امریکہ سے نفرت یا اپنی نااہلیوں کا رونا ؟

ظفری

لائبریرین
غالب نے سچ کہا ہے کہ انسان بلاشبہ پیالہ و ساغر، نہیں ہوتا۔ دکھ پہنچے تو اس کی آ نکھیں بھیگ جاتی ہیں ۔ ظلم اسے مشتعل کرتا اور غصہ دلاتاہے۔ مصائب میں وہ مضطرب ہوتا ہے اور جبر حد سے بڑھ جائے تو اس کے لیے نا قابلِ برداشت ہو جاتا ہے۔ ہم مسلمان بھی آدم کی اولاد ہیں۔ آنسو، اضطراب اور غصہ ہماری سرشت میں بھی شامل ہیں۔ مصیبت اور غم میں ، ہم سے وہی توقع ہونی چاہیے جوآدم و حوا کی باقی اولاد سے کی جاتی ہے ۔ تاہم مسلمان ہونے کے ،ناتے لازم ہے کہ دکھ اور تکلیف کے ہر لمحے میں ہم اپنے پروردگار کی طرف رجوع کریں ۔ اس رجوع کاایک پہلو مابعد الطبیعیاتی ہے۔ دعا و استغفاراور رکوع و سجود اس کے وہ مظاہر ہیں جن سے ہم اﷲ کی رحمت اور نصرت کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں۔ دوسرا پہلو مادی اور طبیعیاتی ہے۔ اﷲ نے یہ دنیا جن اصولوں پر قائم کی ہے۔ انھيں وہ اپنی سنت کہتا ہے جو کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔ اس کا کہنا یہی ہے کہ غم و غصے کے عالم میں کسی ردِ عمل کا اظہار کرتے وقت اﷲ کی اس سنت کو پیشِ نظر رکھا جائے۔ یہ مسلم اور غیر مسلم، مرد اور عورت، اﷲ کو ماننے والے اور اس کا انکار کرنے والے، سب کے لیے ایک ہی ہے۔ اس لیے مسلمانوں پر بطور خاص لازم ہے کہ وہ ایسی کیفیت میں اﷲ کی سنت کو سمجھیں اور اس کی روشنی میں کسی ردِعمل کا اظہار کریں۔
امریکا اس وقت دنیا کی واحد عالمی قوت ہے۔ اس بات کا اعتراف بزدلی ہے نہ مرعوبیت ۔ دنیا میں آج تک کوئی فاتح قوم ایسی نہیں گذری جس نے معرکہ آرائی سے پہلے مدِ مقابل کی قوت کا صحیح اندازہ نہ کیا ہو۔ واحد عالمی قوت ہونے کا ایک مفہوم ہے۔ امریکا کو یہ حیثیت اس وقت حاصل ہوئی ، جب اس نے عسکری ،سیاسی، معاشی اور تہذیبی اعتبار سے دنیا پر اپنی برتری ثابت کر دی۔دوسری جنگِ عظیم کے بعد اس کے بے شمار شواہد تاریخ کی کتابوں اور دنیا کے نقشے پر بکھرے ہوئے ہیں۔ سیاسی اعتبار سے اس نے ایک سے زائد مرتبہ ساری دنیاکو امریکی جھنڈے تلے متحد کیا۔ تہذیبی حوالے سے امریکا اس وقت مذہبی رواداری اور جمہوری اقدار کی پاسداری کے لیے معروف ہے۔ اس کی عسکری قوت کا یہ عالم ہے کہ چین کا دفاعی بجٹ پینٹاگان کے بجٹ کے مساوی ہے۔٢٠٠٩ میں دیے جا نے والے تیرہ نوبل انعامات میں سے نو امریکا کو ملے۔ایجادات میں وہ سر ِ فہرست ہے۔ اسی طرح بحرانوں کے باوجود آج بھی امریکا دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم اسے اب بھی دنیا کی سب سے بڑی مسابقتی معیشت (The mostcompetitive economy) قرار دیتا ہے۔

اس کا یہ مفہوم کسی طرح نہیں ہے کہ اس میں مادی اعتبار سے کمزوریاں نہیں ہیں ۔تا ہم ایسی کوئی ناکامی اس کی عالمی حیثیت کو متاثر نہیں کر سکی۔ اس کا سبب کیا ہے؟

ہم اس سوال پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ تمام میدانوں میں اس نے اپنی برتری قائم رکھی۔ قوت کی یہ نفسیات ہے کہ وہ نہ صرف خود کو برقرار رکھنا چاہتی ہے بلکہ اس میں اضافے کی بھی متمنی رہتی ہے۔ اس خواہش سے توسیع پسندی اور غلبے کا رحجان پیدا ہوتا ہے۔ اسی کا ایک مظہر یہ ہے کہ وہ اس خطرے کابھی سدِ باب کرتی ہے جومحض امکانی سطح پر موجود ہوتا ہے۔ وہ دنیا کے ان وسائل پر بھی قابض ہونا چاہتی ہے جو کسی بھی لمحے اس کے خلاف استعمال ہو سکتے ہیں۔ انسان کی معلوم تاریخ بتاتی ہے کہ ہر عالمی قوت یہی کرتی رہی ہے اور آج امریکا بھی کسی طرح پہلی عالمی قوتوں سے مختلف نہیں۔ کل وہ سوویت یونین کو خطرہ سمجھتا تھا ۔چنانچہ ہم ديکھتے ہيں کہ وہ عالمی قوت دنیا کے نقشے سے محو کر دی گئی۔ آج ايک طرف مشرقِ وسطیٰ کے وسائل پر اس کی نظر ہے اور دوسری طرف وہ اس عسکریت پسندی سے خطرہ محسوس کرتا ہے جو القاعدہ وغیرہ کے زیرِ عنوان متحرک ہے۔ امریکا کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اسلام بطورِ مذہب اس کا ہدف نہیں ہے۔ تا ہم اس کی کوئی تعبیر اگرایسی ہے جو امریکا کے لیے چیلنج بن سکتی ہے توپھر وہ اشتراکیت کی طرح اس کو بھی ختم کرنا چاہتا ہے۔

