احمدی اقلیت اور ہمارے علما کا رویہ

جاسم محمد

محفلین
میں نبی اکرم محمد صلعم کو آخری نبی مانتا ہوں اور ان کے بعد کسی بھی نبی یا رسول نہیں مانتا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ بہت ہی برا سلوک ہوتا ہے۔ اس میں ھندو، میمن، آغا خانی، یہودی، عیسائی سر فہرست ہیں۔ ان کی تو پھر بھی عزت ہے یا نوکریوں میں کوٹہ ہے لیکن قادیانیوں کی کوئی قیمت ہی نہیں۔ قادیانیوں پر بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنے پر مقدمے قائم ہوئے ہیں کہ وہ کافر ہیں اور اس جرم کی سزا موت ہے۔ ایک ویب سائیٹ پر میں کوئی 3 ہزار ایسے مقدمات دیکھ چکا ہوں۔ استحصال ایک بہت ہی بھیانک بیماری ہے جو معاشرے کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔ بنگالیوں کے خلاف جو چرکے مغربی پاکستان نے لگائے اس کے نتیجے کے ہم سب گواہ ہیں۔ دوسری طرف آپ بنگالیوں سے پوچھیں تو ان کے پاس بڑھا چڑھا کر ظلم و ستم کی داستانیں ہیں۔ پاکستان کی لیڈر شپ کو رائے عامہ اقلیتوں کے حق میں ہموار کرنی چاہئیے نا کہ ان سے دشمنی؟
اقلیتوں کا استحصال ایک ٹکنگ ٹائم بم ہے، جو سارے پاکستان کو لے بیٹھے گا۔ پاکستان پہلے ہی ایک غریب ملک ہے، یہ اور بھی پریشان کن ہو جائے گا۔
بنگالی تو پاکستان میں اکثریت تھے۔ جب ان کا استحصال ہوتا رہا تو یہ بیچاری اقلیتیں کہاں جا کر اپنا دکھڑا سنائیں؟
 
اگر توہین مذہب کا قانون عالمگیر ہے تو دونوں اطراف لاگو ہوگا۔ مرزا قادیانی سے متعلق گندی زبان استعمال کرنے والوں اور وہ غلیظ زبان جو قادیانی دیگر مذاہب کے علما کے بارہ میں استعمال کرتے ہیں دونوں ہی رگڑے جائیں گے۔
:)
 
قادیانی مسئلے پر مولانا زاہد الراشدی کے ایک پرانے لیکن تاحال برمحل خطاب کی تحریری شکل۔ یہ خطاب 16 اگست 1992 کو برمنگھم، برطانیہ میں ہوا۔
۔۔۔۔۔۔​
قادیانی گروہ کی سرپرست لابیوں اور ویسٹرن میڈیا کی طرف سے قادیانی مسئلہ کے حوالہ سے ایک الزام پاکستان کے مسلمانوں پر، پاکستان کی حکومت پر اور پاکستان کے دستوری اور قانونی ڈھانچے پر پورے شدومد کے ساتھ دنیا بھر میں دہرایا جا رہا ہے کہ پاکستان میں قادیانیوں کے انسانی حقوق پامال کر دیے گئے ہیں، ان کے شہری حقوق معطل ہو گئے ہیں اور قادیانیوں کے ہیومن رائٹس ختم کر دیے گئے ہیں۔ ابھی حال میں اسی ماہ کے آغاز میں برطانیہ میں ٹل فورڈ کے مقام پر قادیانیوں کے سالانہ اجتماع میں بھارتی ہائی کمشنر نے شرکت کی ہے اور اپنی تقریر میں انسانی حقوق کے حوالہ سے قادیانیوں کی نام نہاد مظلومیت کا ذکر کیا ہے، پاکستان سے ان کی جلاوطنی کا ذکر کیا ہے اور انسانی حقوق کی دہائی دی ہے۔ یہی وہ الزام ہے جس بنیاد پر مغربی ممالک اسلام دشمن عناصر اور ویسٹرن میڈیا قادیانی گروہ کی مکمل پشت پناہی کر رہا ہے۔ اس لیے آج میں یہ چاہتا ہوں کہ ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ اس امر کا جائزہ لیا جائے کہ پاکستان میں قادیانیوں کے کون سے انسانی حقوق پامال ہوئے ہیں اور ان کے ہیومن رائٹس پر کیا زد پڑی ہے؟ جذبات سے ہٹ کر منطق اور استدلال کے ساتھ اس مسئلہ کا تھوڑے سے وقت میں تجزیہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

اس سلسلہ میں پہلی بات یہ ہے کہ قادیانی مسلم تنازعہ کی اصل بنیاد کو تلاش کیا جائے کہ بنیادی جھگڑا کیا ہے۔ اصل قصہ یہ ہے کہ قادیانیوں نے نئی نبوت اور نئی وحی کے ساتھ اپنے لیے نئے مذہب کا انتخاب کیا ہے اور مسلمانوں سے اپنا مذہب الگ کر لیا ہے۔ یہ بات مسلّمات میں شامل ہے کہ نئی نبوت اور نئی وحی کے ساتھ مذہب بھی الگ ہو جاتا ہے۔ تفصیلات میں جائے بغیر صرف ایک حوالہ سے بات عرض کروں گا۔ آپ کے اس برطانوی معاشرہ میں یہودی اور عیسائی دونوں رہتے ہیں۔ تورات پر یہودی اور عیسائی دونوں ایمان رکھتے ہیں اور حضرت موسٰی علیہ السلام کو بھی دونوں اللہ تعالٰی کا رسول مانتے ہیں۔ حضرت موسٰیؑ اور تورات پر دونوں متفق ہیں لیکن اس کے باوجود دونوں کا مذہب ایک نہیں ہے بلکہ دونوں الگ الگ مذہب کے پیروکار ہیں، اس لیے کہ عیسائی حضرت موسٰیؑ اور تورات پر ایمان رکھنے کے باوجود ایک نئے نبی اور نئی وحی کو تسلیم کرتے ہیں، جن پر یہودیوں کا ایمان نہیں ہے۔ عیسائی حضرت عیسٰی علیہ السلام اور انجیل کو بھی مانتے ہیں جن پر یہودیوں کا ایمان نہیں ہے، اس لیے عیسائیوں کا مذہب یہودیوں سے الگ ہوگیا اور دونوں الگ الگ مذہب کے پیروکار ہیں۔

اسی طرح مسلم قادیانی تنازعہ میں بھی یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ مسلمانوں اور قادیانیوں کا مذہب ایک نہیں ہے بلکہ دونوں الگ الگ مذہب کے پیروکار ہیں۔ اس حقیقت کو قادیانی گروہ بھی تسلیم کرتا ہے اور تاریخ کے ریکارڈ میں اس کی متعدد دستاویزی شہادتیں موجود ہیں جن میں سے بعض کا میں اس وقت ذکر کرنا چاہتا ہوں۔

  1. جب پاکستان اور ہندوستان کی تقسیم ہو رہی تھی، پنجاب کی تقسیم کے لیے ریڈکلف کمیشن بنا تھا، پنجاب کو اس بنیاد پر تقسیم کیا جا رہا تھا کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہ پاکستان میں شامل ہوں گے اور جہاں مسلمان اکثریت میں نہیں ہیں وہ بھارت کا حصہ ہوں گے۔ گورداسپور کا علاقہ جہاں قادیان واقع ہے، اس علاقہ کی صورتحال یہ تھی کہ اگر قادیانی آبادی خود کو مسلمانوں میں شامل کراتی تو یہ خطہ زمین پاکستان کے حصہ میں آتا، اور اگر قادیانی گروہ مسلمانوں سے الگ شمار ہوتا تو گورداسپور کا علاقہ بھارت کے پاس چلا جاتا۔ اس وقت قادیانی گروہ کے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود نے، جو مرزا غلام احمد قادیانی کا فرزند اور مرزا طاہر احمد کا باپ تھا، اپنا کیس مسلمانوں سے الگ پیش کر کے یہ فیصلہ تاریخ میں ریکارڈ کروایا کہ قادیانی خود کو مسلمانوں سے الگ قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ چودھری ظفر اللہ خان نے مرزا بشیر الدین محمود کی ہدایت پر قادیانیوں کی فائل مسلمانوں سے الگ ریڈکلف کمیشن کے سامنے پیش کی جس کی بنیاد پر گورداسپور غیر مسلم اکثریت کا علاقہ قرار پایا اور بھارت کے حوالے کر دیا گیا۔ اس کے نتیجہ میں بھارت کو کشمیر کے لیے راستہ ملا اور اس نے کشمیر پر قبضہ کر لیا اور آج بھی لاکھوں کشمیری عوام بھارت کے تسلط اور وحشت و درندگی کے خلاف آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
  2. بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم کا جنازہ شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ پڑھا رہے تھے، ملک بھر کے سرکردہ حضرات اور غیر ملکی سفراء جنازہ میں شریک تھے۔ حکومت پاکستان کا قادیانی وزیر خارجہ چودھری ظفر اللہ خان بھی موجود تھا لیکن ملک کے گورنر جنرل کے جنازہ میں شریک نہیں ہوا اور غیر مسلم سفیروں کے ساتھ الگ بیٹھا رہا۔ یہ بات قومی پریس کے ریکارڈ میں ہے کہ چودھری ظفر اللہ خان سے پوچھا گیا کہ آپ وزیرخارجہ ہیں لیکن جنازہ میں شریک نہیں ہوئے، اس کی وجہ کیا ہے؟ اس پر ظفر اللہ خان نے کہا کہ ’’مجھے کافر حکومت کا مسلمان وزیرخارجہ سمجھ لیا جائے یا مسلمان حکومت کا کافر وزیرخارجہ‘‘۔ اس طرح چودھری ظفر اللہ خان نے بھی تاریخ میں اپنی یہ شہادت ریکارڈ کرائی کہ مسلمانوں کا مذہب الگ ہے اور قادیانی ان سے الگ ایک نئے مذہب کے پیروکار ہیں۔
  3. ۱۹۷۴ء میں جب پاکستان کی قومی اسمبلی قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی آئینی ترمیم پر بحث کر رہی تھی، اسمبلی نے یکطرفہ فیصلہ کرنے کی بجائے قادیانیوں کے دونوں گروہوں کو اسمبلی کے سامنے اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیا۔ قادیانی گروہ کے سربراہ مرزا ناصر احمد نے گیارہ روز تک اور لاہوری گروپ کے سربراہ مولوی صدر الدین نے دو روز تک اسمبلی کے سامنے اپنے موقف کی وضاحت کی، اور ان کا موقف پوری طرح سننے کے بعد اسمبلی نے اپنا فیصلہ صادر کیا۔ اس موقع پر مرزا ناصر احمد سے پوچھا گیا کہ وہ دنیا بھر کے ایک ارب کے لگ بھگ ان مسلمانوں کو کیا سمجھتے ہیں جو مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت کو تسلیم نہیں کرتے۔ مرزا ناصر احمد نے پہلے اس سوال کو گول کرنے کی کوشش کی لیکن بالآخر پارلیمنٹ کے فلور پر انہیں اپنے اس عقیدہ کا دوٹوک اظہار کرنا پڑا کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی پر ایمان نہ لانے والے دنیا بھر کے ایک ارب کے لگ بھگ مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں۔ اور اس طرح مرزا طاہر احمد کے بڑے بھائی مرزا ناصر احمد نے بھی تاریخ کی عدالت میں اپنی یہ شہادت ریکارڈ کرائی کہ وہ قادیانیت کو مسلمانوں سے الگ مذہب قرار دیتے ہیں۔
  4. آج مرزا طاہر احمد دنیا بھر میں مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف واویلا کر رہا ہے لیکن میں مرزا طاہر احمد کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ایک شہادت تو خود تم نے بھی ریکارڈ کرائی ہے جو تازہ ترین شہادت ہے۔ ابھی حال ہی میں ٹل فورڈ میں قادیانیوں کا سالانہ اجتماع ہوا ہے۔ مسلمانوں کے اجتماعات ہوتے ہیں تو مہمان خصوصی امام کعبہ ہوتے ہیں، شیخ الازہر ہوتے ہیں، مسلم ممالک کے سفراء آتے ہیں اور دیگر مسلم شخصیات شریک ہوتی ہیں، ہماری اس ختم نبوت کانفرنس میں حضرت مولانا خان محمد تشریف فرما ہیں، پاکستان کے مفتی اعظم مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی تشریف فرما ہیں، لیکن ٹل فورڈ کے قادیانی اجتماع میں مہمان خصوصی کون تھا؟ بھارت کا ہندو ہائی کمشنر اور ساؤتھ آل کونسل کا سکھ میئر۔ یہ بھی تاریخ کی شہادت ہے۔
حضرات محترم! جب یہ بات طے شدہ ہے کہ قادیانیوں کا مذہب مسلمانوں سے الگ ہے اور دونوں ایک مذہب کے پیروکار نہیں ہیں تو ظاہر بات ہے کہ اسلام کا نام ان میں سے ایک ہی فریق استعمال کرے گا، دونوں استعمال نہیں کر سکتے۔ اسلام کا نام اور اس کے شعائر مثلاً کلمہ طیبہ، مسجد، امیر المومنین، خلیفہ اور صحابی، جو اسلام کے ساتھ مخصوص ہیں اور مسلمانوں کی پہچان بن چکے ہیں، انہیں استعمال کرنے کا حق ایک فریق کو ہوگا۔ آپ حضرات خانہ خدا میں بیٹھے ہیں، آپ ہی انصاف سے کہیں کہ کیا دونوں گروہوں کو بیک وقت اسلام کا نام، اسلام کا لیبل اور اس کا ’’ٹریڈ مارک‘‘ استعمال کرنے کا حق ہے؟ اگر نہیں، اور انصاف کا تقاضا ہے کہ نہیں، تو پھر انصاف کے ساتھ یہ فیصلہ بھی کیجئے کہ یہ حق دونوں میں سے کس فریق کا ہے؟ جو چودہ سو سال سے اس نام اور اصطلاحات کو استعمال کر رہا ہے یا اس کا جو ایک سو سال سے اس کا دعویدار ہے۔

