ام الکتاب (مولانا ابولکلام آزاد)

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۲۹۳
راہوں کا سفر۔ ان آٹھ عملوں سے مقصود علم صحیح، رحم و شفقت، قربانی، ہوا و ہوس سے آزادی اور انانیت فنا کر دینا ہے۔ (ڈیوؤش ارلی بدھ ازم (David’s Early Buddhism)۔
یہودیوں کا تصور تجسیم اور تنزہ کے بین بین تھا اور صفات الہٰی میں غالب عنصر قہر و غضب کا تھا۔ خدا کا گاہ گاہ متشکل ہو کر نمودار ہونا، مخاطبات الہٰیہ کا سر تا سر انسانی صفات و جذبات پر مبنی ہونا، قہر و انتقام کی شدت اور ادنی درجے کا تمثیلی اسلوب تورات کے صفحات کا عام تصور ہے۔ مسیحی تصور رحم و محبت کا پیام تھا اور خدا کے لئے باپ کی محبت و شفقت اک تصور پیدا کرنا چاہتا تھا تجسیم و تنزہ کے لحاظ سے اس نے کوئی قدم آگے نہیں بڑھایا۔ گویا اس کی سطح وہیں تک رہی جہاں تک تورات کا تصور پہنچ چکا تھا۔ لیکن حضرت مسیح کے بعد جب مسیحی عقائد کا رومی اصنام پرستی کے تخیلات سے امتزاج ہوا تو اقالیم ثلاثہ، کفارہ اور مریم پرستی کے عقائد پیدا ہو گئے۔ نزول قرآن کے وقت بحثییت مجموعی مسیحی تصور ترحم و محبت کے ساتھ کفارہ، تجسیم اور مریم پرستی کا مخلوط تصور تھا۔
ان تصورات کے علاوہ ایک تصور فلاسفہ یونان کا بھی ہے جو اگرچہ مذاہب کے تصورات کی طرح قوموں کا تصور نہ ہو سکا تاہم اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ تقریباً پانچ سو برس قبل از مسیح یونان میں توحید و تنزیہ کا اعتقاد نشو پانے لگا تھا۔ اس کی سب سے بڑی معلم شخصیت سقراط کی حکمت میں نمایاں ہوئی۔ سقراط کے تصور الہٰی کا جب ہم سراغ لگاتے ہیں تو افلاطون کی شہرہ آفاق کتاب جمہوریت (Republic) میں حسب ذیل مکالمہ ملتا ہے۔
افلاطون کی جمہوریت مکالمہ کے پیرایہ میں ہے۔ مکالمہ یوں شروع ہوتا ہے کہا یک عید کے موقع پر سقراط اور گلوکن (Glaucon) سیفالس (Cephalus) کےمکان میں جمع ہوئے۔ سیفالس کا لڑکا پولی مارکس (Polemarchus) اڈمنٹن (Adeimantus) اورنسیر (Niceratus) بھی موجود تھے۔ اثنائے گفتگو میں سوال پیدا ہو گیا کہ عدالت کی حقیقت کیا ہے۔ اس پر پولی مارکس اور بعض حاضرین نے یکے بعد دیگرے عدالت کی تعریف بیان کی لیکن سقراط انہیں رد کرتا رہا۔ پھر عدالت میں سے بات نکلتے ہوئے حکومت و قوانین کی نوعیت تک پہنچ گئی اور یہی کتاب کا اصلی موضوع ہے۔ پوری کتاب دس ابواب میں منقسم ہے۔
اشخاص مکالمے میں گلوکن اور اڈمنٹس افلاطون کے بھائی ہیں۔ گلوکن کا ذکر خود افلاطون نے اپنے مقالات میں کیا ہے۔ خلفائے عباسیہ کے عہد کہ "میں نے ارسطو کی کتاب السیاستہ کی شرح لکھنی چاہی تھی، لیکن اندس میں اس کا کوئی نسخہ نہیں ملا، مجبوراً افلاطون کی کتاب شرح کے لیے منتخب کرتا ہوں" ابو نصر فارابی نے گو تصریح نہیں کی ہے، لیکن یہ ظاہر ہے کہ "المدینۃ الفاصلۃ" کا تخیل اسے افلاطون کی جمہوریت ہی سے ہوا تھا۔ ابن رشد کی رح کے عبرانی اور لاطینی تراجم یورپ کے کتب خانوں میں موجود ہیں، لیکن اصل عربی ناپد ہے یورپ کی زبانوں کے موجودہ تراجم براہ راست یونانی سے ہوئے ہیں ہمارے پیش نظر اے۔ ای۔ ٹیلر (A. E. Taylor) کا انگریزی ترجمہ ہے۔
یاد رہے کہ "ری پبلک" کے لیے "جمہوریہ" کا لفظ موجودہ عہد کی اصطلاح نہیں ہے، بلکہ اسی عہد کے مترجمین کے اختیارات میں سے ہیں۔

 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۲۹۴
اڈمنٹس نے سوال کیا کہ شعراء کو الوہیت کا ذکر کرتے ہوئے کیا پیرایہ بیان اختیار کرنا چاہیے۔
سقراط : ہرحال میں خدا کی ایسی توصیف کرنی چاہیے جیسی کہ وہ انی ذات میں ہے، کواہ قصصی شعر ہو، خواہ غنائی۔ علاوہ بریں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا کی ذات صالح ہے، پس ضروری ہے اس کی صفات بھی صلاح و حق پر مبنی ہوں۔
اڈمنٹس : یہ درست ہے۔
سقراط : اور یہ بھی ظاہر ہے کہ وجود صالح ہو گا، اس سے کوئی بات مضر صادر نہیںہو سکتی اور جو ہست غیر مضر ہو گی وہ کبھی شر کی صانع نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح یہ بات بھی ظاہر ہے کہ جو ذات صالح ہو گی ضروری ہے کہ نافع بھی ہو۔ پس معلوم ہوا کہ خدا صرف خیر کی علت ہے، شکر کی علت نہیں ہو سکتا۔
اڈمنٹس : درست ہے۔
سقراط : اور یہیں سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ خدا کا تمام حوادث و افعال کی علت ہونا ممکن نہیں جیا کہ عام طور پر مشہور ہے۔ بلکہ وہ انسانی حالات کے بہت ہی تھوڑے حصے کی علت ہے، کیونکہ ہم دیکھتے ہیں ہماری برائیاں بھلائیوں سے کہیں زیادہ ہیں اور برائیوں کی علت خدا کی صالح و نافع ہستی نہیں ہو سکتی پس چاہیے کہ صرف اچھائی ہی کو اس طرف نسبت دیں اور برائی کی علت کسی دوسری جگہ ڈھونڈیں۔
اڈمنٹس : میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ امر بالکل واضح ہے۔
سقراط : تو اب ضروری ہوا کہ ہم شعراء کے ایسے خیالات سے متفق نہ ہوں جیسے خیالات ھومر (Homer) کے حسب ذیل اشعار ظاہر کئے گئے ہیں۔ "مشتری (Jupiter) یونان کے اصنامی عقائد میں رب الارباب یعنی سب سے بڑا دیوتا تھا۔ ھومر نیایلیڈ میں دیوتاؤں کی جو مجلس آراستہ کی ہے اس میں تخت نشین ہستی مشتری ہی کی ہے۔ اس کی بیوی (Juno) ہوا می ممثلہ اور ازدواج کی دیبی تھی۔ اپالو (Apollo) روشنی کا دیوتا تھا۔ ایتھنا یا منروا (Minerva) حکمت کی دیبی تھی۔ مریخ (Mars) جنگ کا دیوتا تھا۔ زہرہ (Venus) حسن و گرام کی دیبی تھی۔ ھیڈس (Hades) تاریخی اور موت کا دیوتا تھا اور جہنم کا پاسبان یقین کیا جاتا تھا۔ عطارد یا ہرمیس (Hermes) کی نسبت ان کا خیال تھا کہ دیوتاؤں کا پیغام بر ہے۔)
کی ڈیوڑھی میں دو پیالے رکھے ہیں ایک خیر کا ہے ایک شر کا۔ اور وہی انسان کی بھلائی اور برائی کی تمام تر علت ہیں۔ جس انسان کے حصے میں پیالہ خیرک شراب آ گئی اس کیلئے تمام تر خیر ہے، جس کے حصے میں شرکا گھونٹ آ گیا، اس کے لئے تمام تر شر ہے۔ اور پھر جس کسی کو دونوں
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۲۹۵
پیالوں کا ملا جلا گھونٹ مل گیا اس کے حصے میں اچھائی بھی آ گئی برائی بھی آ گئی۔ (۵)
پھر آگے چل کر تجسیم کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اور اس سے انکار کیا ہے کہ خدا ایک بازی گر اور بھروپیے کی طرح کبھی ایک بھیس میں نمودار ہوتا ہے، کبھی دوسرے بھیس میں۔ (۶)
