انٹر نیٹ سے چنیدہ

سید عمران

محفلین
ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺭﻓﻮﮔﺮ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ۔ ﻭﮦ ﮐﭙﮍﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺭﻓﻮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ بہت ﻣﺎﮨﺮ تھا، ﻭﮦ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺳﻼﻣﺖ ﮐﯽ ﮨﺮ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﮐﭽﮫ ﺍﯾﺴﯽ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ تھا ﮐﮧ ﺳﻨﻨﮯ ﻭﺍلے ﺳﺮ ﺩﮬﻨﻨﮯ ﻟﮕﺘﮯ تھے ﮐﮧ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺳﻼﻣﺖ ﻧﮯﺻﺤﯿﺢ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ۔ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺳﻼﻣﺖ ﺩﺭﺑﺎﺭ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﻮﺍﻧﯽ ﮐﮯ ﺷﮑﺎﺭ ﮐﯽ ﮐﮩﺎﻧﯿﺎﮞ ﺳﻨﺎ ﮐﺮ ﺭﻋﺎﯾﺎ ﮐﻮ ﻣﺮﻋﻮﺏ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺟﻮﺵ ﻣﯿﮟ ﺁﮐﺮ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺗﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺁﺩﮬﮯ ﮐﻠﻮﻣﯿﭩﺮ ﺳﮯ ﻧﺸﺎﻧﮧ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﺟﻮ ﺍﯾﮏ ﮨﺮﻥ ﮐﻮ ﺗﯿﺮ ﻣﺎﺭﺍ ﺗﻮ ﺗﯿﺮ ﺳﻨﺴﻨﺎﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﺮﻥ ﮐﯽ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﺁﻧﮑﮫ ﻣﯿﮟ ﻟﮓ ﮐﺮ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﮐﺎﻥ ﺳﮯ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﭘﭽﮭﻠﯽ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﭨﺎﻧﮓ ﮐﮯ ﮐﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﻟﮕﺎ
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﻮ ﺗﻮﻗﻊ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻋﻮﺍﻡ ﺩﺍﺩ ﺩﮮ ﮔﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﻋﻮﺍﻡ ﻧﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﺍﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯼ۔ ﻭﮦ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﯾﻘﯿﻦ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﻮ ﺗﯿﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﮯ۔ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺑﮭﯽ ﺳﻤﺠﮫ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻟﻤﺒﯽ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯼ۔ اس نے فوراً ﺍﭘﻨﮯ ﺭﻓﻮﮔﺮ (ترجمان) ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ ,
ﺭﻓﻮﮔﺮ (ترجمان) ﺍﭨﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ
ﺣﻀﺮﺍﺕ ﻣﯿﮟ اس واقعے کا ﭼﺸﻢ ﺩﯾﺪ ﮔﻮﺍﮦ ﮨﻮﮞ ﺩﺭﺍﺻﻞ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺳﻼﻣﺖ ﺍﯾﮏ ﭘﮩﺎﮌﯼ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﮐﮭﮍﮮ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﺮﻥ ﺑﮩﺖ ﻧﯿﭽﮯ ﺗﮭﺎ۔ ﮨﻮﺍ ﺑﮭﯽ ﻣﻮﺍﻓﻖ ﭼﻞ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﻭﺭﻧﮧ ﺗﯿﺮ ﺁﺩﮬﺎ
ﮐﻠﻮﻣﯿﭩﺮ تک ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺟﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﺗﻌﻠﻖ ﮨﮯ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﮐﮭﺮ ﮐﺎ ﺗﻮ ﻋﺮﺽ ﮐﺮﺩﻭﮞ ﮐﮧ ﺟﺲ ﻭﻗﺖ ﺗﯿﺮ ہرن کو ﻟﮕﺎ ﮨﺮﻥ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﮐﮭﺮ ﺳﮯ ﺩﺍﯾﺎﮞ ﮐﺎﻥ ﮐﮭﺠﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ
ﻋﻮﺍﻡ ﻧﮯ ﺯﻭﺭ ﺯﻭﺭ ﺳﮯ ﺗﺎﻟﯿﺎﮞ ﺑﺠﺎ ﮐﺮ ﺩﺍﺩ ﺩﯼ
ﺍﮔﻠﮯ ﺩﻥ ﺭﻓﻮﮔﺮ ﺑﻮﺭﯾﺎ ﺑﺴﺘﺮ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮩﺎﮞ ﭼﻠﮯ ؟؟ ﺭﻓﻮﮔﺮ (ترجمان) ﺑﻮﻻ
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺳﻼﻣﺖ ﻣﯿﮟ چھﻮﭨﮯ ﻣﻮﭨﮯ ﺗﺮﻭﭘﮯ ﻟﮕﺎ ﻟﯿﺘﺎ ہوں ﮨﻮﮞ اگر ﺷﺎﻣﯿﺎﻧﮯ ﺳﻠﻮﺍﻧﮯ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ شہباز گل, فردوس عاشق اعوان, فیاض الحسن چوہان ﯾﺎ شبلی فراز ﮐﻮ اپنا ترجمان رکھ لیں۔
 

سید عمران

محفلین
” مُرغی کا جُوس“

تحریر ملک اسلم ہمشیرا
اوچشریف بہاولپور

دنیا میں جتنی بھی چیزوں سے جُوس نکالا جاتا ھے اُن میں سب سے زیادہ جوس پاکستان میں ”مُرغی “ سے نکالا جاتا ھے،ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ایک مُرغی سے تقریباً 450 بیرل یا 2500گیلن یعنی دس ھزار لیٹر تک جوس کشید کیاجا سکتا ھے ،امکان غالب ھے کہ مستقبل قریب میں اس کو برآمد کر کے اچھا خاصا زرِمبادلہ کمایا جا سکتا ھے
،یہ دنیا کا واحد جُوس ھے جو گرم کرکے پیا جاتا ھے ، مگر اب تو لوگ ماڈرن ہوگئے ہیں اور اب اسے یخنی یا سُوپ کے نام سے پکارتے ہیں ،جبکہ ہمارے زمانے میں ریڑھی والے بڑے فخر سے لکھواتے تھے”طاقت کا خزانہ ٠٠٠٠مرغی کا جوس“
دراصل یہ وہ پانی ہوتا ہے جس سے مُرغی کی میت کو مسلسل تین دن تک غسل دیا جاتا ہے ،اور ہمارے ملک کے سجیلے جوان حرارتِ جاں کے لیے اِن ریڑھیوں کے گردا گرد بیٹھ جاتے ھیں ،اور سوپ پی کر ایسے انگڑائی لیتے ھیں جیسے نر گس ڈانس شروع کرنے سے پہلے انگڑائی لیتی ہے
در حقیت یہ وہ کلف ذدہ پانی ہوتا ہے جو دس منٹ بعد ٹھنڈا ہو کر ناصرف جوڑوں میں بیٹھ جاتا ہے بلکہ سینہ بھی بند ہو جاتا ہے٠٠٠
پورے پاکستان کی طرح ہمارے شہر اُوچ شریف میں بھی سرِ شام اِن مرغیوں کے جنازے الشمس چوک پر آنا شروع ہو جاتے ہیں ،جہاں پر مُرغی کی میت کو پتیلے سے ایک فٹ دُور تختہ دار پر لٹکا دیا جاتا ھے اور ایک پاٶلے کی مدد سے رسمِ غسل شروع ھو جاتی ھے
اور لوگ کسی عقیدت مند کی طرح ریڑھی کے اطرف کھڑے ہوکر اس متبرک پانی سے جسم کو حرارت بہم پہنچاتے نظر آتے ھیں،اس دوران سوپ پینے کی مسحور کُن آواز ٠٠٠٠شڑر ،شپ٠٠٠شڑر، شڑر ٠٠٠ سے شہر کی ہر گلی فضا گونج اُٹھتی ھے٠٠٠٠
اگر زیادہ عیاشی مطلوب ہو تو ایک انڈا اور مُرغی کی ایک پتلی سی ”چھیت“ بھی کَپ میں شامل کی جا سکتی ھے
بقول شاعر
یخنی ٹپکنا، کپ میں اُلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ھے اک بہانا٠٠٠

