لیکن پچھلے ہی مراسلہ میں اسے آپ ضیاء کی قیادت میں قتل کہہ رہے تھے۔
کیا آپ کو بین الاقوامی قوانین کا علم ہے ؟ اگر ہے تو یہ بات آپ کو معلوم ہو گی جب کوئی فوج اقوام متحدہ کے جھنڈے تلے کام کر رہی ہوتی ہے وہ صرف اقوام متحدہ کی فورس شمار کی جاتی ہے اس کے فوجیوں کی جغرافیائی شناخت اقوام متحدہ کے مشن کی تکمیل میں اس کے شمولیت تک اقوام متحدہ کے ماتحت ہوتی ہے۔ پاکستانی فوج نے وہی کیا جو مشن اسے اقوام متحدہ نے سونپا تھا۔ آپ خوامخواہ فوج دشمنی میں اتنا آگے نہ جائیں کہ اپنے وطن پہ ہی کیچڑ اچھالنے لگ جائیں۔
نا وہ ٹھیک کہہ رہا ہے نا آپ جناب
اس وقت ملٹری ٹرینیز اردن شام لیبیا مصر امارات سعودی ایران عراق میں بری اور فضآئی افواج کی ٹریننگ میں سب سے آگے تھے ۔اب بھی کئی ملکوں میں موجود ہیں۔
برگیڈیر ضیا الحق وہاں پر پاکستان کی طرف سے ملٹری ٹریننگ پروگرام کا ہیڈ تھا اور جیسا کہ وہ خود امریکہ کی فورٹ لیون ورتھ اور پاکستان کے کمانڈ اینڈ سٹاف کالج سے فارغ تحصیل اور ٹریننگ میں اعلی مہارت رکھتا تھا تو یہ پوسٹنگ بالکل ٹھیک تھی ۔ سب کچھ ٹھیک تھا جب تک کہ فلسطینیوں نے باکل اسی طرح جس طرح افغان مہاجرین نے پاکستان میں پرابلم شروع کی کھلے عام ہتھیار اٹھا کر چلنا چیک پوسٹیں بنانا اور دوسرے غیر قانونی دھندوں میں ہاتھ ڈالنا شروع کیا تو اردن کو فکر لاحق ہوئی اور یاسر عرفات کے مہاجر فلسطینیوں نے جہاز اغوا کر کے اور مصیبت بنا دی نیو یارک کی فلائٹ میں بہت سارے ملکوں کے 218 شہری تھے جن کا دباؤ بھی اردن پر پڑا ۔ بادشاہ جس نے انہیں پناہ دی تھی اسے قتل کرنے کی کئی بار کو شش کی گئی ۔ نو آموز ریاست اردن سے ایک طرف تو اسرائیل پر حملے کیے جاتے جس کا بدلہ اسرائیل اردن سے لیتا اور دوسری طرف میزبانوں کا جینا اجیرن کر کے رکھ دیا گیا تھا فلسطینوں نے۔ اس سب تناظر میں اردن نے اپنے دیرینہ حلیف پاکستان سے استدعا کی کہ اس کی مدد کی جائے ورنہ فلسطین تو گیا ہی ہے اردن بھی جائے گا اسرائیل کے پاس کیونکہ بہت طاقت اور انٹرنیشنل مدد ہے اور ہم جیسا چھوٹا ملک تھوڑے سے وسائل کیا کر لے گا کیوں کے اسرائیل جس کے پیچھے فرانس امریکہ برطانیہ کھلم کھلا ہیں اسرائیل کو ہم روک نا پائیں گے ۔شام اپنے مفادات کی خاطر فلسطینیوں کو شہہ اور ہتھیار پیسا دے رہا تھا ۔ کیونکہ آپریشن ایسا تھا جس کا اردنی فوجوں کو کوئی تجربہ نہیں تھا اسلیے اردن کی درخواست پر پاکستانی حکومت نے اردن میں موجود اپنے ملٹری اتاشی ٹریننگ چیف اور دوسرں کو آپریشن کی نگرانی اور کمانڈ کا حکم دیا گیا ۔ یہ سب بکواس ہے کہ ضیا نے یہ سب کیا ایک برگیڈیر ہے ہی کیا ؟ کچھ بھی نہیں۔ پاکستانی فوج میں 1800 برگیڈیر ہیں۔ اور چند افسران کی کمانڈ کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان یا برگیڈیر ضیا کا یہ کارنامہ ہے ۔ حتی کہ جنرل بھی جی ایچ کیو کے حکم کے بغیر کومبٹ ایکشن نہیں لے سکتا بیرون ملک میں رہتے ہوئے اس کی واضع مثال جب 4 اکتوبر1993 کوOperation Gothic Serpent کے دوران امریکن رینجرز موگا دیشو میں پھنس گئے تھے امریکی جنرل ولیم گریزن نے پاکستانی امن مشن فوج کی مدد طلب کی جو اس وقت موگا دیشو کے سٹیڈیم میں موجود تھی پر جنرل محمود نے بار بار کی گئی درخواست کو اگنور کیا اور جی ایچ کیو ساری صورت حال بھیجی جی ایچ کیو نے اس وقت کے قائم مقام وزیر اعظم معین قریشی سے ڈپلوماٹیک طریقے سے یو ان او کی طرف سے کومبٹ پرمیشن مانگی اور جب اقوام متحدہ امن مشن کی چیف ایڈمرل جوناتھن اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی ڈرخواست پر پاکستانی حکومت نے جی ایچ کیو کو گرین سگنل دیا جس پر جی ایچ کیو نے جنرل محمود کو ڈیفینسیو کومبٹ آرڈر دیا اور پاکستانی افواج نے سٹیڈیم سے باہر نکل کر بکتر بند گاڑیوں میں امریکی رینجرز اور ان کے زخمیوں کو موگادیشو سے ریکور کیا۔ اس آڈر لینے میں کئی مزید امریکی رینجر مارے گئے پر پاکستانی افواج ٹس سے مس نا ہوئی جب تک جی ایچ کیو کا حکم نا آیا جنرل محمود نا ہلے اپنی جگہ سے ۔ اور یہ بھائی صآحب ایک برگیڈیر پر یہ الزام تھونپ رہے ہیں کہ اس نے بھٹو جیسی طاقتور حکومت اور اپنی پوری ہائی کمانڈ کے بغیر قتل عام کیا ھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھ
ہمت صاحب نفرت کریں پروپیگنڈہ بھی کریں پر کچھ تعلیم تو لیں پہلے افواج کے بارے میں۔جنگ کا پہلا اصول ہے اپنی خبر ہو نا ہو دشمن کی پوری خبر ہونی چاہئے ہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہ
یہ ویڈیو دیکھ لیں فلم میں بھی وہی کہا گیا پاکستانی جنرل نے کہا ہے کچھ گھنٹے انتظار کرو ہہہہہہہہہہہ جب امریکی پاکستان آرمی بیس کمپ میں مدد مانگنے آئے تھے ۔امریکی جنرل ولیم گریزن نے کہا تھا جب میرے آدمی ہزاروں ہتھیار بند ملیشیا کے درمیان پھنسے ہیں مجھے اس کی مدد چاہیے ۔