با ادب

محفلین
بڑے مشہور ایڈوکیٹ ہیں وہ
وہ lawعلمی میں خاصے لاعلم ہیں
زمانہء
طالب علمی کے دوران یونیورسٹی میں ایک مشاعرہ ہوا ۔ مشاعرہ مزاحیہ شاعری پر مبنی تھا ۔ مہمان خصوصی کے طور پہ انور مسعود صاحب کو مدعو کیا گیا تھا ۔ شعر و شاعری سے دلچسپی ضرور تھی لیکن یقین جانئیے ادب کوئی صنف ہمیں مزاحیہ شاعری سے زیادہ بری نہ لگتی ۔ ادب سے تعلق اپنی جگہ جبکہ مزاحیہ مشاعرے سے لا تعلقی اپنی جگہ ۔
اس چڑ اور لا تعلقی کی وجہء تسمیہ قر عید پر ہونے والے پی ٹی وی کے مزاحیہ مشاعرے تھے ۔
بچپن کے زمانے میں ہمارے گھر میں بچوں کی عیدین کی واحد تفریح ٹیلی ویژن کے رنگ برنگے پروگرامز تھے ۔ اور ان پروگرامز میں جب کسی ڈرامے یا عید شو کی بجائے مزاحیہ مشاعرہ آجاتا تو ہماری تفریح کامزہ کرکرہ ہوجاتا ۔
دوسری اہم بات کہ تب ہمیں ان مشاعروں کی سمجھ بھی نہیں آتی تھی ۔
مزاحیہ مشاعرے کا یہی تصور دل و دماغ پہ ایک طویل عرصے تک چھایا رہا ۔ اور اسی تصور کے باعث ہمیں یونیورسٹی کے منعقد کردہ اس مشاعرے کی بھی قطعا کوئی خوشی نہیں تھی ۔ لیکن وہ کیا کہیئے کہ طالب علموں کی پڑھائی سے جان چھڑانے کی خاطر والی عادت سے مجبور ہو کے وقت گزاری کی خاطر آڈیٹوریم کا رخ کرنے میں ہم نے کوئی مضائقہ نہ سمجھا ۔
اور کود پڑے آتش اشعار میں ہم
اور
پھر اس کے بعد خیالوں مین تاریکی نہ رہی
اس دن انور مسعود صاحب کے بے ساختہ انداز بیاں اور بہترین شاعری نے ہماری ناقص رائے کی تبدیل مین اہم کردار ادا کیا ۔
مشاعرہ ہمارے ڈیپارٹمنٹ (لاء ڈیپارٹمنٹ) نے منعقد کروایا تھا ۔
انور مسعود صاحب کی بذلہ سنجی اور حاضر دماغی ، جوں ہی ڈیپارٹمنٹ میں داخل ہوئے برملا شعر داغ دیا ۔

