اختیارات مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم

جیلانی

محفلین
اختیارات مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

انما انا قاسم والله يعطی.

(بخاری شريف، ج : 1، ص : 16)


اللہ تعالیٰ مجھے دینے والا ہے اور میں تقسیم کرنے والا ہوں۔

علماء کرام فرماتے ہیں یہ حدیث پاک مطلق تقسیم کرنے کے حوالے سے ہے۔ اس میں یہ نہیں فرمایا کہ جب تک میں حیات ظاہری کے ساتھ زندہ ہوں تو تقسیم کرنے والا ہوں بلکہ حیات برزخی یعنی روحانی طور پر تقسیم بھی میں کرتا ہوں۔ معلوم ہوا کہ والله يعطی اللہ تعالیٰ دیتا ہے کیا کیا دیتا ہے بیان نہیں کیا، چونکہ ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہے وہ جو چیز بھی کسی کو دیتا ہے تو بدست مصطفی ٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عطا کرتا ہے۔

جب یہ معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تقسیم کرنے والے ہیں تو تقسیم کرنے والے کو مجازا عطا کرنے والا کہا جاتا ہے آپ اپنے معاشرے میں مشاہدہ کریں جب بھی کوئی چیز تقسیم کی جاتی ہے تو لوگ اس سے مانگتے ہیں کہ زیادہ دو یا مجھے بھی دو وغیرہ اگرچہ چیز کسی اور کے حکم پر دی جاتی ہے۔

چونکہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام تمام اکابرین امت کے نزدیک اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں جیسا کہ حدیث مبارک میں بیان کیا گیا ہے :

ان الله حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبياء فنبی الله حی.

(سنن ابی داؤد، ج : 1، ص : 275)


بیشک اللہ تعالیٰ نے نبیوں کے اجسام کو زمین پر حرام کر دیا ہے پس اللہ کے نبی زندہ ہیں۔

دوسری حدیث پاک میں ہے :

حياتی خير لکم و مماتی خير لکم.

(سنن نسائی، ج : 1، ص : 189)


میری حیات بھی تمہارے لیے بہتر ہے اور میری وفات بھی تمہارے لیے بہتر ہے۔

اسی طرح فرمایا تمہارے اعمال مجھ پر پیش کیے جاتے ہیں اگر نیک اعمال ہوں تو میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں اور اگر برے ہوں تو میں تمہارے لیے مغفرت طلب کرتا ہوں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دائرہ ماذونیت میں مختار کل ہیں۔ دائرہ ماذونیت سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذن اور اختیار دیا گیا ہے۔

بعض کلمات کا اطلاق بعض مقامات میں مختلف معنی دیتا ہے۔ مثلاً لفظ کل جب اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہو گا تو حقیقی معنی میں ہو گا مگر جب یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی مقرب بندہ کے لیے استعمال ہوگا تو اضافی معنی میں ہوگا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے مختار کل کا لفظ اسی معنی میں مراد لیا جاتا ہے۔ جب یہی لفظ کل مخلوق کے لیے ہو تو اس کے اطلاقات درجہ بدرجہ بدلتے رہتے ہیں۔ مثلاً ایک چیز کسی دوسری چیز کے مقابلے میں کل ہے تو وہی چیز کسی دوسرے کے مقابلے میں جزو بھی ہوسکتی ہے۔

انسانی علم جتنا بھی لامحدود اور وسیع ہوجائے وہ ماکان اور وما یکون کی حدود کے اندر ہی رہتا ہے، اس سے آگے اس کی حدیں ختم ہو جاتی ہے۔ یہی کل انسانی علم جب حضور تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابلے میں رکھا جائے گا تو مخلوق کا سارا علم حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے مقابلے میں جزو ہو گا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم تمام مخلوق کے مقابلے میں کل ہو گا۔ مگر جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کل علم معبود الٰہی کے مقابلے میں لایا جائے گا تو یہ جزو ہوگا۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے سارے اختیارات آپ علیہ السلام کے دائرہ ماذونیت میں ہیں، جس میں آپ مختار کل ہیں۔

علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں :

وقد اقامه الله مقام نفسه فی امره ونهيه واخباره و بيانه.

