الطاف حسین ۔۔۔۔۔۔۔شہریت کی منسوخی کا خطرہ ۔۔۔۔۔۔ بی بی سی

کاشفی

محفلین
چلئے حسان بھائی ، اس سے آگے چلتے ہیں۔ آپ ماشاء اللہ کافی علم رکھتے ہیں کچھ بتا سکتے ہیں کہ تقسیم پاکستان کے وقت پنجاب کے بارڈر کی حالت کیا تھی؟۔
ساجد بھائی پنجاب کے بارڈر کی حالت بہت ہی ابتر تھی۔۔
سب سے زیادہ نقصان مشرقی ہندوستان کے مسلمانوں کا ہوا اور بعد میں پنجاب کے مسلمانوں کا۔۔
مشرقی ہندوستان کے مسلمانوں کو پنجاب کے بارڈر پر ذبح کیا گیا۔۔۔ذبح کرنے والے سکھ تھے۔پنجاب کے مسلمان بھی ذبح کیئے گئے۔۔
 

ساجد

محفلین
پاکستان ہندوستانی مسلمانوں کی جداگانہ قومیت کے نام پر بنا تھا، اور سارے لوگوں نے اسی لیے ہجرت کی تھی۔
ہجرت کرنے والوں میں تقریباَ ہندوستان کے تقریباَ ہر صوبے کے لوگ شامل تھے۔ مشرقی پنجاب سے تو مسلمان تقریباَ سارے ہی پاکستان آ گئے تھے۔
اللہ آپ کا بھلا کرے۔ اب میں اپنے کاشفی برادر سے کہوں گا کہ ملاحظہ فرمائیں کہ ہم پاکستانی قوم کی حیثیت سے یہاں آئے تھے نا کہ اپنی اپنی قوم کی پہچان سے۔ اور اگر ہمیں کوئی فرد یا گروہ ایک قوم بننے سے روکتا ہے تو اس کو اپنا خیر خواہ مت جانو اور نہ ہی خود کو الگ الگ قوموں میں شمار کرو۔
جی بالکل درست فرمایا ۔ سب سے زیادہ مہاجر پنجاب سے تعلق رکھتے تھے اور اس حال میں لاہور کے بارڈر پر پہنچے کہ ٹرینوں کے دروازوں سے ان کے لاشوں کا خون بہہ رہا تھا۔
----
اب آپ کو ایک معلوماتی بات بتاؤں کہ ہمیں بارڈر پر روٹی اور کھانا یہاں کے مقامی یعنی ”مٹی کے بیٹوں“ نے دیا لیکن کچھ نا خلف بیٹوں نے آپ لوگوں کی طرح ہمیں”مہاجر“اور ”شہدے پنائی“ بھی کہا۔ جس کا مطلب بنتا ہے حقیر پناہ گزین۔
لیکن ہمارے اجداد نے اس نام کو قبول نہ کیا بلکہ جب بھی انہیں یہ کہا جاتا وہ اسے اپنے لئے گالی کے برابر سمجھتے۔
 

محمد امین

لائبریرین
اللہ آپ کا بھلا کرے۔ اب میں اپنے کاشفی برادر سے کہوں گا کہ ملاحظہ فرمائیں کہ ہم پاکستانی قوم کی حیثیت سے یہاں آئے تھے نا کہ اپنی اپنی قوم کی پہچان سے۔ اور اگر ہمیں کوئی فرد یا گروہ ایک قوم بننے سے روکتا ہے تو اس کو اپنا خیر خواہ مت جانو اور نہ ہی خود کو الگ الگ قوموں میں شمار کرو۔
جی بالکل درست فرمایا ۔ سب سے زیادہ مہاجر پنجاب سے تعلق رکھتے تھے اور اس حال میں لاہور کے بارڈر پر پہنچے کہ ٹرینوں کے دروازوں سے ان کے لاشوں کا خون بہہ رہا تھا۔
----
اب آپ کو ایک معلوماتی بات بتاؤں کہ ہمیں بارڈر پر روٹی اور کھانا یہاں کے مقامی یعنی ”مٹی کے بیٹوں“ نے دیا لیکن کچھ نا خلف بیٹوں نے آپ لوگوں کی طرح ہمیں”مہاجر“اور ”شہدے پنائی“ بھی کہا۔ جس کا مطلب بنتا ہے حقیر پناہ گزین۔
لیکن ہمارے اجداد نے اس نام کو قبول نہ کیا بلکہ جب بھی انہیں یہ کہا جاتا وہ اسے اپنے لئے گالی کے برابر سمجھتے۔

