"الفاروق " از شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی رحمتہ اللہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اسلامی بھائی

چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو جس کا بھائی قرار دیا، ان کا نام عتبان بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ تھا، جو قبیلہ بنو سالم کے سردار تھے (دیکھو سیرت ابن ہشام حافظ ابن حجر نے مقدمہ فتح الباری (صفحہ 321) میں عتبان کی بجائے اوس بن خولی کا نام لکھا ہے لیکن تعجب ہے کہ خود موصوف نے اصایہ میں ابن سعد کے حوالہ سے عتبان ہی کا نام لکھا ہے اور اوس بن خولی کا جہاں حال لکھا ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اخوت کا ذکر نہیں کیا)۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے پر بھی اکثر صحابہ نے قباء ہی میں قیام رکھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی یہیں مقیم رہے۔ لیکن یہ معمول کر لیا کہ ایک دن ناغہ دے کر بالالتزام آنحضرت صلی اللہ علی وسلم کے پاس جاتے اور دن بھر خدمت اقدس میں حاضر رہتے۔ ناغہ کے دن یہ بندوبست کیا تھا کہ ان کے برادر اسلامی عتبان بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ اور جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے جا کر روایت کرتے تھے۔ چنانچہ بخاری نے متعدد ابواب مثلاً العلم، باب النکاح وغیرہ میں ضمناً اس واقعہ کا ذکر کیا ہے۔

مدینہ پہنچ کر اس بات کا وقت آیا کہ اسلام کے فرائض و ارکان محدود اور معین کئے جائیں کیونکہ مکہ معظمہ میں جان کی حفاظت ہی سب سے بڑا فرض تھا، یہی وجہ تھی کہ زکوۃ، روزہ، نماز جمعہ، نماز عیدین، صدقہ فطر کوئی چیز وجود میں نہیں آئی تھی۔ نمازوں میں بھی یہ اختصار تھا کہ مغرب کے سوا باقی نمازوں میں صرف دو دو رکعتیں تھیں۔ یہاں تک کہ نماز کے لئے اعلان کا طریقہ بھی نہیں معین ہوا تھا۔ چانچہ سب سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا انتظام کرنا چاہا۔ یہودیوں اور عیسائیوں کے ہاں نماز کے اعلان کے لئے بوق اور ناقوس کا رواج تھا۔ اس لئے صحابہ نے یہی رائے دی، ابن ہشام نے روایت کی ہے کہ یہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تجویز تھی۔ بہرحال یہ مسئلہ زیر بحث تھا، اور کوئی رائے قرار نہیں پائی تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ آ نکلے اور انہوں نے کہا کہ ایک آدمی اعلان کرنے کے لیے کیوں نہ مقرر کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اذان کا حکم دیا۔ (صحیح بخاری کتاب الاذان)۔
 

شمشاد

لائبریرین
اذان کا طریقہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی رائے کے موافق قائم ہوا

یہ بات لحاظ کے قابل ہے کہ اذان نماز کا دیباچہ اور اسلام کا بڑا شعار ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے لیے اس سے زیادہ کیا فخر کی بات ہو سکتی ہے کہ یہ شعار اعظم انہی کی رائے کے موافق قائم ہوا۔
 

شمشاد

لائبریرین
سن 1 ہجری (623 عیسوی) تا وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم


غزوات و دیگر حالات

سن 1 ہجری (623 عیسوی) سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے واقعات اور حالات در حقیقت سیرۃ نبوی کے اجزاء ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو لڑائیاں پیش آئیں غیر قوموں سے جو معاہدات عمل میں آئے وقتاً فوقتاً جو انتظامات جاری کئے گئے، اشاعت اسلام کے لئے جو تدبیریں اختیار کی گئیں ان میں سے ایک واقعہ بھی ایسا نہیں جو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شرکت کے بغیر انجام پایا ہو، لیکن مشکل یہ ہے کہ اگر تمام واقعات پوری تفصیل کے ساتھ لکھے جائیں تو کتاب کا یہ حصہ سیرۃ نبوی سے بدل جاتا ہے۔ کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے یہ کارنامے گو کتنے ہی اہم ہوں لیکن چونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلہ حالات سے وابستہ ہیں، اس لئے جب قلمبند کئے جائیں گے تو تمام واقعات کا عنوان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی قرار پائے گا۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے کارنامے ضمناً ذکر میں آئیں گے۔ اس لئے ہم نے مجبوراً یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ یہ واقعات نہایت اختصار کے ساتھ لکھے جائیں۔ اور جن واقعات میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا خاص تعلق ہے ان کو کسی قدر تفصیل کے ساتھ لکھا جائے۔ اس صورت میں اگرچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے کارنامے تمایاں ہو کر نظر نہ آئیں گے۔ کیونکہ جب تک کسی واقعہ کی پوری تصویر نہ دکھائی جائے اس کی اصل شان قائم نہیں رہتی تاہم اس کے سوا اور کوئی تدبیر نہ تھی۔

اب ہم اختصار کے ساتھ ان واقعات کو لکھتے ہیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ کو ہجرت کی تو قریش کو خیال ہوا کہ اگر مسلمانوں کا جلد استیصال نہ کر دیا جائے تو وہ زور پکڑ جائیں گے۔ اس خیال سے انہوں نے مدینہ پر حملہ کی تیاریاں شروع کیں۔ تاہم ہجرت کے دوسرے سال تک کوئی قابل ذکر معرکہ نہیں ہوا، صرف اس قدر ہوا کہ دو تین دفعہ قریش چھوٹے چھوٹے گروہ کے ساتھ مدینہ کی طرف بڑھے۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر پا کر ان کو روکنے کے لئے تھوڑی تھوڑی سی فوجیں بھیجیں اور وہ وہیں رک گئے۔
 

شمشاد

لائبریرین
غزوہ بدر سن 2 ہجری (624 عیسوی)

2 ہجری (624 عیسوی) میں بدر کا واقعہ پیش آیا جو نہایت مشہور معرکہ ہے۔ اس کی ابتدا یوں ہوئی کہ ابو سفیان جو قریش کا سردار تھا، تجارت کا مال لے کر شام سے واپس آ رہا تھا کہ راہ میں یہ (غلط) خبر سن کر کہ مسلمان اس پر حملہ کرنا چاہتے ہیں، قریش کے پاس قاصد بھیجا اور ساتھ ہی تمام مکہ امڈ آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ خبر سن کر تین سو آدمیوں کے ساتھ مدینے سے روانہ ہوئے۔ عام مؤرخین کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مدینے سے نکلنا صرف قافلہ کے لوٹنے کی غرض سے تھا۔ لیکن یہ امر محض غلط ہے۔ قرآن مجید جس سے زیادہ کوئی قطعی شہادت نہیں ہو سکتی، اس میں جہاں اس واقعہ کا ذکر ہے یہ الفاظ ہیں۔

[ayah]کما اخرجک ربک من بیتک بالحق و ان فریقاً من المومنین لکارھون یجادلونک فی الحق بعد ما تبین کانما یساقون الی الموت و ھم منطرون و اذیعد کم اللہ احدے الطائفتین انھا لکم و تودون ان غیر ذات الشوکۃ تکون لکم۔[/ayah]

" جیسا کہ تجھ کو تیرے پروردگار نے تیرے گھر (مدینہ) سے سچائی پر نکالا اور بیشک مسلمانوں کا ایک گروہ ناخوش تھا وہ تجھ سے سچی بات پر جھگڑتے تھے۔ بعد اس کے سچی بات ظاہر ہو گئی گویا کہ وہ موت کی طرف ہانکے جاتے ہیں اور وہ اس کو دیکھ رہے ہیں اور جب کہ خدا دو گروہوں میں سے ایک کا تم سے وعدہ کرتا تھا اور تم چاہتے تھے کہ جس گروہ میں کچھ زور نہیں ہے وہ ہاتھ آئے۔"

(1) جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ سے نکلنا چاہا تو مسلمانوں کا ایک گروہ ہچکچاتا تھا۔ اور سمجھتا تھا کہ موت کے منہ میں جانا ہے۔

(2) مدینے سے نکلنے کے وقت کافروں کے دو گروہ تھے ایک غیر ذات الشوکۃ یعنی ابو سفیان کا کاروانِ تجارت اور دوسرا قریش کا گروہ مکہ سے حملہ کرنے کے لیے سر و سامان کے ساتھ نکل چکا تھا۔

اس کے علاوہ ابو سفیان کے قافلہ میں 40 آدمی تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینے سے تین سو بہادروں کے ساتھ نکلے تھے۔ تین سو آدمی 40 آدمی کے مقابلہ کو کسی طرح موت کے منہ میں جانا نہیں خیال کر سکتے تھے۔ اس لئے اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قافلے کو لوٹنے کے لیے نکلتے تو خدا ہر گز قرآن مجید میں یہ نہ فرماتا کہ مسلمان ان کے مقابلے کو موت کے منہ میں جانا سمجھتے تھے۔

بہر حال 8 رمضان 3 ہجری کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم 313 آدمیوں کے ساتھ جن میں 83 مہاجرین اور باقی انصار تھے، مدینہ سے روانہ ہوئے۔ قریش کے ساتھ 950 کی جمیعت تھی۔ جن میں بڑے بڑے مشہور بہادر شریک تھے۔ مقام بدر میں جو مدینہ منورہ سے قریباً 6 منزل پر ہے، معرکہ ہوا۔ اور کفار کو شکست ہوئی۔ مسلمانوں میں سے 14 آدمی شہید ہوئے جن میں 6 مہاجر اور 8 انصار تھے۔ قریش کی طرف سے 70 مقتول اور 80 گرفتار ہوئے۔ مقتولین میں ابو جہل، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ اور بڑے بڑے رؤسائے مکہ تھے، اور ان کے قتل ہونے سے قریش کا زور ٹوٹ گیا۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اگرچہ اس معرکہ میں رائے و تدبیر، جانبازی و پامردگی کے لحاظ سے ہر موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست و بازو رہے۔ لیکن ان کی شرکت کی مخصوص خصوصیات یہ ہیں :

(1) قریش کے تمام قبائل اس معرکہ میں آئے۔ لیکن بنو عدی یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے قبیلے میں سے ایک متنفس بھی شریک جنگ نہیں ہوا۔ (طبری کبیر میں ہے : ولم یکن بقی من قریش بطن الانفر منھم نا سالاناس الا بنی عدی بن کعب لم یخرج رجل واحد (صفحہ 137)۔ اور یہ امر جہاں تک قیاس کیا جا سکتا ہے صرف حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے رعب و ذات کا اثر تھا۔

(2) حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ ان کے قبیلے اور حلفا کے 12 آدمی شریک جنگ تھے۔ جن کے نام یہ ہیں : زید، عبد اللہ بن سراقہ، عمرو بن سراقہ، واقد بن عبد اللہ، خولی بن ابی خولی، عامر بن ربیعہ، عامر بن بکیر، خالد بن بکیر، ایاس بن بکیر، عاقل بن بکیر رضی اللہ تعالٰی عنہم۔

(3) سب سے پہلے جو شخص اس معرکہ میں شہید ہوا وہ مھجع حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا غلام تھا۔ (ابن ہشام صفحہ 495)۔

(4) عاصی بن ہشام بن مغیرہ جو قریش کا ایک معزز سردار اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ماموں تھا، حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ہاتھ سے مارا گیا۔ (ابن حریر صفحہ 509 و استیعاب) ۔

یہ بات حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خصوصیات میں شمار کی گئی ہے کہ اسلام کے معاملات میں قرابت اور محبت کا اثر ان پر کبھی غالب نہیں آ سکتا تھا۔ چنانچہ یہ واقعہ اس کی پہلی مثال ہے۔

اس معرکہ میں مخالف کی فوج سے جو لوگ زندہ گرفتار ہوئے ان کی تعداد کم و بیش 70 تھی۔ اور ان میں اکثر قریش کے بڑے بڑے سردار تھے۔ مثلاً حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ، عقیل (حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بھائی) ابو العاص بن الربیع، ولید بن الولید، ان سرداروں کا ذلت کے ساتھ گرفتار ہو کر آنا ایک عبرت خیز سماں تھا۔ جس نے مسلمانوں کے دل پر بھی اثر کیا۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مبارکہ حضرت سودہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی نظر جب ان پر پڑی تو بے اختیار بول اٹھیں کہ " اعطیتم بایدیکم ھلا متم کراما" تم مطیع ہو کر آئے ہو۔ شریفوں کی طرح لڑ کر مر کیوں نہیں گئے۔
 

شمشاد

لائبریرین
قیدیوں کے معاملے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی رائے

اس بناء پر یہ بحث پیدا ہوئی کہ ان لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ سے رائے لی۔ اور لوگوں نے مختلف رائیں دیں، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ یہ اپنے ہی بھائی بند ہیں، اس لئے فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اختلاف کیا اور کہا کہ اسلام کے معاملے میں رشتہ اور قرابت کو دخل نہیں۔ ان سب کو قتل کر دینا چاہیے۔ اور اسطرح کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے عزیز کو آپ قتل کر دے۔ علی عقیل کی گردن ماریں، حمزہ عباس کا سر اڑائیں، اور فلاں شخص جو میرا عزیز ہے اس کا کام میں تمام کروں (طبری صفحہ 1355)۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شان رحمت کے اقتضاء سے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی رائے پسند کی۔ اور فدیہ لے کر چھوڑ دیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

[ayah]ما کان لنبی ان یکون لہ اسرٰی حتیٰ یثخن فی الارض الخ[/ayah]

"کسی پیغمبر کے لیے یہ زیبا نہیں کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ خوب خونریزی نہ کر لے۔"

بدر کی فتح نے اگرچہ قریش کے زور کو گھٹایا لیکن اس سے اور نئی مشکلات کا سلسلہ شروع ہوا۔ مدینہ منورہ اور اس کے اطراف پر ایک مدت سے یہودیوں نے قبضہ کر رکھا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو ملکی انتظامات کے سلسلے میں سب سے پہلا کام یہ کیا کہ یہودیوں سے معاہدہ کیا کہ " مسلمانوں کے برخلاف دشمن کو مدد نہ دیں گے اور کوئی دشمن مدینہ پر چڑھ آئے تو مسلمانوں کی مدد کریں گے۔" لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بدر سے فتح یاب آئے تو ان کو ڈر پیدا ہوا کہ مسلمان زور پکڑ کر ان کے برابر کے حریف نہ بن جائیں۔ چنانچہ خود چھیڑ شروع کی۔ اور کہا کہ " قریش والے فن حرب سے ناآشنا تھے۔ ہم سے کام پڑتا تو ہم دکھا دیتے کہ لڑنا اس کو کہتے ہیں" نوبت یہاں تک پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو معاہدہ کیا تھا توڑ ڈالا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال 2 ہجری میں ان پر چڑھائی کی۔ اور بالآخر وہ گرفتار ہو کر مدینہ سے جلا وطن کر دیئے گئے۔ اسلام کی تاریخوں میں یہودیوں سے لڑائیوں کا جو ایک متصل سلسلہ نظر آتا ہے اس کی ابتداء اسی سے ہوئی تھی۔
 

شمشاد

لائبریرین
غزوہ سویق

قریش بدر میں شکست کھا کر انتقام کے جوش میں بیتاب تھے۔ ابو سفیان نے عہد کر لیا تھا کہ جب تک بدر کا انتقام نہ لوں گا غسل تک نہ کروں گا۔ چنانچہ ذوالحجہ 2 ہجری میں دو سو شتر سواروں کے ساتھ مدینہ کے قریب پہنچ کر دھوکے سے دو مسلمانوں کو پکڑا۔ اور ان کو قتل کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو آپ نے تعاقب کیا۔ لیکن ابو سفیان نکل گیا تھا۔ اس قسم کے چھوٹے چھوٹے واقعات اور بھی پیش آتے رہے یہاں تک کہ شوال 3 ہجری (635 عیسوی) میں جنگ احد کا مشہور واقعہ ہوا۔
 

شمشاد

لائبریرین
غزوہ احد 3 ہجری

اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ عکرمہ بن ابی جہل اور دیگر بہت سے سرداران قریش نے ابو سفیان سے جا کر کہا کہ تم مصارف کا ذمہ اٹھاؤ تو اب بھی بدر کا انتقام لیا جا سکتا ہے۔ ابو سفیان نے قبول کیا۔ اور اسی وقت حملہ کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ کنانہ اور تہامہ کے تمام قبائل بھی ساتھ ہو گئے۔ ابو سفیان ان کا سپہ سالار بن کر بڑے سر و سامان کے ساتھ مکہ سے روانہ ہوا۔ اور ماہ شوال بدھ کے دن مدینہ منورہ کے قریب پہنچ کر مقام کیا۔ آنحضرت کی رائے تھی کہ مدینہ میں ٹھہر کر قریش کا حملہ روکا جائے۔ لیکن صحابہ نے نہ مانا اور آخر مجبور ہو کر جمعہ کے دن مدینہ سے نکلے، قریش کی تعداد تین ہزار تھی جس میں 200 سوار اور 700 زرہ پوش تھے۔ میمنہ کے افسر خالد بن الولید اور میسرہ کے عکرمہ بن ابی جہل تھے۔ (اس وقت تک یہ دونوں صاحب اسلام نہیں لائے تھے) ادھر کل 700 آدمی تھے جن میں سو زرہ پوش اور صرف دو سو سوار تھے۔ مدینہ سے قریباً تین میل پر احد ایک پہاڑ ہے، اس کے دامن میں دونوں فوجیں صف آرا ہوئیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن جبیر کو 50 تیر اندازوں کے ساتھ فوج کے عقب پر متعین کیا کہ ادھر سے کفار حملہ نہ کرنے پائیں۔ 7 شوال ہفتہ کے دن لڑائی شروع ہوئی، سب سے پہلے زبیر نے اپنی رکاب کی فوج کو لے کر حملہ کیا۔ اور قریش کے میمنہ کو شکست دی، پھر عام جنگ شروع ہوئی۔ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ، حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ابو دجانہ دشمن کی فوج میں گھس گئے۔ اور ان کی صفیں الٹ دیں۔ لیکن فتح کے بعد لوگ غنیمت پر ٹوٹ پڑے، تیر اندازوں نے سمجھا کہ اب معرکہ ختم ہو چکا ہے۔ اس خیال سے وہ بھی لوٹنے میں مصروف ہو گئے۔ تیر اندازوں کا ہٹنا تھا کہ خالد نے دفعتاً عقب سے بڑے زور و شور کے ساتھ حملہ کیا۔ مسلمان چونکہ ہتھیار ڈال کر غنیمت میں مصروف ہو چکے تھے۔ اس ناگہانی زد کو نہ روک سکے، کفار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھروں اور تیروں کی بوچھاڑ کی۔ یہاں تک کہ آپ کے دندان مبارک شہید ہوئے۔ پیشانی پر زخم آیا اور رخساروں میں مغفر کی کڑیاں چبھ گئیں۔ اس کے ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گڑھے میں گر پڑے۔ اور لوگوں کی نظر سے چھپ گئے۔ اس برہمی میں یہ غُل پڑ گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مارے گئے۔ اسی خبر نے مسلمانوں کے استقلال کو متزلزل کر دیا۔ اور جو جہاں تھا وہیں سراسیمہ ہو کر رہ گیا۔

