انٹر نیٹ سے چنیدہ

سیما علی

لائبریرین
انسان اللہ کا اور اللہ انسان کا وہ بھید ہے جو کسی پہ بھی منکشف نہیں جو انسان میں ہے، وہی سارے جہان میں ہے یعنی جو بھی شے سارے جہان میں ہے وہی ایک انسان میں ہے۔ اللہ نے جب اسے پیدا کیا، اس میں اپنی روح پھونکی، فرشتوں کو حکم دیا اسے سجدہ کرو۔ سجدہ کا حکم سنتے ہی جبرائیل ومیکائیل واسرافیل سجدہ میں گر پڑے۔ عزازئیل کھڑا رہا۔ کہنے لگا سجدہ اللہ ہی کے لئے ہے۔
اس انکار کی بدولت عزازئیل مردود ہوا، راندا گیا۔ شیطان آدم کا منکر ہے۔ اللہ کا نہیں۔

(حضرت ابوانیس محمد برکت علی لدھیانوی قدسرہ العزیز کی کتاب "مقالات حکمت" جلد؛ 1 کا مقالہ نمبر ۱۱۸۲)
 

سیما علی

لائبریرین
محبت وسوسوں کا آئینہ ہوتی ہے، جس زاویے سے بھی اس کا عکس دیکھیں کوئی نیا وسوسہ کچھ الگ ہی خدشہ سر اُٹھاتا ہے۔ ایک پل پہلے مل کر جانے والا محبوب بھی موڑ مڑتے ہوئے آخری بار پلٹ کر نہ دیکھے تو دیوانوں کی دینا اتھل پتھل ہونے لگتی ہے کہ جانے کیا ہوگا؟ کہیں وہ روٹھ تو نہیں گیا۔ کوئی بات بُری تو نہیں لگ گئی اُسے................؟ اور بھر اگلی ملاقات تک سارا چین و سکون غارت ہو جاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی حال میرا بھی تھا لیکن میں کتنا بے بس تھا کہ اپنی مرضی سے قدم بھی نہیں اُٹھا سکتا تھا۔ کبھی کبھی مجھے اس انسانی جسم کی لاچاری پر بے حد غصہ آتا تھا۔ ہمارے جسم کو ہماری سوچ جیسی پرواز کیوں نہیں عطاء کی گئی؟ ایسا ہوتا تو میں اُڑ کر اُس بے پروا کے در جا پہنچتا کہ اس تغافل کی وجہ تو بتا دے؟

(اقتباس: ہاشم ندیم کے ناول "عبداللہ" کے باب "من کی دیوار" سے
 

سید عمران

محفلین
کل حجّام کی دوکان پر ایک سلوگن پڑھا.......
"ہم دِل کا بوجھ تو نہیں لیکن سر کا بوجھ ضرور ہلکا کر سکتے ہیں۔"

لائٹ کی دوکان والے نے بورڈ کے نیچے لکھوایا....
"آپکے دِماغ کی بتی بھلے ہی جلے یا نہ جلے، مگر ہمارا بلب ضرور جلے گا"

چائے والے نے اپنے کاؤنٹر پر لکھوایا......
"میں بھلے ہی عام ہوں مگر چائے خاص بناتا ہوں"۔

ایک ریسٹورینٹ نے سب سے الگ فقرہ لکھوایا......
"یہاں گھر جیسا کھانا نہیں ملتا، آپ اطمینان سے تشریف لائیں۔"

الیکٹرونک دوکان پر سلوگن پڑھا تو میں دم بہ خود رہ گیا...
"اگر آپ کا کوئی فین نہیں ہے تو یہاں سے لے جائیں۔"

گول گپے کے ٹھیلے پر ایک سلوگن لکھا تھا.....
"دِل بڑا ہو نہ ہو، گول گپے کھانے کے لئے منہ ضرور بڑا رکھیں۔"

پھل والے کے یہاں تو غضب کا فقرہ لکھا دیکھا....
"آپ تو بس صبر کریں، پھل ہم دے دیں گے۔"

گھڑی کی دوکان پر ایک زبردست فقرہ دیکھا...
"بھاگتے ہوئے وقت کو اپنے بس میں رکھیں، چاہے دیوار پر ٹانگیں، یا ہاتھ پر باندھیں۔"

"ایک نجومی نے اپنے بورڈ پر سلوگن کُچھ یوں لکھوایا.......
"آئیے... صرف 100 روپیہ میں اپنی زندگی کے آنے والے ایپیسوڈ دیکھئے"۔

بالوں کی ایک کمپنی نے تو اپنے ہر پروڈکٹ پر یہ لکھوا کر حد ہی کر دیا....
’’ہم بھی بال بال بچاتے ہیں۔"
 