غالباً پاکستانی پنجاب میں ہجرت کر کے آنے والوں کی اکثریت پنجابی ہی تھی۔ کراچی میں یہ معاملہ نہیں تھا۔ کراچی سندھیوں اور بلوچوں کا تھا اور یہاں آنے والوں نے اردو ہی بولی۔ گو کہ کراچی ہمیشہ سے بمبئی کے لوگوں سے بھرا رہا مگر بمبئی کے علاوہ دوسرے علاقوں سے آنے والوں کو کراچی اور سندھ کے دوسرے شہروں میں پاکستانی نہیں سمجھا گیا محض اس لیے کہ وہ سندھی زبان اور ثقافت سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔

آپ کی بات میں سمجھ رہا ہوں امید ہے آپ بھی میری بات سمجھ رہے ہونگے۔۔
 

کاشفی

محفلین
الٹا کہہ گئے حضرت، سب سے زیادہ جانی نقصان مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کا ہوا تھا۔
مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کا نقصاں ہوا تھا اس میں کوئی شک نہیں۔۔لیکن مشرقی ہندوستان کے مسلمان سب پسے گئے۔۔تقسیمِ ہندوستان کے وقت بھی اور تقسیمِ ہندوستان کے بعد بھی۔۔۔
تقسیمِ ہندوستان کے وقت مشرقی ہندوستان کے اندر ، اور پنجاب کے باڈر پر ان کے گلے کاٹے گئے۔۔ان کو برباد کیا گیا۔۔۔ان کی جائیدادوں کو نقصان پہنچایا گیا۔
تقسیمِ ہندوستان کے بعد یعنی پاکستان بننے کے بعد۔۔
پاکستان کے اندر ان کے ساتھ ظلم و زیادتی برتی گئی اور انہیں ہر میدان میں پیچھے رکھنے کی کوشش کی گئی۔۔اور ان سے ہر اچھا رتبہ چھین لیا گیا۔۔ان کے حقوق پر ڈاکا ڈالا گیا۔
ہندوستان کے اندر۔ ان سے ظلم و زیادتی آج تک برتی جارہی ہے کیونکہ انہوں نے پاکستان بننے کے لیئے اپنا جان مال تن من دھن قربان کیا تھا۔۔
اس لحاظ سے مشرقی ہندوستان کے مسلمانوں کا سب سے زیادہ نقصان ہوا۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
اللہ آپ کا بھلا کرے۔ اب میں اپنے کاشفی برادر سے کہوں گا کہ ملاحظہ فرمائیں کہ ہم پاکستانی قوم کی حیثیت سے یہاں آئے تھے نا کہ اپنی اپنی قوم کی پہچان سے۔ اور اگر ہمیں کوئی فرد یا گروہ ایک قوم بننے سے روکتا ہے تو اس کو اپنا خیر خواہ مت جانو اور نہ ہی خود کو الگ الگ قوموں میں شمار کرو۔
ساجد بھائی، میں خود مہاجر قوم پرستی کو رد کر کے پاکستانی قوم پرستی کو قبول کرتا ہوں، کیونکہ پاکستانیت پر کسی اور چیز کو ترجیح دے کر میں اُن لاکھوں لوگوں کے خون کا مذاق نہیں اڑانا چاہتا جو پاکستان کے لیے گھر سے نکلے تھے، لیکن سرحد سے پہلے ہی فسادات کا شکار ہو کر خالق سے جا ملے۔

