ام الکتاب (مولانا ابولکلام آزاد)

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ 213
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ إِنَّنِي بَرَاءٌ مِّمَّا تَعْبُدُونَ ﴿43:٢٦إِلَّا الَّذِي فَطَرَنِي فَإِنَّهُ سَيَهْدِينِ ﴿43:٢٧
اور جب ابراہیم نے اپنے باپ اور قوم سے کہا تھا: تم جن (دیوتاؤں) کی پرستش کرتے ہو، مجھے ان سے کوئی سروکار نہیں، میرا اگر رشتہ ہے تو اس ذات سے جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور وہی میری رہنمائی گی۔
الَّذِي فَطَرَنِي فَإِنَّهُ سَيَهْدِينِ ﴿43:٢٧
یعنی جس خالق نے مجھے جسم و وجود عطا فرمایا ہے، ضروری ہے کہ اس نے میری ہدایت کا بھی سامان کر دیا ہو۔
سورۃ شعراء میں یہی بات زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے :
الَّذِي خَلَقَنِي فَهُوَ يَهْدِينِ ﴿26:٧٨وَالَّذِي هُوَ يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِ ﴿26:٧٩وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ ﴿26:٨٠
جس پروردگار نے مجھے پیدا کیا ہے، وہی میری ہدایت کریگا، اور پھر وہی ہے جو مجھےکھلاتا ہے اور پلاتا ہے، اور جب بیمار ہو جاتا ہوں تو شفا بخشتا ہے۔
یعنی جس پروردگار کی پروردگاری نے میری تمام ضروریات زندگی کا سامان کر دیا ہے، جو مجھے بھوک کے لیے غذا، پیاس کے لیے پانی اور بیماری میں شفا عطا فرماتا ہے، کیونکہ ممکن ہے کہ اس نے مجھے پیدا تو کر دیا ہو، لیکن میری ہدایت کا سامان نہ کیا ہو؟ اگر اس نے مجھے پیدا کیا ہے تو یقیناً وہی ہے جو طلب و سعی میں میری رہنمائی بھی کرے۔
سورۃ صفّٰت میں یہی مطلب ان لفظوں میں ادا کیا گیا ہے :
وَقَالَ إِنِّي ذَاهِبٌ إِلَىٰ رَبِّي سَيَهْدِينِ ﴿37:٩٩
اور (ابراہیم نے) کہا : میں (ہر طرف سے کٹ کر) اپنے پروردگار کا رخ کرتا ہوں، وہ میری ہدایت کرے گا۔
"ربی" کے لفظ پر غور کرو! وہ میرا "رب" ہے اور جب وہ "رب" ہے تو ضروری ہے کہ وہی مجھ پر راہ عمل بھی کھول دے۔
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ 214
ہدایت کے ابتدائی تین مرتبے
پھر ہدایت کے بھی مختلف مراتب ہیں جو ہیم حیوانات میں محسوس کرتے ہیں :
سب سے پہلا مرتبہ وجدان کی ہدایت کا ہے۔ وجدان طبیعت حیوانی کا فطری اور اندرونی الہام ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک بچہ پیدا ہوتے ہی غذا کے لیے رونے لگتا ہے اور پھر بغیر اس کے کہ خارج کی کوئی رہنمائی اسے ملی، ماں کی چھاتی منہ میں لیتے ہی اسے چوستا اور اپنی غذا حاصل کر لیتا ہے۔
وجدان کے بعد حواس کی ہدایت کا مرتبہ ہے اور وہ اس سے بلند تر ہے۔ یہ ہمیں دیکھنے، سننے، چکھنے، چھونے اور سونگھنے کی قوتیں بخشتی ہے اور انہیں کے ذریعے ہم خارج کا علم حاصل کرتے ہیں۔
ہدایت فطرت کے یہ دونوں مرتبے انسان اور حیوان سب کے لیے ہیں، لیکن جہاں تک انسان کا تعلق ہے ہم دیکھتے ہیں کہ ایک تیسرا مرتبہ ہدایت بھی موجود ہے اور وہ عقل کی ہدایت ہے۔ فطرت کی یہی ہدایت ہے جس نے انسان کے آگے غیر محدود ترقیات کا دروازہ کھول دیا ہے اور اسے کائنات ارضی کی تمام مخلوقات کا حاصل و خلاصہ بنا دیا ہے
وجدان کی ہدایت اس میں سعی و طلب کا ولولہ پیدا کرتی ہے، حواس اس کے لیے معلومات بہم پہنچاتے ہیں اور عقل نتائج و احکام مرتب کرتی ہے۔ حیوانات کو اس آخری مرتبے کی ضرورت نہ تھی، اس لیے ان کا قدم وجدان اور حواس سے آگے نہیں بڑھا، لیکن انسان میں یہ تینوں مرتبے جمع ہو گئے۔
جوہر عقل کیا ہے؟ دراصل اسی قوت کی ایک ترقی یافتہ حالت ہے جس نے حیوانات میں وجدان اور حواس کی روشنی پیدا کر دی ہے۔ جس طرح انسان کا جسم اجسام ارضی کی سب سے اعلٰی کڑی ہے۔ اسی طرح اس کی معنوی قوت بھی تمام معنوی قوتوں کا برترین جوہر ہے۔ روح حیوانی کا وہ جوہر ادراک جو نباتات میں مخفی اور حیوانات کے وجدان و مشاعر میں نمایاں تھا، انسان کے مرتبے میں پہنچ کر درجہ کمال تک پہنچ گیا اور جوہر عقل کے نام سے پکارا گیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ 215
ہر مرتبہ ہدایت ایک خاص حد سے آگے رہنمائی نہیں کر سکتا۔
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ہدایت فطرت کے ان تینوں مرتبوں میں ہر مرتبہ اپنی قوت و عمل کا ایک خاص دائرہ رکھتا ہے، اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا، اور اگر اس مرتبے سے ایک دوسرا بلند تر مرتبہ موجود نہ ہوتا تو ہماری معنوی قوتیں اس حد تک ترقی نہ کر سکتیں جس حد تک فطرت کی رہنمائی سے ترقی کر رہی ہیں۔
وجدان کی ہدایت ہم میں طلب وسعی کا جوش پیدا کرتی ہے اور مطلوبات زندگی کی راہ پر لگاتی ہے، لیکن ہمارے وجود سے باہر جو کچھ موجود ہے اس کا ادراک حاصل نہیں کر سکتی، یہ کام مرتبہ حواس کی ہدایت کا ہے۔ وجدان کی رہنمائی جب درماندہ ہو جاتی ہے تو حواس کی دستگیری نمایاں ہوتی ہے، آنکھ دیکھتی ہے، کان سنتا ہے، زبان چکھتی ہے، ہاتھ چھوتا ہے، ناک سونگھتی ہے، اور اس طرح ہم اپنے وجود سے باہر کی تمام محسوس اشیاء کا ادراک حاصل کر لیتے ہیں۔
لیکن حواس کی ہدایت بھی ایک خاص حد تک ہی کام دے سکتی ہے، اس سے آگے نہیں بڑھ سکتی۔ آنکھ دیکھتی ہے، مگر صرف اسی حالت میں جب کہ دیکھنے کی تمام شرطیں موجود ہوں۔ اگر کوئی ایک شرط بھی نہ پائی جائے مثلاً روشنی نہ ہو یا فاصلہ زیادہ ہو تو ہم آنکھ رکھتے ہوئے بھی ایک موجود چیز کو براہ راست نہیں دیکھ سکتے۔ علاوہ بریں حواس کی ہدایت صرف اتنا ہی کر سکتی ہے کہ اشیاء کی احساس پیدا کر دے۔ لیکن مجرد احساس کافی نہیں ہے۔ ہمیں استنباط و استثناج کی ضرورت ہے، احکام کی ضرورت ہے، کلیات کی ضرورت ہے اور یہ کام عقل کی ہدایت کا ہے۔ وہ ان تمام مدرکات کو جو حواس کے ذریعے حاصل ہوتی ہیں، ترتیب دیتی ہے اور ان سے احکام و کلیات کا استنباط کرتی ہے۔