حکماء یونان کے تصور الہٰی کی یہ سب سے بہتر شبیہ ہے جو افلاطون کے قلم سے نکلی ہے۔ یہ خدا کے تشکل سے انکار کرتی ہے اور صفات ردیہ و خسیسیہ سے بھی ایک منزہ تخیل پیش کرتی ہے۔ لیکن بحیثیت مجموعی صفات حسنہ کا کوئی ارفع و اعلٰی تصور نہیں رکھی۔ اور خیر و شر کی گتھی سلجھانے سے یک قلم عاجز ہے۔ اسے مجبوراً یہ اعتقاد پیدا کرنا پڑا کہ حوادث عالم اور افعال انسانی کا غالب حصہ خدا کے دائرہ تصرف سے باہر ہے، کیونکہ دنیا میں غلبہ شر کو ہے نہ کہ خیر کو اور خدا کو شر کا صانع نہیں ہونا چاہیے۔
بہرحال چھٹی صدی مسیحی میں دنیا کی خدا پرستانہ زندگی کے تصورات اس حد تک پہنچے تھے کہ قرآن کا نزول ہوا۔
اب غور کرو کہ قرآن کے تصور الہٰی کا کیا حال ہے۔ جب ہم ان تصورات کے مطالعے کے بعد قرآن کے تصور پر نظر ڈالتے ہین تو صاف نظر آ جاتا ہے کہ تصور الہٰی کے تمام عناصر میں اس کی جگہ سب سے الگ اور سب سے بلند ہے۔ اس سلسلے میں حسبِ ذیل امور قابل غور ہیں۔
اولاً، تجسیم اور تنزیہ کے لحاظ سے قرآن کا تصور تنزیہ کی ایسی تکمیل ہے جس کی کوئی نمود اس وقت دنیا میں موجود نہیں تھی۔ قرآن سے پہلے تنزیہ کا بڑے سے بڑا مرتبہ جس کا ذہن انسانی متحمل ہو سکا تھا، یہ تھا کہ اصنام پرستی کی جگہ ایک ان دیکھے خدا کی پرستش کی جائے، لیکن
------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
(۵) (یہ اشعار ایلیڈ (Illiad) کے ہیں۔ سلیمان بستانی نے اپنے عدیم النظیر ترجمہ عربی میں ان کا ترجمہ حسب ذیل کیا ہے :
فباعناب زفی قارودتان
دی لخیر و ذی لثر الھوان
فیھما کل قسمۃ الانسان
فالذی معھما مزیجا الالا
زفس یلقی، خیر او یلقی و بالا
والذی لا ینال من الثر
فنعابہ الخطوب التیابا
بطواہ یطوی البالد کلیلا
تائھا فی عرض الفلاۃ ذلیلا
من بنی الخل و الوری مخذولا
(الیاذہ نشید ۲۴ ص ۱۳۱)
(ان اشعار میں "زفس" سے مقصود مشتری ہے۔)
(۶) دی ری پبلک، ترجمہ تیلر، باب دوم

 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۲۹۶
جہاں تک صفات الہٰی کا تعلق ہے انسانی اوصاف و جذبات کی مشابہت اور جسم و ہیئت کے تمثل سےکوئی تصور بھی خالی نہ تھا۔ یہودی تصور جس نے اصنام پرستی کی کوئی شکل بھی جائز نہیں رکھی تھی، اس کے شبہ و تمثیل سے یک سر آلودہ ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خدا کر ممرے کے بلوطوں میں دیکھنا، خدا کا حضرت یعقوب سے کشتی لڑنا، مصر سے خروج کے وقت بدلی اور آگ کا ستون بن کر رہنمائی کرنا، کوہ طور پر شعلوں کے اندر نمودار ہونا، حضرت موسیٰ کا خدا کو پیچھے سے دیکھا، خدا کا جوش غضب میں آ کر کوئی کام کر بیٹھنا اور پھر پچھتانا، بنی اسرائیل کو اپنی چہیتی بیوی بنا لینا اور پھر اس کی بدچلنی پر ماتم کرنا، ھیکل کی تباہی پر اسکا نوحہ، اس کی انتڑیوں میں درد کا اٹھنا اور کلیجے میں سوراخ پڑ جانا تورات کا عام اسلوب بیان ہے۔
اصل یہ ہے کہ قرآن سے پہلے فکر انسانی اس درجہ بلند نہیں ہوا تھا کہ تمثیل کا پردہ ہٹا کر صفات الہٰی کا جلوہ دیکھ لیتا۔ اس لئے ہر تصور کی بنیاد تمام تر تمثیلی و تشبیہ ہی پر رکھنی پڑی۔
مثلاً تورات میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف زبور کے ترانون اور امثال سلیمان میں خدا کے لئے شائستہ صفات کا تخیل موجود ہے، لیکن دوسری طرف خدا کا کوئی مخاطبہ ایسا نہیں جو سر تا سر انسانی اوصاف و جذبہ کی شبیہ سے مملو نہ ہو۔ حضرت مسیح نے جب چاہا کہ رحمت الہٰی کا عالم گیر تصور پیدا کریں تو وہ بھی مجبور ہوئے کہ خدا کے لئے باپ کی تشبیہ سے کام لیں اسی تشبیہ سے ظاہر پرستوں نے ٹھوکر کھائی اور ابنیت مسیح کا عقیدہ پیدا کر لیا۔
لیکن ان تمام تصورات کے بعد جب ہم قرآن کی طرف طرخ کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے گویا اچانک فکر و تصور کی ایک بالک نئی دنیا سامنے آ گئی۔ یہاں تمثیل و تشبیہ کے تمام پردے بیک دفعہ اٹھ جاتے ہیں، انسانی اوصاف و جذبات کی مشابہت مفقود ہو جاتی ہے۔ ہر گوشے میں مجاز کی جگہ حقیقت کا جلوہ نمایاں ہو جاتا ہے اور تجسیم کا شائبہ تک باقی نہیں رہتا۔ تنزیہ اس مرتبہ کمال تک پہنچ جاتی ہے کہ :
ۚ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ﴿۴۲:١١اس کے مثل کوئی شے نہیں، کسی چیز سے بھی تم اسے مشابہ نہیں ٹھہرا سکے۔
لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ۖ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ ﴿۶:١٠٣
انسان کی نگاہیں اسے نہیں پا سکتیں، لیکن وہ انسان کو دیکھ رہا ہے، وہ بڑا ہی باریک بین اور آگاہ ہے۔
اللہ کی ذات یگانہ ہے، بے نیاز ہے، اسے کسی کی احتیاج نہیں، نہ تو اس سے کوئی پیدا ہوا، نہ وہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ کوئی ہستی اس کے درجے اور برابری کی ہے۔
یہی سجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کا اسلوب بیان اس تمثیلی اسلوب سے بالکل مختلف ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۲۹۷
جو تورات و انجیل و غیرھا میں پایا جاتا ہے۔ وہ ہر موقع پر تمثیل و مجاز کی جگہ حقیقت کا تصور پیدا کرنا چاہتا ہے اور تشبیہ کی جگہ تنزیہ کے اعتقاد پر زور دیتا ہے وہ نہ تو خدا کی ہستی کو مادے کی طرح اجسام و اشکال کی اصل قرار دیتا ہے، نہ تو رات کی طرح شوہر کی تشبیہ اختیار کرتا ہے، نہ انجیل کی طرح باپ کے رشتے سے مشابہت پیدا کرتا ہے۔ بلکہ براہ راست ایک خالق اور مالک ہستی کا نور پیدا کرتا ہے اور پھر اس کی ربوبیت و رحمت و صفات کاملہ و حسنہ کا ایک مکمل نقشہ کھینچ دیتا ہے۔ یہ گویا اس تعلیم کا سب سے اعلیٰ سبق تھا۔ پچھلے دوروں میں نوع انسانی کی ذہنی استعداد اس درجہ شائستہ نہیں ہوئی تھی کہ تمثیلوں کے بغیر حقیقت کا تصور پیدا کر سکتی، لامحالہ پیرایہ تعلیم بھی تمام تر تشبیہ و مجاز پر مبنی ہوتا تھا۔ لیکن جب تعلیم اپنے درجہ کمال تک پہنچ گئی تو تمثیلوں کی ضرورت باقی نہ رہی۔ ضروری ہو گیا کہ اب حقیقت براہ راست اپنا جلوہ دکھلا دے! تورات اور قرآن کے جو مقامات مشترک ہیں وقت نظر کے ساتھ ان کا مطالعہ کرو، تورات میں جہاں کہیں خدا کی براہ راست نمود کا ذکر کیا گیا ہے قرآن وہاں خدا کی تجلی کا ذکر کرتا ہے۔ تورات میں جہاں یہ پاؤ گے کہ خدا متشکل ہو کر اترا، قرآن اس موقع کی یوں تعبیر کرے گا کہ خدا کا فرشتہ متشکل ہو کر نمودار ہوا۔ بطور مثال کے صرف اک مقام پر نظر ڈالی جائے۔ تورات میں ہے :
خداوند نے کہا : اے موسیٰ! دیکھ یہ جگہ میرے پاس ہے، تو اس چٹان پر کھڑا رہ اور یوں ہو گا کہ جب میرے جلال کا گزر ہو گا تو میں تجھے اس چٹان کی دراڑ میں رکھوں گا اور جب تک نہ گزر لوں گا، تجھے اپنی ہتھیلی سے ڈھانپے رہوں گا۔ پھر ایسا ہو گا کہ میں ہتھیلی اٹھا لوں گا اور تو میرا پیچھا دیکھ لے گا، لیکن تو میرا چہرہ نہیں دیکھ سکتا۔ (خروج ۲۰:۳۳)
