صابرہ امین

لائبریرین
معزز محفلین، السلام علیکم
یہ افسانہ لکھنے کی میری پہلی کوشش ہے۔ تمام صاحب علم لوگوں اور سینئرز سے تنقیدی و اصلاحی مدد کی گزارش ہے۔ میں مشکور ہوں گی اگر مجھے میری لکھی گئی نثر کی خوبیوں اور خامیوں سے آگاہ کیا جائے۔ اس طرح مجھے یقینا اچھا لکھنے کی ترغیب ہو گی۔ شکریہ



وہ اسکول وین سے اتری اور ہمیشہ کی طرح اس نے کام سے واپسی پر سبزی اور گوشت کی خریداری کی۔ پیاز، آلو، مٹر، ٹماٹر اور ہرا مسالہ ساتھ ہی قیمہ اور کباب کے لیے چھوٹی بوٹیاں۔ یہ بھاری تھیلا اٹھا کر وہ دو طویل گلیاں پار کر کے گھر کے دروازے پر پہنچی اور ہانپتے ہوئے گھر کی بیل بجائی۔ دورازہ گھر کی مستقل ملازمہ کے بجائے اس کی شادی شدہ نند نے کھولا۔ اس نے مسکرا کر سلام کیا تو اس کی نند نے حسب معمول بیزاری سے جواب دیا اور بجائے تھیلا اٹھانے یا کم از کم پوچھنے کے دروازہ کھول کر یہ جا وہ جا۔ سارہ نے ٹھنڈی آہ بھری اور اندر آ کے ساس کو سلام کیا جو سامنے آرام کرسی پر ہی بیٹھی تھیں ماسی رحمتے ان کے پاؤں میں مالش کر رہی تھی۔ سارہ کی ساس تو گویا اس کے انتظار میں ہی تھیں فورا بولیں، " بھئی کم از کم جلدی سے قیمہ چڑھا کر ساتھ ساتھ مٹر پلاؤ بنا لو ساتھ سویاں یا حلوہ، مونا کو آئے دو گھنٹے ہو چکے ہیں بس رحمتے چائے وغیرہ ہی بنا سکی ہے کہ میرے پیروں کی تکلیف آج کچھ بڑھ گئی ہے۔ فٹافٹ کھانا بنا لو بے چاری بھوکی ہو گی۔ اللہ جانے سسرال والوں نے کچھ کھانے دیا بھی یا نہیں۔ اب ہر ایک کی قسمت تو تم جیسی نہیں ہوتی کہ گھر بھر ہم نے تم پر چھوڑ رکھا ہے، سیاہ کرو یا سفید ۔۔ "

"جی امی ابھی بنا دیتی ہوں۔ سب سامان لے آئی ہوں آپ فکر نہ کیجیے۔"، اس نے گھبرا کر جلدی سے بات کاٹی اور کچن کا رخ کیا۔

سارہ کی شادی کو چھ سال بیت گئے تھے۔ تین بچوں کی ماں تھی۔ وہ شادی سے پہلے بھی نوکری کرتی تھی تو ساس کے زور دینے پر اس نے جاری رکھی کہ وہ ایک معقول تنخواہ پاتی تھی اس کے علاوہ اساتذہ کے بچے اس کے اسکول میں مفت تعلیم حاصل کرتے تھے۔ وہ شہر کے ایک مہنگے اسکول میں حساب پڑھاتی تھی۔ دیکھا جائے تو اسے نوکری کی چنداں ضرورت تو نہ تھی کہ اس کے شوہر نوید ایک بینک میں مناسب عہدے پر فائز تھے اور اس کی نوکری کے زیادہ حق میں نہ تھے، مگر ماں کے سمجھانے پر راضی ہو گئے تھے۔ ساس اس سے کم ہی بات کرتی تھیں مگر ماسی کے ہوتے ہوئے بھی سارا دن کاموں میں الجھائے رکھتیں۔ یہ سب بھی گوارہ تھا مگر جب مونا آ جاتی تو اس کی ساس مہمانداری کے ساتھ مونا کے سسرال کو صلاواتیں اور سارہ کو ایک جنت کا مکین ہونے کا بار بار باور کراتی جاتی تھیں۔