بڑے مشہور ایڈوکیٹ ہیں وہ
وہ lawعلمی میں خاصے لاعلم ہیں

اب لاء علمی میں لاعلم ہونا تب تو ہمارے لئے مزاحیہ شاعری کا فقط ایک بہترین مصرعہ تھا لیکن جب ہم ایڈوکیٹ ہوگئے گو مشہور تو نہ ہوئے کہ ہم نے کبھی کسی کیس مین ھاتھ ڈالا ہی نہیں تھا اور اسی ھاتھ روکے رکنے نے ہم لا علم رکھا ۔
ستم ظریفئی قدرت ہم نے وکالت پڑھی اور کچھ زیادہ ہی پڑھی لیکن کبھی یہ سوچ کے نہیں پڑھی کہ یہ کوئی شعبہ ہے اور اسے اختیار بھی کیا جا سکتا ہے ۔
ہم پیدائیشی استاد تھے ۔ پڑھتے کچھ بھی مقصود پڑھانا ہی تھا
اگر میڈیکل پڑھ لیتے توڈاکٹر نہ ہوتے استاد ہی ہوتے انجینئرنگ پڑھ لیتے تو انجینئیر نہ ہوتے تب بھی استاد رہتے ۔ اور اگر ہم نے وکالت پڑھ ڈالی تھی تب بھی ہم استاد ہی تھے ۔
اب جب کسی نے ہم سے ہماری تعلیمی قابلیت کا سوال کیا اور ہم نے بر سبیل تذکرہ وکالت کا نام لے لیا ۔
پھر تو کیا کہئیے
سوال کرنے والے کے وارے نیارے ہوگئے ۔ مزید سوالات کی راہ ہموار ۔
جب وکالت پڑھی تو استادی چہ معنئ دارد
ہ سوال ہم سے اتنی بار پوچھا گیا کہ کیا ہی میڈیا نے شیخ رشید سے اس کی شادی کے متعلق سوال ہواہو۔ جتنا ہماری وکالت کی ڈگری کو لے کر وکیل کیوں نہ بنی پر لب کشائی کی گئی ۔
جی چاہتا ایک پمفلٹ چھپوا دوں جس پر تمام وجوہ بیان کی گئی ہوں ۔ اور جیسے ہی کوئی اس سوال کی خاطر لب کشائی کرے زبان کو تکلیف دیئے بغیر پمفلٹ آگے کر دوں ۔ لیکن اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کی کبھی نوبت نہ آئی ۔ سوچا لوگ ویسے ہی ہمیں عجوبہء روزگار سمجھتے ہیں۔ ایسا نہ ہو اس حرکت کے بعد کہیں عجائب خانے میں رکھوانے پر تل جائیں ۔
بات دراصل یہ ہے کہ اس سوال کا جواب دل کے نہاں خانوں میں محفوظ تھا لیکن ہم میں شاید وہ طاقت گفتار ہی نہ تھی یا پھر شاید وہ بہترین الفاظ نہ تھے کہ ۔دعا بیان کرکے تسلی و تشفی کروائی جا سکتی ۔
ہمارے ہاں وکالت کا پیشہ اگر خواتین اختیار کریں تو ایسی خواتین کو بالعموم نہایت ماڈرن خواتین سمجھا جاتا ہے ۔ چھوٹے شہروں کے تو کیا ہی کہنے بڑے شہروں کے حالات بھی مشبہ بہ دیہات ہیں ۔ خیر معاملے کے اس پہلو کی طرف ہم نے کبھی توجہ ہی نہ دی تھی ۔ کہ وکالت پڑھنے کے بعد ہم ایک ماڈرن خاتون ہو چکے ہیں کہ اسی وکالت کے ساتھ ہم نے شریعت ( شریعہ اینڈ لاء ) بھی پڑھ رکھی تھی ۔ اور اسلامیات میں ایم اے بھی کر رکھا تھا ۔
طبقہء اشرافیہ میں ایم ایس سی حیاتیات و طبیعات و کیمیا کو خاصی اہمیت حاصل ہے ۔ اور اگر کوئی مائی کا لعل ڈاکٹر انجینئیر بن جائے تو خاندان کی عزت کو چار چاند لگ جاتے ہیں ۔ لیکن اگر کوئی عقل کا مارا اسلامیات میں ایم اے کر لے تو ماں باپ کی نظریں اولاد کی ڈگری کی تفصیلات بتاتے ہوئے جھک جاتی ہیں ۔ عموما اور خصوصا تاءثر یہی لیا جاتا ہے بچہ چونکہ ہر قسم کی قابلیت سے محروم تھا اس لئے اسلامیات میں میں ماسٹرز کروادیا گیا ہے اگر بچہ قابل ہوتا تو ڈاکٹر نہ ہوتا ۔ ۔
اب ایسا بچہ جو وکالت پڑھ کے ماسٹری کرے اس کے والدین کے لئیے خصوصی دعا کی اشد ضرورت ہوتی ہے کہ بچے کی فلاسفی اپنی جگہ والدین کے جذبات کو بھی پرسے کی ضرورت ہے ۔ اللہ ان تمام جذبات کو ثواب دارین عطا فرمائے اور ایسی کم عقل اولاد کو عقل سلیم عطا فرمائے ۔ آمین ۔
 

نور وجدان

لائبریرین
انسان جب ادب کی دنیا میں قدم رکھتا ہے تب دو باتیں لکھت میں معاون ہوتی ہیں ، ایک : تجربہ ، دوسرا تخیل ۔۔۔ تخیل کی طاقت اکثر ایسے فنکاروں میں ہوتی ہے جو روایات سے ہٹ کے اپنی ڈگر پر چلنے کے خواہاں ہوتے ہیں ۔ تخیل تجربے کے علم کو مہمیز دیتا ہے اور اسکا اطلاق لکھاری جب ادب میں کرتا ہے تو اسکی لکھت بے پناہ علوم لیے ہوتی ہے ! امامیات پر پڑھی پہلی تحریر کے بعد ازاں اقساط پڑھی جو اس تخیل اور تجربے کے بین بین ہیں ۔ اگر آپ کسی ایک طرف جھک جائیں تو کمال کی مصنفہ کہلائی جاسکتی ہیں۔ مجھے قدرت اللہ شہاب سے زیادہ مظفر وارثی ، بیدم وارثی پسند ہیں کیونکہ انکی سمت ایک ہی تھی اور اس سے ایک انچ ادھر ادھر نہ ہوئے اور جو لکھا ، آج تک طلسماتی تاثر لیے ہوئے ہے جبکہ کلام بو علی شاہ ، کلام شیخ حضرت عثمان مروندی کو دیکھا جائے تو ان کی لکھت کا قد ان کے سامنے ہیچ ہے ، یعنی وہ ایسی قد آور ہستیاں ہیں کہ آج تک ان کے لکھے احساس لفظوں میں وہ جگہ رکھتے ہیں کہ جو بھی ان کو پڑھتا ہے تو لفظوں کا دیوانہ ہوجاتا ہے ۔لفظ روح رکھتے ہیں اور یہ روح ہمارے احساسات ہیں جو صدیوں بعد میں ختم نہیں ہوپاتے ! تاڑڑ صاحب یا پروین شاکر نے اپنے تجربے کو تخیل سے مہمیز دیتے لکھا اور سچ لکھا ، ان کے سچے احساسات انکے قلم ، لفظوں میں روح رکھے ہمارے اندر تہلکہ مچاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہنے کا مقصد یہی ہے کہ جو سمت منتخب کریں ، اس سے ایک سمت ادھر ادھر نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ چاہیں تو بہت اچھا لکھ سکتی ہیں
 

با ادب

محفلین
امامیات پر پڑھی پہلی تحریر کے بعد ازاں اقساط پڑھی جو اس تخیل اور تجربے کے بین بین ہیں
آج تک جو لکھا تجربہ لکھا ۔
 
Top