مؤرخ شِکوا کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ یخنی والوں پر سےمیرا ایمان اُسی دِن سے اُٹھ گیا جِس دن میں دس روپے کا سوپ لینے گیا تو مجھے دھتکار دیا گیا اور سو سو باتیں بھی سُنائی گئیں ،مہنگائی کا رونا بھی رویا گیا اور کہا بچو ٠٠٠تبدیلی آ گٸ ھے دس روپے کا سوپ شوپ نہیں مِلتا ، چنانچہ میں دس روپے کے نوٹ کو لنڈے کے کوٹ کی جیب نمبر 13میں واپس ڈالا ٠٠٠٠٠٠سوپ کے ٠٠٠٠٠پانی سے گرم گرم ھونے کی بجاٸے ٠٠٠شرم سے پانی پانی ھو کر گھر واپس آ گیا٠٠٠٠
جبکہ رات بارہ بجے مجھے کسی کام کی لیے الشمس چوک جانا ھوا تو ایک دہل دھلا دینے والا منظر میرے سامنے تھا
12 بجےکے بعد اُسی بچے ہوئے ”سوپ“ سے زمین پر چھڑکاؤ کیا جا رہا تھا اور مرغی کو کپڑے میں لپیٹ کر فریج میں رکھا جا رھا تھا تاکہ ٠٠٠٠٠٠سند رھے اور وقت ضرورت اگلے دِن کام آوے٠٠٠٠٠
 

سید عمران

محفلین
اگر آپ کی شادی قریب ہے تو لیجئیے پری کاشن۔

شادی کے بعد جو تبدیلی سب سے پہلے آپ محسوس کریں گے وہ لوگوں کا آپ سے ایک ہی سوال پوچھنا ہوگا۔۔جو نکاح کے ایک گھنٹے بعد سے لے کر 3 مہینے تک پوچھا جائیگا کہ "شادی کہ بعد کیا چینج آیا یے زندگی میں "

شادی کے بعد الماری کے 6 8 خانوں میں سے شائد آپ کو ایک یا آدھا خانا نصیب ہو جائے اپنے کپڑے لتے رکھنے کے لئے جن کی ترتیب آپ کی بیگم کے مطابق ہوگی، اپنی ٹانگ اڑانے سے گریز کریں ورنہ لنگڑاتے پھریں گے!

کوشش کریں جو چیز بھی استعمال کریں اُسے واپس اپنی جگہ پر رکھیں جیسے گیلا تولیہ، ورنہ آپ کو اسکول کا دور اور ماں کی ڈانٹ یاد آئے گی مگر یہ کڑوی ہوگی۔

اگر کبھی آپ کی کوئی چیز آپ کی بیگم بے ترتیبی سے رکھ دے تو اچھے بچوں کی طرح خود ہی اسے اہنی جگہ پر رکھ دیں۔۔بیگم سے شکائیت کرنے پر وہ آپ کو دن، تاریخ اور وقت کے ساتھ یاد کروا دے گی کہ کب کب آپ نے کون سی چیز ادھر اُدھر پھینکی تھی!

آتے جاتے بیگم کی تعریف کرتے جائیے زندگی میں سکون بنا رہے گا۔

آپ شوہر ہیں اور کوئی بھی کام آپ کبھی ٹھیک سے نہیں کر سکتے اس بات کو مان لیجیئے، بحث کرنے اور اپنے آپ کو صحیح ثابت کرنے پر زمہ دار آپ خود ہونگے! اس کے نتیجے میں آپ کو معافی کے ساتھ تحفہ اور باہر کھانا بھی کھلانا پڑھ سکتا ہے۔

شادی کے بعد آپ کو صابن، فیس واش، کنڈیشنر، شیمپو میں تمیز کرنا آ جائے گی اور نیلے پیلے لال کالے سفید کے علاوہ بہت سے نئے رنگوں کے نام بھی یاد ہو جائیں گے!

اگر کبھی آپ کو یہ گمان گزرے کہ آپ اپنی بیگم کو سمجھتے ہیں تو آپ بیوقوف ہیں۔۔
اور کبھی ایسا لگے کہ آپکی بیوی آپ کو نہیں سمجھتی تو آپ سے بڑا احمق کوئی نہیں۔۔

یہ میرا ذاتی تجربہ نہیں میری زندگی تو گلزار ہے! یہ تو ایک دوست کی کہانی سن کر یہ تجزیہ اخذ کیا یے۔❣❣
 

سید عمران

محفلین
قائد اعظم اپنوں اور غیروں کی نظر میں......!!

جناح کو ڈرایا اور خریدا نہیں جاسکتا۔
(ماؤنٹ بیٹن)
اگر مسلمانوں کے پاس 100 گاندھی ہوتے اور ہمارے پاس ایک جناح ، تو پاکستان نہ بنتا۔
(جواہر لعل نہرو)
بہت سے لوگوں نے تاریخ ہر اچھے اثرات چھوڑے ، جناح وہ ہیں جنہوں نے تاریخ رقم کی۔
(ایل کے ایڈوانی)
جناح ایک سچے قوم پرست اور محب وطن آدمی تھے۔
(جسونت سنگھ)
جناح بیسویں صدی کا سب سے بڑا مسلمان ہے۔
(مولانا شبیر احمد عثمانی)
محمد علی جناح کسی فریق سے سمجھوتا کرتے تو جھک کر نہیں،بزدلانہ انداز میں نہیں،بلکہ مردانہ وار سمجھوتا کرتے تھے۔
(لارڈ ماؤنٹ بیٹن)
یہ حقیقت ہے کہ جناح بلاشبہ اعلیٰ اوصاف کے مالک تھے۔وہ سیرت وکردار کی ان بلندیوں پر تھے ،جہاں کوئی لالچ خوف یا غصہ انھیں اپنے راستے سے ہٹا نہیں سکتا تھا۔وہ عزم واستقامت کے کوہ گراں تھے۔نہ امارت و ثروت ان کی راہ میں حائل ہوئی نہ حکومت کا جاہ و جلال انھیں مرعوب کر سکا۔محمد علی جناح کو مسلم عوام پر بے پناہ قابو حاصل تھا۔
... (مہاتما گاندھی)
اس کا عزم پائندہ و محکم تھا۔وہ ایک جری و بے باک سپاہی تھا، جو مخالفوں سے ٹکرانے میں کوئی باک محسوس نہ کرتا تھا۔
(علامہ عنایت اللہ المشرقی)
قائد اعظم کو جو اپنے مقصد میں حیرت انگیز کامیابی حاصل ہوئی ہے،ا س کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ ایک سچے مسلمان تھے۔ انھوں نے قوم کے مفاد کا فریضہ بڑی تندہی سے انجام دیا ۔ وہ ہمیشہ انصاف اور دیانت کے مسلک پر قائم رہے۔
(شیخ عبداللہ)
مسٹر جناح اپنے ارادے اور رویے کے سخت تھے۔یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ مسٹر جناح کسی قیمت پر بھی برطانیہ کے آلہ کا ر نہیں بنے۔ان کے متعلق بڑے سے بڑے سیاسی لیڈر کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہ کسی قیمت پر بھی خریدے نہیں جا سکتے۔
(ڈاکٹر امبیدکر)
جناح بے جا جذباتیت کو پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ ہر مسئلے کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لیتے تھے اور یہی ان کی کامیابی کا سب سے بڑا راز تھا۔
(مولانا ابوالکلام آزاد))
مسلم لیگ کے پاس ایک سو گاندھی اور دو سو ابوالکلام ہوتے، لیکن کانگریس کے پاس صرف ایک محمد علی جناح ہوتے تو ہندوستان کبھی تقسیم نہ ہوتا۔
(وجے لکشمی پنڈت)
جناح کے لیے یہ بات کہنا غلط نہ ہوگی کہ وہ ایک ایسی تاریخ ساز شخصیت تھے، جو کہیں صدیوں میں جا کرہی پیدا ہوتی ہے۔
(مسولینی)
ہندوستان کے مسلمانوں کی پوری تاریخ میں کوئی بڑے سے بڑا شخص ایسا نہیں گزرا، جسے مسلمانوں میں ایسی مقبولیت اور جمہوریت نصیب ہوئی ہو۔
(برٹرینڈ رسل)
انسان کا قیمتی سے قیمتی سرمایہ یہ ہے کہ وہ ایک اعلیٰ کردار اور عمدہ سیرت کا مالک ہو۔ محمد علی جناح کی اعلیٰ سیرت اور کردار وہ موثر حربہ تھے جس کے ذریعے سے انھوں نے اپنی زندگی کے ہر معرکے کو سر کیا۔
(جواہر لال نہرو)
جناح بہترین سیاست دان ہیں۔بڑے ذہین و فطین ہیں۔مسلمانوں کے اس عظیم لیڈر کوکبھی دل سے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
(ونسٹن چرچل)
جناح صاحب نے اپنی عوامی مقبولیت کو کبھی ذاتی فوائد کے لیے استعمال نہیں کیا۔ ایسے فرد کا وجود روح پرور ہے۔
(سر سی ۔ پی ۔ راما سوامی)
جناح کسی بھی طاقت کے آگے جھکنا نہیں جانتے تھے۔ انھوں نے ہر محاذ پر انگریزوں اور ہندؤں کو شکست فاش دی
(جگت نرائن لال)
 

