ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھائی ، آپ کے حکم کی تعمیل میں مضمون پیش کر رہا ہوں . مضمون کیا ہے ، اپنے چند پسندیدہ اشعار کا ذکر ہے . :) اِس کوشش کا پس منظر بھی سن لیجیے . اِس صدی کی شروعات میں میرا انٹرنیٹ کی چند اَدَبی محافل سے گزر ہوا . ان محافل میں اُرْدُو کو رومن میں لکھنے کا رواج تھا ، اور کبھی کبھی تو پوری گفتگو ہی انگریزی میں ہوتی تھی . ان محافل میں سے ایک تھی ای بزم ڈاٹ کوم . راحل بھائی سے میری ملاقات وہیں ہوئی تھی . اس محفل كے بانی کی فرمائش پر میں نے یہ مضمون سال ۲۰۰۲ء میں انگریزی میں ترتیب دے کر وہاں پیش کیا تھا . وہ بزم تو اب وجود میں نہیں ہے ، لیکن یہ مضمون کئی سال بعد حال ہی میں ایک اور محفل میں پیش کیا گیا . جو احباب اصل مضمون میں دلچسپی رکھتے ہوں وہ یہاں دیکھ سکتے ہیں . https://groups.google.com/g/alt.language.urdu.poetry/c/750L7gPVmOI
بہرحال ، میں وہ مضمون اُرْدُو میں ترجمہ کر كے پیش کر رہا ہوں . یہ ترجمہ لفظ بہ لفظ نہیں ہے ، بلکہ میں نے ضرورتاََ چند معمولی تبدیلیاں بھی کی ہیں .

تخیل اور تَغَزُّل : اُرْدُو شاعری کی روح

اِس مضمون کا موضوع نیا نہیں ہے . اِس پر بہت کچھ پہلے ہی لکھا جا چکا ہے . میری خامہ فرسائی کا مقصد اپنے چند پسندیدہ اشعار کو یاد کر كے ان کا لطف دوبارہ اٹھانا ہے . اِس امر سے اگر قارئین کی اُرْدُو شاعری کی سمجھ میں اضافہ ہو جائے تو یہ میرے لیے سونے پر سہاگا كے مترادف ہو گا .

’تخیل‘ كے معنی ہیں خیالی صورت بنانے کی قوت . یہ اُرْدُو شاعری ، بلکہ کسی بھی زبان کی شاعری ، کا ایک اہم عنصر مانا جاتا ہے . تخیل کی قوت رکھنے والا شاعر ایسی ایسی باتیں سوچ سکتا ہے جو عام آدمی كے ذہن میں نہیں آتیں . دوسری طرف ’تَغَزُّل‘ كے معنی ہیں شعر کا حسن . تَغَزُّل سے شاعر ایک عام سے خیال کو بھی ایک شاہکا ر میں تبدیل کر سکتا ہے . ایسے شاعر کو زبان اور بیان پر عبور حاصل ہوتا ہے . ایک عظیم شاعر کی شاعری میں تخیل اور تَغَزُّل دونوں خوبیاں ہوتی ہیں . میں تخیل اور تَغَزُّل كے معنی چند اشعار کی مدد سے سمجھانے کی کوشش کروں گا . یہاں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ یہ اشعار مذکورہ شعرا كے كلام یا اُرْدُو شاعری کا مجموعی آئینہ نہیں ہیں ، بلکہ محض چنندہ مثالیں ہیں .

آئیے پہلے چند ایسے اشعار پر نگاہ ڈالتے ہیں جو زبان اور بیان كے لحاظ سے خاص نہیں ، تاہم اپنے خیال کی وجہ سے ذہن پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں ، یعنی ایسے اشعار جن میں تخیل نمایاں ہے .

آدم کا جسم جب کہ عناصر سے مل بنا
کچھ آگ بچ رہی تھی سو عاشق کا دِل بنا ( سوداؔ )
یہ شعر پڑھیے اور سوچیے کہ اِس میں ایسا کیا ہے جو لطف دیتا ہے . شعر کی زبان سادہ ہے اور اِس میں الفاظ کی کوئی جادُوگَری نہیں ہے . لیکن خیال پر غور کیجیے . سوداؔ فرماتے ہیں کہ جب خدا نے آدم کا جسم عناصر سے بنا لیا تو پایا کہ کچھ آگ بچی ہے ، اور اس آگ سے بنایا عاشق کا دِل ، یعنی وہ چیز جو ہمیشہ جلتی رہتی ہے . کیا خیال ہے !

چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں ، زندگی دشوار ہو جائے ( اصغرؔ گونڈوی )
یہ شعر شاعر کی غیر معمولی فکر کی ایک اور مثال ہے . عام طور پر لوگ حوادث سے پرہیز کرتے ہیں ، لیکن اصغرؔ گونڈوی کا ماننا ہے کہ حوادث ہمیں مصروف رکھتے ہیں اور جد و جہد کی ترغیب دیتے ہیں . حوادث كے بغیر جینا مشکل ہے . کیا سوچ ہے !

مرے ٹوٹے ہوئے پائے طلب کا مجھ پہ احساں ہے
تمہارے دَر سے اٹھ کر اب کہیں جایا نہیں جاتا ( مخمورؔ دہلوی )
کیا آپ چاہیں گے کہ آپ كے پیر ٹوٹ جا ئیں ؟ شاید نہیں . لیکن مخمورؔ دہلوی کو ٹوٹے ہوئے پیروں میں بھی ایک فائدہ نظر آتا ہے . ان كے مطابق اگر پیر ٹوٹے ہوں تو محبوب كے دَر سے اٹھ کر جانے کا امکان ختم ہو جاتا ہے . ایک عاشق اور کیا چاہے گا !

اور آئیے اب دیکھتے ہیں چند ایسے اشعار جو تَغَزُّل کی مثال ہیں ، یعنی ایسے اشعار جو کسی انوکھے خیال كے عكاس نہیں لیکن جن میں خیال کی ادائگی غیر معمولی ہے .

بیٹھنے کون دے ہے پِھر اس کو
جو ترے آسْتاں سے اٹھتا ہے ( میرؔ)
میرؔ کو غزل کا شہنشاہ مانا جاتا ہے . ان کے یہاں تَغَزُّل کی ڈھیروں مثالیں ہیں . میں نے یہ شعر بس یوں ہی چن لیا . ایک عاشق کو زمانہ کبھی چین سے نہیں جینے دیتا . یہ کوئی نئی بات نہیں ، لیکن میرؔ نے جس طرح یہ بات کہی ہے ، اس پر دِل سے بس واہ نکلتی ہے !

نہ گئی تیرے غم کی سرداری
دِل میں یوں روز انقلاب آئے ( فیضؔ )
عاشق کا دِل اکثر غم سے بھرا ہوتا ہے . یہ ایک عام بات ہے اور شاعری کا دیرینہ مضمون ہے . لیکن کہنے کا انداز دیکھیے ! لفظ ’سرداری‘ پر غور کیجیے . فیضؔ فرماتے ہیں کہ اگرچہ دِل کی حالت میں کئی تبدیلیاں آئیں، لیکن محبوب کا غم سب سے اوپر رہا . جنہوں نے فیضؔ کو زیادہ نہیں پڑھا ، ان کی اطلاع كے لیے عرض ہے کہ ’انقلاب‘ پر انہوں نے بہت کچھ کہا ہے . یہاں انہوں نے اِس لفظ کا استعمال عاشق كے دِل کا ماحول بیان کرنے كے لیے بخوبی کیا ہے .

کیا کہوں دیدۂ تر، یہ تو مرا چہرہ ہے
سنگ کٹ جاتے ہیں بارش کی جہاں دھار گرے ( شکیبؔ جلالی )
رونے سے چہرے پر نشان پڑ جاتے ہیں . کیا یہ کوئی عجیب بات ہے ؟ کیا اِس پر کوئی ایک یادگار شعر کہہ سکتا ہے ؟ جی ہاں ، شکیبؔ جلالی کہہ سکتے ہیں . انہوں نے جس طرح مسلسل اشک باری سے چہرے پر پڑنے والے نشانوں کو بارش كے اثر سے پتھر كے گھسنے کی تشبیہ دے کر تَغَزُّل پیدا کیا ہے ، وہ قابل تعریف ہے .

اور آخر میں آئیے دیکھتے ہیں چند ایسے اشعار جو تخیل اور تَغَزُّل دونوں کی مثالیں ہیں .

