ام الکتاب (مولانا ابولکلام آزاد)

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۲۷۳
"عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ کہتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنی انگلی سے ایک لکیر کھینچی اور فرمایا یوں سمجھو کہ یہ اللہ کا ٹھہرایا ہوا راستہ ہے۔ بالکل سیدھا۔ اس کے بعد اس لکیر کے دونوں طرف بہت سے ترچھی لکیریں کھینچ دیں اور فرمایا یہ طرح طرح کے راستے ہیں جو بنا لیے گئے ہیں اور ان میں کوئی راستہ نہیں جس کی طرف بلانے کے لیے ایک شیطان موجود نہ ہو، پھر یہ آیت پڑھی "وان ھذا صراطی مستقیما" ۔۔۔۔۔
اس سے معلوم ہوا تمام ادھر ادھر کے ٹیڑے ترچھے راستے "سُبل متفرقہ" ہیں جو جمعیت بشری کو متحد کرنے کی جگہ متفرق کر دیتے ہیں اور درمیان کی ایک ہی سیدھی راہ "صراط مستقیم" ہے۔ یہ متفرق کرنے کی بجائے، تمام رہ روان منزل کو ایک ہی شاہ راہ پر جمع کر دیتی ہے۔
یہ سبل متفرقہ کیا ہیں؟ اسی گمراہی کا نتیجہ ہیں جسے قرآن نے "تشیع" اور "تخرب" کی گم راہی سے تعبیر کیا ہے اور تشریح اس کی اوپر گزر چکی۔
دین حقیقی کی راہ کا سیدھا ہونا اور "سبل متفرقہ" یعنی کود ساختہ گروہ بندیوں کا پرپیچ و خم ہونا، ایک ایسی حقیقت ہے جسے ہر انسان بغیر کسی عقلی کاوش کے سمجھ لے سکتا ہے۔ خدا کا دین اگر انسان کی ہدایت کے لیے ہے تو ضروری ہے کہ خدا کے تمام قوانین کی طرح یہ بھی صاف اور واضح ہو، اس میں کوئی راز نہ ہو، کوئی پیچیدگی نہ ہو، ناقابل حل معمہ نہ ہو، اعتقاد میں سہل ہو اور عمل میں ہلکا، ہر عقل اسے بوجھ لے، ہر طبیعت اس پر مطمئن ہو جائے۔ اچھا اب غور کرو! یہ تعریف کس راہ پر صادق آتی ہے؟ ان مکتلف راہوں پر جو پیروان مذہب نے الگ الگ گروہ بندیاں کر کے نکال لی ہیں یا اس ایک ہی راہ پر جسے قرآن اصل دین کی راہ بتلاتا ہے؟
ان گروہ بندیوں میں سے کوئی گروہ بندی بھی ایسی نہین ہے جو اپنے بوجھل عقیدوں، ناقابل فہم عقدوں اور ناقابل برداشت عملوں کی ایک طول طویل فہرست نہ ہو۔ ہم یہاں تفصیلات میں نہیں جائیں گے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ دنیا کے تمام پیروان مذہب کے مزعومہ عقائد و اعمال کا کیا حال ہے اور ان کی نوعیت کیسی ہے۔ مذہب کا عقل کے لیے معمہ اور طبیعت کے لیے بوجھ ہونا ایک ایسی بات ہے جو عام طور پر مذاہب کا خاصہ تسلیم کر لی گئی


 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۲۷۴
ہے۔ لیکن قرآن جس راہ کو دین حقیقی کی راہ کہتا ہے، اس کا کیا حال ہے؟ اس کی راہ تو اتنی واضح، اتنی سہل، اتنی مختصر ہے کہ عقائد و اعمال کی پوری فہرست دو لفظوں میں ختم کر دی جا سکتی ہے "ایمان اور عمل صالح" (۱۱۲) اس کے عقائد میں عقل کے لیے کوئی بوجھ نہیں، اس کے اعمال میں طبیعت کے لیے کوئی سختی نہیں، ہر طرح کے پیچ و خم سے پاک، ہر معنی میں اعتقاد و عمل کی سیدھی سیدھی بات "الحنیفیۃ السمحۃ لیلھا کنھارھا، اس کی رات بھی اس کے دن کی طرح روشن ہے":
الْحَمْدُ لِلَّ۔هِ الَّذِي أَنزَلَ عَلَىٰ عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَل لَّهُ عِوَجًا ۜ﴿۱۸:١
ہر طرح کی ستائش اللہ ہی کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی اور اس میں کسی طرح کی بھی کمی نہیں رکھی۔
بہرحال قرآن کا پیرو وہ ہے جو دین کی سیدھی راہ پر چلنے والا ہے۔ وہ راہ نہیں جو کسی خاص گروہ، کسی خاص نسل، کسی خاص قوم، کسی خاص عہد کی راہ ہے، بلکہ خدا کی عالم گیر سچائی کی راہ وہ ہے جو ہر جگہ اور ہر عہد میں نمایاں ہوئی ہے اور ہر طرح کی جغرافیائی اور جماعتی حد بندیوں کے امتیازات سے پاک ہے :
إِنَّ اللَّ۔هَ هُوَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۚ هَ۔ٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ ﴿۴۳:٦٤
اللہ میرا اور تمہارا دونوں کا پروردگار ہے، پس اسی کی بندگی کرو، یہی صراط مستقیم ہے۔
علاوہ بریں بحث و نظر کے بعض دوسرے پہلو بھی ہیں جو اس موقع پر پیش نظر رہنے چاہییں :
اول – فلاح و سعادت کی راہ کو "سیدھی راہ" سے تعبیر کیا گیا اور سیدھی راہ پر چلنا ایک ایسی بات ہے جس کی سمجھ اور طلب، بالطبع ہر انسان کے اندر موجود ہے۔ پھر اس کی پہچان بتلاتے ہوئے کوئی اس طرح کی تعریف نہیں کی جس کے سمجھنے اور منطبق کرنے میں ذہنی کاوشوں کی ضرورت ہو، بلکہ ایک خاص طرح کے انسانوں کی طرف انگلی اٹھا دی کہ "صراط مستقیم" ان لوگوں کی راہ ہے۔
اس اسلوب بیان نے ہر انسان کے سامنے "صراط مستقیم" کو ایک محسوس و مشہہود صورت میں نمایاں کر دیا۔ ہر انسان خواہ کسی عہد اور کسی ملک و قوم سے تعلق رکھتا ہو، لیکن اس بات

 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۲۷۵
سے بے خبر نہیں ہو سکتا کہ یہاں دو طرح کے انسان موجود ہیں : ایک وہ ہیں جن کی راہ سعادت و کامیابی کی راہ ہے، ایک وہ ہیں جن کے حصے میں محرومی و شقاست آئی ہے۔ پس کامیابی کی راہ کی پہچان اس سے زیادہ بہتر اور مؤثر طریقے سے بیان نہیں کی جا سکتی کہ وہ کامیاب انسان کی راہ ہے۔ اگر اس کی پہچان منطقی تعریفوں کی طرح بیان کی جاتی تو ظاہر ہے نہ تو ہر انسان بغیر کاوش و فکر کے سمجھ سکتا، نہ قطعی طور پر کسی ایک ہی راہ پر منطبق کی جا سکتی۔
ثانیا – جہاں تک انسانی فلاح و سعادت کا تعلق ہے، صراط مستقیم کی تعبیر ہی ہر لحاظ سے حقیقی اور قدرتی تعبیر ہو سکتی تھی۔ انسان کے فکر و عمل کا کوئی گوشہ ہو لیکن صحت و درستگی کی راہ ہمیشہ وہی ہو گی جو سیدھی راہ ہو، جہاں انحراف اور کجی پیدا ہوئی، نقص و فساد و ظہور میں آ گیا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی تمام زبانوں میں سیدھا ہونا اور سیدھی چال چلنا فلاح و سعادت کے معنوں میں عام طور پر بولا جاتا ہے گویا اچھائی کے معنوں میں یہ ایک ایسی تعبیر ہے جو تمام نوع انسانی کی عالم گیر تعبیر کہی جا سکتی ہے۔
حضرت مسیح سے چار سو برس پہلے دارایوش اول نے جو فرامین کندہ کرائے تھے، ان میں سے بے ستون کا کتبہ آج تک موجود ہے اور اس کا خاتمہ ان جملوں پر ہوتا ہے "اے انسان! اہورامزدکا (یعنی خدا کا) تیرے لیے حکم یہ ہے کہ برائی کا دھیان نہ کر، سیدھا راستہ نہ چھوڑ، گناہ سے بچتا رہ" (۱۳)
پس صراط مستقیم پر چلنے کی طلب زندگی کی تمام راہوں میں درستگی و صحت کی راہ چلنے کی طلب ہوئی اور اسی لیے سعی و عمل کے ہر گوشے میں انعام یافتہ گروہ وہی ہو سکتا ہے جس کی راہ صراط مستقیم ہو۔


