس عمل میں بدنیتی کی بجائے خلوص کارفرما ہے تو کُچھ مضائقہ نہیں۔ شعور جیسے جیسے پُختہ ہوتا جاتا ہے انسان کو اپنے گزرےوقت کے بڑے بڑے عالمانہ فیصلوں اور سوچ سے رجوع کی ضرورت پیش آتی ہے۔ مذکورہ لیڈران بھی اِس خامی سے مُبّرا نہیں ہیں لیکن اگر وہ مُخلص رہے ہیں تو ہمیں اُنہیں اُن کی تمام خوبیوں خامیوں سمیت قبول کرنا چاہیے :)
 
آخری تدوین:

آوازِ دوست

محفلین

آوازِ دوست

محفلین
اس بات کی وضاحت کردیں ۔
کئی معتبر ذرائع سے یہ بات سُنی کہ موصوف شہباز شریف صاحب کے چہیتے افسر تھے اور اُن کے کیے گئے کسی بھی کام کو اوپر کا کوئی آرڈر تبدیل نہیں کرتا تھا۔ جو لوگ وزیرِ اعلیٰ کی دھونس لے کر جاتے اور عین وقت پر موبائل پر بات نہ کروا سکتے اُنہیں وہ اپنے فون پر رابطہ کروا دیتے تھے :)
 

arifkarim

معطل
قانون موجود ہیں مگر عمل درآمد صفر ہے۔
عمل داری جب خادم اعلیٰ کی محتاج ہو تو ایسے ہی ہوگا۔ قانون پر عمل داری کرنا قومی اداروں کا کام ہے جو کہیں سے بھی آزاد نہیں ہیں بلکہ ہر آنے والی حکومت کے زیر سایہ کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
 