غمِ ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک ( غالبؔ )
غالبؔ كے اِس نگینے پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں ، لیکن میں چند سطروں پر اکتفا کروں گا . پہلے تخیل پر غور کرتے ہیں . شمع کو ہمیشہ پروانے کی ظالم قاتل اور محفل میں توجہ كے مرکوز كے طور پر دیکھا جاتا ہے . لیکن اِس تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے جسے دیکھنے كے لیے غالبؔ کا تصور درکار ہے . اُنہیں شمع كے گرد چھایا ہوا اندھیرا ، اس کا رفتہ رفتہ ختم ہوتا ہوا وجود اور مسلسل جلنے کی تکلیف بھی نظر آتی ہے . اب تَغَزُّل دیکھیے . غالبؔ کہتے ہیں کہ جس طرح شمع کی مشکلیں رات بھر جلنے كے بعد صبح کسی كے بجھانے سے ہی ختم ہوتی ہیں ، اسی طرح انسان کی مشکلیں بھی موت كے ساتھ ہی ختم ہوتی ہیں ، یعنی غالبؔ نے شمع کو زندگی کی مثال کیا ہے . ’ہر رنگ میں‘ پر بھی غور فرمائیے . غالب نے ’ہر شکل میں‘ یا ’ہر حال میں‘ نہیں کہا . ’رنگ‘ نے جو رنگ پیدا کیا ہے ، اس کا جواب نہیں . اور ہاں ، غزل کی ردیف ’ہونے تک‘ نے بھی خوب سماں باندھا ہے . ( دَر اصل غالب نے ’ہوتے تک‘ کہا تھا ، لیکن یہ غزل ’ہونے تک‘ كے ساتھ ہی مشہور ہے . )

صدقے اترینگے ، اسیرانِ قفس چھوٹے ہیں
بجلیاں لے كے نشیمن پہ گھٹا بھی آئی ( فانیؔ )
یہ شعر فانیؔ کےِ سخن کا آئینہ ہے . ( ان کی زیادہ تر شاعری پرسوز اور غمناک ہے . ) وہ اپنی مخصوص فکر اور مؤثر بیان كے لیے مشہور تھے . پہلے ان کا تخیل دیکھیے . فانیؔ فرماتے ہیں کہ پنچھی پنجرے سے چھوٹے ہیں . یہ ایک خوشی کا موقع ہے لہٰذا صدقہ کا مقام ہے . آپ کو علم ہو گا کہ اپنی سلامتی كے لیے لوگ اپنی دولت خرچ کر كے یا کسی جانور کو قربان کر كے صدقہ کرتے ہیں . یہاں صدقہ كے اہتمام كے لیے بجلیاں آئی ہیں ، یعنی صدقے میں پنچھیوں كے نشیمن ہی جل کر راکھ ہونے والے ہیں . فانیؔ نے پنچھیوں کی بیچارگی کا جو منظر کھینچا ہے ، اسے دیکھ کر آپ ان كے تَغَزُّل کی تعریف كے علاوہ اور کیا کر سکتے ہیں ؟

مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے ( مستؔ کلکتوی )
یہ شعر اُرْدُو شاعری میں دلچسپی رکھنے والے ہر شخص کو یاد ہو گا ، اور اس کی وجہ ہے . اِس كے پیچھے ایک نہایت اعلیٰ خیال ہے اور اس کو بڑے سلیقے سے بیان کیا گیا ہے . عموماً مرتبہ پانے كے لیے زندہ رہ کر بڑے بڑے کام کیے جاتے ہیں ، لیکن مستؔ کلکتوی قاری کو مرتبہ پانے كے لیے مٹ جانے کی ترغیب دے رہے ہیں ( تخیل . ) اور اپنے مشورے كے دفاع میں وہ دانے کی مثال دیتے ہیں جو پودا اور درخت بننے كے لیے خاک میں مل جاتا ہے ( تَغَزُّل . )