سید عمران

محفلین
کتبِ تاریخ میں لکھا ھے کہ
جب حجاج بن یوسف حکمران بنا تو لوگ صبح کو ایک دوسرے سے پوچھتے کہ رات کون قتل ہوا
کون قید کیا گیا

اور جب ولید بن عبد الملک حکمران بنا تو لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے کہ
کونسا گھر بنایا
کیسی عمارت تعمیر کی
کہاں مکان خریدا
کیونکہ ولید اونچی عمارتوں کا شوقین تھا،

اور جب سلیمان بن عبد الملک حکمران بنا تو لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کہ
کھانا کیا کھایا کیسا کھایا
اور شادی کس سے کی
اور کتنی شادی کی
کیونکہ سلیمان کھانے پینے اور نکاح کا دلدادہ تھا
اور لونڈیوں کا شیدا تھا
اور جب سیدنا عمر بن عبد العزیز خلیفہ بنے لوگ صبح کو ایک دوسرے سے پوچھا کرتے کہ
رات نماز میں کتنا قرآن پڑھا
کتنا قرآن پاک حفظ کیا
فلاں نے اتنے نفلی روزے رکھے
رات کتنی دیر نوافل پڑھے
کیونکہ عمر بن عبد العزیز قرآن کے قاری روزہ رکھنے والے اور کثرت سے یادِ الہی کرنے والے تھے۔

اسی لیئے عربی مقولہ ہے
اذا صلح الراعی صلحت رعیتہ
کہ جب حکمران اچھا ہو جائے تو عوام بھی درست ہوجاتی ھے۔
اللہ رب العزت ہمارے حکمرانوں کو اچھا بنائے اور ہمیں اچھے اعمال کی توفیق نصیب فرمائے
حقیقت کے اعتبار سے ہمارے اعمال ہمارے حکمران ہیں ۔
 

عمار نقوی

محفلین
ﺍﯾﮏ ﺍﻣﺎﻡ ﻣﺴﺠﺪ ﺻﺎﺣﺐ ﺭﻭﺯﮔﺎﺭ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺑﺮﻃﺎﻧﯿﮧ ﮐﮯ ﺷﮩﺮ ﻟﻨﺪﻥ ﭘُﮩﻨﭽﮯ ﺗﻮ ﺭﻭﺍﺯﺍﻧﮧ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺑﺲ ﭘﺮ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮﻧﺎ ﺍُﻧﮑﺎ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ۔

ﻟﻨﺪﻥ ﭘﮩﻨﭽﻨﮯ ﮐﮯ ﮨﻔﺘﻮﮞ ﺑﻌﺪ, ﻟﮕﮯ ﺑﻨﺪﮬﮯ ﻭﻗﺖ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮑﮩﯽ ﺭﻭﭦ ﭘﺮ ﺑﺴﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﻔﺮ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﺌﯽ ﺑﺎﺭ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺑﺲ ﺑﮭﯽ ﻭﮨﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﺲ ﮐﺎ ﮈﺭﺍﺋﯿﻮﺭ ﺑﮭﯽ ﻭﮨﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔

ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﯾﮧ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﺑﺲ ﭘﺮ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮﺋﮯ, ﮈﺭﺍﺋﯿﻮﺭ ﮐﻮ ﮐﺮﺍﯾﮧ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﻗﯽ ﮐﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﻟﯿﮑﺮ ﺍﯾﮏ ﻧﺸﺴﺖ ﭘﺮ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﮯ۔ ﮈﺭﺍﺋﯿﻮﺭ ﮐﮯ ﺩﯾﺌﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﺎﻗﯽ ﮐﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﺳﮯ ﻗﺒﻞ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﺗﻮ ﭘﺘﮧ ﭼﻼ ﮐﮧ ﺑﯿﺲ ﭘﻨﺲ ﺯﯾ...ﺎﺩﮦ ﺁﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﻮﭺ ﻣﯿﮟ ﭘﮍ ﮔﺌﮯ, ﭘﮭﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﺳﮯ ﮐﮩﺎﮐﮧ ﯾﮧ ﺑﯿﺲ ﭘﻨﺲ ﻭﮦ ﺍﺗﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮈﺭﺍﺋﯿﻮﺭ ﮐﻮ ﻭﺍﭘﺲ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﺍُﻥ ﮐﺎ ﺣﻖ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻨﺘﮯ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﭺ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺁﺋﯽ ﮐﮧ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺅ ﺍﻥ ﺗﮭﻮﮌﮮ ﺳﮯ ﭘﯿﺴﻮﮞ ﮐﻮ, ﺍﺗﻨﮯ ﺗﮭﻮﮌﮮ ﺳﮯ ﭘﯿﺴﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﻮﻥ ﭘﺮﻭﺍﮦ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ !!!

ﭨﺮﺍﻧﺴﭙﻮﺭﭦ ﮐﻤﭙﻨﯽ ﺍﻥ ﺑﺴﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﻤﺎﺋﯽ ﺳﮯ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﭘﺎﺅﻧﮉ ﮐﻤﺎﺗﯽ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﮨﮯ, ﺍﻥ ﺗﮭﻮﮌﮮ ﺳﮯ ﭘﯿﺴﻮﮞ ﺳﮯ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﮐﻤﺎﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﻓﺮﻕ ﭘﮍ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ? ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﭘﯿﺴﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺍﻧﻌﺎﻡ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻟﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﭼﭗ ﮨﯽ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ۔
ﺑﺲ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﻣﻄﻠﻮﺑﮧ ﺳﭩﺎﭖ ﭘﺮ ﺭُﮐﯽ ﺗﻮ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺍُﺗﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮈﺭﺍﺋﯿﻮﺭ ﮐﻮ ﺑﯿﺲ ﭘﻨﺲ ﻭﺍﭘﺲ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ؛ ﯾﮧ ﻟﯿﺠﯿﺌﮯ ﺑﯿﺲ ﭘﻨﺲ, ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻏﻠﻄﯽ ﺳﮯ ﻣُﺠﮭﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺩﮮ ﺩﯾﺌﮯ ﮨﯿﮟ۔

ﮈﺭﺍﺋﯿﻮﺭ ﻧﮯ ﺑﯿﺲ ﭘﻨﺲ ﻭﺍﭘﺲ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣُﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ؛ﮐﯿﺎ ﺁﭖ ﺍﺱ ﻋﻼﻗﮯ ﮐﯽ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﮯ ﻧﺌﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﮨﯿﮟ? ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﻋﺮﺻﮧ ﺳﮯ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺁ ﮐﺮ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻣﻌﻠﻮﻣﺎﺕ ﻟﯿﻨﺎ ﭼﺎﮦ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﯾﮧ ﺑﯿﺲ ﭘﻨﺲ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﺎﻥ ﺑﻮﺟﮫ ﮐﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺩﯾﺌﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺍﺱ ﻣﻌﻤﻮﻟﯽ ﺭﻗﻢ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﯾﮧ ﭘﺮﮐﮫ ﺳﮑﻮﮞ۔

ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﺑﺲ ﺳﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺍُﺗﺮﺍ, ﺍُﻧﮩﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﻟﮕﺎ ﺟﯿﺴﮯ ﺍُﻧﮑﯽ ﭨﺎﻧﮕﻮﮞ ﺳﮯ ﺟﺎﻥ ﻧﮑﻞ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ, ﮔﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﺑﭽﻨﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﮭﻤﺒﮯ ﮐﺎ ﺳﮩﺎﺭﺍ ﻟﯿﺎ, ﺁﺳﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﻨﮧ ﺍُﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺭﻭﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩُﻋﺎ ﮐﯽ, ﯾﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﻣُﺠﮭﮯ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮ ﺩﯾﻨﺎ, ﻣﯿﮟ ﺍﺑﮭﯽ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﻮ ﺑﯿﺲ ﭘﻨﺲ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭽﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﮭﺎ۔۔۔

