اشعار برائے اصلاح و تنقید۔ہوگئے گو شکستہ مرے بال و پر

سید عاطف علی

لائبریرین
کچھ اشعار برائے اصلاح و تنقید احبائے محفل کی توجہ اورقیمتی آراءکے لیے۔

ہوگئے گو شکستہ مرے بال و پر
آسماں کو ملی ان سے رفعت مگر

حاصل ِکاوش ِ اہل ِعلم و ہنر
جو ہوا بے خبر وہ ہوا با خبر

راز سینے میں ایسا ہے میرے جسے
ڈھونڈتے ہیں شب و روز شمس و قمر

زہد ِ زاہد رہا قیدِ دستار میں
قیس و فرہاد و وامق ہوے در بدر

آبلوں سے جنوں کو ملا حوصلہ
کتنی ہی منزلیں بن گئیں رہگزر

گفتگو تھی تصور سے تیرے فقط
ہمنوا ہوگئے کیوں یہ برگ و شجر

فرصتِ زندگی کا تماشہ یہی
غور سے دیکھ لے کو ئی رقص ِشرر

ہو صدائے سگا ں گو وفا کاشعار
ہے فقیری کا مشرب مگر درگزر
 
مدیر کی آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
بہت خوب، ماشاء اللہ اوزان کا کچھ مسئلہ نہیں ہے۔ اصلاح کی ضرورت نہیں۔
ٹیگ یہاں اس طرح نہیں دئے جاتے، جس طرح دئے گئے ہیں،
 
بہت خوب، ماشاء اللہ اوزان کا کچھ مسئلہ نہیں ہے۔ اصلاح کی ضرورت نہیں۔
ٹیگ یہاں اس طرح نہیں دئے جاتے، جس طرح دئے گئے ہیں،
مناسب ارشاد جناب اعجاز عبید صاحب۔ کچھ گزارشات میں بھی پیش کردوں:
اول: الفاظ کے درمیان علاماتِ وقف (۔) سے سید عاطف علی کا ظاہری مقصد مصرعوں کی املا کو یکساں طور پر پھیلانا ہے، اس کی ضرورت نہیں ۔
دوم: مطلع کے پہلے مصرعے میں ’’گو‘‘ اور دوسرے میں ’’مگر‘‘ ۔۔۔ ان کا محل ہے یا نہیں، الف عین صاحب سے راہنمائی لیتے ہیں۔
سوم: حاصلِ کاوشِ اہلِ علم و ہنر ۔۔۔۔ پورا مصرع ایک مکمل ترکیب۔ مجھے بہت اچھا لگا ہے۔
چہارم: درجِ ذیل دونوں شعر بہت ساری داد کے مستحق ہیں:
زہد ِ زاہد ۔۔۔ رہا ۔۔۔ قیدِ دستار میں
قیس و ۔فرہاد ۔و۔ وامق ہوے در بدر
۔۔
آبلوں سے ۔۔ جنوں کو ۔۔ ملا حوصلہ
کتنی ہی منزلیں۔۔۔ بن گئیں ۔ رہگزر
ان سے علامات (۔) ہٹا دیجئے، بلکہ ساری غزل سے ہٹا دیجئے۔
ششم: گفتگو والے شعر میں لفظ ’’فقط‘‘ لگتا ہے جیسے بہت دور جا پڑا۔
ہفتم: اصولی ہجے عربی اور فارسی دونوں اعتبار سے ’’تماشا‘‘ ہیں، ’’تماشہ‘‘ میں مجھے کلام ہے۔ پہلے مصرعے میں لفظ ’’یہی‘‘ عجزِ بیان کی سی صورت ہے۔
ہشتم: آخری شعر کے پہلے مصرعے میں مجھے کچھ الجھن ہو رہی ہے کہ ’’صدائے سگاں‘‘ ’’وفا کا شعار‘‘ کیوں کر ہوئی۔
نہم: بحر ( ’’فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن‘‘ بحرِ متدارک مثمن سالم) میں بہت نغمگی پائی جاتی ہے۔اور یہاں بہت خوبی سے نبھائی گئی ہے۔

مجموعی طور پر ۔۔۔
ایک بہت اچھی کاوش ہے اور شاعر کی بھرپور صلاحیتوں کی آئینہ دار ہے۔ خوب سے خوب تر کا سفر جاری رہنا چاہئے۔ مضامین اگرچہ نئے نہیں تاہم تازہ کاری خوب ہے۔