اس کی ساس نے کبھی مونا کو کام نہ کرنے دیا کہ ایک عورت کو تو ساری زندگی سسرال میں کام کرنا ہوتا ہے تو اپنے گھر ذرا آرام کر لے۔ سارہ نے شادی سے پہلے میکے میں اپنا گھر تو نہ سنبھالا ہوا تھا مگر شام کی چائے اور روٹیاں بنانا اس کی ذمہ داری اس کی امی نے لگا رکھی تھی۔ اس کے علاوہ ماسی سے کام کرانا اور گھر بھر کے چھوٹے موٹے کام بھی وہ بخوشی کرتی تھی۔ اس کی امی کا کہنا تھا کہ لڑکیوں ہی کو نہیں لڑکوں کو بھی گھر کے کام کرنے کی عادت ہونی چاہیے۔

مونا اس کی اکلوتی اور گھر بھر کی لاڈلی نند تھی۔ اس کی شادی کو پانچ مہینے ہی ہوئے تھے مگر ہر دوسرے تیسرے ہفتے وہ اپنے سسرال سے ہفتہ دس دن کے لیے میکے آ جاتی۔ وجہ کبھی لڑائی تو کبھی امی جی کی یاد ہوتا تھا۔ اس کا آنا ایک قیامت سے کم نہ ہوتا تھا۔ مہمانداری اپنی جگہ، کہ ہر مہمان اپنی قسمت کا کھاتا ہے، اصل مصیبت وہ سسرال کی ظلم کے قصے اوراس کے شوہر کی بے حسی اور بے جا چپ ہوا کرتی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ بہو کو اس بھرے پرے گھر کی ملکہ اور عیش کرنے کا احساس دلانا شامل ہوتا تھا۔ اس کی ساس، شوہر اورحتی کہ کبھی کبھار وہ خود بھی اس کے سسرال پر غصہ ہوتی تھی کہ کیسے بےحس لوگ ہیں۔ دیکھنے میں کچھ اور اصل میں کچھ اور۔

کھانا بناتے بناتے ساڑھے چار بج گئے تو سارہ نے جلدی جلدی چار فرض نمٹا کر ٹیبل لگائی۔ گرما گرم آلو قیمہ، مٹر پلاؤ کے ساتھ فرج میں رکھے شامی کباب بھی تل لیے۔ سلاد اور رائتہ بنایا تھا کہ رحمتے بھی روٹیاں بنا کر فارغ ہو گئی تو وہ ساس کو اطلاع دینے ان کے کمرے پہنچی۔ اپنا نام سن کر یکدم اس کے قدم وہیں رک گئے۔ ساس جن کو وہ امی کہا کرتی تھی اس کی نند سے کہہ رہی تھیں" اب اس احمق سارہ کی طرح نہ ہو جانا کہ سر جھاڑ منہ پہاڑ گھر سے باہر دھکے کھاؤ اور نوکروں جیسا حلیہ بنا کر گھومو۔ پتہ نہیں میرے بیٹے کی قسمت کیسے پھوٹ گئی۔ اچھا ہے کہ تم نے اظفر کو قابو میں رکھا ہے۔ ابھی نئی نئی شادی کے دنوں میں اپنی بات منوائی جا سکتی ہے۔ ایسے ہی سب کو اوقات پر رکھو۔ دیکھنا جلد ہی اپنے الگ گھر میں راج کرو گی۔" اس میں مزید سننے کی تاب نہ تھی۔ واپس کچن میں جا کر رحمتے سے ساس اور نند کو بلانے کا کہا۔ ساس سے طبیعت کی خرابی اور تھوڑا آرام کا کہا اور اپنے کمرے میں آ کر رونے لگی۔

