کاشفی

محفلین
اقبال سے
(شاعر ہمیں معلوم نہیں)

اے کہ تری ذات سے قائم ہے ملت کا وقار
اے کہ تجھ سے ملتہب ہے زندگانی کا شرار

اے کہ تری روح میں ہیں جذبِ فطرت کے رموز
اے کہ تیرا دل ہے روشن مثل مہرِ نیم روز

اے کہ تیرا فلسفہ ہے جان اسرارِ خودی
اے کہ تیرا نغمہ ہے مضراب سازِ زندگی

اے کہ تیری لوح دل ہے، مہبط انوارِ حق
اے کہ تیری روح پر ہیں منکشف اسرار حق

اے کہ تیرے شعر میں جاں سوزیء پروانہ ہے
اے کہ تو بہبود ملت کے لئے دیوانہ ہے

اے کہ تیری رفعت ِ تخیل کا یزداں شکار
اے کہ تیرے دم سے قائم نوعِ انساں کا وقار

اے کہ جدوجہد کے میدان کا غازی ہے تو
اے کہ اپنے وقت کا رومی ہے تو رازی ہے تو

اے سراپا التہاب اے پیکرِ سوزو گداز
اے حریف بادہء سرمست و سرجوشِ حجاز

اے خم آشامِ مے پاکیزہء حب وطن
اے شہیدِ خنجرِ اخلاق و تہذیبِ کہن

کس قدر حرماں نصیب اے شاعرِ مشرق ہے تو
قوم ہے باطل پرست اور رہبر صادق ہے تو

کچھ ٹھکانا ہے تری محرومیء تقدیر کا
تو غلام آباد پاکستان میں پیدا ہوا

یعنی تو پیدا ہوا ہوتا اگر افرنگ میں
مشورہ لیتی تجھی سے قوم صلح و جنگ میں

سرزمینِ پاک میں ہے ان دنوں قحط الرجال
قعرِ گمنامی میں ہیں کھوئے ہوئے اہلِ کمال

وقت آئے گا قوم ان کو ابھارے گی کبھی
لیلئے تقدیر کے گیسو سنوارے گی کبھی

پھر تجھے اقبال اے سر آمدِ اہلِ کمال
قوم سمجھے گی کہ تو ہے واقعی پاکستان کا لال
 

فرخ منظور

لائبریرین
مجھے تو اس نظم میں کچھ اوزان کے مسائل لگ رہے ہیں اور شاعر جناب کو یہ بھی نہیں معلوم کہ علامہ پاکستان میں نہیں بلکہ متحدہ ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے۔
 
Top