دعاؤں کا طالب ہوں، ہمیشہ کی طرح۔
 
ایک لسانی توضیح کر دوں۔
عربی میں تماشا کا معنی ہے ’’مل کر چلنا پھرنا‘‘ ۔ مادہ ’’م۔ش۔ی‘‘ ۔ باب تفاعل۔ مواشی (مویشی) اسی سے ہے ’’اکٹھے چلنے پھرنے والے‘‘۔
ثلاثی مجرد میں ’’مشٰی‘‘ وہ چلا، ’’یمشی‘‘ وہ چلتا ہے۔
وَلا تَمشِ فی الارضِ مرحاً (اور زمین پر اکڑ اکڑ کر نہ چل) ۔ سورۃ بنی اسرائیل چوتھا رکوع۔
۔۔۔۔
محمد اسامہ سَرسَری صاحب کی توجہ چاہتا ہوں ۔ اگر میں کچھ غلط کہہ گیا ہوں تو اسے درست کر دیں۔

فارسی میں ’’تماشا کردن‘‘ توجہ سے دیکھنا اور غور کرنا کے معانی دیتا ہے۔
غنی روزِ سیاہِ پیرِ کنعان را تماشا کن
کہ نورِ دیدہ اش روشن کند چشمِ زلیخا را
۔۔۔ غنی کا یہ شعر اقبال نے اپنی نظم ’’کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے‘‘ میں نقل کیا ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
مناسب ارشاد جناب اعجاز عبید صاحب۔ کچھ گزارشات میں بھی پیش کردوں:
اول: الفاظ کے درمیان علاماتِ وقف (۔) سے سید عاطف علی کا ظاہری مقصد مصرعوں کی املا کو یکساں طور پر پھیلانا ہے، اس کی ضرورت نہیں ۔
دوم: مطلع کے پہلے مصرعے میں ’’گو‘‘ اور دوسرے میں ’’مگر‘‘ ۔۔۔ ان کا محل ہے یا نہیں، الف عین صاحب سے راہنمائی لیتے ہیں۔
سوم: حاصلِ کاوشِ اہلِ علم و ہنر ۔۔۔ ۔ پورا مصرع ایک مکمل ترکیب۔ مجھے بہت اچھا لگا ہے۔
چہارم: درجِ ذیل دونوں شعر بہت ساری داد کے مستحق ہیں:

ان سے علامات (۔) ہٹا دیجئے، بلکہ ساری غزل سے ہٹا دیجئے۔
ششم: گفتگو والے شعر میں لفظ ’’فقط‘‘ لگتا ہے جیسے بہت دور جا پڑا۔
ہفتم: اصولی ہجے عربی اور فارسی دونوں اعتبار سے ’’تماشا‘‘ ہیں، ’’تماشہ‘‘ میں مجھے کلام ہے۔ پہلے مصرعے میں لفظ ’’یہی‘‘ عجزِ بیان کی سی صورت ہے۔
ہشتم: آخری شعر کے پہلے مصرعے میں مجھے کچھ الجھن ہو رہی ہے کہ ’’صدائے سگاں‘‘ ’’وفا کا شعار‘‘ کیوں کر ہوئی۔
نہم: بحر ( ’’فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن‘‘ بحرِ متدارک مثمن سالم) میں بہت نغمگی پائی جاتی ہے۔اور یہاں بہت خوبی سے نبھائی گئی ہے۔

مجموعی طور پر ۔۔۔
ایک بہت اچھی کاوش ہے اور شاعر کی بھرپور صلاحیتوں کی آئینہ دار ہے۔ خوب سے خوب تر کا سفر جاری رہنا چاہئے۔ مضامین اگرچہ نئے نہیں تاہم تازہ کاری خوب ہے۔