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے ، بتا تیری رضا کیا ہے ( اقبالؔ )
اقبال کی فکر بےمثال تھی . ان كے جذبات میں شدت تھی اور ان كے اظہار كے لیے وہ بے حد نفیس الفاظ کا انتخاب کرتے تھے . اقبالؔ کی شاعری بلند پایہ تخیل سے بھری پڑی ہے . یہ شعر صرف ایک مثال ہے . یہاں اقبالؔ قاری کو خودی ، جو ان کا محبوب موضوع تھا ، کی بلندی پر آمادہ کر رہے ہیں ، اتنی بلندی کہ خدا بھی اس کی تقدیر اس کی پسند كے مطابق لکھے . اقبال نے یہاں تَغَزُّل ’بندے سے خود پوچھے‘ کہہ کر پیدا کیا ہے ورنہ یہ کہنا کافی تھا کہ خدا بندے کی تقدیر اس کی پسند كے مطابق لکھے . خدا عالم الغیب ہے ، اسے کچھ پوچھنے کی کیا ضرورت ہے .

یہ اشعار اُرْدُو شاعری كے لا محدود سمندر کی چند بوندیں ہیں . امید ہے یہ مضمون دلچسپ ثابت ہوا ہو گا اور آپ آئندہ اُرْدُو شاعری كے مطالعہ كے دوران ایسے اشعار کی تلاش کرینگے جو تخیل اور تَغَزُّل سے بھرپور ہوں .
بہت بہت شکریہ ، عرفان بھائی!
میری رائے میں ہر وہ نگارش جو اردو شعر و ادب کی تعلیم اور ترویج میں ممد و معاون ہو معتبر اور اہم ہوتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اردو محفل کے توسط سے قارئین و شائقین کی ایک کثیر تعداد اس مضمون سے مستفید ہوگی ۔ امید ہے کہ آپ کی طرف سے اس طرح کے سلسلے جاری رہیں گے اور ہمیں فیضیاب کرتے رہیں گے۔
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم
بہت عمدہ سلسلہ چل نکلا ہے ماشاء اللہ میں امتحان کی تیاری میں مشغولیت کےباوجود تمام مراسلوں کو غور سے پڑھتا رہا۔بطور تنقید جونگارشات پیش کی گئیں وہ مجھے پہلے سے پتا تھیں کچھ باتوں سے اختلاف اگرچہ ہے مگر جو بات میرے لیے بلکہ ہم سب کے لیے متاثر کن اور سیکھنے والی ہے وہ صابرہ بہن کا تنقید پر مثبت رویہ ہے جو خال خال نظر آتا ہے۔ اس سلسلے کی کامیابی ہی اس میں مضمر ہے کہ ہم سب اسی رویے کا مظاہرہ کریں اور اپنی نگارشات پیش کرتے ہوئے تنقید کا خوشدلی سے سامنا کریں ۔میں بھی ان شاء اللہ پیپر کے بعد اپنی کاوش پیش کروں گا۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ جو یہاں زیادہ تنقید کرے اگلی بار وہی اپنی تخلیق پیش کر کے تنقید کا خوشدلی سے سامنا بھی کرے تاکہ حدیث کے کلیے پر عمل ہو سکے کہ مومن جو اپنے لیے پسند کرتا ہے اوروں کے لیے بھی وہی پسند کرتا ہے۔ اور یوں جرح و جراحی میں کچھ اعتدال بھی آ جائے۔

بہر حال مسمات صابرہ واقعی اسم با مسمی ہیں ۔بہن آپ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اور آپکا غم غلط کرنے کے لیے تین اشعار از راہ مزاح آپ کی طرف سے لکھے ہیں۔

کسی ڈاکٹر نے بنام نقد غزل کی کر دی ہے سرجری
ابھی تک غشی سی غزل پہ ہے مرا سخت اداس ہے فروری

مجھے لگ رہی تھی غزل پری مجھے تھا جنون سخنوری
وہ سنی ہے میں نے کھری کھری نہ جنوں رہا نہ رہی پری

"گِلۂ جفائے وفا نما" جو ادب کو نقد ادب سے ہے
"کسی بت کدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی ہری ہری "
 
بہت بہت شکریہ ، عرفان بھائی!
میری رائے میں ہر وہ نگارش جو اردو شعر و ادب کی تعلیم اور ترویج میں ممد و معاون ہو معتبر اور اہم ہوتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اردو محفل کے توسط سے قارئین و شائقین کی ایک کثیر تعداد اس مضمون سے مستفید ہوگی ۔ امید ہے کہ آپ کی طرف سے اس طرح کے سلسلے جاری رہیں گے اور ہمیں فیضیاب کرتے رہیں گے۔
ظہیر بھائی ، عزت افزائی کا بہت بہت شکریہ ! میرا اردو شاعری کا شعور اور علم بہت محدود ہے ، لیکن کوئی کام کی بات ذہن میں آئی تو ضرور پیش کروں گا .
 