اس امر میں اختلاف ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اخیر تک کس قدر صحابہ ثابت قدم رہے۔ صحیح مسلم میں حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ احد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف سات انصار اور دو قریشی یعنی سعد اور طلحہ رہ گئے تھے۔ نسائی اور بیہقی میں بسند صحیح منقول ہے کہ گیارہ انصار اور طلحہ کے سوا اور کوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں رہا تھا۔ محمد بن سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے 14 آدمیوں کا نام لیا ہے۔ اسی طرح اور بھی مختلف روایتیں ہیں (یہ پوری تفصیل فتح الباری مطبوعہ مصر جلد 7 صفحہ 272 میں ہے)۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں ان روایتوں میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ لوگ جب ادھر ادھر پھیل گئے تو کافروں نے دفعتاً عقب سے حملہ کیا۔ اور مسلمان سراسیمہ ہو کر جو جہاں تھا وہ وہیں رہ گیا۔ پھر جس طرح موقع ملتا گیا لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچتے گئے۔

تمام روایتوں پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر مشہور ہوئی تو کچھ تو ایسے سراسیمہ ہوئے کہ انہوں نے مدینہ آ کر دم لیا۔ کچھ لوگ جان پر کھیل کر لڑتے رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جینا بیکار ہے۔ بعضوں نے مجبور و مایوس ہو کر سپر ڈال دی کہ اب لڑنے سے کیا فائدہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اس تیسرے گروہ میں تھے۔ علامہ طبری میں بسند متصل جس کے رواۃ حمید بن سلمہ، محمد بن اسحاق، قاسم بن عبد الرحمٰن بن رافع ہیں، روایت کی ہے کہ اس موقع پر جب انس بن نضر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت طلحہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اور چند مہاجرین اور انصار کو دیکھا کہ مایوس ہو کر بیٹھ گئے ہیں، تو پوچھا کہ بیٹھے کیا کرتے ہو، ان لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ نے جو شہادت پائی۔ انس رضی اللہ تعالٰی عنہ بولےکہ رسول اللہ کے بعد زندہ رہ کر کیا کرو گے تم بھی انہی کی طرح لڑ کر مر جاؤ۔ یہ کہہ کر کفار پر حملہ آور ہوئے اور شہادت حاصل کی (طبری صفحہ 1474)۔ قاضی ابو یوسف نے خود حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زبانی نقل کیا ہے کہ انس بن نضر میرے پاس سے گزرے اور مجھ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا گزری۔ میں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ آپ شہید ہوئے۔ انس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ رسول اللہ شہید ہوئے تو ہوئے خدا تو زندہ ہے۔ یہ کہہ کر تلوار میان سے کھینچ لی۔ اور اس قدر لڑے کہ شہادت حاصل کی (کتاب الخراج صفحہ 25)۔ ابن ہشام میں ہے کہ انس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس واقعہ میں ستر زخم کھائے۔

طبری کی روایت میں یہ امر لحاظ کے قابل ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھیوں میں طلحہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا نام بھی ہے۔ اور یہ مسلم ہے کہ اس معرکہ میں ان سے زیادہ کوئی ثابت قدم نہیں رہا تھا۔ بہرحال یہ امر تمام روایتوں سے ثابت ہے کہ سخت برہمی کی حالت میں بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ میدان جنگ سے نہیں ہٹے۔ اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زندہ ہونا معلوم ہوا تو فوراً خدمت میں پہنچے۔ طبری اور سیرت ہشام میں ہے۔

فلما عرف المسلمون رسول اللہ نھضوا بہ و نھض نحو الشعب معہ علی بن ابی طالب و ابوبکر بن ابی قحافہ و عمر بن الخطاب و طلحہ بن عبید اللہ و الزبیر بن العوم و الحارث بن صمۃ۔

" پھر جب مسلمانوں نے رسول اللہ کو دیکھا تو آنحضرت کے پاس پہنچے اور آپ لوگوں کو لے کر پہاڑ کے درہ پر چڑھ گئے اس وقت آپ کے ساتھ حضرت علی، حضرت ابوبکر، حضرت عمر، طلحہ بن عبید اللہ، زبیر بن العوام اور حارث بن صمۃ رضی اللہ تعالٰی عنہم تھے۔"

علامہ بلاذری صرف ایک مؤرخ ہیں جنہوں نے انساب الاشراف میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حال میں یہ لکھا ہے :

و کان ممن انکشف یوم احد فغفرلہ۔

"یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ان لوگوں میں تھے جو احد کے دن بھاگ گئے تھے۔ لیکن خدا نے ان کو معاف کر دیا۔"

علامہ بلاذری نے ایک اور روایت نقل کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جب اپنی خلافت کے زمانے میں لوگوں کے روزینے مقرر کئے تو ایک شخص کے روزینے کی نسبت لوگوں نے کہا اس سے زیادہ مستحق آپ کے فرزند عبد اللہ ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا نہیں کیونکہ اس کا باپ احد کی لڑائی میں ثابت قدم رہا تھا۔ اور عبد اللہ کا باپ (یعنی حضرت عمر) نہیں رہا تھا۔ لیکن یہ روایت قطع نظر اس کے درایۃً غلط ہے، کیونکہ معرکہ جہاد سے بھاگنا ایک ایسا ننگ تھا۔ جس کو کوئی شخص علانیہ تسلیم نہیں کر سکتا تھا۔ اصول روایت کے لحاظ سے بھی ہم اس پر اعتبار نہیں کر سکتے، علامہ موصوف نے جس رواۃ کی سند سے یہ روایت بیان کی ہے۔ ان میں عباس بن عبد اللہ الباکسائے اور ٹیض بن اسحاق ہیں اور دونوں مجہول الحال ہیں۔ اس کے علاوہ اور تمام روایتیں اس کے خلاف ہیں۔

اس بحث کے بعد ہم پھر اصل واقعہ کی طرف آتے ہیں۔

خالد ایک دستہ فوج کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھے، رسول اللہ اس وقت تیس (30) صحابہ کے ساتھ پہاڑ پر تشریف رکھتے تھے۔ خالد کو آتا دیکھ کر فرمایا کہ خدایا۔ یہ لوگ یہاں تک نہ آنے پائیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے چند مہاجرین اور انصار کے ساتھ آگے بڑھ کر حملہ کیا اور ان لوگوں کو ہٹا دیا۔ (سیرۃ ابن ہشام صفحہ 6-5 و طبری صفحہ 1411)۔ ابو سفیان سالار قریش نے درہ کے قریب پہنچ کر پکارا کہ اس گروہ میں محمد ہیں یا نہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا کہ کوئی جواب نہ دے۔ ابو سفیان نے پھر حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالٰی عنہم کا نام لے کر کہا کہ یہ دونوں اس مجمع میں ہیں یا نہیں؟ اور جب کسی نے کچھ جواب نہ دیا تو بولا کہ "ضرور یہ لوگ مارے گئے"۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے رہا نہ گیا، پکار کر کہا " او دشمن خدا! ہم سب زندہ ہیں" ابو سفیان نے کہا اعل ھبل " اے ہبل (ایک بت کا نام تھا) بلند ہو" رسول اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے فرمایا جواب دو اللہ اعلیٰ و اجل یعنی خدا بلند و برتر ہے۔ (سیرت ہشام صفحہ 583 و طبری صفحہ 1415)
 

شمشاد

لائبریرین
حضرت حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا عقد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ

اس سال حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو یہ شرف حاصل ہوا کہ ان کی صاحبزادی حضرت حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد میں آئیں۔ حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا نکاح جاہلیت میں خنیس بن خذافہ کے ساتھ ہوا۔ خنیس کے انتقال کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے خواہش کی کہ حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو اپنے نکاح میں لائیں۔ انہوں نے کچھ جواب نہ دیا، پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے درخواست کی، وہ بھی چپ رہے۔ کیونکہ ان دونوں صاحبوں کو معلوم ہو چکا تھا کہ خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے نکاح کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ 3 ہجری شعبان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہ رضی اللہ تعالٰی سے نکاح کیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
واقعہ بنو نضیر 4 ہجری (626 عیسوی)

4 ہجری (626 عیسوی) میں بنو نضیر کا واقعہ پیش آیا، اوپر ہم لکھ آئے ہیں کہ مدینہ منورہ میں یہود کے جو قبائل آباد تھے، آنحضرت نے ان سے صلح کا معاہدہ کر لیا تھا۔ ان میں سے بنو قینقاع نے بدر کے بعد نقض عہد کیا اور اس جرم میں مدینے سے نکال دیئے گئے۔ دوسرا قبیلہ بنو نضیر کا تھا۔ یہ لوگ بھی اسلام کے سخت دشمن تھے۔ 4 ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک معاملے میں استعانت کے لیے حضرت عمر اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہم کو ساتھ لے کر ان کے پاس گئے، ان لوگوں نے ایک شخص کو جس کا نام عمرو بن حجاش تھا آمادہ کیا کہ چھت پر چڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر پتھر کی سل گرا دے۔ وہ چھت پر چڑھ چکا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہو گئی، آپ اٹھ کر چلے آئے۔ اور کہلا بھیجا کہ تم لوگ مدینے سے نکل جاؤ۔ انہوں نے انکار کیا۔ اور مقابلے کی تیاریاں کیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر قابو پا کر جلا وطن کر دیا۔ چنانچہ ان میں کچھ شام کو چلے گئے کچھ خیبر میں جا کر آباد ہوئے۔ اور وہاں حکومت قائم کر لی۔ (طبری صفحہ 452)

خیبر والوں میں سلام بن ابی الحقیق، کنانہ بن الربیع اور حیی بن اخطب بڑے بڑے معزز سردار تھے۔ یہ لوگ خیبر میں پہنچ کر مطمئن ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے انتقام لینا چاہا، مکہ معظمہ میں جا کر قریش کو ترغیب دی، قبائل عرب کا دورہ کیا اور تمام ممالک میں ایک آگ لگا دی۔
 

شمشاد

لائبریرین
جنگ خندق یا احزاب 5 ہجری (627 عیسیوی)

چند روز میں دس ہزار آدمی قریش کے علم کے نیچے جمع ہو گئے۔ اور شوال 5 ہجری میں ابو سفیان کی سپہ سالاری میں اس سیلاب نے مدینہ کا رخ اختیار کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ سے باہر نکل کر سلع (مدینہ سے ملا ہوا ایک پہاڑ ہے) کے آگے ایک خندق تیار کروائی، عرب میں خندق کا رواج نہ تھا۔ اس لئے کفار کو اس کی کچھ تدبیر بن نہ آئی۔ مجبوراً محاصرہ کر کے ہر طرف فوجیں پھیلا دیں اور رسد وغیرہ بند کر دی۔ ایک مہینے تک محاصرہ رہا۔ کفار کبھی کبھی خندق میں اتر کر حملہ کرتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غرض سے خندق کے ادھر ادھر کچھ فاصلہ پر اکابر صحابہ کو متعین کر دیا تھا کہ دشمن ادھر سے نہ آنے پائیں، ایک حصے پر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ متعین تھے۔ چنانچہ یہاں ان کے نام کی ایک مسجد آج بھی موجود ہے۔ ایک دن کافروں نے حملہ کا ارادہ کیا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے زبیر کے ساتھ آگے بڑھ کر روکا۔ اور ان کی جماعت درہم برہم کر دی۔ (یہ واقعہ شاہ ولی اللہ صاحب نے ازالۃ الخفاء میں لکھا ہے۔ لیکن میں نے کسی کتاب میں اس کی سند نہیں پائی)۔ ایک دن کافروں کے مقابلے میں اس قدر ان کو مصروف رہنا پڑا کہ عصر کی نماز قضا ہوتے ہوتے رہ گئی۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا کہ آج کافروں نے نماز پڑھنے تک کا موقع نہ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے بھی اب تک عصر کی نماز نہیں پڑھی۔

اس لڑائی میں عمرو بن عبدوو عرب کا مشہور بہادر جو 500 سواروں کے برابر سمجھا جاتا تھا حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ہاتھ سے مارا گیا۔ اس کے مارے جانے کے بعد ادھر تو قریش میں کچھ بیدلی پیدا ہوئی، ادھر نعیم بن مسعود نے جو اسلام لا چکے تھے اور کافروں کو ان کے اسلام کی خبر نہ تھی، جوڑ توڑ سے قریش اور یہود میں پھوٹ ڈلوا دی، مختصر یہ کہ کفر کا ابر سیاہ جو مدینہ کے افق پر چھا گیا تھا روز بروز چھٹتا گیا۔ اور چند روز کے بعد مطلع بالکل صاف ہو گیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
واقعہ حدیبیہ 6 ہجری (628 عیسوی)

6 ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے ساتھ خانہ کعبہ کی زیارت کا قصد کیا۔ اور اس غرض سے کہ قریش کو لڑائی کا شبہ نہ ہو، حکم دیا کہ کوئی شخص ہتھیار باندھ کر نہ چلے۔ ذوالحلیفہ (مدینہ سے چھ میل پر ایک مقام ہے) پہنچ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو خیال ہوا کہ اس طرح چلنا مصلحت نہیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی رائے کے موافق مدینہ سے ہتھیار منگوا لئے۔ جبکہ مکہ معظمہ دو منزل رہ گیا تو مکہ سے بشر بن سفیان نے آ کر خبر دی کہ "تمام قریش نے عہد کر لیا ہے کہ مسلمانوں کہ مکہ میں قدم نہ رکھنے دیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ اکابر صحابہ میں سے کسی کو سفارت کے طور بھیجیں کہ ہم کو لڑنا مقصود نہیں۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اس خدمت پر مامور کرنا چاہا۔ انہوں نے عرض کی کہ قریش کو مجھ سے سخت عداوت ہے اور میرے خاندان میں وہاں کوئی میرا حامی موجود نہیں۔ عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عزیز و اقارب وہیں ہیں، اس لئے ان کو بھیجنا مناسب ہو گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رائے کو پسند کیا۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کو مکہ بھیجا۔ قریش نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کو روک رکھا۔ اور جب کئی دن گزر گئے تو یہ مشہور ہو گیا کہ وہ شہید کر دیئے گئے۔ رسول اللہ نے یہ سن کر صحابہ سے جو تعداد میں چودہ سو تھے جہاد پر بیعت لی۔ اور چونکہ بیعت ایک درخت کے نیچے لی تھی، یہ واقعہ بیعت الشجرۃ کے نام سے مشہور ہوا۔ قرآن مجید کی اس آیت میں " لقد رضی اللہ عن المومنین اذیبا یعونک تحت الشجرۃ" اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے اور آیت کی مناسبت سے اس کو بیعت رضوان بھی کہتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بیعت سے پہلے لڑائی کی تیاری شروع کر دی تھی۔ صحیح بخاری (غزوہ حدیبیہ) میں ہے کہ حدیبیہ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے صاحبزادے عبد اللہ کو بھیجا کہ فلاں انصاری سے گھوڑا مانگ لائیں۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ باہر نکلے تو دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے جہاد پر بیعت لے رہے ہیں۔ انہوں نے بھی جا کر بیعت کی، حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس واپس آئے تو دیکھا کہ وہ ہتھیار سجا رہے ہیں۔ عبد اللہ نے ان سے بیعت کا واقعہ بیان کیا، حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اسی وقت اٹھے اور جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی۔

قریش کو اصرار تھا کہ رسول اللہ مکہ میں ہر گز داخل نہیں ہو سکتے۔ بڑے رد و بدل کے بعد ان شرائط پر معاہدہ ہوا کہ اس دفعہ مسلمان الٹے واپس جائیں۔ اگلے سال آئیں۔ لیکن تین دن سے زیادہ نہ ٹھہریں، معاہدہ میں یہ شرط بھی داخل تھی کہ دس برس تک لڑئی موقوف رہے۔ اور اس اثناء میں اگر قریش کا کوئی آدمی رسول اللہ کے ہاں چلا جائے تو رسول اللہ اس کو قریش کے پاس واپس بھیج دیں۔ لیکن مسلمانوں میں سے اگر کوئی شخص قریش کے ہاتھ آ جائے تو ان کو اختیار کہ اس کو اپنے پاس روک لیں۔ اخیر شرط چونکہ بظاہر کافروں کے حق میں زیادہ مفید تھی، حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو نہایت اضطراب ہوا۔ معاہدہ ابھی لکھا نہیں جا چکا تھا کہ وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس پہنچے اور کہا کہ اس طرح دب کر کیوں صلح کی جائے۔ انہوں نے سمجھایا کہ رسول اللہ جو کچھ کرتے ہیں اسی میں مصلحت ہو گی۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو تسکین نہیں ہوئی۔ خود رسول اللہ کے پاس گئے اور اس طرح بات چیت کی۔

یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ رسول خدا نہیں ہیں؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! بے شک ہوں۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ! کیا ہمارے دشمن مشرک نہیں ہیں؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ضرور ہیں۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ! پھر ہم اپنے مذہب کو کیوں ذلیل کریں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں خدا کا پیغمبر ہوں اور خدا کے حکم کے خلاف نہیں کرتا۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی یہ گفتگو اور خصوصاً انداز گفتگو اگرچہ خلاف ادب تھا، چنانچہ بعد میں ان کو سخت ندامت ہوئی۔ اور اس کے کفارہ کے لئے روزے رکھے۔ نفلیں پڑھیں، خیرات دی، غلام آزاد کئے، (طبری صفحہ 1526 )۔ تاہم سوال و جواب کی اصل بناء اس نکتہ پر تھی کہ رسول کے کون سے افعال انسانی حیثیت سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور کون سے رسالت کے منصب سے۔ چنانچہ اس کی مفصل بحث کتاب کے دوسرے حصے میں آئے گی۔

غرض معاہدہ صلح لکھا گیا اور اس پر بڑے بڑے اکابر صحابہ کے جن میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی داخل تھے دستخط ثبت ہوئے۔ معاہدہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بلا کر فرمایا کہ مجھ پر وہ سورۃ نازل ہوئی جو مجھ کو دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے۔ یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیتیں پڑھیں " انا فتحنا لک فتحاً مبیناً" (صحیح بخاری واقعہ حدیبیہ)

محدثین نے لکھا ہے کہ اس وقت تک مسلمان اور کفار بالکل الگ الگ رہتے تھے۔ صلح ہو جانے سے آپ میں میل جول ہوا۔ اور رات دن کے چرچے اسلام کے مسائل اور خیالات روزبروز پھیلتے گئے۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ دو برس کے اندر اندر جس کثرت سے لوگ اسلام لائے 18 برس قبل کی وسیع مدت میں نہیں لائے تھے۔ (فتح الباری مطبوعہ مصر جلد 7 صفحہ 340 ذکر حدیبیہ)۔ جس بنا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح کی تھی اور لہٰذا حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی فہم میں نہ آ سکی، وہ یہی مصلحت تھی۔ اور اسی بناء پر خدا نے سورۃ فتح میں اس صلح کو فتح سے تعبیر کیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا اپنی بیویوں کو طلاق دینا

