اردو کا آغاز اور ارتقاء

رضوان

محفلین
خاصی عالمانہ گفتگو چل رہی ہے تو کیوں نہ زبان کا ذائقہ بدلنے کے لیے کچھ سلیس سا ہوجائے۔۔۔۔

رضا علی عابدی کی کتاب “ اُردو کا حال“ سے اقتباس
سارے جہاں میں

میں نے ہندوستان اور پاکستان کے بڑے دور افتادہ علاقے دیکھے ہیں۔ مگر ایک عجیب بات دیکھی۔ میں جہاں کہیں بھی پہنچا، اردو مجھ سے پہلے پہنچ چُکی تھی۔
ہمالیہ کے پچھواڑے لدّاخ میں ایک بڑے نالے جیسے دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا میں وہاں پہنچا جس کے آگے چینی تبت ہے۔ میں دریا کے کنارے ایک گاؤں پہنچا جس کا نام اُپشی تھا۔ مجھے دیکھ کر گاؤں والے میرے گرد جمع ہوگئے۔ جی چاہا ان سے باتیں کروں مگر خیال آیا کہ خدا جانے کون سی زبان بولتے ہوں گے۔ مگر میرے السلام علیکم کہنے کی دیر تھی کہ اب جو وہ بولے بالکل میری ہی جیسی اردو بولے۔ ان میں سے کسی نے مدرسے کی صورت بھی نہیں دیکھی۔ لکھنا پڑھنا نام کو بھی نہیں آتا مگر اردو اس روانی سے بول رہے تھے جیسے نیچے میدانوں میں عمر گزار کر آئے ہوں۔ نیچے کے وہی علاقے جن کی طرف سے ان غریبوں کا دل صاف نہیں تھا۔
میں ان سے کہہ رہا تھا کہ آپ کے بڑے شہر لیہ میں تو بڑی ترقی ہوئی ہے۔ پیسہ آگیا ہے اچھے مکان بن گئے ہیں۔ اچھے کپڑے پہننے لگے ہیں۔ آپ کے گاؤں کا کیا حال ہے؟
ان مین سے ایک بولا۔ “ ہم لوگوں کا گاؤں چھوٹا ہے۔ اسے کون دیکھے گا۔ اوپر سے کوئی دیکھنے والا نہیں ہے۔ جب کوئی چیز آتی ہے بس نیچے ہی ختم ہو جاتی ہے۔ ہم لوگوں تک تو چار آنے بھی نہیں پہنچتے۔ ایسے تو یہ لوگ بہت پبلک پبلک کرتے ہیں مگر ہمیں پوچھنے والا کوئی نہیں۔“
اس گفتگو مین اردو روزمرہ اور محاورہ پوری آن بان سے کار فرما تھا۔ بات میں سلاست اور روانی تھی۔ لفظوں کی نشست وبرخاست زبان دانی کے تمام اصولوں پر پوری اترتی تھی اور محسوس ہوتا تھا کہ چین کی سرحد پر رہنے والے یہ ان پڑھ دیہاتی نہیں بول رہے ہیں اردو کا اعجاز بول رہا ہے۔
اور جب چلتے چلتے میں اسکردو پہنچا تو وہاں دوسری ہی دنیا آباد دیکھی۔ کسی زمانےمیں یہاں کی زبان لدّاخی تھی اور رسم الخط تبّتی تھا۔ لوگ اسے بچانے کی بہت کوشش کرتے ہیں مگر اردو زبان معاشرت میں یوں گھُل مِل گئی ہے کہ علاقے میں پیدا ہونے والی شیریں خوبانی اور شہتوت بھی مقابلتاً پھیکے پڑگئے ہوں گے۔
بلتستان کے ایک بزرگ دانش ور وزیر غلام مہدی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ ایسے لوگ نصیبوں ہی سے ملتے ہیں۔ ان کی باتیں دریائے سندھ میں بہتے ہوئے چاندی جیسے پانی میں دھلی ہوئی تھیں۔
ان سے بلتستان کی ثقافتی اقدار کی گفتگو ہورہی تھی۔ میں نے کہا کہ آپ کا علاقہ باقی بریصغیر سے اتنا دور، اتنا الگ تھلگ ہے کہ اصولاً اس کی زبان اور خصوصاً لب و لہجہ جدا ہونا چاہیے تھا مگر یہاں لوگ سلیس اور رواں اردو بول رہے ہیں اور ان کے لب ولہجہ پر نہ پنجاب کے اثرات تھے، نہ کشمیر کے اور نہ ہزارہ کے۔ اس کا کیا راز ہے؟