یہ ساری محنت وہ اپنے لیے تو ہرگز نہ کرتی تھی۔ اس کے پاس اپنے لیے وقت ہوتا ہی کب تھا۔ شادی تو ذمہ داریوں کا دوسرا نام ثابت ہوئی تھی۔ اسے اس طرح محنت کرنے پر اعتراض بھی نہ تھا۔ وہ سمجھتی تھی کہ یہ سب وہ اپنے گھرانے کے لیے کر رہی ہے۔ مگر آج اپنے لیے احمق کا خطاب سن کر اس کو سخت ٹھیس لگی تھی۔ اسے اپنے اوپر رحم آنے لگا۔ اس نے سوچا کہ سب سے پہلے تو وہ اپنی بلاضرورت نوکری کو چھوڑے گی اور گھر میں ایک اضافی ماسی کا اضافہ کرے گی تاکہ وہ اس کی ساس کے انٹ شنٹ کام کرے۔ یہ سوچ کر اسے کچھ اچھا لگا اور کچھ عجیب سی الجھن بھی ہوئی۔ بے خیالی میں اس نے کمرے میں موجود ٹی وی آن کیا۔ تلاوت کے ساتھ ساتھ ترجمہ بھی پیش کیا جا رہا تھا۔ " اللہ کسی جان کو اس کی اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔ اس نے جو نیکی کمائی اس کے لیے اس کا اجر ہے۔اور اس نے جو گناہ کمایا اس کے لیے اس کا عذاب ہے۔" یہ سننا تھا کہ اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ ساتھ ہی سکون کا احساس دل میں پیدا ہوا۔ واقعی اللہ نے اس میں اتنی طاقت رکھی تھی کہ آج سے پہلے وہ کبھی خود ترسی کا شکار نہ ہوئی تھی۔


اور پھر اس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ کسی کی غلط بات کا برا نہ منائے گی کہ اس کے رب نے اسے اتنا مضبوط بنایا ہے اور اس گھر سے وابسطہ کیا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اس کے شوہر کو اس سے شکایت نہیں بلکہ وہ اس کے اسطرح کام کرنے پر رشتہ داروں اور احباب میں اسے کھلے دل سے سراہتے ہیں۔ البتہ ساس کی اس بات کو ضرور دل پر لے گی کہ اپنے ظاہری حلیہ پر توجہ دے۔ اور رہی بات مونا کی تو یہ بات تو عیاں ہے کہ جو لوگ صرف اپنا سوچتے ہیں وہ حقیقی خوشیوں سے محروم ہی رہ جاتے ہیں۔ سچی خوشیاں تو اپنے فرائض اور ارد گرد کے لوگوں کا خیال کر کے ہی حاصل ہوتی ہیں۔
 
آخری تدوین:

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
زبردست صابرہ آپا۔۔۔ سبق آموز کہانی بیان فرمائی آپ نے۔ واقعی سارہ نے ایک اچھا فیصلہ کیا۔ اور کُھلے دل سے اس تنقید پر غور کرتے ہوئے ایک اچھی راہ اپنائی۔