اصل بات کو سمجھنے کی کوشش کریں، ایک عام کاروباری سی بات ہے، عام سی مثال ہے، اس حوالہ سے بات عرض کرتا ہوں۔ ایک کمپنی جو سو سال سے کام کر رہی ہے، اس کا ایک نام ہے، ایک لیبل ہے، ایک ٹریڈ مارک ہے، جن کے ساتھ وہ مارکیٹ میں متعارف ہے۔ اس کی ایک ساکھ ہے، اس حوالہ سے اس کا اعتبار قائم ہے۔ اب کچھ لوگ اس سے الگ ہو کر ایک نئی کمپنی بناتے ہیں، ایمان کے ساتھ بتائیے کہ اگر وہ نئی کمپنی اپنا مال مارکیٹ میں لانے کے لیے پہلی کمپنی کا نام استعمال کرتی ہے، اس کا ٹریڈ مارک اور لیبل استعمال کرتی ہے، تو انصاف کی زبان اسے کیا کہتی ہے؟ قانون اسے کیا کہتا ہے؟ (لوگوں نے کہا فراڈ، فراڈ)۔ میں ان مغربی لابیوں سے پوچھتا ہوں کہ انصاف کا تقاضا کیا ہے؟ قانون کا تقاضا کیا ہے؟ دانش کا تقاضا کیا ہے؟ خدا کے لیے ہمارا موقف بھی سمجھنے کی کوشش کریں۔

نبوت کا دعوٰی مرزا بہاء اللہ نے بھی کیا تھا، اس کے ماننے والے بہائی بھی ہم سے الگ مذہب رکھتے ہیں، ہم انہیں کافر کہتے ہیں، لیکن ہمارا ان سے قادیانیوں کی طرز کا کوئی تنازعہ نہیں ہے، کشمکش کی فضا نہیں ہے، اس لیے کہ وہ اسلام کا نام استعمال نہیں کرتے، انہوں نے اپنا نام اور اصطلاحات الگ کر لی ہیں۔ وہ کلمہ طیبہ پڑھ کر لوگوں کو دھوکہ نہیں دیتے، اپنی عبادت گاہ کو مسجد نہیں کہتے، لندن ماسک کے نام پر اپنا لٹریچر تقسیم نہیں کرتے، اور اپنے مرکز کو اسلام آباد نہیں کہتے۔ ہم انہیں کافر کہتے ہیں لیکن ہمارا ان سے جھگڑا کوئی نہیں ہے۔ قادیانیوں کے ساتھ تنازعہ یہ ہے کہ مذہب نیا ہے، کمپنی نئی ہے، لیکن نام ہمارا استعمال کرتے ہیں، لیبل اور ٹریڈمارک ہمارا استعمال کرتے ہیں۔ ہم اس کی اجازت نہیں دے سکتے، یہ دھوکہ ہے، فراڈ ہے اور کھلا فریب ہے۔ ہم دنیا بھر کے دانشوروں کو دہائی دیتے ہیں کہ خدا کے لیے ہمارے خلاف پراپیگنڈا کرنے سے پہلے یہ تو دیکھ لو کہ اصل قصہ کیا ہے اور تنازعہ کس بات پر ہے۔

حضرات محترم! اب میں اس صدارتی آرڈیننس کی طرف آتا ہوں جسے مرزا طاہر احمد اور اس کی سرپرست لابیوں کی طرف سے پوری دنیا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا عنوان دے کر بدنام کیا جا رہا ہے۔ یعنی ۱۹۸۴ء کا وہ صدارتی آرڈیننس جس کے تحت صدر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے قادیانیوں کو اسلام کا نام اور اصطلاحات استعمال کرنے سے روک دیا ہے، اور جس کے بارے میں مغربی لابیاں یہ کہہ رہی ہیں کہ اس کے ذریعے قادیانیوں کے انسانی حقوق پامال ہوگئے ہیں۔ لیکن پہلے یہ وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ آرڈیننس صدر جنرل ضیاء الحق کا تیار کردہ نہیں ہے، نہ اسے فوجی ہیڈکوارٹر نے ترتیب دیا ہے۔ بلکہ آرڈیننس تحریک ختم نبوت کے ان مطالبات پر مشتمل ہے جن کے لیے ہم نے ملک بھر میں تحریک چلائی، اسٹریٹ پاور کو منظم کیا، لوگوں کو سڑکوں پر لائے اور راولپنڈی کی طرف لانگ مارچ کیا۔ اس پر مجبور ہو کر ہمارے مطالبات کو آرڈیننس کی شکل دی گئی، اس لیے یہ مارشل لاء ریگولیشن یا کسی ڈکٹیٹر کا نافذ کردہ قانون نہیں بلکہ عوامی مطالبات پر مشتمل ایک قانونی ضابطہ ہے۔

اس کے بعد صدارتی آرڈیننس پر بحث سے قبل آپ حضرات کو مرزا طاہر احمد کی اس مہم سے بھی متعارف کرانا چاہتا ہوں جو اس آرڈیننس کے خلاف ابھی تک جاری ہے۔ اس مہم کے مختلف مراحل کا آپ کے سامنے لایا جانا ضروری ہے تاکہ آپ لوگ دیکھ سکیں کہ ان کا طریق واردات کیا ہے۔ بالخصوص برطانیہ میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے اس مہم سے واقف ہونا بے حد ضروری ہے۔ تو حضرات محترم! ۱۹۸۴ء میں صدارتی آرڈیننس کے نفاذ کے بعد مرزا طاہر احمد لندن میں آکر بیٹھ گیا اور مغربی لابیوں کو اپروچ کر کے یہ دہائی دی کہ پاکستان میں امتناع قادیانیت کے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے قادیانیوں کے انسانی حقوق چھین لیے گئے ہیں، ان کے ہیومن رائٹس پامال کر دیے گئے ہیں، انہیں عبادت کے حق سے روک دیا گیا ہے، اور ان کے اپنے مذہب پر عمل کرنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ ویسٹرن میڈیا بھی اس مہم میں شریک ہوگیا، اسے تو انتظار رہتا ہے کہ اسلام اور پاکستان کے خلاف کوئی بات کہنے کو ملے، وہ تو بہانے تلاش کرتے ہیں کہ مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف کسی بات پر شور اٹھا سکیں۔

پھر یہ بات یہیں تک نہیں رہی بلکہ جنیوا میں انسانی حقوق کمیشن کو اپروچ کیا گیا۔ یہ کمیشن اقوام متحدہ کے تحت قائم ہے اور اس کا کام یہ ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک پر نظر رکھتا ہے، جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہو، اس کی نشاندہی کرتا ہے اور اس کی بنیاد پر مغربی حکومتیں اپنی پالیسیاں مرتب کرتی ہیں۔ قادیانیوں کی طرف سے اس کمیشن کے پاس درخواست پیش کی گئی کہ پاکستان میں ان کے شہری حقوق پامال کیے جا رہے ہیں، لیکن اس درخواست سے پہلے ایک اور بات کا اہتمام ہو چکا تھا کہ جنیوا میں پاکستان کی سفارت اور نمائندگی مسٹر منصور احمد سنبھال چکا تھا جو معروف قادیانی ڈپلومیٹ ہے، پاکستان کا سینئر سفارتکار ہے اور اس وقت جاپان میں پاکستان کا سفیر ہے۔ اب راستہ صاف تھا، درخواست قادیانیوں کی طرف سے تھی اور کمیشن کے سامنے پاکستان کی نمائندگی اور حکومت پاکستان کے موقف کی وضاحت کی ذمہ داری ایک قادیانی سفارتکار پر تھی، نتیجہ وہی ہونا تھا جو ہوا، انسانی حقوق کمیشن نے اس مضمون کی قرارداد منظور کر لی کہ پاکستان میں واقعتاً قادیانیوں کے انسانی حقوق پامال کر دیے گئے ہیں اور حکومت پاکستان اس کی ذمہ دار ہے۔