وزیر غلام مہدی صاحب نے کہا۔“ ہم ہر آواز کا تلفظ ادا کرسکتے ہیں کیونکہ ہمارے لب ولہجے اور گفتگو میں ایسی فطری خوبی ہے کہ اردو ہو یا عربی فارسی، ہم آسانی سے بول لیتے ہیں، چنانچہ ایک بڑے آدمی نے کہا تھا کہ اردو سپھل ہو سکتی ہے تو بلتستان میں، کیونکہ بلتستان کی تہذیب وہی ہے جو اردو کی تہذیب ہے۔ ہر زبان کے پیچھے ایک تہذیب ہوتی ہے اور اردو کی تہذیب میں بَلتی کی طرح بہت سی ثقافتوں کا اشتراک ہے چنانچہ اُس بڑے آدمی نے کہا تھا کہ بَلتی لوگ آسانی اور روانی سے اردو بول سکیں گے۔ اب اپنے کانوں سے سُن کر آپ بھی تصدیق کر رہے ہیں۔“ وزیر غلام مہدی صاحب کی یہ باتیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔ کیا اردو واقعی دکن، لکھنؤ اور دہلی کی زبان ہے؟ کیا یہ درباروں کی زبان ہے؟ کیا یہ غیروں کی مسافروں کی اور اجنبیوں کی زبان ہے؟ پھر یہ کیسا چمتکار ہے کہ ہمالیہ کے اُس پار جہاں مانسون گھٹائیںبھی نہیں پہنچ پاتیں، وہاں اردو کی جَھڑی لگی ہے؟
سمجھ میں نہیں آتا کہ جس گھر کے آنگن میں اردو نام کی سانولی سلونی سی لڑکی گنگناتی، سُر بکھیرتی پِھرتی ہو، اور جہاں اس کی پائل کے چھوٹے چھوٹے گھُنگرو بجتے ہوں تو فضا میں چاندی گھُل جاتی ہو، اُس گھر والے یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ “ ہم جب کبھی اردو میں لکھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اپنے مکان میں نہیں، کرائے کے مکان میں بیٹھے ہیں۔“
- - - - -​
اردو کے بارے میں اکثر بہت دلچسپ بحثیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اردو بریصغیر کے کس علاقے میں پیدا ہوئی۔ اور دوسرے یہ کہ یہ زبان کتنی پرانی ہے۔
اس دوسرے سوال کے جواب میں کسی نے کیا اچھی بات کہی کہ مسلمان فاتحین کے آنے سے پہلے بھی تو بریصغیر کے لوگ کوئی زبان تو بولتے ہوں گے۔ وہی اپنے رُخ پر غازہ لگا کر سنور گئی ہے۔
اردو کس علاقے میں پیدا ہوئی؟ ہزارہ میں، سندھ میں، پنجاب میں، ہریانہ میں، گجرات میں، دکن میں یا میرٹھ اور دلی کے درمیاں والے علاقے میں۔
میں تو اسے اردو کی خوش نصیبی جانتا ہوں کہ اتنے بہت سے علاقے خود کو اردو کی جائے ولادت مانتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں وہ جو دلائل دیتے ہیں وہ دل کو لگتے ہیں، ذہن کو قائل بھی کرتے ہیں۔
میں اس بارے میں کوئی انکشاف کرنے کی اپنے میں جرات نہیں پاتا، صرف اتنی بات کہنا چاہتا ہوں کہ اردو زبان کے الفاظ کہیں سے بھی آئے ہوں۔ اس کے سارے اسم اور تمام صفتیں کتنی ہی درآمد شدہ ہوں، اس کے verbs، اس کے فعل چند ایک کو چھوڑ کر سارے کے سارے مقامی ہیں۔ جو فعل مقامی نہیں ان میں بھی “ نا “ لگا کر انہیں ہندوستانی بنایا گیا ہے۔
تحقیق کرنے والے کہیں دور نہ جائیں۔ اردو میں جتنے بھی فعل رائج ہیں: آنا، جانا، اٹھنا، بیٹھنا، سونا، جاگنا، کھانا، پینا، ہنسنا، رونا، ان سب کی چھان بین کر کے دیکھ لیں کے یہ کس خطے اور کس علاقے میں رائج تھے، کہاں ان کی بنیاد تھی اور کہاں انہوں نے یہ شکل اختیار کی۔ جس علاقے پر تحقیق کرنے والوں کا اتفاق ہوجائے، اُس کو اردو کا گہوارہ سمجھنا چاہیے۔
میں مانتا ہوں کہ یہ کوئی اعلیٰ علمی دلیل نہیں ہے اور اس سے میرا مبتدی ہونا صاف جھلکتا ہے مگر اسطرح سوچنے سے کسی کا کچھ جاتا بھی تو نہیں۔ ذرا سی زحمت تو کریں زبان کے اس پہلو پر۔ شاید کوئی دلچسپ نتیجہ نکل آئے۔
ایک اور سوال یہ بھی زیرِ بحث آتا ہے کہ زبان کو اردو کا نام کب مِلا۔ لفظ اردو کب سے رائج ہے۔ کیا یہ ترکی زبان سے آیا ہے۔ کیا جہاں سے لفظ horde نکلا ہے وہیں سے اردو کا چلن ہوا ہے؟ چنگیز خان کے علاقے میں، جہاں رہائشی خیمے کو آج بھی گھر کہتے ہیں، ہر نئی بیوی کو رہنے کا جو ٹھکانہ فراہم کیا جاتا تھا اسے اردو کہا جاتا تھا۔