یاد رکھیئے کہ بعض اوقات لوگ صرف قرآن پڑھ کر اسلام کے بارے میں جانتے ہیں۔
یا غیر مسلم ہم مسلمانوں کو دیکھ کر اسلام کا تصور باندھتے ہوں۔
ہم سب کو دوسروں کیلئے ایک اچھی مثال ہونا چاہیئے۔۔
اور ہمیشہ اپنے معاملات میں سچے اور کھرے بھی...
_____________منقول___________
 

سیما علی

لائبریرین
ﺍﯾﮏ ﺍﻣﺎﻡ ﻣﺴﺠﺪ ﺻﺎﺣﺐ ﺭﻭﺯﮔﺎﺭ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺑﺮﻃﺎﻧﯿﮧ ﮐﮯ ﺷﮩﺮ ﻟﻨﺪﻥ ﭘُﮩﻨﭽﮯ ﺗﻮ ﺭﻭﺍﺯﺍﻧﮧ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺑﺲ ﭘﺮ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮﻧﺎ ﺍُﻧﮑﺎ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ۔

ﻟﻨﺪﻥ ﭘﮩﻨﭽﻨﮯ ﮐﮯ ﮨﻔﺘﻮﮞ ﺑﻌﺪ, ﻟﮕﮯ ﺑﻨﺪﮬﮯ ﻭﻗﺖ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮑﮩﯽ ﺭﻭﭦ ﭘﺮ ﺑﺴﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﻔﺮ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﺌﯽ ﺑﺎﺭ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺑﺲ ﺑﮭﯽ ﻭﮨﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﺲ ﮐﺎ ﮈﺭﺍﺋﯿﻮﺭ ﺑﮭﯽ ﻭﮨﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔

ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﯾﮧ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﺑﺲ ﭘﺮ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮﺋﮯ, ﮈﺭﺍﺋﯿﻮﺭ ﮐﻮ ﮐﺮﺍﯾﮧ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﻗﯽ ﮐﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﻟﯿﮑﺮ ﺍﯾﮏ ﻧﺸﺴﺖ ﭘﺮ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﮯ۔ ﮈﺭﺍﺋﯿﻮﺭ ﮐﮯ ﺩﯾﺌﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﺎﻗﯽ ﮐﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﺳﮯ ﻗﺒﻞ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﺗﻮ ﭘﺘﮧ ﭼﻼ ﮐﮧ ﺑﯿﺲ ﭘﻨﺲ ﺯﯾ...ﺎﺩﮦ ﺁﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﻮﭺ ﻣﯿﮟ ﭘﮍ ﮔﺌﮯ, ﭘﮭﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﺳﮯ ﮐﮩﺎﮐﮧ ﯾﮧ ﺑﯿﺲ ﭘﻨﺲ ﻭﮦ ﺍﺗﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮈﺭﺍﺋﯿﻮﺭ ﮐﻮ ﻭﺍﭘﺲ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﺍُﻥ ﮐﺎ ﺣﻖ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻨﺘﮯ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﭺ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺁﺋﯽ ﮐﮧ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺅ ﺍﻥ ﺗﮭﻮﮌﮮ ﺳﮯ ﭘﯿﺴﻮﮞ ﮐﻮ, ﺍﺗﻨﮯ ﺗﮭﻮﮌﮮ ﺳﮯ ﭘﯿﺴﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﻮﻥ ﭘﺮﻭﺍﮦ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ !!!

ﭨﺮﺍﻧﺴﭙﻮﺭﭦ ﮐﻤﭙﻨﯽ ﺍﻥ ﺑﺴﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﻤﺎﺋﯽ ﺳﮯ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﭘﺎﺅﻧﮉ ﮐﻤﺎﺗﯽ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﮨﮯ, ﺍﻥ ﺗﮭﻮﮌﮮ ﺳﮯ ﭘﯿﺴﻮﮞ ﺳﮯ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﮐﻤﺎﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﻓﺮﻕ ﭘﮍ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ? ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﭘﯿﺴﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺍﻧﻌﺎﻡ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻟﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﭼﭗ ﮨﯽ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ۔
ﺑﺲ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﻣﻄﻠﻮﺑﮧ ﺳﭩﺎﭖ ﭘﺮ ﺭُﮐﯽ ﺗﻮ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺍُﺗﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮈﺭﺍﺋﯿﻮﺭ ﮐﻮ ﺑﯿﺲ ﭘﻨﺲ ﻭﺍﭘﺲ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ؛ ﯾﮧ ﻟﯿﺠﯿﺌﮯ ﺑﯿﺲ ﭘﻨﺲ, ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻏﻠﻄﯽ ﺳﮯ ﻣُﺠﮭﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺩﮮ ﺩﯾﺌﮯ ﮨﯿﮟ۔

ﮈﺭﺍﺋﯿﻮﺭ ﻧﮯ ﺑﯿﺲ ﭘﻨﺲ ﻭﺍﭘﺲ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣُﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ؛ﮐﯿﺎ ﺁﭖ ﺍﺱ ﻋﻼﻗﮯ ﮐﯽ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﮯ ﻧﺌﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﮨﯿﮟ? ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﻋﺮﺻﮧ ﺳﮯ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺁ ﮐﺮ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻣﻌﻠﻮﻣﺎﺕ ﻟﯿﻨﺎ ﭼﺎﮦ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﯾﮧ ﺑﯿﺲ ﭘﻨﺲ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﺎﻥ ﺑﻮﺟﮫ ﮐﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺩﯾﺌﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺍﺱ ﻣﻌﻤﻮﻟﯽ ﺭﻗﻢ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﯾﮧ ﭘﺮﮐﮫ ﺳﮑﻮﮞ۔

ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﺑﺲ ﺳﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺍُﺗﺮﺍ, ﺍُﻧﮩﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﻟﮕﺎ ﺟﯿﺴﮯ ﺍُﻧﮑﯽ ﭨﺎﻧﮕﻮﮞ ﺳﮯ ﺟﺎﻥ ﻧﮑﻞ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ, ﮔﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﺑﭽﻨﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﮭﻤﺒﮯ ﮐﺎ ﺳﮩﺎﺭﺍ ﻟﯿﺎ, ﺁﺳﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﻨﮧ ﺍُﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺭﻭﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩُﻋﺎ ﮐﯽ, ﯾﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﻣُﺠﮭﮯ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮ ﺩﯾﻨﺎ, ﻣﯿﮟ ﺍﺑﮭﯽ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﻮ ﺑﯿﺲ ﭘﻨﺲ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭽﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﮭﺎ۔۔۔

یاد رکھیئے کہ بعض اوقات لوگ صرف قرآن پڑھ کر اسلام کے بارے میں جانتے ہیں۔
یا غیر مسلم ہم مسلمانوں کو دیکھ کر اسلام کا تصور باندھتے ہوں۔
ہم سب کو دوسروں کیلئے ایک اچھی مثال ہونا چاہیئے۔۔
اور ہمیشہ اپنے معاملات میں سچے اور کھرے بھی...
_____________منقول___________
عمار میاں
بہت اعلیٰ اصل میں یہی سوچ ہے کردار کا دارو مدار یہی سوچ ہے مولائےِ کائینات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں؀
»دنیا «اصل منز ل قرار کے لیے ایک گزرگاہ ہے .اس میں دو 2قسم کے لوگ ہیں :ایک وہ جنہوں نے اس میں اپنے نفس کو بیچ کر ہلاک کر دیا اورایک وہ جنہوں نے اپنے نفس کو خریدکرآزاد کردیا.۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
اشفاق احمد: محاورے