تب خداوند بدلی کے ستون میں ہو کر اترا اور خیمے کے دروازے پر کھڑا رہا ۔۔۔ اس نے کہا : "میرا بندہ موسیٰ اپنے خداوند کی شبیہ دیکھے گا" (گتنی ۵:۱۲) اس معاملے کی تعلیم قرآن نے یوں کی ہے۔
قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنظُرْ إِلَيْكَ ۚ قَالَ لَن تَرَانِي وَلَ۔ٰكِنِ انظُرْ إِلَى الْجَبَلِ ﴿۷:١٤٣
موسیٰ نے کہا: اے پروردگار! مجھے اپنا جلوہ دکھا تاکہ میں تیری طرف نگاہ کر سکوں فرمایا: نہیں، تو کبھی نہیں دیکھے گا۔ لیکن ہاں! اس پہاڑ کی طرف دیکھ۔
البتہ یاد رہے کہ تنزیہ اور التعطیل میں فرق ہے۔ تنزیہ سے مقصود یہ ہے کہ جہاں تک عقل بشری کی پینچ ہے صفات الہٰی کو مخلوقات کی مشابہت سے پاک اور بلند رکھا جائے۔ تعطیل کے معنی یہ ہیں کہ تنزیہ کے منع و نفی کو اس حد تک پہنچا دیا جائے کہ فکر انسانی کے تصور کے لئے کوئی بات باقی ہی نہ رہے۔ قرآن کا تصور تنزیہ کی تکمیل ہے، تعطیل کی ابتدا نہیں ہیں۔

 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۲۹۸
اگر خدا کے تصور کے لیے صفات و اعمال کی کوئی ایسی صورت باقی ہی نہ رہے جس کا فکر انسانی ادراک کر سکتی ہے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ تنزیہ کے معنی نفی وجود کے ہو جائیں گے۔ مثلاً اگر کہا جائے کہ خدا کے لئے کوئی صفت نہیں قرار دی جا سکتی، اس لئے کہ جو صفت بھی قرار دی جائے گی۔ اس میں مخلوقات کے اوصاف سے مشابہت پیدا ہو جائے گی تو ظاہر ہے کہ عقل انسانی کسی ایسی ذات کا تصور ہی نہیں کر سکتی، یا مثلاً اگر نفی مماثلت میں اس درجہ غلو کیا جائے کہ خدا کی ہستی اثبات کی جگہ سر تا سر نفی ہو جائے تو عقل انسانی کے لئے بجز اس کے کیا رہ جائے گا کہ وجود کی جگہ عدم کا تصور کرے۔ پس قرآن نے تنزیہ کا جو مرتبہ قرار دیا ہے وہ یہ ہے کہ فرداً فرداً تمام صفات و افعال کا اثبات کرتا ہے، مگر ساتھ ہی اصلاً مماثلت کی نفی بھی کر دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے: خدا خوبی و جمال کی تمام صفتوں سے متصف ہے۔ وہ زندہ ہے، قادر ہے، پرورش کندہ ہے، رحیم ہے، سننے والا ہے، دیکھنے والا ہے، سب کچھ جاننے والا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ انسان کی بول چال میں قدرت و اختیار اور ارادہ و فعل کی جتنی شائستہ تعبیرات ہیں انہیں بھی بلا تامل استعمال کرتا ہے۔ مثلاً کہتا ہے : خدا کے ہاتھ کشادہ ہیں " بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ ﴿۵:٦٤ اس کے تخت حکومت کے تصرف سے کوئی گوشہ باہر نہیں "وسع كرسيه السماوات والارض" (۲:۲۵۵) وہ اپنے عرش جلال پر متمکن ہے۔
الرَّحْمَ۔ٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ ﴿۲۰:٥
لیکن ساتھ ہی یہ واضح کر دیتا ہے کہ جتنی چیزیں کائنات ہستی میں موجود ہیں یا جتنی چیزوں کا بھی تم تصور کر سکتے ہو ان میں سے کوئی چیز نہیں جو اس کے مثل ہو "لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ﴿۴۲:١١
تمہاری نگاہ اسے پا ہی نہیں سکتی "لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ" ﴿۶:١٠٣
پس ظاہر ہے کہ اس کا زندہ ہونا ہمارے زندہ ہونے کی طرح نہیں ہو سکتا، اس کی ربوبیت ہماری ربوبیت کی سی نہیں ہو سکتی، اس کا جاننا، دیکھنا سننا ویسا نہیں ہو سکتا جیسا ہمارا جاننا، دیکھنا اور سننا ہے۔ اس کی قدرت و بخشش کا ہاتھ اور کبریائی و جلال کا عرش ضرور ہے، لیکن یقیناً ان کا مطلب وہ نہیں ہو سکتا جو ان الفاظ سے ہمارے ذہن میں متشکل ہو جاتا ہے۔
اسلام فرقوں میں سے جہمیہ اور باطنیہ نے جو صفات کی نفی کی تھی تو وہ اسی غلطی کے مرتکب ہوئے تھے۔ وہ تنزیہ اور تعطیل میں فرق نہ کر سکے۔ (۷)
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
(۷) مسئلہ صفات میں محدثین و سلفیہ کا متکلمین سے اختلاف بھی دراصل اسی اصل پر مبنی تھا یہ بات نہ تھی کہ وہ تجسیم کی طرف مائل تھے جیسا کہ ان کے متعصب مخالفوں نے مشہور کیا۔ متاخرین میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس مسئلے پر نہایت دقت نظر کے ساتھ بحث کی ہے۔ ان کے شاگرد امام اب قیم کی "اجتماع جیوش اسلامیہ" بھی اسی موضوع پر ہے اور اس باب میں کفایت کرتی ہے۔)
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۲۹۹
ثانیا، تنزیہ کی طرح صفات رحمت و جمال کے لحاظ سے بھی قرآن کے تصور پر نظر ڈالی جائے تو اس کی شان تکمیل نمایاں ہے۔ نزول قرآن کے وقت یہودی تصور میں قہر و غضب کا عنصر غالب تھا۔ مجوسی تصور نے نور و ظلمت کی دو مساویانہ قوتیں الگ الگ بنا لی تھیں۔ مسیحی تصور نے رحم و محبت پر زور دیا، عدالت پر اس کی نظر نہیں پڑی۔ گویا جہاں تک رحمت و جمال کا تعلق ہے یا قہر و غصب کا عنصر غالب تھا یا مساوی تھا، یا پھر رحمت و محبت آئی تھی تو اس طرح آئی تھی کہ عدالت کےلیے کوئی جگہ باقی نہیں رہتی ہے۔
لیکن قرآن نے ایک طرف تو رحمت و جمال کا ایسا کامل تصور پیدا کر دیا کہ قہر و غضب کے لیے کوئی جگہ نہ رہی، دوسری طرف جزا اور سزا کا سرشتہ بھی ہاتھ سے نہیں دیا۔ کیونکہ جزا اور سزا کا اعتقاد قہر و غضب کی بنا پر نہیں، بلکہ عدالت کی بنا پر قائم کر دیا۔ چنانچہ صفات الہٰی کے بارے میں اس کا عام اعلان یہ ہے :
قُلِ ادْعُوا اللَّ۔هَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَ۔ٰنَ ۖ أَيًّا مَّا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚ﴿۱۷:١١٠
اے پیغمبر! ان سے کہہ دو تم خدا کو اللہ کے نام سے پکارو یا رحمٰن کہہ کر پکارو، جس صفت سے بھی پکارو اس کی ساری صفتیں حسن و خوبی کی صفتیں ہیں۔
یعنی خدا کی تمام صفتوں کا "اسماء حسنی" قرار دیتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ خدا کی کوئی صفت نہیں جو حسن و خوبی کی صفت نہ ہو۔ یہ صفتیں کیا کیا ہیں؟ قرآن نے پوری وسعت کے ساتھ انہیں جابجا بیان کیا ہے۔ ان میں ایسی صفتیں بھی ہیں جو قہر و جلال کی صفتیں ہیں، مثلا جبار، قہار، لیکن قرآن کہتا ہے وہ بھی "اسماء حسنی" ہیں۔ کیونکہ ان میں عدالت الہٰی کا ظہرو ہے اور عدالت حسن و خوب ہے، خاں خواری و خوفنا کی نہیں ہے۔ چنانچہ سورۃ حشر میں صفات رحمت و جلال کے ساتھ قہر و جلال کا بھی ذکر کیا ہے اور پھر متصلا سب کو "اسماء حسنی" قرار دیا ہے :