بات اور آگے بڑھی اور قادیانی گروہ اس قرارداد کو لے کر واشنگٹن پہنچا جہاں پرسلر رہتا ہے، جہاں سولارز رہتا ہے۔ آپ جانتے ہیں ان کو؟ اور پاکستان کا کونسا باشعور شہری ہے جو پریسلر اور سولارز کو نہیں جانتا۔ وہاں لابنگ ہوئی، اس وقت امریکی سینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی پاکستان کی اقتصادی اور فوجی امداد کی بحالی کے لیے شرائط طے کر رہی تھی۔ جنیوا انسانی حقوق کمیشن کی یہ قرارداد اس کے سامنے پیش ہوئی اور امریکی سینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی نے پاکستان کے لیے امداد کی شرائط والی قرارداد میں قادیانیت کا مسئلہ شامل کر لیا۔ یہ ہے مرزا طاہر احمد کی مہم اور یہ ہے اس کا طریق واردات جسے آپ کے علم میں لانا میں نے ضروری سمجھا ہے۔

امریکی سینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی نے پاکستان کی امداد کے لیے جن شرائط کو اپنی قرارداد میں شامل کیا ان کا خلاصہ روزنامہ جنگ لاہور نے ۵ مئی ۱۹۸۷ء اور روزنامہ نوائے وقت لاہور نے ۲۵ اپریل ۱۹۸۷ء کو شائع کیا ہے۔ یہ میرے پاس موجود ہے اور آپ حضرات میں سے اکثر نہیں جانتے کہ ان شرائط میں کون کون سی باتیں شامل ہیں۔ عام طور پر صرف ایٹمی تنصیبات کے معائنہ کی شرط کا ذکر کیا جاتا ہے، بلاشبہ وہ بنیادی شرط ہے اور ہم اس مسئلہ پر پاکستان کی حکومت اور قوم کے موقف کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ ہیں بلکہ ہم تو اس سے بھی آگے کی بات کہتے ہیں، ہمارا موقف یہ ہے کہ ایٹم بم پاکستان کا اور دیگر مسلم ملکوں کا حق ہے اور اس سلسلہ میں معذرت خواہانہ طرز عمل اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ مگر امریکی شرائط میں صرف ایٹمی تنصیبات کا مسئلہ نہیں، اور امور بھی ہیں جن میں دو کا بطور خاص آپ کے سامنے ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ امریکی سینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کی اس قرارداد میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی امداد کے لیے ضروری ہوگا کہ امریکی صدر ہر سال ایک سرٹیفکیٹ جاری کرے گا جس میں یہ درج ہوگا کہ حکومت پاکستان نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ازالہ میں نمایاں ترقی کی ہے۔ یہ کتنا خوبصورت جملہ ہے لیکن ’’کلمۃ حق اریدیھا الباطل‘‘ اس کے اندر جو زہر چھپا ہوا ہے آپ حضرات نہیں جانتے۔ آپ کہیں تو میں عرض کر دوں کہ اس شوگر کے کیپسول میں کون سا زہر ہے؟ اس شرط میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو روکنے کی بات کی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان مغربی ملکوں کے ہاں انسانی حقوق کا تصور کیا ہے اور یہ کس چیز کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں؟ اس بات کو سمجھنے کے لیے دیکھنا پڑے گا کہ پاکستان میں مغربی میڈیا کے ’’بوسٹر‘‘ کیا کہتے ہیں۔

مغربی میڈیا کے بوسٹر ہر جگہ موجود ہیں، پاکستان میں بھی ہیں۔ امریکی سینٹ کی اس قرارداد کے بعد پاکستان میں انسانی حقوق کمیشن قائم ہوا ہے جس کے سربراہ ریٹائرڈ جسٹس دراب پٹیل ہیں جو پارسی ہیں، اور سیکرٹری جنرل عاصمہ جہانگیر ہے جو ایک قادیانی ایڈووکیٹ مسٹر جہانگیر کی بیوی ہے۔ یہ لوگ پاکستان میں ہیومن رائٹس کے عنوان سے فورم منعقد کرتے ہیں، جلسوں کا اہتمام کرتے ہیں، مظاہرے کرتے ہیں اور امریکی سفارتکار ان کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ ذرا سنیے کہ اس کمیشن کے سربراہ مسٹر پٹیل کیا کہتے ہیں۔

روزنامہ نوائے وقت لاہور ۲۵ اپریل ۱۹۸۷ء کے مطابق مسٹر دراب پٹیل نے کہا کہ کمیشن کو بہت سے ایسے قوانین منسوخ کرانے کی کوشش بھی کرنا ہوگی جو یکطرفہ ہیں اور جن سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا راستہ کھلتا ہے۔ اس سلسلہ میں حدود آرڈیننس، قانون شہادت، غیر مسلموں کو مسلمانوں کی شہادت پر سزا دینے کا مسئلہ، قادیانیوں اور احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے والا قانون، جداگانہ انتخابات کا قانون، سیاسی جماعتوں کا قانون، یہ سارے قوانین ختم کرنا ہوں گے، یہ قوانین انسانی حقوق کے منافی ہیں۔

روزنامہ نوائے وقت نے ۲۷ اپریل ۱۹۸۷ء کی اشاعت میں بیگم عاصمہ جہانگیر کے حوالہ سے کمیشن کے جنرل اجلاس میں کیے جانے والے مطالبات بھی شائع کیے ہیں جن کے مطابق تعزیرات اور حدود آرڈیننس کی بعض سزاؤں کو ظالمانہ اور غیر انسانی قرار دیا گیا ہے اور مطالبہ کیا گیا ہے کہ سنگسار کرنے، پھانسی پر لٹکانے اور موت کی سزا کو فی الفور ختم کیا جائے، نیز کوڑے لگانے، ہاتھ کاٹنے اور قید تنہائی کی سزائیں بھی ختم کر دی جائیں۔ جنرل اجلاس میں منظور کردہ ڈیکلیریشن میں تمام مذہبی اقلیتوں کی تائید کی گئی ہے اور اس ضرورت پر زور دیا گیا ہے کہ حکومت کسی بھی شخص کے خلاف بالواسطہ یا بلاواسطہ مذہب یا فرقے کی بنیاد پر کوئی کاروائی نہ کرے۔

حضرات محترم! اب تو آپ اچھی طرح سمجھ چکے ہوں گے کہ انسانی حقوق سے ان کی مراد کیا ہے اور ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی کو روکنے کے عنوان سے مغربی ممالک اور لابیاں ہم سے کیا تقاضا کر رہی ہیں؟ امریکہ ہم سے یہ ضمانت چاہتا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوگی، اور اس سے مراد یہ ہے کہ ہم اسلامی قوانین نافذ نہیں کریں گے، قرآن کریم کے احکام نافذ نہیں کریں گے۔ ابھی حال ہی میں پاکستان کی پارلیمنٹ نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین پر موت کی سزا کا قانون منظور کیا ہے جس پر ایک محترمہ نے کہا ہے کہ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ معاذ اللہ توہین رسالت کو بھی انسانی حقوق میں شامل کیا جا رہا ہے اور یہ حق مانگا جا رہا ہے کہ کوئی بدبخت توہین رسالتؐ کا ارتکاب کرنا چاہے تو اسے اس کا حق حاصل ہو اور قانون کو حرکت میں آنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ہے ان لوگوں کا انسانی حقوق کا تصور اور یہ اسی قسم کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے ہمیں روکنا چاہتے ہیں۔

ہمارے ساتھ اس وقت کانفرنس کے اسٹیج پر پنجاب کے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل جناب نذیر احمد غازی بھی تشریف فرما ہیں، ان سے معذرت کے ساتھ میں ایک ’’ریڈ لائن‘‘ کراس کرنے لگا ہوں کہ ہم پر ’’انسانی حقوق‘‘ کا کیسا تصور تھوپا جا رہا ہے۔ گزشتہ سال چکوال میں اغوا اور قتل کی ایک واردات ہوئی، خصوصی عدالت میں مقدمہ چلا، عدالت نے قاتل کو موت کی سزا سنائی اور یہ فیصلہ دیا کہ پھانسی برسر عام لوگوں کے سامنے دی جائے۔ اسلام کا فلسفہ بھی یہی ہے کہ سزا سرعام دی جائے تاکہ لوگوں کو عبرت حاصل ہو۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ ’ولیشھد عذابھما طائفۃ من المؤمنین‘‘ (النور ۲۴:۲) مجرموں کو سزا دیتے وقت مسلمانوں کا ایک گروہ موجود رہے۔ یہ اسلامی قانون کا تقاضا ہے ، لیکن ہماری عدالت عظمٰی نے اس سزا پر عملدرآمد روک دیا ہے اور سپریم کورٹ میں گزشتہ چار پانچ ماہ سے اس نکتہ پر بحث جاری ہے کہ مجرم کو لوگوں کے سامنے سزا دینا اس کی عزت نفس کے منافی ہے اور یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، اس لیے قاتل کو سرعام پھانسی نہیں دینی چاہیے۔

محترم بزرگو اور دوستو! یہ مثالیں میں نے وضاحت کے ساتھ اس لیے آپ کے سامنے رکھی ہیں تاکہ آپ اچھی طرح سمجھ سکیں کہ انسانی حقوق سے مغربی ممالک کی مراد کیا ہے اور یہ طاقتیں جب ہم سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہ کرنے کی ضمانت طلب کرتی ہیں تو اس سے ان کا مقصد کیا ہوتا ہے؟

اب ایک اور شرط بھی سماعت فرما لیجئے جو امریکی سینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی نے پاکستان کے لیے امریکی امداد کی بحالی کی شرائط کے ضمن میں اپنی قرارداد میں ذکر کی ہے۔ اس کے مطابق امریکی صدر ہر سال اپنے سرٹیفکیٹ میں یہ بھی لکھیں گے کہ حکومت پاکستان اقلیتی گروہوں مثلاً احمدیوں کی مکمل شہری اور مذہبی آزادیاں نہ دینے کی روش سے باز رہی ہے اور ایسی تمام سرگرمیاں ختم کر دی ہیں جو مذہبی آزادیوں پر قدغن عائد کرتی ہیں۔

