اراکین کی اردو املا کی اغلاط

بے احتیاطی کا رواج

اعجاز صاحب اور فاتح شکریہ، اچھی اور بروقت تحریریں ہیں،

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے مولانا آزاد کی کتاب غبارِ خاطر کے مقدمہ سے لیے گئے چند جملے پیش کر رہا ہوں جن میں کچھ عمومی غلطیوں کی طرف اشارہ ہے۔

"اردو میں متعدد لفظوں کے لکھنے میں بہت بے احتیاطی کا رواج سا ہوگیا ہے۔ مثلاً عام طور پر فارسی کے حاصل مصدر ہمزہ سے لکھے جاتے ہیں ، جیسے آزمائش، ستائش افزائش وغیرہ، یہاں ہمزہ غلط ہے، یہ تمام الفاظ یاے سے ہونا چاہییں یعنی آزمایش، ستایش، افزایش وغیرہ۔ اس طرح فارسی مرکباتِ توصیفی و اضافی میں اگر موصوف یا مضاف کے آخر میں یاے ہو تو اس پر ہمزہ ٹھیک نہیں ہوگا۔ مثال کے طور پر صلاے عام، پاے خود، جاے میہماں میں کسی جگہ بھی یاے پر ہمزہ لکھنا درست نہیں۔ ہاں اگر یہ یاے معروف ہو تو اس صورت میں اس کے نیچے زیر لگانا چاہیے مثلاً رعائیِ خیال، بیماریِ دل وغیرہ۔ اردو کے وہ لفظ جو امر تعظیمی کی ذیل مٰیں آتے ہیں جیسے کیجیے، پیجیے، ڈریے یا جمع ماضی کے صیغے مثلاً دیے، لیے وغیرہ، ان میں بھی ہمزہ نہں بلکہ آخر میں یاے ہے۔ یہی حال چاہیے کا ہے۔"

اردو داں حضرات سے گذارش کہ تنقید فرمائیں۔
 

فاتح

لائبریرین
فاتح بہت پرمغز تحریر ہے آپکی، بہت خوب۔
سید بدر الحسن کی "صحت الفاظ" کی مجھے بہت عرصے سے تلاش تھی اور بہت خوشی ہوئی پڑھ کے کہ آپکے پاس موجود ہے، کیا آپ سے برقیانے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔
اور ایک میرا مسئلہ بھی ہے کہ ہ کو ہمزہ کی اضافت کے ساتھ کیسے لکھا جائے، میرا مطلب ہے کہ اگر میں نے "قبلہء اول" لکھنا ہے، اور جیسا میں نے لکھا ہے وہ غلط ہے تو صحیح کیسے لکھوں۔
کوئی صاحب اگر مدد کرسکیں تو، نوازش۔

بہت شکریہ وارث صاحب!
صِحَّتِ الفاظ کو اعراب کے ساتھ ٹائپ کرنا اور بعد ازاں اس کی پروف ریڈنگ انتہائی دشوار ہے لیکن انشاء اللہ اس نہج پر سوچتے ہیں کہ اگر ہو سکے تو واقعی انتہائی کارآمد کتاب ہے۔ لیکن ایک اور بھی مشکل ہے اور وہ یہ کہ سید بدر الحسن صاحب کی کتاب میں کئی الفاظ کے اعراب ایسے ہیں کہ جن کی سند کسی لغت سے نہیں ملتی۔ مثلاً سید صاحب فرماتے ہیں کہ "ذرا" کی صحیح املا (ذ) کی بجائے (ز) سے "ذرا" ہے۔ الخ

اس مضمون کے دوسرے حصّہ میں ہمزہ کے استعمال پر گفتگو باقی ہے ابھی اور جیسے ہی کچھ فراغت ملتی ہے لکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔
 

فاتح

لائبریرین
بہت شکریہ اعجاز صاحب!
آپ کی رائے "کہ" اور "شبہہ" کے بارے میں قریں از قیاس ہے۔
لیکن اس املاء کا حوالہ سیِّد بَدَر الحسن کی "صِحَّتِ الفاظ‌" ہے جس کے بارے میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ کئی الفاظ کی املاء اور اعراب کا حوالہ کسی لغت سے نہیں ملا۔
 

فاتح

لائبریرین
اعجاز صاحب اور فاتح شکریہ، اچھی اور بروقت تحریریں ہیں،

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے مولانا آزاد کی کتاب غبارِ خاطر کے مقدمہ سے لیے گئے چند جملے پیش کر رہا ہوں جن میں کچھ عمومی غلطیوں کی طرف اشارہ ہے۔

