"الفاروق " از شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی رحمتہ اللہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
متاخرین کا دور​

پانچویں صدی کے آغاز سے متاخرین کا دور شروع ہوتا ہے۔ جو فن تاریخ کے تنزل کا پہلا قدم ہے۔ متاخرین میں اگرچہ بیشمار مؤرخ گزرے جن میں سے ابن اثیر، سمعانی ذہبی ابو الغداء، نویری اور سیوطی وغیرہ نے نہایت شہرت حاصل کی۔ لیکن افسوس ہے کہ ان لوگوں نے تاریخ کے ساتھ ساتھ من حیث الفن کوئی احسان نہیں کیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
قدماء کی خصوصیتیں

متاخرین نے قدماء کی جو خصوصیات تھیں، کھو دیں اور خود کوئی نئی بات پیدا نہیں کی۔ مثلاً قدماء کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ ہر تصنیف نئی معلومات پر مشتمل ہوتی تھی۔ متاخرین نے یہ طرز اختیار کیا کہ کوئی قدیم تصنیف سامنے رکھ لی اور بغیر اس کے کہ اس پر کچھ اضافہ کر سکیں تغیر اور اختصار کے ساتھ اس کا قالب بدل دیا۔ تاریخ ابن الاثیر کو علامہ ابن خلکان نے من خیار التواریخ کہا ہے اور حقیقت میں اس کی قبولیت عام نے تصحیفیں ناپید کر دیں۔ زمانہ کا اشتراک ہے ایک بات بھی اس میں طبری سے زیادہ نہیں مل سکتی، اسی طرح ابن الاثیر کے بعد جو لوگ پیدا ہوئے انہوں نے اپنی تصنیف کا مدار صرف ابن الاثیر پر رکھا۔ وھلم جراً اس سے بڑھ کر یہ کہ متاخرین نے قدماء کی کتابوں کا جو اختصار کیا۔ اس طرح کیا کہ جہاں جو بات چھوڑ دی وہی اس تمام واقعہ کی روح تھی۔ چنانچہ ہماری کتاب کے دوسرے حصے میں اس کی بہت مثالیں آئیں گی۔

قدماء میں ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ تمام واقعات کو حدیث کی طرح بسند متصل نقل کرتے تھے، متاخرین نے یہ التزام بالکل چھوڑ دیا۔ ایک اور خصوصیت قدماء میں یہ تھی کہ وہ اگرچہ کسی عہد کی معاشرت و تمدن پر جدا عنوان نہیں قائم کرتے تھے۔ لیکن ضمناً ان جزئیات کولکھ جاتے تھے جن سے تمدن و معاشرت کا کچھ کچھ پتہ چلتا تھا۔ متاخرین نے یہ خصوصیت بھی قائم نہ رکھی۔

لیکن اس عام نکتہ چینی میں ابن خلدون کا نام شامل نہیں ہے۔ اس نے فلسفہ تاریخ کا فن ایجاد کیا۔ اور اس پر نہ صرف متاخرین بلکہ مسلمانوں کی کل قوم ناز کر سکتی ہے۔ اسی طرح اس کا شاگرد علامہ مقریزی بھی نکتہ چینی کی بجائے مدح و ستائش کا مستحق ہے۔

بحر حال الفاروق کی تالیف کے لیے جو سرمایہ کام آ سکتا تھا وہ یہی قدماء کی تصنیفات تھیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ تاریخ و تذکرے کے فن نے جو آج ترقی کی ہے۔ اس کے لحاظ سے یہ بے بہا خزانے بھی چنداں کارآمد نہیں۔ اس اجمال کی تفصیل سمجھنے کے لئے پہلے یہ جاننا چاہیے کہ فن تاریخ کی ماہیت اور حقیقت کیا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
تاریخ کی تعریف

تاریخ کی تعریف ایک بڑے مصنف نے یہ کی ہے کہ فطرت کے واقعات نے انسان کے حالات میں جو تغیرات پیدا کئے ہیں اور انسان نے عالم فطرت پر جو اثر ڈالا ہے، ان دونوں کے مجموعہ کا نام تاریخ ہے۔ ایک اور حکیم نے یہ تعریف کی ہے ان حالات اور واقعات ۔۔۔۔ کا پتہ لگانا جن سے یہ دریافت ہو کہ موجودہ زمانہ گزشتہ زمانے سے کیونکر بطور نتیجہ کے پیدا ہو گیا ہے۔ یعنی چونکہ یہ مسلم ہے کہ آج دنیا میں جو تمدن، معاشرت، خیالات اور مذاہب موجود ہیں، سب گزشتہ واقعات کے نتائج ہیں جو خواہ مخواہ ان سے پیدا ہونے چاہیے تھے۔ اس لئے ان گزشتہ واقعات کا پتہ لگانا اور ان کو اس طرح ترتیب دیان جس سے ظاہر ہو کہ موجودہ واقعہ گزشتہ واقعات سے کیونکر پیدا ہوا۔ اسی کا نام تاریخ ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
تاریخ کے لیے کیا کیا چیزیں لازم ہیں​

ان تعریفات کی بناء پر تاریخ کے لئے دو باتیں لازم ہیں۔

ایک یہ کہ جس عہد کا حال لکھا جائے اس زمانے کے ہر قسم کے واقعات قلم بند کئے جائیں، یعنی تمدن، معاشرت، اخلاق، عادات، مذہت ہر چیز کے متعلق معلومات کا سرمایہ مہیا کیا جائے۔

دوسرے یہ کہ تمام واقعات میں سبب اور مسبب کا سلسلہ تلاش کیا جائے۔
 

شمشاد

لائبریرین
قدیم تاریخوں کے نقص اور ان کے اسباب​

قدیم تاریخوں میں یہ دونوں چیزیں مفقود ہیں، رعایا کے اخلاق و عادات اور تمدن و معاشرت کا تو سرے سے ذکر ہی نہیں آتا، فرمانروائے وقت کے حالات ہوتے ہیں۔ لیکن ان میں بھی فتوحات اور خانہ جنگیوں کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ یہ نقص اسلامی تاریخوں تک ہی محدود نہیں بلکہ ایشائی تاریخوں کا یہی انداز تھا اور ایسا ہونا مقتضائے انصاف تھا، ایشا میں ہمیشہ شخصی سلطنتوں کو رواج رہا۔ اور فرمانروائے وقت کی عظمت و اقتدار کے آگے تمام چیزیں ہیچ ہوتی تھیں اس کا لازمی اثر یہ تھا کہ تاریخ کے صفحوں میں شاہی عظمت و جلال کے سوا اور کسی چیز کا ذکر نہیں آیا ۔ اور چونکہ اس زمانے میں قانون اور قاعدہ جو کچھ تھا،بادشاہ کی زبان تھی ۔ اس لیے سلطنت کے اصول اور آئین کا بیان کرنا بے فائدہ تھا ۔

واقعات میں سلسلہ اسباب پر توجہ نہ کرنے کا بڑا سبب یہ ہوا کہ فن تاریخ ہمیشہ ان لوگوں کے ہاتھ میں رہا جو فلسفہ اور عقلیات سے آشنا نہ تھے ۔ اس لیے فلسفہ تاریخ کے اصول و نتائج پر ان کی نظر نہیں پڑ سکتی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ احادیث و سیر میں روایات کا پلہ ہمیشہ درایت سے بھاری رہا ۔ بلکہ انصاف یہ ہے کہ درایت سے جس قدر کام لیا گیا نہ لیے جانے کے برابر تھا ۔ آخر میں ابن خلدون نے فلسفہ تاریخ کی بنیاد ڈالی اور اس کے اصول و آئین منضبط کئے، لیکن اس کو صرف اس قدر فرصت ملی کہ اپنی تاریخ میں ان اصولوں سے کام لے سکتا ۔ اس کے بعد مسلمانوں میں علمی تنزل کا ایسا سلسلہ قائم رہا کہ کسی نے پھر اس طرف خیال بھی نہ کیا ۔