یہ صحیح ہے کہ پہلے پہل اردو کو ہندی کہا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کے مسلمان فاتحین شمالی درّوں سے اتر کر جس سرزمین پر آئے تھے اسے ہند کہتے تھے۔ موجودہ اٹک کے پاس جس جگہ سے وہ دریائے سندھ پار کرتے تھے اس کا نام اوہند پڑگیا تھا۔ وہیں لوگ انگلی کے اشارے سے دوسرا کنارہ دکھاتے ہوئے کہا کرتے ہوں گے کہ وہ ہند ہے۔ اسی ہند کی مناسبت سے یہاں کے باشندوں کو کسی مذہب کے امتیاز کے بغیر ہندو کہا گیا ہوگا اور اسی نسبت سے یہاں کی زبان ہندی کہلائی، چنانچہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ لفظ “ہندی“ بذات خود ہندی زبان کا لفظ نہیں ہے۔
غالب کے زمانے تک تو اس زبان کو ہندی اور ہندوی کہا گیا۔ تاریخی شہر ملتان میں قدیم صوفی شاعروں کے کلام کے ابتدائی نسخے میں نے دیکھے ہیں، ان میں ان کے کلام کو پنجابی یا سرائیکی نہیں بلکہ ہندی لکھا گیا ہے۔ گویا اُس مخصوص دور میں ہندوستان کی بولیوں‌کو ہندی کہا جانا بعید از قیاس نہیں۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ انگریزوں نے تفرقہ ڈالنے کے لیے اردو اور ہندی میں تخصیص کی اور اردو کو ہندوستانی کا نام دیا جو آگے چل کر اردو ہوگیا۔ سچ تو یہ ہے کہ اردو پر اسی وقت مسلمانوں کی زبان ہونے کا ٹھپہ لگ گیا ہوگا اور کچھ یہی صورت ہندی کے ساتھ بھی پیش آئی ہوگی لٰہذا ایک درمیانی صورت نکالنے کے لیے ‘ہندوستانی‘ سے کام چلایا گیا۔ فیلن کی ڈکشنری اس کا ثبوت ہے۔
جب اردو رسم الخط میں ہندی آوازیں کثرت سے شامل ہونے لگیں تو نئی وضع کے حروف ڈھالنے کا مرحلہ آیا۔ جس کے جو جی میں آیا وہ کر گزرا۔ ان ہی انگریزوں نے رسم الخط کو سلیقہ دیا۔ اس میں تو چھوٹی ی اور بڑی ے میں فرق نہیں کرتے تھے۔ ٹ، ڑ، ڈ ابھی میرے بچپن تک یوں لکھے جاتے تھے کہ ایک چھوٹی سے ط بنانے کے بجائے کوئی دو نقطے ڈالتا تھا، کوئی چار اور کوئی چھوٹی سی افقی لکیر کھینچ دیتا تھا۔
انگریزوں ہی نے اردو حروف کا ٹائپ تراشا اور طباعت شروع کی۔ انہوں نے دو چشمی ھ لگا کر ہندی الفاظ بنائے ورنہ بھائی اور بہائی میں کوئی فرق نہ تھا۔
ایک وقت تو ایسا آیا، وہ اور وہ پرانے قلمی نسخے میں نے دیکھے ہیں جن میں ہمارے بزرگ نقطوں سے بے نیاز ہو چلے تھے اور بے نقط لکھتے تھے۔ یہ بھی ہوا کہ لفظ ‘اور‘ لکھتے تو آخر میں رے بنانے کی زحمت ختم کیے ڈالتے تھے۔
عوام میں تفرقہ اور رخنہ ڈالنے والوں نے ہمارے اس رسم الخط کو ضابطہ دیا۔ اسے سائنسی بنیادوں پر استوار کیا اور پھر اسے رائج بھی کیا۔ انہوں نے لاکھ چاہا کہ اردو ٹائپ رواج پا جائےاور اس غرض سے جیسے بھی بنا نستعلیق ٹائپ وضع کیا مگر ہم لوگوں نے نقشے چھاپنے والی پتھر کی سِلوں پر کتابت شروع کردی اور ٹائپ کو رائج ہونے نہیں دیا۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ اردو رسم الخط سیکھنا مشکل ہے وہ زیادہ دور نہیں، سو برس پرانی اردو کی کتابیں اٹھا کر دیکھیں اور موازنہ کریں تو اندازہ ہو کہ اردو جس قدر بولنے اور سننے میں مہزب زبان ہے، اسی قدر اس کا رسم الخط بھی تہذیب یافتہ ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں گھر گھر خوشنویسی کا چلن اٹھ گیا ورنہ اس کی تحریر میں لوگ موتی ٹانکا کرتے تھے، موتی۔
 
