کاشفی

محفلین
غزل
(جناب قدرت علی صاحب ، تخلص عزت)

اس تجاہل سے مدعا کیا ہے
تیری یہ ہر گھڑی کی “کیا“ کیا ہے

اب وہ بیتابیاں نہیں مجھ میں
جانے آنکھوں سے بہ گیا کیا ہے

درد دل ہوگیا دوا آخر
ہم نہیں جانتے دوا کیا ہے

بیقراری یہ کیوں ہے حضرتِ دل
کچھ تو فرمائیے ہوا کیا ہے

ہو نہ بوئے ریا تو پھر زاہد
فرش قالین و بوریا کیا ہے

بے خبر ہیں کسے خبر اتنی
ابتدا کیا تھی انتہا کیا ہے

سچ تو یہ ہے مریضِ عشق کبھی
جانتا ہی نہیں شفا کیا ہے

سُن تو لیجے کلام عزت کا
“مانا اچھا نہیں“ بُرا کیا ہے
 

کاشفی

محفلین
غزل
(جناب قدرت علی صاحب ، تخلص عزت)
اس تجاہل سے مدعا کیا ہے
تیری یہ ہر گھڑی کی “کیا“ کیا ہے

اب وہ بیتابیاں نہیں مجھ میں
جانے آنکھوں سے بہ گیا کیا ہے

درد دل ہوگیا دوا آخر
ہم نہیں جانتے دوا کیا ہے

بیقراری یہ کیوں ہے حضرتِ دل
کچھ تو فرمائیے ہوا کیا ہے

ہو نہ بوئے ریا تو پھر زاہد
فرش قالین و بوریا کیا ہے

بے خبر ہیں کسے خبر اتنی
ابتدا کیا تھی انتہا کیا ہے

سچ تو یہ ہے مریضِ عشق کبھی
جانتا ہی نہیں شفا کیا ہے

سُن تو لیجے کلام عزت کا
“مانا اچھا نہیں“ بُرا کیا ہے
 
Top