ایک بڑا سبب جس کی وجہ سے تاریخ کا فن نہ صرف مسلمانوں میں بلکہ تمام قوموں میں ناتمام رہا۔ یہ ہے کہ تاریخ میں جو واقعات مذکور ہوتے ہیں ان کو مختلف فنون سے رابطہ ہوتا ہے۔ مثلاً لڑائی کے واقعات فن حرب سے، انتظامی امور قانون سے، اخلاقی تذکرے عل اخلاق سے تعلق رکھتے ہیں۔ مؤرخ اگر ان تمام امور کا ماہر ہو تو واقعات کو علمی حیثیت سے دیکھ سکتا ہے ورنہ اس کی نظر اسی قسم کی سرسری اور سطحی ہو گی۔ جیسی کہ ایک عامی کی ہو سکتی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ اگر کسی عمدہ عمارت پر ایک ایسے واقعہ نگار انشاء پرداز کا گزر ہو جو انجینئری کے فن سے ناواقف ہے تو گو وہ اس عمارت کا بیان ایسے دلکش پیرایہ میں کر دے گا جس سے عمارت کی رفعت اور وسعت اور ظاہری حسن و خوبی کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جائے۔ لیکن اگر اس میں خاص انجینئری کے علمی اصول اور اس کی باریکیاں ڈھونڈی جائیں تو نہ مل سکیں گی۔ یہی سبب ہے کہ تاریخوں میں حالات جنگ کے ہزاروں صفحے پڑھ کر بھی فن جنگ کے اصول پر کوئی معتدبہ اطلاع نہیں حاصل ہوتی۔

انتظامی امور کے ذکر میں قانونی حیثیت کا اسی وجہ سے پتہ نہیں لگتا کہ مؤرخین خود قانون دان نہ تھے، اگر خوش قسمتی سے تاریخ کا فن ان لوگوں کے ہاتھ میں رہا ہوتا۔ جو تاریخ کے ساتھ فن جنگ، اصول قانون، اصول سیاست اور علم اخلاق سے بھی آشنا ہوتے تو آج یہ فن کہاں سے کہاں تک پہنچا ہوتا۔

یہ بحث اس لحاظ سے تھی کہ قدیم تاریخوں میں تمام ضروری واقعات مذکور نہیں ہوتے۔ اور جس قدر ہوتے ہیں ان میں اسباب و علل کا سلسلہ نہیں ملتا، لیکن ان کے علاوہ ایک اور ضروری بحث ہے، وہ یہ کہ جو واقعات مذکور ہیں خود ان کی صحت پر کہاں تک اعتبار ہو سکتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
واقعات کی صحت کا معیار

واقعات کے جانچنے کے صرف دو طریقے ہیں۔

روایت و درایت – روایت سے یہ مراد ہے کہ جو واقعہ بیان کیا جائے اس شخص کے ذریعے سے بیان کیا جائے جو خود اس واقعہ میں موجود تھا۔ اس اس سے لے کر اخیر راوی تک روایت کا سلسلہ بہ سند متصل بیان کیا جائے۔ اس کے ساتھ تمام راویوں کی نسبت تحقیق کیا جائے کہ وہ صحیح الراویہ اور ضابطہ تھے یا نہیں۔

درایت سے یہ مراد کے کہ اصول عقلی سے واقعہ کی تنقید جائے۔
 

شمشاد

لائبریرین
روایت

اس امر پر مسلمان بے شبہ فخر کر سکتے ہیں کہ روایت کے فن کے ساتھ انہوں نے جس قدر اعتنا کیا کسی قوم نے کبھی نہیں کیا تھا۔ انہوں نے ہر قسم کی روایتوں میں مسلسل سند کی جستجو کی اور راویوں کے حالات اس تفحص اور تلاش سے بہم پہنچائے کہ اس کو ایک مستقل فن بنا دیا جو فن رجال کے نام سے مشہور ہے۔ یہ توجہ اور اہتمام اگرچہ اصل میں احادیث نبوی کے لئے شروع ہوا تھا۔ لیکن فن تاریخ بھی اس فیض سے محروم نہ رہا۔ طبری، فتوح البلدان، طبقات ابن سعد وغیرہ میں تمام واقعات بسند متصل مذکور ہیں۔ یورپ نے فن تاریخ کو آج کمال درجہ پر پہنچا دیا ہے۔ لیکن اس خاص امر میں وہ مسلمان مؤرخوں سے بہت پیچھے ہیں۔ ان کو واقعہ نگار کے ثقہ اور غیر ثقہ ہونے کی کچھ پرواہ نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ وہ جرح و تعدیل کے نام سے بھی آشنا نہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
درایت

درایت کے اصول بھی اگرچہ موجود تھے۔ چنانچہ ابن حزم، ابن القیم، خطابی ابن عبد البر (ابن عبد البر قرطبی المتوفی 463 ھ) نے متعدد روایتوں کی تنقید میں ان اصولوں سے کام لیا ہے۔ لیکن انصاف یہ ہے کہ اس فن کو جس قدر ترقی ہونی چاہیے تھی نہیں ہوئی۔ اور تاریخ میں تو اس سے بالکل کام نہیں لیا گیا۔ البتہ علامہ ابن خلدون نے جو آٹھویں صدی ہجری میں گزرا ہے، جب فلسفۂ تاریخ کی بنیاد ڈالی تو درایت کے اصول نہایت نکتہ سنجی اور باریک بینی کے ساتھ مرتب کئے۔ چنانچہ اپنی کتاب کے دیباچہ میں لکھتا ہے :

ان الاخبار اذا اعتمد فیھا علی مجرد النقل لم تحکم اصول العادۃ و قواعد السیاسۃ و طبیعۃ العمر ان و الا حوال فی الاجتماع الانسانی و لا قیس الغائب منھا بالشاھدو الحاضر بالذاھب فیھا لم یؤمن فیھا من العثور۔

"خبروں میں اگر صرف روایت پر اعتبار کر لیا جائے اور عادات کے اصول اور سیاست کے قواعد اور انسانی سوسائٹی کے اقتضا کا لحاظ اچھی طرح نہ کیا جائے اور غائب کو حاضر پر، اور حال کو گزشتہ پر نہ قیاس کیا جائے تو اکثر لغزش ہو گی۔"

علامہ موصوف نے تصریح کی ہے کہ واقعہ کی تحقیق کے لئے صرف راویوں کی جرح و تعدیل سے بحث نہیں کرنی چاہیے۔ بلکہ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ واقعہ فی نفسہ ممکن بھی ہے یا نہیں۔ کیونکہ اگر واقعہ کا ہونا ممکن ہی نہیں تو راوی کا عادل ہونا بیکار ہے۔ علامہ موصوف نے یہ بھی ظاہر کر دیا ہے کہ موقعوں میں امکان سے امکان عقلی مراد نہیں بلکہ اصول عادت اور قواعد تمدن کی رو سے ممکن ہونا مراد ہے۔