هُوَ اللَّ۔هُ الَّذِي لَا إِلَ۔ٰهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ ۚ سُبْحَانَ اللَّ۔هِ عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴿۵۹:٢٣ هُوَ اللَّ۔هُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ ۖ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚ يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿۵۹:٢٤
ترجمہ : وہ اللہ ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ املک ہے، اقدوس ہے، السلام ہے، المومن ہے، المہیمن ہے، العزیز ہے، الجبار ہے، امتکبر ہے اور اس ساجھے سے پاک ہے جو لوگوں نے اس کی معبودیت میں بنا رکھے ہیں وہ الخالق ہے، الباری ہے، المصور ہے (غرض کہ) اس کے لئے حسن و خوبی کی صفتیں ہیں۔ آسمان و زمین میں جتنی بھی مخلوقات

 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۳۰۰
ہیں سب اس کی پاکی اور عظمت کی شہادت دے رہی ہیں اور بلاشبہ وہی ہے جو حکمت ساتھ غلبہ و توانائی بھی رکھنے والا ہے۔
اسی طرح سورہ اعراف میں ہے :
* وَلِلَّ۔هِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا ۖ وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ ۚ﴿۷:١٨٠
اور اللہ کےلئے حسن و خوبی کی صفتیں ہیں سو چاہیے کہ ان صفتوں سے اسے پکارو۔ اور جن لوگوں کا شیوہ یہ ہے کہ اس کی صفتوں میں کج اندیشیاں کرتے ہیں سو انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو۔ چنانچہ اسی لئے سورہ فاتحہ میں صرف تین نمایاں ہوئیں : ربوبیت، رحمت اور عدالت، اور قہر و غضب کی کسی صفت کو یہاں جگہ نہیں دی گئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کا تصور الہٰی سر تا سر رحمت و جمال کا تصور ہے۔ قہر و خوف ناکی کی اس میں کوئی گنجائش نہیں۔
ثالثاً، جہاں تک توحید و اشراک کا تعلق ہے قرآن کا تصور اس درجہ کامل اور بے لچک ہے کہ اس کی کوئی نظیر پچھلے تصورات میں نہیں مل سکتی۔
اگر خدا اپنی ذات میں یگانہ ہے تو ضروری ہے کہ وہ اپنی صفات میں بھی یگانہ ہو، کیونکہ اس کی یگانگت کی عظمت قائم نہیں رہ سکتی اگر دوسری ہستی اس کے صفات میں شریک و سہیم مان لی جائے۔ قرآن سے پہلے توحید کے ایجابی پہلو پر تو تمام مذاہب نے زور دیا تھا، لیکن سلبی پہلو نمایاں نہ ہو سکا تھا۔ ایجابی پہلو یہ ہے خدا ایک ہے، سلبی یہ ہے کہ اس کی طرح کوئی نہیں اور جب اس کی طرح کوئی نہیں تو ضروری ہے کہ جو صفتیں اس کے لئے ٹھہرا دی گئی ہیں ان میں کوئی دوسری ہستی شریک نہ ہو۔ پہلی بات توحید فی الذات سے دوسری توحید فی الصفات سے تعبیر کی گئی ہے۔ قرآن سے پہلے فکر انسانی کی استعداد اس درجہ بلند نہیں ہوئی تھی کہ توحید فی الصفات کی نزاکتوں اور بندشوں کی متحمل ہو سکتیہ اس لئے مذاہب نے تمام تر زور توحید فی الذات ہی پر دیا، توحید فی الصفات اپنی ابتدائی اور سادہ حالت میں چھوڑ دی گئی۔
------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
* اس آیت میں "الحاد فی الاسماء" سے مقصود کیا ہے؟؟ "الحاد" لحد سے ہے، "لحد" کے معنی "میلان عن الوسط" کے ہیں یعنی درمیان سے کسی ایک طرف کو ہٹا ہوا ہونا۔ ایسی قبر کو جس میں نعش کی جگہ ایک طرف کو ہٹی ہوئی ہوتی ہے لحد کہتے ہیں۔ جب یہ لفظ انسانی افعال کے لیے بولا جاتا ہے تو اس کے معنی راہ حق سے ہٹ جانے کے ہوتے ہیں۔ کیونکہ "وسط" حق ہے اور جو اس سے منحرف ہو باطل ہے۔ الحد فلان ای مال عن الحق پس یہاں الحاد فی الاسماء کا مطلب یہ ہوا کہ خدا کی صفات کے بارے میں جو راہ حق ہے اس سے منحرف ہو جانا۔ امام راغب اصفحانی نے اس کی تشریح حسب ذیل لفظوں میں کی ہے: "ان یوصف بما لا یصح و صفہ بہ او ان یتاول او صافہ عل مالا یلیق بہ" (مفردات ۔ ص ۶۴۶)
یعنی خدا کے لیے کوئی ایسا وصف قرار دینا جو اس کا وصف نہیں ہونا چاہیے یا اس کی صفتوں کا ایسا مطلب ٹھہرانا جو اس کی شان کے لائق نہیں۔)
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۳۰۱
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں باوجودیکہ تمام مذاہب قبل از قرآن میں عقیدہ توحید کی تعلیم موجود تھی، لیکن کسی نہ کسی صورت میں شخصیت پرستی عظمت پرستی اور اصنام پرستی نمودار ہوتی رہی اور رہنمایاں مذاہب اس کا دروازہ بند نہ کر سکے۔ ہندوستان میں تو غالباً اول دن ہی سے یہ بات تسلیم کر لی گئی تھی کہ عوام کی تشفی کے لئے دیوتاؤں اور انسانی عظمتوں کی پرستاری ناگزیر ہے۔ اور اس لئے توحید کا مقام صرف خواص کے لیے مخصوص ہونا چاہیے۔ فلاسفہ یونان کا بھی یہی خیال تھا۔ یقیناً وہ اس بات سے بے خبر نہ تھے کہ کوہ اولیمپس کے دیوتاؤں کی کوئی اصلیت نہیں۔ تاہم سقراط کے علاوہ کسی نے بھی اس کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ عوام کے اصنامی عقائد میں خلل انداز ہو۔ وہ کہتے تھے : اگر دیوتاؤں کی پرستش کا نظام قائم نہ رہا تو عوام کی مذہبی زندگی درہم برہم ہو جائے گی۔" فیثا غورث کی نسبت بیان کیا گیا ہے کہ جب اس نے اپنا مشہور حسابی قاعدہ معلوم کیا تھا تو اس کے شکرانے میں سو بچھڑوں کی قربانی دیوتاؤں کے نذر کی تھی۔ اس بارے میں سب سے زیادہ نازک معاملہ معلم و رہنماء کی شخصیت کا تھا۔ یہ ظاہر ہے کہ کوئی تعلیم عظمت و رفعت حاصل نہیں کر سکتی جب تک معلم کی شخصیت میں بھی عظمت کی شان پیدا نہ ہو جائے۔ لیکن شخصیت کے حدود کیا ہیں؟ یہیں آ کر سب کے قدموں نے ٹھوکر کھائی۔ وہ اس کی ٹھیک ٹھیک حد بندی نہ کر سکے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کبھی شخصیت کو خدا کا اوتار بنا لیا، کبھی ابن اللہ سمجھ لیا، کبھی شریک و سہیم ٹھہرا دیا۔ اور اگر یہ نہیں کیا تو کم از کم اس کی تعظیم میں بندگی و نیاز کی سی شان پیدا کر دی۔ یہودیوں نے اپنے ابتدائی عہد کی گمراہیوں کے بعد کبھی ایسا نہیں کیا کہ پتھر کے بت تراش کر ان کی پوجا کی ہو۔ لیکن اس بات سے وہ بھی نہ بچ سکے کہ اپنے نبیوں کی قبروں پر ہیکل تعمیر کر کے انہیں عبادت گاہوں کی سی شان و تقدیس دے دیتے تھے۔ گوتم بدھ کی نسبت معلوم ہے کہ اس کی تعلیم میں اصنام پرستی کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔ اس کی آخری وصیت جو ہم تھ پہنچی ہے یہ ہے : "ایسا نہ کرنا کہ میری نعش کی راکھ کی پوجا شروع کر دو۔ اگر تم نے ایسا کیا تو یقین کرو نجات کی راہ تم پر بند ہو جائے گی" (۹)۔ لیکن اس وصیت پر جیسا کچھ عمل کیا گیا وہ دنیا کے سامنے ہے۔ نہ صرف بدھ کی خاک اور یادگاروں پر معبد تعمیر کئے گئے، بلکہ مذہب کی اشاعت کا ذریعہ ہی یہ سمجھا گیا کہ اس کے مجسموں سے زمین کا کائی گوشہ خال نہ رہے۔ یہ واقعہ ہے کہ دنیا میں کسی معبود کے اتنے مجسمے نہیں بنائے گئے جتنے گوتم بدھ کے بنائے گئے ہیں۔ حد ہو گئی کہ فارسی زبان میں بدھ (بت) کا لفظ ہی صنم میں بولا جانے لگا۔ اسی طرح ہمیں معلوم ہے کہ مسیحیت کی حقیقی تعلیم سر تا سر توحید کی تعلیم تھی، لیکن ابھی اس کے ظہور پر