دنیا کی ساری قوتیں چاروناچاراسی سنتِ الٰہی کا اتباع کر رہی ہیں جو ما دی دنیا میں جاری ہے ، البتہ و ہ اسے قانون ِفطرت (Law of Nature) کہتے ہیں۔ اگر ہم دنيا ميں عزت سے جينا چاہتے ہيں توہمارے پاس بھی اس راستے کو اپنا نے کے سوا کو ئی چارہ نہیں۔ا س کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی ساری قوت مادی تعمیر پر صرف کرڈالیں۔آج چین،جاپان اور جر منی سمیت بے شمارممالک اسی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔یہ اگر چہ امریکا کی خواہش کے بر عکس ہے لیکن قانون ِ فطرت کے عين مطابق ہے۔ یہ قانون بتاتاہے کہ اس دنیا میں کو ئی قوت قادر ِ مطلق نہیں اور جو مثبت طرزِ عمل اختیا ر کر تا ہے وہ لازماًآگے بڑھتا ہے۔ دوسری جنگ ِ عظیم میں جاپان کو جس ذلت کا سامنا کر نا پڑا ، ماضی قریب میں اس کی کو ئی مثال موجود نہیں لیکن آج دنیا کے معاشی فیصلے جا پان کی مر ضی کے بغیر نہیں ہو سکتے۔ہما رے لیے بھی یہی راستہ ہے۔ہم اگر اس پر چل نکلیں تو امریکا سمیت کو ئی بھی ہمیں نہیں روک سکتا۔اس کے لیے چند کام نا گز یر ہیں۔

١۔ ماؤ نے چینی قوم کو یہ پیغام دیا تھا کہ اپنی کمزوری کو اپنی طاقت میں بدل دو۔ہمیں بھی یہی کر نا ہے۔ہم اپنا غصہ توا نا ئی میں تبدیل کر ڈالیں جو ہماری تعمیر کا باعث بن جا ئے۔یہ سفر علم سے شروع ہو گااور اس کا ظہور معیشت ، معاشرت اور سیاست سمیت ہر شعبہء زندگی میں ہو گا۔

٢۔ہم یہ طے کر لیں کہ ہم نے ہر قیمت پر امن خریدنا ہے۔یہ امن بعض اوقات کمزور کو یک طرفہ اور غیر منصفانہ بنیا دوں پر ملتا ہے۔ ہمیں اس کے لیے بھی تیا ر ہو جا نا چاہیے۔لوگ عزت،حمیت جیسے الفاظ سے ہمیں اشتعال دلائیں گے لیکن ہمیں اپنی سماعتوں کو ان آوازوں سے دور رکھنا ہے۔دیوارسے سر پھوڑنے کو دنیا کی کسی لغت اور تا ریخ میں غیرت یا حمیت نہیں کہا گیا۔

٣۔ کو ئی ہمیں تصادم میں الجھا نا چا ہے تو چین کی طرح ہمیں اس سے گریز کر تے ہو ئے ساری توا نا ئی اپنی تعمیر پر لگا نا ہو گی۔

٤۔ جو قوم داخلی سطح پر اخلاقی پستی میں مبتلا ہووہ کسی بڑے خارجی چیلنج کا مقا بلہ نہیں کر سکتی- سماجی اخلاقیات کے باب میں ہمیں اپنی تعمیر پر خصوصی تو جہ دینی ہے ۔ناپ تول میں ، صحت معاملات میں ، اجلا پن ،حفظ ِمراتب ، رواداری ، برداشت ، ان سب اقدار کے حوالے سے ہمیں خود کو مثالی سطح پر لے جانا ہو گا۔

یہ اہداف کسی سیاسی تبدیلی سے نہیں ،سماجی انقلاب سے حاصل ہوں گے۔اس کے لیے کسی فرد ِ واحد کا انتظار یا کسی سیاسی را ہنما سے تو قعات باندھنا عبث ہے۔آج ضرورت ہے کہ ہما ری اجتماعی بصیرت کام آئے۔لوگ اپنی صلاحیت اور افتا دِ طبع کے ساتھ مختلف میدا نوں میں سرگرم ِ عمل ہوں۔ ان کی مشترکہ کو ششوں سے انشا اللہ وہ تبدیلی آئے گی جس کے بعد کو ئی ہم پر ظلم نہیں کر سکے گااور ہم اپنے وقار کا بہتر دفاع کر سکیں گے۔یہ سچ ہے کہ انسان پیا لہ و ساغرنہیں ہو تالیکن حکمت اسی کی گم شدہ میراث ہے۔آج ہمیں وہ حکمت چاہیے جو امریکا کے خلاف ہماری نفرت کو ایک تعمیری قوت میں بدل ڈالے۔ تبدیلی کا واحد راستہ تعمیر ہے۔ہمیں اپنے غصے کو تھا منا ہے ۔ہمیں اپنے غم کو اپنی طاقت بنانا ہے۔ قانون ِ فطرت کے مطابق ، پھر ہمارا راستہ کو ئی نہیں روک سکتا -
خورشید ندیم احمد
 

