عجیب ویلڈر#
کہتے ہیں کے کسی شہر کے بیچوں بیچ ایک ویلڈر کی
دوکان تھی جس پر لگے بورڈ پر لکھا تھا یہاں
رشتے ناطے، تعلوقات، ٹوٹی رفاقتیں اور دل مضبوطی سے ویلڈ کئے جاتے ہیں،
ایکُ دن میں نے سوچا کیوں نہ اس انوکھے کاریگر سے جاکر ملا جائے؟ پتہ پوچھتا ہوا پہنچ ہی گیا۔
اتفاق سے تنہا ہی بیٹھا تھا، سلام کرکے بیٹھ گیا
گا ریگر دلی کا کارخندار تھا،منہ میں گٹکے کیساتھ بولتا تو پر نالہ جیسے ہونٹ بن جاتے، باتوں کے بیچ گالیاں بھی گندی نالیوں کی طرح جملوں کو گدلا کرتیںُ لیکن کوئی برا نہیں مانتا کہ کسی کو اپنی اصل نسل کا پتا ہی نہیں تھا
میںُ نے پوچھا کہ میاں سنا ہے تم ٹوٹےُ دل، رشتے ناطے، تعلوقات وغیرہ تسلی سے جوڑے ہو؟ میری عمر دیکھ کر کہنے لگا صاحب اس عمر میں اپکا کیا ٹوٹ گیا؟
میں نے اصلُ بات سے ہٹ کر کہا کہ کیوں میاں میرے پاس دل نہیں؟
کہنے لگا ارے صاحبُ، صاحب دل سب کہاں ہوتے ہیں، آپ یہ چھوڑو، بتاؤ کیا ویلڈ کرنا ہے
میں نے کہا کچھ رشتے ٹوٹ سے گئے ہیں، کیا ویلڈ کر پاؤ گے؟
اس نےُ گٹکا منہ ڈالا اور کہا آپ اندر آو یہاںُ باہر غلُ بہت ہے۔بینچ پر بیٹھتے ہوئے اس نے اپنی لال سی زبان نکالی اس پر انگلی رکھی اور کہا صاحب دنیا میں اس سے بڑی ویلڈ ینگ مشین ابھی تک تو کوئی ایجاد نہیں ہوئی،عقل کی طرح سب کے پاس ہے لیکن استعمال ہر کوئی نہیں جانتا۰۰۰لمحہ بھر کو تو مجھے سکتا سا ہوگیا؟
پھر طنزیہ انداز میں کہنےُ لگا چاہو تو میں اسکے استعمال کا طریقہ آپ کو بھی بتادوں۰۰۰میں نے تجسس میں حامی بھر لی کہنے لگا۰۰۰
صاحب رشتوں اور تعلوقات میں جوڑ لگانے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اتنا میٹھا بول کے تیرے ہونٹوں کا تبسم نہ چھپے؟ بس یہ ہی اس ویلڈ ینگ راڈ کا مسالہ ہے،
بات تو سچ تھی مگر تھی رسوائی کی کہُ سارا مثلہ ہی زبان کا ہےکے انسان اپنیُ ہی زبان کے پیچھے چھپا ہوتا ہے، وہ کہتے ہیں نا کے گنے کا رس اگر سوکھ جائے تو وہ لکڑی بن جاتا ہے اور زبان اکڑ جائے تو تیر؟ میںُ ایک جاہل کے سامنے خود کو ان پڑھ سا محسوس کر رھا تھا،
پھر وہ ہنس کر کہنے لگا صاحب میں زبان کا ڈاکٹر ہوں، بندے کے منہُ کھولتے ہی بتا دیتا ہوں کے زبان میٹھی ہے کہ کڑوی، لمبی ہے کہ چھوٹی، مضبوط ہے کہ کچی؟ چالو ہے یا انداز آپ فضیحت اوروں کو نصیحت کا ہے؟
میںُ ذرا اور قریب ہوکر بیٹھ گیا تو سگریٹ سلگا کر کہنے لگا لو جی سنو زندہ مثال سنو کے میری چھوٹی بھاوج سالوں سے ناراض تھیں، بھائی بھی نہیں ملتا تھا، ایک دن میں سب کچھ چھوڑ سیدھا ناراض بھاوج کے گھر پہنچ گیا اور برسوں پرانی غلط فہمیوں کی پھیکی کھیر میں زبان کی مٹھاس ڈالی تو معجزہ دیکھو الگے ہی دن بھابھی بھائی کو لیکر ہمارے گھر اگئیں اور دل سمیت سب ہی دروازے کھل گئے
میں نے پوچھا کیوں ناراض تھیں؟
اس نے عجیب جواب دیا کہ صاحب کنواں کھودتے وقت پانی پر نظر رکھو، راستے کے کنکر مٹی سے کیا لینا دینا؟ یہ غلط فہمیاں الزامات شک و شبے، کہنا سننا رشتوں کے درمیان کنکر مٹی ہیُ تو ہیں؟ جھاڑو پھیرو ان پر اور آگے بڑھ جاؤ کے رشتوں میں دوریاں زندگی کو تو شاید مطمین کردیں لیکن دل کو ضرور اداس کر رکھتی ہیں
مجھے جانا تھا تو میں نے اجازت مانگی تو کہنے لگا صاحب سفر انجام کیسے ہوگا آپ تو اپنے ہی راستے میں خود کھڑے ہوجاتے ہو؟ بات تو پوری سن کر جاؤ؟
میں نے کہا کہ اب اور کیا رہ گیا کہنے کو تم نے گاگر میں ساگر تو بھر دیا ہے بھائی
کہنے لگا آخری بات سنتے جاؤ اور وہ یہ کے زبان کو بھی پیسے کی طرح سنبھال کر استعمالُ کرو نہ زیادہُ دکھاؤ نہ زیادہ جمع خرچ کرو؟ زبان اور پیسا اگر سنبھال کر استعمال کئے جائیں تو دونوں ہی کامیابی کی ضمانت دیتے ہیں
اپنا ڈنڈا اٹھا کر کہنے لگا کے ایک وقت تھا لوگ تلواریںُ ڈنڈے چلایا کرتے، ہاتھوں سے لڑا کرتےُ، جس سے جان تو جاتی لیکن عزت نہیں، آج دیکھو یہ زبان کیسے رشتے توڑے دے رہی ہے کتنوں کی عزتیںُ پامال کر رہی ہے؟
خیر اپکو دیر ہوتی ہے آپ جاؤ لیکن خیال رکھو صاحب کہُ زبان پھسلنے سے کہیں بہتر ہے ٹانگ پھسل جائے،
اٹھتے وقت میںُ سوچ میںُ پڑ گیا کے معاشرے کی اسی ذبوںُ حالیُ اور ہمارے روئیوں کی وجہ سے بڑوں کا ادب دل سے اتر کر گھٹنوں تو پہنچ چکا ہے، اور لگتا ایسا ہے کہ کچھ ہی وقت میںُ جوتیوں تک بھی پہنچ جائے گا اور ہمیں ویلڈر نہیں موچی کے پاس جانا ہوگا؟
اس کے پاس سے اٹھ کر لگ رھا کہ میری طرح سب ہی لوگ ادھورے ہیں، صبر کسی میں نہیں ہر کوئی خضر کو ڈھونڈتا ملتا ہے خود خضر نہیں بنتا کہ اپنا راستہ خود متین کرسکے اور جیونُ کو سدھارے۔
عالمُ ڈائری مورخہ ۱۵ ستمبر۲۰۲۰