شمشاد

لائبریرین
ادب نے دل کے تقاضے اٹھائے ہیں کیا کیا
ہوس نے شوق کے پہلو دبائے ہیں کیا کیا

اسی فریب نے مارا کہ کل ہے کتنی دور
اس آج کل میں عبث دن گنوائے ہیں کیا کیا

پیامِ مرگ سے کیا کم ہے مژدہ ناگاہ
اسیر چونکتے ہی تلملائے ہیں کیا کیا

پہاڑ کاٹنے والے زمیں سے ہار گئے
اسی زمین میں دریا سمائے ہیں کیا کیا

بلند ہو تو کھلے تجھ پہ زور پستی کا
بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا

خوشی میں اپنے قدم چوم لوں تو زیبا ہے
وہ لغزشوں پہ مری مسکرئے ہیں کیا کیا

خدا ہی جانے یگانہ میں کون ہوں کیا ہوں
خود اپنی ذات پہ شک دل میں آئے ہیں کیا کیا
(یگانہ چنگیزی)​
 
Top