شمشاد

لائبریرین
بہت شکریہ ظفری بھائی، بہت اچھی تحریر ہے۔

تعلیم ہی سارے مسائل کا حل ہے اور پاکستان میں تعلیم کی ہی کمی ہے۔
 

mfdarvesh

محفلین
جی تعلیم ہی حل ہے مگر اس میں بھی ہم بہت پیچھے ہیں۔ ہمارے ہاں بے مقصد تعلیم زیادہ ہے
 
امریکا سمیت کو ئی بھی ہمیں نہیں روک سکتا۔اس کے لیے چند کام نا گز یر ہیں۔

١۔ ماؤ نے چینی قوم کو یہ پیغام دیا تھا کہ اپنی کمزوری کو اپنی طاقت میں بدل دو۔ہمیں بھی یہی کر نا ہے۔ہم اپنا غصہ توا نا ئی میں تبدیل کر ڈالیں جو ہماری تعمیر کا باعث بن جا ئے۔یہ سفر علم سے شروع ہو گااور اس کا ظہور معیشت ، معاشرت اور سیاست سمیت ہر شعبہء زندگی میں ہو گا۔

٢۔ہم یہ طے کر لیں کہ ہم نے ہر قیمت پر امن خریدنا ہے۔یہ امن بعض اوقات کمزور کو یک طرفہ اور غیر منصفانہ بنیا دوں پر ملتا ہے۔ ہمیں اس کے لیے بھی تیا ر ہو جا نا چاہیے۔لوگ عزت،حمیت جیسے الفاظ سے ہمیں اشتعال دلائیں گے لیکن ہمیں اپنی سماعتوں کو ان آوازوں سے دور رکھنا ہے۔دیوارسے سر پھوڑنے کو دنیا کی کسی لغت اور تا ریخ میں غیرت یا حمیت نہیں کہا گیا۔

٣۔ کو ئی ہمیں تصادم میں الجھا نا چا ہے تو چین کی طرح ہمیں اس سے گریز کر تے ہو ئے ساری توا نا ئی اپنی تعمیر پر لگا نا ہو گی۔

٤۔ جو قوم داخلی سطح پر اخلاقی پستی میں مبتلا ہووہ کسی بڑے خارجی چیلنج کا مقا بلہ نہیں کر سکتی- سماجی اخلاقیات کے باب میں ہمیں اپنی تعمیر پر خصوصی تو جہ دینی ہے ۔ناپ تول میں ، صحت معاملات میں ، اجلا پن ،حفظ ِمراتب ، رواداری ، برداشت ، ان سب اقدار کے حوالے سے ہمیں خود کو مثالی سطح پر لے جانا ہو گا۔

یہ اہداف کسی سیاسی تبدیلی سے نہیں ،سماجی انقلاب سے حاصل ہوں گے۔اس کے لیے کسی فرد ِ واحد کا انتظار یا کسی سیاسی را ہنما سے تو قعات باندھنا عبث ہے۔آج ضرورت ہے کہ ہما ری اجتماعی بصیرت کام آئے۔لوگ اپنی صلاحیت اور افتا دِ طبع کے ساتھ مختلف میدا نوں میں سرگرم ِ عمل ہوں۔ ان کی مشترکہ کو ششوں سے انشا اللہ وہ تبدیلی آئے گی جس کے بعد کو ئی ہم پر ظلم نہیں کر سکے گااور ہم اپنے وقار کا بہتر دفاع کر سکیں گے۔یہ سچ ہے کہ انسان پیا لہ و ساغرنہیں ہو تالیکن حکمت اسی کی گم شدہ میراث ہے۔آج ہمیں وہ حکمت چاہیے جو امریکا کے خلاف ہماری نفرت کو ایک تعمیری قوت میں بدل ڈالے۔ تبدیلی کا واحد راستہ تعمیر ہے۔ہمیں اپنے غصے کو تھا منا ہے ۔ہمیں اپنے غم کو اپنی طاقت بنانا ہے۔ قانون ِ فطرت کے مطابق ، پھر ہمارا راستہ کو ئی نہیں روک سکتا -
خورشید ندیم احمد
بات تو سچ ہے مگر بات ہے کٹھنائی کی:)۔ ۔ ۔ ہم فوری اشتعال کے تحت کام کرنے والے ری ایکٹو لوگ ہیں۔ ۔لمبی منصوبہ بندی اور صبر و تحمل اور استقلال کے ساتھ کچھوے کی رفتار سے چلنے کو یہودی سازشی ذہنیت سمجھتے ہیں:grin:
خدا حافظ مسلمانوں کا اکبر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مجھے تو انکی خوشحالی سے ہے یاس
یہ عاشق شاہدِ مقصود کے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نہیں جائیں گے ولیکن سعی کے پاس
سناؤں تم کو اک فرضی لطیفہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کیا ہے جس کو میں نے زیبِ قرطاس​
کہا مجنوں سے یہ لیلٰی کی ماں نے۔ ۔ ۔
کہ "بیٹا تُو اگر کرلے ایم- اے پاس۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔
تو فوراّ بیاہ دوں لیلٰی کو تجھ سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بلا دقّت میں بن جاؤں تیری ساس"۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کہا مجنوں نے "یہ اچھّی سنائی۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔
کجا عاشق کجا کالج کی بکواس۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کجا یہ فطرتی جوشِ طبیعت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔
کجا ٹھونسی ہوئی چیزوں کا احساس۔ ۔
بڑی بی آپ کو کیا ہوگیا ہے؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہرن پر لادی جاتی ہے کہیں گھاس؟۔ ۔ ۔
یہ اچّھی قدر دانی آپ نے کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مجھے سمجھا ہے کوئی ہرچرن داس؟
جگر خوں کرنے کو ہُوں موجود۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نہیں منظور مغزِ سر کا آماس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہی ٹھری جو شرطِ وصلِ لیلٰی۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تو استعفٰی میرا با حسرت و یاس":rolleyes::grin:
 