اب آپ کو ایک معلوماتی بات بتاؤں کہ ہمیں بارڈر پر روٹی اور کھانا یہاں کے مقامی یعنی ”مٹی کے بیٹوں“ نے دیا لیکن کچھ نا خلف بیٹوں نے آپ لوگوں کی طرح ہمیں”مہاجر“اور ”شہدے پنائی“ بھی کہا۔ جس کا مطلب بنتا ہے حقیر پناہ گزین۔
لیکن ہمارے اجداد نے اس نام کو قبول نہ کیا بلکہ جب بھی انہیں یہ کہا جاتا وہ اسے اپنے لئے گالی کے برابر سمجھتے۔

پنجاب اور سندھ کے حالات مختلف ہیں۔ ہندوستان سے لوگ سرحد میں بھی گئے تھے اور پنجاب میں بھی۔ اُن مہاجروں میں اردو بولنے والے بھی شامل تھے۔ لیکن سرحد اور پنجاب کے مقامی لوگوں نے بہت جلد اُنہیں قبول کر لیا، اور مہاجرین نے اپنے نئے وطن کو۔ لیکن یہاں سندھ میں ایسا نہیں ہوا، سندھ کی مقامی آبادی نے مہاجروں کو قبولیت کی سند دینے سے انکار کر دیا، پھر دو دہائیوں بعد مہاجر قوم پرستوں نے بھی سندھ کو رد کر دیا۔ اور یوں سندھ کی مقامی آبادی اور مہاجرین ایک دوسرے میں ضم نہ ہو سکے اور دونوں قوم پرستی کی راہوں پر نکل پڑے۔

میری سگی خالہ کے شوہر بچپن سے گوجرانوالہ میں رہتے ہیں، وہ بھی گھر میں اردو بولنے والے مہاجر ہیں، لیکن اُن میں اور ایک عام پنجابی میں ذرا بھی فرق نہیں ہے، نہ گوجرانوالہ کے لوگوں کو ان سے کبھی بیگانگی محسوس ہوئی، نہ انہوں نے کبھی گوجرانوالہ یا پنجاب سے بیگانگی محسوس کی۔ میرے خیال سے تو وہ خود کو بھی فخر سے پنجابی کہتے ہوں گے۔
 

محمد امین

لائبریرین
میرے ناناجان کا خاندان روہتک کا اردو بولنے والا خاندان ہے۔ اور اب پاکستانی پنجاب کے مختلف شہروں میں آباد ہے۔ مگر ناناجان کے بقول ہجرت کے بعد انہیں اردو بولنے کی وجہ سے پنجاب میں سخت تعصب کا سامنا تھا جو کہ ابھی بھی ختم نہیں ہوا ہے۔
 

ساجد

محفلین
اب تصور کیجئے کہ پنجاب جو تقسیم پاکستان مین دو حصوں میں بٹا ، جس کے سب سے زیادہ لوگ دونوں اطراف قتل ہوئے ، جس کی سب سے زیادہ عزتیں پامال ہوئیں اور جہاں ان کو مقامی افراد نے پھولوں کی طرح رکھا وہیں بہت سارے ان کو دن رات مہاجر اور پناہ گزین کہنےکے علاوہ نفرت کا نشانہ بھی بناتے رہے اس پنجاب کے ایک بھی فرد کو ان کا دیا ہوا نام قبول نہ کیا بلکہ ان پر اس قدر اثر چھوڑا کہ آج سوائے دور دراز دیہات کے شہری علاقوں میں آپ مقامی اور ہجرت کر کے آنے والوں میں فرق محسوس نہیں کر سکتے۔
 