کیا کہنے رضوان ، بڑی بروقت اور خوبصورت پوسٹ کی ہے۔ میں تو خود بھی اس بات کے حق میں ہوں کہ آغاز کے ساتھ ساتھ ارتقا پر بھی زور قلم صرف کیا جائے۔ اب امید ہے کہ باذوق ، زیف ، شاہد ، تفسیر یا کوئی اور صاحبِ علم آ کر اس گفتگو کو اور آگے بڑھائے گا۔
 
رضوان ، اچھا لگا ،،، مزا آیا پڑھ کر ،، جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے ۔۔۔پطرس کو ہر سو اردو سننے کو ملی (‌کیا واقعی )‌ یار کیا کنفیوژن ہے ،،، اردو کہتے ہو عربی فارسی سے لت پت ہندوستانی کو اور کہتے ہو تبت والے بھی بولتے ہیں‌،، بھائی پہلے طے کر لو اردو ہے کون سی زبان ،، وہ جو ہم پاکستانی علامے بولتے لکھتے اور پڑھتے ہیں‌یا بھارتی پنڈتوں‌کی ہندی ،،، ویسے اگر اردو ہی کو عربی میں ہندی کہتے ہیں‌تو جھگڑا کس بات کا ہے ،، ہم اپنی زبان کا نام ہندی رکھ لیتے ہیں‌،، کیا ہم اس کے لئے تیار ہیں‌،، ذرا سوچئے
 
مضمون سابق میں‌ پطرس کو رضاعلی عابدی ، بی بی سی لندن والے لکھا اور پڑھا جائے ،،، لو جی یہاں‌بھی ،،بی بی سی ،، یار محب علوی یہ بی بی سی کی اردو سروس کیوں اس قدر حائل ہوتی ہے ،، اردو نادانوں‌کی راہ پرخار میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
بی بی سی اردو اس لیے شاہد میاں کہ تمہارے اپنے “جنگ “ میں تو قتل و غارت کی خبروں کے سوا کچھ ملتا نہیں ، اتنا نہیں کہ مہینہ میں ایک آدھ بار اردو کے متعلق کوئی خبر ہی چھاپ دیں ، اشتہاروں کی لائن لگی ہوتی ہے البتہ۔ ویسے جنگ نے اب کمپیوٹر پر سنڈے میگزین میں ایک صفحہ پر مضامین چھاپنے شروع کیے ہیں اردو میں ، یہ اچھا سلسلہ ہے۔ بی بی سی اردو والوں کی خدمات کو ہمیں سراہنا پڑے گا چاہے کتنا ہی کچھ کیوں نہ کہہ لیں۔ :lol:
 
محب علوی صاحب قبلہ محترم ،، اخبارات ملک کے حالات واقعی کا آئینہ ہوا کرتے ہیں‌،، اب ملک پاک میں‌جو کچھ ہوگا ہم وہی تو رپورٹ‌ کریں‌گے نا ۔۔آپ کا کیا خیال ہے کہ ہم بھی آنکھوں‌ پر پٹی باندھ کر سب ٹھیک ہے کا راگ الاپنا شروع کر دیں‌۔۔۔بھائی سچائی کو برداشت کرنے کا جزبہ پیدا کرو ۔۔۔ تپڑ ہے تو پاس کریں ورنہ ہارن نہ بجائیں ،، شکریہ :)
 