dxbgraphics

محفلین
امریکا اس وقت دنیا کی واحد عالمی قوت ہے۔
لیکن اس وقت یہ واحد عالمی قوت افغانستان جیسے ملک میں اپنی طاقت کا نہیں منواسکی

آج ايک طرف مشرقِ وسطیٰ کے وسائل پر اس کی نظر ہے اور دوسری طرف وہ اس عسکریت پسندی سے خطرہ محسوس کرتا ہے
مذہبی جنگ کو وسائل کی نظر کر گئے۔ اور عسکریت پسندی بم بلاسٹ دہشت گردی 2001 سے پہلے نہیں تھی جب سے امریکہ کے ناپاک قدم پڑے ہیں تبھی یہ وجود میں آئے ہیں۔

امریکا کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اسلام بطورِ مذہب اس کا ہدف نہیں ہے
اسلامی تاریخ کی تو دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں احادیث پر تو انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں اور امریکہ کی تاریخ پر اتنا اعتماد :eek: کیوں کہ اگر میں یہاں پر یہودی و صیہونی موضوع پر یا فری میسنز یا زیانسٹ پر بحث شروع کر دوں تو یقینا کئی اراکین اس کو امریکا فوبیا کا نام دینگے۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہودی و صیہونی کبھی بھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے

آج دنیا کے معاشی فیصلے جا پان کی مر ضی کے بغیر نہیں ہو سکتے۔ہما رے لیے بھی یہی راستہ ہے۔ہم اگر اس پر چل نکلیں تو امریکا سمیت کو ئی بھی ہمیں نہیں روک سکتا
اس میں کوئی شک نہیں

١۔ ماؤ نے چینی قوم کو یہ پیغام دیا تھا کہ اپنی کمزوری کو اپنی طاقت میں بدل دو۔ہمیں بھی یہی کر نا ہے۔ہم اپنا غصہ توا نا ئی میں تبدیل کر ڈالیں جو ہماری تعمیر کا باعث بن جا ئے۔یہ سفر علم سے شروع ہو گااور اس کا ظہور معیشت ، معاشرت اور سیاست سمیت ہر شعبہء زندگی میں ہو گا۔

٢۔ہم یہ طے کر لیں کہ ہم نے ہر قیمت پر امن خریدنا ہے۔یہ امن بعض اوقات کمزور کو یک طرفہ اور غیر منصفانہ بنیا دوں پر ملتا ہے۔ ہمیں اس کے لیے بھی تیا ر ہو جا نا چاہیے۔لوگ عزت،حمیت جیسے الفاظ سے ہمیں اشتعال دلائیں گے لیکن ہمیں اپنی سماعتوں کو ان آوازوں سے دور رکھنا ہے۔دیوارسے سر پھوڑنے کو دنیا کی کسی لغت اور تا ریخ میں غیرت یا حمیت نہیں کہا گیا۔

٣۔ کو ئی ہمیں تصادم میں الجھا نا چا ہے تو چین کی طرح ہمیں اس سے گریز کر تے ہو ئے ساری توا نا ئی اپنی تعمیر پر لگا نا ہو گی۔

٤۔ جو قوم داخلی سطح پر اخلاقی پستی میں مبتلا ہووہ کسی بڑے خارجی چیلنج کا مقا بلہ نہیں کر سکتی- سماجی اخلاقیات کے باب میں ہمیں اپنی تعمیر پر خصوصی تو جہ دینی ہے ۔ناپ تول میں ، صحت معاملات میں ، اجلا پن ،حفظ ِمراتب ، رواداری ، برداشت ، ان سب اقدار کے حوالے سے ہمیں خود کو مثالی سطح پر لے جانا ہو گا۔

