سیما علی
لائبریرین
آمیناللہ ان سب سے راضی ہو جو اللہ کی مخلوق کی مدد کرتے ہیں۔ آمین
آمیناللہ ان سب سے راضی ہو جو اللہ کی مخلوق کی مدد کرتے ہیں۔ آمین
بیشک ایسا ہی ہے ۔معصوم اور بے زبان جانوروں پراور یقینا زمین والون میں جانور بھی شامل ہیں ۔
اگر کسی کی استعداد میں کچھ بھی کرنا ممکن نا ہو تب بھی کم از کم اپنی اولاد کی یہ تربیت ضرور کریں کہ کبھی بھی کسی جانور کو کسی بھی طرح پتھر کا ڈنڈے سے مت ماریں اور نا کسی اور کو مارنے دیں۔
آئیے وعدہ کیجئے کہ اپنے بچے کو تربیت دیکر اپ مزید کسی جانور کو اپنے بچے
ظہیراحمدظہیر بھائیاردو کے شاعر، ادیب، قلم کار، ادبی تنظیمیں، ادبی ادارے، استاد، پروفیسر صاحبان!
سن 2020 کی بات ہے. کرونا کی وجہ سے تعلیمی ادارے بند تھے اور پڑھائی کا سلسلہ رکا ہوا تھا ایسے میں یکسانیت سے بچنے کے لیے زیادہ تر وقت کالج کے کتب خانے میں کتابیں پڑھتے یا فیس بک پر گزر رہا تھا. انہی دنوں میں میرے ہاتھ سال اول کی اردو کی نصابی کتاب کا ایک خلاصہ لگا. خلاصے کی ورق گردانی شروع کی تو پہلے ہی صفحے نے توجہ کھینچ لی. اس پر ایک جدول بنی ہوئی تھی جس کے اوپر لکھا تھا کہ اردو املا میں رشید حسن خان کی اصلاحات کی روشنی میں تبدیلی کر دی گئی ہے. درج ذیل جدول میں درست اور غلط الفاظ کی نشان دہی کر دی گئی ہے. جب میں نے اسے سرسری نظر سے دیکھا تو مجھے لگا کہ شاید کچھ غلط ہو گیا ہے درست الفاظ پر غلطی سے غلط الفاظ کی سرخی لکھ دی گئی ہے اور غلط الفاظ پر درست الفاظ کی سرخی لکھ دی گئی ہے. میں نے اردو کے ایک استاد سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ کہنے لگا کیا یہ سب اپ کے علم میں نہیں ہے اب اردو کی یہی املا رائج ہے.
خیر جب میں نے کتاب کی ورق گردانی کی تو پتا چلا کہ ساری کتاب اسی املاء نامہ کی روشنی میں لکھی گئی ہے. میں حیرت زدہ ہو گیا یہ کیا ماجرا ہے؟ حقیقت تک پہنچنے کے لئے تلاش شروع کر دی. پتا چلا اردو کے تمام خلاصوں کے شروع میں یہ صفحہ لگا ہوا ہے اور اس میں یہی ہدایات درج کی گئی ہیں. میں سوچ میں پڑ گیا کہ اج تک جو اردو پڑھتے یا لکھتے رہے ہیں کیا وہ غلط تھی. پھر میرے ذہن میں میر تقی میر کی غزلیں غالب سودا انشاء ذوق مومن نظیر حالی اکبر اقبال فیض فراز ناصر محسن نقوی ادا جعفری زہرہ نگاہ پروین شاکر گھوم گئے، کیا یہ سارے غلط اردو لکھتے رہے. اور پھر اتنے سارے نثر نگار ہیں نذیر احمد دہلوی سے شروع کریں تو عبدالحلیم شرر یلدرم فرحت اللہ بیگ خواجہ حسن نظامی کرشن چندر پریم چند مرزا ادیب غلام عباس عبد اللہ حسین بشریٰ رحمان رضیہ بٹ یہ سارے لوگ غلط اردو ہی لکھتے رہے.
پھر ایک اور عجب معاملہ نظر ایا اب اردو کے حروف تہجی 37 نہیں ہوں گے 54 ہوں گے. بھ، پھ، تھ، ٹھ، جھ، چھ، دھ، ڈھ، رھ، ڑھ وغیرہ بھی حروف تہجی میں شامل ہوں گے.