جب میں نے پہلی مرتبہ انگریزی کے دو الفاظ "Take Care" جو عام طور پر بہت استعمال ہوتے ہیں (سنے) تو دل میں خیال آیا کہ ہم ان کا کیا کریں یعنی اگر میں گاڑی پر جا رہا ہوں اور میری خالہ جو لندن سے تشریف لائی تھیں انھوں نے کہا Ashfaq Take Care۔
اب میں حیران ہوں کہ میں اپنی ہی ذات کا Care Taker ہوں کیونکہ ہمارے ہاں تو “اللہ حافظ“ ( اللہ تم کو اپنی حفظ و امان میں رکھے) کہنے کا رواج ہے لیکن انگریزی بولنے والے کہتے ہیں کہ اللہ حافظ نہیں، ہم اللہ کے اوپر یہ ذمہ داری نہیں تھوپتے اور نہ ہی ہم اپنے اوپر ذمہ داری لیتے ہیں بلکہ یہ تمھاری اپنی ذمہ داری ہے کہ تم خود ہی اپنی Take Care کرو اور تم احتیاط کے ساتھ زندگی بسر کرو۔بڑے زمانے کی بات ہے ہم ایک روز گاڑی پر جا رہے تھے اور آگے سڑک کھدی ہوئی تھی اور وہاں ایک بہت بڑا سائین بورڈ لگا ہوا تھا جس میں انتباہ کی گئی تھی کہ Travel at your own risk
میں نے بورڈ پڑھ کے ڈرائیور سے کہا کہ بھائی ذرا آہستہ اور احتیاط کے ساتھ چلو۔ ساتھ میری خالہ بیٹھی ہوئی تھیں انہوں نے کہا احتیاط سے کیوں؟ کیا وجہ ہے؟ تو میں نے کہا کہ یہاں اتنا بڑا بورڈ لگا ہوا ہے کہ “ آپ اپنی ذمہ داری پر سفر کریں، سڑک ٹوٹی ہوئی ہے اور زیرِ تعمیر ہے۔“ اس پر میری خالہ ہنسی اور کہنے لگی پچھلا سفر ہم کس کی ذمہ داری پر طے کر کے آئے ہیں اور اگلا کس کی ذمہ داری پر طے کریں گے۔ یہ بورڈ یہاں کیوں لگایا ہوا ہے۔ اس پر مجھے خیال آیا کہ Take Care کا بھی بڑا عجیب و غریب معاملہ ہے کہ مجھ ہی سے کہا جا رہا ہے کہ میں اپنا خیال رکھوں۔ میرا ہی پروفیسر مجھے گاڑی پر چھوڑتے وقت مجھے کہتا ہے کہ Ashfaq you are going to abroad, Take care۔ -
اس حوالے سے میری خالہ کی بات تو ٹھیک تھی کہ ہم زندگی کا جو بھی سفر طے کرتے ہیں اپنی ذمہ داری پر یا اللہ کے حوالے سے یا اس کی مہربانی سے طے کرتے ہیں۔ یہ لکھنا یا کہنا کہ دیکھو یہاں سڑک ٹوٹی ہوئی ہے اور تم اپنی ذمہ داری سے سفر کرو آگے گورنمنٹ تمھاری ذمہ دار ہے یا معاشرہ اس ذمہ داری کو پورا ادا کرے گا ایسا ہوتا نہیں ہے۔ -

۔۔۔۔۔۔۔۔۔منقول۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
کار گرتدبیر

ایک دن کسی طالبِ علم نے اسپرے پینٹ سے اسکول کی دیواریں خراب کر دیں۔ جب شرارت کرنے والے بچّے کا پتا چل گیا تواس کے والد کو فون کرکے بلایا گیا اور شکایت کی گئی۔ باپ نے پرنسپل کے سامنے اپنےبیٹے سے دھیمے لہجے میں تصدیق کی ، تو اس نے اعترافِ جرم کرلیا۔جس پر باپ نے وہیں بیٹھے بیٹھے رنگ ساز کو فون ملایا اور دیواروں پر رنگ کرنے کا کہا۔ بعد ازاں، پرنسپل سے اپنے بیٹے کے کیے کی معافی مانگی اور اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ’’بیٹا! اگر تم میرا سر فخر سے اونچا نہیں کر سکتے، تو کم از کم ایسا کوئی کام نہ کرو جس سے میرا سر نیچا ہو۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چلاگیا۔باپ کی بات کا لڑکے پر اتنا اثر ہوا کہ وہ زارو قطار رونے لگا اور پھر خوب دل لگا کر پڑھائی میں مصروف ہوگیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے امتحان میں نمایاں پوزیشن حاصل کی ۔اس واقعے نے یہ ثابت کردیاکہ بچّوں پر مارپیٹ کا نہیں، شفقت سے سمجھائی بات کازیادہ اثر ہوتا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
اطاعت رسول اللہ ﷺ :

سب سے پہلا اور بنیادی تقاضہ جو ہم پر وارد ہوتا ہے وہ اطاعت رسولﷺ ہی ہے،نبی کریمﷺ کی اطاعت کے بغیرنہ تو محبت رسولﷺ ممکن ہے اور نہ ہی اطاعت کے بغیرنجات ممکن ہے اطاعت رسول ﷺ کی ترغیب اللہ سبحانہوتعالیٰ نے قرآن مجید میں کی ہے ۔

مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللهَ (النساء:80)

’’ اس رسول کی جو اطاعت کرے اسی نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی ۔‘‘

اس آیت قرآنی سےاطاعت رسولﷺ کی اہمیت واضح ہو جاتیہے ۔دوسری جگہ ارشا د فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَکُمْ (محمد:33)

’’ اے ایما ن والو!اطاعت کرو اللہ اور اس کے رسول کی اور اپنے اعمال ضائع نہ کرو ۔‘‘

اس آیت سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ معصیت رسولﷺ سے اعمال ضائع ہو جاتے ہیں،جس شخص نےرسول اکرمﷺ کی اطاعت نہ کی اس کے اعمال کا کوئی فائدہ نہیں اگرچہ وہ لاکھ محبت رسول کے دعوے کرتا پھرے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ

’’بلا شبہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی تمہارے لئے بہتریننمونہ ہے۔‘‘ (الاحزاب:21)

جب ہم سیرت رسول ﷺ کو اپنائیں گے تو نصرتیں اورفتوحات ہمارے قدم چومیںگی جس طرح ہم سے پہلے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے چوما کرتی تھی۔

آج ہماری زندگیوں میں سیرت رسولﷺ کو اپنانے کی شدیدضرورت در پیش ہے کیونکہ دور حاضر کے مسلمان مغلوباورذلت و رسوائی کا مقدر بنتے جارہے ہیں ،ہر جگہ مسلمانظلم و بربریت کا شکا ر ہیں ہر گھڑی ہر لمحہ مسلمانوں کیمصیبتیں بڑھتی جا رہی ہیں ان سب پریشانیوں کی بنیادیوجہ سیرت رسول اللہﷺ کا ہماری زندگیوں سے نکل جانا ہے تو آج ہمیں اپنی زندگیوںمیں سیرت رسولﷺ کو اپنانالازم ہے جس کے بغیر نہ ترقی ممکن ہے اور نہ نجات ۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں حقیقی معنوں میںمحبت رسولﷺ کے تقاضے پورےکرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
 

جاسمن

لائبریرین
پروفیسر نرید فاطمہ
26 دسمبر 2018 ۔۔۔ لاہور ۔۔پاکستان

' ماں تے آخر ماں ہوندی اے ''