 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۲۷۶
"الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ" اور "الضَّالِّينَ"
پھر "صراط مستقیم" کی پہچان صرف اس کے مثبت پہلو ہی سے واضح نہیں کی گئی، بلکہ اس کا ضد مخالف پہلو بھی واضح کر دیا گیا : "غیر المغضوب علیھم ولا الضالین" "ان کی راہ نہیں جو مغضوب ہوئے، نہ ان کی جو گم راہ ہو کربھٹک گئے۔"
"مغضوب علیھم" گرو "منعم علیھم" کی بالکل ضد ہے، کیونکہ انعام کی ضد غضب ہے، اور فطرت کائنات کا قانون یہ ہے کہ راست باز انسانوں کے حصے میں انعام آتا ہے، نافرمانوں کے حصے میں غضب۔ "گمراہ" وہ ہیں جو راہ حق نہ پا سکے اور اس کی جستجو میں بھٹک گئے۔ پس مغضوب وہ ہوئے جنہوں نے راہ پائی اور اس کی نعمتیں بھی پائیں، لیکن پھر اس سے منحرف ہو گئے اور نعمت کی راہ چھوڑ کر محرومی و شقاوت کی راہ اختیار کر لی۔ "گمراہ" وہ ہوئے جو راہ ہی نہ پا سکے، اس لیے ادھر ادھر بھٹک رہے ہیں اور صراط مستقیم کی سعادتوں سے محروم ہیں۔
"مغضوب علیہ" کی محرومی حصول معرفت کے بعد انکار کا نتیجہ ہے اور "گم راہ" کی محرومی جہل کا نتیجہ۔ پہلے نے پا کر، روگردانی کی اس لیے محروم ہوا، دوسرا پا ہی نہ سکا اس لیے محروم ہے۔ محروم دونوں ہوئے، مگر یہ ظاہر ہے کہ پہلے کی محرومی زیادہ مجرمانہ ہے، کیونکہ ان نے نعمت حاصل کر کے پھر اس سے روگردانی کی، اسی لیے اسے مغضوب کہا گیا اور دوسرے کی حالت صرف گم راہی کےلفظ سے تعبیر کی گئی۔
ہم دیکھتے ہیں دنیا میں فلاح و سعادت سے محروم آدمی ہمیشہ دو طرح کے ہوتے ہیں : جاحد اور جاہل۔ جاحد وہ ہوتا ہے جو حقیقت پا لیتا ہے، بایں ہمہ اس سے روگردانی کرتا ہے،

 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۲۷۷
جاہل وہ ہوتا ہے جو حقیقت سے ناآشنا ہوتا ہے، اور اپنے جہل پر قانع ہو جاتا ہے۔ پس صراط مستقیم پر چلنے کی طلب گاری کے ساتھ محرومی و شقاوت کی ان دونوں صورتوں سے بچنے کی طلب بھی سکھلا دی، تاکہ فلاح و سعادت کی راہ کا تصور ہر طرح کامل اور لغزشوں سے محفوظ ہو جائے۔
جہاں تک مذہبی صداقت کا تعلق ہے، دونوں طرح کی محرومیوں کی مثالیں قوموں کی تاریخ میں موجود ہیں۔ کتنی ہی قومیں ہیں جن کے قدم صراط مستقیم پر استوار ہو گئے تھے اور فلاح و سعادت کی تمام نعمتیں ان کے لیے مہیا تھیں، بایں ہمہ انہوں نے روگردانی کی اور راہ حق کی معرفت حاصل کر کے پھر اس سے منحرف ہو گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہی قوم جو کل تک دنیا کی انعام یافتہ جماعت تھی، سب سے زیادہ محروم و نامراد جماعت ہو گئی۔ اسی طرح کتنی ہی جماعتیں ہیں جن کے سامنے فلاح و سعادت کی راہ کھول دی گئی، لیکن انہوں نے معرفت کی جگہ جہل اور روشنی کی جگہ تاریکی پسند کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ راہ حق نہ پا سکے اور نامرادی ومحرومی کی وادیوں میں گم ہو گئے۔
احادیث و آثار میں اس کی جو تفسیر بیان کی گئی ہے اس سے یہ حقیقت اور زیادہ واضح ہو جاتی ہے۔ ترمذی اور احمد و ابن حبان وغیرہم کی مشہور حدیث ہے کہ: "آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا "المغضوب" یہودی ہیں اور "الضالین" نصاریٰ ہیں"۔ یقیناً اس تفسیر کا مطلب یہ نہیں ہو سکتا کہ مغضوب سے مقصود صرف یہودی اور گمراہ سے مقصود صرف نصاریٰ ہیں، بلکہ مقصود یہ ہے کہ مغضوبیت اور گم راہی کی حالت واضح کرنے کے لیے دو جماعتوں کا ذکر بطور مثال کے کر دیا جائے۔ چنانچہ ان دونوں جماعتوں کی تاریخ میں ہم محرومی کی دونوں حالتوں کا کامل نمونہ دیکھ سکتے ہیں۔ یہودیوں کی قومی تاریخ مغضوبیت کے لیے اور عیسائیوں کی تاریخ گمراہی کے لیے عبر و تذکیر کا بہترین سرمایہ ہے۔

قرآن کے قصص اور استقراء تاریخی

یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں قرآن نے ہدایت و تذکیر امم کے لیے جن جن اصولوں پر زور دیا ہے ان میں سب سے زیادہ نمایاں اصل پچھلی قوموں کے ایام و وقائع اور ان کے