سید عمران

محفلین
بدذات
راحیل میری دوسری بیوی کے پہلے شوہر سے تھا۔۔۔! جڑواں بیٹوں کی پیدائش کے وقت کچھ ایسی پیچیدگی پیدا ہوگئی کہ میری پہلی بیوی بچ نہ سکی۔۔۔! بچوں کی دیکھ بھال کہ لیئے امّاں فوری طور پر خیر النساء کو بیاہ لائیں۔۔۔! اور یوں راحیل بھی ہماری زندگی میں چلا آیا۔۔۔! پہلے دن امّاں نے اس کا تعارف کرواتے وقت کہا بیٹا! خیر النساء بہت اچھی عورت ہے۔۔۔! اور دُکھی بھی ہے تیرے گھر اور بچوں کو بہت پیار سے سنبھال لے گی۔۔۔! بس اپنے بچوں کی خاطر تجھے اس کے لڑکے کو بھی گھر میں برداشت کرنا ہو گا۔۔۔! اب وہ اُس بدذات کو بھلا کہاں چھوڑے۔۔۔؟ امّاں کی اس بات نے میرے دِل میں ایک گِرہ لگا دی۔۔۔! دِل کے ایک کونے میں کینہ پلنے لگا۔۔۔! راحیل بہت تمیز دار بچہ تھا۔۔۔! ایک چیز جو میں نے شدت سے نوٹ کی کہ میرے سرد رویئے کے باوجود وہ مُجھ سے بہت محبت کرتا۔۔۔! اور میرے رویے سے اُسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔۔۔!صبح جب میں ناشتے کے لیئے کھانے کی میز پر آتا۔۔۔! راحیل انتہائی تمیز کے ساتھ السلام علیکم ابّا جان کہتا اور بھاگ کر میرے آگے اخبار رکھتا۔۔۔! میرے دِل میں لگی گِرہ ڈھیلی ہوتی کہ ساتھ ہی آواز آتی ارے بد ذات چل اپنی ماں سے کہہ جلدی ناشتہ لائے میرے بچے کو دیر ہو رہی ہے۔۔۔! وعلیکم السلام کے ساتھ راحیل کے سر پر پیار دینے کے لیئے اٹھتا ہاتھ وہیں میری اپاہج سوچ کے ساتھ لڑتا اور شکست کھا کر ڈھیر ہوجاتا۔۔۔! خیرالنساء نے میرے گھر اور بچوں کو اچھی طرح سے سنبھال لیا تھا وہ بہت صابر عورت تھی۔۔۔! کبھی شکوہ زبان پر نہ لاتی ۔۔۔! مُجھے یاد ہے ایک دن راحیل اُس سے پوچھ رہا تھا امّی جان بدذات کیا ہوتا ہے۔۔۔؟ میرا پورا جسم کان بن گیا میری سماعتیں شدت سے خیرالنساء کے جواب کی منتظر تھیں۔۔۔!مسکرا کر کہنے لگیں جب کوئی بہت پیارا لگے اور نظر لگنے کے ڈر سے آپ بتانا نہ چاہیں تو اُسے بدذات کہتے ہیں۔۔۔! اُس دن میں نے دیکھا راحیل بہانے بہانے سے سارا دن امّاں کے اِرد گرد پھرتا رہا۔۔۔!کبھی جاءِ نماز بچھا کر دے رہا ہے اور کبھی ذرا سے کھانسنے پر پانی کا گلاس اُن کے آگے رکھ رہا ہے۔۔۔! امّاں کی آواز آئی ارے بدذات کیوں میری جان کھا رہا ہے ڈرامے باز۔۔۔! جا دفعہ ہو جا کر کچھ پڑھ لے۔۔۔! کیا جاہل رہ کر میرے بیٹے کے مال پر عیش کرتا رہے گا۔۔۔! راحیل نے کھٹ سے امّاں کے گلے میں باہیں ڈالیں چٹاچٹ اُن کی گال پر پیار کیا اچھا پیاری دادی جان کہا اور بھاگ گیا۔۔۔! میں وہیں امّاں کے تخت کے پاس بیٹھا دیکھ رہا تھا امّاں کی آنکھوں میں ہلکی سی نُور کی چمک نظر آئی اور پھر معدوم ہوگئی۔۔۔! کیسے بدقسمت تھے ہم ماں بیٹا اور کیسے خوش بخت تھے وہ ماں بیٹا۔۔۔! خیرالنساء نے بچے کے دِل میں نفرت کی گرہ نہیں لگنے دی تھی۔۔۔! اور میری ماں مُجھ اونچے لمبے مرد ، پیشہ کے اعتبار سے وکیل کے دِل میں کس آسانی کے ساتھ گِرہ لگانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔۔۔!
مُجھے جوتے جمع کرنے کا بہت شوق تھا اچھے جوتے میری کمزوری تھے۔۔۔! میری وارڈ روب میں ایک سے بڑھ کر ایک جوتا موجود تھا۔۔۔! راحیل بہت شوق سے میرے جوتے پالش کیا کرتا۔۔۔! کئی بار میں نے اسے بڑی دلجمعی سے جوتے چمکاتے دیکھا۔۔۔! اور سچ بات تو یہ ہے کہ میرا دِل خوش ہو جاتا جوتے دیکھ کر۔۔۔! مُجھے یاد ہے ایک دفعہ میں نے خوش ہو کر صرف اتنا کہا واہ راحیل کمال کر دیا تم نے اور اسے پانچ سو کا نوٹ انعام دیا۔۔۔! بھاگا بھاگا امّاں کے کمرے میں گیا دادی دادی دیکھیں ابّا نے مُجھے انعام دیا ہے۔۔۔! گھر کے ملازمین سے لے کر گھر میں آنے والے ایک ایک مہمان کو بتاتا کہ ابّا نے مُجھے انعام دیاہے۔۔۔! امّاں نے ہنہ بدذات دفعہ ہو جا کہہ کر منہ پھیر لیا۔۔۔! کاش امّاں اُسے خیرالنساء کی خاطر ہی ایک بار گلے سے لگا لیتیں۔۔۔! جس نے اُن کے پوتوں کو اپنے جِگر کے ٹکڑے سے بڑھ کر پیار دیا تھا۔۔۔! امّاں کی لگائی ہوئی نفرت کی دھیمی آنچ پر میری انا کا بُت پکتا رہا۔۔۔! خیرالنساء کی میرے بچوں اور گھر کے ساتھ بے پناہ محبت اور احسان بھی انا کے اس بُت کو توڑ نہ پایا۔۔۔! راحیل کی تمام خوبیوں کے باوجود میں نے کبھی اسے سینے سے نہیں لگایا تھا۔۔۔! ہاں مگر میں نے اس پر خرچ کرنے یا اس کی ضروریات پوری کرنے میں کوئی کوتاہی نہ کی۔۔۔! خیرالنساء اتنے ہی میں مطمئن تھی۔۔۔! وقت گزرتا رہا بچے بڑے ہو گئے۔۔۔! عمر اور علی میرے جُڑواں بیٹے۔۔۔! اعلی تعلیم کے لیئے ملک سے باہر چلے گئے۔۔۔! راحیل نے میٹرک کے بعد تعلیم کو خیر آباد کہہ دیا۔۔۔! میرے بہت چاہنے کے باوجود وہ پڑھ نہیں سکا۔۔۔! سارے محلے کا لاڈلا تھا صبح کا گھر سے نکلا شام کو گھر آتا۔۔۔! اکثر ہاتھ پر پٹی بندھی ہوتی جانے کہاں سے چوٹ لگوا کر آتا تھا۔۔۔! خیرالنساء نے میرے دریافت کرنے پر کہا فکر نا کریں مُجھے بتا کر جاتا ہے میری اس پر نظر ہے۔۔۔!
وقت نے امّاں کو ہم سے چھین لیا۔۔۔! آخری وقت میں راحیل نے امّاں کی بہت خدمت کی۔۔۔! کئی بار اپنی گود میں اُٹھا کر ہسپتال لے جانے کے لیئے گاڑی میں بٹھایا۔۔۔! اُن کا کمزور وجود باہوں میں بھر کر کئی راتیں حیدر نے ہسپتال کے بیڈ پر جاگ کر گزار دیں۔۔۔! جانے کس مِٹّی سے بنا تھا یہ راحیل حالانکہ اب اس کو بدذات کا مطلب بھی سمجھ میں آنے لگا تھا۔۔۔! مرتے سَمے امّاں کے ہاتھ راحیل کے آگے جُڑے ہوئے تھے۔۔۔! جنہیں چُوم کر اُس نے اپنے ہاتھوں سے امّاں کی آنکھیں بند کیں اور میرے ساتھ انہیں لحد میں اُتارا۔۔۔! میرے دونوں بیٹے چاہنے کے باوجود دادی کی آخری رسومات میں شریک نہ ہو پائے۔۔۔! اُس دن امّاں کی لگائی گِرہ ڈھیلی ہوگئی بالکل ڈھیلی۔۔۔! بس ایک بار راحیل کو گلے سے لگانے کی دیر تھی کہ کُھل جاتی مگر انا کو شکست دینا کہاں میرے بس میں تھا۔۔۔! عمر اور علی نے پڑھائی مکمل ہونے کے بعد شادیاں کر لیں اور اُدھر کے ہی ہو کر رہ گئے۔۔۔! سال میں ایک بار بس ملنے کے لیئے آجاتے۔۔۔!
گھڑی پر سوئیوں کا رقص جاری تھا اب کے ڈانس سٹیپ میں وقت کا پاؤں میری قسمت پر تھا۔۔۔! مُجھے اپنی کارکردگی پر ایک بہت بڑا ایوارڈ ملنے والا تھا
کہ مُجھے فالج ہو گیا۔۔۔! چمکتے بوٹ پہننے والے پاؤں مفلوج ہو گئے۔۔۔! کیا عثمان شاہ ننگے اور ٹہڑھے پاؤں کے ساتھ وہیل چیئر پر ایوارڈ وصول کرے گا۔۔۔! جس انا کے بُت کو میں نا توڑ پایا اللہ نے اُسے توڑ ڈالا تھا۔۔۔! نوکروں کی فوج کے باوجود راحیل میرے سارے کام اپنے ہاتھ سے کرتا۔۔۔! تقریب والے دن اُس نے مُجھے اپنے ہاتھوں سے بہترین لباس پہنا کر تیار کیا جیسے کوئی باپ اپنے بچے کو سکول کے پہلے دن کے لیئے تیار کرتا ہو۔۔۔! اور پھر ایک انتہائی خُوبصورت کالے چمڑے کے بوٹ میرے پاؤں میں پہنانے لگا۔۔۔! جو کہ اسپیشل میرے پاؤں کے لیئے بنے تھے۔۔۔! مُجھے جوتوں کی بہت پہچان تھی جوتے کسی بہت مہنگی کمپنی پر آرڈر دے کر بنوائے گئے تھے۔۔۔! ایوارڈ کے لیئے میری وہیل چیئر چلانے کے لیئے اسپیشل انتظام تھا۔۔۔! مگر راحیل خود میری وہیل چیئر چلا کر سٹیج پر لایا۔۔۔! ایوارڈ ملنے کے بعد میرے گال پربوسہ دیا اور کہنے لگا I am proud of you baba...!
میں کہنا چاہتا تھا۔۔۔! میں بہت بار راحیل سے کہنا چاہتا تھا I am proud of you my son...! مگر کبھی نہ کہہ سکا۔۔۔! وہ ایک بار پھر جیت گیا۔۔۔! یہ مائیں بڑی ظالم ہوتی ہیں ان کی لگائی گرہیں بہت سخت ہوتی ہیں وقت کے ساتھ ڈھیلی تو پڑ جاتی ہیں مگر کُھل نہیں پاتیں۔۔۔! میرے کان میں امّاں کی آواز آئی بدذات۔۔۔! آج شاید میری انا کا امتحان تھا۔۔۔! ایوارڈ کی تقریب کے بعد راحیل مُجھے جوتوں کی ایک فیکٹری میں لے گیا۔۔۔! اندر داخل ہوتے ہی میں نے دیکھا ہر کوئی راحیل کو “سلام صاحب سلام صاحب” کہہ رہا ہے اور پھر راحیل مُجھے ایک دفتر میں لے گیا جہاں ایک بہت خُوبصورت بزرگ بیٹھے تھے۔۔۔! راحیل کو دیکھتے ہی اُٹھ کر آئے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہنے لگے مبارک ہو عثمان شاہ صاحب۔۔۔! اللہ کو کوئی تو آپ کی بات پسند آئی ہو گی جو اُس نے آپ کو راحیل جیسا بیٹا دیا۔۔۔! یہ آپ کے بیٹے کی فیکٹری ہے۔۔۔! آپ کا بیٹا دنیا کا سب سے مشہور شو میکر ہے۔۔۔!
مُجھے یاد ہے ایک دفعہ میری پسند کے بہت مہنگے جوتے خراب ہو گئے تھے۔۔۔! جوتے اٹلی کے تھے اور واپس کمپنی میں بھیجنے میں بہت وقت لگتا۔۔۔! راحیل نے بڑے ماہر موچی “بابا جی“ کو ڈُھونڈ کر اُن سے میرے جوتے مرمت کروائے۔۔۔! یہ وہی جوتے تھے جن پر خوش ہو کر میں نے اُسے پانچ سو کا نوٹ انعام میں دیا تھا۔۔۔! باباجی کی مہارت دیکھتے ہوئے میرے شوق کی خاطر راحیل نے اُن سے جوتے بنانے کا فن سیکھا۔۔۔! اور اب راحیل کے بنائے جوتے پوری دنیا میں مشہور تھے۔۔۔! یورپ سے امراء راحیل کو اپنے جوتے بنوانے کے لیئے بلاتے مگر وہ مُجھے اور اپنی ماں کو چھوڑ کر کبھی نہیں گیا۔۔۔! بابا جی نے ساری کہانی سنائی۔۔۔! اُس وقت راحیل کے پٹی بندھے ہاتھ میری آنکھوں کے سامنے آتے رہے۔۔۔! اُس کے ہاتھوں میں چُبھنے والی سوئیاں میرے سارے جسم میں چھید کر گئیں۔۔۔! میرے جسم میں سوئیاں ہی سوئیاں چُبھی تھیں۔۔۔! کون نکالے گا اُنہیں کیا میری توبہ میرے زخم بھر پائے گی۔۔۔! گرہ کُھل گئی تھی انا کا بُت ٹوٹ چکا تھا۔۔۔! میں نے راحیل کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے۔۔۔! اُس راحیل کے سامنے جسے اماں بدذات کہتی تھیں۔۔۔! راحیل نے میرے آنسو صاف کیئے۔۔۔! میرے قدموں میں بیٹھ گیا اور کہنے لگا میرے سب دوستوں کے پاس ابو تھے۔۔۔! نانی مُجھے اللہ سے دُعا مانگنے کا کہتیں اور میں نے بہت بار اللہ سے دعا مانگی۔۔۔! آپ میری دُعاؤں کا ثمر تھے۔۔۔! میرے اللہ کا انعام تھے۔۔۔! میں آپ سے محبت کیسے نہ کرتا۔۔۔! آپ مُجھے بہت پیارے ہیں ابّا۔۔۔!
آپ کی نظرِ کرم پانچ سو کا وہ ایک نوٹ وہ میری زندگی کی کتاب کا سب سے بہترین Note بن گیا۔۔۔! جس نے میری زندگی بدل ڈالی۔۔۔! میں اپنے ابا کا پسندیدہ بیٹا بننا چاہتا تھا ۔۔۔!

اور وہ بن گیا۔۔۔! وہ میرا سب سے پیارا بیٹا بن گیا ۔۔۔!خیرالنساء پاس بیٹھی رو رہی تھی مگر اُس کی پیشانی چمک رہی تھی۔۔۔! وہ راحیل کی ماں تھی اُس نے راحیل کو محبت کرنا سکھایا تھا۔۔۔! کاش میری ماں نے بھی مجھے محبت کرنا سکھایا ہوتا۔۔۔! اُس رات جب راحیل نے اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے میرے بوٹ اتار کر مجھے بیڈ پر لٹایا۔۔۔! تو زندگی میں پہلی بار میں نے اُس کا منہ چوم کر کہا I am proud of you my son...!
I love you more than everything
 