آپ حضرات کو کچھ اندازہ ہوگیا ہو گا کہ مسئلہ کی نوعیت کیا ہے اور معاملات کہاں تک آگے پہنچ چکے ہیں۔ آپ میں سے بیشتر حضرات یہ کہہ دیں گے کہ ہمیں تو ان باتوں کا علم ہی نہیں ہے۔ لیکن کیا آپ کا نہ جاننا بھی ہماری ہی ذمہ داری ہے؟ کیا یہ بھی ہمارا قصور ہے کہ آپ حضرات مغرب میں رہتے ہوئے بھی ان امور سے واقف نہیں ہیں، خدا کے لیے آنکھیں کھولیے اور اپنی ذمہ داری کا احساس کیجئے۔

حضرات محترم! اب میں آتا ہوں صدارتی آرڈیننس کی طرف۔ یہ میرے ہاتھ میں صدارتی آرڈیننس کی کاپی ہے، اس آرڈیننس کا مقصد اور منشا صرف یہ ہے کہ چونکہ قادیانیوں کا مذہب مسلمانوں سے الگ ہے اس لیے قادیانی اسلام کا نام اور مسلمانوں کے مخصوص مذہبی شعائر استعمال نہ کریں۔ اس کے علاوہ اس آرڈیننس میں کچھ نہیں، اس آرڈیننس کی رو سے قادیانیوں کو اس امر کا پابند کیا گیا ہے کہ وہ:

  • اسلام کے نام پر اپنے مذہب کی تبلیغ نہ کریں اور خود کو مسلمان کے طور پر ظاہر نہ کریں۔
  • اپنی عبادت گاہ کو مسجد نہ کہیں اور اپنی عبادت کے لیے لوگوں کو بلانے کا طریقہ اذان سے الگ اختیار کریں اور اسے اذان نہ کہیں۔
  • جناب نبی اکرمؐ کی ازواج مطہرات کے علاوہ کسی اور خاتون کو ام المؤمنین نہ کہیں۔ رسول اللہؐ کے صحابہ اور خلفاء کے علاوہ کسی اور کے لیے صحابی یا خلیفہ کی اصطلاح استعمال نہ کریں۔
آرڈیننس میں ان امور کو جرم قرار دیتے ہوئے ان میں سے کسی ایک کے ارتکاب پر تین سال تک قید یا جرمانہ کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ میں مغربی لابیوں سے پوچھتا ہوں کہ اس آرڈیننس میں قادیانیوں کو عبادت گاہ بنانے یا عبادت کرنے سے کہاں روکا گیا ہے؟ انہیں صرف اپنی عبادت گاہ کو مسجد کہنے سے روکا گیا ہے، اذان دینے سے روکا گیا ہے اور اسلام کے دیگر شعائر کے استعمال سے روکا گیا ہے۔ اور جب قادیانیوں کا مذہب مسلمانوں کے مذہب سے الگ ایک جداگانہ مذہب ہے تو یہ پابندیاں اس کا منطقی تقاضا ہیں، اور ان اصولی اور منطقی پابندیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دینا سراسر ناانصافی ہے۔

ہماری یہ آواز ویسٹرن میڈیا تک پہنچنی چاہیے اور مغربی لابیوں کے علم میں آنی چاہیے۔ برطانیہ میں رہنے والے مسلمان بھائیو! ہم تو مجبور ہیں کہ سال میں ایک آدھ بار آتے ہیں اور آواز لگا کر چلے جاتے ہیں، یہ آپ کی ذمہ داری ہے۔ اگر مرزا طاہر احمد یہاں کے ذرائع استعمال کرتا ہے تو مغرب کے ذرائع ابلاغ آپ کی دسترس سے باہر نہیں ہیں۔ اگر مرزا طاہر احمد مغربی لابیوں کو اپروچ کر سکتا ہے تو آپ حضرات بھی کر سکتے ہیں۔ خدا کے لیے آپ بھی اپنے فرائض پہچانیں اور اسلام اور پاکستان کے دفاع کے لیے سائنٹیفک بنیادوں پر کام کا طریقہ اختیار کریں۔

حضرات محترم! اگر بات انسانی حقوق کی ہے تو میں یہ بات ضرور عرض کرنا چاہوں گا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہم نہیں کر رہے بلکہ قادیانی کر رہے ہیں۔ اور عملی صورتحال یہ ہے کہ خود ہمارے انسانی حقوق قادیانیوں کے ہاتھوں پامال ہو رہے ہیں، اس لیے کہ اسلام کا نام، مسجد، اذان، کلمہ طیبہ اور دیگر اسلامی شعائر دنیا کے ایک ارب سے زائد مسلمانوں کی پہچان اور ان کی شناخت ہیں۔ اپنی شناخت کا تحفظ مسلمانوں کا حق ہے اور شناخت کی حفاظت انسانی حقوق میں شامل ہے، جسے قادیانی مسلسل پامال کر رہے ہیں۔ اور جب قادیانیوں کے خلاف اس جرم میں قانونی کاروائی ہوتی ہے تو مغربی لابسٹ چیخ اٹھتے ہیں کہ قادیانیوں کے انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں۔ اب دیکھیے، میں ایک شخص ہوں، مجھے زاہد الراشدی کے نام سے پہچانا جاتا ہے، گوجرانوالہ سے ماہنامہ الشریعہ شائع کرتا ہوں اور اس کا ایڈیٹر ہوں۔ اگر کوئی اور شخص یہ دعوٰی کرے کہ وہ زاہد الراشدی ہے اور الشریعہ کا ایڈیٹر ہے تو کیا اس سے میری شناخت مجروح نہیں ہوگی؟ اور کیا میرے انسانی حقوق پر زد نہیں پڑتی؟ اور اگر میں اس شخص کے خلاف دھوکہ دہی کا مقدمہ درج کرا دوں اور قانون اسے پکڑ کر جیل میں ڈال دے تو کیا مغربی لابیاں اس پر شور مچانا شروع کر دیں گی کہ اس کے انسانی حقوق پامال ہو گئے ہیں؟

میں مغرب میں بیٹھ کر اسلام اور پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا کرنے والی لابیوں سے خدا کے نام پر اپیل کرتا ہوں کہ وہ کچھ انصاف کریں اور دنیا بھر کے مسلمانوں کا یہ حق تسلیم کریں کہ وہ اپنی شناخت اور پہچان کی حفاظت کر سکیں، اسلام کا نام، اس کا لیبل اور ’’ٹریڈ مارک‘‘ غلط استعمال کرنے والوں کو ایسا کرنے سے باز رکھ سکیں۔ یہ ہمارا حق ہے کہ ہم اپنے مذہبی نام کا تحفظ کریں، اپنی شناخت کا تحفظ کریں، اپنی علامات اور نشانیوں کا تحفظ کریں اور اپنی پہچان کو بچائیں۔ قادیانی گروہ مٹھی بھر ہونے کے باوجود مغربی طاقتوں اور لابیوں کی شہ پر ہماری پہچان کو خراب کر رہا ہے اور ہماری شناخت کو مجروح کر رہا ہے۔ صدارتی آرڈیننس میں قادیانیوں کو اسی جرم سے روکا گیا ہے، اس لیے انصاف کی بات یہ ہے کہ امتناع قادیانیت کا صدارتی آرڈیننس انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا نہیں بلکہ ان کی حفاظت اور ہیومن رائٹس کے تقاضوں کی تکمیل کا آرڈیننس ہے۔

میرے محترم بزرگو اور دوستو! کہنے کی باتیں ابھی بہت سی ہیں لیکن وقت کا دامن تنگ ہوتا جا رہا ہے اور میرے بعد دوسرے فاضل مقررین نے بھی آنا ہے اس لیے آخر میں آپ حضرات سے پھر یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مغرب کے ممالک اور لابیاں ایک بات طے کر چکی ہیں کہ کسی مسلمان ملک میں اسلامی نظام کو کسی قیمت پر نافذ نہ ہونے دیا جائے۔ یہ صرف ہمارا مسئلہ نہیں، مصر اور مراکش کا بھی یہی مسئلہ ہے، دنیا کے ہر مسلمان ملک میں مغربی میڈیا کے بوسٹر موجود ہیں جو انسانی حقوق اور بنیاد پرستی کے عنوان سے اسلامی قوانین کی مخالفت کر رہے ہیں اور قادیانیت جیسے گمراہ کن گروہوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ ان مسائل کا ادراک حاصل کرنا، مغربی لابیوں کے طریق واردات کو سمجھنا اور اس کا توڑ پیدا کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ لیکن اس جسارت پر مجھے معاف فرمائیں کہ اس سلسلہ میں پہلی ذمہ داری آپ لوگوں کی ہے جو مغربی ممالک میں مقیم ہیں اور یہاں کے ذرائع تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں، اس کے بعد ہماری ذمہ داری ہے۔ آئیے ہم سب عہد کریں کہ اسلام، مسلمانوں اور پاکستان کے دفاع میں اپنی اپنی ذمہ داری کا احساس کریں گے اور اسے پورا کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے، اللہ تعالٰی ہم سب کو اس کی توفیق دیں، آمین۔ و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
جزاکم اللہ خیرا کثیرا و احسن الجزاء
 