 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۲۷۸
نتائج ہیں وہ کہتا ہے : کائنات ہستی کے ہر گوشے کی طرح قوموں اور جماعتوں کے لیے بھی خدا کا قانون سعادت و شقاوت ایک ہی ہے اور ہر عہد اور ہر ملک میں ایک ہی طرح کے احکام و نتائج رکھتا ہے۔ اس کے احکام میں کبھی تبدیلی نہیں ہو سکتی اور اس کے نتائج ہمیشہ اور ہر حال میں اٹل ہیں۔ جس طرح سنکھیا کی تاثیر اس لیے بدل نہیں جا سکتی کہ وہ کس عہد اور کس سنہ میں استعمال کی گئی، اسی طرح قوموں اور جماعتوں کے اعمال کے نتائج بھی اس لیے متغیر نہیں ہو جا سکتے کہ کس ملم میں پیش آئے۔ اگر ماضی میں ہمیشہ شہد، شہد کا خاصہ رکھتا آیا ہے اور سنکھیا کی تاثیر سنکھیا ہی کی ہو گی۔ پس جو کچھ ماضی میں پیش آ چکا ہے ضروری ہے کہ مستقبل میں بھی پیش آئے :
سُنَّةَ اللَّ۔هِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلُ ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّ۔هِ تَبْدِيلًا ﴿۳۳:٦٢
جو لوگ تم سے پہلے گزر چکے ہیں ان کے لیے اللہ کی سنت یہی رہی ہے (یعنی اللہ کے قوانین و احکام کا دستور یہی رہا ہے) اور اللہ کی سنت میں تم کبھی رد و بدل نہیں پاؤ گے۔
فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ ۚ فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّ۔هِ تَبْدِيلًا ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّ۔هِ تَحْوِيلًا ﴿۳۵:٤٣
پھر یہ لوگ کس بات کی راہ تک رہے ہیں؟ کیا اس سنت کی جو اگلے لوگوں کے لیے رہ چکی ہے؟ تو یاد رکھو! تم اللہ کی سنت کو کبھی بدلتا ہوا نہین پاؤ گے اور نہ کبھی ایسا ہو سکتا ہے کہ اس کی سنت کے احکام پھیر دیئے جائیں۔
سُنَّةَ مَن قَدْ أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِن رُّسُلِنَا ۖ وَلَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِيلًا ﴿۱۷:٧٧
(اے پیغمبر!) تم سے پہلے جن رسولوں کو ہم نے بھیجا ہے، ان کے لیےہماری سنت یہی رہی ہے اور ہماری سنت کبھی ٹلنے والی نہیں۔
چنانچہ وہ ایک طرف تو انعام یافتہ جماعتوں کی کام رانیوں کا بار بار ذکر کرتا ہے، دوسری طرف مغضوب اور گمراہ جماعتوں کی محرومیوں کی سرگزشتیں بار بار سناتا ہے، پھر جابجا

 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۲۷۹
ان سے عبرت و بصیرت کے نتائج اخذ کرتا ہے جن پر اقوام و جماعات کا عروج و زوال موقوف ہے۔ وہ کھول کھول کر بتلاتا ہے کہ انعام یافتہ جماعتوں کی سعادت و کامرانی ان اعمال کا انعام تھی اور مغضوب و گمراہ جماعتوں کی شقاوت و محرومی ان بداعمالیوں کی پاداش تھی۔ اچھے نتائج کو "انعام" کہتا ہے، کیونکہ یہ فطرت الہٰی کی قبولیت ہے، برے نتائج کو "غضب" کہتا ہے، کیونکہ یہ قانون الہٰی کی پاداش ہے، وہ کہتا ہے :جن اسباب و علل سے دس مرتبہ ایک خاص طرح کا معلول پیدا ہو چکا ہے، تم کیونکر انکار کر سکتے ہو کی گیارہویں مرتبہ بھی ویسا ہی معلول پیدا نہ ہو گا :
قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِكُمْ سُنَنٌ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ ﴿۳:١٣٧
تم سے پہلے بھی دنیا میں (خدا کے) احکام و قوانین کے نتائج گزر چکے ہیں، پس ملکوں کی سیر کرو اور دیکھو ان لوگوں کا انجام کیا ہوا جنہوں نے (اللہ کے قوانین کو) جھٹلایا تھا!
قرآن کی سورتوں میں ایک بڑی تعداد ایسی سورتوں کی ہے جو تمام تر اسی مطلب پر مشتمل ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ قرآن میں جس قدر بیان بھی پچھلے عہدوں کے وقائع و قصص کا ہے وہ تمام تر سورۃ فاتحہ کی اسی آیت کی تفصیل ہے۔


 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۲۸۰
سورۃ فاتحہ کی تعلیمی روح
اچھا!اب چند لمحوں کے لیے سورۃ فاتحہ کے مطالب پر بحثیت مجموعی نظر ڈالو اور دیکھو اس کی ساتھ آیتوں کے اندر مذہبی عقائد و تصور کی جو روح مضمر ہے وہ کس طرح کی ذہنیت پیدا کرتا ہے؟ سورۃ فاتحہ ایک دعا ہے۔ فرض کرو ایک انسان کے دل و زبان سے شب و روز یہی دعا نکلتی رہتی ہے، اس صورت میں اسکے فکر و اعتقاد کا کیا حال ہو گا؟
وہ خدا کی حمد و ثنا میں زمزمہ سنج ہے، لیکن اس خدا کی حمد میں نہیں جو نسلوں، قوموں اور مذہبی گرو بندیوں کا خدا ہے، بلکہ "رب العٰلمین" کی حمد میں جو تمام کائنات خلقت کا پروردگار ہے اور اس لیے تمام نوع انسانی کے لیے یکساں طور پر پروردگاری و رحمت رکھتا ہے۔ پھر وہ اسے اس کی صفتوں کے ساتھ پکارنا چاہتا ہے، لیکن اس کی تمام صفتوں میں سے صرف رحمت اور عدالت ہی کی صفتیں اسے یاد آتی ہیں۔ گویا خدا کی ہستی کی نمود اس کے لیے سر تا سر رحمت و عدالت کی نمود ہے اور جو کچھ بھی اس کی نسبت جانتا ہے وہ رحمت و عدالت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ پھر وہ اپنا سر نیاز جھکاتا اور اس کی عبودیت کا اقرار کرتا ہے، وہ کہتا ہے : "صرف تیری ہی ایک ذات ہے جس کے آگے بندگی و نیاز کا سر جھک سکتا ہے اور صرف تو ہی ہے جو ہمارے ساری درماندگیوں اور احتیاجوں میں مددگاری کا سہارا ہے"۔ وہ اپنی عبادت اور استعانت دونوں کو صرف ایک ہی ذات کے ساتھ وابستہ کر دیات ہے اور اس طرح دنیا کی دوسری قوتوں اور ہر طرح کی انسانی فرمان روائیوں سے بے پروا ہو جاتا ہے۔ اب کسی چوکھٹ پر اس کا سر جھک نہیں سکتا، اب کسی قوت سے وہ ہراساں نہیں ہو سکتا، اب کسی کے آگے اس کا دست طلب دراز نہیں ہو سکتا۔

 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۲۸۱
پھر وہ خدا سے سیدھی راہ چلنے کی توفیق طلب کرتا ہے۔ یہی ایک مدعا ہے جس سے زبان احتیاج آشنا ہوتی ہے، لیکن کون سی سیدھی راہ؟ کسی خاص مذہبی حلقے کی سیدھی راہ؟ نہیں۔ وہ راہ جو دنیا کے تمام مذہبی رہنماؤں اور تمام راست باز انسانوں کی متفقہ راہ ہے، خواہ کسی عہد اور کسی قوم میں ہوئے ہوں۔ اسی طرح وہ محرومی اور گمراہی کی راہوں سے پناہ مانگتا ہے، لیکن یہاں بھی کسی خاص نسل و قوم یا کسی خاص مذہبی گروہ کا ذکر نہیں کرتا، بلکہ ان راہوں سے بچنا چاہتا ہے جو دنیا کے تمام محروم اور گم راہ انسانوں می راہیں رہ چکی ہیں۔ گویا جس بات کا طلب گار ہے وہ بھی نوع انسانی کی عالم گیر اچھائی ہے اور جس بات سے پناہ مانگتا ہے وہ بھی نوع انسانی کی عالم گیر برائی ہے۔ نسل، قوم، ملک یا مذہبی گروہ بندی کے تفرقہ و امتیاز کی کوئی پرچھائیں اسکے دل و دماغ پر نظر نہیں آتی۔
غور کرو! مذہبی تصور کی یہ نوعیت انسان کے ذہن و عواطف کے لیے کس طرح کا سانچا مہیا کرتی ہے؟ جس انسان کا دل و دماغ ایسے سانچے میں ڈگل کر نکلے گا وہ کس قسم کا انسان ہو گا؟ کم از کم دو باتوں سے تم انکار نہیں کر سکتے، ایک یہ کہ اس کی خدا پرستی، خدا کی عالم گیر رحمت و جمال کے تصور کی خدا پرستی ہو گی، دوسری یہ کہ کسی معنی میں بھی نسل و قوم یا گروہ بندیوں کا انسان نہیں ہو گا، عالم گیر انسانیت کا انسان ہو گا اور دعوت قرآنی کی اصلی روح یہی ہے۔
ختم شد