"اردو میں متعدد لفظوں کے لکھنے میں بہت بے احتیاطی کا رواج سا ہوگیا ہے۔ مثلاً عام طور پر فارسی کے حاصل مصدر ہمزہ سے لکھے جاتے ہیں ، جیسے آزمائش، ستائش افزائش وغیرہ، یہاں ہمزہ غلط ہے، یہ تمام الفاظ یاے سے ہونا چاہییں یعنی آزمایش، ستایش، افزایش وغیرہ۔ اس طرح فارسی مرکباتِ توصیفی و اضافی میں اگر موصوف یا مضاف کے آخر میں یاے ہو تو اس پر ہمزہ ٹھیک نہیں ہوگا۔ مثال کے طور پر صلاے عام، پاے خود، جاے میہماں میں کسی جگہ بھی یاے پر ہمزہ لکھنا درست نہیں۔ ہاں اگر یہ یاے معروف ہو تو اس صورت میں اس کے نیچے زیر لگانا چاہیے مثلاً رعائیِ خیال، بیماریِ دل وغیرہ۔ اردو کے وہ لفظ جو امر تعظیمی کی ذیل مٰیں آتے ہیں جیسے کیجیے، پیجیے، ڈریے یا جمع ماضی کے صیغے مثلاً دیے، لیے وغیرہ، ان میں بھی ہمزہ نہں بلکہ آخر میں یاے ہے۔ یہی حال چاہیے کا ہے۔"
اردو داں حضرات سے گذارش کہ تنقید فرمائیں۔

شارق صاحب! بہت شکریہ آپ کی عزت افزائی کا!

حضور! اردودان تو میں کسی طرح بھی نہیں ہوں اور نہ اتنی استطاعت ہے کہ شمس العلماء مولانا محمد حسین آزاد کی رائے پر نکتہ چینی یا تنقید کر سکوں۔ ہاں! آپ کی حمایت میں حوالہ پیش کرنے کی جسارت کا حق شاید حاصل ہے۔

"آزمایش" کو فیروز اللّغات میں آزمائش جب کہ فرہنگ آصفیّہ میں دونوں طرز پر (یعنی ہمزہ اور ی کے ساتھ) لکھا گیا ہے۔ لیکن امیر مینائی کی امیر اللّغات جو کہ مستند ترین حوالہ مانی جاتی ہے میں "آزمایش" ہی لکھا گیا ہے۔
اسی طرح "افزایش" کو اوّل الذّکر ہر دو لغات میں "افزائش" رقم کیا گیا ہے لیکن بہرصورت امیر اللّغات میں اس کے ہجے "افزایش" ہی ہیں۔

فارسی مرکباتِ توصیفی و اضافی میں موصوف یا مضاف کے آخر میں یاے کی صورت میں اس پر ہمزہ کا استعمال گو کہ غلط ہے لیکن میری "ذاتی" رائے میں غلط العام (فصیح) کے زمرے میں آ چکا ہے۔ بالکل اُسی طرح جیسا کہ قدیم املا میں ماقبل واؤ پیش ہونے پر واؤ پر حمزہ ڈالا جاتا تھا، "یہ" کو "یے" اور "پاؤں" اور "گاؤں" کو "پانو" اور "گانو" (نون پر سکون یا جزم) لکھا جاتا تھا لیکن اب یہ املاء متروک ہے۔

ہاں امر تعظیمی اور جمع کے صیغے میں ہمزہ کا استعمال ہنوز غلط ہی شمار ہوتا ہے۔

ایک مرتبہ پھر عرض کرتا چلوں کہ نہ تو میں اردودان ہوں اور نہ ہی مجھے تنقید کا حق حاصل ہے، محض اپنی رائے کا اظہار مقصود ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
مولانا آزاد کے دور کی اردو تحریر اُس دور کی تھی، اور دھیرے دھیرے املاء کی تبدیلیوں نے غلط العوام کو فصیح کر دیا ہے۔ میں ئش اور یش ف؂دونوں کو درست مانتا ہوں، لیکن شاید اس لغت فائل میں اس کا خیال نہیں آیا، دونوں املا مان لئے ہیں لیکن متبادل املا کا اجافہ نہیں کیا۔ البتہ ’بے کسیِ عشق‘ والی اضافتت کی ہر سورت میں نے جائز مان لی ہے کہ آج کل ہر طرح لکھا جاتا ہے۔
بے کسیِ
بےکسئِ
بے کسئ

لیکن بے کسئی یعنی ’ب ے ک س ئ ی ‘ کو میں غلط مانتا ہوں۔ چاہے اس کے بعد کسرہ لگایا جائے یا نہیں۔
 

