نوید صادق

محفلین
آتے ہی فصلِ گل کے جنوں ہو گیا ہمیں
بدلی جو رُت، مزاج برابر بدل گیا

ساقی کی بھول چوک سے، ہم رند لُٹ گئے
جامِ جہاں نما سے، جو ساغر بدل گیا

اب اے صبا وہ لطف نہیں جانبین میں
یہ دل بدل گیا کہ وہ دلبر بدل گیا
 

نوید صادق

محفلین
پیادہ پا میں رواں سوئے لالہ زار ہوا
بہار آتے ہی سر پر جنوں سوار ہوا

چمن میں جب مرے ہمراہ وہ نگار ہوا
گلوں کو داغ ہوا، بلبلوں کو خار ہوا

وہ خاکسار تھا میں، لاکھ آندھیاں آئیں
زمیں سے خاک نہ اونچا مرا غبار ہوا

پڑا خلاف " کلوا واشربوا" کے معنی میں
میں بادہ خوار ہوا، شیخ روزہ دار ہوا

مزہ چکھاتے بتو تم کو جبر کرنے کا
خدا گواہ ہے دل پر نہ اختیار ہوا
 

نوید صادق

محفلین
نازل عجب بلا کرہء خاک پر ہوئی
کیوں تم نے گیسوؤں کو بڑھایا ، غضب کیا

عمرِ دو روزہ میں نہ کوئی کام بن پڑا
رہ رہ کے آسماں نے مٹایا، غضب کیا
 

نوید صادق

محفلین
لے گیا چھین کے دل وہ بتِ پُرفن کیسا
رہ گئے دیکھ کے منہ شیخ و برہمن کیسا

چھیڑ کر دل کو وہ سن لیتے ہیں شیون کیسا
کوک دیتے ہیں تو بجتا ہے یہ ارگن کیسا

یہ جوانی تو عجب سر پہ قیامت لائی
یادِ ایام کہ گزرا ہے لڑکپن کیسا

خامشی کی تجھے کچھ قدر نہیں او غافل
دیکھ تو پوجتے ہیں بت کو برہمن کیسا
 

نوید صادق

محفلین
میں دیکھ دیکھ کر جو رخِ یار رہ گیا
کچھ سوچ سوچ کر وہ ستم گار رہ گیا

ساغر ہماری عمر کا لبریز ہو گیا
جب دو قدم پہ خانہء خمار رہ گیا
 

نوید صادق

محفلین
موجدِ گلشن ہے تاثیرِ بیانِ عندلیب
ہے نموئے نخلِ گل نوکِ زبانِ عندلیب

اُڑ گیا گلشن سے نامِ آشیانِ عندلیب
تیر ہے بادِ خزاں بہرِ نشانِ عندلیب

باغ میں جاتے رہے تاب و توانِ عندلیب
ہائے کیا لوٹا خزاں نے کاروانِ عندلیب

بوئے گل ہے توسنِ عمرِ روانِ عندلیب
نے سوارانِ چمن ہیں ہمرہانِ عندلیب

جور گلچیں، عشقِ گل، خوفِ خزاں، ایذائے خار
لاکھ آفت میں پھنسی ہے ایک جانِ عندلیب

باغ میں صیاد اور گلچیں سے قصہ ہو گیا
جم گیا کچھ آج رنگِ داستانِ عندلیب

چند روزہ حسن کی ہے مہربانی عشق پر
گل چمن میں چار دن ہے میہمانِ عندلیب

کام آتے ہیں بدوں کے نیک بعدِ مرگ بھی
طُعمہ زاغ و زغن ہیں استخوانِ عندلیب

باغ کی خانہ خرابی دیکھ کر سودا ہوا
تنکے چنتا ہوں میں بہرِ آشیانِ عندلیب
 
Top