 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۲۸۲
حواشی
1) پہلے ایڈیشن کے ص ۱۷۶ پر یہ عبارت زیادہ ہے۔ (یعنی حسن و جمال کے اعتراف اور کبریائی اور کمال کے اعتقاد کے ساتھ جو کچھ بھی اور جیسا کچھ بھی کہا جاے) مصحح۔
2) پہلے ایڈیشن کے ص ۱۷۶ پر یہ عبارت زیادہ ہے۔ )جس کی پروردگاری کائنات خلقت کے ہر وجود کو زندگی اور بقاء کا سر و سامان بخشتی اور پرورش کی ساری ضرورتیں مہیا کرتی رہتی ہے)۔م

3) پہلے ایڈیشن میں آیت ۳ کا ترجمہ اس طرح ہے : جو جزا اور سزا کے دن کا مالک ہے (اور جس کی عدالت نے ہر کام کیلئے بدلا اور ہر بات کے لئے نتیجہ ٹھہرا دیا ہے)۔م

4) پہلے ایڈیشن میں یہ عبارت زیادہ ہے۔ (تیرے سوا کوئی معبود نہیں جس کی بندگی کی جائے اور طاقت و بخشش کا کوئی سہارا نہیں جس سے مدد مانگی جائے۔م

5) پہلے ایڈیشن میں یہ عبارت زیادہ ہے : اور منزل کا سراغ ان پر گم ہو گیا۔ م

6) امام بخاری اور اصحاب سنن نے ابو سعید بن المعلی سے روایت کی ہے "الْحَمْدُ لِلَّ۔هِ رَبِّ الْعَالَمِينَ " ھی السبع المثانی والقرآن العطیم الذی اوتیتہ۔ اور امام مالک، ترمذی اور حاکم نے ابو ہریرہ رضی اللہ سے روایت کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی بن کعب کو سورۃ فاتحہ تلقین کی اور یہی الفاظ فرمائے۔ اسی طرح طبری نے حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابن عباس اور ابن مسعود و غیرہم سے روایت کی ہے کہ املبع المثانی فاتحہ الکتاب۔ ابن مسعود کی اسناد منقطع ہے، لیکن ابن عباس کی حسن ہے، ابو العالیہ سے بھی ایسا ہی مروی ہے۔ اس کے علاوہ ائمہ تابعین کی ایک بڑی جماعت اسی طرف گئی ہے۔ حفاظ ابن حجر نے فتح الباری میں تمام روایت جمع کر دی ہیں۔ (شرح کتاب التفسیر جلد ۸ ص ۱۲۰ طبع اول)

7) صحیح بخاری، موطا، ابو داؤد، ابنماجہ اور مسند میں بہ اختلاف الفاظ اس مضمون کی روایت موجود ہیں۔

8 ) ابو سعید بن المعلی کی روایت میں جس کی تخریج پچھلے حاشیے میں گزر چکی ہے اس "اعظم سورۃ فی القرآن" فرمایا ہے اور مسند کی روایت ابن جابر میں "خیر" کا لفظ ہے (دونوں ایڈیشن میں لفظ "اخیر" طبع ہوا ہے جو غلط ہے، مسند ابن حنبل میں عبد اللہ بن جابر کی روایت
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۲۸۳
اس طرح ہے ۔۔۔ ثم قال الا اخیرک یا عبد اللہ بن جابر بخیر سورۃ فی القرآن ج۴۔ ص ۱۷۷۔ مصر۔ م)
1) پہلے ایڈیشن میں یہ حدیث نہیں ہے۔ م
2) پہلے ایڈیشن میں یہ عنوان نہیں ہے۔ م
3) پہلے ایڈیشن میں یہ عنوان نہیں ہے۔ م
4) پہلے ایڈیشن میں فقرہ ذیل زیادہ ہے :
خدا پرستی فطرت کا خمیر ہے، اس لئے خدا پرستی کی کوئی سچی بات انسان کے لئے انوکھی بات ہو ہی نہیں سکتی۔ اس کی فطرت کے لئے سب سے زیادہ جانی بوجھی ہوئی بات یہی ہے کہ خالق کائنات کا اقرار کرے۔ پس سورہ فاتحہ کی ندرت محض اس کے معانی میں نہیں بلکہ معانی کی تعبیر میں ڈھونڈنی چاہیے۔ خدا پرستی کا جوش انسان میں پہلے سے موجود تھا، اس کی ربوبیت اور رحمت کے جلوے کبھی اس کی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوئے۔ جزا و سزا کا اعتقاد سمندروں اور پہاڑوں سے بھی زیادہ پرانا ہے۔ ٹیڑھے راستے سے بچنے سیدھی راہ چلنے کی طلب نہ صرف انسان میں بلکہ کیڑے مکوڑوں تک میں موجود ہے۔ انسان اپنی معیشت کے کسی عہد میں بھی اس درجہ مسخ نہیں ہوا کہ ان وجدانی تصورات سے اس کا ذہن خالی ہو گیا ہو لیکن اس کی محرومی یہ تھی کہ اپنے وجدان کی ٹھیک تھیک تعبیر نہیں کر سکتا تھا۔ وہ خدا کی ربوبیت محسوس کر رہا تھا، لیکن اسے "رب" کہہ کر پکارنا نہیں جانتا تھا اس کی رحمت کے جلوسے ہر آن اس کے سامنے تھے لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ اپنے دل کا احساس کیونکر لفظوں اور ناموں میں ادا کر دے۔ جرا اور سزا اس کے دل کے ایک ایک ریشے کا اعتقاد تھا لیکن اسے معلوم نہ تھا کہ اس کی صحیح تعبیر کیا ہے۔ ہدایت کی طلب اور گمراہی سے گریز تو عقل حیوانی کا فطری خاصہ ہے، لیکن انسان کی ساری درماندگی یہ تھی کہ اس بات کی زیادہ سے زیادہ طلب رکھنے پر بھی طلب گاری کی راہ سے آشنا نہ تھا (ص ۴-۵)م۔
5) پہلے ایڈیشن میں یہ فقرہ اس طرح ہے :
پھر حمد کے بعد صفات الہٰی میں سے ربوبیت اور رحمت کا ذکر کیا ہے اور اس طرح نوع انسانی کی اس عالم گیر غلطی کا ازالہ کر دیا ہے۔ کہ خدا کو صرفاس کی صفات قہر و جلال ہی میں دیکھتی تھی اس کی رحمت و جمال کی تماشائی نہ تھی۔ اس اسلوب بیان نے واضح کر دیا کہ خدا کا صحیح تصور وہی ہو سکتا ہے جو سر تا سر حسن و جمال اور رحمت و محبت کا تصور ہو (ص ۶)م۔
6) یعنی "خدایا! ایسا کر کہ تیری ہستی میں ہمارا تحیر بڑھتا رہے" کیونکہ یہاں تحیر جہل کا نہیں بلکہ معرفت کا نتیجہ ہے (پہلے ایڈیشن میں یہ عربی شعر بھی ہے :

 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۲۸۴
زدنی بفرط الحب فیک تحیرا
وارجم حشا بلظی ھو اک تسعرام
1) "الہ کی طرح ۔۔۔۔ خبر دیتا ہے" یہ فقرہ پہلے ایڈیشن میں نہیں ہے۔م
2) مفردات راغب اصفہانی

3) (Naked eye) غیر مسلح آنکھ، یعنی ایسی آنکھ جو قدرتی نگاہ سے دیکھ رہی ہو، زیادہ قوت کے ساتھ دیکھنے کا کوئی آلہ مثلاً خوردبین اس کے ساتھ نہ ہو۔