اس زمانے تک کافرہ عورتوں کو عقد نکاح میں رکھنا جائز تھا۔ لیکن جب یہ آیت نازل ہوئی " ولا تمسکو ھن بعصم الکوافر" تو یہ امر ممنوع ہو گیا۔ اس بناء پر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی دونوں بیویوں کو جو کافرہ تھیں طلاق دے دی۔ ان میں سے ایک کا نام قریبہ اور دوسری کا ام کلثوم بنت جرول تھا۔ ان دونوں کو طلاق دینے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جمیلہ سے جو ثابت بن ابی الا جلح کی بیٹی تھیں نکاح کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے فرزند عاصم انہی کے بطن سے تھے۔ (طبری واقعات 6ھ)۔ اسی سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلاطین اور والیان ممالک کے نام دعوت اسلام کے خطوط بھیجے۔
 

شمشاد

لائبریرین
جنگ خیبر 7 ہجری (639 عیسوی)

7 ہجری میں خیبر کا مشہور معرکہ پیش آیا۔ اوپر تم پڑھ آئے ہو کہ قبیلہ بنو نضیر کے یہودی جو مدینہ منورہ سے نکالے گئے تھے خیبر میں جا کر آباد ہوئے۔ انہی میں سے سلام و کنانہ وغیرہ نے 5 ہجری میں قریش کو جا کر بھڑکایا۔ اور ان کو مدینہ پر چڑھا لائے۔ اس تدبیر میں اگرچہ ان کو ناکامی ہوئی۔ لیکن انتقام کے خیال سے وہ باز نہ آئے۔ اور اس کی تدبیریں کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ 6 ہجری میں قبیلہ بنو سعد نے ان کی اعانت پر آمادگی ظاہر کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر معلوم ہوئی حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بھیجا۔ بنو سعد بھاگ گئے۔ اور پانچ سو اونٹ غنیمت میں ہاتھ آئے۔ (مواہب لگنیہ وزر قانی زکر سریہ)۔ پھر قبیلہ عظفان کو آمادہ کیا، چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خیبر کی طرف بڑھے تو سب سے پہلے اسی قبیلہ نے سد راہ ہونا چاہا۔ ان حالات کے لحاظ سے ضروری تھا کہ یہودیوں کا زور توڑ دیا جائے ورنہ مسلمان ان کے خطرے سے مطمئن نہیں ہو سکتے تھے۔

غرض 7 ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو پیدل اور دو سو سواروں کے ساتھ خیبر کا رخ کیا۔ خیبر میں یہودیوں نے بڑے مضبوط قلعے بنا لئے تھے۔ مثلاً حصن ناعم، حصن قموص، حصن صعب و طیح اور سلالم، یہ سب قلعے جلد از جلد فتح ہو گئے۔ لیخ وطیح و سلالم جن پر عرب کا مشہور بہادر مرحب قابض تھا۔ آسانی سے فتح نہیں ہو سکتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو سپہ سالار بنا کر بھیجا۔ لیکن وہ ناکام آئے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ مامور ہوئے ہوئے۔ وہ برابر دو دن جا کر لڑے۔ لیکن دونوں دن ناکام رہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا کہ کل میں ایسے شخص کو علم دوں گا جو حملہ آور ہو گا۔ اگلے دن تمام اکابر صحابہ علم نبوی کی امید میں بڑے سر و سامان سے ہتھیار سجا سجا کر آئے۔ ان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی تھے اور ان کا خود بیان ہے کہ میں نے کبھی اس موقع کے سوا علم برداری اور افسری کی آرزو نہیں کی، لیکن قضا و قدر نے یہ فخر حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے لئے اٹھا رکھا تھا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کی طرف توجہ نہیں کی۔ اور حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بلا کرعلم ان کو عنایت کیا۔ مرحب حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ہاتھ سے مارا گیا اور اس کے قتل پر اس معرکہ کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ خیبر کی زمین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدوں کو تقسیم کر دی۔ چنانچہ ایک ٹکڑا جس کا نام شمع تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حصے میں آیا، حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کو خدا کی راہ میں وقف کر دیا۔ چنانچہ صحیح مسلم باب الوقف میں یہ قصہ بہ تفصیل مذکور ہے۔ اور اسلام کی تاریخ میں یہ پہلا وقف تھا جو عمل میں آیا۔

اسی سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو 30 آدمیوں کے ساتھ قبیلہ ہوازن کے مقابلے کو بھیجا۔ ان لوگوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی آمد سنی تو بھاگ نکلے اور کوئی معرکہ پیش نہیں آیا۔

8 ہجری میں مکہ فتح ہوا، اس کی ابتدا یوں ہوئی کہ حدیبیہ میں جو صلح قرار پائی تھی اس میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ قبائل عرب میں جو چاہے قریش کا ساتھ دے اور جو چاہے اسلام کے سایہ امن میں آئے۔ چنانچہ قبیلہ خزاعہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خاندان بنوبکر نے قریش کا ساتھ دیا۔ ان دونوں قبیلوں میں مدت سے ان بن تھی۔ اور بہت سے معرکے ہو چکے تھے۔ لڑائی کہ سلسلہ جاری تھا کہ حدیبیہ کی صلح وقوع میں آئی اور شرائط معاہدہ کی رو سے دونوں قبیلے لڑائی سے دست بردار ہو گئے۔ لیکن چند روز بعد بنوبکر نے نقض عہد کیا۔ اور قریش نے ان کی اعانت کی۔ یہاں تک کہ خزاعہ نے حرم میں جا کر پناہ لی۔ تب بھی ان کو پناہ نہ ملی۔ خزاعہ نے جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس۔۔۔۔ کیا۔ ابو سفیان کو یہ خبر معلوم ہوئی تو پیش بندی کے لیے مدینہ منورہ پہنچا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر قریش کی طرف سے تجدید صلح کی درخواست کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ جواب نہ دیا تو اٹھ کر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ اور پھر حضر ت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس بیا کہ آپ اس معاملے کو طے کر دیجیئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس سختی سے جواب دیا کہ وہ بالکل ناامید ہو گیا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کی تیاریاں شروع کیں۔ اور رمضان 8 ہجری میں 10 ہزار فوج کے ساتھ مدینہ سے نکلے۔ مقام ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نزول اجلال ہوا۔ تو حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر پر سوار ہو کر مکہ کی طرف چلے۔ ادھر سے ابو سفیان آ رہا تھا۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس سے کہا۔ آ میں تجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے امن دلا دوں ورنہ آج تیری خیر نہیں۔ ابو سفیان نے غنیمت سمجھا اور حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ ہو لیا۔ راہ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا سامنا ہوا۔ ابو سفیان کو ساتھ دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے خیال کیا کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ اس کی سفارش کے لیے جا رہے ہیں۔ بڑی تیزی سے بڑھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ مدتوں کے بعد اس دشمن اسلام پر قابو ملا ہے۔ اجازت دیجیئے کہ اس کی گردن مار دوں۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ " عمر ابو سفیان اگر عبد مناف کے خاندان سے نہ ہوتا اور تمہارے قبیلہ کا آدمی ہوتا تو تم اس کی جان کے خواہاں نہ ہوتے۔" حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا۔ " خدا کی قسم میرا باپ خطاب اسلام لاتا تو مجھ کو اتنی خوشی نہ ہوتی جتنی اس وقت ہوئی تھی۔ جب آپ اسلام لائے تھے۔" آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سفارش قبول کی۔ اور ابو سفیان کو امن دیا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بڑےجاہ و جلال سے مکہ میں داخل ہوئے اور درِ کعبہ پر کھڑے ہو کر نہایت فصیح و بلیغ خطبہ پڑھا۔ جو بعید تاریخوں میں منقول ہے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ساتھ لے کر مقام صفا پر لوگوں سے بیعت لینے کے لئے تشریف فرما ہوئے۔ لوگ جوق در جوق آتے تھے اور بیعت کرتے جاتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب لیکن کس قدر نیچے بیٹھے تھے۔ جب عورتوں کی باری آئی تو چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیگانہ عورت کے ہاتھ کو مس نہیں کرتے تھے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ارشاد فرمایا کہ تم ان سے بیعت لو، چنانچہ عورتوں نے انہی کے ہاتھ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔
 

شمشاد

لائبریرین
غزوہ حنین

اسی سال ہوازن کی لڑائی پیش آئی جو (حنین، عرفات کے پیچھے ایک وادی کا نام ہے جو مکہ معظمہ سے نو دس میل ہے) غزوہ حنین کے نام سے مشہور ہے۔ ہوازن عرب کا مشہور اور معزز قبیلہ تھا۔ یہ لوگ ابتدا سے اسلام کی ترقی کو رقابت کی نگاہ سے دیکھتے آئے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب فتح مکہ کے ارادہ سے مدینہ سے نکلے تو ان لوگوں کو گمان ہوا کہ ہم پر حملہ کرنا مقصود ہے۔ چنانچہ اسی وقت جنگ کی تیاریاں شروع کر دیں۔ اور جب یہ معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ پہنچے تو مکہ پر حملہ کے لیے بڑے ساز و سامان سے روانہ ہو کر حنین میں ڈیرے ڈالے (تاریخ طبری)۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر سنی تو بارہ ہزار کی جمعیت کے ساتھ مکہ معظمہ سے روانہ ہوئے۔ حنین میں دونوں فوجیں صف آرا ہوئیں۔ مسلمانوں نے پہلے حملہ میں ہوازن کو (صحیح مسلم غزوہ حنین) بھگا دیا۔ لیکن مال غنیمت کے لوٹنے میں مصروف ہوئے تو ہوازن نے حملہ کیا۔ اور اس قدر تیر برسائے کہ مسلمانوں میں ہلچل مچ گئی۔ اور بارہ ہزار آدمیوں سے معدودے چند کے سوا باقی سب بھاگ نکلے۔ اس معرکہ میں جو صحابہ ثابت قدم رہے ان کا نام خصوصیت کے ساتھ لیا گیا ہے۔ اور ان میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی شامل ہیں۔ چنانچہ علامہ طبری نے صاف تصریح کی ہے۔ محمد بن اسحاق نے جو امام بخاری کے شیوخ حدیث میں داخل ہیں اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے امام مانے جاتے ہیں۔ کتاب السغازی میں لکھا ہے کہ " وبا و پیغمبر چند تن از مہاجرین و انصار و اہل بیعت بازماند ۔۔۔ وند مثل ابو بکر و علی و عمر و عباس رضی اللہ تعالٰی عنہم (ابن اسحاق کی اصل کتاب میں نے دیکھی، لیکن اس کا ایک نہایت قدیم ترجمہ فارسی زبان میں میری نظر سے گزرا ہے اور عبارت منقولہ اسی سے ماخوذ ہے۔ یہ ترجمہ 662 عیسوی میں سعدان زندگی کی حکم سے کیا گیا تھا۔ اور بس ایک نہایت قدیم نسخہ الہ آباد کے کتب خانہ عام میں موجود ہے) تھے۔ لڑائی کی صورت ۔۔۔۔ کر پھر بن گئی۔ یعنی مسلمانوں کو فتح ہوئی۔ اور ہوازن کے چھ ہزار آدمی گرفتار ہوئے۔

9 ہجری میں خبر مشہور ہوئی کہ قیصر روم عرب پر حملہ کی تیاریاں کر رہا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر صحابہ کو تیاری کا حکم دیا اور چونکہ یہ نہایت تنگی اور عسرت کا زمانہ تھا، اس لئے لوگوں کو زر و مال سے اعانت کی ترغیب دلائی۔ چنانچہ اکثر صحابہ نے بڑی بڑی رقمیں پیش کیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس موقعہ پر تمام مال و اسباب میں سے لا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا (ترمذی و ابو داؤد میں واقعہ فضائل ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے تحت میں منقول ہے۔ لیکن غزوہ کی تعیین نہیں ہے)۔ غرض اسلحہ اور رسد کا سامان مہیا کیا گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے روانہ ہوئے۔ لیکن مقام تبوک میں پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہ خبر غلط تھی۔ اسی لیے چند روز قیام فرما کر واپس آئے۔

اسی سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات سے ناراض ہو کر ان سے علیحدگی اختیار کی۔ اور چونکہ لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل سے یہ خیال ہوا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ازواج کو طلاق دے دی اس لئے تمام صحابہ کو نہایت رنج و افسوس تھا۔ تاہم کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ کہنے سننے کی جراءت نہیں کر سکتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی نے حاضر ہونا چاہا۔ لیکن بار بار اذن مانگنے پر بھی اجازت نہ ملی۔ آخر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پکار کر دربان سے کہا کہ " شاید رسول اللہ کو یہ گمان ہے کہ میں حفصہ (حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بیٹی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ) کی سفارش کے لئے آیا ہوں۔ خدا کی قسم اگر رسول اللہ حکم دیں تو میں جا کر حفصہ کی گردن ۔۔۔۔۔ مار دوں۔" آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً بلایا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی کہ " کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج کو طلاق دے دی؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " نہیں " حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ تمام مسلمان مسجد میں سوگوار بیٹھے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیں تو انہیں یہ مژدہ سنا آؤں۔ اس واقعہ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے تقرب کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے انہی واقعات کے سلسلے میں ایک موقع پر کہا کہ " عمر! تم ہر چیز میں دخیل ہو گئے۔ یہاں تک کہ اب ازواج کے معاملہ میں بھی دخل دینا چاہتے ہو۔"

10 ہجری (636 عیسوی) میں اطراف عرب سے نہایت کثرت سے سفارتیں آئیں۔ اور ہزاروں لاکھوں آدمی اسلام کے حلقے میں آئے۔ اسی سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے لئے مکہ معظمہ کا قصد کیا اور یہ حج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری حج تھا۔ 11 ہجری (623 عیسوی) (یہ سن غلط ہے یا پھر اوپر دیا ہوا سن غلط ہے) ماہ صفر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رومیوں کے مقابلے کے لیے اسامہ بن زید رضی اللہ تعالٰی عنہ کو مامور کیا۔ اور تمام اکابر صحابہ کو حکم دیا کہ ان کے ساتھ جائیں۔ لوگ تیار ہو چکے تھے کہ آخیر صفر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہو گئے اور تجویز ملتوی ہو رہ گئی۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہ روایتِ مشہور 13 دن بیمار رہے۔ بہقی نے بہ سند صحیح ان کی تعداد دس دن بیان کی ہے۔ سلیمان تمیمی نے بھی مغازی میں یہی تعداد لکھی ہے (فتح الباری، جلد 5، صفحہ 98)۔ بیماری کی حالت یکساں نہ تھی۔ کبھی بخار کی شدت ہو جاتی تھی اور کبھی اس قدر افاقہ ہو جاتا تھا کہ مسجد میں جا کر نماز ادا فرماتے تھے، یہاں تک عین وفات کے دن نماز فجر کے وقت طبیعت اس قدر بحال تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دروازے تک آئے اور پردہ اٹھا کر لوگوں کو نماز پڑھتے دیکھا، نہایت محظوظ ہوئے اور تبسم فرمایا۔
 

شمشاد

لائبریرین
قرطاس کا واقعہ

بیماری کا بڑا مشہور واقعہ قرطاس کا واقعہ ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے تین روز پہلے قلم اور دوات طلب کیا۔ اور فرمایا کہ " میں تمہارے لئے ایسی چیز لکھوں گا کہ تم آئندہ گمراہ نہ ہو گے۔" اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے لوگوں کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو درد کی شدت ہے اور ہمارے لئے قرآن کافی ہے۔ حاضرین میں سے بعضوں نے کہا کہ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہکی باتیں کر رہے ہیں۔" (نعوذ باللہ) روایت میں ہجر کا لفظ ہے جس کے معنی ہذیان کے ہیں۔

یہ واقعہ بظاہر تعجب انگیز ہے۔ ایک معترض کہہ سکتا ہے کہ اس سے گستاخی اور سرکشی ہو گی کہ جناب رسول صلی اللہ علیہ وسلم بستر مرگ پر ہیں اور امت کے درد و غمخواری کے لحاظ سے فرماتے ہیں کہ " لاؤ میں ایک ہدایت نامہ لکھ دوں جو تم کو گمراہی سے محفوظ رکھے۔ یہ ظاہر ہے کہ گمراہی سے بچانے کے لیے جو ہدایت ہو گی وہ منصب نبوت کے لحاظ سے ہو گی۔ اور اس لئے اس میں سہو و خطا کا احتمال نہیں ہو سکتا۔ باوجود اس کے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بے پروائی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کچھ ضرورت نہیں ہم کو قرآن کافی ہے۔ طرہ یہ کہ بعض روایتوں میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ہی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو ہذیان سے تعبیر کیا تھا۔(نعوذ باللہ)۔

یہ اعتراض ایک مدت سے چلا آتا ہے۔ اور مسلمانوں کے دو مختلف گروہوں نے اس پر بڑی طبع آزمائیاں کی ہیں۔ لیکن چونکہ اس بحث میں غیر متعلق باتیں چھڑ گئیں۔ اور اصول درایت سے کسی نے کام نہیں لیا۔ اس لئے مسئلہ نا منفصل رہا اور عجیب عجیب بیکار بحثیں پیدا ہو گئیں۔ یہاں تک کہ یہ مسئلہ چھڑ گیا کہ پیغمبر سے ہذیان ہونا ممکن ہے۔ کیونکہ ہذیان انسانی عوارض میں ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عوارض انسانی سے بری نہ تھے۔

یہاں دراصل یہ امر غور طلب ہے کہ جو واقعہ جس طریقے سے روایتوں میں منقول ہے اس سے کسی امر پر اسثناد ہو سکتا ہے یا نہیں؟ اس بحث کے لیے پہلے واقعات ذیل کو پیش نظر رکھنا چاہیے :

(1) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کم و بیش 13 دن تک بیمار رہے۔

(2) کاغذ و قلم دوات طلب کرنے کا واقعہ جمعرات کے دن کا ہے جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم میں بہ تصریح مذکور ہے۔ اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دو شنبہ کے دن انتقال فرمایا۔ اس لئے اس واقعہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چار دن تک زندہ رہے۔

(3) اس تمام مدت بیماری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اور کوئی واقعہ اختلال حواس کا کسی روایت میں کہیں مذکور نہیں۔

(4) اس واقعہ کے وقت کثرت سے صحابہ موجود تھے۔ لیکن یہ حدیث باوجود اس کے بہت سے طریقوں سے مروی ہے۔ (چنانچہ صرف صحیح بخاری میں سات طریقوں سے مذکور ہے۔) باایں ہمہ بجز عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اور کسی صحابی سے اس واقعہ کے متعلق ایک حرف بھی منقول نہیں۔

(5) عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کی عمر اس وقت صرف 13 – 14 برس کی تھی۔

(6) اس سے بڑھ کر یہ کہ جس وقت کا یہ واقعہ ہے۔ اس موقع پر عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ خود موجود نہ تھے۔ اور یہ معلوم نہیں کہ یہ واقعہ انہوں نے کس سے سنا۔ (بخاری باب کفایہ العلم میں جو حدیث مذکور ہے اس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ واقعہ میں موجود تھے۔ اس لئے محدثین نے اس پر بحث کی ہے اور بہ دلائل قطعیہ ثابت کیا ہے موجود نہ تھے۔ دیکھو فتح الباری باب کفایہ العلم)۔