--------------------------------------------------------------------------
(۹) فوٹ نوٹ : ارلی بدھ ازم (Early Buddhism)

 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۳۰۲
پورے سو برس بھی نہیں گزرے تھے کہ الوہیت مسیح کا عقیدہ نشو و نما پا چکا تھا۔
لیکن قرآن نے توحید فی الصفات کا ایسا کامل نقشہ کھینچ دیا کہ اس طرح کی لغزشوں کے تمام دروازے بند ہو گئے۔ اس نے توحید ہی پر زور نہیں دیا، بلکہ شرک کی بھی راہیں مسدود کر دیں اور یہی اب باب میں اس کی خصوصیت ہے۔
وہ کہتا : ہر طرح کی عبادت اور نیاز کی مستحق صرف خدا کی ذات ہے۔ پس اگر تم نے عابدانہ عجز و نیاز کے ساتھ کسی دوسری ہستی کے سامنے سر جھکایا تو توحید الہٰی کا اعتقاد باقی نہ رہا۔
وہ کہتا ہے :
یہ اسی کی ذات ہے جو انسانوں کی پکار سنتی ہے اور ان کی دعائیں قبول کرتی ہے۔ پس اگر تم نے اپنی دعاؤں اور طلب گاریوں میں کسی دوسری ہستی کو بھی شریک کر لیا تو گویا تم نے اسے خدا کی خدائی میں شریک کر لیا۔ وہ کہتا ہے :
دعا و استعانت، رکوع و سجود، عجز و نیاز، اعتماد و توکل اور اس طرح کے تمام عبادت گزارانہ اور نیاز مندانہ اعمال وہ اعمال ہیں جو خدا اور اس کے بندوں کا باہمی رشتہ قائم کرتے ہیں۔ پس اگر ان اعمال میں تم نے کسی دوسری ہستی کو بھی شریک کر لیا تو خدا کے رشتہ معبودیت کی یگانگی باقی نہ رہی۔ اسی طرح عظمتوں، کبریاؤں، کارسازیوں اور بے نیایوں کا جو اعتقاد تمہارے اندر خدا کی ہستی کا تصور پیدا کرتا ہے وہی صرف خدا ہی کے لئے مخصوص ہونا چاہیے۔ اگر تم نے ویسا ہی اعتقاد کسی دوسری ہستی کے لیے بھی پیدا کر لیا تو تم نے اسے خدا کا شریک ٹھہرا لیا اور توحید کا اعتقاد درہم برہم ہو گیا۔
یہی وجہ ہے کہ سورہ فاتحہ میں "إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴿۱:٥" کی تلقین کی گئی۔ اس میں اول تو عبادت کے ساتھ استعانت کا بھی ذکر کیا گیا۔ پھر دونوں جگہ مفعول کو مقدم کیا جو مفید اختصاص ہے، یعنی صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھی سے مدد طلب کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ تمام قرآن میں اس کثرت کے ساتھ توحید فی الصفات اور رد اشراک پر زور دیا گیا ہے کہ شاید ہی کوئی سورت بلکہ کوئی صفحہ اس سے خالی ہو۔
سب سے زیادہ اہم مسئلہ مقام نبوت کی حدبندی کا تھا، یعنی معلم کی شخصیت کو اس کی اصلی جگہ میں محدود کر دیان، تاکہ شخصیت پرستی کا ہمیشہ کے لئے سدباب ہو جائے۔ اس بارے میں قرآن نے صاف اور قطعی لفظوں میں جا بجا پیغمبر اسلام کی بشریت اور بندگی پر زور دیا ہے محتاج بیان نہیں۔ ہم یہاں صرف ایک بات کی طرف توجہ دلائیں گے۔ اسلام نے اپنی تعلیم کا بنیادی کلمہ جو قرار دیا ہے وہ سب کو معلوم ہے : "اَشْھَدُ اَنْ لَااِلٰہَ اَلَّا اللّٰہُ وَ اَشْھَدُ اَنْ مُحَمَّدُ عَبدُہ وَ رَّسُوْ لُہ" یعنی میں اقرار کرتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۳۰۳
میں اقرار کرتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) خدا کے بندے اور رسول ہیں۔ اس اقرار میں جس طرح خدا کی توحید کا اعتراف کیا گیا ہے ٹھیک اسی طرح پیغمبر اسلام کی بندگی اور درجہ رسالت کا بھی اعتراف ہے۔ غور کرنا چاہیے کہ ایسا کیوں کیا گیا۔ صرف اس لیے کہ پیغمبر اسلام کی بندگی اور درجہ رسالت کا اعتقاد اسلام کی اصل و اساس بن جائے اور اس کا کوئی موقع باقی نہ رہے کہ عبدیت کی جگہ معبودیت کا اور رسالت کی جگہ اوتار کا تخیل پیدا ہو۔ ظاہر ہے کہ اس سے زیادہ اس معاملے کا تحفظ کیا کیا جا سکتا تھا۔ کوئی شخص دائرہ اسلام میں داخل ہی نہیں ہو سکتا جب کہ وہ خدا کی توحید کی طرح پیغمبر اسلام کی بندگی کا بھی اقرار نہ کر لے۔
یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) کی وفات کے بعد مسلمانوں میں بہت سے اختلافات پیدا ہوئے لیکن ان کی شخصیت کے بارے میں کوئی سوال پیدا نہیں ہوا۔ ابھی ان کی وفات پر چند گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ نے برسر منبر اعلان کر دیا تھا : من کان منکم یعبد محمد افان محمد اقدمات، ومن کان منکم یعبد اللہ فان اللہ حی لا یموت (بخاری) جو کوئی تم میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پرستش کرتا تھا سو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ محمد نے وفات پائی۔ اور جو کوئی تم میں سے اللہ کی پرستش کرتا تھا تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ کی ذات ہمیشہ زندہ ہے، اس کے لئے موت نہیں۔
رابعاً – قرآن سے پہلے علوم و فنون کی طرح مذہبی عقائد میں خاص و عام کا امتیاز ملحوظ رکھا جاتا تھا اور خیال کیا جاتا تھا کہ خدا کا تصور تو حقیقی ہے اور خواص کے لئے ہے۔ ایک تصور عملی ہے اور عوام کے لئے ہے۔ چنانچہ ہندوستان میں خدا شناسی کے تن درجہ قرار دیئے گئے تھے۔ عوام کے لئے دیوتاؤں کی پرستش، خواص کے لئے براہ راست خدا کی پرستش، اخص الخواص کے لئے وحدۃ الوجود کا مشاہدہ۔ یہی حال فلاسفہ یونان کا تھا۔ وہ خیال کرتے تھے کہ ایک غیر مرئی اور غیر مجسم خدا کا تصور صرف اہل علم و حکمت ہی کر سکتے ہیں۔ عوام کے لئے اسی میں امن ہے کہ دیوتاؤں کی پرستاری میں مشغول رہیں۔
لیکن قرآن نے حقیقت و عمل یا خاص و عام کا کوئی امتیاز باقی نہ رکھا۔ اس نے سب کو خدا پرستی کی ایک ہی راہ دکھائی اور سب کے لئے صفات الہٰی کا ایک ہی تصور پیدا کیا۔ وہ حکماء و عرفاء سے لے کر جہاں و اعوام تک سب کو حقیقت کا ایک ہی جلوہ دکھاتا ہے اور سب پر اعتقاد و ایمان کا ہی دروازہ کھولتا ہے۔ اس کا تصور جس طرح ایک حکیم و عارف کے لئے سرمایہ تفکر ہے، اسی طرح ایک چرواہے اور دہقان کے لئے بھی سرمایہ تسکین۔
خامساً – قرآن نے تصور الہٰی کی بنیاد و نوع انسانی کے عالم گیر وجدانی احساس پر رکھی ہے۔ یہ نہیں کیا ہے کہ اسے نظر و فکر کی کاوشوں کا ایک معمہ بنا دیا ہو جسے کسی خاص گروہ اور طبقے کا
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۳۰۴