محمد امین

لائبریرین
اب تصور کیجئے کہ پنجاب جو تقسیم پاکستان مین دو حصوں میں بٹا ، جس کے سب سے زیادہ لوگ دونوں اطراف قتل ہوئے ، جس کی سب سے زیادہ عزتیں پامال ہوئیں اور جہاں ان کو مقامی افراد نے پھولوں کی طرح رکھا وہیں بہت سارے ان کو دن رات مہاجر اور پناہ گزین کہنےکے علاوہ نفرت کا نشانہ بھی بناتے رہے اس پنجاب کے ایک بھی فرد کو ان کا دیا ہوا نام قبول نہ کیا بلکہ ان پر اس قدر اثر چھوڑا کہ آج سوائے دور دراز دیہات کے شہری علاقوں میں آپ مقامی اور ہجرت کر کے آنے والوں میں فرق محسوس نہیں کر سکتے۔

یہ میرے بھائی اس لیے ہے کہ کراچی میں لکھنؤ سے لے کر بہار بنگال بریلی بمبئی دہلی ہر علاقے ہر خوشبو کے لوگوں نے سکونت اختیار کی۔ اس مختلف النوع اکثریت کو یہاں کے مٹی نے بیٹوں کے رد کردیا تھا۔ پھر یوں بھی ہوا کہ یہاں کی مقامی آبادی کی تعداد نقل مکانی کرنے والی آبادی کی تعداد سے بہت کم رہ گئی۔
 

حسان خان

لائبریرین
اب تصور کیجئے کہ پنجاب جو تقسیم پاکستان مین دو حصوں میں بٹا ، جس کے سب سے زیادہ لوگ دونوں اطراف قتل ہوئے ، جس کی سب سے زیادہ عزتیں پامال ہوئیں اور جہاں ان کو مقامی افراد نے پھولوں کی طرح رکھا وہیں بہت سارے ان کو دن رات مہاجر اور پناہ گزین کہنےکے علاوہ نفرت کا نشانہ بھی بناتے رہے اس پنجاب کے ایک بھی فرد کو ان کا دیا ہوا نام قبول نہ کیا بلکہ ان پر اس قدر اثر چھوڑا کہ آج سوائے دور دراز دیہات کے شہری علاقوں میں آپ مقامی اور ہجرت کر کے آنے والوں میں فرق محسوس نہیں کر سکتے۔

لیکن پنجاب کی اکثریت نے انہیں رد نہیں کیا، نہ ہی ان کو ایجنڈا بنا کر کسی مقامی قوم پرست پارٹی نے سیاست کی۔
جبکہ یہاں کی اکثریت نے بیگانہ مان کر رد کر دیا اور سائیں جی ایم سید اپنی تصنیفات میں مہاجروں کو کوستے رہے۔
 

ساجد

محفلین
میرے ناناجان کا خاندان روہتک کا اردو بولنے والا خاندان ہے۔ اور اب پاکستانی پنجاب کے مختلف شہروں میں آباد ہے۔ مگر ناناجان کے بقول ہجرت کے بعد انہیں اردو بولنے کی وجہ سے پنجاب میں سخت تعصب کا سامنا تھا جو کہ ابھی بھی ختم نہیں ہوا ہے۔
آپ کبھی میرے پاس تشریف لائیں تو میں اپ کو خانیوال ، جھنگ ، لاہور اور چند دیگر شہروں کے اردو سپیکنگ بھائیوں سے ملواؤں گا اور آپ فرق دیکھ سکیں گے کہ سندھ میں یہ مسئلہ کتنا شدید ہے اور پنجاب میں نہ ہونے کے برابر۔
اس کی وجوہات بھی ہیں۔
ایک تو یہی کہ سندھی اور اردو زبان و سماج میں تفاوت بہت تھی۔ دوسرے یہ کہ پنجاب کے لوگوں نے قومیت کی سیاست کو کبھی پذیرائی نہیں بخشی۔
اگر میں ایم کیو ایم کی قوم پرستی کی مخالفت کرتا ہوں تو اتنی ہی مخالفت سندھی قوم پرستی کی کرتا ہوں۔ دونوں کی سیاست قومی وحدت کو کمزور کرتی ہے۔
 