میں پریشان ہو گیا. گوہا اج تک جو کچھ لکھتا رہا پڑھتا رہا وہ غلط اور جو اج لکھا جا رہا ہے وہ درست. اتنے سارے شاعر افسانہ نگار ناول نگار وہ سب غلط. بھارت کی ایک بستی رشید خان کو پتا چلا کہ صحیح اردو کیا ہےاور ہھر پاکستان میں بیٹھے چند لوگوں کو جو اس اردو کو پاکستان پر نافذ کر چکے ہیں جس کا پاکستان سے کوئی تعلق ہی نہیں. مزید تحقیق کی تو پتہ چلا یہ کام 11-2010 میں ہو چکا ہے جو کام ہماری روایتی اردو کے یکسر خلاف ہے اس کو شامل نصاب کر دیا گیا. اس پر کسی ادبی تنظیم یا ادبی ادارے کا کوئی ردعمل نہیں. کسی ادیب شاعر استاد پروفیسر نے کچھ نہیں کہا. یہ سب دیکھ کر میں بہت پریشان ہوا. میں نے اس بارے میں سماجی ذرائع ابلاغ پر کچھ مضامین لکھے جن کو کافی پذیرائی ملی. 2020 اور 2021 میں میرے یہ مضامین سماجی ذرائع ابلاغ پر بہت زیادہ پھیلے. ادارہ برائے فروغ قومی زبان کے کچھ لوگوں سے بات کی ان کو بھی میں نے یہ مضامین بھیجے. اس پر یہ ہوا کہ ادارہ برائے فروغ قومی زبان نے 2022 میں اردو املا پر ایک سیمینار منعقد کیا گیا اس سیمینار میں رشید حسن خان کی اردو املا کو زیر بحث لایا گیا. کئی اہل نظر نے اس کو مسترد کیا اس کے خلاف دلائل دیے مگر اس وقت کے سربراہ ادارہ نے ان کے دلائل اور مشوروں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے رشید حسن خان کی املا کی توثیق کر دی. گویا وہ املا جو ضابطے کی کسی کارروائی یا قاعدے قانون کے بغیر من مانے طریقے سے 11-2010 میں مسلط کی گئی تھی اس کو 2022 کے اس سیمینار کے ذریعے سند جواز دے دی گئی.
میرا سوال صرف یہ ہے کہ جب اردو کے ساتھ یہ بد سلوکی کی جا رہی تھی (میں بے حرمتی سمیت کچھ اور الفاظ استعمال کرنا چاہتا ہوں مگر مجھے بتایا گیا کہ نہیں شائستگی تحمل نرمی اور خوش مزاجی سے بات کرنا چاہیے) تو چلیں میں خوش مزاجی سے بات کر لیتا ہوں اور پوچھ لیتا ہوں.
(کسی کا پین کھو جائے، کسی کا بٹوا جیب سے نکال لیا جائے، کسی کے گھر سے کوئی چیز چوری ہو جائے، کسی کی گاڑی کہیں ٹکرا جائے اس پر "جو رد عمل" دیا جاتا ہے. مگر جب زبان پر ڈاکہ مارا جائے جب زبان کا حلیہ بگاڑ دیا جائے جب زبان کی شکل مسخ کر دی جائے اس پر ایسا ردعمل کیوں نہیں دیا جا سکتا؟ اس پر کوئی احتجاج کیوں نہیں کیا جا سکتا؟)
اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ گریڈ 17 18 19 20 21 22 میں کام کرنے والے اردو کے پروفیسر کئی پرنسپل کئی یونیورسٹیوں کے پروفیسر کسی کو پتہ ہی نہیں چلا کہ اردو کے ساتھ کیا ہو گیا، کسی کو اس بات کا ادراک ہی نہیں ہوا کہ اردو کا حلیہ کس بری طرح بگاڑ دیا گیا ہے.
اس پورے دور میں 2010 سے لے کے 2025 تک کیا کسی اردو کے پروفیسر، (کالج یونیورسٹی چھوڑیں) کسی اسکول کے استاد نے ہی اس پر احتجاج کیا ہو. میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ ان لوگوں کی سمجھ میں یہ بات آئی ہی نہیں. یہ بیچارے اس قدر احساس کمتری کے مارے ہیں اور نوکری (غلامی) کے جذبے سے اس قدر سرشار کہ ان کے ہاتھ میں جو تھما دیا جائے یہ اس پہ کسی قسم کا غور کیے بغیر اس کو اٹھا کر چل پڑتے ہیں.