اب ہم کو یہ دیکھنا ہے کہ جو نقص قدیم تاریخوں کے متعلق بیان کئے گئے ان کی آج کہاں تک تلافی کی جا سکتی ہے۔ یعنی ہم اپنی کتاب (الفاروق) میں کس حد تک اس کمی کو پورا کر سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ امر بالکل صحیح ہے کہ جو کتابیں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حالات میں مستقل حیثیت سے لکھی گئی ہیں ان میں ہر قسم کے ضروری واقعات نہیں ملتے۔ لیکن اور قسم کے تصنیفوں سے ایک حد تک اس کی تلافی ہو سکتی ہے۔ مثلاً " الاحکام السلطانیہ" لابن الوردی مقدمہ ابن خلدون و کتاب الخراج سے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے طریق حکومت اور آئین انتظام کے متعلق بہت سی باتیں معلوم ہو سکتی ہیں۔ اخبار القضاۃ لمحمد بن خلف الوقیع سے خاص صیغہ قضا کے متعلق ان کا طریق معلوم ہوتا ہے۔ کتاب الاوائل لابی ہلال العسکری و محاسن الوسائل الی الاخبار الاوائل میں ان کی اولیات کی تفصیل ہے۔ عقد الفرید و کتاب البیان والمتبیین للجاحظ میں ان کے خطبے منقول ہیں۔ کتاب العمدۃ لابن رشیق القیر دانی سے ان کا شاعرانہ مذاق معلوم ہوتا ہے۔ میدائنی " کتاب الامثال " میں ان کے حکیمانہ مقولے نقل کئے ہیں۔ ابن جوزی نے " سیرۃ العمرین " میں ان کے اخلاق و عادات کو تفصیل سے لکھا ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے ازالۃ الخفاء میں ان کے فقہ اور اجتہاد پر اس مجتہدانہ طریقے سے بحث کی ہے کہ اس سے زیادہ ممکن نہیں۔ (ان تصنیفات میں سے کتاب الاوائل اور کتاب العمدۃ کا قلمی نسخہ میرے کتب خانہ میں موجود ہے۔ سیرۃ العمرین، اخبار القضاۃ اور محاسن الوسائل کے نسخے قسطنطنیہ کے کتب خانہ میں موجود ہیں اور میں نے ان سے ضروری عبارتیں نقل کر لی تھیں۔ باقی کتابیں چھپ گئی ہیں۔ اور میرے پاس موجود ہیں)۔

یہ تمام تصنیفات میرے پیش نظر ہیں اور میں نے ان سے فائدہ اُٹھایا ہے ریاض الضرۃ للمحب الطبری میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حالات تفصیل سے ملتے ہیں اور شاہ ولی اللہ صاحب نے اسی کتاب کو اپنا ماخذ قرار دیا ہے۔لیکن اس میں نہایت کثرت سے مو ضوع اور ضعیف روایتیں مذکور ہیں ۔ اس لیے میں نے دانستہ اس سے احتراز کیا۔

واقعات کی تحقیق و تنقید کے لیے درایت کے اصول سے بہت بڑی مدد مل سکتی ہے۔ درایت کا فن ایک مستقل فن بن گیا ہے۔ اور اس کے اصول و قاعدے نہایت خوبی سے منضبط ہو گئے ہیں۔ ان میں سے جو اصول ہمارے کام آ سکتے ہیں حسب ذیل ہیں۔

(1) واقعہ مذکور اصول عادت کی رو سے ممکن ہے یا نہیں؟

(2) اس زمانے میں لوگوں کا میلان عام واقعہ کے مخالف تھا یا موافق؟

(3) واقعہ اگر کسی حد تک غیر معمولی ہے تو اسی نسبت سے ثبوت کی شہادت زیادہ قوی ہے یا نہیں؟

(4) اس امر کی تفتیش کہ راوی جس چیز کو واقعہ ظاہر کرتا ہے اس میں اس کی قیاس و رائے کا کس قدر حصہ شامل ہے؟

(5) راوی نے واقعہ کو جس صورت میں ظاہر کیا وہ واقعہ کی پوری تصویر ہے یا اس امر کا احتمال ہے کہ راوی اس کے ہر پہلو پر نظر نہیں ڈال سکا۔ اور واقعہ کی تمام خصوصیتیں نظر میں نہ آ سکیں۔

(6) اس بات کا اندازہ کہ زمانے کے امتداد اور مختلف راویوں کے طریقہ ادا نے روایت میں کیا کیا اور کس کس قسم کے تغیرات پیدا کر دیئے ہیں۔

ان اصولوں کی صحت سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا۔ اور ان کے ذریعے سے بہت سے مخفی راز معلوم ہو سکتے ہیں۔ مثلاً آج جس قدر تاریخیں متداول ہیں، ان میں غیر قوموں کی نسبت حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نہایت سخت احکام منقول ہیں۔ لیکن جب اس بات پر لحاظ کیا جائے کہ یہ اس زمانے کی تصحیفیں ہیں جب اسلامی گروہ میں تعصب کا مذاق پیدا ہو گیا تھا اور اسی کے ساتھ قدیم زمانہ کی تصنیفات پر نظر ڈالی جائے جن میں اس قسم کے واقعات بالکل نہیں یا بہت کم ہیں۔ تو صاف معلوم ہوتا ہےکہ جس قدر تعصب آتا گیا اسی قدر روایتیں خود بخود تعصب کے سانچے میں ڈھلتی گئی ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
اصول درایت سے جن امور کا پتہ لگ سکتا ہے

تمام تاریخوں میں مذکور ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حکم دیا تھا کہ عیسائی کسی وقت اور کبھی ناقوس نہ بجانے پائیں۔ لیکن قدیم کتابوں (کتاب الخراج طبری وغیرہ) میں اصول درایت سے جن امور کا پتہ لگ سکتا ہے یہ روایت اس قید کے ساتھ منقول ہے کی جس وقت مسلمان نماز پڑھتے ہوں اس وقت عیسائی ناقوس نہ بجائیں۔ ابن الاثیر وغیرہ نے لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حکم دیا تھا کہ قبیلہ تغلب کے عیسائی اپنے بچوں کو اصطباغ نہ دینے پائیں۔ لیکن یہی روایت " تاریخ طبری" میں ان الفاظ سے مذکور ہے کہ " جو لوگ اسلام قبول کر چکے ہوں ان کے بچوں کو زبردستی اصطباغ نہ دیا جائے۔"

یا مثلاً بہت سی تاریخوں میں یہ تصریح ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تحقیر و تذلیل کے لیے عیسائیوں کو خاص لباس پر مجبور کیا تھا۔ لیکن زیادہ تدقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ صرف اس قدر ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عیسائیوں کو ایک خاص لباس اختیار کرنے کی ہدایت کی تھی۔ تحقیر کا خیال راوی کا قیاس ہے۔ چنانچہ اس کی مفصل بحث آگے آئے گی۔

یا مثلاً وہ روایتیں جو تاریخی ہونے کے ساتھ مذہبی حیثیت بھی رکھتی ہیں۔ ان میں یہ خصوصیت صاف محسوس ہوتی ہے کہ جس قدر ان میں تنقید ہوتی گئی ہے اسی قدر مشتبہ اور مشکوک باتیں کم ہوتی گئی ہیں۔ فدک، قرطاس، سقیفہ بنی ساعدہ کے واقعات ابن عساکر، ابن سعد، بیہقی، مسلم، بخاری سب نے نقل کئے ہیں۔ لیکن جس قدر ان بزرگوں کے اصول اور شدت احتیاط میں فرق مراتب ہے۔ اسی نسبت سے روایتوں میں مشتبہ اور نزاع انگیز الفاظ کم ہوتے گئے۔ یہاں تک کہ خود مسلم و بخاری میں فرق مراتب کا یہ اثر موجود ہے۔ چنانچہ اس کا بیان ایک مناسب موقع پر تفصیل سے آئے گا۔