مگر آپا سسرال کا ایسا نقشہ کھینچ کر آپ نے ہمارے ارادے پھر سے ڈانواں ڈول کر دئیے۔
 

سیما علی

لائبریرین
اور پھر اس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ کسی کی غلط بات کا برا نہ منائے گی کہ اس کے رب نے اسے اتنا مضبوط بنایا ہے اور اس گھر سے وابسطہ کیا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اس کے شوہر کو اس سے شکایت نہیں بلکہ وہ اس کے اسطرح کام کرنے پر رشتہ داروں اور احباب میں اسے کھلے دل سے سراہتے ہیں۔ البتہ ساس کی اس بات کو ضرور دل پر لے گی کہ اپنے ظاہری حلیہ پر توجہ دے۔
بہت زبردست زبردست زبردست ۔۔۔۔ہمیں لگتا ہے یہ صابرہ بٹیا آپ نے موجودہ ڈراموں سے متاثر ہو کہ لکھا ہے۔۔سچ اسقدر کوفت ہوتی ہے ۔۔۔ہر چینل کے ڈرامے دیکھ کر حد درجہ مظلوم بنا دیا گیا ہے ۔۔۔لڑکیوں کو کہ وہ نوکریاں بھی کر رہی ہیں اور بے جا ظلم بھی سہہ رہی ہیں ۔۔۔اصل بات یہ ہے کہ ہم نے اپنی بیٹیوں کے لئے اور پیرا میٹر بنائے ہیں اور بہوؤں کہ لئے اور ۔۔۔۔ سارا بگاڑ یہیں سے شروع ہے ۔۔۔اب بھلا جن باتوں کا حل تدبیر سے ہوسکتا ہے اُنکے لئے کوفت میں کیوں ڈالا جائے اپنے آپ کو ۔۔۔کبھی کبھی اتنا دکھ ہوتا ہے آجکل کے ڈرامے دیکھ کر ۔۔۔چالیس سال پرُانے ڈرامے دیکھیں ۔۔حسینہ معین صاحبہ کے کسقدر سبق آموز اور بہترین ڈرامے تھے ۔۔کہیں اُِنھوں نے عورت کو مظلوم و بے یارومددگار نہیں دکھایا ۔۔۔تو اب زمانہ اتنی ترقی کرچکا ہے تو بجائے ایک ایک اچھی سوجھ بوجھ رکھنے والی ساس دکھانے کے عجیب ظالم و جابر ساس دکھائی جاتی ہے اور دوسری طرف مظلوم بہو ۔۔۔جبکہ حقیقت اُسکے بالکل برعکس ہے ۔۔۔فی زمانہ ہم نے گھروں میں ساس بہوؤں کے بے حد دوستانہ تعلقات دیکھیں ہیں ۔۔۔
ایک بار اور ڈھیر ساری دعائیں اور پیار۔۔۔ جیتی رہیے شاد و آباد رہیے اور ایسی خوبصورت باتیں لکھتی رہیے ۔۔:rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose::flower::flower::flower::flower::flower::flower::flower::flower::flower:
 

صابرہ امین

لائبریرین
زبردست صابرہ آپا۔۔۔ سبق آموز کہانی بیان فرمائی آپ نے۔ واقعی سارہ نے ایک اچھا فیصلہ کیا۔ اور کُھلے دل سے اس تنقید پر غور کرتے ہوئے ایک اچھی راہ اپنائی۔