حادثہ پرپا ہونے سے پہلے اس کے سد باب پر غور کیا جاتا ہے جب حادثہ وقوع پذیر ہوجائے تو پھر رونے پیٹنے کی بجائے الجھی ہوئی چیزوں کو سلجھانا چاہیئے نہ کہ اسے مزید الجھا دیا جائے۔
بہت سے نظریات حالات و واقعات کیساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں ان کو تضادات نہیں کہا جاتا۔
مسلم لیگ کا تقریباً ہر راہنما پہلے متحدہ ہندوستان کا قائل تھا اور اسی طرح 1945 کے بعد بہت سے گانگرسی راہنماؤں کا نقطہ نظر تبدیل ہوچکا تھا اور وہ نھی اب بٹوارے کی جانب دیکھ رہے تھے اس میں صرف امام الہند آخری روز تک متحدہ ہندوستان کے نظریے پر قائم تھے ان کے علاوہ گاندھی اور نہرو بھی تقسیم کے قائل ہوچکے تھے ۔ مزید معلومات کے لئے ابولکلام کی کتاب آزادئ ہند دیکھی جاسکتی ہے۔
اس بات کی روایت پاکستانی کی مقامی آبادی بڑے فخر سے کہتی ہے کہ جنہوں نے ہماری عزتوں کو پائمال کیا ، ہم نے بھی ان کی عزتوں کو پائمال کیا ۔
اس میں قتل و غارت کا تو طرفین سے ذکر ملتا جو اشتعال کا لازمی جزو تھا مگر عزتوں والی بات مجہول نظر آتی ہے پاکستان کی طرف سے۔ اس میں یہ بات ضرور ہے کہ یہاں کی اشرافیہ نے ضرور آنے والے مسلم مہاجروں کی عزتوں سے ضرور کھیلا تھا جس کی عکاسی بہت سے افسانوں میں ملتی ہے جیسا کہ "یا خدایا" میں مگر اس شہوت پرستی کو اسلام کیساتھ اور نظریہ پاکستان کیساتھ نتھی کرنا درست نہیں۔
اور اقبال کا شعر پکار پکار کر کہتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے !!!
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے۔۔۔
اور بہت اشعار ہیں کس کس کو نقل کیا جائے لیکن یہ اقبال کی فکر کے ساتھ مذاق ہے کہ پاکستان کو ان کا خواب کہا جائے
باقی تمام باتوں پر عارف کریم بھائی سے متفق ہوں
اقبال کا یہ شعر جھوٹ کہ رہا ہے ۔میں بھی یہی کہتی ہوں ۔ مگر کیا وجہ ہے ایک نہرو رپورٹ کے بعد، چودہ نکات کے بعد ، اقبال نے علیحدہ وطن کا مطالبہ کرتے اس کی سرحدیں بھی تجویز کیں ۔ اقبال کے قول و فعل میں بہت بڑا تضاد ہے ۔ ان کی فکر مستحکم ان کی '' خودی '' کے فلسفہ سے ہوئی ۔۔۔مگر اس فلسفے سے معاشرے پر کیا اچھا اثر پڑا؟ کیا ہم ترقی کر گئے ؟ کیا زوال عروج میں بدل گیا؟ یا سر سید کی اصلاحات زیادہ اہم تھیں ، جن کی فکر مستحکم بھی تھی ۔ کبھی دو باتیں نہیں کہیں تھیں مگر ان کو آج یاد نہیں کیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔سر سید نے کب پاکستان کی پہلی اینٹ رکھی تھی ؟ الٹا ان کی سوچ پر دھاوا بول دیا گیا ۔
محظ ایک شعر کی بنیاد پر تضادات کا مجموعہ نہیں کہا جاسکتا۔
یہ شعر باقاعدہ تاریخی تناظر میں کہا گیا تھا۔ یہ شعر بانگ درا کی نظم وطنیت سے ہے جو عین اس زمانے میں لکھی گئی جب ترکوں کو جنگ عظیم اول میں شکست ہورہی تھی مغربی قوتیں سلطنت کے بٹوارے کر رہی تھیں اور اس کے لئے باقاعدہ قومیت کا نعرہ بلند کیا گیا اور اس میں شریف مکہ کا نام دیکھا جاسکتا ہے۔ اگر اس تناظر میں آپ دیکھیں تو یہ پوری نظم ایک حقیقت نظر آئے گی۔
اب ہند کے حالات ایسا رخ اختیار کر چکے تھے کہ ایک طبقہ باقاعدہ اس چیز کا حامی ہوا کہ تقسیم ہی بہترین حل ہے اور یہی نعرو مقبول عوام ہوا لوگوں نے ووٹ دئے مسلم لیگ کو حالانکہ اس سے پہلے یونینسٹ اور مجلس احرار پنجاپ اور مسلمانوں میں مسلم لیگ میں زیادہ مقبول تھیں۔
اقبال کے شکوہ سے منقولات سے خودی کا سفر مسلمانوں کے لیے زادہ سفر اور رہنما ہے ؟
اب یہ کہ اقبال کو کیوں کر مشرق کا شاعر قرار دیا گیا اب یہ تو اقبالیات کے ماہر ہی فیصلہ صادر کرسکتے ہیں کہ اقبال میں آفاقیت ہے یہ نہیں میں اس حوالے سے کچھ نہیں کہتا۔
مگر ایک بات ضرور ہے کہ فلسفہ میں وحدت الوجود کے صدیوں کے جمود کے بعد فلسفہ خودی پیدا ہوتا ہے جسے وحدت الوجود کا بہتر متبادل کہا جاسکتا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ سائنس کی اچانک ترقی نے بہت سے علوم و معارف سے انسان کو بے نیاز کر دیا اور فلسفہ خودی پر مزید محققین کی قلم نہ رواں ہو سکی۔