(7) تمام روایتوں میں مذکور ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کاغذ قلم مانگا تو لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہکی ہوئی باتیں کر رہے ہیں۔ (علامہ قرطینی نے یہ تاویل کی ہے اور اس پر ان کو ناز ہے کہ " لوگوں نے یہ لفظ استعجاب کے طور پر کہا تھا۔ یعنی یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل کرنی چاہیے۔ خدانخواستہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہذیان تو نہیں کہ اس کا لحاظ نہ کیا جاوے۔ یہ تاویل دل کو لگتی ہوئی ہے۔ لیکن بخاری و مسلم کی بعض روایتوں میں ایسے الفاظ ہیں جن میں تاویل کا احتمال نہیں۔ مثلا ھجر ھجر (دو دفعہ) با ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ھجر (صحیح مسلم)۔

اب سب سے پہلے یہ امر لحاظ کے قابل ہے کہ جب اور کوئی واقعہ یا قرینہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اختلال حواس کا کہیں کسی روایت میں مذکور نہیں تو صرف اس قدر کہنے سے کہ " قلم دوات لاؤ" لوگوں کو ہذیان کا کیونکر خیال پیدا ہو سکتا ہے؟ فرض کر لو کہ انبیاء سے ہذیان سرزد ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ معمولی بات بھی کہیں تو ہذیان سمجھی جائے۔ ایک پیغمبر کا وفات کے قریب یہ کہنا کہ قلم دوات لاؤ میں ایسی چیزیں لکھ دوں کہ تم آئندہ گمراہ نہ ہو اس میں ہذیان کی کیا بات ہے۔ (ہمارے نکتہ سنجوں نے یہ مضمون آفرینی کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا نہیں جانتے تھے اس لئے آپ کا یہ فرمانا کہ میں لکھ دوں ہذیان کا قرینہ تھا۔ لیکن اس لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ لکھنے کے معنی لکھوانے کے بھی آتے ہیں۔ اور یہ مجاز عموماً شائع و ذرائع ہے۔) یہ روایت اگر خواہ مخواہ صحیح سمجھی جائے تب بھی اس قدر سیر حال تسلیم کرنا ہو گا کہ راوی نے روایت میں وہ واقعات چھوڑ دیئے ہیں جن سے لوگوں کو یہ خیال پیدا ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوش میں نہیں ہیں۔ اور مدہوشی کی حالت میں قلم دوات طلب فرما رہے ہیں۔ پس ایسی روایت سے جس میں راوی نے واقعہ کی نہایت ضروری خصوصیتیں چھوڑ دیں۔ کسی واقعہ پر کیونکر استدلال ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ جب ان امور کا لحاظ کیا جائے کہ اتنے بڑے عظیم الشان واقعہ میں تمام صحابہ میں سے صرف حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ اس کے راوی ہیں اور یہ کہ ان کی عمر اس وقت 13-14 برس کی تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ واقعہ کے وقت موجود نہ تھے۔ تو ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس روایت کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے۔ ممکن ہے کہ کسی کوتاہ نظر پر یہ امر گراں گزرے کہ بخاری اور مسلم کی حدیث پر شبہ کیا جائے لیکن اس کو سمجھنا چاہیے کہ بخاری اور مسلم کے کسی راوی کی نسبت یہ شبہ کرنا کہ وہ واقعہ کی پوری ہیئت محفوظ نہ رکھ سکا، اس سے کہیں زیادہ آسانی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ہذیان اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نسبت گستاخی کا الزام لگایا جائے۔

غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس واقعہ کے بعد چار دن زندہ رہے۔ اور اس اثناء میں وقتاً فوقتاً بہت سی ہدادیتیں اور وصیتیں فرمائیں۔ عین وفات کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت اس قدر سنبھل گئی تھی کہ لوگوں کو بالکل صحت کا گمان ہو گیا تھا۔ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ اسی خیال سے اپنے کو جو مدینہ منورہ سے دو میل پر تھا واپس چلے گئے (طبری صفحہ 13-14)۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ وفات کے وقت تک موجود رہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے 12 ربیع الاول 11 ہجری دو شنبہ کے دن دوپہر کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے گھر میں انتقال فرمایا۔ سہ شنبہ کو دوپہر ڈھلنے پر مدفون ہوئے۔ جماعت اسلام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو صدمہ ہوا اس کا اندازہ کون کر سکتا ہے؟ عام روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اس قدر خود رفتہ ہوئے کہ مسجد نبوی میں جا کر اعلان کیا کہ " جو شخص یہ کہے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی اس کو قتل کر دوں گا" لیکن قرائن اس روایت کی تصدیق نہیں کرتے۔ ہمارے نزدیک چونکہ مدینے میں کثرت سے منافقین کا گروہ موجود تھا۔ جو فتنہ پردازی کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا منتظر تھا اس لئے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مصلحتاً اس خبر کو پھیلنے سے روکا ہو گا۔ اسی واقعہ نے روایتوں کے تغیرات سے مختلف صورت اختیار کر لی ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ صحیح بخاری وغیرہ میں اس قسم کی تصریحات موجود ہیں جو ہمارے اس قیاس کے مطابق نہیں ہو سکتیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
سقیفہ بنی ساعدہ حضرت ابوبکررضی اللہ تعالٰی عنہ کی خلافت اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا استخلاف

یہ واقعہ بظاہر تعجب سے خالی نہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال فرمایا تو فوراً خلافت کی نزاع پیدا ہو گئی۔ اور اس بات کا بھی انتظار نہ کیا گیا کہ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین سے فراغت حاصل کی جائے۔ کس کے قیاس میں آ سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انتقال فرمائیں اور جن لوگوں کو ان کے عشق و محبت کا دعویٰ ہو وہ ان کو بے گور و کفن چھوڑ کر چلے جائیں۔ اور اس بندوبست میں مصروف ہوں کہ مسند حکومت اوروں کے قبضہ میں نہ آ جائے۔

تعجب پر تعجب یہ ہے کہ یہ فعل ان لوگوں (حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالٰی عنہم) سے سرزد ہوا جو آسمان اسلام کے مہروماہ تسلیم کئے جاتے ہیں،اس فعل کی ناگواری اس وقت اور زیادہ نمایاں ہو جاتی ہے۔جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ جن لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فطری تعلق تھا، یعنی حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ و خاندان بنی ہاشم ان پر فطری تعلق کا پورا پورا اثر ہوا اور اس وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درد غم اور تجہیز و تکفین سے ان باتوں کی طرف سے متوجہ ہونے کی فرصت نہ ملی۔

ہم اس کو تسلیم کرتے ہیں کہ کتب حدیث و سیر سے بظاہر اسی قسم کا خیال پیدا ہوتا ہے لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ یہ سچ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ و ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ وغیرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین چھوڑ کر سقیفہ بنی ساعدہ کو چلے گئے۔ یہ بھی سچ ہے کہ انہوں نے سقیفہ بنی ساعدہ میں پہنچ کر خلافت کے باب میں انصار سے معرکہ آرائی کی۔ اور اس طرح ان کوششوں میں مصروف رہے کہ گویا ان پر کوئی حادثہ پیش ہی نہیں آیا تھا۔ یہ بھی سچ ہے کہ انہوں نے اپنی خلافت کو نہ صرف انصار بلکہ بنو ہاشم اور حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بزور منوانا چاہا، گو بنو ہاشم نے آسانی سے ان کی خلافت تسلیم نہیں کی۔ لیکن اس بحث میں جو غور طلب باتیں ہیں وہ یہ ہیں :

(1) کیا خلافت کا سوال حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ وغیرہ نے چھیڑا تھا؟

(2) کیا یہ لوگ خود اپنی خواہش سے سقیفہ بنی ساعدہ میں گئے تھے؟

(3) کیا حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ اور بنو ہاشم خلافت کی فکر سے بالکل فارغ تھے؟

(4) ایسی حالت میں جو کچھ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ وغیرہ نے کیا، وہ کرنا چاہیے تھا یا نہیں؟

پہلی دو ۔۔۔۔۔۔ کی نسبت ہم نہایت مستند کتاب ابو ۔۔۔۔ کی عبارت نقل کرتے ہیں جس سے واقعہ کی کیفیت بخوبی سمجھ میں آ سکتی ہے۔

بینما لحن فی منزل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا رجل ینادی من وراء ال۔۔۔۔۔۔ ان اخرج الی یا ابن الخطاب فقلت الیک عنی فانا عنک مشاغیل یعنی بامر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال لہ قد حدث امر فان الانصار اجمعوا فی سقیفۃ بنی ساعدہ فادر کو ھم ان یحدثوا امر یکون فیہ حرب فقلت لابی بکر انفلقَ

" حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا بیان ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ مبارک میں بیٹھے تھے کہ دفعتاً دیوار کے پیچھے سے ایک آدمی نے آواز دی کہ ابن الخطاب (حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ) ذرا باہر آؤ۔ میں نے کہا چلو ہٹو ہم لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بندوبست میں مشغول ہیں۔ اس نے کہا کہ ایک حادثہ پیش آیا ہے۔ یعنی انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں اکٹھے ہوئے ہیں۔ اس لئے جلد پہنچ کر ان کی خبر لو۔ ایسا نہ ہو کہ انصار کچھ ایسی باتیں کر اٹھیں جس سے لڑائی چھڑ جائے۔ اس وقت میں نے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا کہ چلو۔"

اس سے ظاہر ہو گیا کہ نہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ وغیرہ نے خلافت کی بحث کو چھڑا تھا نہ اپنی خواہش سے سقیفہ بنی ساعدہ کو جانا چاہتے تھے۔

تیسری بحث کی کیفیت یہ ہے کہ اس وقت جماعت اسلامی تین گروہوں میں تقسیم کی جا سکتی تھی (۱) بنو ہاشم جس میں حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ شامل تھے، (۲) مہاجرین کے رئیس و افسر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ وغیرہ تھے۔ (۳) انصار جن کے شیخ القبیلہ سعد بن عبادہ تھے۔ ان تینوں میں سے ایک گروہ بھی خلافت کے خیال سے خالی نہ تھا۔ انصار نے اپنا ارادہ ظاہر کر دیا تھا۔ بنو ہاشم کے خیالات ذیل کی روایت سے معلوم ہوں گے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وفات کے دن حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ مکان سے باہر نکلے۔ لوگوں نے ان سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج کیسا ہے، چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری حالت بالکل سنبھل گئی تھی، حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ خدا کے فضل و کرم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اچھے ہو گئے۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ خدا کی قسم تم تین دن کے بعد غلامی کرو گے۔ میں آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عنقریب اس مرض میں وفات پائیں گے۔ کیونکہ مجھ کو اس کا تجربہ ہے کہ خاندان عبد المطلب کا چہرہ موت کے قریب کس طرح متغیر ہو جاتا ہے۔ آؤ چلو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد منصب (خلافت) کس کو حاصل ہو گا۔ اگر ہم اس کے مستحق ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے وصیت فرما دیں گے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی نے عنہ نے کہا۔ " میں نہ پوچھوں گا کیونکہ اگر پوچھنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کیا تو پھر آئندہ کوئی امید نہ رہے گی (صحیح بخاری باب مرض النبی فتح الباری)۔

اس روایت سے حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کا خیال تو صاف معلوم ہوتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا اس وقت تک یقین نہ تھا اس لئے انہوں نے کوئی تحریک کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ اس کے علاوہ اپنے انتخاب کئے جانے پر بھروسہ نہ تھا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے گھر میں ایک مجمع ہوا تھا جس میں تمام بنو ہاشم اور ان کے اتباع شریک تھے۔ اور حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ ان کے پیشرو تھے۔ صحیح بخاری میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زبانی روایت ہے (صحیح بخاری کتاب الحدود باب رحم الحبلی)

" کان من خبرنا حین توفی اللہ لیہ ان الانصار خللونا واجتمعوا باسر ھم فی سقیفنۃ بی ساعدہ و خائف عنا علی وائریر ومن معھما واجتمع المھاجرون الی ابی بکر۔"

ہماری سرگزشت یہ ہے کہ جب خدا نے اپنے پیغمبر کو اٹھا لیا تو انصار نے قابطہ ہماری مخالف کی اور سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے اور علی اور
زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہم اور ان کے ساتھیوں نے بھی مخالفت کی۔ اور مہاجرین ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس جمع ہوئے۔"

یہ تقریر عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک بہت بڑے مجمع میں کی تھی جس میں سینکڑوں صحابہ موجود تھے اس لیے اس بات کا گمان نہیں ہو سکتا کہ انہوں نے کوئی امر خلاف واقع کہا ہو، ورنہ یہ لوگ ان کو وہیں ٹوکتے۔ امام مالک رحمۃ اللہ کی روایت میں یہ واقعہ اور صاف ہو گیا ہے۔ اس کے یہ الفاظ ہیں :

و ان علیا والزبیر و من کان معھما تخلفوا فی بیت فاطمہ بنت رسول اللہ (فتح الباری شرح حدیث مذکور)

" اور علی رضی اللہ تعالٰی عنہ اور زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ اور لوگ ان کے ساتھ تھے وہ حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالٰی عنہا کے گھر میں ہم سے الگ ہو کر جمع ہوئے۔"

تاریخ طبری میں ہے :

و تخلف علی والزبیر واخترط الزبیر سیفہ و قال لا اعمدہ حتی یبابع علی۔ (تاریخ طبری صفحہ 820)۔

" اور حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ اور زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے علیحدگی اختیار کی، اور زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تلوار میان سے کھینچ لی اور کہا جب تک علی کے ہاتھ پر بیعت نہ کی جائے میں تلوار میان میں نہ ڈالوں گا۔"

ان تمام روایتوں سے صاف یہ نتائج نکلتے ہیں کہ :

(1) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے ساتھ ہی خلافت کے باب میں تین گروہ ہو گئے :

(1) انصار (2) مہاجرین (3) بنو ہاشم

(1) مہاجرین حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اور بنو ہاشم حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ تھے۔

(2) جس طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ وغیرہ آنحضرت صلی اللہ کو چھوڑ کر سقیفہ کو چلے گئے تھے، حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے چلے ائے تھے، اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے گھر میں بنو ہاشم کا مجمع ہوا تھا۔

سقیفہ میں حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا نہ جانا اس وجہ سے نہ تھا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غم و الم میں مصروف تھے، اور ان کو ایسے پردرد موقع پر خلافت کا خیال نہیں آ سکا تھا۔ بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ سقیفہ میں مہاجرین اور انصار جمع تھے۔ اور ان دونوں گروہ میں سے کوئی حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دعویٰ کی تائید نہ کرتا۔ کیونکہ مہاجرین حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو پیشوا تسلیم کرتے تھے۔ اور انصار کے رئیس سعد بن عبادہ تھے۔

اخیر بحث یہ ہے کہ جو کچھ ہوا وہ بے جا تھا یا بجا؟ اس کو ہر شخص جو ذرا بھی اصول تمدن سے واقفیت رکھتا ہو باآسانی سمجھ سکتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت وفات پائی، مدینہ منورہ منافقوں سے بھرا پڑا تھا جو مدت سے اس باتکے منتظر تھے کہ رسول اللہ کا سایہ اٹھ جائے تو اسلام کو پامال کر دیں۔ اس نازک وقت میں آیا یہ ضروری تھا کہ لوگ جزع اور گریہ زاری میں مصروف رہیں یا یہ کہ فوراً خلافت کا انتظام کر لیا جائے۔ اور ایک منطم حالت قائم ہو جائے۔ انصار نے اپنی طرف سے خلافت کی بحث چھیڑ کر حالت کو اور نازک کر دیا۔ کیونکہ قریش جو انصار کو اس قدر حقیر سمجھتے تھے کہ جنگ بدر میں جب انصار ان کے مقابلے کو نکلے تو عتبہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے کہا کہ " محمد! ہم ناجنسوں سے نہیں لڑ سکتے" کسی طرح انصار کے آگے سر تسلیم خم نہیں کر سکتے تھے۔ قریش پر کیا موقوف ہے، تمام عرب کو انصار کی متابعت سے انکار ہوتا، چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ سقیفہ میں جو خطبہ دیا اس میں صاف اس خیال کو ظاہر کیا اور کہا " و ان العرب لا تعرف ھذا الا مرالا لھذا الحیی من قریش" اس کے علاوہ انصار میں خود گروہ تھے، اوس اور خزرج اور ان میں باہم اتفاق نہ تھا۔ اس حالت میں ضروری تھا کہ انصار کے دعویٰ خلافت کو دبا دیا جائے، اور کوئی لائق شخص فوراً انتخاب کر لیا جائے۔ مجمع میں جو لوگ موجود تھے ان میں سب سے بااثر بزرگ اور معمر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ تھے۔ اور فوراً ان کا انتخاب بھی ہو جاتا۔ لیکن لوگ انصار کی بحث و نزاع میں پھنس گئے تھے۔ اور بحث طول پکڑ گئی۔ قریب تھا کہ تلواریں میان سے نکل آئیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ رنگ دیکھ کر دفعتہً حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا کہ سب سے پہلے میں بیعت کرتا ہوں۔ ساتھ ہی حضرت عثمان، ابو عبیدہ بن جراح، عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہم نے بھی ہاتھ بڑھا دیئے (ابن المادردی نے الاحکام السلطانیہ میں لکھا ہے کہ اول صرف پانچ شخصوں نے بیعت کی تھی)۔ اور پھر عام خلقت ٹوٹ پڑی۔ اس کاروائی سے ایک اٹھتا ہوا طوفان رک گیا۔ اور لوگ مطمئن ہو کر کاروبار میں مشغول ہو گئے۔ صرف بنو ہاشم اپنے ادغا پر رکے رہے، اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے گھر میں وقتاً فوقتاً جمع ہو کر مشورے کرتے رہتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بزور ان سے بیعت لینی چاہی۔ لیکن بنو ہاشم حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سوا کسی کے آگے سر نہیں جھکا سکتے تھے۔ ابن ابی شیبہ نے " مصنف " میں اور علامہ طبری نے " تاریخ کبیر " میں یہ روایت نقل کی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر کہا " یا بنت رسول اللہ خدا کی قسم آپ ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ تاہم اگر آپ کے یہاں لوگ اس طرح مجمع کرتے رہے تو میں ان لوگوں کی وجہ سے گھر میں آگ لگا دوں گا۔" اگرچہ سند کے اعتبار سے اس روایت پر ہم اپنا اعتبار ظاہرنہیں کر سکتے کیونکہ اس روایت کے رو۔۔۔۔ کا حال ہم کو معلوم نہیں ہو سکا۔ تاہم درایت کے اعتبار سے اس واقعہ کے انکار کی کوئی وجہ نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تندی اور تیز مزاجی سے یہ حرکت کچھ بعید نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نازگ وقت میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نہایت تیزی اور سرگرمی کے ساتھ جو کاروائیاں کیں ان میں گو بعض بے اعتدالیاں پائی جاتی ہوں، لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ انہی بے اعتدالیوں نے اٹھتے ہوئے فتنوں کو دبا دیا۔ بنو ہاشم کی سازشیں اگر قائم رہتیں تو اسی وقت جماعت اسلامی کا شیرازہ بکھر جاتا۔ اور وہیں خانہ جنگیاں برپا ہو جاتیں جو آگے چل کر جناب علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہم میں واقع ہوئیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خلافت کی مدت سوا دو برس ہے۔ کیونکہ انہوں نے جمادی الثانی 13 ہجری میں انتقال کیا۔ اس عہد میں اگرچہ جس قدر بڑے بڑے کام انجام پائے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شرکت سے انجام پائے۔ تاہم ان واقعات کو ہم الفاروق میں نہیں لکھ سکتے کیونکہ وہ پھر بھی عہد صدیقی کے واقعات ہیں۔ اور اس شخص کا حصہ ہیں جس کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سوانح عمری لکھنے کا شرف حاصل ہو۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اگرچہ مدتوں کے تجربہ سے یقین ہو گیا تھا کہ خلافت کا بار گراں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سوا اور کسی سے اٹھ نہیں سکتا تاہم وفات کے قریب انہوں نے رائے کا اندازہ کرنے کے لئے اکابر صحابہ سے مشورہ کیا۔ سب سے پہلے عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بلا کر پوچھا۔ انہوں نے کہا عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی قابلیت میں کیا کلام ہے۔ لیکن مزاج میں سختی ہے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا " ان کی سختی اس لئے تھی کہ میں نرم تھا۔ جب کام انہی پر آ پڑے گا تو وہ خود نرم ہو جائیں گے۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بلا کر پوچھا، انہوں نے کہا کہ " میں اس قدر کہہ سکتا ہوں کہ عمر کا باطن ظاہر سے اچھا ہے اور ہم لوگوں میں ان کو جواب نہیں۔" جب اس بات کے چرچے ہوئے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو خلیفہ مقرر کرنا چاہتے ہیں تو بعضوں کو تردد ہوا۔ چنانچہ طلحہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے جا کر کہا کہ " آپ کے موجود ہوتے ہوئے عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ہم لوگوں کے ساتھ کیا برتاؤ تھا؟ اب وہ خود خلیفہ ہوں گے تو خدا جانے کیا کریں گے۔ اب آپ خدا کے ہاں جاتے ہیں۔ یہ سوچ لیجیئے کہ خدا کو کیا جواب دیجیئے گا۔" حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا " میں خدا سے کہوں گا کہ میں نے تیرے بندوں پر اس شخص کو افسر مقرر کیا جو تیرے بندوں میں سب سے زیادہ اچھا تھا۔" یہ کہہ کر حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بلایا اور عہد نامہ لکھوانا شروع کیا۔ ابتدائی الفاظ لکھوائے جا چکے تھے کہ غش آ گیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ دیکھ کر یہ الفاظ اپنی طرف سے لکھ دیئے کہ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو خلیفہ مقرر کرتا ہوں۔ تھوڑی دیر بعد ہوش آیا تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا کہ کیا لکھا ہے مجھ کو پڑھ کر سناؤ۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پڑھا تو بے ساختہ اللہ اکبر پکار اٹھے اور " کہا کہ خدا تم کو جزائے خیر دے۔" عہد نامہ لکھا جا چکا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے غلام کو دیا کہ مجمع عام میں سنائے پھر خود بالا خانے پر جا کر لوگوں سے جو نیچے جمع تھے مخاطب ہوئے اور کہا کہ میں نے اپنے کسی بھائی بند کو خلیفہ مقرر نہیں کیا۔ بلکہ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو مقرر کیا۔ کیا تم لوگ اس پر راضی ہو؟ سب نے سمعنا و اطعنا کہا۔ پھر حضرت عمر رضیا للہ تعالٰی عنہ کو نہایت مؤثر اور مفید نصیحتیں کیں جو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے لئے عمدہ دستور العمل کی جگہ کام آئیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
خلافت اور فتوحات

حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عہد میں مرتدین عرب اور مدعیان نبوت کا خاتمہ ہو کر فتوحات ملکی کا آغاز ہو چکا تھا۔ خلافت کے دوسرے ہی برس یعنی 12 ہجری میں عراق پر لشکر کشی ہوئی اور حیرہ کے تمام اضلاع فتح ہو گئے۔ 13 ہجری (633 عیسوی) میں شام پر حملہ ہوا۔ اور اسلامی فوجیں تمام اضلاع میں پھیل گئیں۔ ان مہمات کا ابھی آغاز ہی تھا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا انتقال ہو گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عنان خلافت اپنے ہاتھ میں لی تو سب سے ضروری کام انہی مہمات کا انجام دینا تھا۔ لیکن قبل اس کے کہ ہم ان واقعات کی تفصیل لکھیں یہ بتانا ضروری ہے کہ اسلام سے پہلے عرب کے فارس و شام سے کیا تعلقات تھے۔

عرب کا نہایت نہایت قدیم خاندان جو " عربِ بایدہ " کے نام سے مشہور ہے۔ اگرچہ اس کے حالات نامعلوم ہیں تاہم اس قدر ہے کہ عاد اور عمالقہ نے عراق پر قبضہ کر لیا تھا۔ عرب عرباء جو یمن کے فرمانروا تھے ان کی حکومت ایک زمانہ میں بہت زور پکڑ گئی تھی۔ یہاں تک کہ چند بار عراق پر قابض ہو گئے۔ اور سلطنت فارس کے ساتھ ان کو ہمسری کا دعویٰ رہا۔

رفتہ رفتہ عرب خود حکومت فارس کے علاقہ میں آباد ہونے شروع ہو گئے۔ بخت نصر نے جو بابل کا بادشاہ تھا۔ اور بیت المقدس کی بربادی نے ان کے نام کو شہرت دے دی ہے۔ جب عرب پر حملہ کیا تو بہت سے قبیلے اس کے مطیع ہو گئے۔ اور اس تعلق سے عراق میں جا کر آباد ہو گئے۔ رفتہ رفتہ معد بن عدنان کی بہت سی نسلیں ان مقامات میں آباد ہوتی گئیں۔ یہاں تک کہ ریاست کی بنیاد پڑ گئی۔ اور چونکہ اس زمانے میں سلطنت فارس میں طوائف الملوکی قائم ہو گئی تھی، عربوں نے مستقل حکومت قائم کر لی۔ جس کا پہلا فرمانروا مالک بن فہم عدنانی تھا۔ اس خاندان میں جزیمتہ الابرش کی سلطنت نہایت وسیع ہوئی۔ اس کا بھانجا عمرو بن عدی جو اس کے بعد تخت نشین ہوا۔ اس نے حیرہ کو دارالسلطنت قرار دیا۔ اور عراق کا بادشاہ کہلایا۔ اس دور میں اس قدر تمدن پیدا ہو گیا تھا کہ ہشام کلبی کا بیان (ہشام کلبی نے یہ تصریح کتاب " النیجان" میں کی ہے) ہے کہ میں نے عرب کے زیادہ تر حالات اور فارس و عرب کے تعلقات زیادہ تر انہی کتابوں سے معلوم کیے جو حیرہ میں اس زمانے میں تصنیف ہوئی تھیں۔ اس زمانے میں اردشیر بن مالک نے طوائف الملوکی مٹا کر ایک وسیع سلطنت قائم کی اور عمرو بن عدی کو باج گزار بنا لیا۔ عمر بن عدی کا خاندان اگرچہ مدت تک عراق میں فرمانروا رہا۔ لیکن درحقیقیت وہ سلطنت فارس کا ایک صوبہ تھا۔

شاہ پور بن اردشیر جو سلسلہ ساسانیہ کو دوسرا فرمانروا تھا۔ اس کے عہد میں حجاز و یمن دونوں باجگزار ہو گئے۔ اور امراء العیس کندی ان صوبوں کا گورنر مقرر ہوا۔ تاہم مطیع ہو کر رہنا عرب کی فطرت کے خلاف تھا۔ اس لئے جب کبھی موقع ملتا تھا تو بغاوت برپا ہو جاتی تھی۔ چنانچہ شاہ پور ذی الاکتاف جب صغیر سنی میں فارس کے تخت پر بیٹھا تو تمام عرب میں بغاوت پھیل گئی۔ یہاں تک کہ قبیلہ عبد القیس نے خود فارس پر حملہ کر دیا۔ اور ایاد نے عراق کے صوبے دبا لئے۔ شاہ پور بڑا ہو کر بڑے عزم و استقلال کا بادشاہ ہوا۔ اور عرب کی بغاوت کا انتقام لینا چاہا۔ ہجر میں پہنچ کر نہایت خونریزی کی اور قبیلہ عبد القیس کو برباد کرتا ہوا مدینہ منورہ تک پہنچ گیا۔ رؤسائے عرب جو گرفتار ہو کر اس کے سامنے آتے تھے ان کے شانے اکھڑوا ڈالتا تھا۔ چنانچہ اسی وجہ سے عرب میں وہ ذو الاکتاف کے لقب سے مشہور ہے۔

سلاطین حیر ہ میں سے نعمان بن منذر نے جو کسریٰ پرویز کے زمانہ میں تھا۔ عیسوی مذہب قبول کر لیا۔ اور اس تبدیل مذہب پر یا کسی اور سبب سے پرویز نے اس کو قید کر دیا۔ اور قید ہی میں اس نے وفات پائی۔ نعمان نے اپنے ہتھیار وغیرہ ہانی کے پاس امانت رکھوا دیئے جو قبیلہ بکر کا سردار تھا، پرویز نے اس سے وہ چیزیں طلب کیں۔ اور جب اس نے انکار کیا تو ہرمزان کو دو ہزار فوج کے ساتھ بھیجا کہ بزور چھین لائے۔ بکر کے تمام قبیلے ذی وقار ایک مقام میں بڑے سر و سامان سے جمع ہوئے اور سخت معرکہ ہوا۔ فارسیوں نے شکست کھائی۔ اس لڑائی میں جناب رسول اللہ بھی تشریف رکھتے تھے۔ اور آپ نے فرمایا کہ :

ھذا اول یوم انتصفت العرب من العجم۔

یعنی " یہ پہلا دن ہے کہ عرب نے عجم سے بدلہ لیا۔"

عرب کے تمام شعرا نے اس واقعہ پر بڑے فخر اور جوش کے ساتھ قصیدے اور اشعار لکھے۔ سنہ 6 ہجری میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام بادشاہوں کو دعوتِ اسلام کے خطوط لکھے تو باوجود اس کے کہ ان خطوط میں جنگ و جدل کا اشارہ تک نہ تھا، پرویز نے خط پڑھ کر کہا کہ میرا غلام ہو کر مجھ کو یوں لکھتا ہے۔ اس پر ہی قناعت نہ کی بلکہ بازان کو جو یمن کا عامل تھا لکھا کہ کسی کو بھیج دو کہ " محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتار کر کے دربار میں لائے۔" اتفاق سے اسی زمانے میں پرویز کو اس کے بیٹھے ہلاک کر دیا اور معاملہ یہیں تک رہ گیا۔

رومی سلطنت سے عرب کا جو تعلق تھا وہ یہ تھا کہ عرب کے چند قبیلے سلیح و غسان و جذام وغیرہ شام کے سرحدی اضلاع میں جا کر آباد ہو گئے تھے۔ ان لوگوں نے رفتہ رفتہ شام کے اندرونی اضلاع پر قبضہ کر لیا تھا۔ اور زیادہ قوت و جمعیت حاصل کر کے شام کے بادشاہ کہلانے لگے تھے لیکن یہ لقب خود ان کا خانہ ساز لقب تھا۔ ورنہ جیسا کہ مؤرخ ابن الاثیر نے تصریح کی ہے درحقیقت وہ رومی سلطنت کے صوبہ دار تھے۔

ان لوگوں نے اسلام سے بہت پہلے عیسائی مذہب قبول کر لیا تھا۔ اور اس وجہ سے ان کو رومیوں کے ساتھ ایک قسم کی یگانگت ہو گئی، اسلام کا زمانہ آیا تو مشرکین عرب کی طرح وہ بھی اسلام کے دشمن نکلے۔ سنہ 6 ہجری میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیصر روم کو دعوت اسلام کا خط لکھا۔ اور وحیہ کلبی (جو خط لے کر گئے تھے) واپس آتے ہوئے ارض جذام میں پہنچے تو انہی شامی عربوں نے وحیہ پر حملہ کر دیا۔ اور تمام مال و اسباب لوٹ لیا۔ اسی طرح جب رسول اللہ نے حارث بن عمیر کو خط دے کر بصریٰ کے حاکم کے پاس بھیجا تو عمرو بن شرجیل نے ان کو قتل کرا دیا۔ چنانچہ اس کے انتقام کے لیے رسول اللہ نے سنہ 8 ہجری میں لشکر کشی کی اور غزوہ موتہ کا واقعہ پیش آیا۔ اس لڑائی میں زید بن حارثہ رضی اللہ تعالٰی عنہ، حضرت جعفر طیار رضی اللہ تعالٰی عنہ، عبد بن رواحہ رضی اللہ تعالٰی عنہ جو بڑے بڑے رتبہ کے صحابہ تھے، شہید ہوئے۔ اور گو خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حکمت عملی سے فوج صحیح و سلامت نکل آئی تاہم نتیجہ جنگ در حقیقت شکست تھا۔

9 ہجری میں رومیوں نے خاص مدینہ پر حملہ کی تیاریاں کیں۔ لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود پیش قدمی کر کے مقام تبوک تک پہنچے تو ان کو آگے بڑھنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ اگرچہ اسی وقت عارضی طور سے لڑائی رک گئی لیکن رومی اور غسانی مسلمانوں کی فکر سے کبھی غافل نہیں رہے۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کو ہمیشہ کھٹکا لگا رہتا تھا کہ مدینہ پر چڑھ نہ آئیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت مشہور ہوا کہ آپ نے ازواج مطہرات کو طلاق دے دی تو ایک شخص نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے جا کر کہا کہ کچھ تم نے سنا! حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کیا؟ کہیں غسانی تو نہیں چڑھ آئے۔

اسی حفظ ماتقدم کے لئے 11 ہجری میں رسول اللہ اسامہ بن زید رضی اللہ تعالٰی عنہ کو سردار بنا کر شام کی مہم پر بھیجا۔ اور چونکہ ایک عظیم الشان سلطنت کا مقابلہ تھا، حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ و عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اور بڑے بڑے نامور صحابہ مامور ہوئے کہ فوج کے ساتھ جائیں۔ اسامہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ابھی روانہ نہیں ہوئے تھے کہ رسول اللہ نے بیمار ہو کر انتقال فرمایا۔ غرض جب حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو عرب کی یہ حالت تھی کہ دونوں ہمسایہ سلطنتوں کا ہدف بن چکا تھا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے شام پر لشکر کشی کی تو فوج سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تم میں سے جو شخص مارا جائے گا شہید ہو گا۔ اور جو بچ جائے گا مدافع عن الدین ہو گا۔ یعنی دین کو اس نے دشمنوں کے حملے سے بچایا ہو گا۔ اس واقعات سے ظاہر ہو گا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جو کام شروع کیا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جس کی تکمیل کی اس کے کیا اسباب تھے؟ اس تمہیدی بیان کے بعد ہم اصل مطلب شروع کرتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
فتوحات عراق​

(جغرافیہ نویسوں نے عراق کے دو حصے کئے ہیں یعنی جو حصہ عرب سے ملحق ہے، اس کو عراق عرب اور جو حصہ عجم سے ملحق ہے اس کو عراق عجم کہتے ہیں۔ عرا ق کی حدوداربعہ یہ ہیں شمال میں جزیرہ جنوب میں بحر فارس، مشرق میں خوزستان اور مغرب میں دیار بکر ہے جس کا مشہور شہر موصل ہے اور دارالسلطنت اس کا بغداد ہے اور جو بڑے بڑے شہر اس میں آباد ہیں وہ بصرہ کوفہ واسطہ وغیرہ ہیں۔

ہمارے مؤرخین کا عام طریقہ یہ ہے کہ وہ سنین کو عنوان قرار دیتے ہیں لیکن اس میں یہ نقص ہے کہ واقعات کا سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے۔ مثلاً ایران کی فتوحات لکھتے آ رہے ہیں کہ سنہ ختم ہوا چاہتا ہے اور ان کو اس سنہ کے تمام واقعات لکھنے ہیں۔ اس لیے قبل اس کے کہ ایران کی فتوحات تمام ہوں یا موزوں موقع پر ان کا سلسلہ ٹوٹے شام و مصر کے واقعات کو جو اسی سنہ میں پیش آئے تھے چھیڑ دینا پڑتا ہے۔ اس لئے میں نے ایران کی تمام فتوحات کو ایک جا شام کو ایک جا اور مصر کو ایک جا لکھا ہے)۔

فارس کی حکومت کا چوتھا دور جو ساسانی کہلاتا ہے نوشیروان عادل کی وجہ سے بہت نام آور ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اسی کا پوتا پرویز تخت نشین تھا۔ اس مغرور بادشاہ کے زمانے تک سلطنت نہایت قوی اور زور آور رہی لیکن اس کے مرنے ساتھ دفعتہً ایسی ابتری پیدا ہو گئی کہ ایوان حکومت مدت تک متزلزل رہا۔ شیرویہ اس کے بیٹھے نے کل آٹھ مہینے حکومت کی اور اپنے تمام بھائیوں کو جو کم و بیش پندرہ تھے قتل کرا دیا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا اردشیر 7 برس کی عمر میں تخت پر بیٹھا لیکن ڈیڑھ برس کے بعد دربار کے ایک افسر نے اس کو قتل کر دیا۔ اور آپ بادشاہ بن بیٹھا۔ یہ سنہ ہجری کا بارہواں سال تھا۔ چند روز کے بعد درباریوں نے اس کو قتل کر کے جوان شیر کو تخت نشین کیا۔ وہ ایک برس ے بعد قضا کر گیا۔ اب چونکہ خاندان میں یزدگرد کے سوا جو نہایت صغیر السن تھا۔ اولاد ذکور باقی نہیں رہی تھی۔ پوران دخت کو اس شرط پر تخت نشین کیا گیا کہ یزدگرد سن شعور کو پہنچ جائے گا تو وہی تخت و تاج کا مالک ہو گا۔ (شیرویہ کے بعد سلسلہ حکومت کی ترتیب اور ناموں کی تعین میں مؤرخین اس قدر مختلف ہیں کہ دو مؤرخ بھی باہم متفق نہیں۔ فردوسی کا بیان سب سے الگ ہے۔ میں نے بلحاظ قدیم العہد اور فارسی النسل ہونے ابو حنیفہ دینوری کے بیان کو ترجیح دی ہے)۔