(ابن تيميه، الصارم المسلول علی شاتم الرسول : 41)

اللہ رب العزت نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو امر، نہی اور خبر دینے اور بیان کرنے میں اپنا نائب مقرر کیا ہے۔
 

مبشر شاہ

محفلین
میرے آقا ﷺزندہ ہیں
[ARABIC]قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فِيهِ خُلِقَ آدَمُ وَفِيهِ قُبِضَ وَفِيهِ النَّفْخَةُ وَفِيهِ الصَّعْقَةُ فَأَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنْ الصَّلَاةِ فِيهِ فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيَّ قَالَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَيْكَ وَقَدْ أَرِمْتَ يَقُولُونَ بَلِيتَ فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ[/ARABIC]
(سنن ابی داؤد،کتاب الصلاۃ ،باب فضل یوم الجمعۃو لیلۃ الجمعۃ،رقم الحدیث ۸۸۳)
(تفرح ابواب الجمعة،باب فضل يوم الجمعة وليلة الجمعة(باب: جمعے کے دن اور اس کی رات کی فضیلت)حدیث نمبر : 1047)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تمہارے افضل ایام میں سے جمعے کا دن ہے۔ اس میں آدم پیدا کیے گئے، اسی میں ان کی روح قبض کی گئی، اسی میں «نفخة» دوسری دفعہ صور پھونکنا) ہے اور اسی میں «صعقة» ہے (پہلی دفعہ صور پھونکنا، جس سے تمام بنی آدم ہلاک ہو جائیں گے) سو اس دن میں مجھ پر زیادہ درود پڑھا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔“صحابہ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! ہمارا درود آپ پر کیوں کر پیش کیا جائے گا حلانکہ آپ بوسیدہ ہو چکے ہوں گے۔ (یعنی آپ کا جسم) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ عزوجل نے زمین پر انبیاء کے جسم حرام کر دیے ہیں۔“
حدیث سے ماخوذ مسائل
جمعہ کے دن پڑھا ہوا درود میرے آقاﷺ کی بارگاہ میں پیش کیا جاتا ہے ۔
انبیاء قبروں میں زندہ ہیں ۔
 

شمشاد

لائبریرین
بیشک اللہ تعالیٰ نے نبیوں کے اجسام کو زمین پر حرام کر دیا ہے پس اللہ کے نبی زندہ ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبیوں کے اجسام کو زمین پر حرام کر دیا ہے یعنی کہ مٹی انبیاء کرام کے اجسام کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔

لیکن اس سے یہ نتیجہ کیسے نکلتا ہے کہ اللہ کے نبی زندہ ہیں؟

جبکہ اللہ تعالٰی کا قرآن میں فرمان ہے :

کلُ نفس ذائقۃ الموت۔
 
اگر شہید (جو ایک امتی ہے) کو مردہ کہنے سے قرآن نے منع کیا ہے تو انبیاء کا کیا مقام ہوگا۔۔۔کل نفس ذائقۃ الموت والی آیت برحق ہے، اور شہید کیلئے بھی ہے، شہید بھی یہ ذائقہ چکھتا ہے، لیکن اسکے باوجود قرآن کہتا ہے کہ
" جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے انہیں مردہ مت سمجحو ، وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کی جانب سے انہیں رزق دیا جاتا ہے"
اور دوسری آیت میں ہے کہ
" جو الوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے، انہیں مردہ مت کہو، وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں اسکا شعور نہیں ہے"
قرآن تو یہ کہ رہا ہے کہ ان لوگوں (شہداء) کو مردہ کہنا تو درکنار انہیں مردہ سمجھنا بھی مت۔۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
قرآن کا فرمان برحق ہے لیکن نبی اور شہید کا کیا مقابلہ۔

جب قرآن کہتا ہے کہ "۔۔۔۔۔ لیکن تمہیں اسکا شعور نہیں ہے" تو پھر آپ کو اس کا شعور کیونکر ہوا؟

اور ان آیات سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء کرام زندہ ہیں؟
 