محترمی و مکرمی ، ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ضرور پیش کریں مگر زور صرف جرائم کی خبروں پر ہی نہ رکھیں نہ اور بھی بہت کچھ ہورہا ہے ملک میں اس پر ایک دو لائنوں کی سرخیوں سے کام نہ چلائیں۔ میں نے جن امور کا ذکر کیا ان پر کبھی کبھی لکھا جاتا ہے میں چاہتا ہوں ان پر زیادہ تسلسل سے لکھا جائے اور اخبار صرف خبروں کو اکھٹا کرنے اور انہیں پہنچانے کی بجائے لوگوں کی تعلیم و تربیت کا ذریعہ بھی بنیں۔

ہارن تو بجانا پڑے گا اگر گاڑی صحیح سمت میں نہ جارہی ہو :lol:
آخر اخلاقی فرض بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔
 
ڈیئر محب علوی ،،، آپ کو کس نے کہا کہ یہاں‌ اس دھاگے میں اردو کی لڑیوں‌ کے درمیان اخبارات اور سیاست مملکت خدا دار برائے خواص پر بحث‌کریں‌،، یا خبریات اخباری کے بارے میں گفت و گو فرمائیں۔۔ بھائی یہ دھاگہ اردو کی ابتدا اور ارتقا پر مبنی ہے اس لئے کوشش کریں‌کہ نفس مضمون سے آگے پیچھے نہ ہوں ،، ویسے یہ شوق کیسے چرایا آپ کو ہارن بجانے کا ،،،سنا ہے کہ مغربی ملکوں‌میں ہارن بجانا برا سمجھا جاتا ہے ۔۔۔۔۔‌
 
برصغیر میں آریاوں‌کی آمد کے بعد مقامی زبانوں‌ اور آریائی زبان کے اختلاط سے ایک نئی زبان نے جنم لیا جسے “پراکرت “کہا گیا ۔۔جلد ہی پراکرت کو ادبی زبان کا درجہ مل گیا اور حکمراں‌ اور اعلیٰ طبقے نے مذہب اور سیاست کے لئے پراکرت کے استعمال کو فروغ‌دیا ۔۔
اسی دور میں عوامی حلقوں‌میں زبان کی ایک اور قسم نے ابھرنا شروع کیا جسے‘ اپ بھرناس “ کا نام ملا ۔۔پراکرت سنسکرت سے زیادہ متاثر تھی جبکہ “ اپ بھرناس “ پر سنسکرت کا اثر کم تھا اور اس میں‌ مقامی زبانوں کی آویزش زیادہ تھی ۔۔
“ پراکرت کے زیر اثر اس دور کی زبانوں‌کو تین گروپس میں‌تقسیم کیا گیا ہے ۔۔
ایک ۔۔ دراوڈی ( تمل ، تیلگو ، ملیالم ، کنڑ وغیرہ )
دو ۔۔۔۔۔ پشاچی ( کھڑی بولی ، سندھی ، پنجابی ، سرائیکی ، ہریانوی ، ہندکو وغیرہ )
تین ۔۔۔۔ داردا ( پشتو ، بلوچی ، دری وغیرہ )