فاتح

لائبریرین
مولانا آزاد کے دور کی اردو تحریر اُس دور کی تھی، اور دھیرے دھیرے املاء کی تبدیلیوں نے غلط العوام کو فصیح کر دیا ہے۔
اعجاز صاحب! آپ نے درست فرمایا لیکن "غلط العوام" اور غلط العام میں ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ "غلط العوام" وہ اغلاط ہوتی ہیں جو عوام کالانعام سے دانستگی یا نادانستگی میں سرزد ہوتی ہیں اور ہمیشہ غلط ہی قرار پاتی ہیں اور ان کا استعمال جائز نہیں۔
جب کہ "غلط العام" وہ غلط الفاظ ہیں جو بنیادی طور پر غلط ہونے کے باوجود زبان دانوں اور اساتذہ شعرا و ادبا نے اپنے اشعار و تحریرات میں بالفصاحت استعمال کیے ہوں اور اسی باعث غلط العام کو "فصیح" قرار دیا جاتا ہے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
آصف کی جمع کردہ اردوالفاظ کی فہرست کی روشنی میں میں نے ارکانِ محفل کی املا کی اغلاط کے بارے میں کچھ مشاہدات کئے ہیں۔ یہ یہاں پیش کر رہا ہوں تاکہ ارکان ان کا آئندہ خیال رکھیں۔
۱۔ پہلی بات یہ کہ اب جب اردو کمپیوٹنگ اور املا کی پڑتال کے دور میں آ چکی ہے، تو اس کا خیال ضرور رکھا جائے کہ ہر دو لفظ کے درمیان فضا یا سپیس دیا جائے۔ ہماری مذکورہ فہرست میں کئی کئی فقرے ایک لفظ کے طور پر پہچانے گئے ہیں۔ وجہ محض یہ کہ ے، و، ر وغیرہ حروف اگلے حروف سے جُڑتے نہیں تو لکھنے والے سپیس دینے کا خیال نہیں رکھتے۔ ’آنےکےلئےاورجانےکےلئے‘ کیا ایک لفظ مانا جائے گا؟ فضا نہ دی جائے تو یہ غلط فہمی ممکن ہے۔
۲۔ اسی طرح اکثر ایک ہی لفط کو توڑنا بھی عام طور پر دیکھا گیا ہے۔ ’اصول‘ کو ’اصو‘ اور ’ل‘ لکھا گیا تو ’اصو‘ ایک لفظ کے طور پر سامنے آیا کہ درمیان میں سپیس تھی۔ اور ’اصو‘ کوئی لفظ نہیں ہوتا۔ اس کا خیال رکھیں کہ ا یک ہی لفظ کے درتمیان میں فضا نہ دی جائے۔
۳۔ ہمزۂ اضافت کا ستعمال۔ یہ یہاں ہی نہیں اکثر کمپوزرس کی بھی عام غلطی ہے جس کی طرف اکثر نشان دہی کرتا رہا ہوں۔ نالۂ دل کو نالہء دل نہ لکھا جائے۔ اسی طرح اوپر ہمزہ میرے ناچیز خیال میں اردو حرف نہیں ہے، اردو میں ہمزہ محض الف (مثلاً ’جرأت‘) ’ہ‘ یا ’و‘ پر لگتی ہے، اور یہ تینوں کیریکٹرس الگ سے شامل ہیں ہی، اور ہر فانٹ میں ایک ہی کنجی سے بنائے جا سکتے ہیں۔ پھر کیا مشکل ہے؟
اس سلسلے میں ایک رہنما اصول کی نشان دہی بھی کرتا جاؤں۔ ’ۂ‘ محض وہاں استعمال ہوتی ہے جہاں ’ہ‘ کی آواز الف کے مماثل ہوتی ہے۔ جہاں اس کی آواز ’ہ‘ جیسی ہی ہو، وہاں کسرہ درست ہے، چناچہ ’راۂ وفا‘ غلط، ’راہِ وفا‘ درست۔ ’جلوہِ‘ غلط ’جلوۂ‘ درست۔ ’جلوہ گاہِ وصال‘ درست، جلوہ گاۂ وصال‘ غلط۔