سیما علی

لائبریرین
گیا ۔۔۔!خیرالنساء پاس بیٹھی رو رہی تھی مگر اُس کی پیشانی چمک رہی تھی۔۔۔! وہ راحیل کی ماں تھی اُس نے راحیل کو محبت کرنا سکھایا تھا۔۔۔! کاش میری ماں نے بھی مجھے محبت کرنا سکھایا ہوتا۔۔۔! اُس رات جب راحیل نے اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے میرے بوٹ اتار کر مجھے بیڈ پر لٹایا۔۔۔! تو زندگی میں پہلی بار میں نے اُس کا منہ چوم کر کہا I am proud of you my son...!
بہت اعلیٰ
ڈھیر ساری دعائیں ۔جیتے رہئیے ۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
ایک شخص اکثر ایک بوڑھی عورت سے انار خریدا کرتا تھا، وزن و پیمائش اور قیمت کی ادا ئیگی سے فارغ ہوکر وہ انار کو چاک کرتا اور ایک دانہ اپنے منھ میں ڈال کے شکایت کرتا کہ یہ تو کھٹے ہیں ....اور یہ کہہ کے وہ انار اس بوڑھی عورت کے حوالے کر دیتا.
وہ بزرگ عورت ایک دانہ چکھ کے کہتی "یہ تو با لکل میٹھا ہے" مگر تب تک وہ خریدار اپنا تھیلہ لیکے وہا ں سے جا چکا ہوتا ہے....اس شخص کی زوجہ بھی ہر بار اس کے ساتھ ہی ہوتی تھی .
اس کی بیوی نے پوچھا "جب اس کے انار ہمیشہ میٹھے ہی نکلتے ہیں تو یہ روز کا ڈرامہ کیسا.."
اس شخص نے مسکرا کے جواب دیا " وہ بوڑھی ماں میٹھے انار ہی بیچتی ہیں مگر غربت کی وجہ سے وہ خود اس کو کھانے سے محروم ہیں ...اس ترکیب سے میں ان کو ایک انار بلا کسی قیمت کے کھلانے میں کامیاب ہو جا تا ہوں ...بس اتنی سی بات ہے"
اس بوڑھی عورت کے سامنے ایک سبزی فروش عورت روزانہ یہ تماشہ دیکھتی تھی ...... سو وہ ایک دن پوچھ بیٹھی "یہ آدمی روزانہ تمہارے انار میں نقص نکال دیتا ہے اور تم ہو کہ ہمیشہ ایک زائد انار وزن کرتی ہو...کیا وجہ ہے؟؟؟"
یہ سن کے بوڑھی عورت کے لبوں پر مسکراھٹ کھیل گئی اور وہ گویا ہوئی "میں جانتی ہو ں کہ وہ ایسا مجھے ایک انار کھلانے کے لیے کرتا ہے اور وہ یہ سوچ بیٹھا ہے کہ میں اس سے بیگانہ ہوں، میں کبھی زیادہ وزن نہیں کرتی ... یہ تو اسکی محبت ہے جو ترازو کے پلے کو بوجھل کر دیتی ہے اور مین ایک انار زیادہ تولتی ھوں" .
محبت اور احترام کی مسرتیں ان چھوٹے چھوٹهے میٹھے دانو ں میں پنہاں ہیں .
سچ ہے کہ محبت کا صلہ بھی محبت ہے ۔:redheart:
 

سیما علی

لائبریرین
امرتا کور سے امرتا پریتم تک

امرتا کور کی شادی بہت کم عمری میں پریتم سنگھ سے ہو گئی تھی۔ اس کے بعد تاعمر انہوں نے اپنے نام کے آگے کور کی جگہ پریتم لگا لیا۔


میرا ماننا ہے کہ امرتا پریتم کو صرف ماضی میں نہیں رہنا بلکہ کتابوں سے نکل کر مستقبل بھی بننا ہے۔ ایسی ہستی آج کے دور میں ہونے والی ڈھیروں تحریکوں اور جوان ذہنوں کی نفسا نفسی کا جواب ہے۔ امرتا پریتم اکیسویں صدی کا ان جانا خواب اور پچھلی صدی کا انقلاب ہیں۔
یہاں میں ضروری سمجھتی ہوں کہ امرتا پریتم جیسی لکھاری جنہیں یوں تو کسی تعارف کا محتاج نہیں ہونا چاہئیے، ان کا سرسری سا تعارف کروا دوں۔ دراصل یہ محتاجی اس لیے ہے کیوں کہ آج کل لوگ ہیری پوٹر کو تو رٹ بیٹھے ہیں لیکن مادری زبانوں کے شہنشاہوں کا ذکر بس فیس بک کی حد تک، اور وہ بھی غلط اقوال میں کرتے ہیں۔
تقسیم ہند سے پہلے والے پنجاب چلیے اور ملتے ہیں ’اج آکھاں وارث شاہ نوں‘ والی امرتا سے!
31 اگست، 1919 میں گجرانوالہ کی سرزمین پر امرتا کور نامی پہلی اور اکلوتی اولاد نے راج بی بی اور کرتار سنگھ کے یہاں قدم رکھا۔ والدہ استانی اور والد صاحب بنیادی طور پر شاعر تھے لیکن پیشے کی مناسبت سے وہ بھی استاد تھے۔

امرتا پریتم اپنی کسی ایک نظم یا افسانے سے نہیں سمجھی جا سکتیں۔ انہیں سمجھنے کے لیے ایک آزاد ذہن اور باغی دل چاہئیے۔ ایک ایسا ذہن جو سطحی سوچ سے بالاتر ہو، دل میں ہوس نہ ہو لیکن بےباک ہو۔ پڑھنے والا ایسے مقام پر ہو جہاں وہ سماجی اور مذہبی شرائط سے آزاد ہو۔

میرے ایک دوست کے مطابق امرتا پریتم کو صرف وہ لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کی ذات کسی بھی قسم کے عدم تحفّظ کا شکار نہ ہو۔
امرتا کور کی شادی بہت کم عمری میں پریتم سنگھ سے ہو گئی تھی۔ اس کے بعد تاعمر انہوں نے اپنے نام کے آگے کور کی جگہ پریتم لگا لیا۔ جچتا بھی تھا، آخر امرتا پریتم کی زندگی پریت ہی پر تو مبنی تھی۔

اس کم عمری میں رشتہ جڑنے اور ختم ہونے کی چھوٹی سی داستان امرتا پریتم نے اپنی کتاب رسیدی ٹکٹ میں لکھی ہے۔ پرانے وقتوں میں اپنے شوہر سے الگ ہوجانا اور وہ بھی دوستانہ طریقے سے، ایک طرح کا سوال تھا۔ اس سوال کو بغیر امرتا پریتم اور پریتم سنگھ سے پوچھے، کئی لوگوں نے خود سو طرح جواب دینے کی کوشش کی۔ جب کہ بات بڑی معمولی مگر گہری تھی۔ امرتا پریتم اپنے شوہر کے ساتھ تو تھیں، پاس نہیں تھیں۔ ان کی نظر میں یہ پریتم سنگھ کی حق تلفی تھی۔۔۔۔۔۔۔
ہم 2019 میں ہیں لیکن آج بھی لوگوں کو میاں بیوی کا باہمی اتفاق سے الگ ہوجانا، یا پرامن طریقے سے طلاق لینا سمجھ نہیں آتا ہے، پھر وہ تو قدیم زمانہ تھا اور آگے امرتا پریتم تھیں، ذہنی سطح کے ساتویں درجے پر فائز!

مجھے افسوس رہے گا کہ امرتا پریتم میری زندگی میں بہت دیر سے داخل ہوئیں۔

اردو ادب سے شغف شاید میرے خون میں ہے کیوں کہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جنہیں اسکول کالج کے دور میں ہی منٹو کے افسانے بھائی کے شیلف پر، اور عصمت چغتائی کی لحاف اماں کے سرہانے پڑی مل جایا کرتی تھی۔ ان تمام باتوں کے باوجود امرتا پریتم سے میری پہلی ملاقات سرسری تھی کیوں کہ پنجابی میں لکھی گئی نظم ’اج آکھاں وارث شاہ نوں‘ مجھے کون سمجھاتا بھلا؟

پھر 2005 میں بھارتی فلم پنجر ریلیز ہوئی۔ اس میں مرکزی کردار نبھانے والے دو اداکار تھے، ارمیلا مٹونڈکر اور منوج باجپائی۔ فلم دیکھنے کے بعد پتہ چلا کہ یہ امرتا پریتم کے مشہور زمانہ ناول پر مبنی ہے۔ اگر آپ نے فلم نہیں دیکھی تو دیکھیے، جذبات کا بہاو اتنا تیز ہے کہ سینے کا پنجرہ توڑ کر باہر آ جائے۔ بس وہ دن تھا اور میں امرتا پریتم کی ذات، زندگی اور قلم کی کھوجی بن گئی۔

سرسری طور پر امرتا پریتم کو لوگ بس دو تین حوالوں سے جانتے ہیں جیسے اج آکھاں وارث شاہ نوں یا پھر’میں تینوں فیر ملاں گی‘ اور یا پھر ساحر لدھیانوی سے ان حد عشق۔

امرتا پریتم ان حوالوں سے کہیں آگے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ امرتا پریتم نے اپنے درد کو اپنے مفاد میں اپنایا۔ اپنی ذات کو زندگی کی بھٹی میں جلایا تو کہیں جا کر تیرہواں سورج، ڈاکٹر دیو، اور پنجر جیسی کہانیاں ادب کے کینوس پر اتریں۔

برصغیر ایک ایسا خطہ ہے جہاں ذہین عورت مردانگی کے لیے دھمکی سمجھی جاتی ہے لیکن اسی خطے میں ایک امرتا پریتم بھی تھیں جنہوں نے زندگی اپنی شرائط پر گزاری۔ امرتا پریتم نے کبھی بھی اپنے عشق کو کسی پردے میں قید کر کے نہیں رکھا، نہ اپنے جذبات کی عکاسی میں کوئی شرمندگی محسوس کی۔

امرتا پریتم نے اپنی عورت اور ادیب دونوں کو ساتھ ساتھ رکھا۔ چاہے وہ ساحر کی محبت میں لکھی گئی نظمیں ہوں یا امروز کی مستقل رفاقت، امرتا پریتم نے کبھی بھی خود سے بغاوت نہیں کی۔ وہ ایک ایسی لکھاری تھیں جو خود بھی کھلی کتاب بن کر زندگی جی گئیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
آج جب دنیا ایک عالمی گاوں کا روپ دھار چکی ہے، عالمی اخبار دنیا کے کونے کونے تک پھیل رہی ہیں۔ تو جی چاہتا ہے اس بھولے بسرے بیتے زمانے کی بات بھی کروں ، جب مصدقہ خبروں کے ذرائع اس قدر عام نہ تھے۔

گھر کے بزرگ پابندی کے ساتھ رات کے آٹھ بجے سیربین سننے کیلئے اپنے ریڈیو سیٹ کو تیارکر لیا کرتے تھے۔ اور سیربین کی خاص جانی پہچانی سگنیچر ٹیون پورے گھر میں گونجا کرتی تھی، اورکانوں کو بھلی لگنی والی مانوس آواز یوں گویا ہوتی تھی۔۔

یہ بی بی سی لندن ہے، شفیع نقی جامعی اور رضا علی عابدی کا سلام قبول کیجئے۔ اور پھر ملک بھر کے حالات کے ساتھ ساتھ عالمی منظرنامہ بھی سننے کو ملتا تھا۔ اسی طرح رضا علی عابدی کا شیر دریا سے اقتباس بھی کسی عظیم شہکار سے کم نہ ہوا کرتا تھا۔ بی بی سی اردو کے بے لاگ تبصرے تجزئیے اور تنقید سننے والوں کو اپنا عادی کر دیا کرتی تھی اور سامعین ان باتوں پر اندھا اعتماد کیا کرتے تھے

سرکاری میڈیا اس دور میں بھی ایسا ہی تھا جیسا آج ہے، پرسکون اورسب اچھا کی اخبار، آن کریں تو راوی چین لکھ رہا ہوتا تھا۔ پھر وقت نے کروٹیں بدلیں، آئی تبدیلی، اے پی پی جو واحد حکومتی نیوز ایجنسی تھی اس کے مقابل پی پی آئی میدان میں اتری، اسی طرح مختلف پرائیویٹ ٹی وی چینلز شروع ہوئے۔

بریکنگ نیوز، ٹاک شوز، ریٹنگ اور مقابلے بازی کا آغاز ہوا، خبر پہلے بریک کرنے کی اس جنگ میں بعض اوقات صحافتی اصولوں کو بھی پس پشت ڈال دیا گیا۔ میڈیا ایک انڈسٹر ی کی شکل اختیار کر گیا، جس میں صحافی کی اہمیت کم اور سرمایہ دار کی اہمیت بڑھ گئی، ٹی وی چینلز نے حکومتوں کو گرانے اور بچانے میں اپنے اپنے کردار شروع کر دیئے ، کوئی حکومتی ترجمان بن گیا تو کوئی ریاستی آلہ کار بنا۔

کاروبار خوب چل نکلا، لیکن یہاں اس ساری جنگ میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بھاری پڑا سوشل میڈیا، چونکہ آج آئی فون اور تھری جی فور جی اور اب فائیو جی کی بدولت ہر شہری نہایت باخبر ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ اس پوزیشن میں ہے کہ مختلف موضوعات پر ٹاک شو کے لئے دلائل بھی رکھتا ہے۔ وہ دن دور نہیں کہ جب یہ ای سٹیزن ، سائبر اور سوشل میڈیا کے سہارے پرنٹ اور الیکٹرانک کا طلسم توڑ کر رکھ دے گا
 

سیما علی

لائبریرین
ماں جی ----- ظفرجی
!