ان میں سے زیادہ تر کا رویہ یہ ہے کہ جو کام ہمیں مل گیا ہے کر رہے ہیں اپ اپنا کام کریں ہم جو کچھ بھی کر رہے ہیں اپ ہمیں کرنے دیں. تو یہ اردو کے استاد/پروفیسر جو کچھ ان کو مل جاتا ہے وہ پڑھانا شروع کر دیتے ہیں اس میں کیا لکھا ہے کیوں لکھا ہے یہ ان کا مسئلہ ہی نہیں ہے. اچھا جن دو چار لوگوں نے رشید حسن خان کی اس واردات کی تاویل اور تشریح کرنے کی کوشش کی ہے میں ان کی ان کاوشوں کو کسی قابل ہی نہیں سمجھتا ان میں کوئی دلیل کوئی حوالہ اور کوئی ایسی علمی بات نہیں جس پر توجہ دی جائے. ایک صاحب نے تن تنا کر مجھے کہا بتائیں اپ کی بات کا کیا علمی جواز ہے میں نے کہا بڑی واضح سی بات ہے حرف ایک ہوتا ہے یعنی مفرد، دو حروف کو جوڑ دیا جائے تو وہ حرف نہیں رہتا حروف کا جوڑا بن جاتا ہے یعنی مرکب. ا ب پ ت یہ حرف ہیں ایک ایک الگ الگ لیکن دھ رھ جھ کو حرف نہیں سمجھا جا سکتا کہ یہ یہ دو دو حروف پر مشتمل ہیں. اس کے بعد وہ علم. کے قطب مینار مجھ پر چار حرف بیچ کر اپنے علمی سلیمانی لبادے سمیت روپوش ہو گئے.
پھر یہ کہ زبان کی ساخت ماہرین لسانیات طے نہیں کرتے یہ بولنے اور لکھنے والے طے کرتے ہیں. اگر زبان کی ساخت طے کرنا ماہرین لسانیات کا کام ہوتا تو انگ ریزی وہ نہ ہوتی جو ہے. مگر ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح بھی، جن ہجوں کے ساتھ بھی انگ ریزی کے الفاط لکھ دیے گئے سب لکھنے والے اسی کی پیروی کر رہے ہیں کسی. ماہر لسانیات کو آج تک انہیں تھیک کرنے (بگاڑنے) کی جرآت نہیں ہوئی.
میرا ایک اعتراض اور ہے، رشید حسن خان سے پہلے جو حروف تہجی تھے جو املا لکھی جاتی تھی جو مشاعروں میں غزلیں پڑھی جاتی تھی اگر وہ سب غلط ہے تو اعلان کر دیا جائے کہ وہ غلط ہے اب اسے پڑھایا جائے گا نہ اس کا کوئی حوالہ دیا جائے گا. ویسے جو اب عملی طور پر ہو رہا ہے یہی ہے. کیونکہ جو کچھ اب پڑھایا جا رہا ہے اور جو بچے اب بڑے ہو رہے ہیں ان کو وہ سب غلط ہی لگے گا اور ہم جیسے بوڑھے جو کچھ اب لکھا جا رہا ہے اسے غلط سمجھ رہے ہیں.
اخر میں میرا سوال یہی ہے یہ ادبی تنظیمیں، یہ ادبی ادارے، یہ شاعر ادیب استاد پروفیسر یہ سب کہاں سوئے ہوئے تھے جب اردو پر یہ ڈاکہ مارا گیا جب اردو کی شکل مسخ کر دی گئی اور اج جب میں اس پر بات کرتا ہوں تو ان کی مندی ہوئی انکھیں کیوں کھل جاتی ہیں. یہ میرے اوپر کس منہ سے تبرا شروع کر دیتے ہیں؟ بہتر نہیں کہ یہ سب اپنے اپ کو کوسیں، اپنے اپ کو الزام دیں اور اپنے اپ کو ملامت کے کٹہرے میں کھڑا کریں.