جاسمن

لائبریرین
ظہیر بھائی ، عزت افزائی کا بہت بہت شکریہ ! میرا اردو شاعری کا شعور اور علم بہت محدود ہے ، لیکن کوئی کام کی بات ذہن میں آئی تو ضرور پیش کروں گا .
ہم تو آپ کے مراسلوں سے بہت مستفید ہو رہے ہیں۔ انکساری اچھی چیز ہے لیکن کنجوسی اچھی نہیں۔ :D
 

جاسمن

لائبریرین
جو بات میرے لیے بلکہ ہم سب کے لیے متاثر کن اور سیکھنے والی ہے وہ صابرہ بہن کا تنقید پر مثبت رویہ ہے جو خال خال نظر آتا ہے۔ اس سلسلے کی کامیابی ہی اس میں مضمر ہے کہ ہم سب اسی رویے کا مظاہرہ کریں اور اپنی نگارشات پیش کرتے ہوئے تنقید کا خوشدلی سے سامنا کریں ۔میں بھی ان شاء اللہ پیپر کے بعد اپنی کاوش پیش کروں گا۔
واقعی صابرہ نے بے حد خوشدلی اور وسیع القلبی سے تنقید کا سامنا کیا اور اپنی حس مزاح سے ماحول کو شگفتہ بھی بناتی گئیں۔ میں بھی ان کے مثبت اور تعمیری رویوں کی معترف ہوں ۔ ان میں سیکھنے اور علم حاصل کرنے کی لگن ہے۔
مختصر یہ کہ صابرہ ایک اچھی طالبہ ہیں۔ :)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
محفل اور دھاگے میں شریک محفلین ! الف عین سٹوڈیو 1

آج کی اس تنقیدی نشست کا اختتام ہو رہا ہے ۔ یہاں شریک ہونے والے اساتذہ ظہیراحمدظہیر بھائی، عرفان علوی اور غزل پیش کرنے والی ممبر صابرہ امین کے ساتھ ساتھ تمام محفلین کا شکریہ جو اس نشست کا حصہ بن کر شعر و ادب کی اس مؤقر محفل کا حصہ بنے ۔ دس صفحات پر پھیلی اس تمام گفتگو میں نہ صرف موجودہ پیش کردہ غزل کے محاسن و معایب اور صنائع و بدائع پر سیر حاصل گفتکو ہوئی ہے بلکہ اردو غزل کی ساخت تنوع اور تشکیل دینے والے عناصر اور تکمیل کرنے والی خصوصیات بھی بحث میں جابجا آتی رہیں ۔ یہ تمام تر بحث نہ صرف اردو زبان کی تعلیم اور شعری تخلیق کے معیار کو بلند کرنے کا ایک موثر اور یقینی ذریعہ ہے بلکہ انٹر نیٹ پر شعر و ادب کی لگن رکھنے والے متلاشیان علم کی پیاس کے لیے کسی منہلِ زلال سے کم نہیں ۔

بحث میں شامل کردہ مندرجات اور گفتگو سے اس تنقیدی نشست کے معیار کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے جو دوران گفتگو غزل کی تکنیکی و فنی تجزیہ کاری اور لسانی پہلوؤں پر تبصرہ آرائی اور شاعرہ کے فکری نقطہء نظر پر تبصرے کی شکل میں اساتذہ نے مفصل طریقے سے پیش کیا۔
یہاں یہ کہنا بھی بالکل بجا ہو گا کہ اردو زبان کی شعری تنقید پر مبنی یہ گفتگو، بجائے خود تنقید کا ایک معیار کہی جاسکتی ہے جو اسے نہ صرف عمومی سوشل میڈیائی مواد سے منفرد اور ممتاز مقام دیتی ہے بلکہ دور جدید میں اردو زبان میں جگہ جگہ بکھرے ہوئے ان بے مہار لسانی رویوں کے درمیان ایک معیاری لب و لہجے، شستہ و شائستہ اسلوب اور اعلی ادبی اقدار کا راستہ دکھاتی نظر آتی ہے ۔