ہمیں اماں جی اس وقت زہر لگتیں جب وہ سردیوں میں زبردستی ہمارا سر دھوتیں-
لکس ، کیپری ، ریکسونا کس نے دیکھے تھے ..... کھجور مارکہ صابن سے کپڑے بھی دھلتے تھے اور سر بھی- آنکھوں میں صابن کانٹے کی طرع چبھتا ... اور کان اماں کی ڈانٹ سے لال ہو جاتے !!!
ہماری ذرا سی شرارت پر اماں آگ بگولہ ہو جاتیں... اور کپڑے دھونے والا ڈنڈا اٹھا لیتیں جسے ہم "ڈمنی" کہتے تھے ... لیکن مارا کبھی نہیں- کبھی عین وقت پر دادی جان نے بچا لیا ... کبھی بابا نے اور کبھی ہم ہی بھاگ لئے ...
گاؤں کی رونقوں سے دور عین فصلوں کے بیچ ہمارا ڈیرہ تھا - ڈیرے سے پگڈنڈی پکڑ کر گاؤں جانا اماں کا سب سے بڑا شاپنگ ٹؤر ہوا کرتاتھا ... اور اس ٹؤر سے محروم رہ جانا ہماری سب سے بڑی بدنصیبی !!
اگر کبھی اماں اکیلے گاؤں چلی جاتیں تو واپسی پر ہمیں مرنڈے سے بہلانے کی کوشش کرتیں .... ہم پہلے تو ننھے ہاتھوں سے اماں جی کو مارتے .... ان کا دوپٹا کھینچتے ... پھر ان کی گود میں سر رکھ کر منہ پھاڑ پھاڑ کر روتے-
کبھی اماں گاؤں ساتھ لے جاتیں تو ہم اچھلتے کودتے خوشی خوشی ان کے پیچھے پیچھے بھاگتے ..... شام گئے جب گاؤں سے واپسی ہوتی تو ہم بہت روتے.....ہمیں گاؤں اچھا لگتا تھا " ماں ہم گاؤں میں کب رہیں گے " میرے سوال پر اماں وہی گھسا پٹا جواب دیتیں ...." جب تو بڑا ہوگا ... نوکری کرے گا ... بہت سے پیسے آئیں گے ... تیری شادی ہوگی ... وغیرہ وغیرہ ... یوں ہم ماں بیٹا باتیں کرتے کرتے تاریک ڈیرے پر آن پہنچتے ...
مجھے یاد ہے گاؤں میں بابا مظفر کے ہاں شادی کا جشن تھا- وہاں جلنے بجھنے والی بتیاں بھی لگی تھیں اور پٹاخے بھی پھوٹ رہے تھے- میں نے ماں کی بہت منّت کی کہ رات ادھر ہی ٹھہر جائیں لیکن وہ نہیں مانی- جب میں ماں جی کے پیچھے روتا روتا گاؤں سے واپس آرہا تھا تو نیت میں فتور آگیا اور چپکے سے واپس گاؤں لوٹ گیا.....
شام کا وقت تھا .... ماں کو بہت دیر بعد میری گمشدگی کا اندازہ ہوا- وہ پاگلوں کی طرع رات کے اندھیرے میں کھیتوں کھلیانوں میں آوازیں لگاتی پھری - اور ڈیرے سے لیکر گاؤں تک ہر کنویں میں لالٹین لٹکا کر جھانکتی رہی -
رات گئے جب میں شادی والے گھر سے بازیاب ہوا تو وہ شیرنی کی طرع مجھ پر حملہ آور ہوئیں- اس رات اگر گاؤں کی عورتیں مجھے نہ بچاتیں تو اماں مجھے مار ہی ڈالتی-
ایک بار ابو جی اپنے پیر صاحب کو ملنے سرگودھا گئے ہوئے تھے- میں اس وقت چھ سات سال کا تھا- مجھے شدید بخار ہو گیا- اماں جی نے مجھے لوئ میں لپیٹ کر کندھے پر اٹھایا اور کھیتوں کھلیانوں سے گزرتی تین کلو میٹر دور گاؤں کے اڈے پر ڈاکٹر کو دکھانے لے گئیں- واپسی پر ایک کھالے کو پھلانگتے ہوئے وہ کھلیان میں گر گئیں ... لیکن مجھے بچا لیا ... انہیں شاید گھٹنے پر چوٹ آئ ... ان کے مونہہ سے میرے لئے حسبی اللہ نکلا ... اور اپنے سسرال کےلئے کچھ ناروا الفاظ ... یہ واقعہ میری زندگی کی سب سے پرانی یاداشتوں میں سے ایک ہے ....
یقیناً وہ بڑی ہمت والی خاتون تھیں-اور آخری سانس تک محنت مشقت کی چکی پیستی رہیں ...
پھر جانے کب میں بڑا ہوگیا اور اماں سے بہت دور چلا گیا...
سال بھر بعد جب گھر آتا.....تو ماں گلے لگا کر خوب روتی لیکن میں سب کے سامنے ھنستا رہتا- پھر رات کو جب سب سو جاتے تو چپکے سے ماں کے ساتھ جاکر لیٹ جاتا اور اس کی چادر میں منہ چھپا کر خوب روتا-
ماں کھیت میں چارہ کاٹتی اور بہت بھاری پنڈ سر پر اٹھا کر ٹوکے کے سامنے آن پھینکتی- کبھی کبھی خود ہی ٹوکے میں چارہ ڈالتی اور خود ہی ٹوکہ چلاتی - جب میں گھر ہوتا تو مقدور بھر ان کا ہاتھ بٹاتا- جب میں ٹوکہ چلاتے چلاتے تھک جاتا تو وہ سرگوشی میں پوچھتیں ... " بات کروں تمہاری فلاں گھر میں ....؟؟ "
وہ جانتی تھی کہ میں پیداٰئشی عاشق ہوں اور ایسی باتوں سے میری بیٹری فل چارج ہو جاتی ہے-
پھر ہم نے گاؤں میں گھر بنا لیا ... اور ماں نے اپنی پسند سے میری شادی کر دی-
میں فیملی لے کر شہر چلا آیا اور ماں نے گاؤں میں اپنی الگ دنیا بسا لی-
وہ میرے پہلے بیٹے کی پیدائش پر شہر بھی آئیں .... میں نے انہیں سمندر کی سیر بھی کرائ...کلفٹن کے ساحل پر چائے پیتے ہوئے انہوں نے کہا " اس سمندر سے تو ہمارے ڈیرے کا چھپڑ زیادہ خوبصورت لگتا ہے....
ماں بیمار ہوئ تو میں چھٹی پر ہی تھا... انہیں کئ دن تک باسکوپان کھلا کر سمجھتا رہا کہ معمولی پیٹ کا درد ہے ... جلد افاقہ ہو جائے گا ... پھر درد بڑھا تو شہر کے بڑے ھسپتال لے گیا جہاں ڈاکٹر نے بتایا کہ جگر کا کینسر آخری اسٹیج پر ہے ......
خون کی فوری ضرورت محسوس ہوئ تو میں خود بلڈ بینک بیڈ پر جا لیٹا .... ماں کو پتا چلا تو اس نے دکھ سے دیکھ کر اتنا کہا..." کیوں دیا خون...خرید لاتا کہیں سے...پاگل کہیں کا "
میں بمشکل اتنا کہ سکا .... " اماں خون کی چند بوندوں سے تو وہ قرض بھی ادا نہیں ہو سکتا ... جو آپ مجھے اٹھا کر گاؤں ڈاکٹر کے پاس لیکر گئیں تھیں ... اور واپسی پر کھالا پھلانگتے ہوئے گر گئ تھیں .... "
وہ کھلکھلا کر ہنسیں تو میں نے کہا "امّاں مجھے معاف کر دینا ... میں تیری خدمت نہ کر سکا "
میرا خیال ہے کہ میں نے شاید ہی اپنی ماں کی خدمت کی ہو گی ... وقت ہی نہیں ملا ... لیکن وہ بہت فراغ دل تھیں .... بستر مرگ پر جب بار بار میں اپنی کوتاہیوں کی ان سے معافی طلب کر رہا تھا تو کہنے لگیں " میں راضی ہوں بیٹا ... کاہے کو بار بار معافی مانگتا ہے !!! "
ماں نے میرے سامنے دم توڑا .... لیکن میں رویا نہیں ... دوسرے دن سر بھاری ہونے لگا تو قبرستان چلا گیا اور قبر پر بیٹھ کر منہ پھاڑ کر رویا-
مائے نی میں کنوں آکھاں
درد وچھوڑے دا حال نی
ماں سے بچھڑے مدت ہوگئ...اب تو یقین بھی نہیں آتا کہ ماں کبھی اس دنیا میں تھی بھی کہ نہیں....!!!!
آج بیت اللّہ کا طواف کرتے ہوئے پٹھانوں اور سوڈانیوں کے ہاتھوں فٹ بال بنتا بنتا جانے کیسے دیوار کعبہ سے جا ٹکرایا...
یوں لگا جیسے مدتوں بعد پھر ایک بار ماں کی گود میں پہنچ گیا ہوں .... وہی سکون جو ماں کی گود میں آتا تھا ... وہی اپنائیت ... وہی محبت ... جس میں خوف کا عنصر بھی شامل تھا .... اس بار منہ پھاڑ کر نہیں .... دھاڑیں مار مار کر رویا !!!!
ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنیوالا رب کعبہ ..... اور ہم سدا کے شرارتی بچے !!!!
رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا

ہمیں اماں جی اس وقت زہر لگتیں جب وہ سردیوں میں زبردستی ہمارا سر دھوتیں-
لکس ، کیپری ، ریکسونا کس نے دیکھے تھے ..... کھجور مارکہ صابن سے کپڑے بھی دھلتے تھے اور سر بھی- آنکھوں میں صابن کانٹے کی طرع چبھتا ... اور کان اماں کی ڈانٹ سے لال ہو جاتے !!!
ہماری ذرا سی شرارت پر اماں آگ بگولہ ہو جاتیں... اور کپڑے دھونے والا ڈنڈا اٹھا لیتیں جسے ہم "ڈمنی" کہتے تھے ... لیکن مارا کبھی نہیں- کبھی عین وقت پر دادی جان نے بچا لیا ... کبھی بابا نے اور کبھی ہم ہی بھاگ لئے ...
گاؤں کی رونقوں سے دور عین فصلوں کے بیچ ہمارا ڈیرہ تھا - ڈیرے سے پگڈنڈی پکڑ کر گاؤں جانا اماں کا سب سے بڑا شاپنگ ٹؤر ہوا کرتاتھا ... اور اس ٹؤر سے محروم رہ جانا ہماری سب سے بڑی بدنصیبی !!
اگر کبھی اماں اکیلے گاؤں چلی جاتیں تو واپسی پر ہمیں مرنڈے سے بہلانے کی کوشش کرتیں .... ہم پہلے تو ننھے ہاتھوں سے اماں جی کو مارتے .... ان کا دوپٹا کھینچتے ... پھر ان کی گود میں سر رکھ کر منہ پھاڑ پھاڑ کر روتے-
کبھی اماں گاؤں ساتھ لے جاتیں تو ہم اچھلتے کودتے خوشی خوشی ان کے پیچھے پیچھے بھاگتے ..... شام گئے جب گاؤں سے واپسی ہوتی تو ہم بہت روتے.....ہمیں گاؤں اچھا لگتا تھا " ماں ہم گاؤں میں کب رہیں گے " میرے سوال پر اماں وہی گھسا پٹا جواب دیتیں ...." جب تو بڑا ہوگا ... نوکری کرے گا ... بہت سے پیسے آئیں گے ... تیری شادی ہوگی ... وغیرہ وغیرہ ... یوں ہم ماں بیٹا باتیں کرتے کرتے تاریک ڈیرے پر آن پہنچتے ...
مجھے یاد ہے گاؤں میں بابا مظفر کے ہاں شادی کا جشن تھا- وہاں جلنے بجھنے والی بتیاں بھی لگی تھیں اور پٹاخے بھی پھوٹ رہے تھے- میں نے ماں کی بہت منّت کی کہ رات ادھر ہی ٹھہر جائیں لیکن وہ نہیں مانی- جب میں ماں جی کے پیچھے روتا روتا گاؤں سے واپس آرہا تھا تو نیت میں فتور آگیا اور چپکے سے واپس گاؤں لوٹ گیا.....
شام کا وقت تھا .... ماں کو بہت دیر بعد میری گمشدگی کا اندازہ ہوا- وہ پاگلوں کی طرع رات کے اندھیرے میں کھیتوں کھلیانوں میں آوازیں لگاتی پھری - اور ڈیرے سے لیکر گاؤں تک ہر کنویں میں لالٹین لٹکا کر جھانکتی رہی -
رات گئے جب میں شادی والے گھر سے بازیاب ہوا تو وہ شیرنی کی طرع مجھ پر حملہ آور ہوئیں- اس رات اگر گاؤں کی عورتیں مجھے نہ بچاتیں تو اماں مجھے مار ہی ڈالتی-
ایک بار ابو جی اپنے پیر صاحب کو ملنے سرگودھا گئے ہوئے تھے- میں اس وقت چھ سات سال کا تھا- مجھے شدید بخار ہو گیا- اماں جی نے مجھے لوئ میں لپیٹ کر کندھے پر اٹھایا اور کھیتوں کھلیانوں سے گزرتی تین کلو میٹر دور گاؤں کے اڈے پر ڈاکٹر کو دکھانے لے گئیں- واپسی پر ایک کھالے کو پھلانگتے ہوئے وہ کھلیان میں گر گئیں ... لیکن مجھے بچا لیا ... انہیں شاید گھٹنے پر چوٹ آئ ... ان کے مونہہ سے میرے لئے حسبی اللہ نکلا ... اور اپنے سسرال کےلئے کچھ ناروا الفاظ ... یہ واقعہ میری زندگی کی سب سے پرانی یاداشتوں میں سے ایک ہے ....
یقیناً وہ بڑی ہمت والی خاتون تھیں-اور آخری سانس تک محنت مشقت کی چکی پیستی رہیں ...
پھر جانے کب میں بڑا ہوگیا اور اماں سے بہت دور چلا گیا...
سال بھر بعد جب گھر آتا.....تو ماں گلے لگا کر خوب روتی لیکن میں سب کے سامنے ھنستا رہتا- پھر رات کو جب سب سو جاتے تو چپکے سے ماں کے ساتھ جاکر لیٹ جاتا اور اس کی چادر میں منہ چھپا کر خوب روتا-
ماں کھیت میں چارہ کاٹتی اور بہت بھاری پنڈ سر پر اٹھا کر ٹوکے کے سامنے آن پھینکتی- کبھی کبھی خود ہی ٹوکے میں چارہ ڈالتی اور خود ہی ٹوکہ چلاتی - جب میں گھر ہوتا تو مقدور بھر ان کا ہاتھ بٹاتا- جب میں ٹوکہ چلاتے چلاتے تھک جاتا تو وہ سرگوشی میں پوچھتیں ... " بات کروں تمہاری فلاں گھر میں ....؟؟ "
وہ جانتی تھی کہ میں پیداٰئشی عاشق ہوں اور ایسی باتوں سے میری بیٹری فل چارج ہو جاتی ہے-
پھر ہم نے گاؤں میں گھر بنا لیا ... اور ماں نے اپنی پسند سے میری شادی کر دی-
میں فیملی لے کر شہر چلا آیا اور ماں نے گاؤں میں اپنی الگ دنیا بسا لی-
وہ میرے پہلے بیٹے کی پیدائش پر شہر بھی آئیں .... میں نے انہیں سمندر کی سیر بھی کرائ...کلفٹن کے ساحل پر چائے پیتے ہوئے انہوں نے کہا " اس سمندر سے تو ہمارے ڈیرے کا چھپڑ زیادہ خوبصورت لگتا ہے....
ماں بیمار ہوئ تو میں چھٹی پر ہی تھا... انہیں کئ دن تک باسکوپان کھلا کر سمجھتا رہا کہ معمولی پیٹ کا درد ہے ... جلد افاقہ ہو جائے گا ... پھر درد بڑھا تو شہر کے بڑے ھسپتال لے گیا جہاں ڈاکٹر نے بتایا کہ جگر کا کینسر آخری اسٹیج پر ہے ......
خون کی فوری ضرورت محسوس ہوئ تو میں خود بلڈ بینک بیڈ پر جا لیٹا .... ماں کو پتا چلا تو اس نے دکھ سے دیکھ کر اتنا کہا..." کیوں دیا خون...خرید لاتا کہیں سے...پاگل کہیں کا "
میں بمشکل اتنا کہ سکا .... " اماں خون کی چند بوندوں سے تو وہ قرض بھی ادا نہیں ہو سکتا ... جو آپ مجھے اٹھا کر گاؤں ڈاکٹر کے پاس لیکر گئیں تھیں ... اور واپسی پر کھالا پھلانگتے ہوئے گر گئ تھیں .... "
وہ کھلکھلا کر ہنسیں تو میں نے کہا "امّاں مجھے معاف کر دینا ... میں تیری خدمت نہ کر سکا "
میرا خیال ہے کہ میں نے شاید ہی اپنی ماں کی خدمت کی ہو گی ... وقت ہی نہیں ملا ... لیکن وہ بہت فراغ دل تھیں .... بستر مرگ پر جب بار بار میں اپنی کوتاہیوں کی ان سے معافی طلب کر رہا تھا تو کہنے لگیں " میں راضی ہوں بیٹا ... کاہے کو بار بار معافی مانگتا ہے !!! "
ماں نے میرے سامنے دم توڑا .... لیکن میں رویا نہیں ... دوسرے دن سر بھاری ہونے لگا تو قبرستان چلا گیا اور قبر پر بیٹھ کر منہ پھاڑ کر رویا-
مائے نی میں کنوں آکھاں
درد وچھوڑے دا حال نی

ماں سے بچھڑے مدت ہوگئ...اب تو یقین بھی نہیں آتا کہ ماں کبھی اس دنیا میں تھی بھی کہ نہیں....!!!!
آج بیت اللّہ کا طواف کرتے ہوئے پٹھانوں اور سوڈانیوں کے ہاتھوں فٹ بال بنتا بنتا جانے کیسے دیوار کعبہ سے جا ٹکرایا...
یوں لگا جیسے مدتوں بعد پھر ایک بار ماں کی گود میں پہنچ گیا ہوں .... وہی سکون جو ماں کی گود میں آتا تھا ... وہی اپنائیت ... وہی محبت ... جس میں خوف کا عنصر بھی شامل تھا .... اس بار منہ پھاڑ کر نہیں .... دھاڑیں مار مار کر رویا !!!!
ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنیوالا رب کعبہ ..... اور ہم سدا کے شرارتی بچے !!!!
رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا
 

سید عمران

محفلین
"حقیقت افسانہ یا لطیفہ"

مسجد میں خطیب کو آنے میں دیر ہوگئی تو ایک دیوانہ ممبر پر چڑھ گیا اور خطبہ دینے لگا :
"تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے سب کو دو (ماں اور باپ) سے پیدا کیا اور دو (جنسوں مرد و عورت) میں تقسیم کیا۔ پھر ان میں سے کچھ کو مالدار بنایا تاکہ خدا کا شکر بجا لائیں اور کچھ کو فقیر چھوڑا تاکہ صبر کریں۔
مگر نہ تو امیر لوگ شکر کرتے نظر آتے ہیں اور نہ ہی فقیر صبر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
سب پر خدا کی لعنت ہو۔ ۔ ۔
نماز کے لیے صفیں سیدھی کر لو۔ منافقو!"
 