آزمائش ❎
آزمایش✅
ستائش❎
ستایش✅
زیبائش❎
زیبایش✅
پیدائش❎
پیدایش✅
آرائش❎
آرایش✅
گنجائش❎
گنجایش✅
نمائش❎
نمایش✅
پیمائش❎
پیمایش ✅
حوالہ ؛ رشید حسن خاں کی کتاب اُردُو اِملا
محمد سلیم ہاشمی
احمد بھائی ، اس موضوع پر اس سے زیادہ عجیب و غریب تحریر میری نظر سے نہیں گزری۔ اس کے لکھنے والے کون صاحب ہیں ؟ اور یہ تحریر کب اور کہاں شائع ہوئی؟اردو کے شاعر، ادیب، قلم کار، ادبی تنظیمیں، ادبی ادارے، استاد، پروفیسر صاحبان!
سن 2020 کی بات ہے. کرونا کی وجہ سے تعلیمی ادارے بند تھے اور پڑھائی کا سلسلہ رکا ہوا تھا ایسے میں یکسانیت سے بچنے کے لیے زیادہ تر وقت کالج کے کتب خانے میں کتابیں پڑھتے یا فیس بک پر گزر رہا تھا. انہی دنوں میں میرے ہاتھ سال اول کی اردو کی نصابی کتاب کا ایک خلاصہ لگا. خلاصے کی ورق گردانی شروع کی تو پہلے ہی صفحے نے توجہ کھینچ لی. اس پر ایک جدول بنی ہوئی تھی جس کے اوپر لکھا تھا کہ اردو املا میں رشید حسن خان کی اصلاحات کی روشنی میں تبدیلی کر دی گئی ہے. درج ذیل جدول میں درست اور غلط الفاظ کی نشان دہی کر دی گئی ہے. جب میں نے اسے سرسری نظر سے دیکھا تو مجھے لگا کہ شاید کچھ غلط ہو گیا ہے درست الفاظ پر غلطی سے غلط الفاظ کی سرخی لکھ دی گئی ہے اور غلط الفاظ پر درست الفاظ کی سرخی لکھ دی گئی ہے. میں نے اردو کے ایک استاد سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ کہنے لگا کیا یہ سب اپ کے علم میں نہیں ہے اب اردو کی یہی املا رائج ہے.
خیر جب میں نے کتاب کی ورق گردانی کی تو پتا چلا کہ ساری کتاب اسی املاء نامہ کی روشنی میں لکھی گئی ہے. میں حیرت زدہ ہو گیا یہ کیا ماجرا ہے؟ حقیقت تک پہنچنے کے لئے تلاش شروع کر دی. پتا چلا اردو کے تمام خلاصوں کے شروع میں یہ صفحہ لگا ہوا ہے اور اس میں یہی ہدایات درج کی گئی ہیں. میں سوچ میں پڑ گیا کہ اج تک جو اردو پڑھتے یا لکھتے رہے ہیں کیا وہ غلط تھی. پھر میرے ذہن میں میر تقی میر کی غزلیں غالب سودا انشاء ذوق مومن نظیر حالی اکبر اقبال فیض فراز ناصر محسن نقوی ادا جعفری زہرہ نگاہ پروین شاکر گھوم گئے، کیا یہ سارے غلط اردو لکھتے رہے. اور پھر اتنے سارے نثر نگار ہیں نذیر احمد دہلوی سے شروع کریں تو عبدالحلیم شرر یلدرم فرحت اللہ بیگ خواجہ حسن نظامی کرشن چندر پریم چند مرزا ادیب غلام عباس عبد اللہ حسین بشریٰ رحمان رضیہ بٹ یہ سارے لوگ غلط اردو ہی لکھتے رہے.
پھر ایک اور عجب معاملہ نظر ایا اب اردو کے حروف تہجی 37 نہیں ہوں گے 54 ہوں گے. بھ، پھ، تھ، ٹھ، جھ، چھ، دھ، ڈھ، رھ، ڑھ وغیرہ بھی حروف تہجی میں شامل ہوں گے.