پرویز کے بعد جو انقلابات حکومت ہوتے رہے اس کی وجہ سے ملک میں جابجا بے امنی پھیل گئی۔ پوران کے زمانے میں مشہور ہو گیا کہ فارس میں کوئی وارث تاج و تخت نہیں رہا۔ برائے نام ایک عورت کو ایوان شاہی میں بٹھا رکھا ہے۔ اس خبر کہ شہرت کے ساتھ عراق میں قبیلہ وائل کے دو سردارون ۔۔۔۔۔۔ شیبانی اور سوید ۔۔۔۔۔۔ نے تھوڑی سی جمعیت بہم پہنچا کر عراق کی سرحد ۔۔۔۔۔۔ طرف غارت گری شروع کی (الاخبار الطوال ابو حنیفہ دینوری)۔ یہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خلافت کا زمانہ تھا اور خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ سیف اللہ یمامہ اور دیگر قبائل عرب کی مہمات سے فارغ ہو چکے تھے۔ ۔۔۔۔۔۔ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عراق پر حملہ کرنے کی اجازت حاصل کی۔ ۔۔۔۔۔۔ خود اگرچہ اسلام لا چکے تھے۔ لیکن اس وقت تک ان کا تمام قبیلہ عیسائی یا بُت پرست تھا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خدمت سے واپس آ کر انہوں نے اپنے قبیلہ کو اسلام کی ترغیب دی اور قبیلہ کا قبیلہ مسلمان ہو گیا (فتوح البلدان بلازری صفحہ ۔۔۔۔۔ )۔ ان نو مسلموں کے ایک بڑے گروہ نے عراق کا رخ کیا۔ ادھر حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے خلد کو مدد کے لئے بھیجا۔خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عراق مے تمام سرحدی مقام فتح کر لئے۔ اور حیرۃ پر علم فتح نصب کیا۔ یہ مقام کوفہ سے تین میل ہے۔ اور چونکہ یہاں نعمان بن منذر نے حوزنق ایک مشہور محل بنایا تھا وہ ایک یادگار مقام خیال کیا جاتا تھا۔

عراق کی یہ فتوحات خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بڑے بڑے کارناموں پر مشتمل ہیں۔ لیکن ان کے بیان کرنے کا یہ محل نہیں تھا۔ خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مہمات عراق کا خاتمہ کر دیا ہوتا۔ لیکن چونکہ ادھر شام کی مہم درپیش تھی اور جس زور شور سے وہاں عیسائیوں نے لڑنے کی تیاریاں کی تھی اس کے مقابلے کا وہاں پورا سامان نہ تھا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ربیع الثانی 13 ہجری (634 عیسوی) میں خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ کو حکم بھیجا کہ فوراً شام کو روانہ ہوں اور ۔۔۔۔۔۔ تو اپنا جانشین کرتے جائیں۔ ادھر خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ روانہ ہوئے اور عراق کی فتوحات دفعتہً رک گئیں۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ مسند خلافت پر بیٹھے تو سب سے پہلے عراق کی مہم پر توجہ کی۔ بیعت خلافت کے لیے تمام اطراف و دیار سے بیشمار آدمی آئے تھے۔ اور تین دن تک ان کا تانتا بندھا رہا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس موقع کو غنیمت سمجھا۔ا ور مجمع عام میں جہاد کا وعظ کہا۔ لیکن چونکہ لوگوں کا عام خیال تھا کہ عراق حکومت فارس کا پایہ تخت ہے۔ اور وہ خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بغیر فتح نہیں ہو سکتا۔ اس لئے سب خاموش رہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کئی دن تک وعظ کہا، لیکن کچھ اثر نہ ہوا۔ آخر چوتھے دن اس جوش سے تقریر کی کہ حاضرین کے دل ہل گئے۔ ۔۔۔۔۔۔ شیبانی نے اٹھ کر کہا کہ " مسلمانوں! میں نے مجوسیوں کو آزما لیا ہے۔ وہ مرد میدان نہیں ہیں۔ عراق کے بڑے بڑے اضلاع کو ہم نے فتح کر لیا ہے۔ اور عجم ہمارا لوہا مان گئے ہیں" حاضرین میں سے ابو عبیدہ ثقفی بھی تھے جو قبیلہ ثقیف کے مشہور سردار تھے وہ جوش میں آ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ انا ۔۔۔۔۔۔ یعنی اس کام کے لئے میں حاضر ہوں۔ ابو عبیدہ کی ہمت نے تمام حاضرین کو گرما دیا۔ اور ہر طرف سے غلغلہ اٹھا کہ ہم بھی حاضر ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مدینہ منورہ اور مضافات سے ہزار آدمی (بلازری کی روایت ہے ابو حنیفہ دینوری نے 5 ہزار تعداد لکھی ہے)۔ انتخاب کئے اور ابو عبیدہ کو سپہ سالار مقرر کیا۔

ابو عبیدہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا شرف حاصل نہ تھا۔ یعنی صحابی نہ تھے اس وجہ سے ان کی افسری پر کسی کو خیال ہوا۔ یہاں تک کہ ایک شخص نے آزادانہ کہا کہ " عمر! صحابہ میں سے کسی کو یہ منصب دو۔ فوج میں سینکڑوں صحابہ ہیں اور ان کا افسر بھی صحابی ہی ہو سکتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نہ صحابہ کی طرف دیکھا اور کہا کہ " تم کو جو شرف تھا وہ ہمت اور استقلال کی وجہ سے تھا۔ لیکن اس شرف کو تم نے خود کھو دیا۔ یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ جو لڑنے سے جی چرائے وہ افسر مقرر کئے جائیں۔" تاہم چونکہ صحابہ کی دلجوئی ضروری تھی، ابو عبیدہ کو ہدایت کی کہ ان کی ادب ملحوظ رکھنا اور ہر کام میں ان سے مشورہ لینا۔

حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عہد میں عراق پر جو حملہ ہوا اس نے ایران کو چونکا دیا تھا۔ چنانچہ پوران دخت نے رستم کو جو فرخ زاد گورنر خراسان کا بیٹا اور نہایت شجاع اور صاحب تدبیر تھا دربار میں طلب کیا۔ اور سزیر حرب مقرر کر کے کہا کہ تو سیاہ سپید کا مالک ہے۔ یہ کہہ کر اس کے سر پر تاج رکھا۔ اور درباریوں کو جن میں تمام امرا اور اعیانِ سلطنت شامل تھے۔ تاکید کی کہ رستم کی اطاعت سے کبھی انحراف نہ کریں۔ چونکہ اہل فارس اپنی نا اتفاقیوں کا نتیجہ دیکھ چکے تھے۔ انہوں نے دل سے ان احکام کی اطاعت کی۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ چند روز میں تمام بد انتظامیاں مٹ گئیں اور سلطنت نے پھر وہی زور و قوت پیدا کر لی جو ہرمز و پرویز کے زمانے میں اس کو حاصل تھی۔

رستم نے سب سے پہلی تدبیر یہ کی کہ اضلاع عراق میں ہر طرف ہرکارے اور نقیب دوڑائے جنہوں نے مذہبی حمیت کا جوش دلا کر تمام ملک میں مسلمانوں کے خلاف بغاوت پھیلا دی۔ چنانچہ ابو عبیدہ کے پہنچنے سے پہلے فرات کی تمام اضلاع میں ہنگامہ برپا ہو گیا اور جو مقامات مسلمانوں کے قبضے میں آ چکے تھے ان کے ہاتھ سے نکل گئے۔ پوران دخت نے رستم کی اعانت کے لیے ایک اور فوج گراں تیار کی۔ اور نرسی و جاہان کو سپہ سالار مقرر کیا۔ جاہان عراق کا ایک مشہور رئیس تھا۔ اور عرب سے اس کو خاص عداوت تھی۔ نرسی کسریٰ کا خالہ زاد بھائی تھا۔ اور عراق کے بعض اضلاع قدیم اس کی جاگیر تھے۔ یہ دونوں افسر مختلف راستوں سے عراق کی طرف بڑھے اور ادھر ابو عبیدہ اور مثنی حیرۃ تک پہنچ چکے تھے کہ دشمن کی تیاریوں کا حال معلوم ہوا۔ مصلحت دیکھ کر خفان کو ہٹ آئے۔ جاہان نمازق پہنچ کر خیمہ زن ہوا۔

ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اسی اثناء میں جوج کو سروسامان سے آراستہ کر لیا۔ اور پیش قدمی کر کے خود حملے کے لیے بڑھے۔ نمازق پر دونوں فوجیں صف آرا ہوئیں۔ جاہان کے میمنہ و میسرہ پر جوشن شاہ اور مردان شاہ دو مشہور افسر تھے جو بڑی ثابت قدمی سے لڑے لیکن بالآخر شکست کھائی اور عین معرکہ میں گرفتار ہو گئے۔ مردان شاہ بدقسمتی سے اسی وقت قتل کر دیا گیا۔ لیکن جاہان اس حیلے سے بچ گیا کہ جس شخص نے اس کو گرفتار کیا تھا وہ اس کو پہچانتا نہ تھا۔ جاہان نے اس سے کہا کہ اس بڑھاپے میں کس کام کا ہوں۔ مجھ کو چھوڑ دو اور معاوضے میں مجھ سے دو جوان غلام لے لو۔ اس نے منظور کر لیا۔ بعد لوگوں نے جاہان کو پہچانا تو غل مچایا کہ ہم ایسے دشمن کو چھوڑنا نہیں چاہتے۔ لیکن ابو عبیدہ نے کہا کہ اسلام میں بد عہدی جائز نہیں۔

ابو عبیدہ نے اس معرکہ کے بعد کسکر کا رخ کیا۔ جہاں نرسی فوج لئے پڑا تھا۔ سقاطیہ میں دونوں فوجیں مقال ہوئیں۔ نرسی کے ساتھ بہت بڑا لشکر تھا۔ اور خود کسریٰ کے دو ماموں زاد بھائی ہندویہ اور تیریہ میمنہ اور میسرہ پر تھے۔ تاہم نرسی اس وجہ سے لڑائی میں دیر کر رہا تھا کہ پایہ تخت سے امدادی فوجیں روانہ ہو چکی تھیں۔ ابو عبیدہ کو بھی یہ خبر پہنچ چکی تھی۔ انہوں نے بڑھ کر جنگ شروع کر دی۔ بہت بڑے معرکے کے بعد نرسی کو شکست فاش ہوئی۔ ابو عبیدہ نے خود مقاطیہ میں مقام کیا۔ اور تھوڑی سی فوجیں ہر طرف بھیج دیں کہ ایرانیوں نے جہاں جہاں پناہ لی ہے ان کو وہاں سے نکال دیں۔

فرخ اور فرلوند جو باروعما اور زوادی کے رئیس تھے، مطیع ہو گئے، چنانچہ اظہار خلوص کے لئے ایک دن ابو عبیدہ کو نہایت عمدہ عمدہ کھانے پکوا کر بھیجے۔ ابو عبیدہ نے دریافت کیا کہ یہ سامان کل فوج کے لئے ہے یا صرف میرے لئے؟ فرخ نے کہا کہ اس جلدی میں ساری فوج کا اہتمام نہیں ہو سکتا تھا۔ ابو عبیدہ نے دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اور کہا کہ مسلمانوں میں ایک دوسرے پر کچھ ترجیح نہیں۔

اس شکست کی خبر سن کر رستم نے مروان شاہ کو جو عرب سے دلی عداوت رکھتا تھا۔ اور جس کو نوشیرواں نے تقدس کے لحاظ سے ہیمن کا خطاب دیا تھا۔ چار ہزار فوج کے ساتھ اس سامان سے روانہ کیا کہ درفش کادیانی جو کئی ہزار برس سے کیانی خاندان کی یادگار چلا آتا تھا۔ اور فتح و ظفر كا دیباچہ سمجھا جاتا تھا۔ اس کے سر پر سایہ کرتا جاتا تھا۔ مشرقی فرات کے کنارے ایک مقام پر جس کا نام مروحہ تھا، دونوں حریف صف آرا ہوئے۔ چونکہ بیچ میں دریا حائل تھا، ۔۔۔۔۔۔ نے کہلا بھیجا کہ یا تم اس پار اتر کو آؤ یا ہم آئیں۔ ابو عبیدہ کے تمام سرداروں نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہم کو اس طرف رہنا چاہیے۔ لیکن ابو عبیدہ جو شجاعت کے نشے میں سرشار تھے کہا کہ یہ نامردی کی دلیل ہے۔ سردارون نے کہا یہ نہیں ہو سکتا کہ جانبازی کے میدان میں مجوسی ہم سے آگے بڑھ جائیں۔ مروان شاہ جو پیغام لے کر آیا تھا، اس نے کہا کہ ہماری فوج میں عام خیال ہے کہ " عرب مرد میدان نہیں ہیں۔" اس جملے نے اور بھی اشتعال دلایا۔ اور ابو عبیدہ نے اسی وقت فوج کو کمر بندی کا حکم دے دیا۔ مثنی اور سلیط وغیرہ بڑے بڑے افسران فوج اس رائے کے بالکل مخالف تھے اور عظمت و شان میں ان کا رتبہ ابو عبیدہ سے بڑھ کر تھا۔

جب ابو عبیدہ نے اصرار کیا تو ان لوگوں نے کہا کہ اگرچہ ہم کو قطعی یقین ہے کہ اس رائے پر عمل کرنے سے تمام فوج غارت ہو جائے گی۔ تاہم اس وقت تم افسر ہو اور افسر کی مخالفت ہمارا شیوہ نہیں۔ غرض کشتیوں کا پل باندھا گیا اور تمام فوج پار اتر کر غنیم سے معرکہ آرا ہوئی۔ پار کا میدان تنگ اور ناہمور تھا۔ اس لئے مسلمانوں کو موقع نہیں مل سکتا تھا کہ فوج کو ترتیب سے آراستہ کر سکتے۔

ایرانی فوج کا نظارہ نہایت مہیب تھا۔ بہت سے کوہ پیکر ہاتھی تھے جن پر گھنتے لٹکتے تھے اور بڑے زور سے بجتے جاتے تھے۔ گھوڑوں پر آہنی پاکھریں تھیں۔ سوار سمور کی لمبی ٹوپیاں اوڑھے ہوئے صحرائی جانور معلوم ہوتے تھے۔ عرب کے گھوڑوں نے یہ مہیب نظارہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ بدک کر پیچھے ہٹے۔ ابو عبیدہ نے دیکھا کہ ہاتھیوں کے سامنے کچھ زور نہیں چلتا۔ گھوڑے سے کود پڑے اور ساتھیوں کو للکارا کہ جانبازو! ہاتھیوں کو بیچ میں لے لو اور ہودؤں کو سواروں سمیت الٹ دو۔ اس آواز کے ساتھ گھوڑوں سے کود پڑے اور ہودؤں کی رسیاں کاٹ کر فیل نشینوں کو خاک پر گرا دیا۔ لیکن ہاتھی جس طرف جھکتے تھے صف کی صف پس جاتی تھی۔ ابو عبیدہ یہ دیکھ کر پیل سفید پر جو سب کا سردار تھا حملہ آور ہوئے اور سونڈ پر تلوار ماری کہ متک سے الگ ہو گئی۔ ہاتھی نے بڑھ کر ان کو زمین پر گرا دیا اور سینے پر پاؤں رکھ دیئے کہ ہڈیاں تک چور چور ہو گئیں۔

ابو عبیدہ کے مرنے پر ان کے بھائی حکم نے علم ہاتھ میں لیا۔ اور ہاتھی پر حملہ آور ہوئے۔ اس نے ابو عبیدہ کی طرح ان کو بھی پاؤں میں لپیٹ کر مسل دیا۔ اس طرح سات آدمیوں نے جو سب کے سب ابو عبیدہ کے ہم نسب اور خاندان ثقیف سے تھے، باری باری سے علم ہاتھ میں لئے اور مارے گئے۔ آخر میں مثنی نے علم لیا۔ لیکن اس وقت لڑائی کا نقشہ بگڑ چکا تھا۔ اور فوج میں بھگدڑ پڑ چکی تھی۔ طرہ یہ ہوا کہ ایک شخص نے دوڑ کر پل کے تختے توڑ دیئے کہ کوئی شخص بھاگ کر جانے نہ پائے۔ لیکن لوگ اس طرح بدحواس ہو کر بھاگتے تھے کہ پل کی طرف راستہ نہ ملا تو دریا میں کود پڑے۔ مثنی نے دوبارہ پل بندھویا اور سواروں کا ایک دستہ بھیجا کہ بھاگتوں کو اطمینان سے پار اتار دے۔ خود بچی کچھی فوج کے ساتھ دشمن کا اگا روک کر کھڑے ہوئے اور اس ثابت قدمی سے لڑے کہ ایرانی جو مسلمانوں کو دباتے آتے تھے رک گئے اور آگے نہ بڑھ سکے۔ تاہم حساب کیا گیا تو معلوم ہوا کہ نو ہزار فوج میں سے صرف تین ہزار رہ گئی۔ اسلام کی تاریخ میں میدان جنگ سے فرار نہایت شاذ و نادر وقوع میں آیا ہے اور اگر کبھی ایسا واقعہ پیش آ بھی گیا تو اس کا عجیب افسوس ناک اثر ہوا ہے۔ اس لڑائی میں جن لوگوں کو یہ ذلت نصیب ہوئی وہ مدت تک خانہ بدوش پھرتے رہے۔ اور شرم سے اپنے گھروں کو نہیں جاتے تھے۔ اکثر رویا کرتے اور لوگوں سے منہ چھپاتے پھرتے تھے۔ مدینہ منورہ میں یہ خبر پہنچی تو ماتم پڑ گیا۔ لوگ مسلمانوں کی بدقسمتی پر افسوس کرتے تھے۔ اور روتے تھے، جو لوگ مدینہ پہنچ کر گھروں میں روپوش تھے، اور شرم سے باہر نہیں نکلتے تھے، حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ان کے پاس جا کر ان کو تسلی دیتے تھے۔ اور کہتے تھے کہ تم او متحیزا الی فئۃ میں داخل ہو۔ لیکن ان کو اس سے تسلی نہیں ہوتی تھی۔

یہ واقعہ (حسب بیان بلاذری) ہفتہ کے دن رمضان 13 ہجری میں واقع ہوا۔ اس لڑائی میں نامور صحابیوں میں سے جو لوگ شہید ہوئے وہ سلیط، ابو زید انصاری، عتبہ و عبد اللہ، پسران قبطی بن قیس، یزید بن قیس الانصاری، ابو امیہ الفرازی وغیرہ تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
واقعہ بویب رمضان 14 ہجری (635 عیسوی)

اس شکست نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو سخت برہم کیا۔ اور نہایت زور شور سے حملہ کی تیاریاں کیں۔ تمام عرب میں خطبا اور نقیب بھیج دیئے جنہوں نے پرجوش تقریروں سے تمام عرب میں ایک آگ لگا دی۔ اور ہر طرف سے عرب کے قبائل امنڈ ائے۔ قبیلہ ازو کا سردار محتف بن سلیم سات سو سواروں کو ساتھ لے کر آیا۔ بنو تمیم کے ہزاروں آدمی حصین بن معبد کے ساتھ آئے۔ حاتم طائی کے بیٹے عدی ایک جمعیت کثیر لے کر پہنچے، اسی طرح قبیلہ رباب جو کنانہ ختم بنو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے بڑے بڑے جھتے اپنے اپنے سرداروں کے ساتھ آئے، یہ جوش یہاں تک پھیلا کہ نمرو تغلب کے سرداروں نے جو مذہباً عیسائی تھے، حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ " آج عرب و عجم کا مقابلہ ہے۔ اس قومی معرکہ میں ہم بھی قوم کے ساتھ ہیں۔ ان دونوں سرداروں کے ساتھ ان کے قبیلے کے ہزاروں آدمی تھے اور عجم کے مقابلہ کے جوش میں لبریز تھے۔