چند ماہ پہلے ویٹرنری ڈاکٹر بننے والے میرے بیٹے حسین کے تجزیاتی مطالعے کی غرض سے خرگوشوں کی ایک جوڑی ہماری مہمان بنی ۔۔۔ گزشتہ ہفتے میں نے جب ان کو دڑبے سے باہر نکالا تو مادہ خرگوش میں خلاف معمول ایک بے چینی سی دیکھی۔۔۔ وہ پالک اور گاجریں کھاتے کھاتے اچانک اپنے بال نوچنے لگتی۔۔ پھر دڑبے میں چلی جاتی ۔۔۔پھر باہر آتی ۔۔تھوڑا بہت کھاتی اور بار بار اپنے بال نوچتی۔۔۔ میں سمجھی کہ اسے الرجی ہو رہی ہے اور وہ کھجلی کی وجہ سے اپنے بال نوچ رہی ہے۔۔ اسی اثنا میں میرا بیٹا حسین یونیورسٹی سے لوٹا تو میں نے اسے سارا ماجرا کہہ سنایا اور تاکید کی کہ اپنے اساتذہ اور سینئر ڈاکٹرز سے مشورہ کر کے اس بیچاری کا فوری دوا دارو کرو ۔۔ مجھ سے اس بے زبان کی یہ حالت دیکھی نہیں جا رہی ۔۔ جب وہ اسے دیکھنے باہر صحن میں گیا تو خوشی سے دوڑتا ہوا واپس آیا اور کہنے لگا : امی امی ! مادہ خرگوش نے بچے دیے ہیں۔۔سب آ کے دیکھیں ۔۔ ہم سب نئے مہمانوں کے استقبال کے لئے دڑبے کی طرف لپکے ۔۔۔ وہاں جا کر جو منظر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔۔ میں اسے لفظوں میں بیان کرنے سے یکسر قاصر ہوں، ہوسکے تو میری تحریر میں چھپے احساس کو اپنے محسوسات سے کشید کر لیجیے ۔۔۔
میں نے دیکھا کہ مادہ خرگوش جو اپنے بال نوچ نوچ کر تھوڑی تھوڑی دیر بعد دڑبے میں جاتی تھی اس ماں نے سخت سردی کے موسم میں اپنے بدن سے بال اتار اتار کر۔۔۔ مٹی کے اوپر اپنے سونے کے بستر پر اپنے بالوں کا نرم ، گرم بچھونا بنا رکھا ہے اور اپنے نوزائیدہ بچوں کو اپنے نوچے ہوئے بالوں کی فر میں لپیٹ دیا ہے ۔۔۔۔ کیونکہ ابھی اس کے بچوں کے جسم پہ بال نہیں اگے تھے ۔۔۔ سردی کے موسم میں انھیں ٹھنڈ لگنے کے اندیشے نے ماں کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ اپنے بدن کے بال نوچ نوچ کر اپنے بچوں کو گرمائش پہنچانے کا بندوبست کرے۔۔۔۔ یہ منظر دیکھ کر میں اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکی ، لفظ گلے میں پھنس گئے ،احساس کی حدت لئے صرف آنسو رواں تھے ، کیونکہ ایک ماں ہونے کے ناطے میں اس بے زبان کی مامتا کی تڑپ سے واقف ہو چکی تھی، جان چکی تھی کہ اسے الرجی نے نہیں ،مامتا کےانمول فدائی جذبے نے اپنے بدن کو بے بال کر کے اپنے بچوں کی خاطر خود کو سخت سردی کے حوالے کرنے پر مجبور کر دیا تھا ۔۔۔۔۔
تب سے اب تک میں یہ سوچ رہی ہوں کہ کہنے کو یہ ایک جانور ہے ۔۔۔ بے زبان جانور ۔۔۔ جسے ہم نادان ، بے عقل ، بے شعور ، نا سمجھ ، ناعاقبت اندیش کہتے ہیں ۔۔۔۔
مگر اس لمحے مجھے یوں لگا کہ یہ جانور نہیں ۔۔
"صرف ماں ہے" ۔۔۔ مامتا کے احساس سے سرشار ماں ۔۔۔ اپنے بچوں کی خاطر سب کچھ سہہ جانے اور قربان کر دینے والی ماں۔۔۔ اپنے بچوں کی خاطر خود کو نثار کر دینے والی ماں۔۔۔۔۔۔ صرف ایک ماں...!!!!!
یہ تحریر لکھتے ہوئے ، میری آنکھوں سے اب بھی آنسو بہہ رہے ہیں ، کئی گستاخ بے مروت اور بےفیض اولادوں کی تڑپتی بلکتی ماؤں کو یاد کر کے ۔۔۔ کئی زخم خوردہ ماؤں کے ظاہری و باطنی زخم یاد کر کے۔۔ کئی مجبور لاچار ماؤں کی اولادوں کی دست درازیاں اور ان کے نیل زدہ بدن یاد کر کے، تڑاخ پڑاخ کرتی جوان اولادوں کی شعلہ بار نگاہوں اور الفاظ کے زہر آلود نشتر یاد کر کے۔۔ اولڈ ہاؤس کے گیٹ پر بلکتی ، اپنی اولاد کی چمکتی کار کی طرف واپس لپکتی ماؤں کو یاد کر کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمت ہوئی تو کبھی اس عنوان کو مکمل کروں گی ۔۔۔

آنسو پونچھتے ہوئے میں اپنے بیٹے سے صرف ایک ہی جملہ کہہ پائی
کہ بیٹا اپنی روشن خیال، آزاد منش اور سولائزڈ جنریشن کو یہ تصویر ضرور دکھانا اور یہ بتانا کہ ۔۔۔۔۔

''ماں تے آخر ماں ہوندی اے ''

شاید کہ اتر جائے کسی دل میں مری بات

از طرف ۔۔۔۔
"ایک ماں " اور ایک بے زبان ماں کی ترجمان :
پروفیسر نرید فاطمہ
26 دسمبر 2018 ۔۔۔ لاہور ۔۔پاکستان
 