میں پریشان ہو گیا. گوہا اج تک جو کچھ لکھتا رہا پڑھتا رہا وہ غلط اور جو اج لکھا جا رہا ہے وہ درست. اتنے سارے شاعر افسانہ نگار ناول نگار وہ سب غلط. بھارت کی ایک بستی رشید خان کو پتا چلا کہ صحیح اردو کیا ہےاور ہھر پاکستان میں بیٹھے چند لوگوں کو جو اس اردو کو پاکستان پر نافذ کر چکے ہیں جس کا پاکستان سے کوئی تعلق ہی نہیں. مزید تحقیق کی تو پتہ چلا یہ کام 11-2010 میں ہو چکا ہے جو کام ہماری روایتی اردو کے یکسر خلاف ہے اس کو شامل نصاب کر دیا گیا. اس پر کسی ادبی تنظیم یا ادبی ادارے کا کوئی ردعمل نہیں. کسی ادیب شاعر استاد پروفیسر نے کچھ نہیں کہا. یہ سب دیکھ کر میں بہت پریشان ہوا. میں نے اس بارے میں سماجی ذرائع ابلاغ پر کچھ مضامین لکھے جن کو کافی پذیرائی ملی. 2020 اور 2021 میں میرے یہ مضامین سماجی ذرائع ابلاغ پر بہت زیادہ پھیلے. ادارہ برائے فروغ قومی زبان کے کچھ لوگوں سے بات کی ان کو بھی میں نے یہ مضامین بھیجے. اس پر یہ ہوا کہ ادارہ برائے فروغ قومی زبان نے 2022 میں اردو املا پر ایک سیمینار منعقد کیا گیا اس سیمینار میں رشید حسن خان کی اردو املا کو زیر بحث لایا گیا. کئی اہل نظر نے اس کو مسترد کیا اس کے خلاف دلائل دیے مگر اس وقت کے سربراہ ادارہ نے ان کے دلائل اور مشوروں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے رشید حسن خان کی املا کی توثیق کر دی. گویا وہ املا جو ضابطے کی کسی کارروائی یا قاعدے قانون کے بغیر من مانے طریقے سے 11-2010 میں مسلط کی گئی تھی اس کو 2022 کے اس سیمینار کے ذریعے سند جواز دے دی گئی.
میرا سوال صرف یہ ہے کہ جب اردو کے ساتھ یہ بد سلوکی کی جا رہی تھی (میں بے حرمتی سمیت کچھ اور الفاظ استعمال کرنا چاہتا ہوں مگر مجھے بتایا گیا کہ نہیں شائستگی تحمل نرمی اور خوش مزاجی سے بات کرنا چاہیے) تو چلیں میں خوش مزاجی سے بات کر لیتا ہوں اور پوچھ لیتا ہوں.
(کسی کا پین کھو جائے، کسی کا بٹوا جیب سے نکال لیا جائے، کسی کے گھر سے کوئی چیز چوری ہو جائے، کسی کی گاڑی کہیں ٹکرا جائے اس پر "جو رد عمل" دیا جاتا ہے. مگر جب زبان پر ڈاکہ مارا جائے جب زبان کا حلیہ بگاڑ دیا جائے جب زبان کی شکل مسخ کر دی جائے اس پر ایسا ردعمل کیوں نہیں دیا جا سکتا؟ اس پر کوئی احتجاج کیوں نہیں کیا جا سکتا؟)
اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ گریڈ 17 18 19 20 21 22 میں کام کرنے والے اردو کے پروفیسر کئی پرنسپل کئی یونیورسٹیوں کے پروفیسر کسی کو پتہ ہی نہیں چلا کہ اردو کے ساتھ کیا ہو گیا، کسی کو اس بات کا ادراک ہی نہیں ہوا کہ اردو کا حلیہ کس بری طرح بگاڑ دیا گیا ہے.
اس پورے دور میں 2010 سے لے کے 2025 تک کیا کسی اردو کے پروفیسر، (کالج یونیورسٹی چھوڑیں) کسی اسکول کے استاد نے ہی اس پر احتجاج کیا ہو. میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ ان لوگوں کی سمجھ میں یہ بات آئی ہی نہیں. یہ بیچارے اس قدر احساس کمتری کے مارے ہیں اور نوکری (غلامی) کے جذبے سے اس قدر سرشار کہ ان کے ہاتھ میں جو تھما دیا جائے یہ اس پہ کسی قسم کا غور کیے بغیر اس کو اٹھا کر چل پڑتے ہیں.