سید عمران

محفلین
علماءِ سلف کے کچھ دلچسپ جوابات

ایک شخص نے امام شعبی سے داڑھی پر مسح کرنے کا مسئلہ پوچھا.
انہوں نے کہا : انگلیوں سے داڑھی کا خلال کر لو.
وہ شخص بولا : مجھے اندیشہ ہے کہ داڑھی اس طرح بھیگے گی نہیں
امام شعبی نے جواب دیا : پھر ایک کام کرو، رات کو ہی داڑھی پانی میں بھگو دو.
المراح فی المزاح:ص 39

امام شعبی سے ہی ایک شخص نے پوچھا : کیا حالت احرام میں انسان اپنے بدن کو کھجلا سکتا ہے؟ انہوں نے کہا : ہاں. وہ شخص بولا : کتنا کھجلا سکتا ہے؟ انہوں نے جواب دیا : جب تک ہڈی نظر نہ آنے لگے.
المراح فی المزاح

ایک شخص نے عمر بن قیس سے پوچھا : اگر انسان کے کپڑے، جوتے اور پیشانی وغیرہ میں مسجد کی کچھ کنکریاں لگ جائیں تو وہ ان کا کیا کرے؟ انہوں نے جواب دیا : پھینک دے. وہ شخص بولا : لوگ کہتے ہیں وہ کنکریاں جب تک دوبارہ مسجد میں نہ پہنچائی جائیں وہ چیختی رہتی ہیں.
وہ بولے : تو پھر انہیں اس وقت تک چیخنے دو جب تک ان کا حلق پھٹ نہ جائے.
وہ شخص بولا : سبحان اللہ! بھلا کنکریوں کا بھی کہیں حلق ہوتا ہے؟
انہوں نے جواب دیا : پھر بھلا وہ چیختی کہاں سے ہیں؟
العقد الفرید 92/2

ایوب کہتے ہیں : میں نے ایک آدمی کو سنا وہ حضرت عکرمہ سے کہہ رہا تھا : فلاں شخص نے خواب میں میرے اوپر زنا کی جھوٹی تہمت لگائی ہے.
حضرت عکرمہ بولے: تو تم بھی اس کے سائے کو اسی بار مار لو.
سیر اعلام النبلاء 19/5

اعمش کہتے ہیں ایک شخص امام شعبی کے پاس آیا اور پوچھا: ابلیس کی بیوی کا کیا نام ہے؟ انہوں نے جواب دیا : میں اس کی شادی میں شریک نہیں ہوا تھا.
سیر اعلام النبلاء 312/4

ایک آدمی امام ابو حنیفہ کے پاس آیا اور پوچھا جب میں اپنے کپڑے اتار کر ندی میں غسل کرنے کے لیے جاؤں تو اپنا چہرہ قبلہ کی طرف رکھوں یا کسی اور طرف؟
انہوں نے جواب دیا : بہتر ہے کہ تم اپنا چہرہ کپڑے کی طرف رکھو تاکہ کوئی انہیں چرا نہ لے.
المراح فی المزاح : ص 43
 

سیما علی

لائبریرین
کچھ دن پہلے میں اپنے ایک خاندانی بزرگ کے جنازے میں شریک تھا۔ غسل سے لے کر تدفین تک ہمارے کئی گھنٹے یہاں گزرے۔ اِس دوران جو عمومی تجربہ ہوا، وہ یہ کہ دورِ جدید میں موت جیسا سنگین واقعہ بھی عملاً صرف ایک رسم بن کر رہ گیا ہے۔ تعزیت اور جنازہ و تدفین میں شرکت اب لوگوں کے لیے صرف فیملی گیدرنگ (family gathering) کا ایک موضوع بن گیا ہے، نہ کہ عبرت اور اظہارِ خیر خواہی کا موضوع۔

موجودہ زمانے کے بہت سے ”بزی“ اور ”ماڈرن“ لوگوں کے یہاں عیادت و تعزیت جیسی اعلیٰ انسانی قدروں کی نہ کوئی اہمیت ہے اور نہ اِس کے لیے ”ٹائم“، مگر جو لوگ تعزیت کرتے بھی ہیں، وہ درد مند و غم گُسار بن کر نہیں، بلکہ ”مہمان“ بن کر اور صرف ایک بے روح سماجی رسم کے طور پر۔ ایک ہی مقام پر رہتے ہوئے بھی لوگ خیر خواہی اور مزاج پُرسی کی کوئی ضرورت نہیں سمجھتے۔ بہت سے مرد اور عورت مرنے والوں کی موت پر صف ِماتم بچھاتے اور اشک کا دریا بہاتے ہیں، مگر یہی لوگ اپنے عمل سے ثابت کرتے ہیں کہ اُن کے یہ آنسو سچے آنسو نہ تھے۔ عملی واقعات بتاتے ہیں کہ یہی لوگ جذبات کے درجے میں بھی اپنے زندہ اور مرحوم اعزہ کے لیے کبھی حقیقی خیرخواہ ثابت نہیں ہوتے۔ موت کے اندوہ ناک موقعے پر بھی لوگ مرحوم کے گھر والوں سے ”خاطر داری“ کی توقع لے کر جاتے اور اِس کا تجربہ نہ ہونے پر موت کی یاد کے بجاے شکایت لے کر واپس ہوتے ہیں۔ اب اکثر قریبی اعزہ تک قبرستان ہی سے لوٹ جاتے ہیں۔ نہ دوبارہ وہ اپنے مرحوم عزیز کے گھر جا کر اُن کی غم گُساری کرتے ہیں اور نہ اُن کے لیے کوئی عملی کنٹری بیوشن۔ اِسی قساوت اور بے درد ذہنیت کا یہ نتیجہ ہے کہ بعد کو اکثر لوگ مرحوم کے اہلِخانہ کی کوئی خبر نہیں لیتے۔گ ویا اِس طرح کے موقعے پر صرف چہرہ دکھا کر اپنا نام درج کرانا اب بیش تر عورتوں اور مردوں کا فیشن بن چکا ہے۔

موت کے دردناک موقعے پر بھی لوگوں کا رویہ اکثر رسمی اور دنیا پرستانہ دکھائی دیتا ہے۔ موت کا واقعہ اُن کی انا اور احساسِ برتری کے جھوٹے مینار کو ڈھا دینے کے لیے کافی نہیں ہوتا۔ موت کی مجلس میں بھی لوگ کینہ و نفرت لے کر داخل ہوتے ہیں۔ وہ بعض لوگوں کی طرف لپکنے اور بعض کو نظرانداز کرنے کی پست روش سے اوپر نہیں اٹھ پاتے۔ موت کا طوفانی سیلاب بھی اُن کے دلوں کے زنگ اور کدورت کو صاف نہیں کرتا۔ موت کا سنگین واقعہ اُن کے حق میں ایک نئی خدا پرستانہ زندگی کی شروعات کے لیے نقطہئ آغاز نہیں بنتا۔ دلوں کو نرم اور روح کو پگھلا دینے والے اِس خدائی موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگ اپنی زندگی کو بدلنے، خاص طو رپر اعزہ و اقارب اپنی انا اور کدورت کو ختم کرکے باہم بھائی بھائی بن کر ر ہنے کے بجاے بدستور وہ اپنے خود تراشیدہ اَہرام میں نخوت و رعونت کی زندہ لاش بنے رہتے ہیں۔

دوسرے کی موت اپنی موت کی یاددہانی کا ذریعہ اور اپنے جیسے ایک انسان کا اچانک اپنے درمیان سے اٹھ جانا اب لوگوں کے لیے موجودہ زندگی کی بے ثباتی کا ریمائنڈر نہیں بنتا۔ دوسرے کی تدفین کو وہ اپنی تدفین سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ وہ اب بھی اپنے آپ کو موت سے زیادہ، زندگی سے قریب محسوس کرتے ہیں۔ قبرستان پہنچ کر بھی وہ اپنی دنیوی سرگرمیوں میں گم دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں بھی لوگوں کو موت کے بجاے موبائل یاد آتا ہے۔ وہ خدا اور اُس کے فرشتوں سے بات کرنے کے بجاے انسانوں سے بات کرنے میں مشغول دکھائی دیتے ہیں۔ قبرستان پہنچ کر بھی اُن کے دل نہیں پگھلتے، وہ رونے سے زیادہ ہنسنے میں حظ محسوس کرتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کی بے روح ’مذہبیت‘ کی دھوم اُس وقت بھی کم نہیں ہوتی، جب کہ یہاں اِس قسم کی تمام ظاہر داریوں کو ڈھا کرخدا اُن کے لیے خوف و عبرت کا آخری موقع فراہم کر دیتا ہے۔ یہاں لوگ ”الحمدللہ“ اور ”ماشاء اللہ“ کی زبان میں پُر فخر طور پر یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ میں نے غسل دیا، میں نے قبر میں اتارا، وغیرہ؛ مگر کوئی شخص موت اور آخرت کی یاد سے لرزتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ غسل و جنازہ اور قبر و لحد بھی بہت سے ’غیرعالم‘ مفتیوں کے لیے مقامِ عبرت کے بجاے ’مذہبی‘ موشگافیوں کا اکھاڑہ ثابت ہوتا ہے۔ ایسے موقعے پر بھی اُن کو موت کے بجاے ’مسلک‘ دکھائی دیتا ہے۔ وہ دعاے مغفرت کے بجائے ان اعمال کو اختیار کرتے ہیں جن کا حکم نہ اللہ نے دیا اور نہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اور اس طرح وہ اپنے آپ کو فریب دینے کی کامیاب کوشش میں مشغول نظر آتے ہیں۔

کاش، ہم موت کی یاد اور خدا کی کتاب قرآن مجید کی تلاوت و تدبر کے ذریعے سے اپنے دل کے اِس زنگ کو دور کرتے تو ہماری یہ تمام غفلتیں ختم ہوجاتیں، ”لذات“ اور دنیا پرستی کا گنبد ڈھے جاتا اور موت کا تجربہ ہمارے لیے بامقصد اور خدا پرستانہ زندگی اختیار کرنے کا ایک عظیم ربانی موقع ثابت ہوتا۔
 

سیما علی

لائبریرین
اللّہ کے خوش ہونے کی نشانیاں
ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ اور اپنے کو پکا و سچا مؤمن کہنے والے ایسے بھی ہیں کہ جو زندگی کے دو راہے پر لوگوں کی خوشی کو اپنے معبود کی خوشی و رضا پر ترجیح دیدیتے ہیں انہیں یہ بات معلوم ہونی چاہیئے کہ ان کا یہ کام ایمان کے ضعیف ہونے اور غضب الہی کے نزدیک ہونے اور رحمت الہی سے دور ہونے کا سبب بنتا ہے ۔
ولایت پورٹل: ہر چیز کی اپنی کچھ نشانیاں اور علامتیں ہوتی ہیں جس سے وہ پہچانی جاتی ہے اور چونکہ اللہ تعالٰی نے اپنی رضا اور اپنی خوشی کو بندے پر اپنی سب سے عظیم نعمت کے طور پر یاد کیا ہے ایسی نعمت جس کا کسی دوسری چیز سے مقائسہ نہیں کیا جاسکتا۔اور اکثر لوگوں کے دل میں کبھی نہ کبھی یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ ہم نماز پڑھتے ہیں، پورا رمضان روزہ رکھتے ہوئے ہوگئے تو کیا خدا ہم سے راضی ہوا یا نہیں چنانچہ روایات میں اللہ کے اپنے کسی بندے سے راضی رہنے کی کچھ علامات بیان کی گئی ہیں جن سے انسان مطمئن ہوسکتا ہے کہ اس کا پروردگار اس سے خوش ہے یا نہیں:

اللّہ کی اطاعت میں لطف
ایک مرتبہ حضرت موسٰی علیہ السلام نے اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا:’’ : یَا رَبِّ أَخْبِرْنِی عَنْ آیَةِ رِضَاکَ مِنْ عَبْدِکَ‘‘۔پروردگار! مجھے ان نشانی سے آگاہ کر جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ تو اپنے بندے سے خوش ہے؟
’’فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَیْهِ إِذَا رَأَیْتَنِى أُهَیِّئُ عَبدِىْ بِطَاعَتِى وَ أُصرِفُهُ عَنْ مَعْصِیَتِى فَذالک آیةُ رِضَائِىْ‘‘۔(1)اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا:جب تم یہ پاؤ کہ میں اپنے بندے کو اپنی اطاعت و بندگی کے لئے آمادہ کررہا ہوں اور اسے گناہ سے دور رکھ رہا ہوں تو یہی میرے اس سے خوش اور راضی رہنے کی نشانی ہے۔
بندے کا قضا و قدر الہی پر راضی رہنا
حدیث کی روشنی میں کسی بندے کا اپنے پروردگار کی قضا و قدر اور فیصلوں پر راضی رہنا اور اس کے کسی فیصلے کے خلاف حرف شکایت زبان پر نہ لانا اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ اس بندے سے خوش ہے۔ چنانچہ امام علی علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے:’’عَلامَة رِضَا اللَّه سُبْحانَهُ عَنِ العَبْدِ رِضاهُ بِمَا قَضَی بِه سُبحانَه لَهُ و عَلَیه‘‘۔[2]
اپنے بندے سے اللہ کی رضا کی علامت یہ ہے کہ وہ اللہ کے ہر فیصلہ پر راضی اور تسلیم رہے چاہے وہ فیصلہ اس کے فائدے میں ہو یا نقصان میں۔

مساکین کی محبت

ایک دیگر روایت میں ملتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالٰی کی بارگا میں عرض کیا:’’یَا رَبِّ أَخْبِرْنِی عَنْ آیَةِ رِضَاکَ مِنْ عَبْدِکَ‘‘ پروردگار!اپنے بندے سے تیرے خوش رہنے کی نشانی کیا ہے؟
’’فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَیْهِ إِذَا رَأَیْتَ نَفْسَکَ تُحِبُّ الْمَسَاکِینَ وَ تُبْغِضُ الْجَبَّارِینَ فَذَلِکَ آیَةُ رِضَایَ‘‘۔(3)اللہ تعالٰی نے ان پر وحی نازل فرمائی: اے موسٰی جب تم اپنے دل میں مساکین کی محبت اور ظالمین سے نفرت کو محسوس کرو تو سمجھ لینا کہ ہم راضی ہیں۔
اللّہ کی خوشی عزیز یا بندوں کی؟
ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ اور اپنے کو پکا و سچا مؤمن کہنے والے ایسے بھی ہیں کہ جو زندگی کے دو راہے پر لوگوں کی خوشی کو اپنے معبود کی خوشی و رضا پر ترجیح دیدیتے ہیں انہیں یہ بات معلوم ہونی چاہیئے کہ ان کا یہ کام ایمان کے ضعیف ہونے اور غضب الہی کے نزدیک ہونے اور رحمت الہی سے دور ہونے کا سبب بنتا ہے چنانچہ بہت سی روایات میں اس نکتہ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور امام صادق علیہ السلام سے منقول حدیث میں وارد ہوا ہے:’’لَا تُسْخطُوا اللَّهَ بِرِضَا أَحَدٍ مِنْ خَلْقِهِ وَ لَا تَقَرَّبُوا إِلَی أَحَدٍ مِنَ الْخَلْقِ بِتَبَاعُدٍ مِنَ اللَّهِ‘‘۔(4)
تم کسی کو خوش کرنے کی خاطر اپنے پروردگار کے غضب کو مشتعل نہ کر دینا اور اس سے دوری اختیار کرکے تم کسی کی قربت تلاش کرنے کی کوشش مت کرنا۔
اسی مضمون کی دیگر روایت خود سرکار ختمی مرتبت(ص) نے اس طرح نقل ہوئی ہے:’’مَن طَلَبَ رِضَا مَخلُوق بِسَخَطِ الخالِق سَلَّط اللَّه عَزَّوَجلَّ عَلَیه ذلِک المَخلُوق‘‘۔(5)

جو اللہ کو ناراض و غضب ناک کرکے کسی مخلوق کی خوشی کا طبگار ہوتا ہے اللہ تعالٰی اسی مخلوق کو اس پر مسلط کردیتا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
اللہ تعالیٰ نے عفو و درگزر اور معافی و بردباری کو پیدا فرمایا اور اس کو اپنی صفات حسنہ میں سے ایک صفت بنا دیا ہے۔ قرآن مجید میں ہے، مفہوم : ’’ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘ (الاحزاب)

اگر گناہ و خطا نہ ہوتی تو عفو و بردباری بھی نہ ہوتی۔ کسی بھی شخص کی بردباری کا علم غصے کے وقت اور اس کی سخاوت کا علم حاجت کے وقت ہوتا ہے۔ اگر رنگ ساز کے پاس سفید کپڑا نہ ہو تو کسی کو کیسے معلوم ہوگا کہ وہ رنگ ساز ہے۔ رسول کریمؐ کی شفاعت بھی دراصل گناہ گاروں اور خطا کاروں کے لیے ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو مخاطب کرکے فرمایا، مفہوم : ’’ لوگوں کے ساتھ معافی اور عفو و درگزر والا معاملہ کرو، کیا تم یہ پسند نہیں کرتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں معاف کرے۔‘‘ (النور)

اگر تم لوگوں کے ساتھ اچھا معاملہ کرو گے تو تمہارے ساتھ بھی اچھا معاملہ کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے تقویٰ کے اعلیٰ مراتب میں سے شمار کرتے ہوئے فرمایا، مفہوم : ’’ اور معاف کرنا تقویٰ کے بہت زیادہ قریب ہے۔‘‘ (البقرہ)

اسی پر اکتفا نہیں کیا، بل کہ اس پر اجر و انعام کا اعلان کیا اور وعدہ لیا، تاکہ باہمی محبت و مودت کو باقی رکھنے میں رغبت ہو۔

ارشاد باری تعالی کا مفہوم : ’’جس نے معاف کیا اور صلح کی تو اس کا اجر و ثواب اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے، بے شک وہ ظالموں سے محبت نہیں کرتا۔‘‘ (الشوری)

معاف کرنے سے بندے کو دو انعامات ملتے ہیں، ایک تو یہ کہ لوگ اس کے مشکور و ممنون ہوتے ہیں اور دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ اجر کا مستحق قرار پاتا ہے۔ عموما لڑائی جھگڑوں اور باہم ناراضی کا سبب غصہ بنتا ہے۔ جو لوگ ایسے موقع پر غصے کو پی جاتے ہیں اور بردباری اور درگزر کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاف کر دیتے ہیں، ایسے لوگوں کو اللہ نے محسنین کا لقب دیا ہے اور فرمایا کہ میں انہیں محبوب رکھتا ہوں۔

ارشاد خداوندی کا مفہوم: ’’ غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور معاف کرنے والے ہیں، اور اللہ نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا اور محبت کرتا ہے۔‘‘ (آل عمران)

حضرت ابوسعید خدری ؓ فرماتے ہیں، مفہوم : ’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ سفر میں تھے۔ آپؐ نے چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ اس کے دونوں اطراف موٹے تھے۔ ایک اعرابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس چادر سے پکڑ کر جھٹکا دیا ، یہاں تک کہ اس کے نشانات آپؐ کی گردن مبارک پر واضح دکھائی دینے لگے، وہ کہنے لگا: اے محمدؐ! جو کچھ اللہ نے آپؐ کو مال عطا کیا ہے اس میں سے مجھے کچھ دینے کا حکم صادر فرمائیں۔

ویسے بھی آپؐ مجھے اپنی ذاتی اور آباء و اجداد کے مال سے نہیں دیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام ؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’ اسے مطلوبہ چیز دے دی جائے اور اسے کچھ بھی نہیں کہا جائے۔ دوسری روایت میں ہے، مفہوم: ’’ قیامت کے دن ایک آواز دینے والا آواز دے گا کہ جس شخص کا اللہ پر اجر واجب ہو وہ کھڑا ہو جائے۔ اس کے جواب میں کوئی شخص بھی کھڑا ہونے کی جسارت نہیں کر سکے گا۔ سوائے اس شخص کے جس نے دنیا میں عفو و درگزر والا معاملہ کیا ہوگا۔‘‘

پس اگر کوئی معاف کردے تو وہ بھی اس مرتبے تک پہنچنے کی سعادت حاصل کرسکتا ہے۔ آج معاشرے میں لڑائی، جھگڑے، نفرت، ناراضی اور بداعتمادی عام ہو رہی ہیں۔ اس کے سبب مختلف امراض اور بیماریوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ان مسائل کی زیادہ تر وجہ پریشانی اور افسردگی ہے۔ جسے ہم ہمہ وقت دل و دماغ پر سوار رکھتے ہیں۔ مسئلہ اتنا بڑا نہیں ہوتا، جتنا ہم اسے سوچ کر اپنی طبیعت خراب کرلیتے ہیں۔ انسان خطاکار اور غلطیوں کا مجموعہ ہے۔ اکثر غلطی بندہ جان بوجھ کر نہیں کرتا، بل کہ ہوجاتی ہے۔

ہمیں چاہیے کہ ہم بلاجھجک معافی مانگ لیں، کہ یہی بڑا پن ہے۔ اس سے دل کا بوجھ بھی ہلکا ہوجاتا ہے اور پریشانی بھی کم ہوجاتی ہے۔ اسی طرح معاف کرنے والے کو بھی چاہیے کہ وہ فراح دلی کا مظاہرہ کرے، غصہ پی جائے اور کھلے دل سے معاف کر دے۔ آج اگر ہم نے اپنے ماحول و معاشرے کو خوش گوار بنانا ہے تو ہمیں معافی کو عام کرنا ہوگا۔ اس سے محبتیں فروغ پائیں گی، رشتے مضبوط ہوں گے، دوست قریب ہوں گے، اعتماد پختہ ہوگا اور سکون اور چین سے بھرپور معاشرہ تشکیل پائے گا۔
 