یہ اہداف کسی سیاسی تبدیلی سے نہیں ،سماجی انقلاب سے حاصل ہوں گے۔اس کے لیے کسی فرد ِ واحد کا انتظار یا کسی سیاسی را ہنما سے تو قعات باندھنا عبث ہے۔آج ضرورت ہے کہ ہما ری اجتماعی بصیرت کام آئے۔لوگ اپنی صلاحیت اور افتا دِ طبع کے ساتھ مختلف میدا نوں میں سرگرم ِ عمل ہوں۔ ان کی مشترکہ کو ششوں سے انشا اللہ وہ تبدیلی آئے گی جس کے بعد کو ئی ہم پر ظلم نہیں کر سکے گااور ہم اپنے وقار کا بہتر دفاع کر سکیں گے۔یہ سچ ہے کہ انسان پیا لہ و ساغرنہیں ہو تالیکن حکمت اسی کی گم شدہ میراث ہے۔آج ہمیں وہ حکمت چاہیے جو امریکا کے خلاف ہماری نفرت کو ایک تعمیری قوت میں بدل ڈالے۔ تبدیلی کا واحد راستہ تعمیر ہے۔ہمیں اپنے غصے کو تھا منا ہے ۔ہمیں اپنے غم کو اپنی طاقت بنانا ہے۔ قانون ِ فطرت کے مطابق ، پھر ہمارا راستہ کو ئی نہیں روک سکتا -
خورشید ندیم احمد

جب تک جمہوریت ہے پاکستان میں یہ سب ناممکن ہے
 

arifkarim

معطل
بجائے پورے آرٹکل کے ایک ایک نکتہ کے جو کہ بظاہر پراپیگنڈا ہے، صرف مندرجہ ذیل پر بات کروں گا:
امریکا اس وقت دنیا کی واحد عالمی قوت ہے۔
یہ محض ایک افسانہ ہے کہ امریکہ دنیا کی سب سے بڑی عالمی طاقت ہے۔ اسوقت بشمول چین ، جاپان و انڈیا یہ جگہ حاصل کرنے کے قریب ہیں۔ یاد رہے کہ امریکی معیشت زیادہ تر صارفین پر منحصر ہے۔ جنکے پاس ماضی سے ابتک کی قوت خرید باقی ممالک کے مقابلہ میں زیادہ رہی ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ ڈالر کو مصنوعی طور پر بین الاقوامی تجارت میں ایک "خدا" کی حیثیت دی جاتی تھی۔ جسکا سب سے زیادہ فائدہ امریکی قوم کو ہوتا تھا۔ مطلب انکے سینٹرل بینکس جتنے چاہے ردی ڈالرز چھاپ کر اپنی قوت خرید بڑھا سکتے تھے، اور اسکے منفی اثرات بین الاقوامی تجارت (تیل وغیرہ) کے باعث مجبوراً دوسرے ممالک کو اپنے سر لینے ہوتے تھے۔
ابھی تک امریکی اپنے ردی ڈالرز کے عوض چین سے حقیقی مصنوعات کی خریداری کرتے ہیں۔ اور انکی معیشت کئی سالوں سے منفی بقایاجات میں جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امسال امریکہ کا نیشنل قرضہ ۱۲ ٹریلن کی ریکارڈ حد پار کر گیا ہے۔
http://www.usdebtclock.org/
اور جس دن ان ردی ڈالرز کی قدر صفر ہو جائے گی۔ اسی دن انشاءاللہ تیسری جنگ عظیم کا بھی ظہور ہو جائے گا۔ فی الحال امریکی بے روزگاری کا بڑھتا ہوا گراف:
۲۰۰۸ میں امریکا کے ۵۰ ملین لوگ فاقوں کا شکار تھے:
http://www.washingtonpost.com/wp-dyn/content/article/2009/11/16/AR2009111601598.html
بے شک امریکہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے!
مزید:
http://seekingalpha.com/article/173265-chinese-exports-can-emerging-markets-replace-the-u-s-consumer
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

کوئ بھی دو ممالک يہ دعوی نہيں کر سکتے کہ ان کے درميان تعلقات کی نوعيت زمينی حقائق، نظريہ ضرورت اور غير متوازن فيصلہ سازی جيسے عوامل کے باوجود ہميشہ يکساں اور متوازن رہے ہيں۔ يہی اصول امريکہ اور پاکستان کے مابين تعلقات پر بھی لاگو ہوتا ہے۔

اردو کے مختلف فورمز پر مجھ پر کی جانے والی مسلسل تنقيد کے برعکس ميں نے بارہا يہ بات تسليم کی ہے کہ امريکی حکومتوں نے ماضی ميں غلطياں کی ہيں۔ ايسے فيصلے بھی کيے گئے جن سے مطلوبہ نتائج حاصل نہيں کيے جا سکے اور ان کے نتيجے ميں ماضی ميں مختلف امریکی اور پاکستانی حکومتوں کے مابين تعلقات عروج وزوال کا شکار رہے ہيں۔

اس بات کا اعتراف تو صدر اوبامہ نے بھی اپنے حاليہ خطاب ميں کيا تھا

" ماضی میں ہم نے اکثر پاکستان کے ساتھ اپنے تعلق کو ایک تنگ زاویے سے دیکھا ہے ۔ وہ دِن ختم ہو چکے ہیں۔ آگے کی طرف بڑھتے ہوئے، ہم نے پاکستان کے ساتھ ایسی شراکت داری کا عہد کیا ہے جس کی بنیاد ایک دوسرے کے مفاد، باہم احترام اور باہم اعتماد پر قائم ہے"۔

