اشعار کے استعمال سے شعلہ بیاں‌مقرر بنیئے

بہت میں نے سنی ہے آپ کی تقریر مولانا
مگر بدلی نہیں اب تک مری تقدیر مولانا
خدارا شُکر کی تلقین اپنے پاس ہی رکھیں
یہ لگتی ہے مرے سینے پہ بن کہ تیر مولانا
 

کاشفی

محفلین
ًمحترم صدرِ مجلس پیاری میڈم اور اور معزز مسیں ۔۔۔ مجھے جو آج تقریر کے لیئے موضوع دیا گیا ہے اس کا عنوان ہے چاند۔ ماشاء اللہ سے یہاں پر اتنے سارے چاند ہیں۔۔۔ کہ چاند کے بارے میں کچھ کہنا چاند کو سورج دکھانے کے متراد ف ہے۔۔۔ لہذا میں اپنی تقریر کو بہت ہی مختصر رکھوں اور اپنی تقریر کا آغاز اور اختتام ان اشعار سے کروں گا۔۔عرض کیا ہے!

پوچھا جو اُن سے چاند نکلتا ہے کس طرح
زلفوں کو رُخ پہ ڈال کر جھٹکا دیا کہ یوں
:)

اُن کے جلووں سے مُزیّن دونوں آنکھیں ہیں مِری
اُن کا خاکہ، اُن کا نقشہ، اُن کی صورت دل میں‌ہے

اُن کی حسرت، اُن کا ارماں، اُن کی اُلفت، اُن کا غم
کیا بتائیں، کیا کہیں، کیا کیا ہمارے دل میں ہے​
 
میں بھی خائف نہیں تختہ ء دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
 

Fari

محفلین
وہاں خاک جشن ہو عید کا ، وہاں خاک دل کا کنول کھلے
جہاں زندگی کی ضرورتوں کا بھی حسرتوں میں‌ شمار ہو
 
اے مرے دوست!‌ ذرا دیکھ میں ہارا تو نہیں
میرا سر بھی تو پڑا ہے مری دستار کے ساتھ
وقت خود ہی یہ بتائے گا کہ میں زندہ ہوں
کب وہ مرتا ہے جو زندہ رہے کردار کے ساتھ

(سعداللہ شاہ)
 
newpage11255790539406.png
 

غازی عثمان

محفلین
میرے ہاتھ میں قلم ہے، میرے ذہن میں اجالا
مجھے کیا دبا سکے گا کوئی ظلمتوں کا پالا

مجھے فکر امن عالم، تجھے اپنی ذات کا غم
میں طلوع ہورہا ہوں تو غروب ہونے والا
 

غازی عثمان

محفلین
وہ وقت بھی آئے گا جب لوگ کھڑے ہونگے
عصبیت کے سب بت ٹھوکر میں پڑے ہونگے

شرط بس یہ ہے کہ حالات سے مت ڈرنا
جس میں ہو کلاشنکوف اس ہاتھ سے مت ڈرنا
 

کاشفی

محفلین
آج مسلماں کیوں‌پٹ رہا ہے؟

وجہ تم جاننا چاہتے ہو
مسلمان کیوں ہے ذلیل و رُسوا
جواب اتنا سا میرا سُن لو
کہ آج مسلم کا جُرم یہ ہے
وہ اپنی راہ سے بھٹک گیا ہے
بھُلا کے اللہ رسول و دیں کو
وہ بندہ خواہش کا بن گیا
وہ اپنی دنیا میں جی رہا ہے
اُسے کوئی غرض اب نہیں ہے
خلافِ دیں سب کی زندگی ہے
خلافِ سُنت گزر رہی ہے
وہ اپنی خوشیوں میں‌دیکھو شامل
ہر ایک کوہی تو کر رہا ہے
سوائے اللہ رسول کے بس!
سوائے دین و اُصول کے بس!
خدا سے ہر شخص لڑ‌رہا ہے
یوں‌کہیئے کہ جنگ کر رہا ہے
علم ہے پر عمل نہیں ہے
کتاب مسلم کلام مسلم
خطاب مسلم ہے پھر بھی کتنا خراب مسلم