اتفاق سے انہی دنوں انہی دنوں جریر نجلی دربار خلافت میں حاضر ہوا، یہ ایک مشہور سردار تھا اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر درخواست کی تھی کہ اپنے قبیلے کا سردار مقرر کر دیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ درخواست منظور کر لی تھی لیکن تعمیل کی نوبت نہیں آئی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس حاضر ہوا تو انہوں نے عرب کے تمام عمال کے نام احکام بھیج دیئے کہ جہاں جہاں اس قبیلے کے آدمی ہوں، تاریخ معین پر اس کے پاس پہنچ جائیں۔ جریر یہ جمعیت اعظم لے کر دوبارہ مدینہ میں حاضر ہوئے۔

ادھر مثنی نے عراق کے تمام سرحد مقامات پر نقیب بھیج کر ایک بڑی فوج جمع کر لی تھی۔ ایرانی جاسوسوں نے یہ خبریں شاہی دربار میں پہنچائیں۔ پوران دخت نے حکم دیا کہ فوج خاصہ سے بارہ ہزار سوار انتخاب کئے جائیں۔ اور مہران بن مہرویہ ہمدانی افسر مقرر کیا جائے۔ مہران کے انتخاب کی وجہ یہ تھی کہ اس نے خود عرب میں تربیت پائی تھی اور اس وجہ سے وہ عرب کے زور قوت کا اندازہ کر سکتا تھا۔ کوفہ کے قریب بویب نام ایک مقام تھا، اسلامی فوجوں نے یہاں پہنچ کر ڈیرے ڈالے۔ مہران پایہ تخت سے روانہ ہو کر سیدھا بویب پہنچا اور دریائے فرات کو بیچ میں ڈال کر خیمہ زن ہوا۔ صبح ہوتے ہی فرات اتر کر بڑے سر و سامان سے لشکر آرائی شروع کیا۔ مثنی نے نہایت ترتیب سے صف درست کی، فوج کے مختلف حصے کر بڑے بڑے ناموروں کی ماتحتی میں دیئے۔ چنانچہ میمنہ پر مذعور، میسرہ پر لسیر، پیدل پر مسعود، والتیر پر عاصم، گشت کی فوج پر عصمہ کو مقرر کیا۔ لشکر آراستہ ہو چکا تو مثنی نے اس سرے سے اس سرے تک ایک بار چکر لگایا۔ اور ایک ایک علم کے پاس کھڑے ہو کر کہا " بہادرو دیکھنا تمہاری وجہ سے تمام عرب پر بدنامی کا داغ نہ آئے۔"

اسلامی فوج کی لڑائی کا یہ قاعدہ تھا کہ سردار تین دفعہ اللہ اکبر کہتا تھا۔ پہلی تکبیر پر فوج حربہ و ہتھیار سے آراستہ ہو جاتی تھی۔ دوسری تکبیر پر لوگ ہتھیار تول لیتے تھے۔ اور تیسرے نعرہ پر حملہ کر دیا جاتا تھا۔ مثنی نے دوسری تکبیر ابھی نہیں کہی تھی کہ ایرانیوں نے حملہ کر دیا۔ یہ دیکھ کر مسلمان ضبط نہ کرسے اور کچھ لوگ جوش میں آ کر صف سے آگے نکل گئے۔ مثنی نے غصے میں آ کر داڑھی دانتوں میں دبا لی، اور پکارے کہ " خدا کے لئے اسلام کو رسوا نہ کرو" اس آواز کے ساتھ فوراً لوگ پیچھے ہٹے اور جس شخص کی جہاں جگہ تھی وہیں آ کر جم گیا۔ چوتھی تکبیر کہہ کرمثنی نے حملہ کیا۔

عجمی اس طرح گرجتے ہوئے بڑھے کہ تمام میدان گونج اٹھا، مثنی نے فوج کو للکارا کہ گھبرانا نہیں یہ نامردانہ غل ہے۔ عیسائی سرداروں کو جو ساتھ تھے بلا کر کہا کہ تم اگرچہ عیسائی ہو لیکن ہم قوم ہو۔ اور آج قوم کا معاملہ ہے۔ میں مہران پر حملہ کرتا ہوں، تم ساتھ رہنا۔ انہوں نے لبیک کہا، مثنی نے ان سرداروں کو دونوں بازؤں پر لے کر حملہ کیا۔ اور پہلے حملہ میں مہران کا میمنہ توڑ کر قلب میں گھس گئے۔ عجمی دوبارہ سنبھلے اور اس طرح ٹوٹ کر گرے کہ مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے۔ مثنی نے للکارا کہ " مسلمانو! کہاں جاتے ہو، میں یہ کھڑا ہوں۔" اس آواز کے ساتھ سب پلٹ پڑے۔ (الاخبار الطوال ۔۔۔۔ حنیفہ دنیوری (طبری روایت سیف)۔ مثنی نے ان کو سمیٹ کر حملہ کیا۔ عین اس حالت میں مسعود جو مثنی کے بھائی اور مشہور بہادر تھے زخم کھا کر گرے۔ ان کی رکاب کی فوج بیدل ہوا چاہتی تھی، مثنی نے للکارا کہ " مسلمانو! میرا بھائی مارا گیا تو کچھ پروا نہیں۔ شرفا یوں ہی جان دیا کرتے ہیں۔ دیکھو تمہارے علم جھکنے نہ پائیں۔" خود مسعود نے گرتے گرتے کہا کہ " میرے مرنے سے بے دل نہ ہونا۔"

دیر تک بڑی گھمسان کی لڑائی رہی۔ انس بن ہلال جو عیسائی سردار تھا اور بڑی جانبازی سے لڑ رہا تھا زخم کھا کر گرا، مثنی نے خود گھوڑے سے اتر کر اس کو گود میں لیا۔ اور اپنے بھائی مسعود کے برابر لٹا دیا۔ مسلمانوں کی طرف کے بڑے بڑے افسر مارے گئے لیکن مثنی کی ثابت قدمی کی وجہ سے لڑائی کا پلہ اسی طرف بھاری رہا۔ عجم کا قلب خوب جم کر لڑا۔ مگر کُل کا کُل برباد ہو گیا۔ شہر براز جو ایک مشہور افسر تھا۔ قرط کے ہاتھ سے مارا گیا۔، تاہم سپہ سالار مہران ثابت قدم تھا۔ اور بہادری سے تیغ بکف لڑ رہا تھا۔ کہ قبیلہ تغلب کے ایک نوجوان نے تلوار سے اس کا کام تمام کر دیا۔ مہران گھوڑے سے گرا تو نوجوان نے اچھل کر گھوڑے کے پیٹھ پر جا بیٹھا اور فخر کے لہجہ میں پکارا۔ " میں تغلب کا نوجوان ہوں اور رئیس عجم کا قاتل ہوں۔"

مہران کےقتل پر لڑائی کا خاتمہ ہو گیا۔ عجم نہایت ابتری سے بھاگے۔ مثنی نے فوراً پُل کے پاس پہنچ کر رستہ روک لیا کہ عجم بھاگ کر نہ جانے پائیں۔ مؤرخین کا بیان ہے کہ کسی لڑائی نے اس قدر بے شمار لاشیں اپنی یادگار میں نہیں چھوڑیں۔ چنانچہ مدتوں کے بعد جب مسافروں کا ادھر گزر ہوا۔ تو انہوں نے جابجا ہڈیوں کے انبار پائے۔ اس فتح کا ایک خاص اثر یہ ہوا کہ عربوں پر عجم کا جو رعب چھایا ہوا تھا جاتا رہا۔ اس کو یقین ہو گیا کہ اب سلطنت کسریٰ کے اخیر دن آ گئے۔ خود مثنی کا بیان ہے کہ اسلام سے پہلے میں بارہا عجم سے لڑ چکا ہوں۔ اس وقت سو عجمی ہزار عرب پر بھاری تھے۔ لیکن آج ایک عرب دس عجمی پر بھاری ہے۔

اس معرکہ کے بعد مسلمان عراق کے تمام علاقہ میں پھیل پڑے۔

جہاں اب بغداد آباد ہے اس زمانے میں وہاں بہت بڑا بازار لگتا تھا۔ مثنی نے عین بازار کے دن حملہ کیا۔ بازاری جان بچا کر ادھر ادھر بھاگ گئے اور بے شمار نقد اور اسباب ہاتھ آیا، پائے تخت میں یہ خبریں پہنچیں تو سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ " زنانہ حکومت اور آپس کے اختلافات کا یہی نتیجہ ہونا تھا۔" اس وقت پوران دخت کو تخت سے اتار کر یزدگرد کو جو سولہ برس (یہ ابو حنیفہ دینوری کی روایت ہے۔ طبری نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کی عمر بیان کی ہے) کا جوان تھا۔ اور خاندان کسریٰ کا وہی ایک نرینہ یادگار رہ گیا تھا۔ تخت نشین کیا۔ رستم اور فیروز جو سلطنت کے دست بازو تھے، آپس میں عناد رکھتے تھے، درباریوں نے ان سے کہا کہ اب بھی اگر تم دونوں متفق ہو کر کام نہیں کرتے تو ہم خود تمہار فیصلہ کیئے دیتے ہیں۔ غرض یزدگرد کی تخت نشینی کے ساتھ سلطنت میں نئے سرے سے جان آ گئی۔ ملکی اور فوجی افسر جہاں جہاں جس کام پر تھے، مستعد ہو گئے۔ تمام قلعے اور چھاونیاں مستحکم کر دی گئیں۔ عراق کی آبادیاں جو فتح ہو چکی تھیں عجم کا سہارا پا کر وہاں بھی بغاوت پھیل گئی۔ اور تمام مقامات مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو یہ خبریں پہنچیں تو فوراً مثنی کو حکم بھیجا کہ فوجوں کو ہر طرف سے سمیٹ کر عرب کی سرحد کی طرف ہٹ آؤ۔ اور ربیعہ و مضر کے قبائل جو عراق کی حدود میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کو طلبی کا حکم بھیج دو کہ تاریخ معین پر جمع ہو جائیں۔

اس کے ساتھ خود بڑے ساز و سامان سے فوجی تیاریاں شروع کیں۔ ہر طرف نقیب دوڑائے کہ اضلاع عرب میں جہاں جہاں کوئی رئیس، صاحب تدبیر، شاعر، خطیب، اہل الرائے ہو، فوراً دربارِ خلافت میں آئے۔ چونکہ حج کا زمانہ آ چکا تھا۔ خود مکہ معظمہ کو روانہ ہوئے اور حج سے فارغ نہیں ہوئے تھے کہ ہر طرف سے قبائل عرب کا طوفان امنڈ آیا۔ سعد بن ابی وقاص نے تین ہزار آدمی بھیجے۔ جن میں ایک ایک شخص تیغ و علم کا مالک تھا۔ حضر موت، صدف، مذحج، قیس، غیلان کے بڑے بڑے سردار ہزاروں کی جمعیت لے کر آئے۔ مشہور قبائل میں سے یمن کے ہزار، بنو تمیم و رباب کے چار ہزار، بنو اسد کے تین ہزار آدمی تھے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ حج کر کے واپس آئے تو جہاں تک نگاہ جاتی تھی، آدمیوں کا جنگل نظر آتا تھا۔ حکم دیا کہ لشکر نہایت ترتیب سے آراستہ ہو۔ میں خود سپہ سالار بن کر چلوں گا۔ چنانہ ہراول پر طلحہ، میمنہ پر ۔۔۔۔۔۔، میسرہ پر عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہم کو مقرر کیا۔ فوج آراستہ ہو چکی تو حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بلا کر خلافت کے کاروبار سپرد کئے اور خود مدینہ سے نکل کر عراق کی طرف روانہ ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اس مستعدی سے ایک عام جوش پیدا ہو گیا۔ اور سب نے مرنے پر کمریں باندھ لیں۔ صرار جو مدینہ سے تین میل پر ایک چشمہ ہے وہاں پہنچ کر مقام کیا۔ اور اس سفر کی گویا پہلی منزل تھی۔ چونکہ امیر المومنین کا خود معرکہ جنگ میں جانا بعض مصلحتوں کے لحاظ سے مناسب نہ تھا۔ اس لئے صرار میں فوج کو جمع کر کے تمام لوگوں سے رائے طلب کی۔ عوام نے یک زبان ہو کر کہا کہ امیر المومنین! یہ مہم آپ کے بغیر سر نہ ہو گی۔ لیکن بڑے بڑے صحابہ نے جو معاملہ کا نشیب و فراز سمجھتے تھے اس کے خلاف رائے دی۔ عبد الرحمٰن بن عوف نے کہا کہ لڑائی کے دونوں پہلو ہیں۔ اگر خدانخواستہ شکست ہوئی اور آپ کو کچھ صدمہ پہنچا تو پھر اسلام کا خاتمہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کھڑے ہو کر ایک پراثر تقریر کی۔ اور عوام کی طرف خطاب کر کے کہا کہ " میں تمہاری رائے پر عمل کرنا چاہتا تھا۔ لیکن اکابر صحابہ اس رائے سے متفق نہیں" غرض اس پر اتفاق ہو گیا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ خود سپہ سالار بن کر نہ جائیں۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ اور کوئی شخص اس بار گراں کے اٹھانے کے قابل نہیں ملتا۔ ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اور خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ شام کی مہمات میں مصروف تھے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے درخواست کی گئی تو انہوں نے انکار کیا۔ لوگ اسی حیض میں تھے کہ دفعتہً عبد الرحمٰن بن عوف نے اٹھ کر کہا کہ میں نے پا لیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کون؟ بولے کہ "سعد بن ابی وقاص" رضی اللہ تعالٰی عنہ۔

سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ بڑے مرتبہ کے صحابی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماموں تھے۔ ان کی بہادری اور شجاعت بھی مسلم تھی۔ لیکن تدبیر جنگ اور سپہ سالاری کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کی طرف سے اطمینان نہ تھا۔ اس بنأ پر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بھی تردد تھا۔ لیکن جب تمام حاضرین نے عبد الرحمٰن بن عوف کی رائے کی تائید کی، چار و ناچار منظور کیا۔ تاہم احتیاط کے لحاظ سے لشکر کی تمام مہمات قبضہ اختیار میں رکھیں۔ چنانچہ ان معرکوں میں اول سے آخر تک فوج کی نقل و حرکت، حملہ کا بند و بست، لشکر کی ترتیب، فوجوں کی تقسیم وغیرہ کے متعلق ہمیشہ احکام بھیجتے رہتے تھے۔ اور ایک کام بھی ان کی خاص ہدایت کے بغیر انجام نہیں پا سکتا تھا۔ یہاں تک کہ مدینے سے عراق تک کی فوج کی منزلیں بھی خود حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ہی نے نامزد کر دی تھیں۔ چنانچہ مؤرخ طبری نے نام بنام ان کی تصریح کر دی ہے۔

غرض سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ لشکر کا نشان چڑھایا اور مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے۔ 17 – 18 منزلیں طے کر کے ثعلبہ (بلاذری نے ثعلبہ اور طبری نے ژور لکھا ہے۔ یہ دونوں مقامات آپس میں نہایت متصل اور بالکل قریب ہیں) اور یہاں مقام کیا۔ ثعلبہ کوفہ سے تین منزل پر ہے اور پانی کی افراط اور موقع کی خوبی کی وجہ سے یہاں مہینے کے مہینے بازار لگتا تھا۔ تین مہینے یہاں قیام رہا۔ مثنی موضع زی قار میں آٹھ ہزار آدمی لئے پڑے تھے۔ جن میں خاص ۔۔۔۔۔ وائل کے چھ ہزار جوان تھے۔ مثنی کو سعد کی آمد کا انتظار تھا کہ ساتھ ہو کر کوفہ پر بڑھیں۔ لیکن جسر کے معرکے میں جو زخم کھائے تھے بگڑتے گئے اور آخر اسی صدمے سے انتقال کیا۔ سعد نے ثعلبہ سے چل کر مشراف میں ڈیرے ڈالے، یہاں مثنی کے بھائی ان سے آ کر ملے اور مثنی نے جو ضروری مشورے دیئے تھے، سعد سے بیان کئے چونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا حکم تھا کہ فوج کا جہاں پڑاؤ ہو وہاں کے تمام حالات لکھ کر آئیں۔ سعد نیاس مقام کا نقشہ، لشکر کا پھیلاؤ، فرود گاہ کا ڈھنگ، رسد کی کیفیت ان تمام حالات سے ان کو اطلاع دی وہاں سے سے ایک مفصل فرمان آیا۔ جس میں بہت سی ہدایتیں اور فوج کی ترتیب کے قواعد تھے۔ سعد نےان احکام کے موافق پہلے تمام فوج کا جائزہ لیا۔ جو کم و بیش تین ہزار ٹھہری۔ پھر میمنہ و میسرہ کی تقسیم کر کے ہر ایک پر جدا جدا افسر مقر کئے۔ فوج کے جدا جدا حصوں اور ان کے افسروں کی تفصیل طبری کے بیان کے موافق ذیل کے نقشے سے معلوم ہو گی۔

حصہ : ہراول
نام افسر : زہرہ بن عبد اللہ بن قتادہ
مختصر حال : جاہلیت میں یہ بحرین کے بادشاہ تھے۔ رسول اللہ کی خدمت میں اپنی قوم کی طرف سے وکیل ہو کر آئتے تھے اور اسلام لائے تھے۔

حصہ : میمنہ (دایاں حصہ)
نام افسر : عبد اللہ بن المعتصم
مختصر حال : صحابی تھے

حصہ : میسرہ (بایاں حصہ)
نام افسر : شرجیل بن السمط
مختصر حال : نوجوان آدمی تھے، مرتدین کی جنگ میں نہایت شہرت حاصل کی تھی۔

حصہ : ساقہ (پچھلا حصہ)
نام افسر : عاصم بن عمرو التمیمی

حصہ : طلایع (گشت کی فوج)
نام افسر : سود بن مالک

حصہ : مجرد (بے قاعدہ فوج)
نام افسر : سلمان ربیعہ الباہلی

حصہ : پیدل
نام افسر : جمال بن مالک الاسدی

حصہ : شتر سوار
نام افسر : عبد اللہ بن ذی السمین

حصہ : قاضی و خزانچی
نام افسر : عبد اللہ بن ربیعہ الباہلی

حصہ : راید یعنی رسد وغیرہ کا بندوبست کرنے والے
نام افسر : سلمان فارسی رضی اللہ تعالٰی عنہ
مختصر حال : مشہور صحابی ہیں۔ فارس کے رہنے والے تھے۔

حصہ : مترجم
نام افسر : ہلال ہجری

حصہ : منشی
نام افسر : زیاد بن ابی سفیان

حصہ : طبیب (افسوس ہے کہ طبری نے طبیبوں کے نام نہیں لکھے۔ صرف اسی قدر لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فوج کے ساتھ طبیب بھیجے۔)

امرائے اعشار میں ستر وہ صحابہ تھے جو غزوہ بدر میں شریک تھے، تین سو وہ جو بیعت الرضوان میں حاضر تھے۔ اسی قدر وہ بزرگ جو فتح مکہ میں شریک تھے۔ سات سو ایسے تھے جو صحابہ نہ تھے لیکن صحابہ کی اولاد تھے۔