کھڑی بولی کا تعلق پراکرت کی قسم شورسینی سے جوڑا جاتا ہے۔۔
کھڑی بولی کا سیدھا سا مطلب ہے کہ اس بولی میں فعل کے آخر میں‌ الف (‌آ )‌ لگایا جاتا ہے ۔جیسے کہ آیا ،، کھایا ،، اٹھایا ،، کھینچا وغیرہ ،،، اس کے مقابلے میں اس دور کی دیگر بولیوں ‌میں‌فعل کے ساتھ واو کا اضافہ کیا جاتا تھا جیسے ، کھایو ،، جایو ،، کھینچیو ،، اٹھایو (‌(شمالی ہند کی کئی بولیوں‌میں‌اب بھی فعل کے آخر میں واو کا اضافہ دیکھا جا سکتا ہے ،خاص طور پر راجھستان اور ملحقہ علاقوں کی بولی میں ، سندھی میں بھی فعل کا اختتام واو پر ہوتا ہے )) ‌۔۔
اکثر مورخین کا خیال ہے کہ کھڑی بولی کا چلن دلی اور اس سے ملحقہ علاقوں‌میں شروع ہوا۔۔تاہم کھڑی بولی کا علاقہ محدود تھا اور پنجابی خطے کی سب سے بڑی بولی کی شکل میں‌موجود تھی ۔۔۔ ہریانوی کو پنجابی اور کھڑی بولی کے درمیان کی شکل قرار دیا جا سکتا ہے ۔۔گیارہویں اور بارھویں صدی عیسوی میں دہلی میں‌اسلامی سلطنت کے اولین قیام کے دوران ، عربی اور فارسی کے الفاظ‌ کھڑی بولی کا حصہ بنے ،، اسی دور میں‌ اردو کی کچھ کچھ شکل نکلنے لگی تھی تاہم ،، عرب اور اہل فارس اسے ہند کے تناظر میں‌ “ ہندی اور ہندوی “ کے نام سے پکارتےاور جانتے تھے۔۔
مورخین کے نذدیک یہی اردو زبان کا ابتدائی دور ہے ۔۔اس دور میں‌ اردو پر پنجابی بولی کا اثر زیادہ تھا ،، تاہم وقت کے ساتھ ساتھ اردو نے اپنی الگ اور منفرد شناخت بنالی ۔۔
 
یہاں‌دبئی اور دیگر امارات میں جنوبی ہند کے لوگوں‌کی کثیر تعداد رہائش پزیر ہے ۔۔میرے ہوٹل کے نزدیک ہی ایک ملباری کیفے ٹیریا ہے جہاں‌ کھانے پینے کی اشیا اور چائے وغیرہ دستیاب ہے ۔دو روز پہلے میں اس کیفے ٹیریا میں کھانا کھا رہا تھا کہ ایک عجیب بات ہوئی ۔کیفے ٹیریا کے ملازم آپس میں‌ملباری زبان میں‌بات چیت کرتے ہیں‌اور گاہکوں‌کی اکثریت بھی یہی زبان استعمال کرتی ہے ، تاہم ہم جیسے لوگوں‌کا کام کچھ نہ کچھ چل ہی جاتا ہے ۔۔بات سے بات نکل آئی اصل بات یہ ہے کہ ہم نے کبھی ان کی زبان پر توجہ ہی نہیں‌دی کہ اس کا ایک لفظ‌ بھی پلے نہیں پڑتا ۔۔ لیکن جس واقعے کا میں زکر کرنے جا رہا ہوں‌ اس نے مجھے اردو اور شمالی ہند کی زبانوں کے بارے میں سوچ کا ایک نیا پہلو دیا ہے ۔۔ تو میں‌اس ملباری کیفے ٹیریا میں‌بیٹھا تھا اور کھانے کا انتظار کر رہا تھا کہ ایک تازہ ملبار لڑکا کسی غلط میز پر سرو کرنے لگا کہ دوسرے نے اپنی زبان میں اس سے کہا ( ہڈاں‌،، ہڈاں‌ ) (ہے پر پیش کے ساتھ ) ‌( وہاں ،وہاں)میں سن رہا تھا ، میری توجہ فورا اس لفظ‌ نے اپنی جانب کھینچ لی ،، ارے یہ لفظ‌ تو اپنا اپنا سا ہے ،، سنا ہوا بھی ہے اور برتا ہوا بھی ۔۔۔سندھی، میمنی ، گجراتی ، سب میں وہاں‌کو ہوڈاں‌ کہتے ہیں‌اور اسی ہوڈان سے ہمارا اردو ہندی کا وہاں‌ نکلا ہے ۔۔ تو کیا یہ ممکن ہے کہ جب ہماری زبان کے ابتدائی اور بنیادی الفاظ جنوب سے آ‌رہے ہیں‌تو موہن جو دڑو اور ہڑپا کی زبان کی ساخت سمجھنے میں‌آ جائے ،، کہ وہاں‌ مقامی بولی ہی بولی جاتی رہی ہے نا ،، آریا تو بعد میں آئے ہیں‌،، تو کہیں‌ہماری زبان کو آریا ئی زبان قرار دیا قیاس ہی نہ ہو ،، آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے ،، اپنی رائے ضرور دیجئے گا ۔۔
 

زیف سید

محفلین
شاہد بھائی:

(معافی چاہتاہوں، تھوڑی بے وقت کی راگنی ہے، لیکن کیا کریں، کچھ کام کی مصروفیات ایسی تھیں کہ یہاں آنے کا زیادہ وقت نہ مل سکا)