یہ ایک طویل بحث کی متقاضی چیز ہے۔ دو قومی نظریہ سقوطِ ڈھاکہ کے وقت فیل نہیں ہوا تھا، بلکہ 1952 یا اس سے پہلے ہی ختم ہو چکا تھا، جب سرحدوں کو مزید مہاجرین کے لئے بند کر دیا گیا۔ یعنی ان کو یہ پیغام دیا گیا کہ اب یہ ملک مسلمانوں کا نہیں، بلکہ پاکستانیوں کا ہے۔
ویسے ہندوستانی مسلمانوں کا الگ الگ ملکوں میں بٹوارا ہونا بھی کچھ ایسا غلط نہیں تھا۔ شاید ابتدا میں سوچا بھی ایسا ہی گیا تھا۔ میں نے چوہدری رحمت علی کے مضمون کا ایک حصہ پڑھا تھا۔ اس میں یونائیٹڈ سٹیٹس آف پاکستان کے نام سے کنفیڈریشن کا تصور تھا شاید۔ یہ بذاتِ خود ایک دلچسپ قصہ ہے کہ چوہدری رحمت علی پاکستان کے قیام کے کچھ ہی بعد یہاں سے روتے پیٹتے کہیں چلے گئے، کہ سوچا کیا تھا اور بن کیا گیا۔
اب یہ بات درست ہے کہ جس طرح تقسیم چاہی گئی تھی ویسی تقسیم نہ ہو سکی، جلد بازی کا مظاہرہ کیا گیا اور محمد علی جناح کے بلکل سخت مؤقف نے بھی بہت سی راہیں مسدود کیں ۔ اس پر ابوالکلام کا بھی مشورہ ملتا ہے جو مسلم لیگ کو دیا گیا جب تقسیم کی صورت حال مستقل نظر آرہی تھی کہ آدھا بنگال اور آدھا پنجاب لیکر کیا کرو گے اگر لینا ہے تو پورے پنجاب کا مطالبہ کرو پھر مگر افسوس کہ جذباتیات کا مظاہرہ کیا گیا اور متحدہ کا نعرہ لگانے والوں کی ہر ممکن تضحیک اور تکفیر کی گئی۔
اب 1952 میں روکے جانا کو اس وقت کے انتظامی مشکلات کے پیش نظر دیکھنا چاہیئے نہ کہ اسے دوقومی نظریہ کی ناکامی سے منسوب۔
اب یہ بھی تو کہا جاسکتا ہے کہ 1000 میل کی مسافت پر دو مختلف خطے، دو مختلف زبانوں والے لوگ، صرف ایک چیز پر اکھٹے رو سکتے ہیں اگر ان دینی وحدت ہو اور یہ صرف دوقومی نظریے کی بدولت تھا ایسی مثال کسی اور خطے سے نہیں دی جاسکتی۔ مگر جب نااہل اور آمر غیر بوٹوں والے ،بوٹوں والے یا بوٹوں نے نکلنے والے عنان حکومت پر قابض ہوئے تو ملک بٹوارے کی طرف گامزن ہوا۔ اس کی وجہ پھر تقسیم ہند نہ تھی بلکہ قحط الرجال تھی جس کو کتاب "آواز دوست" میں پڑھا جاسکتاہے۔

اب ہم بجائے اپنے آپ کو کوسنے اور تحریک آزادی کے راہنماؤں پر ملامت کی بجائے تعمیری جوش و جذبے کی طرف بڑھنا چاہیئے جیسا کہ امام الہند نہ آزادی کے بعد کہا تھا ہم نہیں چاہتے تھے کہ تقسیم ہو مگر اب کہ جب پاکستان بن چکا ہے اب اسے قائم رہنا چاہئے اور اس کی بنیادوں کو مظبوط کرنا چاہئے کیونکہ سارے عالم کی نظریں اس پر ہیں۔ اب ہمیں ہمت اور حوصلے کیساتھ ملکی ترقی اور اس میں وحدت و یگانگت کے لئے ہر ممکن کام کرنا چاہئے اور اس میں سید عطاءاللہ شاہ بخاری صدر مجلس احرار کے کردار کو نمونہ بنانا چاہئے جو انہوں نے تقسیم کے بعد پیش کیا ۔ انہوں نے کہا تھا اس میں کوئی شک نہیں ہم تقسیم کے مخالف تھے اور ہم دیانتداری کیساتھ مخالفت کر رہے تھے لیکن ہماری سوچ کے حق میں آپ لوگوں نے فیصلہ نہیں دیا بلکہ مسلم لیگ کے حق میں فیصلہ کیا۔ اب ہم آپ کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں اور ملکی رضاکار بن کر اس ملک کی ترقی و مظبوطی میں کردار ادا کریں گئے اور باقاعدہ یہ بھی کیا گیا کہ مسلم لیگ کی مخالفت نہیں کریں گے اور پھر باقاعدہ سیاست سے بھی دستبردار ہوئی احرار صرف اسی لئے کہ مسلم لیگ کو چلنے دیا جائے۔
 