ذہن ہی حل کر سکے۔ انسان کا عالمگیر وجدانی احساس کیا ہے؟ یہ ہے کہ کائنات ہستی خود بخود پیدا نہیں ہو گئی، پیدا کی گئی ہے اور اس لئے ضروری ہے کہ ایک صانع ہستی موجود ہو۔ پس قرآن بھی اس بارے میں جو کچھ بتلاتا ہے صرف اتنا ہی ہے۔ وہ نہ تو توحید وجودی کا ذکر کرتا ہے نہ توحید شہودی کا۔ (۱۰) وہ صرف ایک خالق کائنات ہوتی کا ذکر کرتا ہے جو خوبی و کمال کی تمام صفتوں سے متصف اور نقص و زوال کی تمام باتوں سے منزہ ہے اور اس سے زیادہ فکر انسانی پر کوئی بوجھ نہیں ڈالتا۔
سادساً – جس ترتیب کے ساتھ سورہ فاتحہ میں یہ تینوں صفتیں بیان کی گئی ہیں دراصل فکر انسانی کی طلب و معرفت کی قدرتی منزلیں ہیں، اور اگر غور کیا جائے تو اسی ترتیب سے پیش آتی ہیں۔ سب سے پہلے ربوبیت کا ذکر کیا گیا، کیوں کہ کائنات ہستی میں سب سے زیادہ ظاہر نمود اسی صفت کی ہے اور ہر وجود کو سب سے زیادہ اسی کی احتیاج ہے۔ ربوبیت کے بعد رحمت کا ذکر کیا گیا، کیونکہ اس کی حقیقت بمقابلہ ربوبیت کے مطالعہ و تفکر کی محتاج ہے اور ربوبیت کے مشاہدات سے جب نظر آگے بڑھتی ہے تب رحمت کا جلوہ نمودار ہوتا ہے۔ رحمت کے بعد عدالت کی صفت بیان کی گئی ہے، کیونکہ یہ اس سفر کی آخری منزل ہے۔ رحمت کے مشاہدات سے جب نظر آگے بڑھتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں عدالت کی بھی نمود ہر جگہ موجود ہے اور اس لئے موجود ہے کہ ربوبیت اور رحمت کا مقتضی یہی ہے۔
۶۷) "کنگ فوزی" فارسی تلفظ ہے، صحیح چینی تلفظ "کونگ-فو-سع" ہے۔ ایرانیوں نے اسے زیادہ صحت کے ساتھ نقل کیا ہے، یعنی صرف اتنی تبدیلی کی کہ "فوسی" کو "فوزی" کر دیا۔ لیکن یورپ کی زبانوں نے اسے یک قلم مسخ کر کے کنفوشس (Confucius) بنا دیا اور اس کی آواز اصل آواز دے اس درجہ مختلف ہو گئی کہ ایک چینی سن کر حیران رہ جاتا ہے کہ یہ کس چیز کا نام ہے اور کس ملک کی بولی ہے۔
------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
۱۰) توحیدی وجود سے مقصود "وحدہ الوجود" کا عقیدہ ہے، یعنی خدا کی ہستی کے سوا کوئی ہستی وجود نہیں رکھتی۔ وجود ایک ہی ہے، باقی جو کچھ ہے تعینات کا فریب ہے۔
مگو کہ کثرت اشیا نقیض وحدت ہست
تو در حقیقت اشیا نظر فگن ہمہ اوست
توحید شہودی یہ ہے کہ موجودات خلقت کو بحیثیت موجودات تسلیم کرتے ہیں، لیکن کہتے ہیں جب انہیں وجود الہٰی کی نمود میں دیکھا جاتا ہے تو ان کی ہستی یک قلم ناپید ہو جاتی ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ غیر موجود ہیں، اس لیے کہ سورج نکل آیا اور اس کی سلطان تجلی میں ستارے ناپید ہو گئے
فلما استبان الصبح ادرج ضوؤہ
باسفارہ لضواء نور الکواکب
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۳۰۵
۶۸) سنسکرت میں "دشمن" زاہد اور تارک الدنیا کو کہتے ہیں۔ بدھ مذہب کے تارک الدنیا بھی اسی لقب سے پکارے جاتے تھے۔ رفتہ رفتہ پیروان بدھ کو "شمنی" کہنے لگے اس شمنی کو عربوں نے "سمنی" بنا لیا اور وسط ایشیا کے باشندوں نے "شامانی" چنانچہ ذکریا رازی، البیرونی اور ابن الندیم وغیرہم نے بدھ مذہب کا ذکر سمنیہ ہی کے نام سے کیا۔ البیرونی بدھ مذہب کی عالم گیر اشاعت کی تاریخ کی خبر رکھتا تھا۔ چنانچہ کتاب الہند کی پہلی فصل میں اس طرف اشارات کیے ہیں۔
چنگیر خان کی نسبت یہ تصریح ملتی ہے کہ وہ شامانی مذہب کا پیرو تھا۔ یعنی بدھ مذہب کا۔ چونکہ شامانی اور بدھ مذہب کا ترادف واضح نہین ہوا تھا اس لئے انیسویں صدی کے بعض یورپی مؤرخوں کو طرح طرح کی غلط فہمیاں ہوئی اور اس کا صحیح مفہوم متعین نہ کر سکے۔ یہ غلط فہمی یورپ کے اہل قلم میں آج بھی موجود ہے۔ شمالی سائبیریا اور چینی ترکستان کے ہمسایہ علاقوں کے تورانی قبائل اپنے مذہبی پیشواؤں کو ( جو تبت کے لاماؤں کی طرح ملکی پیشوائی بھی رکھتے ہیں) "شامان" کہتے ہیں۔ سویت روس کی حکومت آج کل ان تعلیم و تربیت کا سر و سامان کر رہی ہے۔ یہ لوگ بھی بلاشبہ بدھ مذہب کے پیرو ہیں، لیکن ان کا بدھ مذہب منگولیوں کے منحرف مذہب کی بھی مسخ شدہ صورت ہے، اس لئے اصلیت کی بہت کم جھلک باقی رہ گئی ہے اور اسی لئے ان کی مذہبی اصلیت کے بارے میں آج کل کے مصنف حیرانی ظاہر کر رہے ہیں۔ انگریزی میں انہیں تورانی قبائل کے مذہب کی نسبت شے منزم (Shamanism) کی ترکیب رائج ہو گئی ہے اور جادوگری کے اعمال و اثرات کو (Shamanism) اور (Shamanistic) وغیرہ سے تعبیر کرنے لگے ہیں۔ یہ "شیمن" بھی وہی "شامانی اور "شمنی" ہی کی ایک منحرف صورت ہے۔ چونکہ ان قبائل میں جادوگری کا اعتقاد عام ہے اور وہ اپنے شامانوں سے بیماری میں جادو کے ٹوٹکے کراتے ہیں، اس لئے جادوگری کے لئے یہ لفظ مستعمل ہو گیا ہے۔
۶۹) رگ وید – حصہ سوم، ص ۹۰۹
۷۰) رب الا ربابی تصور سے مقصود تصور کی وہ نوعیت ہے جب خیال کیا جاتا ہے کہ بہت سے خداؤں میں ایک خدا سب سے بڑا ہے اور چھوٹے خداؤں کو اس کے ماتحت رہنا پڑتا ہے، جیسا کہ یونانیوں کا عقیدہ مشتری کی نسبت تھا۔
۷۱) رگ وید اور اپنشد کے مطالب کے لئے ہم نے حسب ذیل مصادر سے مدد لی ہے :
Max-Muller : دی ویدک ھیمز The Vedic Hymns
Bloomfield : دی ریلیجن آف دی وید The Religion of the Ved

 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۳۰۶
Kaegi : دی رگ وید The Rig Veb
Ghate : لیکچرز آن دی رگ وید Lectures on the Rigved
Deussen : دی فلاسفی آف دی اپنشدس The Philosophy of the Upnishads
Hume : دی تھرٹین پرنسپل اپنشدس The Thirteen Principal Upnishads
۷۲) ہمارے صوفیائے کرام نے اسی صورت حال کو یوں تعبیر کیا ہے کہ "احدیت" نے مرتبہ "واحدیت" کی تجلی میں نزول کیا۔ "احدیت" یونی یگانہ ہونا، "واحدیت" یعنی اول ہونا۔یگانہ ہستی کو ہم اول نہیں کہہ سکتے، کیونکہ اول جبھی ہو گا جب دوسرا، تیسرا اور چوتھا بھی ہو، اور یگانگی بحث کے مرتبے میں دوسرے اور تیسرے کی گنجائش ہی نہیں۔ لیکن جب "احدیت" نے "واحدیت" کے مرتبے میں نزول کیا تو اب "ھوالاول" کا مرتبہ ظہور میں آ گیا۔ اور جب اول ہو تو دوسرے، تیسرے اور چوتھے کے تعینات بھی ظہور میں آنے لگے۔ وما املح قول الشاعر العارف
دریای کہن چو برزند موجہ تو
موجش کونند وفی الحقیقت دریاست
۷۳) پروفیسر اس- رادھا کرشنن، انڈین فلاسفی (Indian Philosophy) جلد اول صفحہ ۱۴۴۔ طبع ثانی۔
۷۴) اگر اپنشد کی اشراکی کی لچک کے دوسرے صریح شواہد موجود نہ ہوتے تو اس طرح کی تصریحات بہ آسانی مجازات پر محمول کی جا سکتی تھیں، چنانچہ داراشکوہ نے انہیں استعارات ہی پر محمول کیا ہے۔ یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ اپنشد ایک سو ساٹھ ہیں اور مختلف عہدوں میں مرتب ہوئے ہیں۔ ہر اپنشد اپنے عہد کے تدریجی تصورات و مباحث کے اثرات پیش کرتا ہے اور یہاں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ ان نتائج پر مبنی ہے جو مجموعی حیثیت سے نکالے گئے ہیں۔