حضور، یہ آپ نے کھڑی بولی کی نسبت سے جو باتیں کی ہیں، یقین مانیں کہ یکسر غلط ہیں! کھڑی بولی کامختصر قصہ یہ ہے کہ یہ ایک جعلی اور مصنوعی نام ہے۔ اس سے زیادہ مضحکہ خیزبات کیا ہو گی کہ اردو کے افعال الف پر ختم ہوتے ہیں اس لیے اسے کھڑی بولی کہا جاتا ہے۔ معلوم نہیں‌یہ بات کیسےمشہور ہو گئی۔ آخر پنجابی کے بارے میں کیا خیال ہے، اس کے افعال بھی تو الف پر ختم ہوتے ہیں؟ دوسرے یہ کہ الف کی شکل توفقط عربی رسم الخط میں "کھڑی" ہے، جب کہ کھڑی بولی تو مقامی زبان ہے؟ دیوناگری اور کیتھی لپیوں میں تو الف کی شکل کھڑی نہیں ہوتی۔

سوم، زبانوں کے نام کب رسم الخط کی بنیاد پر رکھے جاتے ہیں؟ زبان ہمیشہ پہلے وجود میں آتی ہے اور بعد میں اس پر رسم الخط کا چولا منڈھ دیا جاتا ہے۔ چنانچہ دنیا کا کوئی رسم الخط ایسا نہیں ہے جو اپنی زبان کی تمام آوازوں کوپوری صحت کے ساتھ ادا کر سکے!

میرے دوستو: یہ کھڑی بولی کی بے پر کی چڑیا انگریزوں کی اڑائی ہوئی ہے، ہندوستان میں اس نام کی کوئی زبان کبھی نہیں بولی جاتی تھی۔

میں انشا اللہ کل سے اپنا اردو تاریخ والا مضمون پیش کرنا شروع کر دوں گا جس میں تفصیل اس اجمال کی بھی آجائے گی۔

آداب عرض ہے،

زیف‌
 
زیف بھائی ، زہے نصیب کہ آپ نے بھی توجہ کی نظر ڈالی ،،وگرنہ ہم تو سمجھے بیٹھے تھے کہ پیرِ زبان ہم سے ناراض‌ہو کر گہرے مراقبے میں‌ چلے گئے ہیں‌۔۔۔ مرحبا ،خوش آمدید ، جی آیا نو ، بھلی کرے آیا ، وش آتکے ، آو بھائی بسم اللہ ،، ہائے غالب خستہ یاد آ‌گئے ،، ان کے آنے سے جو آ جاتی ہے منہ پہ رونق ،،،، زیف بھائی آپ کے آنے سے نہ صرف رونق آ‌جاتی ہے بلکہ یہ یقین بھی آ جاتا ہے کہ آپ کے ذخیرہ علم سے ہم کو بھی فیض‌یاب ہونے کا موقع ملے گا ۔۔۔رہی بات کھڑی بولی کی تو علمائے لسانیات اس کے ہونے کو شرف قبولیت بخش چکے ہیں‌۔۔اب اس شرف یابی کی کوئی بھی وجہ رہی ہو ،،ایک کڑی بہر حال جوڑی گئی ہے ۔۔۔ دیوناگری میں اردو کے الف جیسا آ بھی ہوتا ہے اور واو کے لئے ایک ماترا گول سا وہ بھی گھماتے ہیں‌،، آپ کے تو علم میں ‌ہوگا ۔۔۔ لیکن اگر آپ کی تحقیق اگلے وقتوں کی باتوں‌کو رد کرنے کی کوئی وزنی دلیل رکھتی ہے تو یقینا ہم کھڑی بولی کو اس وزنی دلیل میں‌باندھ کر دریائے سرسوتی میں ڈبو دیں‌گے۔۔ آپ لکھیئے تو سہی ،، کہ اکثر کوپرنیکس اگلے وقتوں‌کے فلاسفہ کے فرمائے ہوئے کو غلط ثابت کر دیتا ہے ،، چاہے اس کی بات ماننے سے زمین کو کائنات کا مرکز ہونے کے شرف سے ہاتھ ہی کیو‌ں‌ نہ دھونا پڑے ۔۔۔ہم تو آپ کو پیر مان بیٹھے ہیں‌ اب دستگیری آپ کا فرض بن چکا ہے ۔۔۔بہ قال پیرم ،بخشم کھڑی بولی ہزاروں‌ بار ۔۔۔۔۔
 
