نوازش جناب۔بہترین سفرنامہ رہا۔ بہت خوب ۔ تصاویر و تفصیل دیکھ کر مزا آیا ۔
باسفورس کے پانیوں سے ست سالہ جوگ کا کوئی تعلق رہا ؟
مؤخر الذکر خوب است۔ آئندہ باسفورس لفظ بھی ذہن میں نہیں لانا چاہیے!نوازش جناب۔
حسنِ اتفاق یا بدصورتیٔ اتفاق کہہ لیں۔
شکریہ جناب۔نوازش جناب۔
حسنِ اتفاق یا بدصورتیٔ اتفاق کہہ لیں۔
واہ۔۔۔یہ خوب کہا۔مؤخر الذکر خوب است۔ آئندہ باسفورس لفظ بھی ذہن میں نہیں لانا چاہیے!
واہ۔۔۔یہ خوب کہا۔
اب ذرا اپناپن کوڈ بھی بتا دیجیے۔
پہلا نہیں تو دوسرا لگ جائے گا!
یہ تو کوئی ذہنی توازن کا مسئلہ لگ رہا ہے۔پہلا نہیں تو دوسرا لگ جائے گا!
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت (13 تا 23 ہجری) میں قسطنطنیہ (استنبول) پر باقاعدہ حملہ یا فتح کی کوشش نہیں ہوئی تھی۔جی ہاں۔ حضرت عمر رض کے دورِ خلافت میں جب عربوں نے پہلی بار استنبول کا محاصرہ کیا تو حضرت ابو ایوب انصاری رض اس معرکے میں شہید ہوئے، اور وہیں ایک مقام پہ تدفین کر دی گئی۔
پندرھویں صدی میں جب عثمانیوں نے استنبول فتح کیا تو اس کے بعد یہ جائے تدفین دریافت ہوئی اور بعد میں مزار بنایا گیا۔
ہم بھی رش کا حصہ بن کر اپنی باری میں اندر جانے میں کامیاب ہوئے۔ اندر تصویر کشی بالکل منع تھی تو کوئی تصویر نہ لے پائے۔ اندر کافی تاریخی نوادرات تھے، ہمیں سب تو یاد نہیں، لیکن شاید حضرت ابراہیم کی پگڑی، حضرت موسیٰ کا عصا بھی تھے۔ تاہم ہمیں قرآن پاک کا وہ نسخہ دکھائی نہ دیا، جس کی تلاوت کے دوران حضرت عثمان غنی کی شہادت ہوئی اور ان کے خون کے نشانات اس نسخے پہ اب بھی باقی ہیں۔ ہم نے ایک دو جگہوں پر پڑھا تھا کہ وہ توپ کاپی میوزیم میں ہے، تاہم ہمیں دکھائی نہ دیا۔
![]()
خوب صورت!ایک پرندہ وہاں اتنی دیر ساکت و جامد رہا کہ ہمیں اس پہ مصنوعی ہونے کا گماں ہوا۔
![]()
بہت شکریہ جناب درستگی کے لئے۔حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت (13 تا 23 ہجری) میں قسطنطنیہ (استنبول) پر باقاعدہ حملہ یا فتح کی کوشش نہیں ہوئی تھی۔
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں پیش آیا، جب امیر معاویہ نے قسطنطنیہ (استنبول) کی طرف پہلا بڑا اسلامی بحری و بری حملہ بھیجا۔ اس مہم کی قیادت حضرت یزید بن معاویہ کر رہے تھے اور اسی لشکر میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی شریک تھے، جو محاصرہ کے دوران بیمار ہوئے اور وہیں شہید ہوئے۔یہ واقعہ تقریباً 49-50 ہجری (669-670 عیسوی) کے قریب پیش آیا۔
( واضع رہے کہ میں تاریخی واقعات تاریخی نقطہِ نگاہ سے دیکھتا ہوں ۔ جس طرح کا حوالہ وہاں موجود ہوتا ہے ۔ اسی طرح بیان کردیتا ہوں ۔ برائے مہربانی اسے کسی اور پس منظر سے نہ دیکھیئے)
بہت خوب۔ اگر تصاویر مل پائیں تو ضرور شیئر کیجئے گا۔ہم نے مصحف عثمانی توپ کاپی پیلس کے اس کمرے ہیں دیکھا جہاں حضرت فاطمہ الزہرا کی پوشاک اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیالہ مبارک و دیگر تبرکات کھے گئے ہیں ۔ مگر اصل مصحف عثمانی سمرقند میں دیکھا جس پر خون کے چھینٹے بھی دیکھے۔ ہماری گائڈ نے بتایا کہ امیر تیمور اسے ازبکستان لائے تھے۔ ہماری گائڈ نے اس کی چپکے سے تصاویر لینے میں بھی مدد کی۔ پرانے کمپویٹر میں کہیں ہوں گی۔ شائد محفل بند ہونے سے پہلے فرصت ملے تو شئیر کر سکوں۔
بہت نوازش۔خوب صورت!
اور آپ کے لیے وہ لمحہ خوبصورت!