سیما علی

لائبریرین
qQSeic3_d.jpg
بچے کی تربیت کا عبرت آمیز واقعہ

بدھ‬‮ 12 اپریل‬‮
2017
جاوید چوہدری

ایک بچہ اسکول میں پڑھتا تھا اور یہ سچا واقعہ ہے اس کو اسلامیات کے ٹیچر نے نظم سکھائی، وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا، مرادیں غریبوں کی بر لانے والا، وہ بچہ جب بھی پڑھتا تو وہ پڑھتا:وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والے۔۔مرادیں غریبوں کی بر لانے والے۔استاد نے کئی مرتبہ کہا کہ شاعر نے والا لکھا ہے مگر وہ اسی طرح پڑھتا، استاد نے کہا اچھا اب وہ اس غلطی کو ٹھیک کر لے گا،لیکن بچے نے جب سالانہ فنکشن کے اوپر وہ نعت سنائی تو بچے نے والے پڑھا، ڈپٹی کمشنر آیا ہوا تھا اس
نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ آج کل استاد بچوں کا خیال نہیں کرتے یہ دیکھو اسلامیات کے ٹیچر نے بچے کو نعت یا نظم پڑھائی اور بچے نے والا نہیں اور والے کہا، استاد کو پتہ نہیں شاعر نے کیا لکھا لڑکا کیا پڑھ رہا ہے، چنانچہ استاد کی بے عزتی ہوئی، پورے مجمع کے اندر انسلٹ ہوئی، حالانکہ اس نے تو نشاندہی کر دی تھی، اس نے کہا اس بچے نے میری بات نہیں مانی اور مجھے سب کے سامنے رسوا کر دیا۔چنانچہ سال مکمل ہوا اگلے سال کی کلاسوں میں بچے چلے گئے، عجیب اللہ کی شان دیکھئے اس بچے کی کلاس کے ابتدائی دن تھے، ان کا ایک دن ریاضی کا ٹیچر نہیں آیا تھا، ایک پیریڈ تفریح سے پہلے تھا ہاف ٹائم سے پہلے تھا، ایک پیریڈ ہاف ٹائم کے بعد تھا، چنانچہ ہیڈ ماسٹر نے دیکھا، سٹاف روم میں اسلامک اسٹڈیز کے ٹیچر فارغ ہیں، ان کا پیریڈ خالی تھا، انہوں نے اس کو کہا آپ فلاں کلاس میں چلے جائیں، آج ان کے ٹیچر نہیں آئے، آج تو ابھی ایڈمشن کا پہلا دن ہے، ان کے پاس کتابیں بھی نہیں ہیں، آپ ان سے پیار و محبت کی باتیں کرتے رہیں، بچوں کا وقت گزر جائے گا یہ شور نہیں کریں گے، چنانچہ اسلامیات کے ٹیچر آ گئے وہ کہنے لگے کہ بھئی میں کچھ باتیں آپ کو سناؤں گا، پھر آپ سے چھوٹے چھوٹے سوال پوچھوں گا،آپ جواب دے دینا ہمارا وقت اچھا گزر جائے گا، لڑکے آمادہ ہو گئے پہلے استاد نے کافی باتیں سنائیں، جب تھک گئے تو انہوں نے چھوٹے چھوٹے سوالات شروع کر دیے کسی سے پوچھا کسی سے کچھ پوچھا جب اس لڑکے کی باری آئی تو استاد نے پوچھا یہ بتاؤ ہمارے پیغمبرؐ کا نام کیا ہے؟ یہ لڑکا اٹھ کر کھڑا ہو گیا، اس کا نام احمد تھا اس نے کوئی جواب نہ دیا، استاد نے پوچھا کہ بتاؤ نام کیا ہے پیغمبرؐ کا یہ پھر چپ رہا،استاد نے دل میں سوچا اس نے پہلے بھی میری پبلک انسلٹ کروا دی تھی اب پھر پوری کلاس کے اندر میں پوچھ رہا ہوں تو جواب نہیں دیتا، مجھے لگتا ہے کہ یہ لڑکا بڑی ضدی قسم کا ہے، چنانچہ استاد نے ڈنڈا ہاتھ میں لیا قریب آ گیا کہنے لگا تمہیں ہمارے پیغمبرؐ کا نام آتا ہے؟ لڑکے نے سر ہلا کر کہا جی ہاں، پوچھا پھر بتاتے کیوں نہیں؟ لڑکا چپ ہو گیا، استاد نے کہا میں تمہاری پٹائی کروں گا تم نام کیوں نہیں بتاتے لڑکا خاموش ہے،ساری کلاس کے لڑکے حیران ہیں کہ یہ تو اتنا نیک اور دینی علم رکھنے والا ہے یہ کیوں نہیں بتا رہا، استاد کو غصہ آیا بار بار پوچھنے پر بھی بچے نے نہ بتایا استاد نے اس کے دو چار ڈنڈے لگائے تھپڑ لگائے بچے کو کبھی مار نہیں پڑی تھی پہلی مرتبہ کلاس میں پٹائی ہوئی تو بچہ رونے لگا، آنسو آنے لگے، ابھی مار پڑ رہی تھی اتنے میں ہاف ٹائم کی گھنٹی بج گئی، چنانچہ استاد کہنے لگے اچھا میں اگلے پیریڈ میں آ رہا ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ تم کیسے نام نہیں بتاتے؟میں تمہاری ضد کو توڑ کر دکھاؤں گا۔استاد تو غصے میں یہ کہہ کر چلے گئے لیکن کچھ بچے ایسے تھے جو اس کے دوست تھے وہ اس کے قریب بیٹھ گئے اور وہ غمزدہ نظر آ رہے تھے اس بچے کو تو کبھی مار نہیں پڑی تھی، یہ کلاس میں ، فرسٹ آنے والا بچہ تھا، آج مار پڑی، بچہ بلک بلک کر رو رہا تھا، تھپڑ لگے تھے، ڈنڈے لگے تھے، آنسو پونچھ رہا تھا، مگر کسی سے کچھ نہیں کہہ رہا تھا، کچھ دیر کے بعد یہ احمد اٹھا اور باہر گیا، واش بیسن میں اپنے چہرے کو دھویا،فریش اپ ہو گیا اور آ کر کلاس کے اندر بیٹھ گیا، ہاف ٹائم کے بعد یہ فریش اپ اپنی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ ساری کلاس بیٹھ گئی جب دوبارہ پیریڈ لگا استاد دوبارہ آئے اپنا ڈنڈا لہراتے ہوئے انہوں نے کہا احمد کھڑے ہو جاؤ، احمد کھڑا ہو گیا، انہوں نے پوچھا بتاؤ ہمارے پیغمبرؐ کا نام کیا ہے؟ احمد نے کہا: حضرت محمدؐ ، استاد خوش ہو گئے، کہنے لگے: تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا؟ لڑکا پھر خاموش ہے، پھر پوچھا کہ بتاؤ پہلے کیوں نہیں بتا رہے تھے، لڑکا پھر خاموش ہے،اب استاد سمجھ گئے کہ اس کے اندر کوئی راز ہے، استاد قریب آئے اور قریب آ کر انہوں نے بچے کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا، اس کو اپنے سینے سے لگایا رخسار کا بوسہ لیا تو تم میرے شاگرد ہو میرے بیٹے کے مانند ہو، میں نے تمہیں کہا تھا، وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا پڑھنا، تم نے وہاں بھی والے پڑھا تھا اور اب بھی تم نے نام نہیں بتایا، آخر وجہ کیا ہے؟ جب بچے کو پیار ملا استاد نے پیار سے بوسہ لیا، بچے نے پھر بلک بلک کر رونا شروع کر دیا،استاد نے تسلی دی اور اس کو پیار دیا، بیٹے رو نہیں بتاؤ کیا وجہ ہے؟ جب بچے کی ذرا طبیعت ٹھیک ہوئی وہ کہنے لگا کہ اصل بات یہ ہے میرے والد دنیا سے فوت ہو گئے، ان کو نبی کریمؐ سے بہت محبت تھی، وہ مجھے نصیحت کیا کرتے تھے کہ بیٹے تم کبھی بھی حضورؐ کا نام بے ادبی سے نہیں لینا، اس لیے والا کے بجائے میں نے والے کہا:وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والے۔۔مرادیں غریبوں کی بر لانے والے۔اور استاد نے پوچھا نام کیوں نہیں بتایا؟کہنے لگا میرے ابو مجھے کہا کرتے تھے، بیٹا نبی کریمؐ کا نام کبھی بھی بے وضو نہیں لینا، میرا اس وقت وضو نہیں تھا، آپ کی مار میں نے کھا لی، آپ میری ہڈیاں بھی توڑ دیتے، میں مار تو کھا لیتا لیکن نبی کریمؐ کا نام بے وضو نہ لیتا، اب میں ہاف ٹائم کے اندر وضو کرکے آیا ہوں آپ نے پوچھا میں نے اپنے محبوبؐ کا نام بتا دیا۔

جاوید چوہدری
 

شمشاد

لائبریرین
ایک سچی کہانی

کہتے ہیں سنہ 2007م کی بات ہے لندن کے ایک عربی ریسٹورینٹ میں ہم لوگ مغرب کی نماز سے تھوڑی دیر پہلے ڈنر کےلئے داخل ہوئے

ہم لوگ ہوٹل میں بیٹھے اور ویٹر آڈر لینے کے لئے آگیا میں نے مہمانوں سے چند منٹ کے لئے اجازت طلب کی اور پھر واپس آگیا اتنے میں مہمانوں میں سے ایک شخص نے سوال کیا ڈاکٹر صاحب آپ کہاں گئے تھے آپ نے تو بڑی تاخیر کردی کہاں تھے ؟

میں نے کہا: میں معذرت خواہ ہوں در اصل میں نماز پڑھ رہا تھا

اس نے مسکراتے ہوئے کہا آپ اب تک نماز پڑھتے ہیں؟ میرے بھائی آپ تو قدامت پسند ہیں

میں نے بھی مسکراتے ہوئےپوچھا قدامت پسند ؟وہ کیوں ؟کیا اللہ تعالی صرف عربی ممالک میں ہے لندن میں نہیں ہے؟

اس نے کہا:ڈاکٹرصاحب میں آپ سے کچھ سوالات کرنا چاہتا ہوں اور آپ سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ آپ اپنی جس کشادہ ظرفی کیلئے معروف ہیں اسی کشادہ قلبی سے مجھے تھوڑا سا برداشت کریں گے

میں نے کہا: جی مجھے تو بڑی خوشی ہوگی لیکن میری ایک شرط ہے

اس نے کہا :جی فرمائیں

میں نے کہا : اپنے سوالات مکمل کرلینے کے بعد تمہیں ہار یا جیت کا اعتراف کرنا پڑے گا ٹھیک ہے ؟

اس نے کہا ٹھیک ہے مجھے منظور ہے اور یہ رہا میرا وعدہ

میں نے کہا :چلو بحث شروع کرتے ہیں ...فرمائیں

اس نے کہا :آپ کب سے نماز پڑھ رہے ہیں؟

میں نے کہا سات سال کی عمر سے میں نے اس کو سیکھنا شروع کیا اور نو سال کی عمر میں پختہ کرلیا تب سے اب تک کبھی نماز نہیں چھوڑا اور آئندہ بھی ان شاء اللہ نہیں چھوڑوں گا .