سید عمران

محفلین
خدمات انسانی


ایک بچہ سمندر کے ساحل پر بیٹھا پانی کی موجوں کو دیکھ رہا تھا۔ پانی کی موجیں ساحل سے ٹکراتیں اور واپس چلی جاتیں۔
موجیں اپنے ساتھ مچھلیاں بھی ساحل پر لے آتیں۔ جب مچھلیاں ساحل پر آ جاتیں۔ تو وہ واپس نہ جا پاتیں۔ بچہ مچھلیوں میں سے ایک ایک مچھلی کو اٹھاتا اور پانی میں چھوڑ دیتا۔
ایک بڑے میاں جو خاصی دیر سے بیٹھے اسے دیکھ رہے تھے۔
اس کے قریب آئے۔ اور اس سے کہا! کہ یہ مچھلیاں تو لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ اور تم ایک مچھلی کو پکڑتے ہو۔ اور پانی میں چھوڑ دیتے ہو۔ اس سے کیا فرق پڑے گا؟
بچے نے ایک مچھلی پکڑی اور پانی میں چھوڑ کر کہنے لگا اس کو فرق پڑے گا۔
طرح ایک عام انسان بھی چھوٹی چھوٹی خدمت کر سکتا ہے۔ مگر جس انسان کے لیے یہ کرتا ہے۔ اس انسان کے لیے یہ بہت بڑی بات ہوتی ہے۔
اس سے اس کی زندگی میں ضرور فرق پڑتا ہے۔ اور بہت زیادہ فرق پڑتا ہے۔
آج کل جو انسان کام کر رہا ہے۔ تو اس سے پہلے معاوضے کا سوچے گا۔ اور کہے گا۔ میں اتنا لونگا۔
پوچھا جائے کہ اتنا معاوضہ کیوں؟
تو جواب دے گا۔ کہ اتنا وقت اور محنت درکار ہوگی۔ مگر وہ یہ نہیں دیکھتا۔ کہ یہ معاوضہ میری محنت اور وقت سے زیادہ ہے۔
اور اس معاوضے کا سوچ کر کہتا ہے۔ کہ میں جلد امیر ہو جاؤں گا۔ اور اس دولت سے مجھے سکون ملے گا۔ مگر سکون تو اللہ تعالی نے انسان کے دل میں ہی رکھا ہے۔ اور اس دل میں اللہ تعالی خود ہی بستے ہیں۔ وہاں پر بے ایمانی اور جھوٹ سے کام لینے والا پھر کیسے سکون پا سکتا ہے۔ اگر یہ کام اللہ تعالی کی رضا کے لیے کیا جاتا ہے۔ یا تو پھر معاوضہ تھوڑا لیا جاتا۔ جس سے اس کو دینے میں آسانی ہو۔ اس طرح جو لوگ بغیر معاوضے کے کسی کا کام کرتے ہیں۔ اللہ تعالی ان کو سکون بھی بخشتا ہے۔
اور اللہ تعالی اس انسان کی قوت مدافعت کا نظام عام انسانوں سے تین گناہ زیادہ طاقتور کر دیتا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہوتی ہے۔ کہ وہ قربانی دیتا ہے۔
اور قربانی دینے والے اللہ تعالی کو بہت پسند ہیں۔ چاہے وہ قربانی جانور کی قربانی ہو۔ چاہے کسی کے بغیر معاوضہ کام کی ہو۔ چاہے وہ کسی کو راستہ بتانے کی ہو۔
ہر لحاظ سے عام انسان خدمت کر سکتا ہے۔ ہم سوچتے ہیں. کہ ہم امیر ہو جائیں گیے۔ تو تب دوسروں کی خدمت کر سکیں گے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ کہ آپ بغیر معاوضے یا اس سے کم معاوضے میں کام کریں۔ اور اس کا صلہ اللہ تعالی آپ کو نہ دے۔
اس سے آپ کو دنیا میں بے شمار فائدے ملیں گیے۔ ایک تو اللہ تعالی آپ کو دنیا ہی میں سکون دے گا۔ اور دوسرا دنیا میں ہی اس کا فائدہ تو ملے گا۔ مگر اس کا حصہ آخرت میں بھی ضرور ملے گا۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے۔ کہ آپ عام انسان ہو کے بھی عام انسانوں کی خدمت کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں خدمت کرنے کا جذبہ عطا فرمائے۔
اور اس کا اجر ہماری محنت نہیں بلکہ اپنی شان شایان کے مطابق عطا فرمائے۔ آمین

بدلو سوچ تو بدلے گا پاکستان۔
مضمون نگار. میاں محمد اسلم
 

سید عمران

محفلین
بچوں کو نصیحت اس وقت کریں جب بچے receptive mood میں ہوں ۔4 اوقات ایسے ہیں جب بچہ receptive mode میں ہوتا ہے اس وقت آپ بچے کو جو بھی نصیحت کریں گے وہ بچے کے دل میں اتر جائے گی گا.
1 جب بچہ رات کو سونے لگے اس وقت بچہ learning mood میں ہوتا ہے اسلیے اس وقت بچے کہتے ہیں ہمیں کوئ کہانی سنائیں مائیں بچوں کو بلی چوہوں کی کہانیاں سنا دیتی ہیں پھر بچوں میں بلی چوہوں والی حرکتیں آتی ہیں ۔اس وقت بچے کو نبیوں اور اور نیک لوگوں کے واقعات سنانے چاہیےجس میں اچھی نصیحتیں ہوں ۔تاکہ آپ کا بچہ بھی نیک بنے ۔
(2) جب بچہ آپکے ساتھ گاڑی میں بیٹھا ہو۔اس وقت بھی بچہ learning mode .میں ہوتا ہےاس لیےاس وقت بچہ پوچھ رھا ہوتا ہے ابو یہ کیا ہے وہ کیسے ۔اسوقت ہم ڈانٹ ڈپٹ کر کے بچے کو چپ کروا دیتے ہیں وہ بہت قیمتی وقت ہوتا ہے ۔اس وقت بچےسے اچھی باتیں کریں اور اچھی نصیحتیں کریں وہ آپ کی باتوں پر توجہ دے گا اور آپکی باتوں پر عمل کرے گا ۔
(3)جب بچہ کھانے پے بیٹھے اس وقت بھی بچہ learningmode ہوتا اسوقت بھی آپ نصیحت کر سکتے ہیں ۔
(4)جب بچہ بیمار اس وقت بھی بچہ learning mod میں ہوتا ہے اس وقت آپ جو بھی نصیحت کریں گے وہ بچہ کے دل میں نقش ہو جائے گی آپ نے بچوں کو جو بھی نصیحتیں کرنی ہوں ان اوقات میں کریں بچے ضرور آپکی نصیحتوں پر عمل کریں گے ۔
بے وقت بچے کو کبھی نصیحت نہ کریں کیونکہ کہ بچے کبھی کھیلنےیا کسی اور موڈ میں ہوتے ہیں ہم بچوں کو نصیحتیں کرنا شروع کر دیتے ہیں اس سے بچہ کھچنا شروع ہو جاتا ہے اور آپکی باتوں کو اہمیت نہیں دیتا اسی وجہ سے بچہ نافرمانی کرتا ہے ہم پھر اسکو مار پیٹ کر تے ہیں اورزیادہ اپنا باغی بنا دیتے ہیں پھر لوگ کہتے مولانا دعا کرو ہمارے فرمابردار ہو جائیں ۔
 

سید عمران

محفلین
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا لوگوں کے اعتراضی مزاج کے اعتبار سے خوبصورت عجیب کلام:
میں ہنسا تو لوگوں نے کہا کہ تم میں کوئی وقار و ادب نہیں ہے۔
میں رویا تو انہوں نے کہا کہ تم مسکراتے کیوں نہیں ہو۔
میں مسکرایا تو انہوں نے کہا دکھاوا کرتا ہے۔
میں نے منہ بنایا تو انہوں نے کہا اس نے چھپی ہوئی چیز (یعنی کینہ، مخالفت ) ظاہر کردی۔
میں چپ رہا تو انہوں نے کہا کہ اس کی زبان چلتی نہیں ہے۔
میں نے بات کرنا شروع کی تو انہوں نے کہا کہ بہت بولنے والا ہے۔
میں نے برداشت کا مظاہرہ کیا تو کہا کہ بزدل ہے۔
اگر طاقت ہوتی تو انتقام لیتا۔
میں نے قوت کا اظہار کیا تو کہا کہ اس کے اندر غصہ ہے۔
اگر کوئی فیصلہ کرے گا تو اعتدال سے کام نہیں لے گا۔
اگر بحث کے دوران میں نے کہا "نہیں" تو کہیں گے کہ شاذ ہے۔
اگر میں نے ان کی موافقت کی تو کہیں گے کچھ نہیں جانتا۔
اس سے مجھے یقین ہوگیا کہ جب بھی میں نے لوگوں کو راضی کرنے کا ارادہ کیا تو میری مذمت ہی ہوگی۔
 

سید عمران

محفلین
زندگی بدل دینے والی بہت اہم نصیحتیں
1- بیوی کے انتخاب ميں بہت دور اندیشی سے کام لو کیونکہ تمہاری خوشی یا غمی کا دارو مدار 90% اسی پر ہوتا ہے.
2- بہت سستی چیزیں مت خریدو.
3- تنقید کرنے والوں کے پیچھے پڑ کر اپنا وقت برباد مت کرو.
4- کسی سیاست دان پر کبھی اندھا اعتماد مت کرو.
5- جب کسی سے گاڑی ادھار لو تو پورا تیل بھر کر ہی واپس کرو.
6- موبائل کہیں تمہاری زندگی کے خوبصورت لمحات ميں خلل انداز نہ ہو کیونکہ موبائل تمہاری اپنی راحت و سکون کے لئے ہے نہ کہ دوسرے کی.
7- جو تم سے زيادہ مالدار یا غریب ہو اس کے سامنے اپنی دولت کا تذکرہ نہ کرو.
8- دوستوں کو قرض دینے ميں محتاط رہو کیونکہ ممکن ہے قرض اور دوستی دونوں سے ہاتھ دھو بیٹھو.
9- مخاطب سے اس کی تنخواہ کے متعلق مت پوچھو.
10- ہرچیز لکھ لیا کرو، اپنے دماغ پر ہمیشہ بھروسہ مت کرو.
11- بچے کو سزا اس کے جرم کے مطابق دو.
12- قرض اسے دو جو بغیر مانگے واپس کر دے.
13- ہر کوئی اپنی تعریف پسند کرتا ہے اس لئے کسی کی سچی تعریف کرنے ميں کنجوسی نہ کرو.
14- کسی سے اختلاف یا بحث و مباحثے کے وقت اپنے اخلاق اور سلیقہ مندی کا دامن نہ چهوڑو.
15- اپنے علم کو پھیلاؤ اور لوگوں کو اس سے فائدہ پہنچاؤ کیونکہ ہمیشہ زندہ رہنے کا یہی واحد راستہ ہے.
16- اپنی ذاتی یا مالی تفصیلات کا اظہار بقدر ضرورت ہی کرو.
17- اگر کوئی تمہارے دوست کی تعریف کرے تو اپنے دوست سے ضرور اس کا ذکر کرو.
18- اگر کوئی تمہارے ساتھ بدسلوکی کرے تو تم اس کے بچے کے ساتھ احسان کر کے اسے سبق سکھاؤ.
19- شادی اس سے کرو جو مال و دولت میں تمہارے برابر یا تم سے کم تر ہو.
20- کوئی چیز جب تمہیں دو بار ادھار لینے کی ضرورت پڑے تو وہ چیز بازار سے خرید لو.
21- روزانہ آدھا گهنٹہ چہل قدمی کرو.
22- تمہاری گهڑی وقت سے پانچ منٹ آگے رہنی چاہیے.
23- تصنع اور بناوٹ سے دور رہو.
24- معمولی چیزوں میں بحث و تکرار مت کرو.
25- جہاں بھی رہو وہاں اپنا اچھا اثر چهوڑنے کی کوشش کرو.
 
Top