کاشفی

محفلین
اب تصور کیجئے کہ پنجاب جو تقسیم پاکستان مین دو حصوں میں بٹا ، جس کے سب سے زیادہ لوگ دونوں اطراف قتل ہوئے ، جس کی سب سے زیادہ عزتیں پامال ہوئیں اور جہاں ان کو مقامی افراد نے پھولوں کی طرح رکھا وہیں بہت سارے ان کو دن رات مہاجر اور پناہ گزین کہنےکے علاوہ نفرت کا نشانہ بھی بناتے رہے اس پنجاب کے ایک بھی فرد کو ان کا دیا ہوا نام قبول نہ کیا بلکہ ان پر اس قدر اثر چھوڑا کہ آج سوائے دور دراز دیہات کے شہری علاقوں میں آپ مقامی اور ہجرت کر کے آنے والوں میں فرق محسوس نہیں کر سکتے۔

مبالغہ ہوگیا ساجد بھائی۔۔۔
پنجاب لوٹا لیکن اتنا نہیں جتنا مشرقی ہندوستان کے مسلمان لوٹے گئے۔۔۔
پنجاب کی کہانی مختلف ہے۔۔اور سندھ کی کہانی مختلف ہے۔۔
پنجاب میں پنجابی اسپیکنگ ادھر اُدھر ہوئے۔ سندھ کی طرف اردو اسپیکنگ کو دھکیلا گیا۔ اس میں پنجاب کے لوگوں کا قصور نہیں۔۔پنجاب کے وڈیرہ شاہی لوگوں کا قصور ہے۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
مبالغہ ہوگیا ساجد بھائی۔۔۔
پنجاب لوٹا لیکن اتنا نہیں جتنا مشرقی ہندوستان کے مسلمان لوٹے گئے۔۔۔
پنجاب کی کہانی مختلف ہے۔۔اور سندھ کی کہانی مختلف ہے۔۔
پنجاب میں پنجابی اسپیکنگ ادھر اُدھر ہوئے۔ سندھ کی طرف اردو اسپیکنگ کو دھکیلا گیا۔ اس میں پنجاب کے لوگوں کا قصور نہیں۔۔پنجاب کے وڈیرہ شاہی لوگوں کا قصور ہے۔۔

بھائی، چاہے پنجابی زیادہ لٹا ہو یا چاہے یو پی والا، اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ لٹے تو دونوں ہی ہیں، اور اسی ملک کے لیے، اور اپنی یکساں مذہبی شناخت کے لیے لٹے ہیں۔ پتا نہیں آپ صرف ایک طبقے کو زیادہ مظلوم جتا کر کیا ثابت کرنا چاہ رہے ہیں۔
 

ساجد

محفلین
لیکن پنجاب کی اکثریت نے انہیں رد نہیں کیا، نہ ہی ان کو ایجنڈا بنا کر کسی مقامی قوم پرست پارٹی نے سیاست کی۔
جبکہ یہاں کی اکثریت نے بیگانہ مان کر رد کر دیا اور سائیں جی ایم سید اپنی تصنیفات میں مہاجروں کو کوستے رہے۔
جی حسان بھائی ، آپ بالکل درست پہنچے۔ سندھ میں بھی عام مہاجر یا سندھی قصور وار نہیں بلکہ جی ایم سید جیسی ذہنیت ہے۔ ورنہ وہ سندھ جو صدیوں سے بلوچوں کو قبول کرتا رہا اور باب الاسلام تھا 1947 کے بعد مہاجروں اور مسلمانوں کے لئے تنگ کیوں ہو گیا؟۔
 