اس نے کہا ٹھیک ہے .. مرنے کے بعد اگر آپ کو یہ معلوم ہو کہ نہ جنت و جہنم کا وجود ہے نہ ہی کو ئی جزا وسزا ہے پھر آپ کیا کروگے ؟

میں نے کہا :تم سے کئے گئے عہد کے مطابق پوری کشادہ قلبی سے تمہارے سوالات کا آخر تک جواب دوں گا

فرض کریں نہ ہی جنت وجہنم کا وجود ہوگا نہ ہی کوئی جزا وسزا ہوگی تو میں ہرگز ہی کچھ نہ کروں گا اس لئے کہ در اصل میرا معاملہ ایساہی ہے جیسا کہ علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ نے کہا تھا :"الہی میں نے تیرے عذاب کے خوف اور جنت کی آرزو میں تیری عبادت نہیں کی ہے بلکہ میں نے اس لئے تیری عبادت کی ہے کیونکہ تو عبادت کے لائق ہے

اس نے کہا : اور آپ کی وہ نمازیں جس کو دسیوں سال سے آپ پابندی کے ساتھ پڑھتے آرہے ہیں پھر آپکو معلوم ہو کہ نمازی اور بے نماز دونوں برابر ہیں جہنم نام کی کوئی چیز نہیں ہے پھر کیا کریں گے

میں نے کہا:مجھے اس پر بھی کچھ پچھتاوا نہیں ہوگا کیونکہ کہ ان نمازوں کو ادا کرنے میں مجھے صرف چند منٹ ہی لگتے ہیں چنانچہ میں انھیں جسمانی ورزش سمجھوں گا

اس نے کہا:اور روزہ خصوصاً لندن میں کیونکہ یہاں روزے کا وقفہ ایک دن میں 18گھنٹے سے بھی تجاوز کرجاتا ہے ؟

میں نے کہا :میں اسے روحانی ورزش سمجھو ں گا چنانچہ وہ میری روح اور نفس کے لئے اعلی طرز کی ورزش ہے اسی طرح اس کے اندر صحت سے جڑے بہت سارے فوائد بھی ہیں جس کا فائدہ میری زندگی ہی میں مجھے مل چکا ہے اور کئی بین الاقوامی غیر اسلامی اداروں کابھی یہ ماننا ہے کہ کچھ وقفے تک کھاناپینا بند کرنا جسم کیلئے بہت مفید اور نفع بخش ہے

اس نے کہا:آپ نے کبھی شراب پی ہے ؟

میں نے کہا :میں نے اس کو کبھی ہاتھ تک نہیں لگایا

اس نے تعجب سے کہا: کبھی نہیں

میں نے کہا کبھی نہیں

اس نے کہا: اس زندگی میں اپنے آپ کو شراب نوشی کی لذت اور اس کے خمار کے سرور سے محرومی کے بارے میں کیا کہیں گے اگر آپ لئے وہی ظاہر ہوا جو میں نے فرض کیا ہے؟

میں نے کہا: شراب کے اندر نفع سے زیادہ نقصان ہے اور میں سمجھوں گا کہ میں نے اپنے آپ کو اس نقصان دہ چیز سے بچالیا ہے اور اپنے نفس کو اس سے دور رکھا ہے چنانچہ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو شراب کی وجہ سے بیمار ہوگئے اور کتنے ہی ایسے ہیں جنھوں نے شراب کی وجہ سے اپنا گھربار مال واسباب سب تباہ وبرباد کرلیا ہے

اسی طرح غیر اسلامی اداروں کےعالمی رپوٹ کو دیکھنے سے بھی یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ بھی شراب کے اثرات اور اس کو لگاتار پینے کے انجام سے متنبہ کرتی ہے

اس نے کہا :حج وعمرہ کا سفر .جب موت کے بعد آپ کو معلوم ہوگا کہ اس طرح کی کوئی چیز نہیں ہے اور اللہ تعالی ہی موجود نہیں ہے؟

میں نے کہا: میں عہد کے مطابق چلوں گا اور پوری کشادہ ظرفی سے تمہارے سوالات کا جواب دوں گا

میں حج وعمرہ کے سفر کو ایک خوبصورت تفریحی سفرسے تعبیر کرونگا جس کے اندر میں نے حد درجے کی فرحت وشادمانی محسوس کی اور اپنی روح کوآلائشوں سے پاک و صاف کیا جس طرح تم نے اپنے اس سفر کے لئے کیا ہے تاکہ تم ایک اچھا وقت گزار سکو اور اپنے عمل کے بوجھ اور معمولات زندگی کی تھکان کو دور کرکے اپنی روح کو تازگی فراہم کرسکو

وہ میرےچہرے کو کچھ دیر تک خاموشی سے دیکھتا رہا پھر گویا ہوا :آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے میرے سوالات کو بڑی کشادہ قلبی کے ساتھ برداشت کیا

میرے سوالات ختم ہوئے اور میں آپ کے سامنے اپنی ہار تسلیم کرتا ہوں

میں نے کہا :تمہارا کیا خیال ہے تمہارے ہار تسلیم کرنے کے بعد میرے دل کی کیا کیفیت ہوگی ؟

اس نے کہا :یقیناً آپ بہت خوش ہوں گے

میں نے کہا: ہرگز نہیں بلکہ اس کے بلکل الٹا... میں بہت دکھی ہوں

اس نے تعجب سے کہا: دکھی ؟کیو؟

میں نے کہا :اب تم سے سوال کرنے کی میری باری ہے

اس نے کہا :فرمائیں

میں نےکہا: تمہاری طرح میرے پاس ڈھیر سارے سوالات نہیں ہیں صرف ایک ہی سوال ہے وہ بھی بہت سادہ اور آسان

اس نےکہا :وہ کیا ؟

میں نے کہا :میں نے تمہارے سامنےواضح کردیا ہے کہ تمہارے مفروضہ کے واقع ہونے کے بعد بھی میں کسی طرح کے گھاٹے میں نہیں ہوں اور نہ ہی اس میں میرا کسی قسم کا نقصان ہے ... لیکن میرا وہ ایک آسان سوال یہ ہے کہ تمہارا اس وقت کیا ہوگا اگر حالات تمہارے مفروضہ کےبرعکس ظاہر ہوئے یعنی موت کے بعد تمہیں معلوم ہو کہ اللہ تعالی بھی موجود ہے جنت و جہنم بھی ہے سزا وجزا بھی ہے اور قرآن کے اندر بیان کئے گئے سارے مشاہد و مناظر بھی ہیں پھر تم اسوقت کیا کروگے ؟

وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر خاموشی کے ساتھ دیر تک دیکھتا رہا... اور پھر ویٹر نے ہماری میز پر کھانا رکھتے ہوئے ہماری خاموشی کو توڑا

میں نے اس سے کہا:مجھے ابھی جواب نہیں چاہئے کھانا حاضر ہے ہم کھانا کھائیں اور جب تمہارا جواب تیار ہوجائیگا توبراہ مہربانی مجھے خبر کردینا ہم کھانے سے فارغ ہوئے اور مجھے اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور میں نے بھی اس وقت اس کو جواب کے لئے کوئی تکلیف نہیں دی... ہم بہت ہی سادگی کے ساتھ جدا ہوگئے

ایک مہینہ گزرنے کے بعد اس نے مجھ سے رابطہ کیا اور اسی ریسٹورینٹ میں ملاقات کا مطالبہ کیا

ریسٹورینٹ میں ہماری ملاقات ہوئی ہم نے ایک دوسرے سے ہاتھ ملایا *کہ اچانک اس نےمیرے کندھے پر اپنا سر رکھ کر مجھے اپنی باہوں میں پکڑ کر رونے لگا* میں نے اپنا ہاتھ اس کی پیٹھ پر رکھا اور پوچھا کیا بات ہے تم کیوں رو رہے ہو

اس نے کہا: میں یہاں آپ کا شکریہ ادا کرنے اور اپنے جواب سے آپ کو باخبر کرنے لئے آیا ہوں

بیس سال سے بھی زیادہ عرصہ تک نماز سے دور رہنے کے بعد اب میں نماز پڑھنے لگا ہوں آپ کے جملوں کی صدائے بازگشت میرے ذہن ودماغ میں بلا توقف گونجتی ہی رہی اور میں نیند کی لذت سے محروم ہوتا رہا

آپ نے میرے دل ودماغ اور جسم میں آتش فشاں چھوڑ دیا تھا اور وہ میرے اندر اثر کر گیا

مجھے احساس ہونے لگا کہ جیسے میں کوئی اور انسان ہوں اور ایک نئی روح میرے جسم کے اندر حرکت کر رہی ہے ایک بے مثال قلبی سکون بھی محسوس کر رہا ہوں

میں نے کہا :ہوسکتا ہے جب تمہاری بصارت نے تمہاراساتھ چھوڑ دیا ہو تب ان جملوں نے تمہاری بصیرت کو بیدار کردیا ہو

اس نے کہا: بالکل ایسا ہی ہے... یقینا جب میری بصارت نے میرا ساتھ چھوڑ دیا توان جملوں نے میری بصیرت کو بیدار کر دیا

میرے پیارے بھائی تہہ دل سے آپ کا شکریہ

عربی سے ترجمہ
 
Top