۴۔ ہر لفظ میں ہمزہ (جسے کمپیوٹنگ میں ہمزہ ی ہی استعمال کیا جاتا ہے) کے بعد ی لگانا ضروری نہیں۔ اور یہ بھی عام غلطی میں نے پائی ہے۔ ’آئندہ‘ درست ہے، آئیندہّ غلط۔ یہی نہیں ہندی النسل الفاظ میں بھی کبھی کبھی ہمارے ارکان ایک ی زائد ٹائپ کرتے ہیں۔ ’آئیے‘ لکھنا ہی کافی ہے، لیکن اس کی مختلف صورتیں جو پائی جاتی ہیں، وہ ہیں۔
آیئے۔ اسکو میں نے عارضی طور پر درست مان لیا ہے ورنہ ’ی‘ کا ’ہمزہ‘ سے پہلے کوئی جواز نہیں۔
آیئیے
آئیئے
آیئیے
یہ غلط ہیں۔
انگریزی النسل الفاظ میں میں نے سب کو قبول کر لیا ہے۔ آئڈیا، آئیڈیا، آیئڈیا۔۔ سب کو مان لیا جائے۔
۵۔ ہ کی جگہ ھ کا استعمال۔ درست یہ کہ اردو میں ھ مفرد استعمال ہی نہں ہوتی، محض بھ، پھ، تھ کھ گھ وغیرہ میں ہی ھ کی ضرورت ہے۔ عربی الفاظ میں نسخ کی صورت میں ھ بھی دو چشمی کی طرح لگتی ہے تو یہ غلط فہمی بھی پیدا ہو جاتی ہے کہ ’ابراھیم‘ درست ہے نا کہ ’ابراہیم‘ (مثال کے طور پر۔
۶۔ ز کی جگہ ذ کا استعمال بھی عام پایا گیا ہے۔ ‘مذید‘ غلط، ’مزید‘ درست۔
۷۔ الف کے آخر میں ہمزہ کا استعمال کہیں کہیں زائد بھی دیکھا گیا ہے۔ اور یہاں بھی اضافت کااستعمال غلط ہے۔ہوتی ہے تو ’ئے‘ استعمال کیا جانا چاہئے۔ ’فضاءِ بسیط‘ غلط، فضائے بسیط درست۔ بہت سے الفاظ میں آخر میں ہمزہ کی ضرورت نہیں، لیکن اس کاکوئی رہنما اصول میرے علم میں نہیں۔ کہ ’شرکاء‘ درست ہے اور شرکا‘ غلط، لیکن ’شعرا‘ بھی درست ہے، مگر جمع میں ’شعرائے کرام‘۔ فضا میں بھی ہمزہ کی ضرورت نہیں لیکن ماوراء میں ضروری ہے۔۔
۷۔ اعراب۔ یہ بغیر سوچے سمجھے لگا دئے جاتے ہیں۔ جس طرح ہم ہاتھ سے لکھتے ہیں تو اعراب آخر میں لکھتے ہیں، کمپیوٹر پر اس طرح درست نہیں۔ ’گُل‘ کی درست صورت ہے گال، پیش اور پھر لام۔
اور جیسا میں نے کہا ہے کہ بھ پھ تھ مرکب حروف ہیں، اسی طرح ان پر اعراب ہوگا تو مکمل مرکب حرف کے بعد آئے گا۔ ’بھُلانا‘ میں با کے بعد پیش اور پھر دو چشمی ھ ٹائپ کرنا غلط ہے۔ درست ہے ب، ھ، پیش، ل۔۔۔۔
۸۔ تنوین کا عدم استعمال۔ اس باعث ہمری لغت میں ’عموما‘ اور ’فورا‘ الفاظ شامل ہو گئے تھے،
۹۔ کھڑا زبر کا استعمال۔ یہ محض ی کے ساتھ مخصوص ہے، اس وجہ سے یہ ہمہشہ ’یٰ‘ لکھی جانی چاہیے۔ چاہے تلفظ میں ’آ‘ کی آواز کسی حرف پر ہو۔ چنانچہ لیلیٰ اور موسیٰ درست ہے۔ لیلٰی اور موسٰی۔ یعنی ل ی ل کھڑا زبر ی غلط ہے، ل ی ل ی کھڑا زبر درست
م و س کھڑا زبر ی غلط۔ م و س اور ی اور پھر کھڑا زبر درست۔
۱۰۔ اسی طرح فتحی تنوین بھی الف کے ساتھ مخصوص ہے، ا میں الف کے بعد دو زبر ہونے چاہئیں، ان سے پہلے نیں۔ چنانچہ فوراً ف و ر ا اور دو زبر) درست ہے لیکن فورًا غلط۔ (ف و ر دو زبر اور بعد میں الف)
۱۱، یہی عالم شدّہ کا بھی ہے، جس حرف پر تشدید ہو، اسی پر لگائی جائے۔ آگے پیچھے نہیں۔