ان ہی اصول عقلی کی بناء پر مختلف قسم کے واقعات میں صحت و اعتبار کے مدارج بھی مختلف قائم کرنے ہوں گے۔ مثلا یہ مسلم ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خلافت کے واقعات سو برس کے بعد تحریر میں آئے اور اس بنا پر یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ معرکوں اور لڑائیوں کی نہایت جزئی تفصیلیں مثلا صف آرائی کی کیفیت فریقین کے سوال و جواب، ایک ایک بہادر کی معرکہ آرائی، پہلوانوں کے داؤ پیچ اس قسم کی جزئیات کی تفصیل کا رتبہ یقین تک نہیں پہنچ سکتا۔ لیکن انتظامی امور اور قواعد حکومت چونکہ مدت تک محسوس صورت میں موجود رہے۔ اس لیے ان کی نسبت جو واقعات منقول ہیں وہ بے شبہ یقین کے لائق ہیں۔ اکبر نے ہندوستان میں جو آئین اور قاعدے جاری کئے۔ ایک ایک بچہ ان سے واقف ہے۔ اور انکی نسبت شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ جس کی یہ وجہ نہیں کہ حدیث کی طرح اس کے لئے قطعی روایتیں موجود ہیں۔ بلکہ اس لئے کہ وہ انتظامات مدت تک قائم رہے۔ اور اکبر کے نام سے ان کو شہرت تھی۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے خطبے اور حکمت آمیز مقولے جو منقول ہیں ان کی نسبت یہ قیاس کرنا چاہیے کہ جو فقرے زیادہ تر پراثر اور فصیح و بلیغ ہیں وہ ضرور صحیح ہیں۔ کیونکہ ایک فصیح مقرر کے وہ فقرے ضرور محفوظ رہ جاتے ہیں اور ان کا مدت تک چرچا رہتا ہے۔ جن میں کوئی خاص قدرت اور اثر ہوتا ہے۔ اسی طرح خطبوں کے وہ جملے ضرور قابل اعتماد ہیں جن میں احکام شرعیہ کا بیان ہے۔ کیونکہ اس قسم کی باتوں کو لوگ فقہ کی حیثیت سے محفوظ رکھتے ہیں۔

جو واقعات اس زمانے کے مذاق کے لحاظ سے چنداں قابل ذکر نہ تھے اور باوجود اس کے ان کا ذکر آ جاتا ہے، ان کی نسبت سمجھنا چاہیے کہ اصل واقعہ اس سے زیادہ ہو گا۔ مثلاً ہمارے مؤرخین رزم بزم کی معرکہ آرائیوں اور رنگینیوں کے مقابلے میں انتظامی امور کے بیان کرنے کے بالکل عادی نہیں ہیں۔ باایں ہمہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حال میں عدالت، پولیس، بندوبست، مردم شماری وغیرہ کا ضمناً جو ذکر آ جاتا ہے اس کی نسبت یہ خیال کرنا چاہیے کہ جس قدر قلمبند ہوا اس سے بہت زیادہ چھوڑ دیا گیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زہد و تقشف، سخت مزاجی اور سخت گیری کی نسبت سینکڑوں روایتیں مذکور ہیں۔ اور بے شبہ اور صحابہ کی نسبت یہ اوصاف ان میں زیادہ تھے لیکن اس کے متعلق تمام روایتوں کو صحیح نہیں خیال کرنا چاہیے۔ جو حلیتہ الاولیاء ابن عساکر، کنز العمال، ریاض النضرۃ وغیرہ میں مذکور ہیں۔ بلکہ یہ سمجھنا چاہیے کہ چونکہ اس قسم کی روایتیں عموماً گرمی محفل کا سبب ہوتی تھیں۔ اور عوام ان کو نہایت ذوق سے سنتے تھے۔ اس لئے خود بخود ان میں مبالغہ کا رنگ آتا گیا ہے۔ اس کی تصدیق اس سے ہوتی ہے کہ جو کتابیں زیادہ مستند اور معتبر ہیں ان میں یہ روایتیں بہت کم پائی جاتی ہیں۔ اسی لئے میں نے اس قسم کی جو روایتیں اپنی کتاب میں نقل کی ہیں ان میں بڑی احتیاط کی ہے اور " ریاض الضرہ" و ابن عساکر و حلیۃ الاولیاء وغیرہ کی روایتوں کو بالکل نظر انداز کیا ہے۔

اخیر میں طرز تحریر کے متعلق کچھ لکھنا بھی ضروری ہے۔ آج کل کی اعلٰی درجہ کی تاریخیں جنہوں نے قبول عام حاصل کیا ہے۔ فلسفہ اور انشاء پردازی سے مرکب ہیں۔ اور اس طرز سے بڑھ کر اور کوئی طرز مقبول عام نہیں ہو سکتا۔ لیکن درحقیقت تاریخ اور انشاء پردازی کی حدیں بالکل جدا جدا ہیں۔ ان دونوں میں جو فرق ہے وہ نقشہ اور تصویر کی فرق سے مشابہ ہے۔ نقشہ کھینچنے والے کا یہ کام ہے کسی حصہ زمین کا نقشہ کھنچے تو نہایت دریدہ ریزی کے ساتھ اس کی ہیئت، شکل، سمت، جہت، اطراف، اضلاع ایک ایک چیز کا احاطہ کرے۔ بخلاف اس ے مصور صرف ان خصوصیتوں کو لے گا یا ان کو زیادہ نمایاں صورت میں دکھلائے گا جن میں کوئی خاص اعجوبگی ہے۔ اور جن سے انسان کی قوت مضحکہ پر اثر پڑتا ہے۔ مثلاً رستم و سہرات کی داستان کو ایک مؤرخ لکھے گا تو سادہ طور پر واقعہ کی تمام جزئیات بیان کر دے گا۔ لیکن ایک انشاء پرداز ان جزئیات کو اس طرح ادا کرے گا کہ سہراب کی مظلومی و بیکسی اور رستم کی ندامت و حسرت کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جائے اور واقعہ کے دیگر جزئیات باوجود سامنے ہونے کے نظر نہ آئیں۔

مؤرخ کا اصلی فرض یہ ہے کہ وہ سارا واقعہ نگاری کی حد سے تجاوز نہ کرنے پائے۔ یورپ میں آج کل جو بڑا مؤرخ گزرا ہے اور جو طرز حال کا موجود ہے رینگی ہے، اس کی تعریف ایک پروفیسر نے ان الفاظ میں کی ہے۔

" اس نے تاریخ میں شاعری سے کام نہیں لیا۔ وہ نہ ملک کا ہمدرد بنا نہ مذہت اور قوم کا طرفدار ہوا۔ کسی واقعہ کے بیان کرنے میں مطلق پتہ نہیں لگتا کہ وہ کن باتوں سے خوش ہوتا ہےاور اس کی ذاتی اعتقاد کیا ہے۔"

یہ امر بھی جتا دینا ضروری ہے کہ اگرچہ میں نے واقعات میں اسباب و علل کے سلسلے پیدا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس باب میں یورپ کی بے اعتدالی سے احتراز کیا ہے۔ اسباب و علل کے سلسلے پیدا کرنے کے لیے اکثر جگہ قیاس سے کام لینا پڑتا ہے۔ اس لئے مؤرخ کو اجتہاد اور قیاس سے چارہ نہیں۔ لیکن یہ اس کا لازمی فرض ہے کہ وہ قیاس اور اجتہاد کو واقعہ میں اس قدر مخلوط نہ کر دے کہ کوئی شخص دونوں کو الگ کرنا چاہے تو نہ کر سکے۔

اہل یورپ کا عام طرز یہ ہے کہ وہ واقعہ کو اپنے اجتہاد کے موافق کرنے کے لئے ایسی ترتیب اور انداز سے لکھتے ہیں کہ وہ واقعہ بالکل ان کے اجتہاد کے قالب میں ڈھل جاتا ہے اور کوئی شخص قیاس اور اجتہاد کو واقعہ سے الگ نہیں کر سکتا۔