عمرمختارعاجز

لائبریرین
محمود بھایی اور شاہ صاحب نے بالکل ٹھیک کہا ہے۔سنتا وہی ہے جو زندہ ہو ۔
ویسے یہ بڑی لمبی بحث ہے ۔
"تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ ۔میری چشم عالم سے چھپ جانے والے"
انبیاء کی زندگی پر قرآن وحدیث میں بہت سے دلایل موجود ہیں۔
 

عمرمختارعاجز

لائبریرین
شمشاد بھایی آیت تو شاہ صاحب نے لکھی ہے۔ذرا اس پر غور فرماییں اور مستند مفسرین کی تفاسیر پڑھیں آپ پر یہ بات واضح ہو جاے گا۔
معلومات کے لیے یہ معلوماتی رسالہ پڑھ لیں ۔ڈاونلوڈ
 

شمشاد

لائبریرین
شمشاد بھایی آیت تو شاہ صاحب نے لکھی ہے۔ذرا اس پر غور فرماییں اور مستند مفسرین کی تفاسیر پڑھیں آپ پر یہ بات واضح ہو جاے گا۔
معلومات کے لیے یہ معلوماتی رسالہ پڑھ لیں ۔ڈاونلوڈ

بھائی جی مجھے تو شاہ صاحب کی لکھی ہوئی کوئی آیت نظر نہیں آئی۔ آپ کون سی آیت کی بات کر رہے ہیں؟

جو رسالہ آپ نے بتایا ہے۔ اس کے پہلے دو صفحے پڑھ لیں۔ جس میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا ذکر ہے۔ "ترجمہ : پس جب ہم نے سلیمان پر موت کا فیصلہ نافذ کر دیا تو آپ کی موت کا پتہ ۔۔۔۔۔"

اللہ تعالٰی موت کا فیصلہ نافذ فرما رہا ہے اور آپ ان کو زندہ ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔

انا للہ و انا الیہ راجعون۔
 

عمرمختارعاجز

لائبریرین
شمشاد بھایی غلطی سے کہہ گیا وہ حوالہ محمود بھایی نے دیا تھا صرف دو صفحے پڑھنے سے فیصلہ تو نہیں ہو جاتا پورا رسالہ پڑھیں۔
 

شاکر

محفلین
[ARABIC]وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي سَبِيلِ اللَّ۔هِ ثُمَّ قُتِلُوا أَوْ مَاتُوا لَيَرْزُقَنَّهُمُ اللَّ۔هُ رِزْقًا حَسَنًا وَإِنَّ اللَّ۔هَ لَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ﴿٥٨﴾[/ARABIC]
اور جن لوگوں نے راه خدا میں ترک وطن کیا پھر وه شہید کر دیئے گئے یا اپنی موت مر گئے اللہ تعالیٰ انہیں بہترین رزق عطا فرمائے گا۔ اور بیشک اللہ تعالیٰ روزی دینے والوں میں سب سے بہتر ہے


گویا اپنی موت مرنے والوں کو بھی اللہ رزق عطا فرما رہا ہے تو گویا مردہ تو کوئی ہوا ہی نہیں۔ ہر نیک بندہ ہی مرنے کے بعد زندہ ہو جاتا ہے۔
لیکن یہ زندگی برزخی ہے، دنیاوی نہیں۔ برزخی زندگی کی کیفیت ہمیں نہیں معلوم۔
حیات سے متعلقہ آیات و احادیث کو اگر برزخی دنیا کے مطابق مان لیا جائے اور وفات سے متعلقہ آیات و احادیث کو اگر دنیاوی زندگی کے مطابق مان لیا جائے تو کہیں کوئی اشکال نہیں رہتا۔
اس کے بجائے، موت کو فقط ایک آن کے لئے مان کر قبر میں بھی انبیاء کے لئے دنیاوی زندگی کا اثبات کیا جائے تو کئی طرح کے ناقابل حل اشکالات اور ناقابل جواب سوالات پیدا ہو جاتے ہیں۔
شہید بھی دنیاوی طور پر زندہ نہیں، بلکہ برزخ کے کسی بہتر مقام پر زندہ ہیں، جس کا ہمیں شعور و استدراک نہیں۔
جبکہ خصوصاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تو قرآن کریم سے صراحتاً ثابت ہے۔ اور یاد رہے کہ موت انبیاء کے لئے ہرگز کسی قسم کی توہین بھی نہیں۔