محمد سعد

محفلین
میں نبی اکرم محمد صلعم کو آخری نبی مانتا ہوں اور ان کے بعد کسی بھی نبی یا رسول نہیں مانتا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ بہت ہی برا سلوک ہوتا ہے۔ اس میں ھندو، میمن، آغا خانی، یہودی، عیسائی سر فہرست ہیں۔
کیا یہ بات نہایت افسوس ناک نہیں، کہ آپ، میں، اوریجنل پوسٹ میں شامل کالم کا مصنف یا کوئی بھی اور شخص اگر کبھی اقلیتوں کے ساتھ رکھے گئے برے رویوں کی نشاندہی کرتا ہے، تو سب سے پہلے اسے اپنے آپ کو مسلمان ثابت کرنا پڑتا ہے کہ خدا کا واسطہ ہے میں قادیانی نہیں ہوں۔ کئی مقامات پر تو دیکھا ہے کہ جب تک کوئی مرزا غلام احمد کو نہایت غلیظ گالیاں نہ دے دے تب تک اس کا ختم نبوت پر ایمان بھی ناکافی ٹھہرتا ہے۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟
اگر یہی کچھ کرنا ہے تو یہ بلند و بانگ دعوے کر کے ہم کس کو دھوکہ دے رہے ہیں کہ پاکستان میں تو جی اقلیتوں کو مکمل حقوق حاصل ہیں؟ اقلیتوں کو تو چھوڑیے، اکثریت تک کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ کوئی بھی "اصلی پکا اکثریت والا سنی مسلمان" اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے سلوک پر اعتراض کر کے خود کو مسلمان کہلوا سکے۔ آپ کا یہ بات شروع کرنے سے پہلے اپنے ایمان کی وضاحت دینے کی ضرورت محسوس کرنا اسی کا ایک ثبوت ہے۔ کراچی کے محمد جبران ناصر کا مرزا کو گالیاں نہ دینے پر سیاسی کیرئیر ڈوب جانا اسی کا ایک ثبوت ہے۔ میرے اس بحث میں شرکت کرنے کے بعد ذاتی مکالمے میں میرے "نظریات" اور "قادیانیوں کی اتنی حمایت" کے بارے میں استفسار کیا جانا اسی کا ایک ثبوت ہے۔ لیکن فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل حقوق حاصل ہیں۔
اچھا اسلامی معاشرہ بنایا ہوا ہے ہم نے کہ جس میں اقلیت کے ساتھ انسانی سلوک کرنے کی بات سے پہلے اور بعد میں اپنا ایمان ثابت کرنا پڑتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
کیا یہ بات نہایت افسوس ناک نہیں، کہ آپ، میں، اوریجنل پوسٹ میں شامل کالم کا مصنف یا کوئی بھی اور شخص اگر کبھی اقلیتوں کے ساتھ رکھے گئے برے رویوں کی نشاندہی کرتا ہے، تو سب سے پہلے اسے اپنے آپ کو مسلمان ثابت کرنا پڑتا ہے کہ خدا کا واسطہ ہے میں قادیانی نہیں ہوں۔ کئی مقامات پر تو دیکھا ہے کہ جب تک کوئی مرزا غلام احمد کو نہایت غلیظ گالیاں نہ دے دے تب تک اس کا ختم نبوت پر ایمان بھی ناکافی ٹھہرتا ہے۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟
اگر یہی کچھ کرنا ہے تو یہ بلند و بانگ دعوے کر کے ہم کس کو دھوکہ دے رہے ہیں کہ پاکستان میں تو جی اقلیتوں کو مکمل حقوق حاصل ہیں؟ اقلیتوں کو تو چھوڑیے، اکثریت تک کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ کوئی بھی "اصلی پکا اکثریت والا سنی مسلمان" اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے سلوک پر اعتراض کر کے خود کو مسلمان کہلوا سکے۔ آپ کا یہ بات شروع کرنے سے پہلے اپنے ایمان کی وضاحت دینے کی ضرورت محسوس کرنا اسی کا ایک ثبوت ہے۔ کراچی کے محمد جبران ناصر کا مرزا کو گالیاں نہ دینے پر سیاسی کیرئیر ڈوب جانا اسی کا ایک ثبوت ہے۔ میرے اس بحث میں شرکت کرنے کے بعد ذاتی مکالمے میں میرے "نظریات" اور "قادیانیوں کی اتنی حمایت" کے بارے میں استفسار کیا جانا اسی کا ایک ثبوت ہے۔ لیکن فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل حقوق حاصل ہیں۔
اچھا اسلامی معاشرہ بنایا ہوا ہے ہم نے کہ جس میں اقلیت کے ساتھ انسانی سلوک کرنے کی بات سے پہلے اور بعد میں اپنا ایمان ثابت کرنا پڑتا ہے۔
جزاک اللہ احسن الجزاء۔ مسئلہ کو اس سے بہتر انداز میں بیان کیا ہی نہیں کیا جا سکتا۔ 100 میں سے 100 نمبر آپکے ہوئے۔ :)
 

الف نظامی

لائبریرین
(بحوالہ فیضانِ اقبال از شورش کاشمیری)
علامہ اقبال لکھتے ہیں:
اگر کسی قوم کی وحدت خطرے میں ہو تو اس کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ معاندانہ قوتوں کے خلاف اپنی مدافعت کرے( اس ضمن میں رواداری ایک مہمل اصطلاح ہے ) اصل جماعت کو رواداری کی تلقین کی جائے اور باغی گروہ کو تبلیغ کی پوری اجازت ہو ، خواہ جو تبلیغ جھوٹ اور دشنام سے لبریز ہو؟
(قادیانیت اور اسلام ، بہ جواب نہرو)

رواداری کی تلقین کرنے والے اس شخص پر عدم رواداری کا الزام لگانے میں غلطی کرتے ہیں جو اپنےمذہب کی سرحدوں کی حفاظت کرتا ہے
(بہ جواب نہرو)

محی الدین ابن عربی:
اگر شیخ محی الدین ابن عربی کو اپنے کشف میں نظر آجاتا کہ صوفیانہ نفسیات کی آڑ میں کوئی ہندوستانی ختم نبوت سے انکار کردے گا تو یقینا وہ علمائے ہند سے پہلے مسلمانانِ عالم کو ایسے غدارِ اسلام سے متنبہ کرتے
(بہ جواب نہرو)

بروز کا مسئلہ:
جہاں تک مجھے معلوم ہے ، بروز کا مسئلہ عجمی مسلمانوں کی ایجاد ہے اور اصل اس کی آرین ہے۔ میری رائے میں اس مسئلہ کی تاریخی تحقیق قادیانیت کا خاتمہ کرنے کے لیے کافی ہے
(پروفیسر الیاس برنی کے نامی)

ختم نبوت:
ختم نبوت کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص بعد اسلام اگر یہ دعوی کرے کہ مجھ میں ہر دو اجزا نبوت کے موجود ہیں۔ یعنی یہ کہ مجھے الہام ہوتا ہے اور میری جماعت میں داخل نہ ہونے والا کافر ہے تو وہ شخص کاذب ہے اور واجب القتل۔ مسیلمہ کذاب کو اسی بنا پر قتل کیا گیا تھا۔
(علامہ اقبال کا خط بہ نام نذیر نیازی )

مسلمانوں کے دوسرے فرقے کوئی الگ بنیاد قائم نہیں کرتے ۔ وہ بنیادی مسائل میں متفق ہیں۔ ایک دوسرے پر الحاد کا فتوی جڑنے کے باوجود وہ اساسات پر ایک رائے ہیں
(بہ جواب نہرو)

قادیانیت
قادیانیوں کے لیے صرف دو ہی راہیں ہیں۔ یا وہ بہائیوں کی تقلید کریں اور الگ ہو جائیں یا ختم نبوت کی تاویلوں کو چھوڑ کر اصل اصول کو اس کے پورے مفہوم کے ساتھ قبول کر لیں۔ ا ن کی جدید تاویلیں محض اس غرض سے ہیں کہ ان کا شمار حلقہ اسلام میں ہوتا رہے کہ انہیں سیاسی فوائد پہنچ سکیں۔
(قادیانیت اور اسلام)
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
ختم نبوت کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص بعد اسلام اگر یہ دعوی کرے کہ مجھ میں ہر دو اجزا نبوت کے موجود ہیں۔ یعنی یہ کہ مجھے الہام ہوتا ہے اور میری جماعت میں داخل نہ ہونے والا کافر ہے تو وہ شخص کاذب ہے اور واجب القتل۔
یعنی نبوت کے دعوے دار کو خالی دلیل سے جھوٹا ثابت کر دینا کافی نہیں۔ اس کو لازما قتل بھی کرنا ہوگا۔
 

dxbgraphics

محفلین
آج اگر اکثریت کہہ دے کہ بریلوی، اہل حدیث، وہابی، دیوبندی، اہل تشیع وغیرہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں تو ریاست یہ بات تسلیم کر لے گی؟

اکثریت کے کہنے پر نہیں بلکہ مرزا قادیانی کے خلیفہ مرزا ناصر کے قومی اسمبلی میں 13 دن تک علماء کے ساتھ بحث اور مرزا قادیانی کا دفاع میں ناکام ہونے پر، اپنا موقف ثابت نہ کر سکتنے پر اور علماء کے سوالات کا جواب نہ ہونے پر علماء اور عوامی نمائندوں نے قادیانیوں کو انہی کے کتابوں سے کافر ثابت کیا ہے۔
الحمد للہ آج ہمیں آئینی حق حاصل ہے کہ ہم قادیانیوں کو کافر کہہ سکیں اور ایک دھبہ تو انہوں نے خود پانے اوپر لگایا وہ یہ کہ آج تک قادیانی آئین پاکستان کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کے موجودہ خلافت کے دعویدار کی اعترافی ویڈیو ریکارڈ پر ہے
 
مدیر کی آخری تدوین:

dxbgraphics

محفلین
1974 میں
جب قومی اسمبلی میں فیصلہ ہوا کہ قادیانیت کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنا موقف اور دلائل دینے قومی اسمبلی میں آئیں تو۔۔۔
مرزا ناصر قادیانی سفید شلوار کرتے میں ملبوس طرے دار پگڑی باندھ کر آیا۔متشرع سفید داڑهی۔قرآن کی آیتیں بهی پڑھ رہے تهے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اسم مبارک زبان پر لاتے تو پورے ادب کے ساتھ درودشریف بهی پڑہتے۔ مفتی محمود صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایسے میں ارکان اسمبلی کہ ذہنوں کو تبدیل کرنا کوئی آسان کام نہیں تها۔ماہ نامہ ”الحق اکوڑہ خٹک“ کے شمارہ جنوری 1975 کے صفحہ نمبر 41 پر بیان فرماتے ہیں۔۔۔
”یہ مسلہ بہت بڑا اور مشکل تها“
اللہ کی شان کہ پورے ایوان کی طرف سے مفتی محمود صاحب کو ایوان کی ترجمانی کا شرف ملا اور مفتی صاحب نے راتوں کو جاگ جاگ کر مرزا غلام قادیانی کی کتابوں کا مطالعہ کیا۔حوالے نوٹ کیئے۔سوالات ترتیب دیئے۔ اسی کا نتیجہ تها کہ مرزا طاہرقادیانی کے طویل بیان کے بعد جرح کا جب آغاز ہوا تو اسی ”الحق رسالے“ میں مفتی محمود صاحب فرماتے ہیں کہ
”ہمارا کام پہلے ہی دن بن گیا“
اب سوالات مفتی صاحب کی طرف سے اور جوابات مرزا طاہر قادیانی کی طرف سے آپ کی خدمت میں۔۔۔۔
سوال۔مرزا غلام احمد کے بارے میں آپ کا کیا عقیدہ ہے؟
جواب۔وہ امتی نبی تهے۔امتی نبی کا معنی یہ ہے کہ امت محمدیہ کا فرد جو آپ کے کامل اتباع کی وجہ سے نبوت کا مقام حاصل کر لے
سوال۔اس پر وحی آتی تهی؟
جواب۔آتی تهی۔
سوال۔ (اس میں) خطا کا کوئی احتمال؟
جواب۔بالکل نہیں۔
سوال۔مرزا قادیانی نے لکها ہے جو شخص مجھ پر ایمان نہیں لاتا“ خواہ اس کو میرا نام نہ پہنچا ہو (وہ) کافر ہے۔پکا کافر۔دائرہ اسلام سے خارج ہے۔اس عبارت سے تو ستر کروڑ مسلمان سب کافر ہیں؟
جواب ۔کافر تو ہیں۔لیکن چهوٹے کافر ہیں“جیسا کہ امام بخاری نے اپنے صحیح میں ”کفردون کفر“ کی روایت درج کی ہے۔
سوال۔آگے مرزا نے لکها ہے۔پکا کافر؟
جواب۔اس کا مطلب ہے اپنے کفر میں پکے ہیں۔
سوال۔آگے لکها ہے دائرہ اسلام سے خارج ہے۔حالانکہ چهوٹا کفر ملت سے خارج ہونے کا سبب نہیں بنتا ہے؟
جواب۔دراصل دائرہ اسلام کے کئیں کٹیگیریاں ہیں۔اگر بعض سے نکلا ہے تو بعض سے نہیں نکلا ہے۔
سوال ایک جگہ اس نے لکها ہے کہ جہنمی بهی ہیں؟
(یہاں مفتی صاحب فرماتے ہیں جب قوی اسمبلی کے ممبران نے جب یہ سنا تو سب کے کان کهڑے ہوگئے کہ اچها ہم جہنمی ہیں اس سے ممبروں کو دهچکا لگا)
اسی موقع پر دوسرا سوال کیا کہ مرزا قادیانی سے پہلے کوئی نبی آیا ہے جو امتی نبی ہو؟ کیا صدیق اکبر ؓ یا حضرت عمر فاروق ؓ امتی نبی تهے؟
جواب۔ نہیں تھے۔
اس جواب پر مفتی صاحب نے کہا پهرتو مرزا قادیانی کے مرنے کے بعد آپ کا ہمارا عقیدہ ایک ہوگیا۔بس فرق یہ ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد نبوت ختم سمجهتے ہیں۔تم مرزا غلام قادیانی کے بعد نبوت ختم سمجهتے ہو۔تو گویا تمہارا خاتم النبیین مرزا غلام قادیانی ہے۔اور ہمارے خاتم النبیین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
جواب۔وہ فنا فی الرسول تهے۔یہ ان کا اپنا کمال تها۔وہ عین محمد ہوگئے تهے (معاذ اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی اس سے زیادہ توہین کیا ہوسکتی تهی )
سوال۔مرزا غلام قادیانی نے اپنے کتابوں کے بارے میں لکها ہے۔اسے ہر مسلم محبت و مودت کی آنکھ سے دیکھ لیتا ہے۔اور ان کے معارف سے نفع اٹهاتا ہے۔ مجهے قبول کرتا ہے۔اور(میرے) دعوے کی تصدیق کرتا ہے۔مگر (ذزیتہ البغایا ) بدکار عورتوں کی اولاد وہ لوگ جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا رکهی ہے۔وہ مجهے قبول نہیں کرتے۔؟
جواب۔بغایا کہ معنی سرکشوں کے ہیں۔
سوال۔بغایا کا لفظ قرآن پاک میں آیا ہے” و ما کانت امک بغیا“ سورہ مریم ) ترجمہ ہے تیری ماں بدکارہ نہ تهی“
جواب۔قرآن میں بغیا ہے۔بغایا نہیں۔
اس جواب پر مفتی صاحب نے فرمایا کہ صرف مفرد اور جمع کا فرق ہے۔نیز جامع ترمذی شریف میں اس مفہوم میں لفظ بغایا بهی مذکور ہے یعنی ”البغایا للاتی ینکحن انفسهن بغیر بینه“ )پھر جوش سےکہا) میں تمہیں چیلنج کرتا ہوں کہ تم اس لفظ بغیه کا استعمال اس معنی (بدکارہ) کے علاوہ کسی دوسرے معنی میں ہر گز نہیں کر کے دکها سکتے۔!!!
(اور مرزا طاہر لاجواب ہوا یہاں )
13 دن کے سوال جواب کے بعد جب فیصلہ کی گهڑی آئی تو 22 اگست1974 کو اپوزیشن کی طرف سے 6 افراد پرمشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی۔جن میں مفتی محمود صاحب“ مولانا شاہ احمدنورانی صاحب“پروفیسر غفور احمد صاحب“چودہری ظہور الہی صاحب“مسٹر غلام فاروق صاحب“سردار مولا بخش سومرو صاحب اور حکومت کی طرف سے وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ صاحب تهے۔ان کے ذمہ یہ کام لگایا گیا کہ یہ آئینی و قانون طور پر اس کا حل نکالیں۔تاکہ آئین پاکستان میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان کے کفر کو درج کردیا جائے۔لیکن اس موقع پر ایک اور مناظرہ منتظر تها۔۔۔۔۔
کفرِ قادیانیت و لاہوری گروپ پر قومی اسمبلی میں جرح تیرہ روز تک جاری رہی۔گیارہ دن ربوہ گروپ پر اور دو دن لاہوری گروپ پر۔ہرروز آٹھ گھنٹے جرح ہوئی۔اس طویل جرح و تنقید نے قادیانیت کے بھیانک چہرے کو بےنقاب کر کے رکھ دیا۔ اس کے بعد ایک اور مناظرہ ذولفقار علی بھٹو کی حکومت سے شروع ہوا کہ آئین پاکستان میں اس مقدمہ کا ”حاصل مغز “کیسے لکھا جائے۔؟
مسلسل بحث مباحثہ کے بعد۔۔۔۔۔۔
22 اگست سے 5 ستمبر 1974 کی شام تک اس کمیٹی کے بہت سے اجلاس ہوئے۔مگر متفقہ حل کی صورت گری ممکن نہ ہوسکی۔سب سے زیادہ جهگڑا دفعہ 106 میں ترمیم کے مسلے پر ہوا۔حکومت چاہتی تھی اس میں ترمیم نہ ہو۔اس دفعہ 106 کے تحت صوبائی اسمبلیوں میں غیر مسلم اقلیتوں کو نمائندگی دی گئی تهی۔ ایک بلوچستان میں۔ایک سرحد میں۔ایک دو سندھ میں اور پنجاب میں تین سیٹیں اور کچھ 6 اقلیتوں کے نام بهی لکهے ہیں۔عیسائی۔ہندو پارسی۔بدھ اور شیڈول کاسٹ یعنی اچهوت
مفتی محمود صاحب اور دیگر کمیٹی کے ارکان یہ چاہتے تهے کہ ان 6 کی قطار میں قادیانیوں کو بهی شامل کیا جائے۔تاکہ کوئی "شبہ" باقی نہ رہے
اس کے لیے بهٹو حکومت تیار نہ تهی۔وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا اس بات کو رہنے دو
مفتی محمود صاحب نے کہا جب اور اقلیتوں اور فرقوں کے نام فہرست میں شامل ہیں تو ان کا نام بهی لکھ دیں
پیرزادہ نے جواب دیا کہ ان اقلیتوں کا خود کا مطالبہ تها کہ ہمارا نام لکھا جائے۔ جب کہ مرزائیوں کی یہ ڈیمانڈ نہیں ہے
مفتی صاحب نے کہا کہ یہ تو تمہاری تنگ نظری اور ہماری فراخ دلی کا ثبوت ہے کہ ہم ان مرزائیوں کو بغیر ان کی ڈیمانڈ کے انہیں دے رہے ہیں (کمال کا جواب )
اس بحث مباحثہ کا 5 ستمبر کی شام تک کمیٹی کوئی فیصلہ ہی نہ کرسکی۔چنانچہ 6 ستمبر کو وزیراعظم بهٹو نے مفتی محمود سمیت پوری کمیٹی کے ارکان کو پرائم منسٹر ہاوس بلایا۔لیکن یہاں بهی بحث و مباحثہ کا نتیجہ صفر نکلا۔حکومت کی کوشش تهی کہ دفعہ 106 میں ترمیم کا مسلہ رہنے دیا جائے۔
جب کہ مفتی محمود صاحب اور دیگر کمیٹی کے ارکان سمجهتے تهے کہ اس کے بغیر حل ادهورا رہے گا
بڑے بحث و مباحثہ کے بعد بهٹو صاحب نے کہا کہ میں سوچوں گا
عصر کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا۔وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے مفتی صاحب اور دیگر کمیٹی ارکان کو اسپیکر کے کمرے میں بلایا۔ مفتی محمود صاحب اور کمیٹی نے وہاں بهی اپنے اسی موقف کو دهرایا کہ دفعہ 106 میں دیگر اقلیتوں کے ساتھ مرزائیوں کا نام لکها اور اس کی تصریح کی جائے
اور بریکٹ میں قادیانی اور لاہوری گروپ لکها جائے
پیرزادہ صاحب نے کہا کہ وہ اپنے آپ کو مرزائی نہیں کہتے، احمدی کہتے ہیں
مفتی محمود صاحب نے کہا کہ احمدی تو ہم ہیں۔ہم ان کو احمدی تسلیم نہیں کرتے۔پهر کہا کہ چلو مرزا غلام احمد کے پیرو کار لکھ دو
وزیرقانون نے نکتہ اٹهایا کہ آئین میں کسی شخص کا نام نہیں ہوتا (حالانکہ محمد علی جناح کا نام آئین میں موجود ہے ) اور پهر سوچ کر بولے کہ مفتی صاحب مرزا کا نام ڈال کر کیوں آئین کو پلید کرتے ہو؟
وزیر قانون کا خیال تها شاید مفتی محمود صاحب اس حیلے سے ٹل جائیں گے۔ (لیکن مفتی تو پهر مفتی صاحب تهے )
مفتی صاحب نے جواب دیا کہ شیطان۔ابلیس۔خنزیر اور فرعون کے نام تو قرآن پاک میں موجود ہیں۔کیا ان ناموں سے نعوذ باللہ قرآن پاک کی صداقت و تقدس پر کوئی اثر پڑا ہے۔؟
اس موقع پر وزیر قانون پیرزادہ صاحب لاجواب ہو کر کہنے لگے
چلو ایسا لکھ دو جو اپنے آپ کو احمدی کہلاتے ہیں
مفتی صاحب نے کہا بریکٹ بند ثانوی درجہ کی حیثیت رکهتا ہے۔صرف وضاحت کے لیے ہوتا ہے۔لہذا یوں لکھ دو قادیانی گروپ۔لاہوری گروپ جو اپنے کو احمدی کہلاتے ہیں
۔اور پهر الحمدللہ اس پر فیصلہ ہوگیا۔
تاریخی فیصلہ۔۔۔۔۔۔۔۔
7 ستمبر 1974 ہمارے ملک پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا وہ یادگار دن تها جب 1953 اور 74 کے شہیدانِ ختم نبوت کا خون رنگ لایا۔اور ہماری قومی اسمبلی نے ملی امنگوں کی ترجمانی کی اور عقیدہ ختم نبوت کو آئینی تحفظ دے کر قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا۔
دستور کی دفعہ 260 میں اس تاریخی شق کا اضافہ یوں ہوا ہے۔
”جو شخص خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ختم نبوت پر مکمل اور غیرمشروط ایمان نہ رکهتا ہو۔اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کسی بهی معنی و مطلب یا کسی بهی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کرنے والے کو پیغمبر یا مذہبی مصلح مانتا ہو۔وہ آئین یا قانون کے مقاصد کے ضمن میں مسلمان نہیں
اور دفعہ 106 کی نئی شکل کچھ یوں بنی۔۔۔۔۔
بلوچستان پنجاب سرحد اور سندھ کے صوبوں کی صوبائی اسمبلیوں میں ایسے افراد کے لیے مخصوص نشستیں ہوں گی جو عیسائی۔ہندو سکھ۔بدھ اور پارسی فرقوں اور قادیانیوں گروہ یا لاہوری افراد( جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں ) یا شیڈول کاسٹس سے تعلق رکهتے ہیں۔ (ان کی) بلوچستان میں ایک۔سرحد میں ایک۔پنجاب میں تین۔اور سندھ میں دو سیٹیں ہوں گی، یہ بات اسمبلی کے ریکارڈ پر ہے۔کہ اس ترمیم کے حق میں 130 ووٹ آئے اور مخالفت میں ایک بهی ووٹ نہیں آیا اس موقع پر اس مقدمہ کے قائد مفتی محمود رحمہ اللہ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔۔
اس فیصلے پر پوری قوم مبارک باد کی مستحق ہے اس پر نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام میں اطمینان کا اظہار کیا جائے گا۔میرے خیال میں مرزائیوں کو بهی اس فیصلہ کو خوش دلی سے قبول کرنا چاہیئے۔کیونکہ اب انہیں غیر مسلم کے جائز حقوق ملیں گے۔اور پهر فرمایا کہ سیاسی طور پر تو میں یہی کہہ سکتا ہوں (ملک کے) الجھے ہوئے مسائل کا حل بندوق کی گولی میں نہیں۔بلکہ مذاکرات کی میز پر ملتے ہیں
 