السلام علیکم سر
میں بہت دنوں سے آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہ رہی تھی اتنی اچھی پوسٹ کے لئے۔ مجھے اپنی بہت ساری غلطیوں کا پتہ چلا ۔۔ اور تصحیح بھی ہو گئی۔
بہت بہت شکریہ
 

فرحت کیانی

لائبریرین
فاتح آپ کا بھی بہت بہت شکریہ اتنی مفید پوسٹس کے لئے۔۔کتنی ہی نئی باتیں پتہ چلی ہیں اس دھاگے پر ہونے والی گفتگو سے۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ مجھے " ۂ " ٹائپ کرنا آ گیا ہے :)
 

الف عین

لائبریرین
چلئے اچھا ہوا کہ کئی لوگوں کو درست املاء معلوم ہو گئی۔ مجھ سے زیادہ بہتر اور مفیس پوسٹس تو شارق، وارث اور فاتح کی تھیں یہاں۔
ہاں ایک اور اضافہ کرنے کا سوچا تھا مگر بھول گیا۔
میرا یہ بھی مشاہدہ ہے کہ جہاں حرف ’و‘ بطور لفظِ ربط استعمال کیا جاتا ہے وہاں اکثر اس ’و‘ کو پچھلے لفظ سے ملا دیا جاتا ہے یا اگلے لفظ سے، اس پر منحصر کہ کون سا لفظ اس ’س‘ سے مل کر دوسرہ شکل اختیار کر لیتا ہے۔ مثلآ ’رنگ و بو‘ در اصل تین الفاظ ہیں
رنگ
و بمعنی اور
بو
اب اسے رنگو بو تو لکھنا غلط ہو جائے گا، اس لئے لوگ لکھتے ہیں رنگ۔ سپیس، وبو۔ لیکن اس طرح ایک نیا لفظ پیدا ہو جاتا ہے ’وبو‘ جو کوئی لفظ نہیں۔
لیکن میں نے مکمل در و دیوار جیسے تین الفاظ کی ترکیب کو بھی بطور ایک لفظ پایا ہے۔ درودیوار۔ یہ دیکھنے میں املا کی غلطی نہلیں، لیکن کمپیوٹنگ کے حساب سے غلطی ہے کہ ہمارا سپیل چیکر اسے غلط ہی قرار دے گا کہ اس کی لغت میں ’وبو‘ تو کم از کم نہیں‌ہوگا، غلطی سے درودیوار جگہ پا جائے تو بات دوسری ہے۔ میں نے تو تصحیح کر کے اس قسم کے الفاظ نکال دئے ہیں اس فہرست سے۔
 

m.mushrraf

محفلین
۷۔ الف کے آخر میں ہمزہ کا استعمال کہیں کہیں زائد بھی دیکھا گیا ہے۔ اور یہاں بھی اضافت کااستعمال غلط ہے۔ہوتی ہے تو ’ئے‘ استعمال کیا جانا چاہئے۔ ’فضاءِ بسیط‘ غلط، فضائے بسیط درست۔ بہت سے الفاظ میں آخر میں ہمزہ کی ضرورت نہیں، لیکن اس کاکوئی رہنما اصول میرے علم میں نہیں۔ کہ ’شرکاء‘ درست ہے اور شرکا‘ غلط، لیکن ’شعرا‘ بھی درست ہے، مگر جمع میں ’شعرائے کرام‘۔ فضا میں بھی ہمزہ کی ضرورت نہیں لیکن ماوراء میں ضروری ہے۔۔

السلام عليكم و رحمة الله و بركاته

مین یہاں الف ممدودہ کے املا کے حوالہ سے ایک بات کی تحقیق چاہتا ہوں۔ جسے میں نے بطور اقتباس اوپر نقل کیا ہے۔

الف ممدودہ کے املا کا قاعدہ میں نے ایک سائٹ پر پڑھا۔ چناچہ صاحب مقالہ کہتے ہیں کہ :

٭ ھمزہ الف کا قائم مقام ہے ایسے عربی الفاظ جن کے آخر میںالف کے بعد ءآتا ہو انہیں اردو املا لکھتے وقت بلا ھمزہ لکھنا درست ہے۔جیسے اقرا،ضیا،شعرا،وغیرہ۔
کیا اس بات کو صحیح تسلیم کیا جا سکتا ہے؟
دوسری بات یہ کہ شرکا کے غلط اور صرف شرکاء کے صحیح ہونے اور شعرا کے درست ہونے کی کیا وجہ ہو گی جبکہ دونوں عربی الاصل ہیں اور ہم وزن بھی؟

کیا یہ سماع کی بنیاد پر ہے؟
 

الف عین

لائبریرین
اس وقت جب یہ لکھا تھا تو ذہن میں کیا تھا، اب یاد تو نہیں۔ لیکن میں یہ سوچتا رہا ہوں کہ جب ایسے الٍفاط کے ساتھ کوئی اور الفاظ آئیں، تو اس سے معلوم ہونا چاہئے کہ کیا درست ہے۔ شعرائے کرام درست ہے، اس سے لگا کہ شاید شعراء ہمزہ کے ساتھ صحیح ہوگا، لیکن شرکائے محفل نہیں ہوتا، اس لئے شرکا درست ہونا چاہئے۔
 

فاتح

لائبریرین
الف اور ہمزہ دراصل ایک ہی ہیں۔
عربی نحو کے قواعد کے مطابق چونکہ لفظ کے آخری حرف پر کوئی نہ کوئی حرکت ضرور ہوتی ہے کہ اس سے زمانے اور ضمیر وغیرہ کا تعین ہوتا ہے لیکن اگر آخری حرف الف ہو تو اس پر حرکت ڈالنے سے الف گر جائے گا اور یہی وجہ ہے کہ عربی املا میں الف کے بعد ہمزہ کا مقصد محض حرکت کے لیے کوئی پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے۔
جب کہ اردو میں لفظ کا آخری حرف ساکن ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے اردو املا میں عربی کے برعکس الف کے بعد ہمزہ کی ضرورت نہیں رہتی۔
لیکن اردو میں بھی جہاں کسی لفظ کے آخر حرکت کی ضرورت پڑے گی اور اس کے آخر میں الف ہو تو وہاں الف کے بعد ہمزہ کا اضافہ درست ہو گا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
پہلے میں اردو دوست کی بورڈ استعمال کر رہا تھا، لیکن اردو دوست ونڈوز 7 پر کام نہیں کر رہا۔