[ARABIC]وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّن قَبْلِكَ الْخُلْدَ أَفَإِن مِّتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ ﴿٣٤كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ ﴿٣٥﴾[/ARABIC] الانبیاء: 34-35
اور (اے پیغمبر) ہم نے تم سے پہلے کسی آدمی کو بقائے دوام نہیں بخشا۔ بھلا اگر تم مرجاؤ تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے (۳۴) ہر متنفس کو موت کا مزا چکھنا ہے۔ اور ہم تمہاری آزمائش کرتے ہیں برائی اور بھلائی سے جانچنے کو اور ہماری ہی طرف تمہیں لوٹ کر آنا ہے


[ARABIC]وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّىٰ يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ ﴿٩٩﴾[/ARABIC] الحجر: 99
اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہئے یہاں تک کہ اسی حالت میں آپ کو موت آجائے۔




[ARABIC]إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ ﴿٣٠﴾[/ARABIC] الزمر: 30
یقیناً خود آپ کو بھی موت آئے گی اور یہ سب بھی مرنے والے ہیں۔


[ARABIC]وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّ۔هَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّ۔هُ الشَّاكِرِينَ﴿١٤٤﴾[/ARABIC] آل عمران: 144
اور محمد تو ایک رسول ان سے پہلے اور رسول ہوچکے تو کیا اگر وہ انتقال فرمائیں یا شہید ہوں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤں گے اور جو الٹے پاؤں پھرے گا اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا، اور عنقریب اللہ شکر والوں کو صلہ دے گا،


شمشاد بھایی آیت تو شاہ صاحب نے لکھی ہے۔ذرا اس پر غور فرماییں اور مستند مفسرین کی تفاسیر پڑھیں آپ پر یہ بات واضح ہو جاے گا۔
معلومات کے لیے یہ معلوماتی رسالہ پڑھ لیں ۔ڈاونلوڈ
مزید معلومات کے لئے آپ بھی یہ معلوماتی رسالہ پڑھ لیجئے۔
 

مبشر شاہ

محفلین
اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبیوں کے اجسام کو زمین پر حرام کر دیا ہے یعنی کہ مٹی انبیاء کرام کے اجسام کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
لیکن اس سے یہ نتیجہ کیسے نکلتا ہے کہ اللہ کے نبی زندہ ہیں؟
جبکہ اللہ تعالٰی کا قرآن میں فرمان ہے :
کلُ نفس ذائقۃ الموت۔
اس قسم کا سوال ہوا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ میرے انتقال ظاہری کے بعد بھی تمہارا پڑھا ہوا درودمجھ تک پہنچایا جائے گا اور پھر عالم الغیب نے اللہ کی عطا کردہ فراست سے جان لیا تھا کہ نسل انسانی اور بالخصوص مسلمانان پاک وہند میں سے کچھ لوگ یہ خیال رکھیں گے کہ بنی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ویسی ہی موت آئی ہے جیسی کہ عامۃ الناس کو آتی ہے سوال دوبارہ دیکھیں اور جواب بھی ملاحظہ فرمائیں
سوال
[ARABIC]وَقَدْ أَرِمْتَ يَقُولُونَ بَلِيتَ[/ARABIC]
صحابہ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! ہمارا درود آپ پر کیوں کر پیش کیا جائے گا حلانکہ آپ بوسیدہ ہو چکے ہوں گے۔
جواب
[ARABIC]فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ[/ARABIC]
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ عزوجل نے زمین پر انبیاء کے جسم حرام کر دیے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
شمشاد بھایی غلطی سے کہہ گیا وہ حوالہ محمود بھایی نے دیا تھا صرف دو صفحے پڑھنے سے فیصلہ تو نہیں ہو جاتا پورا رسالہ پڑھیں۔