ہر مرتبہ ہدایت اپنی تصحیح و نگرانی میں بالاتر مرتبہ ہدایت کا محتاج ہے۔
علاوہ بریں جس طرح وجدان کی نگرانی کے لیے حواس و مشاعر کا ضرورت تھی، اسی طرح حواس کی تصحیح و نگرانی کے لیے عقل کی ضرورت ہوئی۔ حواس کا ذریعہ ادراک نہ صرف محدود ہی ہے، بلکہ بسا اوقات غلطی و گمراہی سے بھی محطوظ نہیں۔ ہم دور سے ایک چیز دیکھتے
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ 216
ہیں اور محسوس کرتے ہیں کہ ایک سیاہ نقطے سے زیادہ حجم نہیں رکھتی، حالانکہ وہ ایک عظیم الشان گنبد ہوتا ہے۔ ہم بیماری حالت میں شہد جیسی میٹھی چیز چکھتے ہیں، لیکن ہمارا حاسئہ ذوق یقین دلاتا ہے کہ مزہ کڑوا ہے۔ ہم تالاب میں ایک لکڑی کا عکس دیکھتے ہیں، لکڑی مستقیم ہوتی ہے، لیکن عکس میں ٹیڑھی دکھائی دیتی ہے۔ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ کسی عارضے کی وجہ سے کان بجنے لگتے ہیں اور ہمیں ایسی صدائیں سنائی دیتی ہیں جن کا خارج میں کوئی وجود نہیں۔ اگر مرتبہء حواس سے ایک بلند مرتبہ ہدایت کا وجود نہ ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ ہم حواس کی ان درماندگیوں میں حقیقت کا سراغ پا سکتے۔ لیکن ان تمام حالتوں میں عقل کی ہدایت نمودار ہوتی ہے، وہ حواس کی درماندگیوں میں ہماری رہنمائی کرتی ہے، وہ ہمیں بتاتی ہے کہ سورج ایک عظیم الشان کرہ ہے، اگرچہ ہماری آنکھ اسے ایک سنہری تھال سے زیادہ محسوس نہیں کرتی۔ وہ ہمیں بتلاتی ہے کہ شہد کا مزہ ہر حال میں میٹھا ہے اور اگر ہمیں کڑوا محسوس ہوا ہے تو یہ اس لیے ہے کہ ہمارے منہ کا مزہ بگڑ گیا ہے۔ اسی طرح وہ ہمیں بتلاتی ہے کہ بعض اوقات خشکی بڑھ جانے سے کان بجنے لگتے ہیں اور اس حالت میں جو صدائیں سنائی دیتی ہیں وہ خارج کی صدائیں نہیں ہوتیں، خود ہمارے ہی دماغ کی گونج ہوتی ہے۔
ہدایت فطرت کا چوتھا مرتبہ
لیکن جس طرح وجدان کے بعد حواس کی ہدایت نمودار ہوئی، کیونکہ وجدان کی ہدایت ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھ سکتی تھی، اور جس طرح حواس کے بعد عقل کی ہدایت نمودار ہوئی، کیونکہ حواس کی ہدایت بھی ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھ سکتی تھی، ٹھیک اسی طرح ہم محسوس کرتے ہیں کہ عقل کی ہدایت کے بعد بھی ہدایت کا کوئی مزید مرتبہ ہونا چاہیے، کیونکہ عقل کی ہدایت بھی ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھ سکتی اور اس کے دائرہ عمل کے بعد بھی ایک دائرہ باقی رہ جاتا ہے۔ عقل کی کارفرمائی جیسی کچھ اور جتنی کچھ بھی ہے محسوسات کے دائرے میں محدود ہے، یعنی وہ صرف اسی حد تک کام دے سکتی ہے جس حد تک ہمارے حواس خمسہ معلومات بہم پہنچاتے رہتے ہیں۔ لیکن محسوسات کی سرحد سے آگے کیا ہے؟ اس پردے کے پیچھے کیا ہے جس سے آگےہماری چشم حواس نہیں بڑھ سکتی؟ یہاں
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ 217
پہنچ کر عقل یک قلم درماندہ ہو جاتی ہے، اس کی ہدایت ہمیں کوئی روشنی نہیں دے سکتی۔
علاوہ بریں جہاں تک انسان کی عملی زندگی کا تعلق ہے، عقل کی ہدایت نہ تو ہر حال میں کافی ہے، نہ ہر حال میں مؤثر۔ نفس انسانی طرح طرح کی خواہشوں اور جذبوں سے کچھ اس طرح مقہور واقع ہوا ہے کہ جب کبھی عقل اور جذبات میں کش مکش ہوتی ہے تو اکثر حالتوں میں فتح جذبات ہی کے لیے ہوتی ہے۔ بسا اوقات عقل ہمیں یقین دلاتی ہے کہ فلاں فعل مضر اور مہلک ہے۔ لیکن جذبات ہمیں ترغیت دیتے ہیں اور ہم اس کے ارتکاب سے اپنے آپ کو نہیں روک سکتے۔ عقل کی بڑی سے بڑی دلیل بھی ہمیں ایسا نہیں بنا دے سکتی کہ غصے کی حالت میں بے قابو نہ ہو جائیں اور بھوک کی حالت میں مضر غذا کی طرف ہاتھ نہ بڑھائیں۔
اچھا! اگر خدا کی ربوبیت کے لیے ضروری تھا کہ وہ ہمیں وجدان کے ساتھ حواس بھی دے، کیونکہ وجدان کی ہدایت ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھ سکتی، اور اگر ضروری تھا کہ حواس کے ساتھ عقل بھی دے، کیوں کہ حواس کی ہدایت بھی ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھ سکتی تو کیا ضروری نہ تھا کہ عقل کے ساتھ کچھ اور بھی دے؟ کیوں کہ عقل کی ہدایت بھی ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھ سکتی اور اعمال کی درستگی و انضباط کے لیے کانی نہیں اگر اس نے وجدان کے ساتھ حواس بھی دیے تاکہ وجدان کی لغزشوں میں نگرانی کریں، اور حواس کے ساتھ عقل بھی دی تاکہ حواس کی غلطیوں میں قاضی و حاکم ہو تو کیا ضروری نہ تھا کہ عقل کے ساتھ کچھ اور بھی دیتا؟ تاکہ عقل کی درماندگیوں میں رہنما ہوتا اور فیصلہ کن ہوتا۔
قرآن کہتا ہے کہ ضروری تھا، اور اسی لیے اللہ کی ربوبیت نے انسان کے لیے ایک چوتھے مرتبہ ہدایت کا بھی سامان کر دیا۔ یہی مرتبہ ہدایت ہے جسے وہ وحی و نبوت کی ہدایت سے تعبیر کرتا ہے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں اس نے جابجا ان مراتب ہدایت کا ذکر کیا ہے اور انہیں ربوبیت الہٰی کی سب سے بڑی بخشش و مرحمت قرار دیا ہے :
إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا ﴿٢إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا ﴿٣﴾ (76: 2، 3)
