اشعار کے استعمال سے شعلہ بیاں‌مقرر بنیئے

یہ دھاگہ شروع اس لئے کیا جا رہا ہے کہ اس میں دوست وہ تمام اشعار پیش کریں جو کہ تقاریر میں استعمال کئے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

یا پھر

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روٹی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو

یا پھر

اے طاہر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں‌کوتاہی

تو شروع کیجئے ۔۔۔۔۔
 

کاشفی

محفلین
ستم گرو کے ستم کے آگے، سر جھکا تھا نہ جھک سکے گا
شعار صادق پہ ہم ہیں نازاں جو کہہ رہے ہیں وہی کریں گے
وفا کرو گے وفا کریں گے، جفا کرو گے جفا کریں گے
کرم کرو گے کرم کریں گے، ستم کرو گے ستم کریں گے
ہم آدمی ہیں تمہارے جیسے جو تم کرو گے وہ ہم کریں گے :happy:
 

کاشفی

محفلین
کھیت وڈیروں سے لے لو
ملیں لٹیروں سے لے لو
رہے نہ کوئی عالی جاہ
پاکستان کو مطلب کیا
ساری زمینوں کو ہیں گھیرے
صدیوں سے خونخوار لٹیرے
عزت و دولت میرے وطن کی
لوٹ رہے ہیں چند لٹیرے
کب تک بربادی دیکھوں
کب تک میں ضبط کروں

(حبیب جالیب)
 
ہم پروشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
ہاں تلخی ء ایام ابھی اور بڑھے گی
ہاں اہلِ ستم مشقِ ستم کرتے رہیں گے
اک طرز تغافل ہے سو وہ تم کو مبارک
اِک عرضِ تمنا ہے وہ ہم کرتے رہیں گے
 

کاشفی

محفلین
غلاموں کی صفوں سے آ رہی ہیں کیسی آوازیں
کہ جیسے آج ہر اک تختِ شاہی کو گرا دیں گے
کہ جیسے ہر جلالِ بادشاہی کو گرا دیں گے
پریشاں ہو گئے آقا!
ابھی تو کچھ دیوں کی روشنی ہے آپ کی زد میں
ابھی تو کچھ اضافہ اور ہو گا آپ کے قد میں
ابھی تو کچھ اندھیرا اور بڑھنا ہے شبستاں میں
ابھی تازہ لہو کچھ اور بہناہے گلستاں میں
غنیمت ہے ابھی تو تخت کے پائے سلامت ہیں!
میرے آقا! ابھی دربار کے سائے سلامت ہیں!
پریشاں ہو گئے آقا! ابھی تو رات باقی ہے
ابھی تو آپ جیتے ہیں، ابھی تو مات باقی ہے
ابھی تو زرد موسم ہے،ابھی برسات باقی ہے
ابھی کچھ وقت باقی ہے طلوعِ صبحِ امکاں میں
ابھی کچھ اور زنجیریں صدائیں دیں گی زنداں میں
ابھی کچھ اورسر جو خم نہیں ہوں گے،قلم ہوں گے
ابھی کچھ اور ہاتھوں میں بغاوت کے علم ہوں گے
ابھی کچھ اور افسانے محبت کے رقم ہوں گے
ابھی راہِ وفا میں اور کچھ تازہ ستم ہوں گے
پھر اس کے بعد تم ہو گے،پھر اس کے بعد ہم ہوں گے!!
 
نہ ڈگمگائے کبھی ہم وفا کے رستے میں
چراغ ہم نے جلائے ہوا کے رستے میں
خدا کا نام کوئی لے تو چونک اٹھتے ہیں
ملے ہیں ہم کو وہ رہبر خدا کے رستے میں​
 

کاشفی

محفلین
سانوں عزت شہرت، غیرت دی خاطر لڑنا تے مرنا آندا اے
سانوں لڑ کےنال طوفاناں دے ساحل تک ترنا آندا اے
اسی ظلم ستم توں ڈردے نئیں، اک رب توں ڈرنا آندا اے
فاروق توں پیچا پیار دا پا، سانوں پیار وی کرنا آندا اے
سمجھ آئی :happy:
 

کاشفی

محفلین
اخلاص و وفا کو عام کر دے یارب
تاریک دلوں میں نور بھر دے یارب

ہر چیز میں دیکھ لے جو تیرا جلوہ
ہر دیدہء دل کو وہ نظر دے یارب
 

کاشفی

محفلین
نہ ماضی کی فکر مجھ کو ، نہ حال کی پرواہ ہے
جواں ہمت ہوں، مستقبل درخشاں کر کے چھوڑونگا

کاشفی
 

کاشفی

محفلین
عوامی قیادت کا مارا ہوا
میں مظلوم شہری ہوں ہارا ہوا
گیا تھا اسمبلی میں ننگے بدن
مِلا مجھ کو کپڑا اُتارا ہوا
وہ جھنڈا لگی گاڑیوں میں گئے
رہا میں تو جھنڈا ہی تھاما ہوا
نکل آئے گھر سے لُٹیرے تمام
سیاست کا جونہی اجالا ہوا
جناب مشرف اِدھر دیکھئے
ہے آئین تہتر کا پھاڑا ہوا
جو غاصب تھے بیٹھے وہ بیٹھے رہے
زبانِ صحافت پہ تالا ہوا
کہیں جیل ذرّہ نہ ہو جائے پھر
سُنا ہے منسٹر جیالا ہوا
 

فاتح

لائبریرین
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
(اقبال)
 

فاتح

لائبریرین
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
(اقبال)
 

کاشفی

محفلین
یہ درسِ اوّلیں مجھ کو ملا میرے بزرگوں سے
بہت چھوٹے ہیں ‌وہ، اوروں کو جو چھوٹا سمجھتے ہیں​
 
Top