جاسم محمد

محفلین
اکثریت کے کہنے پر نہیں بلکہ ملعون مرزا قادیانی کے خلیفہ مرزا ناصر ملعون کے قومی اسمبلی میں 13 دن تک علماء کے ساتھ بحث اور مرزا قادیانی ملعون کا دفاع میں ناکام ہونے پر، اپنا موقف ثابت نہ کر سکتنے پر اور علماء کے سوالات کا جواب نہ ہونے پر علماء اور عوامی نمائندوں نے قادیانیوں کو انہی کے کتابوں سے کافر ثابت کیا ہے۔
الحمد للہ آج ہمیں آئینی حق حاصل ہے کہ ہم قادیانیوں کو کافر کہہ سکیں اور ایک دھبہ تو انہوں نے خود پانے اوپر لگایا وہ یہ کہ آج تک قادیانی آئین پاکستان کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کے موجودہ ملعون خلافت کے دعویدار کی اعترافی ویڈیو ریکارڈ پر ہے
قادیانیوں سے مذہبی و نظریاتی اختلاف آپ کا حق ہے۔ اپنے دین کی رو سے آپ ان کو کافر کہہ سکتے ہیں۔ لیکن ان کے ساتھ بغض، نفرت یا تضحیک آمیز برتاؤ کی اجازت آئین و قانون نے آپ کو نہیں دی۔ قادیانیوں کا مذہب جیسا بھی ہو، ہیں تو وہ بھی آپ کی طرح پاکستان کے برابر کے شہری۔ اس لیے اپنے ہی ہم وطنوں کے ساتھ اس طرح کا رویہ و برتاؤ درست نہیں۔
 

dxbgraphics

محفلین
قادیانیوں سے مذہبی و نظریاتی اختلاف آپ کا حق ہے۔ اپنے دین کی رو سے آپ ان کو کافر کہہ سکتے ہیں۔ لیکن ان کے ساتھ بغض، نفرت یا تضحیک آمیز برتاؤ کی اجازت آئین و قانون نے آپ کو نہیں دی۔ قادیانیوں کا مذہب جیسا بھی ہو، ہیں تو وہ بھی آپ کی طرح پاکستان کے برابر کے شہری۔ اس لیے اپنے ہی ہم وطنوں کے ساتھ اس طرح کا رویہ و برتاؤ درست نہیں۔
کون سے قانون اور آئین کی آپ بات کرتے ہیں۔
ان کا موجودہ خلیفہ کہتا ہے کہ وہ آئین پاکستان کو مانتا ہی نہیں۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

محمد سعد

محفلین
dxbgraphics
خیر تو ہے؟ اپریل کے بعد اب جا کے، نصف سال سے بھی زیادہ گزارنے کے بعد، یکدم دوسرے مذہب پر لعنت بھیجنے کا خیال کیسے آیا؟ :eek:
کیا لعنتوں کا سالانہ کوٹا پورا کر رہے ہیں 31 دسمبر سے پہلے؟ :p
 