مگر آپا سسرال کا ایسا نقشہ کھینچ کر آپ نے ہمارے ارادے پھر سے ڈانواں ڈول کر دئیے۔
ہائیں اس کہانی میں جو کچھ ہے وہ معاشرے کا پانچ فیصد بھی نہیں۔ مگر لوگ پھر بھی شادی تو کرتے ہیں نا۔ اور شادی کیے بغیر زندگی کب آسان ہے بھئی!!
بے حس لوگ عموما دوسروں کی ہر اچھی بات میں تنقید تو کرتے ہی ہیں تو ایسے لوگوں کی کیا پرواہ کرنا۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
بہت زبردست زبردست زبردست ۔۔۔۔ہمیں لگتا ہے یہ صابرہ بٹیا آپ نے موجودہ ڈراموں سے متاثر ہو کہ لکھا ہے۔۔سچ اسقدر کوفت ہوتی ہے ۔۔۔ہر چینل کے ڈرامے دیکھ کر حد درجہ مظلوم بنا دیا گیا ہے ۔۔۔لڑکیوں کو کہ وہ نوکریاں بھی کر رہی ہیں اور بے جا ظلم بھی سہہ رہی ہیں ۔۔۔اصل بات یہ ہے کہ ہم نے اپنی بیٹیوں کے لئے اور پیرا میٹر بنائے ہیں اور بہوؤں کہ لئے اور ۔۔۔۔ سارا بگاڑ یہیں سے شروع ہے ۔۔۔اب بھلا جن باتوں کا حل تدبیر سے ہوسکتا ہے اُنکے لئے کوفت میں کیوں ڈالا جائے اپنے آپ کو ۔۔۔کبھی کبھی اتنا دکھ ہوتا ہے آجکل کے ڈرامے دیکھ کر ۔۔۔چالیس سال پرُانے ڈرامے دیکھیں ۔۔حسینہ معین صاحبہ کے کسقدر سبق آموز اور بہترین ڈرامے تھے ۔۔کہیں اُِنھوں نے عورت کو مظلوم و بے یارومددگار نہیں دکھایا ۔۔۔تو اب زمانہ اتنی ترقی کرچکا ہے تو بجائے ایک ایک اچھی سوجھ بوجھ رکھنے والی ساس دکھانے کے عجیب ظالم و جابر ساس دکھائی جاتی ہے اور دوسری طرف مظلوم بہو ۔۔۔جبکہ حقیقت اُسکے بالکل برعکس ہے ۔۔۔فی زمانہ ہم نے گھروں میں ساس بہوؤں کے بے حد دوستانہ تعلقات دیکھیں ہیں ۔۔۔
ایک بار اور ڈھیر ساری دعائیں اور پیار۔۔۔ جیتی رہیے شاد و آباد رہیے اور ایسی خوبصورت باتیں لکھتی رہیے ۔۔:rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose::rose::flower::flower::flower::flower::flower::flower::flower::flower::flower:
دعاؤں اور پیار کے لیے شکریہ ۔ ۔ :flower::flower::flower::flower::flower::flower::flower::flower::flower::flower::flower::flower::flower::flower::flower:
یہ ہماری دوست کی سچی کہانی ہے۔ آج کے دور کی ہی ہے۔ تھا تو بہت کچھ مگر بس ایک آدھ بات ہی لکھی ہے کہ کوئی پہچان نہ لے۔ ویسے بھی ہمارے معاشرے میں طلاق اور خلع کی تیزی سے بڑھتی شرح انہیں مسائل کے باعث ہے۔ یہ سب دینی تعلیم کی حد درجہ کمی اور اپنے اپ کو دوسروں سے برتر سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ اچھی ساسیں اور بہو بھی یقینا ہیں مگر گھریلو مسائل بھی کم نہیں۔ ایک تعلیم یافتہ اور نام نہاد مہذب ترین معاشرے کی بہو میگھن مرکل ہو یا سارہ ، ذہنی اذیت کا شکار رہتی ہیں۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
کرائے پہ الگ گھر لے لیتی۔۔۔
سکون سے زندگی گزارتی!!!
سارہ کی ساس نے اسے کبھی سامنے تو کچھ ایسا نہیں کہا وہ تو اتفاقیہ اس نے یہ سب سن لیا۔ کبھی کبھی بظاہر گھروں میں سب ٹھیک لگتا ہے مگر ایسا ہوتانہیں ہے۔سب تو نہیں مگر کئی ساسیں ایویں ہی اپنی بیٹیوں کو اچھا اور بہوؤں کو برا سمجھتی ہیں۔ تو بس ان کو برداشت ہی کیا جانا چاہیے کہ ایسے لوگوں کو غلط ثابت کرنا ناممکنات میں سے ہوتا ہے تو الگ گھر کیسے لیا جا سکتا ہے۔
 