4) انسان میں ماں کی محبت بلوغ کے بعد بھی بدستور باقی رہتی ہے اور بعض حالتوں میں اس کے انفعالات اتنے شدید ہوتے ہیں کہ عہد طفہلیت کی ھبت میں اور اس محبت میں کوئی فرق محسوس نہین ہوتا، لیکن یہ صوورت حال غالباً انسان کی مدنی و عقلی زندگی کے نشو و نما کا نتیجہ ہے، نہ کہ فطرت حیوانی کا۔ ابتدائی انسان میں بھی یہ علاقہ فطرتاً اس حد تک ہو گا کہ بچہ سن تمیز تک پہنچ جائے، لیکن بعد کو نسل و خاندان کی تشکیل اور اجتماعی احساسات کی ترقی سے مادری رشتہ ایک دائمی رشتہ بن گیا۔

5) یہ حاشیہ پہلے ایڈیشن میں ہے ص ۲۴ لیکن دوسرے میں نہیں ہے۔ م

یہی حقیقت ہے جسے آج علمی مصطلحات میں یوں ادا کیا جاتا ہے۔
From the motion of the electrons round the positively charged nucleus of an atom to the motion fo the planets round the sun, and so forty, every thing points only to the one conclusion, viz predetermined law. Sir Oliver Lodge.
اس کی مزید تشریح اپنے مقام پر آئے گی۔ جس حقیقت کو یہاں "Predetermined law " سے تعبیر کیا گیا ہے اسی کو قرآن "تخلیق بالحق" سے تعبیر کرتا ہے۔

6) یہ حاشیہ پہلے ایڈیشن میں سے ص ۲۴ لیکن دوسرے میں نہیں ہے۔ م
یہ تعبیر اسلئے اختیار کی گئی کہ نزول قرآن سے پہلے تمام پیروان مذاہب نے دنیا کی پیدائش کا جو نقشہ کھینچا تھا وہ حکمت و مصالح کے تصور سے یک قلم خالی تھا۔ لوگ خیال کرتے تھے کہ طاقت و اختیار کے ساتھ حکم و مصالح کی رعایت جمع نہیں ہو سکتی۔ حکم مصالح کی پابندی وہی کرے گا جو کسی کے آگے جواب دہ ہو۔ خدا جو سب سے بڑا اور سب پر حکمراں ہے اس کےکم حکم و مصالح سے کیوں وابستہ ہوں۔ وہ مطلق العنان بادشاہوں کو دیکھتے تھے جو جی میں آتا ہے کر گزرتے ہیں اور ان کے اکموں میں چون و چرا کی گنجائش نہیں ہوتی۔ پس سمجھتے


 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۲۸۵
تھے کہ خدا کے کاموں کا بھی یہی حال ہے۔ چنانچہ ہندوستان، مصر، بابل اور یونان کی تمام علم الاضامی روایت اسی تخیل کا نتیجہ ہیں۔ دیوتاؤں نے عشق بازی میں رنگ رلیاں منائیں اور ستارے پیدا ہو گئے۔ کسی دیوتا نے شکار کھیلتے ہوئے تیر مارا پہاڑ پیدا ہو گیا۔ ایک دیوتا نے جٹا کھول دی دریا وجود میں آ گیا۔ اصنام پرست اقوام کے علاوہ یہودیوں اور عیسائیوں کے خیالات بھی اس بارے میں عقلی تصورات سے خالی تھے۔ یہودیوں کا خیال تھا کہ ایک مطلق العنان اور مستبد بادشاہ کی طرح خدا کے افعال بھی حکم و مصالح کی جگہ محض جوش و ہیجان کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ وہ غصے میں آ کر قوموں کو ہلاک کر دیتا ہے اور جوش محبت میں آ کر کسی خاص قوم کو اپنی چہیتی قوم بنا لیتا ہے۔
بلا شبہ عیسائی تصور کا مایہ خمیر رحم و محبت ہے لیکن حکم و مصالح کے لئے اس میں بھی جگہ نہ تھی۔ کفارہ کے اعتقاد کے ساتھ حکم و مصالح کا اعتقاد نشو و نما نہیں پا سکتا تھا۔ قرآن تاریخ مذاہب میں پہلی کتاب ہے جس نے خدا کی صفات و افعال کیلئے عقلی تصور قائم کیا اور یہ حقیقت واضح کی کہ حکم و مصالح کی رعایت منافی نہیں ہے، بلکہ محاسن قدرت میں ہے بلا شبہ خدا جو کچھ چاہے کر سکتا ہے، لیکن اس کی حکم تو عدالت کا متقضی یہی ہے کہ جو کچھ کرتا ہے، حکمت و مصلحت کے ساتھ کرتا ہے۔
اسی اصلی کی نتیجہ ہے اس نے تخلیق کائنات کا بھی جو نقشہ کھینچا، وہ سر تا سر عقلی نقشہ ہے۔ اسی لئے اس نے جابجا "تخلیق بالباطل" کے خیال کو کفر کی طرف نسبت دی ہے۔ وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا ۚ ذَٰلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ﴿۳۸:٢٧ہم نے آسمان و زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، بغیر حکمت و مصلحت کے نہیں بنایا ہے یہ خیال کہ ہم نے بغیر حکمت و مصلحت کے پیدا کیا، ان لوگوں کا گمان ہے جنہوں نے کفر کا شیوہ اختیار کیا۔
1) آیت کے آخری حصے کا ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے۔م
2) "قل" کا ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے۔ م
3) اس موقع پر یہ اصل پیش نظر رکھنی چاہیے کہ جس طرح کائنات کی ہر چیز نظر و اعتبار کے مختلف پہلو رکھتی ہے اسی طرح قرآن کا استشہاد بھی بیک وقت مختلف پہلوؤں سے تعلق رکھتا ہے، البتہ خصوصیت کے ساتھ زور کسی ایک ہی پہلو کے لئے ہوتا ہے۔ مثلا، شہید کی پیدائش اور شہد کی مکھی کی اعمال کے مختلف پہلو ہیں۔ یہ بات کہ ایک نہایت مفید اور لذیذ غذا پیدا ہو جاتی ہے، ربوبیتہے۔ یہ بات کہ ایک حقیر سا جانور اس دانش مندی و دقت کے ساتھ یہ کام انجام دیتا ہے، ذہن و ادراک کی بخشش کا عجیب و غریب منظر ہے اور اس لئے حکمت و


 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۲۸۶
قدرت کا پہلو رکھتا ہے۔ ان آیات کا سیاق و سباق بتلاتا ہے کہ یہاں زیادہ تر توجہ ربوبیت پر دلائی گئی ہے، لیکن ساتھ ہی حکمت و قدرت کے مشترک مظاہر بیان کیے گئے ہیں، لیکن خصوصیت کے ساتھ زور کسی ایک ہی پہلو پر ہے۔
1) "فانی تُوفکون" کا ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے۔ م
2) پہلے ایڈیشن میں یہ جملہ زیادہ ہے : فعلی ظہور ان کے لئے ضروری نہیں ہوتا (ص ۳۹) م

3) پہلے ایڈیشن میں یہ جملہ زیادہ ہے : اور اپنا فعلی ظہور بھی رکھتے ہیں (ص ۳۹) م۔

4) "قل" کا ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے۔ م

5) اس آیت میں اور اس کی تمام ہم معنی آیات میں "سخر" کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، یعنی تمام چیزیں تمہارے لیے مسخر کر دی ہیں "تسخیر" ٹھیک ٹھیک اسی معنی میں بولا جاتا ہے جس معنی میں ہم اردو میں بولا کرتے ہیں، یعنی کسی چیز کا قھراً و حکماً اس طرح مطیع ہو جانا کہ جس طرح چاہیں اس سے کام لیں۔ غور کرو! انسانی قوی کی عظمت و سروری کے اظہار کے لئے اس سے زیادہ موزوں تعبیر اور کیا ہو سکتی تھی؟ قرآن کے نزول سے پہلے اقوام عالم کی چینی ذہنیت انسان کے عقلی امنگوں کے قطعا خلاف تھی۔ لیکن قرآن نے صرف یہی نہیں کیا کہ اس کی عقلی امنگوں کی جرات افزائی کر دی، بلکہ اس کی ہمت اور اولوالعزمی علم کیلئے ایک ایسی بلند نظری کا نقشہ کھینچ دیا جس سے بہتر نقشہ آج بھی نہیں کھینچا جا سکتا۔ آسمان اور زمن میں جو کچھ ہے سب اس لئے ہے کہ انسان کے آگے مسخر ہو کر رہے اور انسان ان میں تصرف کرے۔ انسانی عقل و فکر کے لئے اس سے زیادہ بلند نصب العین اور کیا ہو سکتا ہے؟ پھر غور کرو "تسخیر" کا لفظ انسانی کی حکمرانیوں کے لئے کس درجہ موزوں لفظ ہے؟ اس تسخیر کا قدیم منظر یہ تھا کہ انسان کا چھوٹا سا بچہ لکڑی کے دو گرز تختے جوڑ کر سمندر کے سینے پر سوار ہو جاتا تھا اور نیا منظر یہ ہے کہ آگ، پانی، ہوا، بجلی تمام عناصر پر حکمرانی کر رہا ہے۔

