انیس ناگی کا انتقال

الف عین

لائبریرین
تعجب ہے کہ یہ خبر اب تک کسی نے پوسٹ نہیں کی، بہر حال مجھے ہی یہ افسوس ناک اطلاع دینی پڑ رہی ہے کہ کل صبح انیس ناگی نے داعی اجل کو لبیک کہا۔
مزید خبر ’جنگ‘ سے کاپی۔۔۔
لاہور…اردوادب کے ممتاز نقاد ،شاعر اورناول نگار انیس ناگی لاہورمیں انتقال کرگئے ، ان کی عمر 75برس تھی ۔انیس ناگی حق وسچ کی آواز بلند کرنے پر اپنے دوستوں میں ” اینگری اولڈ مین “ کے نام سے مشہورتھے اور کلمہ حق بلاخوف کہہ دیتے تھے ۔ انیس ناگی50کے قریب کتابوں کے مصنف تھے۔انہیں علم و ادب سے بے پناہ شغف تھا ۔ اپنی عادات اور اطوار کے باعث منیر نیازی کے ساتھ ان کی خوب دوستی تھی ۔انیس ناگی سابق بیوروکریٹ بھی تھے۔ آج صبح ناشتے کے بعد وہ حسب عادت مطالعے کے لیے اپنی لائبریری گئے جہاں انہیں دل کا دورہ پڑا اوروہ خالق حقیقی سے جاملے ۔ انہوں نے لواحقین میں بیوہ ، ایک بیٹا اور ایک بیٹی کو سوگوار چھوڑا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون۔

اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ مرحوم پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے اور پسماندگان کو صبر عطا فرمائے۔

اعجاز بھائی آپ کا شکریہ یہ خبر شریک محفل کرنے کا۔
 

زیف سید

محفلین
تعجب ہے کہ یہ خبر اب تک کسی نے پوسٹ نہیں کی، بہر حال مجھے ہی یہ افسوس ناک اطلاع دینی پڑ رہی ہے کہ کل صبح انیس ناگی نے داعی اجل کو لبیک کہا۔
مزید خبر ’جنگ‘ سے کاپی۔۔۔
لاہور…اردوادب کے ممتاز نقاد ،شاعر اورناول نگار انیس ناگی لاہورمیں انتقال کرگئے ، ان کی عمر 75برس تھی ۔انیس ناگی حق وسچ کی آواز بلند کرنے پر اپنے دوستوں میں ” اینگری اولڈ مین “ کے نام سے مشہورتھے اور کلمہ حق بلاخوف کہہ دیتے تھے ۔ انیس ناگی50کے قریب کتابوں کے مصنف تھے۔انہیں علم و ادب سے بے پناہ شغف تھا ۔ اپنی عادات اور اطوار کے باعث منیر نیازی کے ساتھ ان کی خوب دوستی تھی ۔انیس ناگی سابق بیوروکریٹ بھی تھے۔ آج صبح ناشتے کے بعد وہ حسب عادت مطالعے کے لیے اپنی لائبریری گئے جہاں انہیں دل کا دورہ پڑا اوروہ خالق حقیقی سے جاملے ۔ انہوں نے لواحقین میں بیوہ ، ایک بیٹا اور ایک بیٹی کو سوگوار چھوڑا ہے۔

دانش ور کو موت بھی پڑھی لکھی ہی ملی کہ کتابوں کے درمیان انتقال ہوا۔

اک اور چراغ بجھا ۔۔۔

زیف
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات کو بلند کرے
اور لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔ آمین۔
 