سید عمران

محفلین
سارہ کی ساس نے اسے کبھی سامنے تو کچھ ایسا نہیں کہا
سارہ کی ساس تو گویا اس کے انتظار میں ہی تھیں فورا بولیں، " بھئی کم از کم جلدی سے قیمہ چڑھا کر ساتھ ساتھ مٹر پلاؤ بنا لو ساتھ سویاں یا حلوہ، مونا کو آئے دو گھنٹے ہو چکے ہیں بس رحمتے چائے وغیرہ ہی بنا سکی ہے کہ میرے پیروں کی تکلیف آج کچھ بڑھ گئی ہے۔ فٹافٹ کھانا بنا لو بے چاری بھوکی ہو گی۔ اللہ جانے سسرال والوں نے کچھ کھانے دیا بھی یا نہیں۔ اب ہر ایک کی قسمت تو تم جیسی نہیں ہوتی کہ گھر بھر ہم نے تم پر چھوڑ رکھا ہے، سیاہ کرو یا سفید ۔۔ "
ساس اس سے کم ہی بات کرتی تھیں مگر ماسی کے ہوتے ہوئے بھی سارا دن کاموں میں الجھائے رکھتیں۔
قول و فعل ہر دو لحاظ سے ساس اپنی بہو کوتنگ کررہی تھیں ۔۔۔
ساس کے جھگڑوں، طعنوں اور اذیتوں سے بچنے کا سب سے عمدہ حل الگ گھر کرنا ہے۔۔۔
اگر ساس ضعیف، بیمار یا تنگ دست ہو، اولاد کی خدمت کی محتاج ہو تو اسے بھی چاہیے کہ بہو سے بنا کے رکھے۔۔۔
ویسے بھی بہو کو مظلوم خود ہم نے بنا کر رکھا ہے ورنہ شریعت مرد کو اس بات کی پابند کرتی ہے کہ بیوی کا ایک الگ پرائیویٹ حصہ ہو جہاں اس کی پرائیویسی برقرار رہے، جہاں اس کی مرضی کے بغیر کوئی نہ آسکے، شوہر کی ماں بھی نہیں۔۔۔
یہ بنیادی قانون ہے جس کا علم ہونا چاہیے تاکہ کسی تنازع یا کشیدہ صورت حال میں اس کا استعمال کیا جاسکے۔۔۔
ساس کے گھر میں رہ کر اس سے نہ بنتی ہو تو سب سے بہتر حل الگ گھر ہے، دور ہونے سے محبت بھی بڑھ جاتی ہے۔۔۔
باقی سب مل جل کر رہ رہے ہیں تو اخلاق، مروت اور محبت کے معاملات میں جو چاہیں کریں!!!
 

سید عمران

محفلین
ہم لوگ شادی بیاہ کے موقع پر جہاں بے تحاشہ روپیہ برباد کرتے ہیں وہاں کسی عالم دین کا بیان بھی رکھوانا چاہیے۔۔۔
اس موقع پر لڑکے اور لڑکی والے دونوں جمع ہوں۔۔۔
لڑکے اور لڑکی دونوں کو ایک دوسرے کے سسرال کی عزت کرنے، گھر بسانے، چھوٹی موٹی باتیں در گزر کرنے کے معاملات بیان کیے جائیں۔۔۔
خصوصاً طلاق دینے کے طریقے ضرور بتائے جائیں۔۔۔
ہمارے یہاں غضب میں آکر سب ہی ایک ساتھ تین طلاقیں دے دیتے ہیں۔۔۔
اگر ایک وقت میں ایک طلاق دی جائے تو عقل ٹھکانے آکر دوبارہ رشتہ جوڑنا کس قدر آسان اور سہل رہتا ہے بنسبت اس کے کہ یک دم ہی سارے تعلق کو کاٹ دیا جائے!!!
لڑی کے سنجیدہ موضوع کی مناسبت سے اچھی معلومات شئیر کی ہیں ناں؟؟؟
:angel3::angel3::angel3:
 