اس کتاب کی ترتیب اور اصول تحریر کے متعلق چند امور لحاظ رکھنے کے قابل ہیں۔

  1. بعض واقعات مختلف حیثیتیں رکھتے ہیں اور مختلف عنوانوں کے تحت آ سکتے ہیں۔ اس لئے اس قسم کے واقعات کتاب میں مکرر آ گئے ہیں اور ایسا ہونا ضروری تھا۔ لیکن یہ التزام رکھا گیا ہے کہ جس خاص عنوان کے نیچے وہ واقعہ لکھا گیا ہے وہاں اس عنوان کی حیثیت زیادہ تر دکھائی گئی ہے

  2. کتابوں کا حوالہ زیادہ تر انہیں واقعات میں دیا گیا ہے جو کسی حیثیت سے قابل تحقیق تھے اور کوئی خاص خصوصیت رکھتے تھے۔

  3. جو کتابیں روایت کی حیثیت سے کم رتبہ مثلاً ازالتہ الخفاء و ریاض النضرۃ وغیرہ ان کا جہاں حوالہ دیا ہے اس بناء پر دیا ہے کہ خاص روایت کی تصدیق اور معتبر کتابوں سے کر لی گئی ہے۔ غرض کئی برس کی سعی و محنت اور تلاش و تحقیق کا جو نتیجہ ہے وہ قوم کے سامنے ہے۔
من کہ یک چند زدم مہر خموشی برلب
کس چہ داند کہ دریں پردہ چہ سودا کردم

پیکرے تازہ کہ خواہم بہ عزیزاں بنمود
لختے ازذوق خودش نیز تماشا کردم

محفل ازبادہ دوشینہ نیاسودہ ہنوذ
بادہ تندتر از دوش بہ مینا کردم

باز خواہم کہ دمم درتن اندیشہ رداں
من کہ دریوزہ فیض ازدم عیسیٰ کردم

ہم نشیں نکتہ حکمت ز شریعت می جست
لختے از نسخہ روح القدس املا کردم

شاہد راز کہ کس پردہ ز رویش نگرفت
گرہ ازبند قبایش بہ فسوں وا کردم!

بشکہ ہر بار گہر بار گذشتم زیں راہ
دست معنی ہمہ پر لولوے لالہ کردم​
 

شمشاد

لائبریرین
نام و نسب – سن رشد و تربیت

سلسلہ نسب یہ ہے کہ عمر بن خطاب بن نفیل بن عبد العزی بن رباح بن عبد اللہ بن قرط بن زراع بن عدی بن کعب بن لوی بن فہر بن مالک۔

اہل عرب عموماً عدنان یا قحطان کی اولاد ہیں۔ عدنان کا سلسلہ حضرت اسماعیل علیہ السلام تک پہنچتا ہے۔ عدنان کے نیچے گیارہویں پشت میں فہر بن مالک بڑے صاحب اقدار تھے۔ ان ہی کی اولاد ہے جو قریش کے لقب سے مشہور ہے۔ قریش کی نسل میں دس شخصوں نے اپنے زور لیاقت سے بڑا امتیاز حاصل کیا، اور ان کے انتساب سے دس جدا نامور قبیلے بن گئے۔ یعنی ہاشم، امیہ، نوفل، عبد الدار، اسد، تیم، مخزوم، عدی، جمح، سمح، حضر عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ عدی کی اولاد سے ہیں۔ عدی کے دوسرے بھائی مرۃ تھے۔ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجداد سے ہیں۔ اس لحاظ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا سلسلہ نسب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھویں پشت میں جا کر مل جاتا ہے۔ قریش چونکہ خانہ کعبہ کے مجاور بھی تھے۔ اس لئے دنیاوی جاہ و جلال کے ساتھ مذہبی عظمت کا چھتر بھی ان پر سایہ فگن تھا۔ تعلقات کی وسعت اور کام کے پھیلاؤ سے ان لوگوں کے کاروبار کے مختلف صیغے پیدا ہو گئے تھے۔ اور ہر صیغے کا اہتمام جدا تھا۔ مثلاً خانہ کعبہ کی نگرانی، حجاج کی خبر گیری، سفارت، شیوخ قبائل کا انتخاب، فصل مقدمات، مجلس شورا وغیرہ وغیرہ، (عدی جو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے جد اعلٰی تھے) اس صیغوں میں سفارت کے صیغے کے افسر تھے۔ یعنی قریش کو کسی قبیلے کے ساتھ کوئی معاملہ پیش آتا تو یہ سفیر بن کر جایا کرتے۔ (یہ تمام تفصیل عقد الفرید باب فضائل عرب میں ہے)۔ اس کے ساتھ منافرہ کے معرکوں میں ثالث بھی ہوا کرتے تھے۔ عرب میں دستور تھا کہ برابر کے دو رئیسوں میں سے کسی کو افضلیت کا دعویٰ ہوتا تو ایک لائق اور پایہ شناس ثالث مقرر کیا جاتا۔ اور دونوں اس کے سامنے اپنی اپنی ترجیح کے دلائل بیان کرتے۔ کبھی کبھی ان جھگڑوں کو اس قدر طور ہوتا کہ مہینوں معرکے قائم رہتے۔ جو لوگ ان معرکوں میں حکم مقرر کئے جاتے ان میں معاملہ فہمی کے علاوہ فضاحت اور زور تقریر کا جوہر بھی درکار ہوتا، یہ دونوں منصب عدی کے خاندان میں نسلاً بعد نسل چلے آتے تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے جد امجد

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دادا نفیل بن عبد العزیٰ نے اپنے اسلاف کی طرح ان خدمتوں کو نہایت قابلیت سے انجام دیا اور اس وجہ سے بڑے عالی رتبہ لوگوں کے مقدمات ان کے پاس فیصلہ کرنے کے لئے آتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد عبد المطلب اور حرب بن امیہ میں جب ریاست کے دعویٰ پر نزاع ہوئی تو دونوں نے نفیل ہی کو حکم مانا۔ نفیل نے عبد المطلب کے حق میں فیصلہ کیا۔ اور اس وقت کی طرف مخاطب ہو کر یہ جملے کہے :

اتنا فرر جلاً ھو اطول منک قامۃً و او سم و سامۃً و اعظم منک ھامۃً و اکثر منک ولداً و اجزل منک مفداً او انی لا اقوال ھذا و انک لبعید الغضب رفیع الصوت فی العرب جلد المریرۃ لحبل العشیرۃ۔
 

شمشاد

لائبریرین
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے برادرِ عم زاد

نفیل کے دو بیٹے تھے۔ عمرو، عمرو معمولی لیاقت کے آدمی تھے۔ لیکن ان کے بیٹے زید جو نفیل کے پوتے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے چچا زاد بھائی تھے۔ نہایت اعلیٰ درجہ کے شخص تھے۔ وہ ان ممتاز بزرگوں میں تھے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعثت سے پہلے اپنے اجتہاد سے بت پرستی کو ترک کر دیا تھا۔ اور موحد بن گئے تھے۔ ان میں زید (زید کا مفصل حال اسد الغابہ کتاب الاوائل اور معارف ابن قنیبہ میں ملے گا) کے سوا باقیوں کے یہ نام ہیں۔ قیس بن ساعدہ، ورقہ بن نوفل۔

زید بت پرستی اور رسوم جاہلیت کو علانیہ برا کہتے تھے اور لوگوں کو دین ابراہیمی کی ترغیب دلاتے تھے۔ اس پر تمام لوگ ان کے دشمن ہو گئے جن میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے والد خطاب سب سے زیادہ سرگرم تھے۔ خطاب نے اس قدر ان کو تنگ کیا کہ وہ آخر مجبور ہو کر مکہ معظمہ سے نکل گئے۔ اور حراء میں جا رہے۔ تاہم کبھی کبھی چھپ کر کعبہ کی زیارت کو آتے۔ زید کے اشعار آج بھی موجود ہیں۔ جن سے ان کے اجتہاد اور روزشن ضمیری کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ دو شعر یہ ہیں :