البتہ یہ بات یاد رہے کہ قرآن نے جہاں کہیں اس تسخیر کی ذکر کیا ہے اس کا تعلق صرف کرہ ارضی کی کائنات سے ہے یا آسمان کے ان موثرات سے ہے جنہیں ہم یہاں محسوس کر رہے ہیں۔ یہ نہیں کہا ہے تمام موجودات ہستی اس کے لئے مسخر کر دی گئی ہیں۔یا تمام موجودات ہستی میں وہ اشرف و اعلٰی مخلوق ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ ہماری دنیا کائنات ہستی کے بے کنار سمندر میں ایک قطرے سے زیادہ نہیں وما یعلم جنود ربک الاھو (۳۱:۴۷) اور انسان کو جو کچھ بھی برتری حاصل ہے وہ صرف اس دنیا کی مخلوقات میں ہے۔
6) "لللکُم تھتدون" کا ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے۔ م
7) "اِنہ کان حلیماً تشکرون" کر ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے۔ م

 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۲۸۷
1) "ولعلکم تشکرون" کا ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے۔ م
2) قرآن حکیم نے آخرت کے وجود کا جنجن دلائل سے اذعان پیدا کیا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔ وہ کہتا ہے : دنیا میں ہر چیز اپنا کوئی نہ کوئی متقابل وجود یا مثنی ضرور رکھتی ہے، پس ضروری ہے کہ دینوی زندگی کے لئے بھی کوئی متقابل اور مثنی زندگی ہو۔ دینوی زندگی کی متقابل زندگی آخرت کی زندگی ہے۔ چنانچہ بعض سورتوں میں انہیں متقابل مظاہرات سے استشہاد کیا ہے۔ مثلاً سورۃ الشمس مین فرمایا :

وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا ﴿١وَالْقَمَرِ إِذَا تَلَاهَا ﴿٢وَالنَّهَارِ إِذَا جَلَّاهَا ﴿٣وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَاهَا ﴿٤وَالسَّمَاءِ وَمَا بَنَاهَا ﴿٥وَالْأَرْضِ وَمَا طَحَاهَا ﴿٦﴾ (سورۃ ۹۱)

3) "لعلکُم تذکرون" کا ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے۔ م

4) یعنی حواء۔ مصحح (طبع دوم۔م)

5) یعنی آدمی اور حواء کی نسل ہے، مصحح (طبع دوم۔م)

6) ولعلکم تعقلون کا ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے۔ م

7) پہلے ایڈیشن میں حسب ذیل فقرات زیادہ ہیں۔

چنانچہ سورۃ بقرہ میں جہاں تحویل قبلہ کے معاملے کا ذکر کیا ہے وہاں اہل کتاب کی متعصبانہ مخالفتوں کی طرف اشارہ کر کے فرمایا :

الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ ﴿۲:١٤٧

یہ (یعنی تحویل قبلہ کا معاملہ) تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک امر حق ہے۔ پس دیکھو! ایسا نہ ہو کہ تم شک کرنے والوں میں سے ہو جاؤ۔ چنانچہ عام مفسرین کی نظر اس اصل پر نہ تھی، اس لئے اس خطاب کا صحیح محل متعین نہ کر سکے اور "فلا تکونن من الممترین" کا مطلب یہ سمجھا گیا کہ اس معاملے کے خدا کی طرف سے ہونے شک نہ کرو، حالانکہ داعی اسلام کا قلب جو خود محل وحی تھا اس بارے میں شک کا محل کیونکر ہو سکتا تھا دراصل اس خطاب کا مقصد ہی دوسرا ہے۔ تحویل قبلہ کے معاملے میں کمزور اور بے سر و سامان مسلمانوں کے ایمان کے لئے بہت بڑی آزمائش تھی۔ مٹھی بھر مظلوم و مقہور انسانوں کی جماعت نے دنیا کی دو سب سے بڑی مذہبی قوتوں کے قبلوں کے خلاف اپنا ایک نیا قبلہ مقرر کیا تھا اور یروشلم کا عظیم الشان اور صدیوں مسلمہ کا ہیکل چھوڑ کر ریگستان عرب کے ایک گمنام اور بے شان و شوکت معبد کی طرف متوجہ ہو گئے تھے۔ ایسی حالت میں کون امید کر سکتا تھا کہ یہ بے باکانہ جرات کامیاب ہو سکے گی اور دنیا کی قوموں کا رخ اچانک پھر جائے گا۔ یہی حقیقت ہے جس کی طرف ان لفظو میں اشارہ کیا گیا ہے کہ "وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّ۔هُ ۗ وَمَا كَانَ اللَّ۔هُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ۚ﴿۲:١٤٣

 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۲۸۸

پس ضرورت تھی کہ کمزور دلوں کی تقویت کے لئے واضح کر دیا جائے کہ یہ معاملہ کتنی ہی بے سر و سامانیوں کے ساتھ ظہور میں آیا ہو اور ناکامیابی کے اسباب بظاہر کتنے ہی قوی نظر آتے ہوں۔ تاہم کامیابی و فتح مندی اسی کیلئے ہے اور اس کا نتیجہ ہر طرح کے شک و شبہ سے پاک ہے، کیونکہ یہ اللہ کی طرف سے ٹھہرایا ہوا "امر حق" ہے اور جو حق ہو وہ قائم و باقی رہنے کے لئے ہوتا ہے، مٹنے کے لئے نہیں ہوتا۔ ہرچیز جو اس سے مقابل ہو گی اور اس کی راہ روکے گی محو اور فنا ہو جائے گی۔ اسی طرح سورہ آل عمران میں جہاں الوہیت مسیح کے اعتقاد کا رد کیا ہے فرمایا : الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ ﴿۲:١٤٧ یہ تمہارے پروردگار کی طرف امر حق ہے۔ پس دیکھو! ایسا نہ ہو کہ تم شک کرنے والوں میں سے ہو جاؤ۔

الوہیت مسیح کا اعتقاد مسیحی کلیسا کا بنیادی اعتقاد بن گیا تھا اور اس قوت وسعت کے ساتھ دنیا میں اس کی منادی کی گئی تھی کہ اب اس کے خلاف کسی دعوت کا کامیاب ہونا تقریباً محال معلوم ہوتا تھا۔ خصوصاً ایسی حالت میں جب کہ اس دعوت کے پیچھے نوزائیدہ اور بے سر و سامان جماعت کے سوا کوئی طاقت و شوکت نظر نہ آتی ہو۔ فرمایا : "الحقُ من ربک" الوہیت مسیح کے باطل اعتقاد نے کتنی ہی عظمت و سعت حاصل کر لی ہو، لیکن عبدیت مسیح کی دعوت ایک امر حق ہے اور اس لئے جب کبھی "حق" اور "باطل" میں مقابلہ ہو گا، تو بقاء ثبات حق ہی کے لئے ہو گا، باطل کے لئے نہیں ہو گا۔ باطل کا تو خاصہ ہی یہی ہے کہ وہ مٹ جانے والی چیز ہوتی ہے۔ سردست یہ دعوت کتنی ہی کمزور معلوم ہوتی ہو، لیکن وہ وقت دور نہیں جب یہ اپنی فتح مندی کا علم بلند کر دے گی۔