سعد شراف ہی میں تھے کہ دربار خلافت سے ایک اور فرمان آیا جس کا مضمون یہ تھا کہ شراف سے آگے بڑھ کر قادسیہ (کوفہ سے 35 میل پر ایک چھوٹا سا شہر ہے) میں مقام کرو اور اس طرح مورچے جماؤ کہ سامنے عجم کی زمین اور پشت پر عرب کے پہاڑ ہوں، تاکہ فتح ہو تو جہاں تک چاہو بڑھتے جاؤ اور خدانخواستہ دوسری صورت پیش آئے تو ہٹ کر پہاڑوں کی پناہ میں آ سکو۔

قادسیہ نہایت شاداب، نہروں اور پلوں کی وجہ سے محفوظ مقام تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ جاہلیت میں ان مقامات سے اکثر گزرتے تھے۔ اور اس موقع کی ہیئت اور کیفیت سے واقف تھے۔ چنانچہ سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ کو جو فرمان بھیجا، اس میں قادسیہ کا موقع اور محل بھی مذکور تھا۔ تاہم چونکہ پرانا تجربہ تھا۔ سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ کو لکھا کہ قادسیہ پہنچ کر سر زمین کو پورا نقشہ لکھ بھیجو کیونکہ میں نے بعض ضروری باتیں اسی وجہ سے نہیں لکھیں کہ موقعہ اور مقام کے پورے حالات مجھ کو معلوم نہ تھے۔ سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ نہ نہایت تفصیل سے موقع جنگ کی حدود اور حالات لکھ کر بھیجے۔ دربار خلافت سے روانگی کی اجازت آئی۔ چنانچہ سعد شراف سے چل کر عذیب پہنچے۔ یہاں عجمیوں کا میگزین رہا کرتا تھا جو مفت ہاتھ آیا۔ قادسیہ پہنچ کر سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ہر طرف ہرکارے دوڑائے کہ غنیم کی خبریں لائیں۔ انہوں نے آ کر بیان کیا کہ رستم (پسر فرخ زاد) جو آرمینیہ کا رئیس ہے سپہ سالاف مقرر ہوا ہے۔ اور مدائن سے چل کر ساباط میں ٹھہرا ہے۔ سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اطلاع دی۔ وہاں سے جواب آیا کہ لڑائی سے پہلے لوگ سفیر بن کر جائیں اور ان کو اسلام کی رغبت دلائیں۔ سعد نے سرداران قبائل میں سے چودہ نامور اشخاص انتخاب کئے جو مختلف صفتوں کے لحاظ سے تمام عرب میں انتخاب تھے۔ عطارد بن حاجب، اشعث بن قیس، حارث بن حسان، عاصم بن عمر، عمرو بن معدی کرب، مغیرہ بن شعبہ، معنی بن حارثہ قد و قامت اور ظاہری رعب و داب کے لحاظ سے تمام عرب میں مشہور تھے۔ نعمان بن مقرن، اسر بن ابی رہم، حملہ بن جوتیہ، منظلہ الربیع التمیمی، فرات بن حیان العجل، عدی بن سہیل، مغیرہ بن زاراہ، عقل و تدبیر اور حزم و سیاست میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔

ساسانیوں کا پائے تخت قدیم زمانے میں اصطخر تھا۔ لیکن نوشیروان نے مدائن کو دار السلطنت قرار دیا تھا۔ اسی وقت سے وہی پایہ تخت چلا آتا تھا۔ یہ مقام سعد کی فرودگاہ یعنی قادسیہ سے 30 – 40 میل کے فاصلے پر تھا۔ سفرأ گھوڑے اڑاتے ہوئے سیدھے مدائن پہنے۔ راہ میں جدھر سے گزر ہوتا تھا، تماشائیوں کی بھیڑ لگ جاتی تھی۔ یہاں تک کہ آستانہ سلطنت کے قریب پہنچ کر ٹھہرے۔ اگرچہ ان کی ظاہری صورت یہ بھی کہ گھوڑوں پر زین اور ہاتھوں میں ہتھیار تک نہ تھا۔ باہم بیباکی اور دلیری ان کے چہروں سے ٹپکتی تھی اور تماشائیوں پر اس کا اثر پڑتا تھا۔ گھوڑے جو سواری میں تھے رانوں سے نکلے جاتے تھے اور بار بار زمین پر ٹاپ مارتے تھے۔ چنانچہ ٹاپوں کی آواز یزدگرد کے کان تک پہنچی اور اس نے دریافت کیا کہ یہ کیسی آواز ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے سفرأ آئے ہیں۔ یہ سن کر بڑی ساز و سامان سے دربار سجایا اور سفرأ کو طلب کیا۔ یہ لوگ عربی جبے پہنے کاندھوں پر یمنی چادریں ڈالے، ہاتھوں میں لوڑے لئے موزے چڑھائے دربار میں داخل ہوئے۔ پچھلے معرکوں نے تمام ایران میں عرب کی دھاک بٹھا دی تھی۔ یزد گرد نے سفیروں کو اس شان سے دیکھا تو اس پر ہیبت طاری ہو گئی۔

ایرانی عموماً ہر چیز سے فال لینے کے عادی تھے، یزدگرد نے پوچھا کہ عربی میں چادر کو کیا کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ برد (فارسی کے معنی کے لحاظ سے) کہاں " جہاں برد" پھر کوڑے کی عربی پوچھی۔ ان لوگوں نے کہا کہ " سوط" وہ سوخت سمجھا اور بولا کہ " پارس راسوخقند" ان بدفالیوں سے سارا دربار برہم ہوا جاتا تھا۔ لیکن شاہی آداب کے لحاظ سے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔ پھر سوال کیا کہ تم اس ملک میں کیوں آئے ہو؟ نعمان بن مقرن جو سرگروہ تھے جواب دینے کے لیے آگے بڑھے، پہلے مختصر طور پر اسلام کے حالات بیان کئے پھر کہا کہ ہم تمام دنیا کے سامنے دو چیزیں پیش کرتے ہیں۔ جزیہ یا تلوار۔ یزدگرد نے کہا تم کو یاد نہیں کہ تمام دنیا میں تم سے زیادہ ذلیل اور بدبخت کوئی قوم نہ تھی، تم جب کبھی ہم سے سرکشی کرتے تھے تو سرحد کے زمینداروں کو حکم بھیج دیا جاتا تھا اور وہ تمہارا بل نکال دیتے تھے۔

اس پر سب نے سکوت کیا۔ لیکن مغیرہ بن زراہ ضبط نہ کر سکے۔ اٹھ کر کہا کہ " یہ لوگ (اپنے رفیقوں کی طرف اشارہ کر کے) رؤسائے عرب ہیں۔ علم وقار کی وجہ سے زیادہ یاوہ گوئی نہیں کر سکتے۔ انہوں نے جو کچھ کہا یہی زیبا تھا۔ لیکن کہنے کے قابل باتیں رہ گئیں۔ انکو میں بیان کرتا ہوں۔ یہ سچ ہے کہ ہم بدبخت اور گمراہ تھے۔ آپس میں کٹتے مرتے تھے۔ اپنی لڑکیوں کو زندہ گاڑ دیتے تھے۔ لیکن خدائے تعالٰی نے ہم پر ایک پیغمبر بھیجا جو حسب و نسب میں ہم سے ممتاز تھا۔ اول اول ہم نے اس کی مخالفت کی۔ وہ سچ کہتا تھا تو ہم جھٹلاتے تھے۔ وہ آگے بڑھتا تو ہم پیچھے ہٹتے تھے۔ لیکن رفتہ رفتہ ان کی باتوں نے دلوں میں اثر کیا۔ وہ جو کچھ کہتا تھا خدا کے حکم سے کہتا تھا اور جو کچھ کرتا تھا، خدا کے حکم سے کرتا تھا، اس نے ہم کو حکم دیا کہ اس مذہب کو تمام دنیا کے سامنے پیش کرو۔ جو لوگ اسلام لائیں وہ تمام حقوق میں تمہارے برابر ہیں، جن کو اسلام سے انکار ہو، اور جزیہ پر راضی ہوں وہ اسلام کی حمایت میں ہیں۔ جس کو دونوں باتوں سے انکار ہوا، اس کے لیے تلوار ہے۔" یزدگرد غصے سے بیتاب ہو گیا اور کہا کہ اگر قاصدوں کا قتل جائز ہوتا تو تم میں سے کوئی زندہ بچ کر نہ جاتا۔ یہ کہہ کر مٹی کا ٹوکرا منگوایا اور کہا کہ تم میں سب سے معزز کون ہے؟ عاصم بن عمر نے بڑھ کر کہا " میں "۔ ملازموں نے ٹوکرا ان کے سر پر رکھ دیا۔ وہ گھوڑا اڑاتے ہوئے سعد کے پاس پہنچے کہ " فتح مبارک ہو۔ دشمن نے اپنی زمین خود ہم کو دے دی۔"

اس واقعہ کے بعد کئی مہینے تک دونوں طرف سکوت رہا۔ رستم جو سلطنت فارس کی طرف سے اس مہم پر مامور تھا۔ ساباط میں لشکر لئے پڑا تھا۔ اور یزدگرد کی تاکید پر بھی لڑائی کو ٹالتا جاتا تھا۔ ادھر مسلمانوں کا یہ معمول تھا کہ آس پاس کے دیہات پر چڑھ جاتے تھے۔ اور رسد کے لئے مویشی وغیرہ لوٹ لاتے تھے۔ اس عرصہ میں بعض بعض رئیس ادھر سے ادھر آ گئے۔ ان میں جوشن ماہ بھی تھا جو سرحد کی اخبار نویسی پر مامور تھا۔ اس حالت نے طول کھینچا تو رعایا جوق در جوق یزدگرد کے پاس پہنچ کر فریادی ہوئی کہ اب ہماری حفاظت کی جائے ورنہ ہم اہل عرب کے مطیع ہوئے جاتے ہیں۔ چار و ناچار رستم کو مقابلے کے لئے بڑھنا پڑا۔ ساٹھ ہزار کی جمعیت کے ساتھ ساباط سے نکلا اور قادسیہ پہنچ کر ڈیرے ڈالے۔ لیکن فوج جن جن مقامات سے گزری ہر جگہ نہایت بے اعتدالیاں کیں۔ تمام افسر شراب پی کر بدمستیاں کرتے تھے اور لوگوں کے ناموس تک کا لحاظ نہیں رکھتے تھے۔ ان باتوں نے عام ملک میں یہ خیال پھیلا دیا کہ سلطنت عجم اب فنا ہوتی نظر آتی ہے۔

رستم کی فوجیں جس دن ساباط سے بڑھیں، سعد نے ہر طرف جاسوس پھیلا دیئے کہ دم دم کی خبریں بپہنچتی رہیں۔ فوج کا رنگ ڈھنگ، لشکر کشی کی ترتیب، اتارے کا رخ، ان باتوں کے دریافت کے لیے فوجی افسر متعین کئے۔ اس میں کبھی کبھی دشمن کا سامنا بھی ہو جاتا تھا۔ چنانچہ طلحہ ایک دفعہ رات کے وقت رستم کے لشکر میں لباس بدل کر گئے، ایک جگہ بیش بہا گھوڑا تھان پر بندھا دیکھا۔ تلوار سے باگ ڈور کاٹ کر اپنے گھوڑے کی باگ ڈور سے اٹکا لی۔ اس عرصہ میں لوگ جاگ اٹھے اور ان کا تعاقب کیا۔ گھوڑے کا سوار ایک مشہور افسر تھا۔ اور ہزار سوار کے برابر مانا جاتا تھا۔ اس نے قریب پہنچ کر برچھی کا وار کیا۔ انہوں نے خالی دیا۔ وہ زمین پر گرا، انہوں نے جھک کر برچھی ماری کہ سینے کے پار ہو گئی۔ اس کے ساتھ دو سوار تھے۔ ان میں ایک ان کے ہاتھ سے مارا گیا۔ اور دوسرے نے اس شرط پر امان طلب کی کہ میں قیدی بن کر ساتھ چلتا ہوں۔ اتنے میں فوج میں ہل چل پڑ گئی اور لوگ ہر طرف سے ٹوٹ پڑے لیکن طلحہ لڑتے بھڑتے صاف نکل آئے اور ساٹھ ہزار فوج دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی۔ قیدی نے سعد کے سامنے اسلام قبول کیا۔ اور کہا کہ دونوں سوار جو طلحہ کے ہاتھ سے مارے گئے، میرے ابن عم تھے۔ اور ہزار ہزار سوار کے برابر مانے جاتے تھے۔ اسلام کے بعد قیدی کا نام مسلم رکھا گیا اور اس کی وجہ سے دشمن کی فوج کے بہت سے ایسے حالات معلوم ہوئے جو اور کسی طرح معلوم نہیں ہو سکتے تھے، وہ بعد کے تمام معرکوں میں شریک رہا اور ہر موقع پر ثابت قدمی اور جانبازی کے جوہر دکھائے۔ رستم چونکہ لڑنے سے جی چراتا تھا، ایک دفعہ اور صلح کی کوشش کی۔ سعد کے پاس پیغام بھیجا کہ تمہارا کوئی معتمد آدمی آئے تو صلح کے متعلق گفتگو کی جائے۔ سعد نے ربعی بن عامر کو اس خدمت پر مامور کیا۔ وہ عجیب و غریب ہیئت سے چلے۔ عرق گیر کی زرد نائی اور اسی کا ایک ٹکڑا سر سے لپیٹ لیا۔ کمر میں رسی کا پٹکا باندھا اور تلوار کے میان چیتھڑے لپیٹ لئے۔ اس ہیئت کذائی سے گھوڑے پر سوار ہو کر نکلے۔ ادھر ایرانیوں نے بڑے ساز و سامان سے دربار سجایا۔ دیبا کا فرش زرین، گاؤ تکئے، حریر کے پردے، صدر نشیں مرصع، ربعی فرش کے قریب آ کر گھوڑے سے اترے اور باگ ڈور کو گاؤ تکئے سے اٹکا دیا۔

درباری بے پروائی کی ادا سے اگرچہ کچھ نہ بولے۔ تاہم دستور کے موافق ہتھیار رکھوا لینا چاہا۔ انہوں نے کہا میں بلایا آیا ہوں۔ تم کو اس طرح میرا آنا منظور نہیں تو میں الٹا پھر جاتا ہوں۔ درباریوں نے رستم سے عرض کی اس نے اجازت دی۔ یہ نہایت بے پروائی کی ادا سے آہستہ آہستہ تخت کی طرف بڑھے۔ لیکن برچھی جس سے عصا کا کام لیا تھا، اس کی انی کو اس طرح فرش میں چبھوتے جاتے تھے کہ پرتکلف فرش اور قالین جو بچھے ہوئے تھے جابجا سے کٹ پھٹ کر بیکار ہو گئے۔ تخت کے قریب پہنچ کر زمین پر نیزہ مارا، جو فرش کو آرپار کر کے زمین میں گڑ گیا۔ رستم نے پوچھا کہ اس ملک میں کیوں آئے ہو؟ انہوں نے کہا کہ " اس لئے کہ مخلوق کی بجائے خالق کی عبادت کی جائے" رستم نے کہا میں ارکان سلطنت سے مشورہ کر کے جواب دوں گا۔ درباری بار بار ربعی کے پاس آ کر ان کے ہتھیار دیکھتے تھے اور کہتے تھے اسی سامان پر ایران کی فتح کا ارادہ ہے؟ لیکن جب ربعی نے تلوار میان سے نکالی تو آنکھوں میں بجلی سی کوند گئی۔اور جب اس کے کاٹ کی آزمائش کے لئے ڈھالیں پیش کی گئیں تو ربعی نے ان کے ٹکڑے اڑا دیئے۔ ربعی اس وقت چلے آئے لیکن نامہ و پیام کا سلسلہ جاری رہا۔

اخیر سفارت میں مغیرہ گئے۔ اس دن ایرانیوں نے بڑے ٹھاٹھ سے دربار جمایا۔ جس قدر ندیم اور افسر تھے تاج پہن کر کرسیوں پر بیٹھے خیمے میں دیباد سنجاب کا فرش بچھایا گیا۔ اور خدام اور منصب دار قرینے سے دو رویہ پرے جما کر کھڑے ہوئے۔ مغیرہ گھوڑے سے اتر کر سیدھے صدر نشیں کی طرف بڑھے اور رستم کے زانو سے زانوں ملا کر بیٹھ گئے۔ اس گستاخی پر تمام دربار برہم ہو گیا۔ یہاں تک کہ چوبداروں نے بازو پکڑ کر ان کو تخت سے اتار دیا۔ مغیرہ نے افسران دربار کی طرف خطاب کر کے کہا کہ " میں خود نہیں آیا بلکہ تم نے بلایا تھا۔ اس لئے مہمان کے ساتھ یہ سلوک زیبا نہ تھا۔ تمہاری طرح ہم لوگوں میں یہ دستور نہیں کہ ایک شخص خدا بن بیٹھے اور تمام لوگ اس کے آگے بندہ ہو کر گردن جھکائیں۔" مترجم نے جس نام عبود تھا حیرہ کا باشندہ تھا، اس تقریر کا ترجمہ کیا تو سارا دربار متاثر ہوا۔ اور بعض لوگ بول اٹھے کہ ہماری غلطی تھی جو ایسی قوم کو ذلیل سمجھتے تھے۔ رستم بھی شرمندہ ہوا اور ندامت مٹانے کو کہا کہ " یہ نوکروں کی غلطی تھی۔ میرا ایما یا حکم نہ تھا۔" پھر بے تکلفی کے طور پر مغیرہ کے ترکش سے تیر نکالے اور ہاتھ میں لے کر کہا کہ " ان تکلوں سے کیا ہو گا؟" مغیرہ نے کہا کہ " آگ کی لو گو چھوٹی ہے پھر بھی آگ ہے۔" رستم نے ان کی تلوار کا نیام دیکھ کر کہا " کس قدر بوسیدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ " ہاں لیکن تلوار پر باڑھ ابھی رکھی گئی ہے۔" اس نوک جھونک کے بعد معاملے کی بات شروع ہوئی۔ رستم نے سلطنت کی شان و شوکت کا ذکر کر کے اظہار احسان کے طور پر کہا کہ اب بھی واپس چلے جاؤ تو ہم کو کچھ ملال نہیں بلکہ کچھ انعام دلا دیا جائے گا۔ مغیرہ نے تلوار کے قبضے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ " اگر اسلام اور جزیہ منظور نہیں تو اس سے فیصلہ ہو گا۔" رستم غصہ سے بھڑک اٹھا اور کہا کہ آفتاب کی قسم کل تمام عرب کو برباد کروں گا۔ مغیرہ اٹھ کر چلے آئے اور صلح و آشتی کی تمام امیدوں کا خاتمہ ہو گیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
قادسیہ کی جنگ اور فتح

(قادسیہ عراق عرب کا مشہور شہر تھا اور مدائن سبعہ کے وسط میں تھا۔ اب ویران پڑا ہوا ہے۔ ہمارے نقشے میں اس کو شہر مدائن کے متصل سمجھنا چاہیے۔)
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top