آخر میں اس نشست کے تصور کی خالق اپنی محفل کی معروف و ہر دلعزیز رکن جاسمن کا شکریہ بھی ادا کرنا ضروری ہے کہ جنہوں نے اپنی انتھک محنت اور جانفشانی سے بھرپور قائدانہ صلاحیتوں کے ساتھ ایسے اجتماعی انعقاد کی میزبانی کی ۔ یقیناََ اس نشست سے جس سے اصلاح سخن کا گوشہ جو استاد محترم اعجاز بھائی الف عین نے تن تنہا ایک چراغ تھام کر سنبھال رکھا تھا اسے بھی ایک شعلہء جوالہ کا تعاون حاصل ہو گا جاسمن کے لیے میزبانی کے فرائض کے کو بحسن و خوبی انجام دینے پر خراج تحسین پیش کر نے کے سا تھ ساتھ اس سلسلے کے دوام کے لیے مساعی کو دوام بخشنے کی سفارش کی جاتی ہے اور ہر ممکنہ تعاون کی یقین دہانی کی جاتی ہے ۔

اس ضمن میں مجھے قوی امید ہے کہ اصلاح سخن والے طلبہ و شائقین ادب کے لیے بھی یہ انعقاد خصوصی طور پر کسی بیش بہا خزینے سے کم نہیں ہو گا اور ہماری طرح وہ بھی ان نشستوں سے باہمی دلچسپی کے دوستانہ ماحول اور پیش کردہ تجزیوں اور تبصروں پر مبنی تربیتی مواد سے خوب مستفید ہوں گے ۔
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
بہن آپ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اور آپکا غم غلط کرنے کے لیے تین اشعار از راہ مزاح آپ کی طرف سے لکھے ہیں۔

کسی ڈاکٹر نے بنام نقد غزل کی کر دی ہے سرجری
ابھی تک غشی سی غزل پہ ہے مرا سخت اداس ہے فروری

مجھے لگ رہی تھی غزل پری مجھے تھا جنون سخنوری
وہ سنی ہے میں نے کھری کھری نہ جنوں رہا نہ رہی پری

"گِلۂ جفائے وفا نما" جو ادب کو نقد ادب سے ہے
"کسی بت کدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی ہری ہری "
وعلیکم السلام یاسر شاہ بھائی،

آپ یقین کیجیے کہ مجھے اپنی شاعری پر اصلاحی تنقید سے بے حد خوشی ہوئی کہ اس طرح مجھے معلوم ہوا کہ شعر کو کس کس طرح سجایا اور سنوارا جا سکتا ہے۔
؎
کہ حکمت کو ایک گمشدہ لعل سمجھو
جہاں پاؤ اپنا اسے مال سمجھو

اور ویسے بھی ایک اچھا استاد ہمیشہ ایک طالبعلم ہی رہتا ہے۔ زور اچھے پر ہے :biggrin:۔ ۔

اللہ آپ کو خوش رکھے ۔ آمین
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
واقعی صابرہ نے بے حد خوشدلی اور وسیع القلبی سے تنقید کا سامنا کیا اور اپنی حس مزاح سے ماحول کو شگفتہ بھی بناتی گئیں۔ میں بھی ان کے مثبت اور تعمیری رویوں کی معترف ہوں ۔ ان میں سیکھنے اور علم حاصل کرنے کی لگن ہے۔
مختصر یہ کہ صابرہ ایک اچھی طالبہ ہیں۔ :)
شکریہ۔
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
اختتام کا اعلان کرنے سے پہلے ہم ظہیر بھائی کا کچھ وقت تک انتظار کر لیتے ہیں۔ ان کے اور ہمارے اوقات میں فرق ہے۔
 