اسی طرح "الحق" کے تمام مقامات استعمال پر غور کرنا چاہیے (ص ۷۲،۷۱) م

1) یہ فقرہ "مثلاً فطرت ۔۔۔ انتظار کیا جائے" پہلے ایڈیشن میں نہیں ہے۔ م

2) "ولینصرن اللہ ۔۔۔۔۔۔ لقوی عزیز" اس حصہ کا ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے۔ م

3) "قل" کا ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے۔ م

4) (کتاب البر و الصلۃ، باب فضل عیادۃ المریض۔م)

5) طبرانی و ابن جریر، سند صحیح۔

6) امام احمد نے مسند میں، ترمذی اور ابو داؤد نے صحیح میں اور حاکم نے مستدرک میں ابن عمر سے روایت کی ہے۔ وروینا مسلسلا من طریق الشیخ محمود شکری الا لوسی العراقی و ایضا عن والدی المرحوم عن الشیخ صدر الدین الدھلوی من



 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۲۸۹

طریق الشیخ احمد ولی اللہ رحمھم اللہ (ترمذی، ابواب البر و الصلۃ باب ماجاء تی رحمۃ المسلمین، میں یہ حدیث اس طرح ہے۔ الراحمون یرحمھم الرحمن، ارحموا من فی الارض یرحمکم من فی السماء الرحم شجنۃ من الرحمن فنمن س صلھا و صلہ اللہ ومن قطعھا قطعہ اللہ۔ م)

1) رواہ البخاری فی الادب المفرد [(باب رحمۃ البھائم (۱۷۶) حدیث (۳۸۱) والطبرانی عن ابی امامۃ و صححہ السیوطی فی الجامع الصغیر (المجلد الثانی (من رحم)]

2) "یعنی خدا نے آدم میں ۔۔۔۔۔ عالم زد" یہ عبارت پہلے ایڈیشن میں نہیں ہے۔ م

3) پہلے ایڈیشن سے اضافہ کیا گیا ہے، دوسرے ایڈیشن میں کاتب سے چھوٹ گیا تھا۔ م

4) شاید انسانی گمراہی کی بوالعجبیوں کی اس سے بہتر مثال نہیں مل سکتی کہ جس انجیل کی تعلیم کا یہ مطلب سمجھ لیا گیا تھا کہ وہ کسی حال میں بدلا لینے اور سزا دینے کی اجازت نہیں دیتی، اسی انجیل کے پیروؤں نے نوع انسانی کی تعذیب و ہلاکت کا عمل ایسی وحشت و بے رحمی کے ساتھ صدیوں تک جاری رکھا کہ آج ہم اس کا تصور بھی بغیر وحشت و ہراس کے نہیں کر سکتے اور پھر یہ جو کچھ کیا گیا انجیل اور اس کے مقدس معلم کے نام پر کیا گیا۔
5) پہلے ایڈیشن میں یہ فقرہ زیادہ ہے : سب کو جواب میں کہنا پڑا "وہ جسے زیادہ رقم معاف کر دی گئی" ص ۹۰۔ م
6) پہلے ایڈیشن (ص ۹۰) میں یہ آیت بھی ہے۔
وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ ﴿۳۴:١٣﴾ م
7) و ایضا عنانس قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والذی نفسی بیدہ لو اخطائم حتی تملا خطایاکم بین السماء والارض ثم استغرتم اللہ یغفرلکم۔ والذی نفسی بیدہ لو لم تخطوء الجاء اللہ بقوم یخطوءن ثم یستغفرون فیغفر لھم۔ اخرجہ احمد و ابو یعلی باسنادر جالہ ثقات۔ و عن ابن عمر مرفوعا : لو لم تذنبوا الخلق اللہ خلقا یذنبون ثم یغفر لھم۔ اخرجہ احمد و البزار و رجالہ ثقات۔ و اخرج البزار من حدیث ابی سعید نحو حدیث ابی ہریرۃ فی الصحیح، و فی اسنادہ یحیی بن بکیر و ھو ضعیف۔

8 ) پہلے ایڈیشن ص ۹۲ میں یہ فقرہ نہیں ہے۔
"پھر اس پہلو پر بھی نظر رکھے ۔۔۔۔۔ عفو و درگزر کی راہ اختیار کرتے ہیں"۔ م

9) پہلے ایڈیشن ص ۹۴ میں یہ جملہ بھی ہے :


 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۲۹۰

"سورہ انفال کے مقدمے میں ہم قرآن کے احکام جنگ پر نظر ڈالیں گے اور اس سلسلے میں مبحث کے اس پہلو پر بھی روشنی پڑ جائے گی۔" م

1) "سامی زبانوں کا ۔۔۔ مرتب کی تھی" یہ فقرہ پہلے ایدیشن میں نہیں ہے۔ م

2) اسی طرح لکھا ہے، لیکن ہونا یوں چاہیے : اصحاب دوزخ اور اصحاب جنت لاخ۔ م

3) (صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ و الاداب، باب تحریم الظلم۔ م)

4) پہلے ایڈیشن میں یہ فقرہ بھی ہے :
اگر یوں "مالک یوم الدین" کی جگہ کوئی ایسی صفت نمودار ہوتی جو صفات سلب و قہر پر دلالت کرتی تو ظاہر ہے کہ یہ حقیقت واضح نہ ہوتی اور خدا کا تصور قہر و غضب سے آلودہ ہو جاتا (ص ۹۹)۔ م
5) اَلا تطغوا فی الیمزان کا ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے۔ م
6) پہلے ایڈیشن میں یہ فقرہ بھی ہے :
یہی وجہ ہے کہ علم الاجتماع کے مفکرین خصوصیت کے ساتھ اس پہلو پر زور دیتے ہیں وہ کہتے ہیں کسی جماعت کی ذہنی اخلاقی رفتار ترقی معلوم کرنے کے لئے سب سے پہلے اس بات کا سراغ لگاؤ کہ اس نے اپنے خدا کو کس شکل و شباہت میں دیکھا تھا۔ اسی شکل و شباہت میں تمہیں کود اس جماعت کے ذہن و اخلاق کی صورت نظر آ جائے گی (ص ۱۰۳)۔ م
7) پہلے ایڈیشن میں یہ فقرہ اس طرح ہے :
ایسا معلوم ہوتا ہے گویا انسان کے مادی تصورات کی طرح اس کے خدا پرستانہ تصور میں بھی ایک طرح کے تدریجی ارتقاء کا سلسلہ جاری رہا اور بتدریج ادنی سے اعلٰی اور پستی سے بلندی کی طرف ترقی ہوتی رہی۔ بلا شبہ یہ مشکل ہے کہ ہم اس سلسلے کی سب سے ابتدائی کڑیاں متعین کر سکیں، کیونکہ جس قدر ماضی کی طرف بڑھتے ہیں تاریخ کی روشنی دھندلی پڑ جاتی ہے اور وحی و نبوت کی زبانیں بھی تفصیلات سے خاموش ہیں۔ تاہم اقوام و جماعت کے مختلف عہد ہمارے سامنے ہیں اور ان سے اس سلسلے کی مختلف کڑیاں بہم پہنچائی جا سکتی ہیں۔ اگر یہ تمام کڑیاں تاریخی ترتیب کے ساتھ یک جا کر دی جائیں تو صاف نظر آ جائے کہ اس سلسلے کی سب سے آخری اور اس لئے سب سے زیادہ یافتہ کڑی وہی ہے جو قرآن نے نوع انسانی کے سامنے پیش کی ہے۔
لیکن یاد رہے یہاں خدا کے تصور سے مقصود اس کی صفات کا تصور ہے، اس کی ہستی کا اعتقاد نہیں۔ (ص ۱۰۳، ۱۰۴)۔ م