سید عمران

محفلین
میری ذاتی رائے میں ہندوستانی مسلمانوں کو پاکستان بنانے کی ضرورت نہیں تھی۔ کیونکہ پاکستان بننے کی ہی وجہ سے ہندوستانی مسلمانوں کا آج پاکستان، بنگلہ دیش اور کشمیر میں بٹوارا ہو چکا ہے جبکہ ہندوستانی ہندو، سکھ وغیرہ آج بھی اپنے اکثریتی علاقوں میں متحد ہیں۔ یہ بٹوارا ہمارے آباؤاجداد نے تحریک پاکستان کیلئے جد و جہد کر کے خود کیا ہے اور اسکا خم زیادہ بھگتنے کیلئے ہمیں، ہماری آنے والی نسلوں کو چھوڑ گئے ہیں۔ اگر آج ہندوستان کا بٹوارا نہ ہوا ہوتا تو بنگلہ دیش نہ ہوتا، کشمیر تنازعہ نہ ہوتا، اسکی بنیاد پر ڈھیروں جنگیں نہ ہوتیں، اس خطے میں معاشی بحران اور تنزلی نہ ہوتی جو ان جنگوں اور ٹینشن کا پیش خیمہ ہیں۔ یہاں جمہوریت ہوتی، مسلمانوں کی متعدد جماعتیں ہوتیں، اور آمریت کا دور دور تک کوئی وجود نہ ہوتا۔ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئی کھیت۔
یاز آپ کا کیا تجزیہ اس بارہ میں؟
پچھتاوے کی کوئی بات نہیں۔۔۔
ہندوستان پاکستان آج بھی ایک ہوسکتے ہیں۔۔۔
۔۔۔۔بذریعہ غزوہ ہند۔۔۔۔
کیا خیال ہے عارف؟؟؟؟
پھر ہوجائیں انڈیا سے دو دو ہاتھ!!!!
:terror::terror::terror:
 
پچھتاوے کی کوئی بات نہیں۔۔۔
ہندوستان پاکستان آج بھی ایک ہوسکتے ہیں۔۔۔
۔۔۔۔بذریعہ غزوہ ہند۔۔۔۔
کیا خیال ہے عارف؟؟؟؟
پھر ہوجائیں انڈیا سے دو دو ہاتھ!!!!
:terror::terror::terror:
جنگ سے ایک ہو بھی سکتے ہیں مگر پھر ہو سکتا ہے نام میں اختلاف رہ جائےکہ پاکستان رکھنا ہے ، انڈیا رکھنا ہے یا پھر امریکہ وغیرہ ۔:D
 

arifkarim

معطل
پچھتاوے کی کوئی بات نہیں۔۔۔
ہندوستان پاکستان آج بھی ایک ہوسکتے ہیں۔۔۔
۔۔۔۔بذریعہ غزوہ ہند۔۔۔۔
کیا خیال ہے عارف؟؟؟؟
پھر ہوجائیں انڈیا سے دو دو ہاتھ!!!!
:terror::terror::terror:

جنگ سے ایک ہو بھی سکتے ہیں مگر پھر ہو سکتا ہے نام میں اختلاف رہ جائےکہ پاکستان رکھنا ہے ، انڈیا رکھنا ہے یا پھر امریکہ وغیرہ ۔:D

لگتا ہے اس خطے کے مسلمانوں نے اپنی ۱۳۰۰ سالہ تاریخ سے کچھ سبق حاصل نہیں کیا۔ محمد بن قاسم سے لیکر محمد علی جناح تک اگر مسلمان لیڈران نے کچھ کیا ہے تو وہ ہے یہاں کے کافرین سے پنگا۔ ایسا لگتا ہے جیسے انہیں کافرین کیساتھ مل جل کر رہنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ ہر وقت انکے ساتھ سازشیں، مار دھاڑ، جنگیں اور موعود غزوات سر پر سوار ہیں۔ یہاں تک کے ایک علیحدہ ملک بن جانے کے بعد کافرین کے ملک بھارت کیساتھ چھیڑ چھاڑ ختم نہ ہوئی۔ پہلے ۱۹۴۸ میں فوجیں کشمیر بھیج دیں، پھر ۱۹۶۵ کا ایڈونچر کیا۔ وہاں جب کچھ حاصل نہ ہوا تو سیاچین کے پہاڑوں میں فوجیں اتار دیں۔ کبھی کارگل تو کبھی بنگال کہیں اسکون کا چین نہیں۔ آدھا ملک ان جنگوں میں گنوانے کے بعد بھی کچھ عقل نہیں آئی۔ اور مزید وہی غلطیاں دہرانے کے چکر میں باقی کا پاکستان بھی ضائع کر رہے ہیں۔
 