ارباً واحداً ام الف ربِ
ادین اذا تقسمت الامور

ترکت اللات والعزیٰ جمیعاً
کذلک یفعل الرجل البصیر​

ایک خدا کو مانوں یا ہزاروں کو؟ جب کہ امور تقسیم ہو گئے۔ میں نے لات اور عزیٰ (بتوں کے نام تھے) سب خیر باد کہا اور سمجھدار آدمی ایسا ہی کرتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے والد خطاب

خطاب حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے والد قریش کے ممتاز آدمیوں میں سے تھے (کتاب المعارف ابن قتیبہ)۔ قبیلہ عدی اور بنوی عبد الشمس میں مدت سے عداوت چلی آتی تھی اور چونکہ بنو میں خطاب بھی شامل تھے، مجبور ہو کر سہم کے دامن میں پناہ لی، اس پر بھی مخالفوں نے لڑائی کی دھمکی دی تو خطاب نے یہ اشعار کہے :

ابو عد لی ابو عمر و دولی
رجال لا ینھنھا الوعید

رجال من بنی سھم بن عمرو
الی ابیا تھم باوی الطرید​

کل آٹھ شعر ہیں اور علامہ ارزقی نے تاریخ مکہ میں ان کو بتمامہا نقل کیا ہے۔ عدی کا تمام خاندان مکہ معظمہ میں مقام صفا میں سکونت رکھتا تھا۔ لیکن جب انہوں نے بنو سہم سے تعلق پیدا کیا تو مکانات بھی انہی کے ہاتھ بیچ ڈالے۔ لیکن خطاب کے متعدد مکانات صفا میں باقی رہے جن میں سے ایک مکان حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو وراثت میں پہنچا تھا۔ یہ مکان صفا اور مروہ کے بیچ تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں ڈھا کر حاجیوں کے اترنے کے لیے میدان بنا دیا۔ لیکن اس سے متعلق بعض دکانیں مدت تک حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے خاندان کے قبضے میں رہیں۔ (تاریخ مکہ للارزقی۔ ذکر رباع بن بنی عدی بن کعب)۔ خطاب نے متعدد شادیاں اونچے گھرانوں میں کیں۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ماں کا نام خنتمہ تھا، جو ابن ہشام بن المغیرۃ کی بیٹی تھیں، مغیرۃ اس رتبہ کے آدمی تھے کہ جب قریش کسی سے لڑنے کے لئے جاتے تھے تو فوج کا اہتمام انہی سے متعلق ہوتا تھا۔ اسی مناسبت سے ان کو صاحب الاعنہ کا لقب حاصل تھا۔ حضرت خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ انہی کے پوتے تھے۔مغیرہ کے بیٹے ہشام بھی جو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نانا تھے۔ ایک ممتاز آدمی تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ولادت

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ مشہور روایات کے مطابق ہجرت نبوی سے 40 برس قبل پیدا ہوئے۔ ان کی ولادت اور بچپن کے حالات بالکل نامعلوم ہیں۔ حافظ ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں عمرو بن عاص کی زبانی ایک روایت نقل کی ہے۔ کہ میں چند احباب کے ساتھ ایک جلسہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ دفعتہً غُل اٹھا۔ دریافت سے معلوم ہوا کہ خطاب کے گھر بیٹا ہوا ہے۔ اس سے قیاس ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پیدا ہونے پر غیر معمولی خوشی کی گئی تھی۔ ان کے سن رشد کے حالات بھی بہت کم معلوم ہیں اور کیونکر معلوم ہوتے۔ اس وقت کس کو خیال تھا کہ یہ جوان آگے چل کر فاروق اعظم ہونے والا ہے۔ تاہم نہایت تشخیص اور تلاش سے کچھ کچھ حالات بہم پہنچے جن کا نقل کرنا ناموزوں نہ ہوگا۔
 

شمشاد

لائبریرین
سن رشد

سن رشد پہنچ کر ان کے باپ خطاب نے ان کو جو خدمت سپرد کی وہ اونٹوں کو چرانا تھا۔ یہ شغل اگرچہ عرب میں معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ قومی شعار تھا لیکن خطاب نہایت بے رحمی کے ساتھ ان سے سلوک کرتے۔ تمام دن اونٹ چرانے کا کام لیتے اور جب کبھی تھک کر دم لینا چاہتے تو سزا دیتے۔ جس میدان میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو یہ مصیبت انگیز خدمات انجام دینی پڑتی تھی۔ اس کا نام ضجنان تھا۔ جو مکہ معظمہ کے قریب قدید سے 10 میل کے فاصلہ پر ہے۔ خلافت کے زمانے میں ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ادھر سے گزر ہوا تو ان نہایت عبرت ہوئی، آبدیدہ ہو کر فرمایا کہ اللہ اکبر ایک وہ زمانہ تھا کہ میں نمدہ کا کرتہ پہنے ہوئے اونٹ چرایا کرتا تھا اور تھک کر بیٹھ جاتا تو باپ کے ہاتھ سے مار کھاتا۔ آج یہ دن ہے کہ خدا کے سوا میرے اوپر کوئی حاکم نہیں۔ (طبقات ابن سعد)۔

شباب کا آغاز ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ان شریفانہ مشغلوں میں مشغول ہوئے جو شرفائے عرب میں عموماً معمول تھے، عرب میں اس وقت جن چیزوں کی تعلیم دی جاتی تھی اور جو لازمہً شرافت خیال کی جاتی تھیں، نسب دانی، سپہ گری، پہلوانی اور مقرری تھی، نسب دانی کا فن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے خاندان میں موروثی چلا آتا تھا، جاحظ نے کتاب البیان والبتیین میں بہ صریح لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ان کے باپ اور دادا نفیل تینوں بڑے نساب تھے (طبقات ابن سعد، مطبوعہ مصر ص 117-122)، غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے خاندان میں جیسا کہ ہم ابھی لکھ آئے ہیں سفارت اور منافرۃ یہ دونوں منصب موروثی چلے آتے تھے اور ان کے انجام دینے کے لیے انساب کا جاننا سب سے مقدم امر تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے انساب کا فن اپنے باپ سے سیکھا۔ جاحظ نے تصریح کی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ جب انساب کے متعلق کچھ بیان کرتے تھے تو ہمیشہ اپنے باپ خطاب کا حوالہ دیتے تھے۔

پہلوانی اور کشتی کے فن میں بھی کمال حاصل تھا، یہاں تک کہ عکاظ کے دنگل میں معرکے کی کشتیاں لرتے تھے، عکاظ جبل عرفات کے پاس ایک مقام تھا جہاں سال کے سال اس غرض سے میلہ لگتا تھا کہ عرب کے تمام اہل فن جمع ہو کراپنے کمالات کے جوہر دکھاتے تھے اس لیے وہی لوگ یہاں پیش ہو سکتے تھے جو کسی فن میں کمال رکھتے تھے۔ نابغہ، زبیانی، حسان بن ثابت، قیس بن ساعدہ، خنساء جن کو شاعری اور ملکہ تقریر میں تمام عرب مانتا تھا، اسی تعلیم گاہ کے تعلیم یافتہ تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نسبت علامہ بلاذری نے کتاب الاشراف (انساب والاشرف یروشلم میں شائع ہو گئی ہے ) میں ب سند روایت نقل کی ہے کہ عکاظ کے دنگل میں کشتی لڑا کرتے تھے۔ اس سے قیاس ہو سکتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس فن میں پورا کمال حاصل کیا تھا۔