۷۵) ویدانت پاری جات – سوربھ، جلد سوم صفحہ ۲۵۔
اس کا انگریزی ترجمہ مترجمہ ڈاکٹر رومابوس (Dr. Roma Bose) رائل ایشیا سوسائٹی بنگال نے حال میں شائع کیا ہے۔
۷۶) البیرونی نے کتاب الہند میں بعض سنسکرت کتابوں سے بتوں کے بنانے کے احکام و قواعد نقل کیے ہیں۔ اس کے بعد لکھتا ہے :
"وکان الغرض فی حکایۃ ھذا الھذیان ان تعرف الصورۃ میں صنمھا اذا
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۳۰۷
شوھد۔ ولیتحقق ماقلنا من ان ھذہ الاصنام منصوبۃ العوام الذین سفلت مراتبھ، و قصرت معارفھم۔ فما عمل صنم قط باسم من علا المادۃ فضلا عن اللہ تعالی۔ ولیعرف کیف یعبد السفل بالتمویھات، ولذلک قیل فی کتاب "گیتا" ان کثیرا من الناس یتقربون فی مباغیھم الی بغیری و یتوسلون بالصدقات والتسبیح و لا صلاۃ لسوای فاقویھم علیھا و او فقھم لھا و او صلھم الی ارادتھم لا ستغنائی عنھم" (صفحی ۹۳، ۹۴)
آج کل کے تمام ہندو اہل نظر جو ہندو عقائد و تصورات کی فلسفیانہ تعبیر کرنی چاہتے ہیں عموماً یہی توجیہ پیش کرتے ہیں جو البیرونی نے پیش کی تھی۔ ابو الفضل اور دارا شکوہ نے بھی یہی خیال ظاہر کیا ہے۔
۷۷) پروفیسر اس۔ رادھا کرشنن : انڈین فلاسفی، جلد اول ۴۵۳۔ طبع ثانی
۷۸) یہ قدیم کتاب جس کا صرف تبتی نسخہ دنیا کے علم میں آیا تھا، اب اصل سنسکرت میں نکل آئی ہے اور گائیکواڑ اورینٹل سیریز کے ادارے نے حال میں شائع کر دی ہے۔ میسور کا مشرتی کتب خانہ بھی اس کا ایک دوسرا نسخہ اشاعت کے لیے مرتب کر رہا ہے۔
۷۹)) "نیائے، یعنی منطق۔ "ویشیسیک" طریق نظر سے مقصود منطقی نقد و تحلیل کا ایک خاص مسلک ہے۔
۸۰)) گوتم بدھ کی تعلیم میں "اشٹانگ مارگ" یعنی آٹھ باتوں کا طریقہ ایک بنیادی اصل ہے۔ آٹھ باتوں سے مقصود علم اور عمل کا تزکیہ و طہارت ہے۔ علم حق، رحم و شفقت، قربانی، ہوا و ہوس سے آزادی، خودی کو مٹانا وغیرہ۔
۸۱)) میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ میرا ذاتی استنباط ہے اور مجھے حق نہیں کہ اپنی رائے کو وثوق کے ساتھ ان محققوں کے مقابلے میں پیش کروں جنہوں نے اس موضوع کے مطالعے میں زندگیاں بسر کر دی ہیں۔ تاہم میں مجبور ہوں کہ اپنی محدود معلومات کی روشنی میں جن نتائج تک پہنچا ہوں، ان سے دستبردار نہ ہوں۔ یورپ کے محققوں نے بدھ مذہب کے مصادر کی جستجو و فراہمی میں بڑی کد و کاوش کی ہے اور پالی زبان کے تمام اہم مصادر فرنچ یا انگریزی میں منتقل کر لئے ہیں۔ میں حتی الامکان اس تمام مواد کے مطالعے کی کوشش کی اور بالاخر اسی نتیجہ تک پہنچا۔
۸۲)) "ایران" وہی لفظ ہے جو ہندوستان میں "آریا " ہو گیا ہے۔
اوستا میں چوبیس ملکوں کی پیدائش کا ذکر کیا گیا ہے جس میں سب سے پہلا اور سب سے بہتر "ایریاناویج" (Airyana Vej) ہے اور غالباً اس سے شمالی ایران مقصود ہے (وند یداد،

 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۳۰۸
فرگرہ اول، فقرہ۔ ۲) ھرمز ویشت کے فقرہ۔ ۲۱ میں بھی ایریاناویج کا ذکر کیا ہے اور اس درود بھیجا ہے۔ "ویج" جرمن مشتشرق اشپیگل Spiegel کی قراءت ہے، آنک تیل (Anquetil) نے اسے ویگو پڑھا تھا۔ "ویج" یا "ویگو" کے معنی پہلوی میں مبارک کے ہیں، یعنی مبارک ایریانا کی سرزین۔
۸۳)) عہد عتیق میں یشعیا نبی کی طرف جو کتاب منسوب ہے اس کی زبان اور مطالب کا آیت ۵۱ تک ایک خاص انداز ہے اور پھر اس کے بعد بالکل دوسرا ہو جاتا ہے۔ ابتدائی حصہ ایک ایسے شخص کا کلام معلوم ہوتا ہے جو قید بابل سے پہلے تھا، لیکن بعد کے حصے میں قید بابل کے زمانے کے اثرات صاف صاف نمایاں ہیں۔ اس لئے انیسویں صدی کے نقادوں نے اسے دو شخصوں کے کلام میں تقسیم کر دیا۔ ایک کو یشعیا اولا اور دوسرے کو دوم سے تعبیر کرتے ہیں۔
۸۴)) اسی لئے ہندو تصور نے ماں کی تشبیہ سے کام لیا، کیونکہ ماں کی تشبیہ میں اگرچہ انسانیت آ جاتی ہے، لیکن تشبیہ باپ سے بھی زیادہ پراثر ہو جاتی ہے۔ باپ کی شفقت کبھی کبھی جواب دے دے گی، لیکن ماں کی محبت کی گہرائیوں کے لئے کوئی تھاہ نہیں۔
۸۵)) "ناؤس" جس کا تلفظ "ناؤز" کیا جاتا ہے عرب کے "نس" سے اس درجہ صوتی مشابہت رکھتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے "ناوز" تعریب کا جامہ پہن کر "نفس" ہو گیا۔اس طرح نوئٹک (Noetic) اور "ناطق" اس درجہ قریب ہیں کہ دوسرے کو پہلے کی تعریف سمجھا جا سکتا ہے۔ چنانچہ رینان اور ڈوزی نے نفس ناطقہ کو "نوٗٹک ناوز" کا معرب قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں : یہ "ناطق" نطق سے نہیں ہے بلکہ "نوئٹک" کی تعریف ہے جس کے معنی ادراک کے ہیں۔ بعض عربی مصادر سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ اصل یونانی الفاظ پیش نظر رکھے گئے تھے۔ "نفس" عربی لغت میں ذات اور خود کے معنی میں بولا جاتا تھا اور ارسطو نے عاقلانہ نطق کو انسان کی فصل قرار دیا تھا۔ اس لئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عرب مترجموں نے یونانی تعبیر سامنے رکھ کر نفس ناطقہ کی ترکیب کر لی اور یہ تعریف خود عربی الفاظ کے مدلول سے بھی ملتی جلتی ہوئی بن گئی۔
۸۶)) جمہوریت کے اشخاص مکالمہ مین اڈمنٹس (Adeimantus) اور گلوکن (Glaucon) افلاطون کے بھائی ہیں۔ چنانچہ افلاطون نے خود ایک جگہ اس کی تصریح کی ہے۔
افلاطون کی دوسری مسفات کے ساتھ جمہوریت کا ترجمہ بھی عربی میں ہو گیا تھا۔ چنانچہ


 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۳۰۹
چھٹی صدی ہجری میں ابن رشد نے اس کی شرح لکھی۔ شرح کے دیباچہ میں لکھتا ہے کہ میں نے ارسطع کی "کتاب السیاستہ" کی شرح لکھنی چاہی تھی مگر اندلس میں اس کا کوئی نسخہ نہیں ملا۔ مجبوراً افلاطون کی کتاب اکتیار کرنی پڑی۔ ابن رشد کی شرح کے عبرانی اور لاطینی تراجم یورپ میں موجود ہیں مگر اصل عربی ناپید ہے، یورپ کے موجودہ تراجم براہ راست یونانی سے ہوئے ہیں ہمارے پیس نظر اے۔ ٹیلر (Taylor) اور بی۔ جوویٹ (Jowett) کے انگریزی تراجم ہیں۔
۸۷)) مشتری یعنی زیوس (Zeus) یونان کے اصنامی عقائد میں رب الا رباب یعنی دیوتاؤں میں سب سے بڑا حکمران دیوتا تھا۔ ھومر (Homer) نے ایلیڈ (Iliad) دیوتاؤں کی جو مجلس آراستہ کی ہے اس میں تخت نشین ہستی مشتری ہی کی ہے۔
۸۸)) یہ اشعار ایلیڈ کے ہیں۔ سلیمان بستانی نے اپنے بے نظیر ترجمہ عربی میں ان کا ترجمہ حسب ذیل شعروں میں کیا ہے :
فباعتاب زفس قارورتان
ذی لخیر و ذی لشر الھوان