محمود بھائی نے تو شہداء کے متعلق آیت کا حوالہ دیا ہے۔ انبیاء کرام کے زندہ ہونے کا تو کوئی حوالہ نہیں دیا۔ پھر آپ کس آیت کی بات کر رہے ہیں۔

مزید یہ کہ جب پہلے ہی صفحے پر قرآن سے فیصلہ سامنے آ گیا، پھر آگے پڑھنا چہ معنی دارد؟ کیا آپ اس آیت کو رسالے میں کہیں آگے جا کر جھٹلانا چاہتے ہیں؟
 

شمشاد

لائبریرین
انبیاء کرام اور شہداء کی بات تو چھوڑیں۔

قریباً ۶ یا ۷ دہائیاں قبل کی بات ہے، نارووال میں ایک ولی اللہ چن پیر کے نام سے تھے۔ ان کی وفات کے بعد انہیں دفن کر دیا گیا۔ جہاں انہیں دفن کیا گیا تھا، کئی سال بعد وہ جگہ دریا کے کٹاؤ کی وجہ سے دریا کا پانی اس قبرستان میں آ گیا۔ ان کے بیٹے کو خواب میں انہوں نے کہا کہ مجھے یہاں سے نکالو۔

ان کی قبر کشائی کی گئی تو ہزارہا آدمیوں نے دیکھا کہ ان کا جسم بلکل ویسے ہی تھا جیسے ابھی دفن کیا ہو۔ ان کے جسد خاکی کو وہاں سے نکال کر نارووال شہر میں دفن کیا گیا۔
آپ کو آج بھی وہاں کئی ایک ایسے بزرگ مل جائیں گے جنہوں نے یہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ ان کے بیٹے بھی وفات پا چکے ہیں۔ آجکل ان کے پوتے گدی نشین ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
شاکر بھائی نے اوپر قرآنی آیات کا حوالہ دیا ہے۔ اس کے بعد کسی رسالے یا کسی مضمون کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
قرآن کا فرمان برحق ہے لیکن نبی اور شہید کا کیا مقابلہ۔

جب قرآن کہتا ہے کہ "۔۔۔ ۔۔ لیکن تمہیں اسکا شعور نہیں ہے" تو پھر آپ کو اس کا شعور کیونکر ہوا؟

اور ان آیات سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء کرام زندہ ہیں؟
شمشاد بھائی قرآن پاک نے کیفیت حیات کے شعور کی نفی کی ہے نہ کہ خود حیات کی، بلکہ حیات پر تو قرآن و سنت دونوں واضح اور صریح ہیں کہ شہید زندہ ہوتے ہیں اور اللہ کے انبیاء بھی زندہ ہوتے ہیں۔ لہذا قرآن کی آیت کی رو سے شہدا کی زندہ ہونے کے شعور کی نفی نہیں کی جارہی بلکہ وہ(یعنی شہید ) زندہ کس طرح سے ہیں اس شعور کی نفی کی جارہی ہے۔ نیز قرآن نے اس کیفت حیات کے شعور کی مستقل نفی بھی نہیں کی بلکہ ایک جگہ فرمایا کہ وہ (شہید) زندہ ہیں اور انکو رزق بھی دیا جاتا ہے رزق دیا جانا بھی ایک کیفیت حیات ہے لہذا ہوسکتا ہے کہ اللہ کے بعض مقرب بندوں کو اس کی عطا سے اس کیفیت حیات کا بھی شعور حاصل ہوجاتا ہو باقی واللہ اعلم ورسولہ
 

صرف علی

محفلین
محمود بھائی نے تو شہداء کے متعلق آیت کا حوالہ دیا ہے۔ انبیاء کرام کے زندہ ہونے کا تو کوئی حوالہ نہیں دیا۔ پھر آپ کس آیت کی بات کر رہے ہیں۔

مزید یہ کہ جب پہلے ہی صفحے پر قرآن سے فیصلہ سامنے آ گیا، پھر آگے پڑھنا چہ معنی دارد؟ کیا آپ اس آیت کو رسالے میں کہیں آگے جا کر جھٹلانا چاہتے ہیں؟