ميں جب مختلف فورمز پر امريکہ اور پاکستان کے حوالے سے مختلف آراء اور تجزيے پڑھتا ہوں تو يہ محسوس کرتا ہوں کہ ان تعلقات کے ايک اہم جزو کو يا تو دانستہ نظرانداز کر ديا جاتا ہے يا اس کو زيادہ اہميت نہيں دی جاتی۔ ميرا اشارہ امريکی حکومت اور نجی سطح پر مختلف تنظیموں کی جانب سے پاکستان کے مختلف سيکٹرز اور اداروں کے ساتھ باہم اشتراک عمل سے جاری مختلف ترقياتی منصوبے ہيں جن کا اولين مقصد عام پاکستانيوں کے معيار زندگی کو بہتر بنانا ہے۔

حاليہ دنوں سے اس کی ايک مثال

امريکہ اگلے پانچ سالوں ميں (2010 – 2014) پاکستان ميں زرعی شعبے ميں 2 بلين ڈالرز کی سرمايہ کاری کرے گا جس کا مقصد پانی کے بحران پر قابو پا کر اس کی زرعی پيداوار ميں اضافہ کرنا ہے۔

http://www.dawn.com.pk/wps/wcm/conn...2bn+us+investment+in+farm+sector+likely-za-09


اسی طرح گزشتہ روز کی يہ خبر

پاکستان اور افغانستان کے ليے امريکہ کے خصوصی نمائندہ سفیر رچرڈ ہالبروک نے ايک تقریب ميں اعلان کيا کہ امريکی حکومت تربيلا ڈیم ہائيڈرواليکٹرک پلانٹ کی استعداد کار کو بہتر بنانے کے لیے 5۔16 ملين ڈالر (4۔1 ارب روپے) فراہم کرے گی۔ امداد کی يہ رقم وزارت پانی وبجلی کو فراہم کی جائے گی اور واپڈا کے ذريعہ منصوبہ پر عمل درآمد کيا جائے گا۔

توقع ہے کہ بحالی کا يہ منصوبہ 18 سے 24 ماہ کے عرصہ ميں مکمل ہو گا اور يہ 125 ملين ڈالر ماليت کے اس بڑے پروگرام کا حصہ ہے جس کا اعلان وزير خارجہ ہيلری کلنٹن نے اکتوبر ميں کيا تھا اور جس کا مقصد پاکستان ميں بجلی کی پيداوار ميں اضافہ اور توانائ کی استعداد کو بہتر بنانا ہے۔

اس پروگرام کے ديگر منصوبوں ميں صوبہ سندھ ميں جامشور تھرمل پاور اسٹيشن، پنجاب ميں مظفر گڑھ پاور اسٹيشن اور سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے سنگم پر واقع گدو اسٹيشن کو اپ گريڈ کرنا، گيارہ ہزار زرعی ٹيوب ويلوں کے پمپوں کو تبديل کرنا اور پاکستان ميں بجلی تقسيم کے نظام کی کارکردگی کو بہتر بنانا شامل ہے۔ اس نماياں کاوش سے بجلی کی باربار بندش ميں کمی لانے کا عمل شروع کرنے ميں مدد ملے گی جو تجارت کو مفلوج اور لاکھوں پاکستانيوں کی روز مرہ زندگی ميں مشکلات پيدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔

مستقبل میں امريکہ اور پاکستان کے عوام کے مابين تعلقات کی بنياد اور اس کا محور بے بنياد سازشی کہانيوں اور ميڈيا کے بعض عناصر کی جانب سے دانستہ جذباتيت پر مبنی اشعال انگيز تنازعوں پر نہيں بلکہ مشترکہ قدروں، عوام کے تحفظ اور باہمی اہميت کے حامل ان منصوبوں اور معاہدوں پر رکھی جانی چاہيے جن سے عام آدمی کے معيار زندگی کو بہتر بنانے کے ليے مواقع فراہم کيے جا سکيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 
پاکستانی آپس میں اتحادبرقرار رکھیں ۔ پاکستان کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں۔ اور نہ ہی پاکستانیوں کوکسی سے ڈرنے کی ضرورت ہے۔
 

سعود الحسن

محفلین

dxbgraphics

محفلین
جب حقیقت سامنے آتی ہے تو اس کو کسی فلم کا سین ثابت کر کے سچ چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے
 

dxbgraphics

محفلین
ابھی تو کسی نے فلم کا ذکر ہی نہیں کیا تھا کہ آپ نے خود ہی یہ شوشہ چھوڑ‌دیا ۔ ایسی موویز دیکھنے سے پلیز اجتناب کریں ۔ :)

ایک بھائی نے یہ پیسٹ کیا تھا
محمود صاحب اگر آپ اس بلاگ پوسٹ کے نیچے لکھے تبصرے بھی پڑھ لیتے تو شائد یہ لنک یہاں پوسٹ نہ کرتے۔۔۔

کاش آپ بلاگ ہی پڑھ لیتے :grin:
 

ظفری

لائبریرین
امریکہ اور امریکی نفرت ہی کے قابل ہیں۔ ۔ ۔ذرا یہ دیکھئیے اور پھر اسے بھولنے کی کوشش بھی کر کے دیکھئے :