قیصرانی ، کبھی بہت خوب اور بہت عمدہ کے علاوہ بھی کچھ لکھ دیا کرو یار ۔۔یا تم صرف اپنی پوسٹوں‌کی تعداد بڑھانے کے لئے لکھتے رہتے ہو ؟؟
 

زیف سید

محفلین
شاہد احمد خان نے کہا:
دیوناگری میں اردو کے الف جیسا آ بھی ہوتا ہے اور واو کے لئے ایک ماترا گول سا وہ بھی گھماتے ہیں‌،، آپ کے تو علم میں ‌ہوگا ۔۔۔

شاہد بھائی:

دیوناگری رسم الخط میں الف کے لیے پہلے تین کا ہندسہ لکھتے ہیں، پھر اس کے ساتھ ایک عمودی ڈنڈالگاتے ہیں اور آخر میں اس کے اوپر ایک افقی لکیر لگا کر قصہ تمام کردیتے ہیں۔ اگر آپ غور کریں تواس طرح کی شکل میں کھڑی، پڑی، بیٹھی، لیٹی، گھومتی تمام اشکال کی نمائندگی ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اگر آپ کہیں گے کہ اس اکشر کی بنیاد پر ہندوستان کی سب سے مقبول اور بڑی زبان کا نام رکھا گیا ہے تو بندہ یہی عرض کرے گا کہ

خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا
جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا

آداب عرض ہے،

زیف

پسِ نوشت: میں نے ایک اور لڑی میں مضمون کی پہلی قسط چسپاں کر دی ہے۔ اگر فرصت ملے تو دیکھ لیجیے گا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
شاہد احمد خان نے کہا:
قیصرانی ، کبھی بہت خوب اور بہت عمدہ کے علاوہ بھی کچھ لکھ دیا کرو یار ۔۔یا تم صرف اپنی پوسٹوں‌کی تعداد بڑھانے کے لئے لکھتے رہتے ہو ؟؟
لیں جی :D ، اگر پلے کچھ معلومات ہوتیں تو چپکا بیٹھا آپ لوگوں کے بولنے کا انتظار کرتا رہتا؟ اگر کچھ نہ لکھوں تو یہ ظاہر ہوگا کہ پوری محفل سے اسے کوئی بھی نہیں‌ دیکھ رہا۔ اگر لکھوں تو پھر اس کے سوا کیا لکھوں‌ :)
 

الف عین

لائبریرین
اگست کے کتاب نما میں ڈاکٹر خلیل احمد بیگ کا مضمون چھپا ہے، وہ بھی پہلا حصہ۔ اس میں بھی کھڑی بولی کی بات ہے۔ اور اس کی وجہ تسمیہ آ کی ماترا ہے جو ایک کھڑے ڈنڈے کی طرح ہوتی ہے۔ ان سے رابطہ نہیں ہو سکا کہ وہ علی گڑھ میں نہیں تھے۔ ورنہ ان سے درخواست کرنا تھی کہ ان کا یہ مضمون بھی ہمیں بھیج دیں۔ اگر تفسیر بھی لکھ رہے ہیں، بلکہ ان کے مضمون کی بھی تصحیح کوئ کر دے تو ایک شمارہ اردو ارتقائ نمبر نکال سکتا ہوں سمت کا۔ ویسے اگلے شمارے کا تو میں نے اعلان کر دیا ہے کہ ندیم قاسمی نمبر ہوگا۔
زیف کا مضمون بھی مکمل ہو جانے کا انتطار ہے۔
 
زیف بھائی آپ ہندی الف کی ابترائی شکل کی بات کر رہے ہیں‌،، جب یہ آ‌ کسی لفظ‌کے آخر میں‌ آتا ہے تو اس کا ماترا صرف ایک لمبا ڈنڈا رہ جاتا ہے جیسا کہ ہمارا الف ہے ۔۔ باقی اعجاز بھائی نے جس مضمون کا زکر کیا ہے وہ مل جائے تو اس بارے میں‌بات آگے بڑھائی جائے ۔آپ کا مضمون ابھی پڑھ کر رائے دیتا ہوں‌۔۔اعجاز صاحب سے پوچھنا ہے کہ آیا ان کا رسالہ صرف نیٹ‌ پر دستیاب ہوتا ہے کہ اصلی کاغزی پیرہن بھی رکھتا ہے ۔۔ اور ارتقا زبان نمبر کا خیال زبردست ہے میں‌اس کی تائید اور حمایت کرتاہوں‌۔۔
 
Top