میرے خیال سے شمشاد بھائی آپ فکر جس شہید کو زندہ صرف اس لئے بولا جا رہا ہے کے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کومانتے تھے ورنہ یہ بات ہر کسی کے لئے نہیں ہے جس کو ماننے کی وجہ سے ان کو اتنا بڑا درجہ ملا وہ کیا خود اس فرد کا درجہ ایک شہید سے کم ہوگا اعجب ۔دوسری اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کچھ نہیں سن سکتے بقول آپ کے آج بھی مسجد نبوى ميں پيغمبر اكرم (ص) كے مزار كے قريب آہستہ بولنا چاہيے كيونكہ قرآن مجيد نے حكم ديا ہے كہ '' يا ايّہا الذين آمنوا لا ترفَعُوا أصواتكم فَوقَ صوت النّبي ...'' (2) اور اس آيت كو تحرير كر كے پيغمبر اكرم (ص) كى ضريح پر نصب كيا ہوا ہے۔

دوسری بات جب خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحیح حدیث موجود ہے تو آپ کے اس صحیح حدیث کو ماننا پڑے گا۔
 
شاکر بھائی نے اوپر قرآنی آیات کا حوالہ دیا ہے۔ اس کے بعد کسی رسالے یا کسی مضمون کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
مجھے تو دھاگے میں کسی " شاکر بھائی صاحب" کا کوئی مراسلہ نظر نہیں آرہا۔۔آپ کس کی بات کر رہے ہیں؟ دوسری بات یہ کہ اگر کسی رسالے یا کسی مضمون کی گنجائش باقی نہیں رہتی تو یہاں اس اسلامی فورم کا کیا جواز ہے، بس قرآن پاک کا ترجمہ یہاں پوسٹ کردیجئے اور اسکے نیچے لکھ دیجئے کہ "اب کسی رسالے یا مضمون کی گنجائش باقی نہیں رہی"۔۔۔
بات اتنی سادہ نہیں ہے جتنی آپ سمجھ رہے ہیں اور نہ ہی اتنی پیچیدہ ہے کہ آپ سمجھ نہ سکیں۔۔۔جب کسی موضوع پر محدچین اور علمائے کرام (صوفیائے کرام کی بات فی الوقت رہنے دیں) نے کتابیں لکھی ہیں، تو اس وقت آپکا یوں ارشاد فرمان بڑی بچگانہ سی بات ہے کہ
بھائی جی مجھے تو شاہ صاحب کی لکھی ہوئی کوئی آیت نظر نہیں آئی۔ آپ کون سی آیت کی بات کر رہے ہیں؟

جو رسالہ آپ نے بتایا ہے۔ اس کے پہلے دو صفحے پڑھ لیں۔ جس میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا ذکر ہے۔ "ترجمہ : پس جب ہم نے سلیمان پر موت کا فیصلہ نافذ کر دیا تو آپ کی موت کا پتہ ۔۔۔ ۔۔"

اللہ تعالٰی موت کا فیصلہ نافذ فرما رہا ہے اور آپ ان کو زندہ ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔

انا للہ و انا الیہ راجعون۔
اگر آپکے سوچنے کا یہی انداز ہے تو اس رسالے کو چھوڑیں، اور قرآن پاک کی اس مذکورہ بالا آیت( جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے انہیں مردہ مت سمجحو ، وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کی جانب سے انہیں رزق دیا جاتا ہے) کو پڑھ کر کیا اب بھی آپ ایسا ہی کہیں گے کہ جب آیت کے پہلے حصے میں اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ "جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے" تو پھر اس کے بعد انکو زندہ کیوں کہیں؟ کیونکہ بقول آپکے :
اللہ تعالٰی موت کا فیصلہ نافذ فرما رہا ہے اور آپ ان کو زندہ ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔
 

شمشاد

لائبریرین
یہاں بات شہداء کی نہیں ہو رہی۔

اور شاکر صاحب کا مراسلہ اوپر موجود ہے۔ مراسلے کا نمبر ۱۲ ہے۔
 
Top