ہم نے انسانوں کو ملے جلے نطفے سے پیدا کیا جسے (ایک کے بعد ایک) مختلف
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ 218
حالتوں میں پلٹتے ہیں، پھر اسے ایسا بنا دیا کہ سننے والا اور دیکھنے والا وجود ہو گیا۔ ہم نے اس پر راہ عمل کھول دی۔ اب یہ اس کا کام ہے کہ یا تو شکر کرنے والا ہو یا ناشکرا (یعنی یا تو خدا کی دی ہوئی قوتیں ٹھیک ٹھیک کام میں لائے اور فلاح و سعادت کی راہ اختیار کرے یا ان سے کام نہ لے اور گمراہ ہو جائے)۔
أَلَمْ نَجْعَل لَّهُ عَيْنَيْنِ ﴿٨ وَلِسَانًا وَشَفَتَيْنِ ﴿٩ وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ ﴿١٠﴾ (90: 8-10)
کیا ہم نے اسے ایک چھوڑ دو دو آنکھیں نہیں دے دی ہیں (جن سے وہ دیکھتا ہے)۔ اور زبان اور ہونٹ نہیں دیے ہیں (جو گویائی کا ذریعہ ہیں) اور کیا اس کو ہم نے (سعادت و شقاوت کی) دونوں راہیں نہیں دکھا دیں؟
وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۙ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴿16:٧٨
اور اللہ نے تمہارے لیے سننے اور دیکھنے کے حواس پیدا کر دیے اور سوچنے کے لیے دل (یعنی عقل) تاکہ تم شکر گزار ہو (یعنی خدا کی دی ہوئی قوتیں ٹھیک طریقے پر کام میں لاؤ)۔
ان آیات اور ان کی ہم معنی آیات میں حواس اور مشاعر اور عقل و فکر کی ہدایت کی اشارات کیے گئے ہیں، لیکن وہ تمام مقامات جہاں انسان کی روحانی سعادت کا ذکر کیا گیا ہے، وحی و نبوت کی ہدایت سے متعلق ہیں، مثلا :
إِنَّ عَلَيْنَا لَلْ۔هُدَىٰ ﴿١٢ وَإِنَّ لَنَا لَلْآخِرَةَ وَالْأُولَىٰ ﴿١٣﴾ (92: 12-13)
بلا شبہ یہ ہمارا کام ہے کہ ہم رہنمائی کریں اور یقیناً آخرت اور دنیا دونوں ہمارے ہی لیے ہیں۔
وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْنَاهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمَىٰ عَلَى الْهُدَىٰ ﴿41:١٧
اور باقی رہی قوم ثمود تو اسے بھی ہم نے راہ (حق) دکھلا دی تھی، لیکن اس نے ہدایت کی راہ چھوڑ کر اندھے پن کا شیوہ پسند کیا۔
وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ وَإِنَّ اللَّ۔هَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ ﴿29:٦٩
اور جن لوگوں نے ہماری راہ میں جاں فشانی کی تو ضروری ہے کہ ہم بھی ان پر اپنی راہیں کھول دیں۔ اور بلاشبہ اللہ ان لوگوں کا ساتھی ہے جو نیک عمل ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ 219
الھدی
چنانچہ اس سلسلے میں وہ اللہ کی ایک خاص ہدایت کا ذکر کرتا ہے اور اسے "الھدی" کے نام سے پکارتا ہے، یعنی الف لام تعریف کے ساتھ :
قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّ۔هِ هُوَ الْهُدَىٰ ۖ وَأُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿6:٧١
(اے پیغمبر ان سے) کہہ دو! یقیناً اللہ کی ہدایت تو "الھدی" ہے۔ اور ہم سب کو (اسی بات کا) حکم دیا گیا ہے کہ تمام جہانوں کے پروردگار کے آگے سر عبودیت جھکا دیں۔
وَلَن تَرْضَىٰ عَنكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ ۗ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّ۔هِ هُوَ الْهُدَىٰ ۗ﴿2:١٢٠
اور (یاد رکھو!) یہودی تم سے خوش ہونے والے نہیں جب تک کہ تم ان کی ملت کی پیروی نہ کرو اور یہی حال نصاریٰ کا ہے۔ (اے پیغمبر! تم ان سے) کہہ دو اللہ کی ہدایت کی راہ تو وہی ہے جو "الھدی" ہے (یعنی ہدایت کی حقیقی اور عالم گیر راہ) یہ "الھدی" یعنی ہدایت کی ایک ہی اور حقیقی راہ کون سی ہے؟
قرآن کہتا ہے : وحی الہٰی کی عالم گیر ہدایت ہے جو اول دن سے دنیا میں موجود ہے اور بلا تفریق و امتیاز تمام نوع انسان کے لیے ہے۔ وہ کہتا ہے : جس طرح خدا نے وجدان، حواس اور عقل کی ہدایت میں نہ تو نسل و قوم کا امتیاز رکھا نہ زمان و مکان کا، اسی طرح اس کی ہدایت وحی بھی ہر طرح کے تفرقے و امتیاز سے پاک ہے۔ وہ سب کے لیے ہے اور سب کو دی گئی ہے۔ اور اس ایک ہدایت کے سوا اور جتنی ہدایتیں بھی انسانوں نے سمجھ رکھی ہیں، سب انسانی بناوٹ کی راہیں ہیں۔ خدا کی ٹھہرائی ہوئی راہ صرف یہی ایک راہ ہے۔
اسی لیے وہ ہدایت کی ان تمام صورتوں سے یک قلم انکار کرتا ہے جو اس اصل سے منحرف ہو کر طرح طرح کی مذہبی گروہ بندیوں اور مخالف ٹولیوں میں بٹ گئی ہیں اور سعادت و نجات کی عالم گیر حقیقت خاص خاص گروہوں اور حلقوں کی میراث بنا لی گئی ہے۔ وہ کہتا ہے : انسانی بناوٹ کی یہ الگ الگ راہیں ہدایت کی راہ نہیں ہو سکتیں۔ ہدایت کی راہ تو وہی عالم گیر ہدایت کی راہ ہے۔ اسی عالم گیر ہدایت وحی کو وہ "الدین" کے نام سے پکارتا ہے، یعنی نوع انسانی کے لیے حقیقی دین، اور اسی کا نام اس کی زبان میں "الاسلام" ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ 220
وحدت دین کی اصل عظیم اور قرآن حکیم
یہ اصل عظیم قرآن کی دعوت کی سب سے پہلی بنیاد ہے۔ وہ جو کچھ بھی بتانا چاہتا ہے تمام تر اسی اصل پر مبنی ہے۔ اگر اس اصل سے قطع نظر کر لی جائے تو اس کا تمام کارخانہ دعوت درہم برہم ہو جائے۔ لیکن تاریخ عالم کی عجائب تصرفات میں سے یہ واقعہ بھی سمجھنا چاہیے کہ جس درجہ قرآن نے اس اصل پر زور دیا تھا، اتنا ہی زیادہ دنیا کی نگاہوں نے اس سے اعراض کیا حتی کہ کہا جا سکتا ہے : آج قرآن کی کوئی بات بھی دنیا کی نظروں سے اس درجہ پوشیدہ نہیں ہے جس قدر کہ یہ اصل عظیم۔ اگر ایک شخص ہر طرح کے خارجی اثرات سے خالی الذہن ہو کر قرآن کا مطالعہ کرے اور اس کے صفحات میں جابجا اس اصل عظیم کے قطعی اور واضح اعلانات پڑھے اور پھر دنیا کی طرف نظر اٹھائے جو قرآن کی حقیقت اس سے زیادہ نہیں سمجھتی کہ بہت سی مذہبی گروہ بندیوں کی طرح وہ بھی ایک مذہبی گروہ بندی ہے تو یقیناً وہ حیران ہو کر پکار اٹھے گا : یاتو اس کی نگاہیں اسے دھوکا دے رہی ہیں یا دنیا ہمیشہ آنکھیں کھولے بغیر ہی اپنے فیصلے صادر کیا کرتی ہے۔