ساجد

محفلین
کاشفی برادر ، بات ختم کرتا ہوں۔
کہنے کا مقصد یہی تھا کہ ہم سب پاکستانی ہیں گو کہ یہاں طبقاتی امتیاز بہت ہے لیکن ہمیں اس کو ختم کر نے کے لئے کام کرنا ہے اسے نہ تو بڑھاوا دیناہے ، نہ سینے سے لگانا ہے اور نہ ہی اس کے سامنے ہتھیار ڈالنے ہیں۔
میں پنجابی ہوں لیکن ہمارے گھر میں اردو بولی جاتی ہے اور میں چونکہ گاؤں میں رہنے کی وجہ سے پنجابی روانی سے بول لیتا ہوں لیکن میرے اہل خانہ درست پنجابی نہیں بول پاتے ۔ اب میں اس کو حرزِ جاں بنا کر بیٹھ جاؤں کہ بھئی میری شناخت ہی ختم ہو گئی تو بھیا زبان سے پہلے تو میری شناخت پاکستان ہے اور پاکستان کی قومی زبان اردو ہے تو مجھے کیوں فکر ہو؟۔
ااردو سپیکنگ افراد میں پڑھے لکھے افراد کافی ہیں میں پسند کروں گا کہ ایم کیو ایم سیاست میں اردو سپیکنگ لوگوں کو الجھانے کی بجائے ان کی تعلیمی مہارت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سندھی بھائیوں کے ساتھ رابطہ بڑھائے جو کہ نسبتا کم تعلیم یافتہ ہیں اور شاید یہ احساس کمتری بھی ان کو اردو سپیکنگ بھائیوں کے خلاف ابھارتا ہے۔
 

ساجد

محفلین
غالباً پاکستانی پنجاب میں ہجرت کر کے آنے والوں کی اکثریت پنجابی ہی تھی۔ کراچی میں یہ معاملہ نہیں تھا۔ کراچی سندھیوں اور بلوچوں کا تھا اور یہاں آنے والوں نے اردو ہی بولی۔ گو کہ کراچی ہمیشہ سے بمبئی کے لوگوں سے بھرا رہا مگر بمبئی کے علاوہ دوسرے علاقوں سے آنے والوں کو کراچی اور سندھ کے دوسرے شہروں میں پاکستانی نہیں سمجھا گیا محض اس لیے کہ وہ سندھی زبان اور ثقافت سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔

آپ کی بات میں سمجھ رہا ہوں امید ہے آپ بھی میری بات سمجھ رہے ہونگے۔۔
امین بھائی ، امرتسر کی پنجابی اور یہاں کی مقامی پنجابی میں کافی زیادہ فرق ہے اور تو اور کھانے پینے کی عادات ، بود و باش ، شادی بیاہ کی رسوم اور ذرائع روزگار میں بھی بہت تفاوت ہے۔ اور سندھ کے علاوہ اردو سپیکنگ بھائی پنجاب میں بھی آباد ہوئے اور اسی کا ایک لازمی حصہ سمجھے جاتے ہیں۔
یہ صوبہ سندھ کے سیاستدانوں اور ذمہ داروں کا فرض ہے کہ وہ اس المئے پر قابو پائیں جو سندھی مہاجر جھگڑے سے بھی بڑھ کر اب بہت دور تک پھیلتا جا رہا ہے اس میں سندھ کا بہت نقصان ہے اور کراچی میں امن بگڑنے کا مطلب ہے پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی پر چوٹ لگنا۔
 

ساجد

محفلین
اگرچہ دھاگے کا عنوان کچھ اور تھا لیکن جس موضوع پر ہماری بات ہوئی ہے اسے یہاں سے منتقل نہ بھی کریں تو چلے گا کیوں کہ یہ باتیں بھی بہت اہم ہیں۔
 
Top