سید عاطف علی

لائبریرین
معزز محفلین، السلام علیکم
یہ افسانہ لکھنے کی میری پہلی کوشش ہے۔ تمام صاحب علم لوگوں اور سینئرز سے تنقیدی و اصلاحی مدد کی گزارش ہے۔ میں مشکور ہوں گی اگر مجھے میری لکھی گئی نثر کی خوبیوں اور خامیوں سے آگاہ کیا جائے۔ اس طرح مجھے یقینا اچھا لکھنے کی ترغیب ہو گی۔ شکریہ
اچھی تحریر ہے صابرہ امین ۔ ہمارے سوشل سیٹ اپ کا ایک عام بلکہ ہاٹ موضوع ہے ۔
اب میرا تنقیدی نوٹ بھی سنئے۔
یہ ایک چھوٹے سے واقعے پر مبنی ایک مختصر احساساتی تحریر جسے ہے اسے افسانہ نہیں کہہ سکتے ۔
افسانے میں کچھ واقعاتی بنت اور جزئیات سے جان ڈالی جاتی ہے اور منظر نگاری اور خاکہ نگاری سے مدد لی جاتی ہے ۔اس کا ایک پلاٹ باقاعدہ مختصر سے ناول کی طرح ہوتا ہے اس پر منتج ہونے والا اجمالی مگر گہرا تاثر ایک اچھے افسانے کی بنیاد ہوتا ہے ۔ اس تحری میں بطور افسانہ یہ بنیادی کمی ہے ۔
اسے آج کل کے ماحول کا افسانچہ کہہ سکتے ہیں جو آج کی تیز اور مصروف زندگی کے باعث قدرتی طور پر سکڑ گیا ہے ۔
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
قول و فعل ہر دو لحاظ سے ساس اپنی بہو کوتنگ کررہی تھیں ۔۔۔
ساس کے جھگڑوں، طعنوں اور اذیتوں سے بچنے کا سب سے عمدہ حل الگ گھر کرنا ہے۔۔۔
اگر ساس ضعیف، بیمار یا تنگ دست ہو، اولاد کی خدمت کی محتاج ہو تو اسے بھی چاہیے کہ بہو سے بنا کے رکھے۔۔۔
ویسے بھی بہو کو مظلوم خود ہم نے بنا کر رکھا ہے ورنہ شریعت مرد کو اس بات کی پابند کرتی ہے کہ بیوی کا ایک الگ پرائیویٹ حصہ ہو جہاں اس کی پرائیویسی برقرار رہے، جہاں اس کی مرضی کے بغیر کوئی نہ آسکے، شوہر کی ماں بھی نہیں۔۔۔
یہ بنیادی قانون ہے جس کا علم ہونا چاہیے تاکہ کسی تنازع یا کشیدہ صورت حال میں اس کا استعمال کیا جاسکے۔۔۔
ساس کے گھر میں رہ کر اس سے نہ بنتی ہو تو سب سے بہتر حل الگ گھر ہے، دور ہونے سے محبت بھی بڑھ جاتی ہے۔۔۔
باقی سب مل جل کر رہ رہے ہیں تو اخلاق، مروت اور محبت کے معاملات میں جو چاہیں کریں!!!
واقعی آپ کی باریک بینی لائق تحسین ہے۔ اگرچہ میں نے یہ جملے ایک تبصرے کے طور پر لکھے تھے، سارہ کے خیالات کے طور پر نہیں مگر تاثر یہی بن رہا ہے۔ میں اس کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتی ہوں اور آپ کو پھر پڑھ کر بتانا ہو گا کہ اب ٹھیک ہے یا نہیں۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
ہم لوگ شادی بیاہ کے موقع پر جہاں بے تحاشہ روپیہ برباد کرتے ہیں وہاں کسی عالم دین کا بیان بھی رکھوانا چاہیے۔۔۔
اس موقع پر لڑکے اور لڑکی والے دونوں جمع ہوں۔۔۔
لڑکے اور لڑکی دونوں کو ایک دوسرے کے سسرال کی عزت کرنے، گھر بسانے، چھوٹی موٹی باتیں در گزر کرنے کے معاملات بیان کیے جائیں۔۔۔
خصوصاً طلاق دینے کے طریقے ضرور بتائے جائیں۔۔۔
ہمارے یہاں غضب میں آکر سب ہی ایک ساتھ تین طلاقیں دے دیتے ہیں۔۔۔
اگر ایک وقت میں ایک طلاق دی جائے تو عقل ٹھکانے آکر دوبارہ رشتہ جوڑنا کس قدر آسان اور سہل رہتا ہے بنسبت اس کے کہ یک دم ہی سارے تعلق کو کاٹ دیا جائے!!!
لڑی کے سنجیدہ موضوع کی مناسبت سے اچھی معلومات شئیر کی ہیں ناں؟؟؟
:angel3::angel3::angel3:
بالکل بہت اچھا کیا۔ اگر کوئی اور کہانی ایسے ہی ملتے جلتے موضوع پر لکھی تو یقینا کام آئیں گے۔ یہی کم و بیش ہر رشتے سے متعلق میرے بھی خیالات ہیں کہ اگر باہمی خلوص، اعتماد اور یگانگت موجود بھی ہو تو شرعی معاملات سے آگاہی ان کو مزید نکھار دیتی ہے اور مشکلات میں ایک بہترین حل بھی پیش کر تی ہے۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
اچھی تحریر ہے صابرہ امین ۔ ہمارے سوشل سیٹ اپ کا ایک عام بلکہ ہاٹ موضوع ہے ۔
اب میرا تنقیدی نوٹ بھی سنئے۔
یہ ایک چھوٹے سے واقعے پر مبنی ایک مختصر احساساتی تحریر جسے ہے اسے افسانہ نہیں کہہ سکتے ۔
افسانے میں کچھ واقعاتی بنت اور جزئیات سے جان ڈالی جاتی ہے اور منظر نگاری اور خاکہ نگاری سے مدد لی جاتی ہے ۔اس کا ایک پلاٹ باقاعدہ مختصر سے ناول کی طرح ہوتا ہے اس پر منتج ہونے والا اجمالی مگر گہرا تاثر ایک اچھے افسانے کی بنیاد ہوتا ہے ۔ اس تحری میں بطور افسانہ یہ بنیادی کمی ہے ۔
اسے آج کل کے ماحول کا افسانچہ کہہ سکتے ہیں جو آج کی تیز اور مصروف زندگی کے باعث قدرتی طور پر سکڑ گیا ہے ۔
آپ نے نہ صرف کہانی پڑھی بلکہ میری استدعا کو لائق توجہ سمجھا اور اصلاح سخن کی طرح رہنمائی بھی کی۔ میں آپ کی بے حد مشکور ہوں۔ یہی میرا منشاء بھی تھا۔ یہ تمام نکات سامنے رکھ کر میں اسی کہانی کو دوبارہ لکھتی ہوں۔ واقعی کردار نگاری، منظر نگاری اور جزیات کی شدید کمی ہے۔ یہ تو ایک سپاٹ سی کہانی ہے۔ اس میں ڈرامائی تاثر اور واقعات کی متاثر کن پیشکش کی کمی ہے۔ بس ایسے ہی میں منتظر رہوں گی کہ آپ رہنمائی کرتے رہیں۔ تہہ دل سے شکریہ۔ :flower: :flower: :flower: :flower: :flower:
 