دین کی حقیقت اور قرآن کی تصریحات
اس حقیقت کی توضیح کے لیے ضروری ہے کہ ایک مرتبہ تفصیل کے ساتھ یہ بات واضح کر دی جائے کہ جہاں تک وحی و نبوت کا یعنی دین کا تعلق ہے، قرآن کی دعوت کیا ہے اور کس راہ کی طرف نوع انسانی کو لے جانا چاہتی ہے؟
جمعیت بشری کی ابتدائی وحدت، پھر اختلاف اور ہدایت وحی کا ظہور
اس باب میں قرآن نے جو کچھ بیان کیا ہے اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے۔
وہ کہتا ہے : ابتدا میں انسانی جمعیت کا یہ حال تھا کہ لوگ قدرتی زندگی بسر کرتے تھے اور ان میں نہ تو کسی طرح کا باہمی اختلاف تھا نہ کسی طرح کی مخاصمت۔ سب کی زندگی ایک ہی طرح کی تھی اور سب اپنی قدرتی یگانگت پر قانع تھے۔ پھر ایسا ہوا کہ نسل انسانی کی کثرت اور ضروریات معیشت کی وسعت سے طرح طرح کی اختلافات پیدا ہو گئے اور اختلافات
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ 221
نے تفرقہ و انقطاع اور ظلم و فساد کی صورت اختیار کر لی۔ ہر گروہ دوسرے گروہ سے نفرت کرنے لگا اور ہر زبردست زیردست کے حقوق پامال کرنے لگا۔ جب یہ صورت حال پیدا ہوئی تو ضروری ہوا کہ نوع انسانی کی ہدایت اور عدل و صداقت کے قیام کے لیے وحی الہٰی کی روشنی نمودار ہو۔ چنانچہ یہ روشنی نمودار ہوئی اور خدا کی رسولوں کی دعوت و تبلیغ کا سلسلہ قائم ہو گیا۔ وہ ان تمام رہنماؤں کو جن کے ذریعے اس ہدایت کا سلسلہ قائم ہوا "رسول" سے تعبیر کرتا ہے، کیونکہ وہ خدا کی سچائی کا پیغام پہنچانے والے تھے اور "رسول" کے معنی پیغام پہنچانے والے ہیں :
وَمَا كَانَ النَّاسُ إِلَّا أُمَّةً وَاحِدَةً فَاخْتَلَفُوا ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ فِيمَا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ﴿10:١٩
اور ابتدا میں تمام انسانوں کا ایک ہی گروہ تھا (الگ الگ گروہوں میں متفرق نہ تھے) پھر ایسا ہوا کہ وہ باہم دگر مختلف ہو گئے۔ اور اگر اس بارے میں تمہارے پروردگار نے پہلے سے ایک فیصلہ نہ کر دیا ہوتا (یعنی یہ کہ انسانوں میں اختلاف ہو گا اور مختلف راہیں لوگ اختیار کریں گے) تو جن باتوں میں لوگ اختلاف کرتے ہیں، ان کا (یہیں دنیا میں) فیصلہ صادر کر دیا جاتا۔
كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّ۔هُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ ۚ﴿2:٢١٣
ابتدا میں تمام انسان ایک ہی گروہ تھے (پھر ان میں اختلاف پیدا ہوا) پس اللہ نے (یکے بعد دیگرے) نبیوں کو مبعوث کیا۔ وہ (نیک عملی کے نتائج) بشارت دیتے اور (بدعملی کے نتائج سے) متنبہ کرتے۔ میزان کے ساتھ "الکتاب" (یعنی وحی الہٰی سے لکھی جانے والی تعلیم) نازل کی، تاکہ جن باتوں میں لوگ اختلاف کرنے لگے تھے، ان میں وہ فیصلہ کر دینے والی ہو۔
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ 222
عموم ہدایت
یہ ہدایت کسی خاص ملک و قوم یا عہد کے لئے مخصوص نہ تھی، بلکہ تمام نوع انسانی کے لیے تھی۔ چنانچہ ہر زمانے اور ہر ملک میں یکساں طور پر اس کا ظہور ہوا۔ قرآن کہتا ہے : دنیا کا کوئی گوشہ نہیں جہاں نسل انسانی آباد ہوئی ہو اور خدا کا کوئی رسول مبعوث نہ ہوا ہو :
وَإِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ ﴿35:٢٤
اور کوئی قوم دنیا کی ایسی نہیں جس میں (بدعملیوں کے نتائج سے) متنبہ کرنے والا (خدا کا کوئی رسول) نہ گزرا ہو۔
إِنَّمَا أَنتَ مُنذِرٌ ۖ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ ﴿13:٧
(اے پیغمبر!) بلا شبہ تم اس کے سوا اور کیا ہو کہ (بد عملیوں کے نتائج سے) متنبہ کرنے والے ہو اور دنیا میں ہر قوم کے لیے ایک ہدایت کرنے والا ہوا ہے۔
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولٌ ۖ فَإِذَا جَاءَ رَسُولُهُمْ قُضِيَ بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ﴿٤٧
اور ہر قوم کے لیے ایک رسول ہے۔ پس جب رسول ظاہر ہوتا ہے تو تمام باتوں کا انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔
نسل انسانی کے ابتدائی عہد اور خدا کے رسول
وہ کہتا ہے : نسل انسانی کے ابتدائی عہدوں میں کتنے ہی پیغمبر گزرے ہیں جو یکے بعد دیگرے مبعوث ہوئے اور قوموں کو پیغام حق پہنچایا :
وَكَمْ أَرْسَلْنَا مِن نَّبِيٍّ فِي الْأَوَّلِينَ ﴿٦
اور کتنے ہی نبی ہیں جو ہم نے پہلوں میں (یعنی ابتدائی عہد کی قوموں میں) مبعوث کیے۔
عدل الہٰی اور بعثت رسول
وہ کہتا ہے : یہ بات عدل الہٰی کے خلاف ہے کہ ایک گروہ اپنے اعمال بد کے لیے
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ 223
جواب دہ ٹھہرایا جائے، حالانکہ اس کی ہدایت کے لیے کوئی رسول نہ بھیجا گیا ہو :
وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا ﴿١٥
اور (ہمارا قانون یہ ہے کہ ) جب تک ہم ایک پیغمبر مبعوث کر کے راہ ہدایت دکھا نہ دیں، اس وقت تک (پاداش عمل میں) عذاب دینے والے نہیں۔
وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرَىٰ حَتَّىٰ يَبْعَثَ فِي أُمِّهَا رَسُولًا يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا ۚ وَمَا كُنَّا مُهْلِكِي الْقُرَىٰ إِلَّا وَأَهْلُهَا ظَالِمُونَ ﴿٥٩
اور (یاد رکھو!) تمہارے پروردگار کا قانون یہہے کہ وہ کبھی انسان کی بستیوں کو (پاداش عمل میں) ہلاک نہیں کرتا، جب تک کہ ان میں ایک پیغمبر مبعوث نہ کر دے اور وہ خدا کی آیتیں پڑھ کر نہ سنا دے، اور ہم کبھی بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہیں، مگر صرف اسی حالت میں کہ ان کے باشندوں نے ظلم کا شیوہ اختیار کر لیا ہو۔
بعض رسولوں کا ذکر کیا گیا، بعض کا نہیں کیا گیا
خدا کے ان رسولوں اور دین الہٰی کے داعیوں میں سے بعض کا ذکر قرآن میں کیا گیا ہے، بعض کا نہیں کیا گیا :
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ مِنْهُم مَّن قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُم مَّن لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ ۗ﴿40:٧٨
اور (اے پیغمبر!) ہم نے تم سے پہلے کتنے ہی پیغمبر مبعوث کیے۔ ان میں سے کچھ ایسے ہیں جن کے حالات تمہیں سنائے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جن کے حالات نہیں سنائے (یعنی قرآن میں ان کا ذکر نہیں کیا گیا)
بے شمار قومیں اور بے شمار رسول
قوم نوح اور عاد و ثمود کے بعد کتنی ہی قومیں گزر چکی ہیں جن کا ٹھیک ٹھیک حال اللہ کو معلوم ہے :
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ 224
أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَأُ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ ۛ وَالَّذِينَ مِن بَعْدِهِمْ ۛ لَا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا اللَّ۔هُ ۚ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ ﴿14:٩
تم سےپہلے جو قومیں گزر چکی ہیں، کیا تم تک ان کی خبر نہیں پہنچی؟ قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود اور وہ قومیں جو ان کے بعد ہوئیں۔ جن کی ٹھیک ٹھیک تعداد اللہ ہی کو معلوم ہے۔ ان سب میں ان کے پیغمبر سچائی کی روشنیوں کے ساتھ مبعوث ہوئے، مگر انہوں نے جہل اور سرکشی سے ان کی تعلم انہیں پر لوٹا دی اور کان دھرنے سے انکار کر دیا۔
ہدایت ہمیشہ ایک ہی رہی اور وہ ایمان اور عمل صالح کی دعوت کے سوا کچھ نہ تھی
فطرت الہٰی کی راہ کائنات ہستی کے ہر گوشے میں ایک ہی ہے۔ وہ نہ تو ایک سے زیادہ ہو سکتی ہے نہ باہم دگر مختلف۔ پس ضروری تھا کہ یہ ہدایت بھی اول دن سے ایک ہی ہوتی اور ایک ہی طرح پر تمام انسانوں کو مخاطب کرتی۔ چنانچہ قرآن کہتا ہے : خدا کے جتنے پیغامبر پیدا ہوئے، خواہ کسی زمانے اور کسی گوشے میں ہوئے ہوں، سب کی راہ ایک ہی تھی اور سب خدا کے ایک ہی عالم گیر قانون سعادت کی تعلیم دینے والے تھے۔ یہ عالم گیر قانون سعادت کیا ہے؟ ایمان اور عمل صالح کا قانون ہے۔ یعنی ایک پرودگار عالم کی پرستش کرنی اور نیک عملی کی زندگی بسر کرنی۔ اس کے علاوہ اور اس کے خلاف جو کچھ بھی دین کے نام سے کہا جاتا ہے، دین حقیقی کی تعلیم نہیں ہے :
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّ۔هَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ۖ﴿16:٣٦
اور بلا شبہ ہم نے دنیا کی ہر قوم میں ایک پیغمبر مبعوث کیا (جس کی تعلیم یہ تھی) کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے (یعنی سرکش اور شریر قوتوں کے اغوا سے) اجتناب کرو۔
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَ۔ٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ ﴿21:٢٥
اور (اے پیغمبر!) ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول دنیا میں نہیں بھیجا مگر اس وحی کے ساتھ کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، پس میری ہی عبادت کرو۔
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ 225
سب نے ایک ہی دین پر اکٹھے رہنے اور تفرقہ و اختلاف سے بچنے کی تعلم دی۔
وہ کہتا ہے : دنیا میں کوئی بانی مذہب بھی ایسا نہیں ہوا ہے جس نے ایک ہی دین پر اکٹھے رہنے اور تفرقہ و اختلاف سے بچنے کی تعلیم نہ دی ہو۔ سب کی تعلیم یہی تھی کہ خدا کا دین بچھڑے ہوئے انسانوں کو جمع کر دینے کے لیے ہے۔ الگ الگ کر دینے کے لیے نہیں ہے۔ پس ایک پرودگار عالم کی بندگی و نیاز میں سب متحد ہو جاؤ اور تفرقہ و مخاصمت کی جگہ باہمی محبت و یک جہتی کی راہ اختیار کرو۔
وَإِنَّ هَ۔ٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُونِ ﴿23:٥٢
اور (دیکھو!)یہ تمہاری امت فی الحقیقت ایک ہی امت ہے اور میں تم سب کا پروردگار ہوں، پس (میری عبودیت و نیاز کی راہ میں تم سب ایک ہو جاؤ اور) نافرمانی سے بچو۔