اب میں نے Urdu Phonetic 1.0 اور Urdu PakSign Keyboard دونوں استعمال کرکے دیکھا ہے لیکن کسی طرح ہ اور حمزہ ساتھ نہیں لکھ پا رہا ہوں۔ میں نے اس تھریڈ میں موجود تقریباً ساری ہی keys combination استعمال کرکے دیکھ چکا ہوں۔

کیا کسی دوست کے پاس اس کا کوئی حل ہے؟
 
اس قدر معلوماتی دھاگہ سرچ کرتے کرتے یہاں تک پہنچا دیکھا تو نہ صرف کئی الفاظ کا درست املا معلوم ہوا بلکہ اور بھی بہت کچھ جاننے کو ملا ۔
جزاک اللہ چاچو۔۔۔۔فاتح بھائی ۔۔۔۔اور دیگر اس بحث میں حصہ لینے والے محفلین۔
 
لفظ "عوام"۔۔۔ ۔۔مذکر ہے یا مونث ۔۔۔ ۔۔اساتذہ نے اس کو کیسے استعمال کیا ۔۔۔ ۔میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ یہ ہے مذکر لیکن لوگ غلطی سے مونث استعمال کرتے ہیں ؟؟؟؟
میں نے یہ سوال استاد محترم جناب یعقوب آسی صاحب سے دریافت کیا تھا جس کا انھوں نے تسلی بخش جواب مجھے دیا ۔دیگر محفلین کا بھی فائدہ ہو اس لئے میں استاد محترم کے جواب کو یہاں پوسٹ کر رہا ہوں ۔
۔۔۔۔۔۔
استاذ محترم کا جنابمحمد یعقوب آسی صاحب کا جواب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عربی قواعد کے مطابق ’’عوام‘‘ جمع ہے ’’عام‘‘ کی جو مذکر ہے۔ تاہم یہ ضروری نہیں کہ عربی کا ہر مؤنث اردو میں بھی مؤنث ہوگا۔
آپ کا دوست ٹھیک کہہ رہا ہے، آسان سی بات ہے اس کو ’’لوگ‘‘ کے طور پر لیجئے۔ لوگ کہتے ہیں، نہ کہ لوگ کہتی ہے یا کہتا ہے یا کہتی ہیں۔ اردو میں ’’عوام‘‘ جمع مذکر (بہ صورت واحد) ہے: عوام کہتے ہیں درست ہے نہ کہ عوام کہتی ہے یا کہتا ہے یا کہتی ہیں۔ اور ہاں! ’’عوام‘‘ کو ’’لوگوں‘‘ پر محمول کر کے ’’عواموں‘‘ بھی نہیں بنایا جا سکتا۔

معروف درست استعمال کی کچھ مثالیں:۔
لوگوں کو بہت سی مشکلات درپیش ہیں،عوام کو بہت سی مشکلات درپیش ہیں۔
لوگوں کو کون پوچھتا ہے، عام آدمی کو کون پوچھتا ہے، عوام کو کون پوچھتا ہے۔
ضروری نہیں کہ عوام ہمیشہ سچائی پر ہوں، لوگ ہمیشہ سچائی پر ہوں، عام آدمی ہمیشہ سچائی پر ہو۔
عوام کی حالت اچھی نہیں ہے، لوگوں کی حالت اچھی نہیں ہے۔

مزید: ۔۔۔ ہم لوگ، وہ لوگ، تم لوگ ۔ ایسے مرکبات میں قواعدی حیثیت ’’لوگ‘‘ سے اسم ضمیر (ہم، تم، وہ) پر منتقل ہو جاتی ہے۔
 