 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۲۹۱
۶۰) دی اوریجن اینڈ گروتھ آف فیلیجن – ص ۸ – (The origin and growth of religion)
۶۱) ایضا – ص ۲۶۲
۶۲) "مردہ کی کتاب" قدیم مصری تصورات کا سب سے زیادہ مرتب اور منضبط نوشتہ ہے۔ مصریات کے مشہور محقق ڈاکر بیج (Budge) کی رائے میں یہ سب سے زیادہ قدیم فکری مواد ہے جو مصری آثار نے ہمارے حوالے کیا ہے۔ یہ خوب اتنی ہی پرانی ہے جتنا پرانا مصری تمدن ہے۔ لیکن جو تصورات اس میں جمع کئے گئے ہیں وہ مصری تمدن سے بھی زیادہ قدیم ہیں۔ وہ اتنے قدیم ہیں کہ ہم ان کی قدامت کی کوئی تاریخ معین نہیں کر سکتے۔ اس نوشتے میں اوسریز کے دو صفات ہمیں ملتے ہیں۔ معبود اعظم، الخیر، ازلی بادشاہ، آخرت کا مال۔
۶۳) پہلے ایڈیشن میں اس جملے کی جگہ حسب ذیل جملہ ہے :
بہرحال انسان کے تمام تصورات کی طرح صفات الہٰی کا تصور بھی اس کی ذہنی و معنوی ترقی کے ساتھ ساتھ ترقی کرتا رہا ہے۔ (ص ۱۰۵) – م
۶۴) "تجسم" سے مقصود یہ ہے کہ خدا کی نسبت ایسا تصور قائم کرنا کہ وہ مخلوق کی طرح جسم و صورت رکھتا ہے۔ "شبہ" سے مقصود یہ ہے کہ ایسی صفات تجویز کرنی جو مخلوقات کی صفات سے مشابہ ہوں۔ "تنزیہ" سے مقصود یہ ہے کہ ان تمام باتوں سے جو اسےمخلوقات سے مشابہ کرتی ہوں، اسے مبرا یقین کرنا۔ انگریزی میں تجسم کیلئے انتھروپومارفزم (Anthropomorphism) اور شبہ کے لئے ان تھروپوفیوازم (Anthropophuism) کی مصطلحات استعمال کرتے ہیں۔
۶۵) پہلے ایڈیشن میں یہ جملہ بھی ہے :
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کے بچے ہوں یا حیوان کے ڈرتے زیادہ ہیں اور انس دیر میں پکڑتے ہیں۔ پہلا اثر جو وہ قبول کریں گے خوف کا ہو گا۔ انس و محبت کا نہ ہو گا۔ (ص ۱۰۶) – م
۶۶) پہلے ایڈیشن میں اسلام سے پہلے کے صرف چار دینی تصورات کا ذکر ہے۔ یعنی اس میں چینی تصور مذکور نہیں ہے۔
اس کے علاوہ چار دینی تصورات کا ذکر بھی مخٰتصر ہے اور اس کا انداز بیان کچھ بدلا ہوا ہے جو ص ۱۰۷ سے ۱۲۱ تک پھیلا ہوا ہے اور درج ذیل ہے۔
ہندوستان تصور میں سب پہلے اپنشدوں کا فلسفہ الہٰی نمایاں ہوتا ہے۔ اپ شدوں کے مطالب کی نوعیت کے بارے میں زمانہ حال کے شارحوں اور نقادوں کی آرائیں متفق

 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۲۹۲
نہیں ہیں۔ (اپنشدوں کے متعلق ہماری جس قدر بھی معلومات ہیں تمام مستشرقین یورپ کی تحقیقات سے ماخوذ ہیں۔ مسٹر گف (Gough) کی رائے میں اپنشند روحانیت سے خالی ہیں لیکن پال ڈیوسن (Paul Deussen) میکس ملر (Max-Muller) اور نائٹ (Knight) انہیں روحانیت کی سرچشمہ کہتے ہیں۔ مشہور جرمن حکیم شوپن ہار (Schopenhauer) تو اس درجہ معترف ہوا کہ اس کا یہ جملہ مشہور ہو گیا ہے : "اپندشد زندگی بھر میری تشفی کرتے رہے اور دم آخر بھی مجھے انہیں سے تشفی ملے گی۔"
تمام ایک بات بالکل واضح ہے یعنی اپنشد مسئلہ وحدۃ الوجود کا سب سے قدیم سرچشمہ ہیں۔ اور گیتا کا زمانہ تصنیف کچھ ہی کیوں نہ ہو، لیکن وہ بھی اپنشد ہی کی صداؤں کی بازگشت ہے۔ مسئلہ وحدۃ الوجود خدا کی ہستی و صفات کا جو تصور پیدا کرتا ہے اس کی نوعیت کچھ عجیب طرح کی داع ہوئی ہے۔ ایک طرف تو وہ ہر وجود کو خدا قرار دیتا ہے، کیونکہ وجود حقیقی کے علاوہ اور کوئی وجود موجود ہی نہیں۔ دوسری طرف خدا کے لئے کوئی محدود اور مقید تخیل بھی قائم نہیں کرتا۔ بحر حال جو کچھ بھی ہو یہ تصور اپنی نوعیت میں اس درجہ فلسفیانہ قسم کا تھا کہ کسی عہد اور ملک میں بھی عامۃ الناس کا عقیدہ نہ بن سکا۔ کود ہندوستان میں بھی اس کی حیثیت فلسفہ الہیات کے ایک مذہب (اسکول) سے زیادہ نہیں رہی۔ بہترین تعبیر جو اس صورت حال کی کی گئی ہے یہ کہ عوام کے لئے اصنام پرستی قرار دی گئی تھی اور خواص کے لئے وحدہ الوجود کا اعتقاد تھا۔ اپنشدوں کے بعد بدھ مذہب کی تعلیم نمایاں ہوتی ہے اور ظہور قرآن کے وقت ہندوستان کا عام مذہب یہی تھا۔ بدھ مذہب کی بھی مختلف تفسیریں کی گئی ہیں۔ مستشرقین کا ایک گروہ اسے اپنشدوں کی تعلیم ہی کی ایک عملی شکل قرار دیتا ہے اور کہتا ہے "نروان" میں جذب و انفصال کا عقیدہ پوشیدہ ہے، یعنی سرچشمہ الوہیت سے ہستی انسانی نکلی ہے پھر اسی میں داخل ہو جانا "نروان" ہے۔ لیکن دوسرا اگر وھاس سے انکار کرتا ہے۔ اس گروہ کی رائے میں بدمذہب خدا کی ہستی کا کوئی تصور ہی نہیں رکھتا۔ وہ دنیا کا تنہا مذہب ہے۔ جس نے فلسفیانہ عقائد کو مذہب کا جامہ پہنا دیا۔ وہ صرف "پراکرتی" یعنی مادہ ازلی کا ذکر کرتا ہے جسے طبیعت اور نفس حرکت میں لاتے ہیں۔ "نروان" سے مقصود یہ ہے کہ ہستی کی انانیت فنا ہو جائے اور زندگی کے عذاب سے چھٹکارا مل جائے۔ ہم جب ان تصریحات کا مطالبہ کرتے ہیں جو براہ راست گوتم بدھ کی طرف منسوب ہیں تو ہمیں دوسری تفسیر ہی زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے۔
جہاں تک فطرت کائنات کی صفات کا تعلق ہے، گوتم بدھ دنیا میں دردو اذیت کے سوا کچھ نہیں دیکھتا۔ زندگی اس کے نزدیک سرتاسر عذاب ہے۔ وہ کہتا ہے زندگی کی بڑی اذیتیں چار ہیں۔ پیدائش، بڑھاپا، بیماری، موت۔ اور نجات کی راہ "اشٹانگ مارگ" ہے یعنی آٹھ

 
Top