وہ پہلے جب باعمل ہُوا تھا
نظامِ قدرت بدل گیا تھا
زمین و آسماں میں ہر سو
وہ امن کے روپ میں‌ڈھل گیا
اُسے خلافت بھی دی گئی تھی، کچھ یاد آیا؟
اُسے حفاظت بھی دی گئی تھی، غلط کہا کیا؟
پھر اُس کے چاہنے پہ دنیا
مسخر کچھ ایسے کی گئی تھی
کہ چاند سورج ستارے ساگر
سبھی اشاروں پہ چل رہے تھے، ہے سچ یہی نا؟
ہوائیں جنگل و صحرا سارے
انہی کی راہوں پہ چل رہے تھے، کیوں یاد آیا؟
انہیں تو منزل پکارتی تھی
بتاؤں تم کو میں اور کیا کیا
تمہیں یاد از بر حکایتیں ہیں
پھر کس لیئے یہ شکایتیں ہیں
تم خود ہی سوچو کہ جُرم کیا ہے؟
یہ بندہ مومن کیوں پٹ رہا ہے؟
تھی اُن پہ جو مہربان قدرت
"خیال" ایماں‌کی تھی حرارت

(اسماعیل اعجاز - خیال --کراچی پاکستان)
 

کاشفی

محفلین
جلے تو آگ کہتے ہیں بجھے تو خاک کہتے ہیں
جس خاک سے بارود بنے اسے الطاف کہتے ہیں:rollingonthefloor:

شاعرِ ہند شاعرِ مشرق شمس العارفین علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ جنہوں نے فرمایا ۔۔ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ۔۔۔۔ انہوں نے اپنے ایک کلام میں کیا خوب فرمایا ہے واہ واہ سبحان اللہ۔۔ جو موجودہ دور میں جناب عزت مآب قائدِ تحریک الطاف حسین بھائی کے لیئے پورا پورا اُترتا ہے۔۔۔ علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی طرح قائد بھی حق بات ہی کہتے ہیں۔۔۔ماشاء اللہ۔

فطرت نے مجھے بخشے ہیں جوہر ملکوتی
خاکی ہوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند
درویش خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی
گھر میرا نہ دلی، نہ صفاہاں، نہ سمرقند
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے ابلہ مسجد ہوں، نہ تہذیب کا فرزند
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
مشکل ہے کہ اک بندہ حق بین و حق اندیش
خاشاک کے تودے کو کہے کوہ دماوند
ہوں آتش نمرود کے شعلوں میں بھی خاموش
میں بندہ مومن ہوں، نہیں دانہ اسپند
پر سوز و نظر باز و نکوبین و کم آزار
آزاد و گرفتار و تہی کیسہ و خورسند
ہر حال میں میرا دل بے قید ہے خرم
کیا چھینے گا غنچے سے کوئی ذوق شکر خند!


کیا خوب کلام لکھ گئے علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے مرد مومن بندہ مومن جناب عزت مآب قائد تحریک الطاف حسین بھائی کے بارے میں۔۔واہ واہ بہت ہی عمدہ
 

کاشفی

محفلین
معزز خواتین آج سے کچھ عرصے پہلے جب میں‌کلاس ہشتم میں تھا۔۔۔۔۔ اس دوران اسکول میں ایک تقریری مقابلہ منعقد کیا گیا۔۔۔۔ جس کےخصوصی مہمانوں میں جرنل حمید گل اور نثار بزمی صاحب، جمیل الدین عالی، حسن اکبر کمال اور دیگر شامل تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میری تقریر کا عنوان تھا علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ۔۔۔

وہ تقریر میں نے ان اشعار سے شروع کی۔۔۔۔۔


ملتِ اسلام میں اقبال جس کا نام تھا
مردِ مومن تھا سراسر واقف انجام تھا

اس کے ارشادات کیا تھے غیب کی آواز تھی
شاعری کی شاعری ، الہام کا الہام تھا

قدرت نے ایک بے چین روح‌ کو پیغمبروں کا سا دل ، قلندرانہ مزاج، شاعرانہ تخیل اور فلسفیوں کا سا دماغ دے کر جس پیکرِخاکی میں سمویا اُسے ہم اقبال کے نام سے جانتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تالیاں۔۔۔۔۔۔مزید رہنے دیں۔۔۔

اب انہی اشعار کو میں اس دور کے عظیم قائد جناب عزت مآب قائدِ تحریک محترم الطاف حسین صاحب کے لیئے لکھوں‌گا۔۔ اور وہ کچھ اس طرح سے۔۔۔۔


ملتِ اسلام میں‌الطاف جس کا نام ہے
مردِ مومن ہے سراسر حق پرست ہے

اس کے ارشادات کیا ہیں قائد اعظم کی آواز ہے
اقبال نہیں پر اقبال جیسا درویش خدا مست ہے
 
Top