فیھما کل قسمۃ الانسان
فالذی متھما مزیجا انالا
زفس یلقی، خیر او یلقی و بالا
والذی لاینال من الشر
فتنتابہ الخطوب انتیابا
بطواہ یطوی البلاد کلیلا
تانھا فی عرض الفلاۃ ذلیلا
من بنی الخلد و الوری مخذولا
الیادۃ نید ۲۴ ص ۱۱۳۱، مطبوعہ الہلال، مصر ۱۹۰۴ء
ان اشعار میں "زفس" یونانی "زیوس" کی تعریب ہے۔
۸۹)) دی ری پبلک، ترجمہ ٹیلر، باب ۲
۹۰)) Stephen Mackenna جلد ۲ صفحہ ۱۳۴
۹۱)) ایضاً
۹۲)) ایضاً
۹۳)) ایضاً جلد اول صفحہ ۱۱۸ مذہب افلاطون جدید افلاطون کی طرف اس لئے منسوب ہوا کہ اس


 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۳۱۰
کی بنیاد بعض افلاطونی مبادیات پر رکھی گئی تھی، مگر پھر اپنی بحث و نظر میں اس نے جو راہ اختیار کی اور جن نتائج تک پہنچا انہیں افلاطون سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن عرب فلاسفہ کا ایک بڑا طبقہ اس غلط فہمی میں پڑ گیا کہ فی الحقیقت یہ افلاطون ہہی کا مذہب ہے۔ اس مذہب کے بعض فلسفیوں مثلا فوریوش نے ارسطو کی شرح کرتے ہوئے اس کے مذہب میں جو اضافے کئے تھے، اس بھی عرب حکماء اصل سے ممتاز نہ کر سکے۔ چنانچہ ابو نصر فارابی نے "الجمع بین الرایین" میں ارسطو کا جو مذہب ظاہر کیا ہے اس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ ابن رشد پہلا عرب فلسفی ہے جس نے غلط فہمی مھسوس کی اور ارسطو کے مذہب کو شارحوں کے اضافے سے خالص کے دیکھا چہا۔
سنہ ۵۲۹م جب شہنشاہ جسٹینین (Justinian) کے حکم سے اسکندریہ کے فلاسفہ جلاوطن کیے گئے تو ان میں سے بعض نے ایران میں پناہ لی۔ چنانچہ سمپلیسیس (Simplicius) اور ڈیماسیس (Damasess) خسرو کے دربار میں معزز جگہ رکھتے تھے۔ ان فلاسفہ کی وجہ سے پہلوی زبان بھی مذہب افلاطون جدید سے آشنا ہو گئی اور ایرانی حکماء نے اسے قومی رنگ دینے کے لئے زرتشت اور جاماسپ کی طرف منسوب کر دیا۔ عربی میں جب پہلوی ادبیات منتقل ہوئیں تو یہ فلسفیانہ مقالات بھی ترجمہ ہوئے اور عام طور پر یہ خیال پیدا ہو گیا کہ یہ زردشت اور جاماسپ کی ایک پراسرار فلسفہ ہے۔ چنانچہ شیخ شہاب الدین نے "حکمۃ الاشراق" میں اور شیرازی نے اس کی شرح میں دونوں غلطیاں جمع کر دی ہیں۔ وہ مذہب افلاطون جدید کو افلاطون کا مذہب سمجھتے ہیں اور زردشت اور جاماسپ کا بھی حوالہ دیتے ہیں۔
۹۴)) "ھو اللطیف الخبیر" کا ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا۔ م
۹۵)) "نیتی" یعنی کلمہ نفی۔ وہ ایسا بھی نہیں ہے، ایسا بھی نہیں ہے۔ برھد رنیاک اپنشد میں یہ نفی دور تک چلی گئی ہے۔ وہ کثیف ہے؟ نہیں۔ وہ لطیف ہے؟ نہین۔ وہ کوتاہ ہے؟ نہیں۔ وہ دراز ہے؟ نہیں۔ غرضیکہ ہر مشابہت کے جواب میں "نہیں" دہرایا جاتا ہے۔ نہ وہ ایسا ہے، نہ وہ ویسا ہے، نہ یہ ہے نہ وہ ہے۔
اے برون ازدھم و قال و قیل من
خاک بر فرق و تمثیل من
۹۶)) یقیناً تمہارا پروردگار تمہیں گھات لگائے تاک رہا ہے۔
۹۷)) اور جب میرا بندہ تجھ سے میری نسبت سوال کرتا ہے تو اس سے کہہ دے کہ میں اس سے دور کب ہوں؟ میں تو بالکل اس کے پاس ہوں۔

 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۳۱۱
[اور جب وہ پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی پکار سنتا ہوں۔] (۱۱)
۹۸)) تفویض کے مسلک سے مقصود یہ ہے کہ جو حقائق ہمارے دائرہ علم و ادراک سے باہر ہیں ان میں رد و کد اور باریک بینی نہ کرنا اور اپنے عجز و نارسائی کا اعتراف کر لینا۔
۹۹)) شنکر بھاشیا ۱۲:۱ اور چتھدوگیہ اپنشدقسم۔ ۸۔
۱۰۰)) اس آیت میں"الحاد فی الاسماء" سے مقصود کیا ہے؟ الحاد "لحد" سے ہے، لحد کے معنی "میلان عن الوسط" کے ہیں، یعنی درمیان سے کسی ایک طرف کو ہٹا ہوا ہونا۔ اسی لیے ایسی قبر کو جس میں نعش کی جگہ ایک طرف کو ہٹی ہوئی ہوتی ہے "لحد" کہتے ہیں۔ جب یہ لفظ انسانی افعال کے لئے ہو بولا جاتا ہے تو اس کے معنی راہ حق سے ہٹ جانے کے ہوتے ہیں۔ کیونکہ وسط حق ہے اور جو اس سے منحرف ہو باطل ہے۔ الحد فلان، ای مال عن الحق۔ پس یہاں الحاد الا سماء کا مطلب یہ ہوا کہ خدا کی صفات کے بارے میں جو راہ حق ہے اس سے منحرک ہو جانا۔ امام راغب اصفہانی نے اس کی تشریح حسب ذیل لفظوں میں ادا کی ہے۔ ان یوصف بما لا یصح وصفہ بہ، او ان یتاول اوصافہ علی مالا یلیق بہ" (مفردات ۴۲۴) یعنی خا کے لئے کوئی ایسا وصف قرار دینا جو اس کا وصف نہین ہونا چاہیے یا اس کی صفتوں کا ایسا مطلب ٹھہرانا جو اس کی شان کے لائق نہیں۔
۱۰۱)) ارلی بدھ ازم (Early Buddhism)
۱۰۲)) باب مرض النبی وفاتہ۔ م
۱۰۳)) گرشیم کے قانون سے مقصود اقتصادیات کی یہ اصل ہے کہ اگر کھرے سکوں کے ساتھ کھوٹے سکے ملا دیے جائیں گے تو کھرے سکوں کی قیمت باقی نہین رہے گی۔
۱۰۴)) پروفیسر ایس۔ رادھا کرشنن، انڈیا فلاسفی، جلد اول صفحہ ۱۱۹، طبع ثانی۔
۱۰۵)) پہلے ایڈیشن مص ۱۲۶ میں یہ عبارت "اگر اس نے ۔۔۔۔ ۔ اور فیصلہ کن ہوتا" موجود نہیں ہے۔
۱۰۶)) یاد رہے کہ عربی میں قلب اور فواد کے معنی محض اس عضو ہی کے نہیں ہیں جسے اردو میں دل کہتے ہیں۔ بلکہ اس کا اطلاق عقل و فکر پر بھی ہوتا ہے۔ قرآن میں جہاں کہیں سمع و بصر وغیرہ کے ساتھ قلب اور فواد کہا گیا ہے اس سے مقصود جوہر عقل ہے۔
۱۰۷)) پہلے ایڈیشن میں قوسین میں یہ جملے زیادہ ہیں (پس جو کوئی سیدھی راہ چلے گا، اس کے لئے دونوں جگہ کامیابی ہے اور جو منحرف ہو گا اس کے لئے دونوں جگہ نامرادی)
-----------------------------------------------------------------------------------------------------
(۱۱)) ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے۔

 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۳۱۲
۱۰۸)) پہلے ایڈیشن میں ص ۱۲۷ پر قوسین میں یہ عبارت زیادہ ہے (پس تمہاری مذہبی گروہ بندیوں کی ملتوی کی میں کیوں پیروی کر سکتا ہوں! میں راہ تمہاری خود ساختہ ملتوں کی راہ نہیں ہے اللہ کی عالمگیر ہدایت کی راہ ہے (م)۔
۱۰۹)) پہلے ایڈیشن میں ص ۱۳۰ پر قوسین میں یہ عبارت زیادہ ہے (یعنی ہمارے قوانین کی رو سےوہی آبادی ہلاک ہوتی ہے جو ظلم و فساد میں غرق ہو جاتی ہے اور ہدایت الہٰی سے انکار کرتی ہے) (م)۔
۱۱۰)) پہلے ایڈیشن میں "قل" کا ترجمہ چھوٹ گیا تھا جو قوسین میں لکھ دیا گیا ہے (م)
۱۱۱)) سابقہ دونوں ایڈیشنوں میں یہ لفظ چھوٹ گیا تھا۔ حدیث ابن مسعود جو اسی صفحے میں درج ہے، اس سے اضافہ کیا گیا ہے(م)
۱۱۲)) پہلے ایڈیشن میں یہ الفاظ زائد ہیں۔ یعنی خدا پرستی اور نیک عملی (م)
۱۱۳)) پہلے ایڈیشن ص ۱۶۹ میں یہ فقرہ نہیں ہے۔ (م)
 
Top