محمود صاحب ۔۔۔۔۔ میں نےآپ کا دیا ہوا لنک حذف کر دیا ہے ۔ کیونکہ لنک میں موجود تصاویر پورن موویز کے مناظر تھے ۔ آپ ایک سمجھدار آدمی ہیں‌ ۔ کوشش کریں کہ ایسے لنکس دیتے ہوئے تصدیق کرلیا کریں کہ ان کی کیا حقیقت ہے اور ان کا لنک یہاں دینا کہاں‌ تک مناسب ہے ۔ ؟

دوسری بات یہ کہ آپ اپنے نکتہِ نظر کے خلاف کسی ملک کی پالیسز کو پاتے ہیں تو اس سے اختلاف کرسکتے ہیں ۔ مگر کسی کو بحیثیت قوم اپنے کسی روعمل کا نشانہ بنانا کسی بھی طور مثبت رویہ نہیں ہے ۔ اس غلط لنکس کے زیرِ اثر آکر اگر آپ کسی قوم کے خلاف اس قدر نفرت انگیز جملہ لکھ سکتے ہیں تو پھر آپ اپنے گاؤں‌، دیہات اور شہروں میں بازاروں ، گلی گوچوں میں برہنہ کرکے خواتین کو گھمانے والوں ، اجتماعی آبروزوری کرنے والوں ، پولیس تھانوں اور دارلامان جیسے جگہوں پر مجبور اور بے بس خواتین سے پیشہ کرانے والوں کے لیئے بھی یہی جملہ لکھیں ۔ تاکہ آپ کی انسانیت سے غیر جانبداری ثابت ہوسکے ۔

کسی قوم کے بارے میں اپنی نفرت کا یہ اظہار میرے لیئے کسی صاحبِ علم سے غیرمتوقع تھا ۔ کیونکہ ہم کو اسلامی تاریخ ‌بتاتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان عورتوں اور بچوں ‌پر دورانِ جنگ ہاتھ اٹھانے سے سختی سے منع فرمایا جو حالت ِ جنگ میں نہیں تھے مگر میدانِ جنگ میں ضرور موجود تھے اور اپنے سپاہیوں کی حوصلہ افزائی اور مرہم پٹی کے لیئے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے ۔ حالانکہ دورانِ جنگ اس قسم کی پشت پناہی دیکھ کر انسان اور بھی خونخوار ہوجاتا ہے ۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلی اخلاقیات کی روایات قائم کرتے ہوئے ان پر کسی قسم کا جملہ تو کسنا دور کی بات ، دورانِ جنگ ان پر ہاتھ اٹھانا بھی منع فرمایا ۔ اور اس صدی میں کچھ لوگوں کو روشن خیال کہہ کر ہم خود نئی روایات رقم کررہے ہیں ‌۔
اللہ ہم پر رحم فرمائے ۔
 
کسی قوم کے بارے میں اپنی نفرت کا یہ اظہار میرے لیئے کسی صاحبِ علم سے غیرمتوقع تھا ۔ کیونکہ ہم کو اسلامی تاریخ ‌بتاتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان عورتوں اور بچوں ‌پر دورانِ جنگ ہاتھ اٹھانے سے سختی سے منع فرمایا جو حالت ِ جنگ میں نہیں تھے مگر میدانِ جنگ میں ضرور موجود تھے اور اپنے سپاہیوں کی حوصلہ افزائی اور مرہم پٹی کے لیئے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے ۔ حالانکہ دورانِ جنگ اس قسم کی پشت پناہی دیکھ کر انسان اور بھی خونخوار ہوجاتا ہے ۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلی اخلاقیات کی روایات قائم کرتے ہوئے ان پر کسی قسم کا جملہ تو کسنا دور کی بات ، دورانِ جنگ ان پر ہاتھ اٹھانا بھی منع فرمایا ۔ اور اس صدی میں کچھ لوگوں کو روشن خیال کہہ کر ہم خود نئی روایات رقم کررہے ہیں ‌۔
اللہ ہم پر رحم فرمائے ۔
ظفری صاحب آپ کو شائد زیادہ برا اس لئے لگا کہ آپ خود امریکہ میں رہائش پذیر ہیں۔ ورنہ میری اس بات کا جنگ میں عورتوں اور بچوں پر ھاتھ اٹھانے یا نہ اٹھانے سے کیا تعلق ہے؟ بتائے کہ میں نے کہاں کہا ہے کہ امریکی عورتوں اور بچوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کرنا چاہئے۔ بھائی میں نے تو فقط اتنا عرض کیا ہے کہ۔ ۔ "امریکہ اور امریکی نفرت ہی کے قابل ہیں" ۔ ۔ ۔اس سے یہ مطلب نکالنا کہ میں امریکی عورتوں بچوں پر ظلم کرنے کی حمایت کر رہا ہوں آپ جیسے صاحب علم سے اسکی توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔ لیکن بہرحال۔ ۔ ۔ :)
جہاں تک نفرت یا محبت کا تعلق ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میں نے اپنے اس ایک جملے میں جو کچھ لکھا ہے میں وہ لکھنے میں حق بجانب ہوں۔ جو کچھ وطن عزیز میں ہو رہا ہے بلکہ آپ سے ہزاروں میل دور پورے مسلم ورلڈ میں،اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہم حالت جنگ میں ہیں اور رسول کریم نے حضرت حسّان بن ثابت کو کفّار مکہ کی ہجو کا حکم دیا تھا کیونکہ یہ نفسیاتی جنگ کا ہی ایک حصہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ہم سے آپ امریکیوں کے قصیدوں کی توقع مت رکھیں :)
یقیناّ امریکیوں میں انفرادی طور پر بہت اچھے لوگ بھی ہونگے۔ لیکن میں بائیس کروڑ کے اس ملک کے ہر فرد کی انفرادی سطح پر اتر کر بات نہیں کررہا۔ ۔ ہر قوم کا بحیثیت مجموعی ایک کردار ایک شخصیت ہوتی ہے۔ ۔اور معزرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ ایک قوم کی حیثیت سے امریکی اپنے تکبّر ، وحشت و بربریت، انسانیت کے قتلِ عام، پوری دنیا پر اپنی اجارہ داری کے عزائم اور ڈبل سٹینڈرڈز کی وجہ سے پوری دنیا ہی میں نفرت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