منصور مکرم

محفلین
آصف کی جمع کردہ اردوالفاظ کی فہرست کی روشنی میں میں نے ارکانِ محفل کی املا کی اغلاط کے بارے میں کچھ مشاہدات کئے ہیں۔ یہ یہاں پیش کر رہا ہوں تاکہ ارکان ان کا آئندہ خیال رکھیں۔
۱۔ پہلی بات یہ کہ اب جب اردو کمپیوٹنگ اور املا کی پڑتال کے دور میں آ چکی ہے، تو اس کا خیال ضرور رکھا جائے کہ ہر دو لفظ کے درمیان فضا یا سپیس دیا جائے۔ ہماری مذکورہ فہرست میں کئی کئی فقرے ایک لفظ کے طور پر پہچانے گئے ہیں۔ وجہ محض یہ کہ ے، و، ر وغیرہ حروف اگلے حروف سے جُڑتے نہیں تو لکھنے والے سپیس دینے کا خیال نہیں رکھتے۔ ’آنےکےلئےاورجانےکےلئے‘ کیا ایک لفظ مانا جائے گا؟ فضا نہ دی جائے تو یہ غلط فہمی ممکن ہے۔
۲۔ اسی طرح اکثر ایک ہی لفط کو توڑنا بھی عام طور پر دیکھا گیا ہے۔ ’اصول‘ کو ’اصو‘ اور ’ل‘ لکھا گیا تو ’اصو‘ ایک لفظ کے طور پر سامنے آیا کہ درمیان میں سپیس تھی۔ اور ’اصو‘ کوئی لفظ نہیں ہوتا۔ اس کا خیال رکھیں کہ ا یک ہی لفظ کے درتمیان میں فضا نہ دی جائے۔
۳۔ ہمزۂ اضافت کا ستعمال۔ یہ یہاں ہی نہیں اکثر کمپوزرس کی بھی عام غلطی ہے جس کی طرف اکثر نشان دہی کرتا رہا ہوں۔ نالۂ دل کو نالہء دل نہ لکھا جائے۔ اسی طرح اوپر ہمزہ میرے ناچیز خیال میں اردو حرف نہیں ہے، اردو میں ہمزہ محض الف (مثلاً ’جرأت‘) ’ہ‘ یا ’و‘ پر لگتی ہے، اور یہ تینوں کیریکٹرس الگ سے شامل ہیں ہی، اور ہر فانٹ میں ایک ہی کنجی سے بنائے جا سکتے ہیں۔ پھر کیا مشکل ہے؟
اس سلسلے میں ایک رہنما اصول کی نشان دہی بھی کرتا جاؤں۔ ’ۂ‘ محض وہاں استعمال ہوتی ہے جہاں ’ہ‘ کی آواز الف کے مماثل ہوتی ہے۔ جہاں اس کی آواز ’ہ‘ جیسی ہی ہو، وہاں کسرہ درست ہے، چناچہ ’راۂ وفا‘ غلط، ’راہِ وفا‘ درست۔ ’جلوہِ‘ غلط ’جلوۂ‘ درست۔ ’جلوہ گاہِ وصال‘ درست، جلوہ گاۂ وصال‘ غلط۔
۴۔ ہر لفظ میں ہمزہ (جسے کمپیوٹنگ میں ہمزہ ی ہی استعمال کیا جاتا ہے) کے بعد ی لگانا ضروری نہیں۔ اور یہ بھی عام غلطی میں نے پائی ہے۔ ’آئندہ‘ درست ہے، آئیندہّ غلط۔ یہی نہیں ہندی النسل الفاظ میں بھی کبھی کبھی ہمارے ارکان ایک ی زائد ٹائپ کرتے ہیں۔ ’آئیے‘ لکھنا ہی کافی ہے، لیکن اس کی مختلف صورتیں جو پائی جاتی ہیں، وہ ہیں۔
آیئے۔ اسکو میں نے عارضی طور پر درست مان لیا ہے ورنہ ’ی‘ کا ’ہمزہ‘ سے پہلے کوئی جواز نہیں۔
آیئیے
آئیئے
آیئیے
یہ غلط ہیں۔
انگریزی النسل الفاظ میں میں نے سب کو قبول کر لیا ہے۔ آئڈیا، آئیڈیا، آیئڈیا۔۔ سب کو مان لیا جائے۔
۵۔ ہ کی جگہ ھ کا استعمال۔ درست یہ کہ اردو میں ھ مفرد استعمال ہی نہں ہوتی، محض بھ، پھ، تھ کھ گھ وغیرہ میں ہی ھ کی ضرورت ہے۔ عربی الفاظ میں نسخ کی صورت میں ھ بھی دو چشمی کی طرح لگتی ہے تو یہ غلط فہمی بھی پیدا ہو جاتی ہے کہ ’ابراھیم‘ درست ہے نا کہ ’ابراہیم‘ (مثال کے طور پر۔
۶۔ ز کی جگہ ذ کا استعمال بھی عام پایا گیا ہے۔ ‘مذید‘ غلط، ’مزید‘ درست۔
۷۔ الف کے آخر میں ہمزہ کا استعمال کہیں کہیں زائد بھی دیکھا گیا ہے۔ اور یہاں بھی اضافت کااستعمال غلط ہے۔ہوتی ہے تو ’ئے‘ استعمال کیا جانا چاہئے۔ ’فضاءِ بسیط‘ غلط، فضائے بسیط درست۔ بہت سے الفاظ میں آخر میں ہمزہ کی ضرورت نہیں، لیکن اس کاکوئی رہنما اصول میرے علم میں نہیں۔ کہ ’شرکاء‘ درست ہے اور شرکا‘ غلط، لیکن ’شعرا‘ بھی درست ہے، مگر جمع میں ’شعرائے کرام‘۔ فضا میں بھی ہمزہ کی ضرورت نہیں لیکن ماوراء میں ضروری ہے۔۔
۷۔ اعراب۔ یہ بغیر سوچے سمجھے لگا دئے جاتے ہیں۔ جس طرح ہم ہاتھ سے لکھتے ہیں تو اعراب آخر میں لکھتے ہیں، کمپیوٹر پر اس طرح درست نہیں۔ ’گُل‘ کی درست صورت ہے گال، پیش اور پھر لام۔
اور جیسا میں نے کہا ہے کہ بھ پھ تھ مرکب حروف ہیں، اسی طرح ان پر اعراب ہوگا تو مکمل مرکب حرف کے بعد آئے گا۔ ’بھُلانا‘ میں با کے بعد پیش اور پھر دو چشمی ھ ٹائپ کرنا غلط ہے۔ درست ہے ب، ھ، پیش، ل۔۔۔ ۔
۸۔ تنوین کا عدم استعمال۔ اس باعث ہمری لغت میں ’عموما‘ اور ’فورا‘ الفاظ شامل ہو گئے تھے،
۹۔ کھڑا زبر کا استعمال۔ یہ محض ی کے ساتھ مخصوص ہے، اس وجہ سے یہ ہمہشہ ’یٰ‘ لکھی جانی چاہیے۔ چاہے تلفظ میں ’آ‘ کی آواز کسی حرف پر ہو۔ چنانچہ لیلیٰ اور موسیٰ درست ہے۔ لیلٰی اور موسٰی۔ یعنی ل ی ل کھڑا زبر ی غلط ہے، ل ی ل ی کھڑا زبر درست
م و س کھڑا زبر ی غلط۔ م و س اور ی اور پھر کھڑا زبر درست۔
۱۰۔ اسی طرح فتحی تنوین بھی الف کے ساتھ مخصوص ہے، ا میں الف کے بعد دو زبر ہونے چاہئیں، ان سے پہلے نیں۔ چنانچہ فوراً ف و ر ا اور دو زبر) درست ہے لیکن فورًا غلط۔ (ف و ر دو زبر اور بعد میں الف)
۱۱، یہی عالم شدّہ کا بھی ہے، جس حرف پر تشدید ہو، اسی پر لگائی جائے۔ آگے پیچھے نہیں۔
انکل اکثر اوقات یہ کی بورڈ کے سبب بھی ہوتا ہے،ہم جب اردو فونیٹیک کی بورڈ استعمال کرتے ہیں ایم بلال ایم والا ،تو وہاں جس بٹن سے زبر لکھا جاتا ہے ،اردو محفل کے پیڈ میں اسی لفظ سے زیر لکھا جاتا ہے۔