وہ کہتا ہے : خدا نے تمہیں ایک ہی جامہ انسانیت دیا تھا، لیکن تم نے طرح طرح کے بھیس اور نام اختیار کر لیے اور رشتہ انسانیت کی وحدت سینکڑوں ٹکڑوں میں بکھر گئی۔ تمہاری نسلیں بہت سی ہیں، اس لیے تم نسل کے نام پر ایک دوسرے سے الگ ہو گئے ہو۔ تمہارے وطن بہت سے بن گئے ہیں۔ اس لیے اختلاف وطن کے نام پر ایک دوسرے سے لڑ رہے ہو۔ تمہاری قومیتیں بیشمار ہیں، اس لیے ہر قوم دوسری قوم سے دست و گریباں ہو رہی ہے۔ تمہارے رنگ یکساں نہیں اور یہ بھی باہمی نفرت و عناد کا ایک بڑا ذریعہ بن گیا ہے۔ تمہاری بولیاں مختلف ہیں اور یہ بھی ایک دوسرے سے جدر رہنے کی بہت بڑی حجت بن گئی ہے۔ پھر ان کے علاوہ امیر و فقیر، نوکر و آقا، وضیع و شریف، ضعیف و قوی، ادنیٰ و اعلیٰ بے شمار اختلاف پیدا کر لیے گئے ہیں اور سب کا منشا یہی ہے کہ ایک دوسرے سے جدا ہو جاؤ اور ایک دوسرے سے نفرت کرتے رہو۔ ایسی حالت میں بتلاؤ وہ رشتہ کون سا رشتہ ہے جو اتنے اختلافات رکھنے پر بھی انسانوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دے اور انسانیت کا بچھڑا ہوا گھرانا پھر از سر نو آباد ہو جائے؟ وہ کہتا ہے : صرف ایک رشتہ ہے۔ تم کتنے ہی الگ الگ ہو گئے ہو، لیکن تمہارے خدا الگ الگ نہیں ہو جا سکتے۔ تم سب ایک ہی پرودگار کے بندے ہو۔ تم بیشمار اختلافات رکھنے پر بھی ایک ہی رشتہ عبودیت میں جکڑے ہوئے ہو۔ تمہاری کوئی نسل
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ 226
ہو، تمہارا کوئی وطن ہو، تمہاری کوئی قومیت ہو، تم کسی درجے میں اور کسی حلقے کے انسان ہو، لیکن جب ایک ہی پروردگار کے آگے سر نیاز جھکا دو گے تو یہ آسمانی رشتہ تمہارے تمام ارضی اختلافات مٹا دے گا۔ تم سب کے بچھڑے ہوئے دل ایک دوسرے سے جڑ جائیں گے۔ تم محسوس کرو گے کہ تمام دنیا تمہارا وطن ہے، تمام نسل انسانی تمہارا گھرانا ہے اور تم سب ایک ہی "رب العٰلمین" کی عیال ہو۔
چنانچہ وہ کہتا ہے : خدا کے جتنے رسول بھی پیدا ہوئے، سب کی تعلیم یہی تھی کہ "الدین" پر یعنی بنی نوع انسانی کے ایک ہی عالم گیر دین پر قائم رہو اور اس راہ میں ایک دوسرے سے الگ الگ نہ ہو جاؤ :
شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ مَا وَصَّىٰ بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَىٰ ۖ أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ ۚ﴿42:١٣
اور (دیکھو!) اس نے تمہارے لیے دین کی وہی راہ قرار دی ہے جس کی وصیت نوح کو کی گئی تھی اور جس پر چلنے کا حکم ابراھیم، موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا تھا۔ (ان سب کی تعلیم یہی تھی) کہ الدین (یعنی خدا کا ایک ہی دین) قائم رکھو اور اس راہ میں الگ الک نہ ہو جاؤ۔
قرآن کی تحدی، کہ اس حقیقت کے خلاف کوئی مذہبی تعلیم اور روایت نہیں پیش کی جا سکتی ہے۔
اسی بنا پر وہ بطور ایک دلیل کے اس بات پر زور دیتا ہے کہ اگر تمہیں میری تعلیم کی سچائی سے انکار ہے تو کسی مذہب کی الہامی کتاب سے بھی ثابت کر دکھاؤ کہ دین حقیقی کی راہ اس کے سوا کچھ اور بھی ہو سکتی ہے۔ تم جس مذہب کی بھی حقیقی تعلیم دیکھو گے، اصل و بنیاد یہی ملے گی ؛
قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ ۖ هَ۔ٰذَا ذِكْرُ مَن مَّعِيَ وَذِكْرُ مَن قَبْلِي ۗ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ الْحَقَّ ۖ فَهُم مُّعْرِضُونَ ﴿٢٤وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَ۔ٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ ﴿٢٥﴾ (21: 24-25)
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ 227
(اے پیغمبر! ان سے) کہہ دو: (اگر تمہیں میری تعلیم سے انکار ہے تو) اپنی دلیل پیش کرو۔ یہ تعلیم موجود ہے جس پر میرے ساتھ یقین رکھتے ہیں اور اسی طرح وہ تمام تعلیمیں بھی موجود ہیں جو مجھ سے پہلے قوموں کو دی گئیں (تم ثابت کر دکھاؤ کسی نے بھی میری تعلیم کے خلاف تعلیم دی ہو)۔ اصل یہ ہے کہ ان (منکرین حق) میں اکثر آدمی ایسے ہیں جنہیں سرے سے امر حق کی خبر ہی نہیں اور اس لیے حقیقیت کی طرف منہ موڑے ہوئے ہیں۔ (اے پیغمبر! یقین کر) ہم نے تجھ سے پہلے کوئی پیغمبر بھی ایسا نہیں بھیجا جسے اس بات کے سوا کوئی دوسری بات بتلائی گئی ہو کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، پس میری ہی عبادت کرو۔
اتنا ہی نہیں، بلکہ وہ کہتا ہے : علم و بصیرت کے کسی قول اور روایت سے تم ثابت کر دکھاؤ کہ جو کچھ میں بتلا رہا ہوں، یہی تمام پچھلی دعوتوں کی تعلیم نہیں رہی ہے۔
ائْتُونِي بِكِتَابٍ مِّن قَبْلِ هَ۔ٰذَا أَوْ أَثَارَةٍ مِّنْ عِلْمٍ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿46:٤
اگر تم (اپنے انکار میں) سچے ہو تو (ثبوت میں) کوئی کتاب پیش کرو جو اب سے پہلے نازل ہوئی ہو یا (کم از کم) علم و بصیرت کی کوئی پچھلی روایت ہی لا دکھاؤ جو تمہارے پاس موجود ہو۔
تمام مقدس کتابوں کی باہم دگر تصدیق اور اس سے قرآن کا استدلال
اسی بناء پر وہ تمام مذاہب عالم کی باہم دگر تصدیق کو بھی بطور ایک دلیل کے پیش کرتا ہے۔ یعنی وہ کہتا ہے : ان میں سے ہر تعلیم دوسری تعلیم کی تصدیق کرتی ہے، جھٹلاتی نہیں۔ اور جب ہر تعلیم دوسری تعلیم کی تصدیق کرتی ہے تو اس سے معلوم ہوا ان تمام تعلیمات کے اندر کوئی ایک ہی ثابت و قائم حقیقت ضرور کام کر رہی ہے، کیونکہ اگر مختلف وقتوں، مختلف گوشوں، مختلف قوموں، مختلف ناموں، مختلف پیرایوں اور مختلف زبانوں سے کوئی بات کہی گئی ہو اور باوجود ان تمام اختلافات کے بات ہمیشہ ایک ہی ہو اور ایک ہی مقصد پر زور دیتی ہو قدرتی طور پر تمہیں ماننا پڑے گا کہ ایسی بات اصلیت سے خالی نہیں ہو سکتی :
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ 228
نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَأَنزَلَ التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ ﴿٣مِن قَبْلُ هُدًى لِّلنَّاسِ ﴿٤﴾ (3: 3-4)
(اے پیغمبر!) اللہ نے تم پر یہ کتاب سچائی کے ساتھ نازل کی ہے جو ان کتابوں کی تصدیق کرتی ہے جو اس سے پہلے نازل ہو چکی ہیں۔ اور اسی طرح لوگوں کی ہدایت کے لیے اس نے تورات اور انجیل نازل کی تھی۔
وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ فِيهِ هُدًى وَنُورٌ وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ ﴿5:٤٦
اور ہم نے عیسیٰ کو انجیل عطا کی، اس میں انسان کے لیے ہدایت اور روشنی ہے، اور اس سے پہلے جو تورات نازل ہو چکی تھی وہ اس کی تصدیق کرتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں اس کے بیان و موعظف کا ایک بڑا موضوع پچھلے عہدوں کی ہدایتوں اور رسالتوں کا تذکرہ ہے۔ وہ ان کی یکسانی، ہم آہنگی اور وحدت تعلیم سے مذہبی صداقت کے تمام مقاصد پر استشہاد کرتا ہے۔
"الدین" اور "الشرع"
ادیان کا اختلاف
اچھا! اگر تمام نوع انسانی کے لیے دین ایک ہی ہے اور تمام بانیان مذاہب نے ایک ہی اصل و قانون کی تعلیم دی ہے تو پھر مذاہب کا اختلاف کیوں ہوا؟ کیوں تمام مذہبوں میں ایک ہی طرح کے احکام، ایک ہی طرح کے اعمال، ایک ہی طرح کے رسوم و ظواہر نہ ہوئے؟ کسی مذہب میں عبادت کی ایک خاص شکل اختیار کی گئی ہے۔ کسی میں دوسری، کسی مذہب کے ماننے والے دوسری طرف۔ کسی کے ہاں احکام و قوانین ایک خاص طرح کی نوعیت کے ہیں، کسی کے ہاں دوسری طرح کے۔
اختلاف دین میں نہیں ہوا، شرع و منہاج میں ہوا اور یہ ناگزیر تھا
قرآن کہتا ہے : مذاہب کا اختلاف دو طرح کا ہے۔ ایک اختلاف تو وہ ہے جو پیروان مذاہب نے مذہب کی حقیقی تعلیم سے منحرف ہو کر پیدا کر لیا ہے۔ یہ اختلاف مذاہب کا
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ 229
اختلاف نہیں ہے، پیروان مذہب کی گم راہی کا نتیجہ ہے۔ دوسرا اختلاف وہ ہے جو فی الحقیقت مذاہب کے احکام و اعمال میں پایا جاتا ہے۔ مثلاً ایک مذہب میں عبادت کی کوئی خاص شکل اختیار کی گئی ہے، دوسرے میں کوئی دوسری شکل تو یہ اختلاف اصل و حقیقت کا اختلاف نہیں ہے، محض فروع و ظواہر کا اختلاف ہے اور ضروری تھا کہ ظہور میں آتا۔
وہ کہتا ہے : مذاہب کی تعلیم دو قسم کی باتوں سے مرکب ہے۔ ایک قسم تو وہ ہے جو ان کی روح و حقیقت ہے، دوسری وہ ہے جن سے ان کی ظاہری شکل و صورت آراستہ کی گئی ہے۔ پہلی چیز اصل ہے، دوسری فرع ہے۔ پہلی چیز کو وہ "دین" سے تعبیر کرتا ہے، دوسری کو "شرع" اور "نسک" سے اور اس کے لیے "منہاج" کا لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے۔ "شرع" اور "منہاج" کے معنے راہ کے ہیں اور "نسک" سے مقصود عبادت کا طور طریقہ ہے۔ پھر اصطلاح میں "شرع" قانون مذہب کو کہنے لگے اور "نسک" عبادت کو، وہ کہتا ہے : مذاہب میں جس قدر بھی اختلاف ان کا اصلی اختلاف ہے، وہ "دین" کا اختلاف نہیں، محض شرع و منہاج کا اختلاف ہے، یعنی اصل کا نہیں فرع کا ہے، حقیقت کا نہیں ہے ظواہر کا ہے، روح کا نہیں ہے صورت کا ہے اور ضروری تھا کہ یہ اختلاف ظہور میں آتا۔ مذہب کا مقصود انسانی جمعیت کی سعادت و اصلاح ہے، لیکن انسانی جمعیت کے احوال و ظروف ہر عہد اور ہر ملک میں یکساں نہیں رہے ہیں اور نہ یکساں رہ سکتے تھے۔ کسی زمانے کی معاشرتی اور ذہنی استعداد ایک خاص طرح کی نوعیت رکھتی تھی، کسی زمانے میں ایک خاص طرح کی۔ کسی ملک کے حالات ایک خاص طرح کی معیشت چاہتے تھے، کسی دوسرے ملک کے حالات دوسری طرح کی۔ پس جب مذہب کا ظہور جیسے زمانے میں اور جیسی استعداد و طبیعت کے لوگوں میں ہوا، اسی کے مطابق شرع و منہاج کی صورت بھی اختیار کی گئی۔ جس عہد اور جس ملک میں جو صورت اختیار کی گئی وہی اس کے لیے موزوں تھی۔ اس لیے ہر صورت اپنی جگہ بہتر اور حق ہے۔ اور یہ اختلاف اس سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا جتنی اہمیت نوع بشری کے تمام معاشرتی اور طبعی اختلافات کو دی جا سکتی ہے :
لِّكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا هُمْ نَاسِكُوهُ ۖ فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْأَمْرِ ۚ وَادْعُ إِلَىٰ رَبِّكَ ۖ إِنَّكَ لَعَلَىٰ هُدًى مُّسْتَقِيمٍ ﴿22:٦٧
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ 230
(اے پیغمبر!) ہم نے ہر گروہ کےلیے عبادت کا ایک خاص طور طریقہ ٹھہرا دیا ہے جس پر وہ چلتا ہے۔ پس لوگوں کو چاہیے اس معاملے میں تم سے جھگڑا نہ کریں۔ تم لوگوں کو اپنے پروردگار کی طرف دعوت دو، یقیناً تم ہدایت کے سیدھے راستے پر گامزن ہو۔
تحویل قبلہ کا معاملہ اور قرآن کا اعلان حقیقت
جب تحویل قبلہ کا معاملہ پیش آیا، یعنی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کی جگہ خانہ کعبہ کر طرف منہ کر کے نماز پڑھنے لگے تو یہ بات یہودیوں اور عیسائیوں پر بہت شاق گزری، ان کے نزدیک مذہب کا تمام دار و مدار اسی طرح کی ظاہری اور فروعی باتوں پر تھا اور انہیں کو وہ حق و باطل کا معیار سمجھتے تھے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں قرآن نے اس معاملے کو بالکل دوسری ہی نظر سے دیکھتا ہے۔ وہ کہتا ہے : تم اس طرح کی باتوں کو اس قدر اہمیت کیوں دیتے ہو؟ یہ نہ تو حق و باطل کا معیار ہیں نہ مذہب کی اصل حقیقت میں انہیں کوئی دخل ہے، ہر مذہب نے اپنے اپنے حالات و مقتضیات کے مطابق کوئی ایک طریقہ عبادت کا اختیار کر لیا تھا اور اس پر لوگ کاربند ہو گئے۔ مقصود اصلی سب کا ایک ہی ہے اور وہ خدا پرستی اور نیک عملی ہے۔ پس جو شخص سچائی کا طلب گار ہے، اسے چاہیے کہ اصل مقصود پر نظر رکھے اور اسی کے لحاظ سے ہر بات کو جانچے پرکھے، ان باتوں کو حق و باطل کا معیار نہ بنا لے :
وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ أَيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّ۔هُ جَمِيعًا ۚ إِنَّ اللَّ۔هَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿2:١٤٨
اور (دیکھو!) ہر گروہ کے لیے کوئی نہ کوئی سمت ہے جس کی طرف عبادت کرتے ہوئے وہ اپنا منہ کر لیتا ہے، پس (اس معاملے کو اس قدر طول نہ دو) نیکی کی راہ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی کوشش کرو (کہ اصلی کام یہی ہے)۔ تم کسی جگہ بھی ہو اللہ تم سب کو پا لے گا، یقیناً اللہ کی قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۲۷۱
صالح انسان، خواہ کسی ملک و قوم میں ہوئے ہوں، قرآن کے نزدیک "انعام یافتہ" انسان ہیں اور انہیں کی راہ "صراط امستقیم" ہے۔
خدا کے ان تمام رسولوں اور نوع انسانی کے راست باز افراد کی راہ کون سی تھی؟ وہی راہ جسے قرآن دین حقیقی کی راہ قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے: دنیا میں جس قدر بھی سچائی کے داعی آئے، سب نے یہی تعلیم دی کہ "أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ ۚ﴿۴۲:١٣" خدا کا ایک ہی دین قائم رکھو اور اس راہ میں جدا جدا نہ ہو جاؤ (یہی سچائی کی سیدھی راہ ہے)۔
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جابجا "الدین" کو صراط مستقیم سے بھی تعبیر کیا ہے۔ سورۃ شوریٰ میں پیغمبر اسلام کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے : "تم صراط مستقیم کی طرف ہدایت کرنے والے ہو اور صراط مستقیم ہی صراط اللہ ہے" یعنی اللہ کی ٹھیرائی ہوئی راہ سعادت "
وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿۴۲:٥٢صِرَاطِ اللَّ۔هِ الَّذِي لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ أَلَا إِلَى اللَّ۔هِ تَصِيرُ الْأُمُورُ ﴿۴۲:٥٣
اور (اے پیغمبر!) بلا شبہ تم صراط مستقیم کی طرف ہدایت کرنے والے ہو، صراط اللہ، یعنی اللہ کی راہ کی طرف، وہ اللہ کہ آسمان و زمین میں جو کچھ ہے سب اسی کا ہے۔ ہاں یاد رکھو، (کائنات خلقت کے) تمام کاموں کا مرجع اسی کی ذات ہے۔
اسی طرح وہ جابجا کہتا ہے کہ خدا کے تمام رسولوں کی دعوت صراط مستقیم کی دعوت تھی۔ سورۃ نحل میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نسبت ہے :
وَهَدَاهُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿۱۶:١٢١
"خدا نے اسے صراط مستقیم دکھا دی"۔ سورۃ زخرف میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کی زبانی سنتے ہیں :
إِنَّ اللَّ۔هَ هُوَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۚ هَ۔ٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ ﴿۴۳:٦٤
"اللہ میرا اور تمہارا سب کا پروردگار ہے، پس اسی کی بندگی کرو، یہی صراط مستقیم ہے" سورۃ انعام میں پہلے حضرت نوح اور حضرت ابراہیم کا ذکر کیا ہے، پھر سلسلہ ابراہیمی کے متعدد نبیوں کا جو تورات کی مشہور شخصیتیں ہیں، اس کے بعد کہا ہے :
وَاجْتَبَيْنَاهُمْ وَهَدَيْنَاهُمْ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿۶:٨٧
"ان سب کو ہم نے صراط مستقیم دکھا دی۔"
اصل یہ ہے کہ خدا کے عالم گیر دین کی حقیقت ظاہر کرنے کے لیے صراط مستقیم سے
 

شمشاد

لائبریرین
ام الکتاب
صفحہ ۲۷۲
بہتر تعبیر نہیں ہو سکتی تھی۔ تم کسی خاص مقام تک پہنچنے کے لیے کتنی ہی راہیں نکالو، لیکن سیدھی راہ ہمیشہ ایک ہی ہو گی اور اسی پر چل کر ہر مسافر منزل مقصود تک بحفاظت و امن پہنچ سکے گا۔ علاوہ بریں سیدھی راہ ہی ہمیشہ شاہ راہ عام کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔ تمام مسافر، خواہ کسی گوشے کے رہنے والے ہوں، لیکن سب مل جل کر وہی راہ اختیار کریں گے اور کبھی یہ نہ کریں گے کہ الگ الگ ٹولیاں بنا کر ٹیڑھی ترچھی راہوں میں متفرق ہو جائیں۔ قرآن کہتا ہے : ٹھیک اسی طرح دین کی سیدھی راہ بھی ایک ہی ہے۔ ہر عہد، ہر قوم، ہر ملک اسی پر چل کر منزل مقصود تک پہنچا ہے، بعد کو پیروان مذہب نے ایسا کیا کہ بہت سی ٹیڑھی ترچھی راہیں نکالیں اور ایک راہ پر متفق رہنے کی جگہ الگ الگ ٹولیاں بنا کر متفرق ہو گئے۔ وہ کہتا ہے : اب اگر تم چاہتے ہو کہ منزل مقصود کا سراغ پاؤ تو چاہیے کہ اسی سیدھی راہ پر اکٹھے ہو جاؤ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رحمۃ اللہ کی روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں : فھو سبیلُ اللہ طریقا مستقیما، سھلا، مسلوکا، واسعا، موصلا الی المقصود :
وَأَنَّ هَ۔ٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴿۶:١٥٣
اور (دیکھو!) یہ میری راہ ہے، بالکل سیدھی راہ! پس اسی ایک راہ پر چلو اور طرح طرح کے راستوں کے پیچھے نہ پڑو وہ تمہیں خدا کی سیدھی راہ سے ہٹا کر جدا جدا کر دیں گے۔ یہی بات ہے جس کا خدا تمہیں حکم دیتا ہے تا کہ (اس کی نافرمانی سے) بچو۔
چنانچہ یہ حقیقت بالکل واضح ہو جاتی ہے جب "صراط مستقیم" کی تفسیر پر نظر ڈالی جائے جو خود پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمائی ہے :
عن ابن مسعود قال خط لنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطا بیدہ ثم قال ھذا سبیل اللہ مستقیما ثم خط خطوطا عن یمین ذلک الخط و عن شمالہ ثم قال و ھذہ السبل لیس منھا سبیل الا علیہ شیطان یدعو الیہ ثم قر اھذہ الآیۃ۔ (اخرجہ النسائی و احمد و البزرا و ابن المنذر و ابو الشیخ والحاکم و صححہ)۔


 
Top