جب آپ ابوغريب ميں امريکی فوجيوں کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزيوں کے واقعات کا ذکر کرتے ہيں تو آپ يہ کيوں بھول جاتے ہيں کہ وہ بھی امريکی فوجی ہی تھے جنھوں نے اپنے ساتھيوں کی بدسلوکی کے بارے ميں حکام کو آگاہ کيا تھا۔صرف يہی نہيں بلکہ ان امريکی فوجيوں نے اپنے ہی ساتھيوں کے خلاف مقدمات ميں گواہی بھی دی اور انھی کی کوششوں کی وجہ سے ان جرائم ميں ملوث فوجيوں کے خلاف باقاعدہ مقدمے بنے اور انھيں سزائيں بھی مليں۔

http://www.usatoday.com/news/nation/2005-09-26-england_x.htm

http://news.bbc.co.uk/2/hi/middle_east/3669331.stm

http://www.usatoday.com/news/world/iraq/2005-01-06-graner-court-martial_x.htm

http://www.csmonitor.com/2007/0821/p99s01-duts.html

امريکی حکومت نے يہ تسليم کيا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے امريکی آرمی کا ريکارڈ مثالی نہيں ہے۔ ليکن يہ بھی حقيقت ہے کہ تاريخ انسانی کی ہر فوج ميں ايسے افراد موجود رہے ہيں جنھوں نے قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کی اور قانون توڑا۔

اہم بات يہ ہے ہر اس امريکی فوجی کے خلاف تفتيش بھی کی گئ اور اسے ملٹری کورٹ کے سامنے لايا گيا جس پر اس حوالے سے الزامات لگے۔ ايسے کئ کيسز امريکی عوام کے سامنے بھی لائے گئے۔ ليکن يہ تمام واقعات کسی منظم سسٹم کے تحت نہيں رونما نہيں ہوئے تھے بلکہ کچھ افراد کے انفرادی عمل کا نتيجہ تھے۔ يہ لوگ امريکی فوج کی اکثريت کی ترجمانی نہيں کرتے۔

ميں نے يہ بات پہلے بھی کہی ہے اور امريکی صدر سميت اہم امريکی اہلکاروں نے بھی اس بات کو دہرايا اور دنيا بھر کے ميڈيا کے سامنے بھی اس بات کا اعادہ کيا گيا ہے کہ ابوغراب کا واقعہ عام امريکيوں اور امريکی حکومت کے ليے انتہائ افسوس ناک تھا جس کی سب نے نہ صرف يہ کہ بھرپور مزحمت کی بلکہ اس واقعے ميں شامل تمام افراد کا ٹرائل ہوا اور انھيں قانون کے مطابق سزائيں دی گئيں۔ آپ دنيا کے کتنے ممالک کے بارے ميں يہ دعوی کر سکتے ہيں کہ جہاں حکومت کی جانب سے فوجيوں کے کردار اور ان کے اعمال کا اس طرح احتساب کيا جاتا ہے؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

نایاب

لائبریرین
السلام علیکم
محترم ظفری بھائی
ماشااللہ
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
اک عرصہ بعد اردو محفل کا جو صفحہ کھلا وہ آپ کی یہ زبردست معلوماتی اور فکر انگیز تحیر تھی ۔ اور اس کے ساتھ ہی محترم عارف کریم کا ہمیشہ کی طرح تنقید براٰے تعمیر سے بھرا تبصرہ ۔۔ بلاشبہ تعلیم انسان کو تہزیب سکھاتی ہے ۔ اور انسان میں قایدانہ صلاحتیں پیدا کرتی ہے ۔ لیکن جو سب سے اہم سبب ہے کسی بھی قوم و ملک کے سپر پاور بننے کا وہ اس قوم و ملک کے افراد و عوام کا اپنے ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر جذبہ تعمیر ملک و ملت اور خدمت انسان کے جذبے سے اپنی اصلاح کرنا ۔ ٹیکسز کی اداٰیگی اور پیشہوارانہ امور کو دیانت داری سے ادا کرنا ۔ ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ ۔۔۔ فرد اپنی اصلاح کر لے تو معاشرہ اور ملک خود بخود سدھر جاتا ہے ۔
ظفری بھائی موڈریٹر کا عہدہ مبارک ہو
آپ کو دلی مبارک باد
 
Top