سید عاطف علی

لائبریرین
شکریہ۔ جی سہیلی کا نام اور گھر کے افراد کی تعداد سمیت بہت کچھ بدل ڈالا۔ ورنہ کٹی ہونے کا خدشہ تھا۔ :LOL:
خیر یہ (ڈسکلیمر) تو انتہائی ضروری بھی تھا :) ۔ البتہ قیامت کی نظر رکھنے والے بھی ہر جگہ ہوتے ہیں ۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
بہترین اور ایک عمدہ کاوش،
لکھتی رہیں
ان شاء اللہ وقت کے ساتھ ساتھ بہتری آتی جائے گی۔
کہیں نہ کہیں اس کہانی کے لکھنے میں آپ کی حوصلہ افزائی کا بھی دخل ہے جو آپ نے شروع کے دنوں میں کی تھی۔ آپ کی زبان اللہ مبارک کرے۔ آمین
ہاں آپ نے ایسے ہی پڑھتے رہنا ہے جب تک کہ نثر کی اجزائے ترکیبی اور بنت پر مہارت نہ ہو جائے۔ شکریہ
 

سید عمران

محفلین
اس کہانی کے لکھنے میں آپ کی حوصلہ افزائی کا بھی دخل ہے جو آپ نے شروع کے دنوں میں کی تھی۔
یہی ان کی دوغلی پالیسی ہے۔۔۔
ہماری تو ہمیشہ حوصلہ شکنی کی ہے۔۔۔
جبھی ہم لکھنے لکھانے کے میدان میں آگے نہ بڑھ سکے !!!
 
Top