ان میں سے زیادہ تر کا رویہ یہ ہے کہ جو کام ہمیں مل گیا ہے کر رہے ہیں اپ اپنا کام کریں ہم جو کچھ بھی کر رہے ہیں اپ ہمیں کرنے دیں. تو یہ اردو کے استاد/پروفیسر جو کچھ ان کو مل جاتا ہے وہ پڑھانا شروع کر دیتے ہیں اس میں کیا لکھا ہے کیوں لکھا ہے یہ ان کا مسئلہ ہی نہیں ہے. اچھا جن دو چار لوگوں نے رشید حسن خان کی اس واردات کی تاویل اور تشریح کرنے کی کوشش کی ہے میں ان کی ان کاوشوں کو کسی قابل ہی نہیں سمجھتا ان میں کوئی دلیل کوئی حوالہ اور کوئی ایسی علمی بات نہیں جس پر توجہ دی جائے. ایک صاحب نے تن تنا کر مجھے کہا بتائیں اپ کی بات کا کیا علمی جواز ہے میں نے کہا بڑی واضح سی بات ہے حرف ایک ہوتا ہے یعنی مفرد، دو حروف کو جوڑ دیا جائے تو وہ حرف نہیں رہتا حروف کا جوڑا بن جاتا ہے یعنی مرکب. ا ب پ ت یہ حرف ہیں ایک ایک الگ الگ لیکن دھ رھ جھ کو حرف نہیں سمجھا جا سکتا کہ یہ یہ دو دو حروف پر مشتمل ہیں. اس کے بعد وہ علم. کے قطب مینار مجھ پر چار حرف بیچ کر اپنے علمی سلیمانی لبادے سمیت روپوش ہو گئے.
پھر یہ کہ زبان کی ساخت ماہرین لسانیات طے نہیں کرتے یہ بولنے اور لکھنے والے طے کرتے ہیں. اگر زبان کی ساخت طے کرنا ماہرین لسانیات کا کام ہوتا تو انگ ریزی وہ نہ ہوتی جو ہے. مگر ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح بھی، جن ہجوں کے ساتھ بھی انگ ریزی کے الفاط لکھ دیے گئے سب لکھنے والے اسی کی پیروی کر رہے ہیں کسی. ماہر لسانیات کو آج تک انہیں تھیک کرنے (بگاڑنے) کی جرآت نہیں ہوئی.
میرا ایک اعتراض اور ہے، رشید حسن خان سے پہلے جو حروف تہجی تھے جو املا لکھی جاتی تھی جو مشاعروں میں غزلیں پڑھی جاتی تھی اگر وہ سب غلط ہے تو اعلان کر دیا جائے کہ وہ غلط ہے اب اسے پڑھایا جائے گا نہ اس کا کوئی حوالہ دیا جائے گا. ویسے جو اب عملی طور پر ہو رہا ہے یہی ہے. کیونکہ جو کچھ اب پڑھایا جا رہا ہے اور جو بچے اب بڑے ہو رہے ہیں ان کو وہ سب غلط ہی لگے گا اور ہم جیسے بوڑھے جو کچھ اب لکھا جا رہا ہے اسے غلط سمجھ رہے ہیں.
اخر میں میرا سوال یہی ہے یہ ادبی تنظیمیں، یہ ادبی ادارے، یہ شاعر ادیب استاد پروفیسر یہ سب کہاں سوئے ہوئے تھے جب اردو پر یہ ڈاکہ مارا گیا جب اردو کی شکل مسخ کر دی گئی اور اج جب میں اس پر بات کرتا ہوں تو ان کی مندی ہوئی انکھیں کیوں کھل جاتی ہیں. یہ میرے اوپر کس منہ سے تبرا شروع کر دیتے ہیں؟ بہتر نہیں کہ یہ سب اپنے اپ کو کوسیں، اپنے اپ کو الزام دیں اور اپنے اپ کو ملامت کے کٹہرے میں کھڑا کریں.
آزمائش ❎
آزمایش✅
ستائش❎
ستایش✅
زیبائش❎
زیبایش✅
پیدائش❎
پیدایش✅
آرائش❎
آرایش✅
گنجائش❎
گنجایش✅
نمائش❎
نمایش✅
پیمائش❎
پیمایش ✅
حوالہ ؛ رشید حسن خاں کی کتاب اُردُو اِملا
محمد سلیم ہاشمی