سید عمران

محفلین
لگتا ہے اس خطے کے مسلمانوں نے اپنی ۱۳۰۰ سالہ تاریخ سے کچھ سبق حاصل نہیں کیا۔ محمد بن قاسم سے لیکر محمد علی جناح تک اگر مسلمان لیڈران نے کچھ کیا ہے تو وہ ہے یہاں کے کافرین سے پنگا۔ ایسا لگتا ہے جیسے انہیں کافرین کیساتھ مل جل کر رہنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ ہر وقت انکے ساتھ سازشیں، مار دھاڑ، جنگیں اور موعود غزوات سر پر سوار ہیں۔ یہاں تک کے ایک علیحدہ ملک بن جانے کے بعد کافرین کے ملک بھارت کیساتھ چھیڑ چھاڑ ختم نہ ہوئی۔ پہلے ۱۹۴۸ میں فوجیں کشمیر بھیج دیں، پھر ۱۹۶۵ کا ایڈونچر کیا۔ وہاں جب کچھ حاصل نہ ہوا تو سیاچین کے پہاڑوں میں فوجیں اتار دیں۔ کبھی کارگل تو کبھی بنگال کہیں اسکون کا چین نہیں۔ آدھا ملک ان جنگوں میں گنوانے کے بعد بھی کچھ عقل نہیں آئی۔ اور مزید وہی غلطیاں دہرانے کے چکر میں باقی کا پاکستان بھی ضائع کر رہے ہیں۔
محمد بن قاسم نے تو ہندوں کے ساتھ وہ سلوک کیا کہ اآج تک یاد کرتے ہیں۔۔۔۔
قائد اعظم کو کفار سے پنگا لینے کی مہلت ہی نہ ملی۔۔۔
البتہ کفار خوب کھل کھیل کر کھیلے۔۔۔۔
ٹیپو سلطان سے پنگا۔۔۔بہادر شاہ ظفر کی آل اولاد سے قتل کرکے پنگا۔۔۔
پھر۔۔۔
کشمیر ہڑپ۔۔۔۔جونا گڑھ ہڑپ۔۔۔۔حیدراآباد دکن ہڑپ۔۔۔۔بنگال تقسیم۔۔۔
لمبی تاریخ ہے!!!!!!!!!!
 

arifkarim

معطل
محمد بن قاسم نے تو ہندوں کے ساتھ وہ سلوک کیا کہ اآج تک یاد کرتے ہیں۔۔۔۔
قائد اعظم کو کفار سے پنگا لینے کی مہلت ہی نہ ملی۔۔۔
البتہ کفار خوب کھل کھیل کر کھیلے۔۔۔۔
ٹیپو سلطان سے پنگا۔۔۔بہادر شاہ ظفر کی آل اولاد سے قتل کرکے پنگا۔۔۔
پھر۔۔۔
کشمیر ہڑپ۔۔۔۔جونا گڑھ ہڑپ۔۔۔۔حیدراآباد دکن ہڑپ۔۔۔۔بنگال تقسیم۔۔۔
لمبی تاریخ ہے!!!!!!!!!!
ملک کا بٹوارہ قائد اعظم اور دیگر لیگی رہنماؤں نے اپنے مبارک ہاتھوں سے کیا تھا۔ مولانا آزاد لاکھ سمجھاتے رہے کہ میرے عزیز مسلمان بھائیو، کیوں اپنے ہی ملک کے مسلمانوں کو مختلف خطوں میں تقسیم کر کے کمزور کر رہے ہو۔ مگر لیگی ممبران کے سر پر تو ہندوؤں سے آزادی کا بھوت سوار تھا۔ انہیں نظام حیدر آباد، جوناگڑھ ، بہار، کشمیر اور دیگر ریاستوں کے ہندوستانی مسلمان نظر نہ آئے جو بٹوارہ کے بعد پاکستان سے بالکل کٹ جانے تھے۔ اور وہی ہوا۔
بٹوارہ کے فورا بعد ہندو اکثریت ریاستیں بھارت کیساتھ مل گئیں جنہوں نے باآسانی باری باری مسلم حکومتوں والی ریاستوں کا خاتمہ کر دیا۔ اور یہی نہیں بلکہ کشمیر اور بنگال جیسے مسلم اکثریت علاقوں کو بھی پاکستان سے کاٹ دیا۔ اب پاکستانی باقی بچے کھچے پاکستان پر موج کریں جب تک غزوہ ہند ایٹم بم سے چل نہیں جاتا۔
 
Top