دعاؤں کا طالب ہوں، ہمیشہ کی طرح۔
بہت اچھا تجزیہ کیا ہے ایسی ہی تنقیدی نظر کی توقع تھی۔
دوم - لفظ گو یہاں اگرچہ کے معانی میں مستعمل ہے ۔ جسے میرے خیال میں بر محل سمجھا گیا ہے ۔اور اسی کو "مگر" کے لیے جواز بنا لیا گیا ہے۔اسے مصرع کو میں نے کئی طرح آزمایا تھا مثلا" ۔۔۔ ہاں شکستہ ہؤے سب مرے بال و پر ۔۔ اور ۔۔ ٹوٹ کر گر گئے گر چہ سب بال و پر۔۔۔۔ٹوٹ کر گر پڑے یہ مرے بال و پر۔۔۔ وغیرہ۔۔۔
سوم ۔چہارم۔۔ بہت آداب اور حوصلہ افزائی کی سپاس گزاری
ششم ۔۔۔فقط پر آپ کے اعتراض پہ ایک مرتبہ پھر غور کروں گا ۔۔اسے بھی متعدد بار ترتیب دیا تھا مثلا ۔۔۔۔گفتگو تھی تصور میں تجھ سے فقط ۔ ۔۔۔ ۔۔۔ وغیرہ
ہفتم ۔ صد فی صد متفق ۔ تسلیم ۔۔۔فروگزاشت ۔
ہشتم۔ یہاں وفا کا شعار عرفی شیرازی کی خوشہ چینی یا معنوی تماثل کہا جاسکتا ہے۔ کہ آوازِ سگاں کم نکند رزقِ گدا را ۔۔۔۔ کیوں کہ ان کا بھونکنا ان کی دانست میں ان کی وفا داری کا اظہار اور تقاضا ہوتا ہے جس کا فقیر کوئی جواب نہیں دیتا۔اور جسے وفا کا شعار کہا گیا ہے۔
نہم اور مجموعی کے لیے بہت بہت آداب اور سراپا امتنان ہوں کہ گویا کاوش اجر پا گئی۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
لفظ گو کے استعمال پر ایک مثال ذہن میں اور آئی ۔
گو میں رہا رہینِ ستم ہائے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا
غالب
 

الف عین

لائبریرین
گو کا استعمال تو درست ہے۔
البتہ فقط والے شعر میں دوسرے متبادل بھی ہو سکتے ہیں۔ ’ہی‘ اور ’بس‘ جیسے
گفتگو بس ترے ہی تصور سے تھی
یا
گفتگو تو ترے ہی تصور سے تھی
ہاں دوسرے مصرع میں ’کیوںُ کی جگہ ’کیسے‘ بہتر ہو، اور ہاں، محاورہ برگ و ثمر کا ہوتا ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
گو کا استعمال تو درست ہے۔
البتہ فقط والے شعر میں دوسرے متبادل بھی ہو سکتے ہیں۔ ’ہی‘ اور ’بس‘ جیسے
گفتگو بس ترے ہی تصور سے تھی
یا
گفتگو تو ترے ہی تصور سے تھی
ہاں دوسرے مصرع میں ’کیوںُ کی جگہ ’کیسے‘ بہتر ہو، اور ہاں، محاورہ برگ و ثمر کا ہوتا ہے۔
جی ہاں اعجاز صاحب درست۔بہت بہت شکریہ ۔
اور مجھے ہمنوائی کے لحاظ سے محاروہ برگ و شجر کا تصرف ذرااقرب لگا ۔ رباعیات خیام کے ایک ترجمے میں جو محشر نقوی صاحب نے فٹز جیرالڈ کے انگریزی ترجمے سے بالواسطہ فرما یا ہے غالبا "اس طرح بھی برتا ہے۔اور محاورہ کی جامد پیروی سے ترکیبات وضع نہیں ہو پاتیں۔میرے خیال میں جب تک ثقالت کا تاثر نہ ہو جدت کو آزمایا جانا چاہئے۔
Awake! for the morning in the bowl of night
Has flung the stone that puts the stars to flight
And lo! the Hunter of the East has caught
The Sultan's Turret in a noose of light
اٹھ جاگ کہ خورشید خاور وہ چرخ بریں کا شہ پارا
تاریکی ء شب کی چادر کو اک آن میں کر پارہ پارا
ہر برگ و شجر ہر بام و در کو نور کا پہنا کر زیور
مشرق کی مہم کو سر کر کے اجرام فلک کو دے مارا
یہ محض یاد داشت کی بنیاد پہ لکھا ہے ممکن ہے کچھ غلطی ہو ۔ میری ادبی کتب سب پاکستان میں ہیں۔ یہاں جو کچھ ہے انٹر نیٹ اور یہ محفل ہی ہے۔
 
ارے واہ کیا خوبصورت اور پیارا کلام ہے ۔
چھپے رستم نکلے ہمارے بھائی جان تو۔
ڈھیروں داد قبول کیجئے ناچیز کی جانب سے ۔
الہم زد فزد۔۔
 
Top