اسی طرح جو باریک الفاظ ہم وہاں سمجھ لیتے ہیں لیکن جب یہاں اتے ہیں تو وہ باریکیاں کسی دوسرے بٹن سے ادا ہوتی ہیں۔جسکی وجہ سے بندہ کنفیوز ہوجاتا ہے۔ اور اردو میں اغلاط رہ جاتی ہیں۔
 
پہلے میں اردو دوست کی بورڈ استعمال کر رہا تھا، لیکن اردو دوست ونڈوز 7 پر کام نہیں کر رہا۔

اب میں نے Urdu Phonetic 1.0 اور Urdu PakSign Keyboard دونوں استعمال کرکے دیکھا ہے لیکن کسی طرح ہ اور حمزہ ساتھ نہیں لکھ پا رہا ہوں۔ میں نے اس تھریڈ میں موجود تقریباً ساری ہی keys combination استعمال کرکے دیکھ چکا ہوں۔

کیا کسی دوست کے پاس اس کا کوئی حل ہے؟

ہمزہ (حمزہ نہیں) لکھنے کا ’’ٹوٹکا‘‘ جو میں چلاتا ہوں:
اپنے کمپیوٹر کا کی بورڈ ’’انگلش۔یو ایس‘‘ پر سیٹ کیا۔ ہمزہ اکیلا لکھنا مقصود ہے تو ’’شفٹ۔یو‘‘ دبایا: ۔۔ ء ۔۔ یہ ہمزہ اپنے آگے پیچھے آنے والے حروف سے جُڑتا نہیں: قصہءغم، طوطیء شکر مقال، سوءِ ادب (املاء میں اگلے پچھلے حروف سے جڑنے والا ہمزہ مقصود ہے تو بغیر شفٹ دبائے ’’یو‘‘ دبایا: ستائیس، تیئیس، اپنے تئیں، کئی؛ وغیرہ)۔
الف، ے، ی، ہ وغیرہ کے اوپر چھوٹا سا ہمزہ لکھنا مقصود ہو تو اپنے کمپیوٹر کا کی بورڈ ’’اردو۔فونیٹک 01‘‘ پر سیٹ کیا۔ اور ’’شفٹ۔7‘‘ دبایا: والیٔ لاہور، مۓ لالہ فام، جملۂ معترضہ؛ وغیرہ۔ یہ اپنے مابعد سے نہیں جڑتا۔

آداب
 
میرا مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ (تبدیل شدہ) سیٹ اپ میں یہاں :: (1) رومن عبارت کیسے لکھی جائے۔ اور (2) عربی خط میں کیسے لکھا جائے۔
فی الحال میں ’’اردو کی بورڈ۔ڈاٹ۔کام‘‘ سے کام چلا رہا ہوں۔

الف عین
 
Top