انیس ناگی کی وفات پر عطاءالحق قاسمی صاحب کے تاثرات
ایک آواز، جو خاموش نہیں ہونا چاہئے تھی! ......روزن دیوار سے …عطاء الحق قاسمی
ایک آواز جو خاموش نہیں ہونا چاہئے تھی، وہ گزشتہ روز خاموش ہو گئی۔ یہ آواز انیس ناگی کی تھی!
انیس ناگی یوں تو ایک بیورو کریٹ کے طور پر اپنی گزر بسر کرتے رہے لیکن وہ ان افسروں میں سے تھے جو جانے کس مجبوری کے تحت اس کوچے کی طرف آ نکلے لیکن ان کا دل دوران ملازمت اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ادب ہی میں اٹکا رہا۔ ان کا اوڑھنا بچھونا ادب تھا۔ حتیٰ کہ ان کی حرکت قلب بھی مطالعہ کے دوران بند ہوئی۔ میں نے ابھی کہا کہ جو آواز خاموش نہیں ہونا چاہئے تھی۔ وہ خاموش ہو گئی تو یوں کہا کہ انیس ناگی صحیح معنوں میں امرتسری بلکہ ”امبر سری“ تھے۔ کھلے ڈلے اور منہ پھٹ۔ بغاوت ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ وہ نہ ماننے پر آتے تو انہیں بھی ماننے سے انکار کر دیتے جنہیں ساری دنیا مانتی ہو جبکہ اس کے برعکس ہم سب کی برین واشنگ ہو چکی ہے، نقادوں نے ہمیں جن ادیبوں اور شاعروں کے نام یاد کروا دیئے ہیں ہم انہیں بڑا مانتے ہیں۔ جن کے نام یاد نہیں کرائے، وہ ہمارے حافظے سے محو ہو چکے ہیں۔ انیس ناگی وسیع المطالعہ شخص تھے۔ چنانچہ وہ جو ادب کے اونچے سنگاسن پر بٹھائے گئے اور وہ جنہیں درخور اعتناء ہی نہ سمجھا گیا۔ وہ انہیں اپنے دل و دماغ سے پڑھتے تھے اور پھر ان کی ریٹنگ بھی خود کرتے تھے۔
انہیں اگر بادشاہ ننگا نظر آتا تھا، تو وہ کہہ دیتے تھے بادشاہ ننگا ہے۔ اور اگر انہیں کسی گدڑی میں لعل چھپا نظر آتا تو وہ اسے جھاڑ پھونک کر منظر عام پر لانے کی کوشش کرتے تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ ادب کے جن بادشاہوں کو وہ مانتے نہیں تھے یا جنہیں مانتے تھے ان کے بارے میں ان کی رائے ہمیشہ دقیع ہوتی ہو چنانچہ مجھے ان سے اختلاف بھی رہتا۔ میں انتظار حسین یا ارنسٹ ہمینگوے کو ناگی کی نہیں اپنی نظر سے دیکھتا تھا لیکن یہ آواز خاموش نہیں ہونا چاہئے تھی۔ ہمارے درمیان کوئی تو ہو جو تمام مصلحتوں کو پاؤں تلے روندتے اور خلق خدا کی ملامت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے دل کی بات کہے۔ انہوں نے تو اپنی آپ بیتی میں جس کی صدارت کا اعزاز مجھے حاصل ہوا تھا، اپنے والد کے بارے میں بھی وہی کچھ لکھا جیسا وہ محسوس کرتے تھے!
بہت برس پیشتر قراة العین حیدر پاکستان آئیں تو انہیں ناگی نے اپنے گھر مدعو کیا اور پھر انہیں سامنے بٹھا کر اردو کی اس سب سے بڑی ناول نگار کے جو لّتے لینا شروع کئے تو ناگی کی بیگم پریشان ہو گئیں اور انہوں نے مداخلت کرتے ہوئے کہا ”اب بس بھی کریں۔ گھر آئے مہمان کے ساتھ اس طرح بحث میں الجھا نہیں کرتے!“ اس پر ناگی نے بیگم کو مخاطب کیا اور بولے ”یہ ہم ادیبوں کا باہمی معاملہ ہے! تم نان رائٹر ہو چنانچہ تمہیں رائٹر کے درمیان میں آنے کی ضرورت نہیں!“ وہ قراة العین حیدر کو بڑا رائٹر مانتے تھے لیکن کچھ باتوں سے اختلاف تھا جس پر وہ ان سے الجھ رہے تھے… انیس ناگی کو اردو کا جو افسانہ نگار سب سے زیادہ وہ پسند تھا۔ وہ سعادت حسن منٹو تھا۔ ناگی نے ان پر پی ایچ ڈی بھی کی اور ان کی حیات پر ایک دستاویزی فلم بھی بنائی۔ مرحوم جب پاک ٹی ہاؤس میں داخل ہوتے تو اس کے سوئے سوئے سے در و دیوار جاگ اٹھتے۔ ان کی میز سے اٹھنے والی آوازیں دوسری میزوں تک سنائی دیتیں۔ وہ کبھی دلیل اور کبھی کسی تیز جملے سے مخاطب کی مت مار دیتے لیکن جنہیں وہ عزیز رکھتے تھے، انہیں بہت عزیز رکھتے تھے۔ ان کے ان ”عزیزوں“ میں ڈاکٹر تبسم کاشمیری، ڈاکٹر سعادت سعید، زاہد مسعود، سمیع آہوجہ اور عبدالرشید کے علاوہ راقم الحروف بھی شامل تھے، دو ہفتے قبل میں نے مختلف فنون و لطیفہ کی نمائندہ شخصیات کو الحمراء آرٹ کونسل میں مدعو کیا تاکہ الحمراء ایوارڈ جو فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں کے نمایاں افراد کو دینے کا پروگرام بنایا ہے، اس کے طریق کار کے حوالے سے تجاویز طلب کی جا سکیں، متذکرہ اجلاس میں انیس ناگی بھی مدعو تھے۔ مگر انہوں نے ہنستے ہوئے کہا ”میں تو ایوارڈ لینے والوں میں سے ہوں گا۔ آپ سمیع آہوجہ اور سعادت سعید کو اس اجلاس میں مدعو کریں!“ میں نے ابھی ان کے ”عزیزوں“ کی جو نامکمل سی فہرست پیش کی ہے۔ وہ جب ان میں سے بھی کسی کی بات پر ناراض ہوتے تو پھر انہیں بھی آڑے ہاتھوں لیتے تھے۔
جیسا کہ میں نے کالم کے آغاز میں آپ کو بتایا کہ انیس ناگی کی زندگی کتابوں کے گرد ہی گھومتی تھی، کتابیں پڑھنا اور کتابیں لکھنا ان کا واحد شغلہ تھا۔ وہ کوئی مقبول عام رائٹر نہیں تھے چنانچہ انہیں شبلشر آسانی سے دستیاب نہیں ہوتے تھے شروع شروع میں فیروز سنز نے ان کی کتابیں شائع کیں مگر بعد میں ناگی نے ان سے اپنی کتابیں واپس لے کر خود شائع کرنا شروع کر دیں۔ القمر انٹرپرائز نے ان کی تین کتابوں ”لاہور جو شہر تھا“… ”وقت کی کہانیاں“ اور ”غالب کا مقدمہ پنشن“ کی اشاعت کا اہتمام کیا۔ مکتبہ تعمیر انسانیت اور القمر انٹرپرائز کے سعید اللہ صدیق سے ناگی کے جنازہ میں ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ چند روز قبل انہوں نے اپنا ایک ناول مکمل کیا تھا مگر اس کے صفحات کم تھے۔ سعید اللہ صدیق نے انہیں مشورہ دیا کہ ناول کے حساب سے یہ بہت کم ہے لہٰذا تھوڑے سے صفحات کا اضافہ کر دیں مگر ناگی نے کہا ”ناول جہاں ختم ہونا چاہئے وہ وہیں ختم ہوا ہے۔ میں اسے کچی لسی نہیں بنانا چاہتا۔“
انیس ناگی کا ایک بیٹا دانیال ناگی اور ایک بیٹی ہے۔ دانیال ڈاکٹر ہے اور باپ سے بہت محبت کرنے والا بیٹا ہے۔ وہ چند روز قبل انہیں ہسپتال لے گیا تھا اور سارے ٹیسٹ کرائے تھے جو صحیح نکلے۔
وفات سے بارہ چودہ گھنٹے قبل انیس ناگی مجھے پنجابی انسٹیٹیوٹ آف لینگوئج اور لٹریچر (پلاک) کے زیر اہتمام ”پنجاب کیفے“ کی افتتاحی تقریب میں ملے اور ان کے ساتھ گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے تک گپ شپ ہوتی رہی جو ہمیشہ کی طرح بہت مزے کی تھی۔ انہوں نے ایک ادیب کا نام لیا اور کہا ”یار اسے بے شمار ایوارڈ مل چکے ہیں۔ کوشش کر کے اسے نشان حیدر بھی دلا دو!“ اور میں ہنس کر خاموش ہو گیا… اور اب انیس ناگی خاموش ہو گیا ہے۔ نئی شاعری کی آخری توانا آواز، ناول نگار، محقق، نقاد، مترجم اور ایک کھرا انسان! اصغر ندیم سید اور اس کے دوسرے دوستوں نے اسے اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتارا، چنانچہ وہ تو یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ انیس ناگی مر گیا مگر میں یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں!
ربط

 

x boy

محفلین
انا للہ و انا الیہ راجعون۔

اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ مرحوم پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے اور پسماندگان کو صبر عطا فرمائے۔

اعجاز بھائی آپ کا شکریہ یہ خبر شریک محفل کرنے کا۔
بالکل یہی میری طرف سے بھی دعاء اور خبر شئر کرنے کا شکریہ
 
Top