شہسواری کی نسبت ان کا کمال عموماً مسلم ہے۔ چنانچہ جاحظ نے لکھا ہے کہ وہ گھوڑے پر اچھل کر سوار ہوتے تھے اور اس طرح جم کر بیٹھتے تھے کہ جلد بدن ہو جاتے تھے۔ قوت تقریر کی نسبت اگرچہ کوئی مصرح شہادت موجود نہیں لیکن یہ امر تمام مؤرخین نے باتفاق لکھا ہے کہ اسلام لانے سے پہلے قریش نے ان کو سفارت کا منصب دے دیا تھا۔ اور یہ منصب صرف اس شخص کو مل سکتا تھا جو قوت تقریر اور معاملہ فہمی میں کمال رکھتا تھا۔

اس کتاب کے دوسرے حصے میں ہم نے اس واقعہ کو تفصیل سے لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ شاعری کا نہایت عمدہ مذاق رکھتے تھے اور تمام مشہور شعراء کے چیدہ اشعار ان کو یاد تھے اس سے قیاس ہو سکتا ہے کہ یہ مذاق انہوں نے جاہلیت میں ہی عکاظ کی تعلیم گاہ میں حاصل کیا ہو گا۔ کیونکہ اسلام لانے کے بعد وہ مذہبی اشغال میں ایسے محو ہو گئے تھے کہ اس قسم کے چرچے بھی چنداں پسند نہیں کرتے تھے۔ اسی زمانے میں انہوں نے لکھنا پڑھنا بھی سیکھ لیا تھا۔ اور یہ وہ خصوصیت تھی جو اس زمانے میں بہت کم لوگوں کو حاصل تھی۔ علامہ بلاذری نے بہ سند لکھا کہ کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو قریش کے تمام قبیلے میں 17 آدمی تھے، جو لکھنا جانتے تھے، ان میں ایک عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ تھے۔ (فتوح البلدان بلاذری صفحہ 471)۔

ان فنون سے فارغ ہو کر وہ فکر معاش میں مصروف ہوئے، عرب میں معاش کا ذریعہ زیادہ تر تجارت تھا۔ اس لئے انہوں نے بھی یہی شغل اختیار کیا۔ اور یہی شغل ان کی بہت بڑی ترقیوں کا سبب ہوا، وہ تجارت کی غرض سے دور دور ملکوں میں جاتے تھے۔ اور بڑے بڑے لوگوں سے ملتے تھے۔ خودداری، بلند حوصلگی، تجربہ کاری، معاملہ دانی، یہ تمام اوصاف جو ان میں اسلام لانے سے قبل پیدا ہو گئے تھے، سب انہی سفروں کی بدولت تھے، ان سفروں کے حالات اگرچہ نہایت دلچسپ اور نتیجہ خیز ہوں گے لیکن افسوس ہے کہ کسی مؤرخ نے ان پر توجہ نہیں کی۔ علامہ مسعودی نے اپنی مشہور کتاب " مروج الذہب" میں صرف اس قدر لکھا ہے کہ :

ولعمر بن الخطاب اخبار کثیرۃ فی اسفارہ فی الجاھیلۃ الی الشام والعراق مع کثیر من ملوک العرب والعجم و قدا تینا علی مبسوطھا فی کتابنا اخبار الزمان والکتب الاوسط۔

"عمر بن خطاب نے جاہلیت کے زمانے میں عراق اور شام کے جو سفر کئے ان سفروں میں جس طرح وہ عرب و عجم کے بادشاہوں سے ملے اس کے متعلق بہت سے واقعات ہیں جن کو میں نے تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب اخبار الزمان اور کتاب الاوسط میں لکھا ہے۔"

علامہ موصوف نے جن کتابوں کا حوالہ دیا اگرچہ وہ فن تاریخ کی جان ہیں۔ لیکن قوم کی بد مذاقی سے مدت ہوئی ناپید ہو چکیں۔ میں نے صرف اس غرض سے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ان حالات کا پتہ لگ سکے۔ قسطنطنیہ کے تمام کتب خانے چھان مارے۔ لیکن کچھ کامیابی نہیں ہوئی۔

محدث بن عساکر نے " تاریخ دمشق" میں جس کی بعض جلدیں میری نگاہ سے گزریں ہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سفر کے بعض واقعات لکھے ہیں۔ لیکن ان میں کوئی دلچسپی نہیں۔

مختصر یہ کہ عکاظ کے معرکوں اور تجارت کے تجربوں نے ان کو تمام عرب میں روشناس کرا دیا اور لوگوں پر ان کی قابلیت کے جوہر روز برور کھلتے گئے۔ یہاں تک کہ قریش نے ان کو سفارت کے منصب پر مامور کر دیا۔ جب کوئی پرخطر معاملہ پیش آتا تو انہی کو سفیر بنا کر بھیجتے۔
 

شمشاد

لائبریرین
قبول اسلام اور ہجرت

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ستائیسواں سال تھا کہ عرب میں آفتاب رسالت طلوع ہوا۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور اسلام کی صدا بلند ہوئی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے گھرانے میں زید کی وجہ سے توحید کی آواز بالکل نامانوس نہیں رہی تھی۔ چنانچہ سب سے پہلے زید کے بیٹے سعید اسلام لائے۔ سعید کا نکاح حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بہن فاطمہ سے ہوا تھا۔ اس تعلق سے فاطمہ بھی مسلمان ہو گئیں۔ اسی خاندان میں ایک اور معزز شخص نعیم بن عبد اللہ نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ابھی تک اسلام سے بیگانہ تھے۔ ان کے کانوں میں جب یہ صدا پہنچی تو سخت برہم ہوئے۔ یہاں تک کہ قبیلے میں جو لوگ اسلام لا چکے تھے ان کے دشمن بن گئے۔ لبینہ ان کے خاندان میں ایک کنیز تھی جس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ اس کو بے تحاشہ مارتے اور مارتے مارتے تھک جاتے تو کہتے ذرا دم لے لوں تو پھر ماروں گا۔ لبینہ کے سوا اور جس جس پر قابو چلتا تھا زد و کوب سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ لیکن اسلام کا نشہ ایسا تھا کہ جس کو چڑھ جاتا تھا اترتا نہ تھا۔ ان تمام سختیوں پر ایک شخص کو بھی وہ اسلام سے بد دل نہ کر سکے۔ آخر مجبور ہو کر فیصلہ کیا کہ (نعوذ باللہ) خود بانی اسلام کا قصہ پاک کر دیں، تلوار کمر سے لگا کر سیدھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلے۔ کارکنان قضا نے کہا :

ع : آمد آں یارے کہ ماہم خواستیم​

راہ میں اتفاقاً نعیم بن عبد اللہ مل گئے۔ ان کے تیور دیکھ کر پوچھا خیر تو ہے؟ بولے کہ " محمد کا فیصلہ کرنے جاتا ہوں۔" انہوں نے کہا کہ " پہلے اپنے گھر کی خبر لو، خود تمہاری بہن اور بہنوئی اسلام لا چکے ہیں۔" فوراً پلٹے اور بہن کے ہاں پہنچے۔ وہ قرآن پڑھ رہی تھیں۔ ان کی آہٹ پا کر چپ ہو گئیں۔ اور قرآن کے اجزاء چھپا لئے لیکن آواز ان کے کانوں میں پڑ چکی تھی۔ بہن سے پوچھا کہ یہ کیا آواز تھی۔ بہن نے کہا کہ کچھ نہیں۔ بولے کہ نہیں میں سن چکا ہوں کہ تم دونوں مرتد ہو گئے ہو۔ یہ کہہ کر بہنوئی سے دست و گریبان ہو گئے۔ اور جب ان کی بہن بچانے کو آئیں تو ان کی بھی خبر لی۔ یہاں تک کہ ان کا بدن لہو لہان ہو گیا۔ اسی حالت میں ان کی زبان سے نکلا کہ " عمر! جو بن آئے کرو۔ لیکن اسلام اب دل سے نہیں نکل سکتا۔" ان الفاظ نے عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دل پر خاص اثر کیا۔ بہن کی طرف محبت کی نگاہ سے دیکھا۔ ان کے بدن سے خون جاری تھا۔ یہ دیکھ کر اور بھی رقت ہوئی فرمایا کہ تم لوگ جو پڑھ رہے تھے مجھ کو بھی سناؤ۔ فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے قرآن کے اجزاء لا کر سامنے رکھ دیئے۔ اٹھا کر دیکھا تو یہ سورۃ تھی۔