محفل اور دھاگے میں شریک محفلین ! الف عین سٹوڈیو 1

آج کی اس تنقیدی نشست کا اختتام ہو رہا ہے ۔ یہاں شریک ہونے والے اساتذہ ظہیراحمدظہیر بھائی، عرفان علوی اور غزل پیش کرنے والی ممبر صابرہ امین کے ساتھ ساتھ تمام محفلین کا شکریہ جو اس نشست کا حصہ بن کر شعر و ادب کی اس مؤقر محفل کا حصہ بنے ۔ دس صفحات پر پھیلی اس تمام گفتگو میں نہ صرف موجودہ پیش کردہ غزل کے محاسن و معایب اور صنائع و بدائع پر سیر حاصل گفتکو ہوئی ہے بلکہ اردو غزل کی ساخت تنوع اور تشکیل دینے والے عناصر اور تکمیل کرنے والی خصوصیات بھی بحث میں جابجا آتی رہیں ۔ یہ تمام تر بحث نہ صرف اردو زبان کی تعلیم اور شعری تخلیق کے معیار کو بلند کرنے کا ایک موثر اور یقینی ذریعہ ہے بلکہ انٹر نیٹ پر شعر و ادب کی لگن رکھنے والے متلاشیان علم کی پیاس کے لیے کسی منہلِ زلال سے کم نہیں ۔

بحث میں شامل کردہ مندرجات اور گفتگو سے اس تنقیدی نشست کے معیار کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے جو دوران گفتگو غزل کی تکنیکی و فنی تجزیہ کاری اور لسانی پہلوؤں پر تبصرہ آرائی اور شاعرہ کے فکری نقطہء نظر پر تبصرے کی شکل میں اساتذہ نے مفصل طریقے سے پیش کیے ۔
یہاں یہ کہنا بھی بالکل بجا ہو گا کہ اردو زبان کی شعری تنقید پر مبنی یہ گفتگو، بجائے خود تنقید کا ایک معیار کہی جاسکتی ہے جو اسے نہ صرف عمومی سوشل میڈیائی مواد سے منفرد اور ممتاز مقام دیتی ہے بلکہ دور جدید میں اردو زبان میں جگہ جگہ بکھرے ہوئے ان بے مہار لسانی رویوں کے درمیان ایک معیاری لب و لہجے اور شستہ و شائستہ اسلوب اور اعلی ادبی اقدار کا راستہ دکھاتی نظر آتی ہے ۔

آخر میں اس نشست کے تصور کی خالق اپنی محفل کی معروف و ہر دلعزیز رکن جاسمن کا شکریہ بھی ادا کرنا ضروری ہے کہ جنہوں نے اپنی انتھک محنت اور جانفشانی سے بھرپور قائدانہ صلاحیتوں کے ساتھ ایسے اجتماعی انعقاد کی میزبانی کی ۔ یقیناََ اس نشست سے جس سے اصلاح سخن کا گوشہ جو استاد محترم اعجاز بھائی الف عین نے تن تنہا ایک چراغ تھام کر سنبھال رکھا تھا اسے بھی ایک شعلہء جوالہ کا تعاون حاصل ہو گا جاسمن کے لیے میزبانی کے فرائض کے کو بحسن و خوبی انجام دینے پر خراج تحسین پیش کر نے کے سا تھ ساتھ اس سلسلے کے دوام کے لیے مساعی کو دوام بخشنے کی سفارش کی جاتی ہے اور ہر ممکنہ تعاون کی یقین دہانی کی جاتی ہے ۔

اس ضمن میں مجھے قوی امید ہے کہ اصلاح سخن والے طلبہ و شائقین ادب کے لیے بھی یہ انعقاد خصوصی طور پر کسی بیش بہا خزینے سے کم نہیں ہو گا اور ہماری طرح وہ بھی ان نشستوں سے باہمی دلچسپی کے دوستانہ ماحول اور پیش کردہ تجزیوں اور تبصروں پر مبنی تربیتی مواد سے خوب مستفید ہوں گے ۔
عاطف بھائی ، آپ نے نہایت نفیس الفاظ میں اِس سلسلے کی پہلی قسط کی کامیابی کا احاطہ کیا ہے . بس ایک کوتاہی ہو گئی آپ سے . اساتذہ کا لقب آپ ظہیر بھائی كے لیے استعمال کرتے تو عین مناسب تھا ، لیکن یہ دوسرے صاحب كے ساتھ قطعی نہیں جچا . جنابِ من ، اتنا شرمندہ نہ کیجیے کہ دوبارہ آنے کی ہمت ہی نہ پڑے . :) اِس خط كے ذریعے میں بھی تمام شرکاء کا ، خاص طور پر جاسمن اور صابرہ صاحبات کا، ظہیر بھائی کا اور آپ کا دلی شکریہ ادا کرتا ہوں .
 
آخری تدوین:
Top