سبح للہ ما فی السموت والارض و ھو العزیز الحکیم۔

ایک ایک لفظ پر ان کا دل مرعوب ہوتا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ جب اس آیت پر پہنچے امنوا باللہ و رسولہ تو بے اختیار پکار اٹھے کہ

اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمداً رسول اللہ۔

یہ وہ زمانہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارقم کے مکان میں جو کوہ صفا کی تلی میں واقع تھا پناہ گزین تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آستانہ مبارک پر پہنچ کر دستک دی۔ چونکہ شمشیر بکف گئے تھے۔ اور اس تازہ واقعہ کی کسی کو اطلاع نہ تھی اس لیے صحابہ کو تردد ہوا۔ لیکن حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ آنے دو۔ مخلصانہ آیا ہے۔ تو بہتر ورنہ اسی کی تلوار سے اس کا سر قلم کر دیا جائے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اندر قدم رکھا تو رسول اللہ خود آگے بڑھے اور ان کا دامن پکڑ کر فرمایا " کیوں عمر کس ارادہ سے آیا ہے؟" نبوت کی پررعب آواز نے ان کو کپکپا دیا۔ نہایت خضوع کے ساتھ عرض کیا کہ " ایمان لانے کے لئے" آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بے ساختہ اللہ اکبر پکار اتھے۔ اور ساتھ ہی تمام اصحاب نے مل کر زور سے اللہ اکبر کا نعرہ مارا کہ مکہ کی تمام پہاڑیاں گونج اٹھیں۔ (نساب الاشراف بلاذری و طبقات ابن سعد و اسد الغابہ ابن عساکر و کامل ابن الاثیر)۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ایمان لانے نے اسلام کی تاریخ میں نیا دور پیدا کر دیا۔ اس وقت تک 40، 50 آدمی اسلام لا چکے تھے۔ عرب کے مشہور بہادر حضرت حمزہ سید الشہدأ نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا۔ تاہم اپنے مذہبی فرائض علانیہ نہیں ادا کر سکتے تھے۔ اور کعبہ میں تو نماز پڑھنا بالکل ناممکن تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اسلام کے ساتھ دفعتًہ یہ حالت بدل گئی۔ انہوں نے اپنا اسلام ظاہر کیا۔ کافروں نے اول اول ان پر بڑی شدت کی۔ لیکن وہ برابر ثابت قدمی سے مقابلہ کرتے رہے۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ کعبہ میں جا کر نماز ادا کی۔ ابن ہشام نے اس واقعہ کو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زبانی ان الفاظ میں روایت کیا۔

فلما اسلم عمر قاتل فریشاً حتی صلی عند الکعبۃ و صلینا معہ۔

"جب عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اسلام لائے تو قریش سے لڑے، یہاں تک کہ کعبہ میں نماز پڑھی اور ان کے ساتھ ہم نے بھی پڑھی۔"

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اسلام کا واقعہ سنہ نبوی کے چھٹے سال میں واقع ہوا۔
 

شمشاد

لائبریرین
ہجرت

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ہجرت

اہل قریش ایک مدت تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ کو بے پروائی کی نگاہ سے دیکھتے رہے۔ لیکن اسلام کو جس قدر شیوع ہوتا جاتا تھا ان کی بےپروائی غصہ اور ناراضی سے بدلتی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ جب ایک جماعت کثیر اسلام کے حلقے میں آ گئی تو قریش نےزور اور قوت کے ساتھ اسلام کو مٹانا چاہا۔ حضرت ابو طالب کی زندگی تک تو علانیہ کچھ نہ کر سکے۔ لیکن ان کے انتقال کے بعد کفار ہر طرف سے اٹھ کھڑے ہوئے اور جس جس مسلمان پر قابو ملا اس طرح ستانا شروع کیا کہ اگر اسلام کے جوش اور وارفتگی کا اثر نہ ہوتا تو ایک شخص بھی اسلام پر ثابت قدم نہیں رہ سکتا تھا۔ یہ حالت پانچ چھ برس تک رہی اور یہ زمانہ اس سختی سے گزارا کہ اس کی تفصیل ایک نہایت درد انگیز داستان ہے۔

اسی اثناء میں مدینہ منورہ کے ایک معزز گروہ نے اسلام قبول کر لیا تھا، اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جن لوگوں کو کفار کے ستم سے نجات نہیں مل سکتی وہ مدینہ کو ہجرت کر جائیں۔ سب سے پہلے ابو سلمہ عبد اللہ بن اشہل رضی اللہ تعالٰی عنہم پھر حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ مؤذن اور عمار بن یاسر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ہجرت کی۔ ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بیس آدمیوں کے ساتھ مدینہ کا قصد کیا۔ صحیح بخاری میں 20 کا عدد مذکور ہے۔ لیکن ناموں کی تفصیل نہیں۔ ابن ہشام نے بعضوں کے نام لکھے اور وہ یہ ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ جن لوگوں نے ہجرت کی

زید بن خطاب، سعید بن زید بن خطاب، خنیس بن حذافہ سہمی، عمرو بن سراقہ، عبد اللہ بدن سراقہ، واقد بن عبد اللہ تمیمی، خولی بن ابی خولی، مالک بن ابی خولی، لیاس بن بکیر، عاقل بن بکیر، عامر بن بکیر، خالد بن بکیر رضی اللہ تعالٰی عنہم۔ ان میں سے زید حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بھائی، سعید بھتیجے، خنیس داماد اور باقی دوست احباب تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی قیام گاہ

مدینہ منورہ کی وسعت چونکہ کم تھی، مہاجرین زیادہ تر قبا میں (جو مدینہ سے دو تین میل ہے) قیام کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی یہیں رفاعہ بن عبد المنذر کے مکان پر ٹھہرے۔ قباء کو عوالی بھی کہتے ہیں۔ چنانچہ صحیح مسلم میں ان کی فرد و گاہ کا نام عوالی ہی لکھا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بعد اکثر صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم نے ہجرت کی۔ یہاں تک کہ (662 عیسوی) 13 نبوی میں جناب رسالت صلی اللہ علی وسلم نے مکہ چھوڑا اور آفتاب رسالت مدینہ کے افق سے طلوع ہوا۔
 

شمشاد

لائبریرین
مہاجرین اور انصار میں اخوت

مدینہ پہنچ کر سب سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین کے رہنے سہنے کا انتظام کیا۔ انصار کو بلا کر ان میں اور مہاجرین میں برادری قائم کی جس کا اثر یہ ہے کہ جو مہاجر جس انصاری کا بھائی بن جاتا انصاری مہاجر کو اپنی جائیداد، اسباب، نقدی تمام چیزوں میں آدھا آدھا بانٹ دیتا تھا۔ اس طرح تمام مہاجرین اور انصار بھائی بھائی بن گئے۔ اس رشتہ کے قائم کرنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم طرفین کے رتبہ اور حیثیت کا فرق مراتب ملحوظ رکھتے تھے، یعنی جو مہاجر جس درجے کا ہوتا اسی رتبے کے انصاری کو اس کا بھائی بناتے تھے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top