وجی

لائبریرین
1974 میں
جب قومی اسمبلی میں فیصلہ ہوا کہ قادیانیت کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنا موقف اور دلائل دینے قومی اسمبلی میں آئیں تو۔۔۔
مرزا ناصر قادیانی سفید شلوار کرتے میں ملبوس طرے دار پگڑی باندھ کر آیا۔متشرع سفید داڑهی۔قرآن کی آیتیں بهی پڑھ رہے تهے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اسم مبارک زبان پر لاتے تو پورے ادب کے ساتھ درودشریف بهی پڑہتے۔ مفتی محمود صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایسے میں ارکان اسمبلی کہ ذہنوں کو تبدیل کرنا کوئی آسان کام نہیں تها۔ماہ نامہ ”الحق اکوڑہ خٹک“ کے شمارہ جنوری 1975 کے صفحہ نمبر 41 پر بیان فرماتے ہیں۔۔۔
”یہ مسلہ بہت بڑا اور مشکل تها“
اللہ کی شان کہ پورے ایوان کی طرف سے مفتی محمود صاحب کو ایوان کی ترجمانی کا شرف ملا اور مفتی صاحب نے راتوں کو جاگ جاگ کر مرزا غلام قادیانی کی کتابوں کا مطالعہ کیا۔حوالے نوٹ کیئے۔سوالات ترتیب دیئے۔ اسی کا نتیجہ تها کہ مرزا طاہرقادیانی کے طویل بیان کے بعد جرح کا جب آغاز ہوا تو اسی ”الحق رسالے“ میں مفتی محمود صاحب فرماتے ہیں کہ
”ہمارا کام پہلے ہی دن بن گیا“
اب سوالات مفتی صاحب کی طرف سے اور جوابات مرزا طاہر قادیانی کی طرف سے آپ کی خدمت میں۔۔۔۔
سوال۔مرزا غلام احمد کے بارے میں آپ کا کیا عقیدہ ہے؟
جواب۔وہ امتی نبی تهے۔امتی نبی کا معنی یہ ہے کہ امت محمدیہ کا فرد جو آپ کے کامل اتباع کی وجہ سے نبوت کا مقام حاصل کر لے
سوال۔اس پر وحی آتی تهی؟
جواب۔آتی تهی۔
سوال۔ (اس میں) خطا کا کوئی احتمال؟
جواب۔بالکل نہیں۔
سوال۔مرزا قادیانی نے لکها ہے جو شخص مجھ پر ایمان نہیں لاتا“ خواہ اس کو میرا نام نہ پہنچا ہو (وہ) کافر ہے۔پکا کافر۔دائرہ اسلام سے خارج ہے۔اس عبارت سے تو ستر کروڑ مسلمان سب کافر ہیں؟
جواب ۔کافر تو ہیں۔لیکن چهوٹے کافر ہیں“جیسا کہ امام بخاری نے اپنے صحیح میں ”کفردون کفر“ کی روایت درج کی ہے۔
سوال۔آگے مرزا نے لکها ہے۔پکا کافر؟
جواب۔اس کا مطلب ہے اپنے کفر میں پکے ہیں۔
سوال۔آگے لکها ہے دائرہ اسلام سے خارج ہے۔حالانکہ چهوٹا کفر ملت سے خارج ہونے کا سبب نہیں بنتا ہے؟
جواب۔دراصل دائرہ اسلام کے کئیں کٹیگیریاں ہیں۔اگر بعض سے نکلا ہے تو بعض سے نہیں نکلا ہے۔
سوال ایک جگہ اس نے لکها ہے کہ جہنمی بهی ہیں؟
(یہاں مفتی صاحب فرماتے ہیں جب قوی اسمبلی کے ممبران نے جب یہ سنا تو سب کے کان کهڑے ہوگئے کہ اچها ہم جہنمی ہیں اس سے ممبروں کو دهچکا لگا)
اسی موقع پر دوسرا سوال کیا کہ مرزا قادیانی سے پہلے کوئی نبی آیا ہے جو امتی نبی ہو؟ کیا صدیق اکبر ؓ یا حضرت عمر فاروق ؓ امتی نبی تهے؟
جواب۔ نہیں تھے۔
اس جواب پر مفتی صاحب نے کہا پهرتو مرزا قادیانی کے مرنے کے بعد آپ کا ہمارا عقیدہ ایک ہوگیا۔بس فرق یہ ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد نبوت ختم سمجهتے ہیں۔تم مرزا غلام قادیانی کے بعد نبوت ختم سمجهتے ہو۔تو گویا تمہارا خاتم النبیین مرزا غلام قادیانی ہے۔اور ہمارے خاتم النبیین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
جواب۔وہ فنا فی الرسول تهے۔یہ ان کا اپنا کمال تها۔وہ عین محمد ہوگئے تهے (معاذ اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی اس سے زیادہ توہین کیا ہوسکتی تهی )
سوال۔مرزا غلام قادیانی نے اپنے کتابوں کے بارے میں لکها ہے۔اسے ہر مسلم محبت و مودت کی آنکھ سے دیکھ لیتا ہے۔اور ان کے معارف سے نفع اٹهاتا ہے۔ مجهے قبول کرتا ہے۔اور(میرے) دعوے کی تصدیق کرتا ہے۔مگر (ذزیتہ البغایا ) بدکار عورتوں کی اولاد وہ لوگ جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا رکهی ہے۔وہ مجهے قبول نہیں کرتے۔؟
جواب۔بغایا کہ معنی سرکشوں کے ہیں۔
سوال۔بغایا کا لفظ قرآن پاک میں آیا ہے” و ما کانت امک بغیا“ سورہ مریم ) ترجمہ ہے تیری ماں بدکارہ نہ تهی“
جواب۔قرآن میں بغیا ہے۔بغایا نہیں۔
اس جواب پر مفتی صاحب نے فرمایا کہ صرف مفرد اور جمع کا فرق ہے۔نیز جامع ترمذی شریف میں اس مفہوم میں لفظ بغایا بهی مذکور ہے یعنی ”البغایا للاتی ینکحن انفسهن بغیر بینه“ )پھر جوش سےکہا) میں تمہیں چیلنج کرتا ہوں کہ تم اس لفظ بغیه کا استعمال اس معنی (بدکارہ) کے علاوہ کسی دوسرے معنی میں ہر گز نہیں کر کے دکها سکتے۔!!!
(اور مرزا طاہر لاجواب ہوا یہاں )
13 دن کے سوال جواب کے بعد جب فیصلہ کی گهڑی آئی تو 22 اگست1974 کو اپوزیشن کی طرف سے 6 افراد پرمشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی۔جن میں مفتی محمود صاحب“ مولانا شاہ احمدنورانی صاحب“پروفیسر غفور احمد صاحب“چودہری ظہور الہی صاحب“مسٹر غلام فاروق صاحب“سردار مولا بخش سومرو صاحب اور حکومت کی طرف سے وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ صاحب تهے۔ان کے ذمہ یہ کام لگایا گیا کہ یہ آئینی و قانون طور پر اس کا حل نکالیں۔تاکہ آئین پاکستان میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان کے کفر کو درج کردیا جائے۔لیکن اس موقع پر ایک اور مناظرہ منتظر تها۔۔۔۔۔
کفرِ قادیانیت و لاہوری گروپ پر قومی اسمبلی میں جرح تیرہ روز تک جاری رہی۔گیارہ دن ربوہ گروپ پر اور دو دن لاہوری گروپ پر۔ہرروز آٹھ گھنٹے جرح ہوئی۔اس طویل جرح و تنقید نے قادیانیت کے بھیانک چہرے کو بےنقاب کر کے رکھ دیا۔ اس کے بعد ایک اور مناظرہ ذولفقار علی بھٹو کی حکومت سے شروع ہوا کہ آئین پاکستان میں اس مقدمہ کا ”حاصل مغز “کیسے لکھا جائے۔؟
مسلسل بحث مباحثہ کے بعد۔۔۔۔۔۔
22 اگست سے 5 ستمبر 1974 کی شام تک اس کمیٹی کے بہت سے اجلاس ہوئے۔مگر متفقہ حل کی صورت گری ممکن نہ ہوسکی۔سب سے زیادہ جهگڑا دفعہ 106 میں ترمیم کے مسلے پر ہوا۔حکومت چاہتی تھی اس میں ترمیم نہ ہو۔اس دفعہ 106 کے تحت صوبائی اسمبلیوں میں غیر مسلم اقلیتوں کو نمائندگی دی گئی تهی۔ ایک بلوچستان میں۔ایک سرحد میں۔ایک دو سندھ میں اور پنجاب میں تین سیٹیں اور کچھ 6 اقلیتوں کے نام بهی لکهے ہیں۔عیسائی۔ہندو پارسی۔بدھ اور شیڈول کاسٹ یعنی اچهوت
مفتی محمود صاحب اور دیگر کمیٹی کے ارکان یہ چاہتے تهے کہ ان 6 کی قطار میں قادیانیوں کو بهی شامل کیا جائے۔تاکہ کوئی "شبہ" باقی نہ رہے
اس کے لیے بهٹو حکومت تیار نہ تهی۔وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا اس بات کو رہنے دو
مفتی محمود صاحب نے کہا جب اور اقلیتوں اور فرقوں کے نام فہرست میں شامل ہیں تو ان کا نام بهی لکھ دیں
پیرزادہ نے جواب دیا کہ ان اقلیتوں کا خود کا مطالبہ تها کہ ہمارا نام لکھا جائے۔ جب کہ مرزائیوں کی یہ ڈیمانڈ نہیں ہے
مفتی صاحب نے کہا کہ یہ تو تمہاری تنگ نظری اور ہماری فراخ دلی کا ثبوت ہے کہ ہم ان مرزائیوں کو بغیر ان کی ڈیمانڈ کے انہیں دے رہے ہیں (کمال کا جواب )
اس بحث مباحثہ کا 5 ستمبر کی شام تک کمیٹی کوئی فیصلہ ہی نہ کرسکی۔چنانچہ 6 ستمبر کو وزیراعظم بهٹو نے مفتی محمود سمیت پوری کمیٹی کے ارکان کو پرائم منسٹر ہاوس بلایا۔لیکن یہاں بهی بحث و مباحثہ کا نتیجہ صفر نکلا۔حکومت کی کوشش تهی کہ دفعہ 106 میں ترمیم کا مسلہ رہنے دیا جائے۔
جب کہ مفتی محمود صاحب اور دیگر کمیٹی کے ارکان سمجهتے تهے کہ اس کے بغیر حل ادهورا رہے گا
بڑے بحث و مباحثہ کے بعد بهٹو صاحب نے کہا کہ میں سوچوں گا
عصر کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا۔وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے مفتی صاحب اور دیگر کمیٹی ارکان کو اسپیکر کے کمرے میں بلایا۔ مفتی محمود صاحب اور کمیٹی نے وہاں بهی اپنے اسی موقف کو دهرایا کہ دفعہ 106 میں دیگر اقلیتوں کے ساتھ مرزائیوں کا نام لکها اور اس کی تصریح کی جائے
اور بریکٹ میں قادیانی اور لاہوری گروپ لکها جائے
پیرزادہ صاحب نے کہا کہ وہ اپنے آپ کو مرزائی نہیں کہتے، احمدی کہتے ہیں
مفتی محمود صاحب نے کہا کہ احمدی تو ہم ہیں۔ہم ان کو احمدی تسلیم نہیں کرتے۔پهر کہا کہ چلو مرزا غلام احمد کے پیرو کار لکھ دو
وزیرقانون نے نکتہ اٹهایا کہ آئین میں کسی شخص کا نام نہیں ہوتا (حالانکہ محمد علی جناح کا نام آئین میں موجود ہے ) اور پهر سوچ کر بولے کہ مفتی صاحب مرزا کا نام ڈال کر کیوں آئین کو پلید کرتے ہو؟
وزیر قانون کا خیال تها شاید مفتی محمود صاحب اس حیلے سے ٹل جائیں گے۔ (لیکن مفتی تو پهر مفتی صاحب تهے )
مفتی صاحب نے جواب دیا کہ شیطان۔ابلیس۔خنزیر اور فرعون کے نام تو قرآن پاک میں موجود ہیں۔کیا ان ناموں سے نعوذ باللہ قرآن پاک کی صداقت و تقدس پر کوئی اثر پڑا ہے۔؟
اس موقع پر وزیر قانون پیرزادہ صاحب لاجواب ہو کر کہنے لگے
چلو ایسا لکھ دو جو اپنے آپ کو احمدی کہلاتے ہیں
مفتی صاحب نے کہا بریکٹ بند ثانوی درجہ کی حیثیت رکهتا ہے۔صرف وضاحت کے لیے ہوتا ہے۔لہذا یوں لکھ دو قادیانی گروپ۔لاہوری گروپ جو اپنے کو احمدی کہلاتے ہیں
۔اور پهر الحمدللہ اس پر فیصلہ ہوگیا۔
تاریخی فیصلہ۔۔۔۔۔۔۔۔
7 ستمبر 1974 ہمارے ملک پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا وہ یادگار دن تها جب 1953 اور 74 کے شہیدانِ ختم نبوت کا خون رنگ لایا۔اور ہماری قومی اسمبلی نے ملی امنگوں کی ترجمانی کی اور عقیدہ ختم نبوت کو آئینی تحفظ دے کر قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا۔
دستور کی دفعہ 260 میں اس تاریخی شق کا اضافہ یوں ہوا ہے۔
”جو شخص خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ختم نبوت پر مکمل اور غیرمشروط ایمان نہ رکهتا ہو۔اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کسی بهی معنی و مطلب یا کسی بهی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کرنے والے کو پیغمبر یا مذہبی مصلح مانتا ہو۔وہ آئین یا قانون کے مقاصد کے ضمن میں مسلمان نہیں
اور دفعہ 106 کی نئی شکل کچھ یوں بنی۔۔۔۔۔
بلوچستان پنجاب سرحد اور سندھ کے صوبوں کی صوبائی اسمبلیوں میں ایسے افراد کے لیے مخصوص نشستیں ہوں گی جو عیسائی۔ہندو سکھ۔بدھ اور پارسی فرقوں اور قادیانیوں گروہ یا لاہوری افراد( جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں ) یا شیڈول کاسٹس سے تعلق رکهتے ہیں۔ (ان کی) بلوچستان میں ایک۔سرحد میں ایک۔پنجاب میں تین۔اور سندھ میں دو سیٹیں ہوں گی، یہ بات اسمبلی کے ریکارڈ پر ہے۔کہ اس ترمیم کے حق میں 130 ووٹ آئے اور مخالفت میں ایک بهی ووٹ نہیں آیا اس موقع پر اس مقدمہ کے قائد مفتی محمود رحمہ اللہ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔۔
اس فیصلے پر پوری قوم مبارک باد کی مستحق ہے اس پر نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام میں اطمینان کا اظہار کیا جائے گا۔میرے خیال میں مرزائیوں کو بهی اس فیصلہ کو خوش دلی سے قبول کرنا چاہیئے۔کیونکہ اب انہیں غیر مسلم کے جائز حقوق ملیں گے۔اور پهر فرمایا کہ سیاسی طور پر تو میں یہی کہہ سکتا ہوں (ملک کے) الجھے ہوئے مسائل کا حل بندوق کی گولی میں نہیں۔بلکہ مذاکرات کی میز پر ملتے ہیں
اس تمام تفصیل کا کوئی لنک ملے گا۔
 

dxbgraphics

محفلین
dxbgraphics
خیر تو ہے؟ اپریل کے بعد اب جا کے، نصف سال سے بھی زیادہ گزارنے کے بعد، یکدم دوسرے مذہب پر لعنت بھیجنے کا خیال کیسے آیا؟ :eek:
کیا لعنتوں کا سالانہ کوٹا پورا کر رہے ہیں 31 دسمبر سے پہلے؟ :p
کوٹہ پورا کرنے کے لئے تو ساری عمر بھی کم ہے۔ بس یہی سمجھ لیں کہ میری نظر اس لڑی پر اب پڑی ہے۔
 

محمد سعد

محفلین
جھوٹے نبی سے ان کی نبوت کا دلیل مانگنا۔۔ مانگنے والا بھی دائرہ اسلام سے خارج ہوتا ہے۔۔۔۔۔
اگر دلیل کو پرکھنے کی صلاحیت رکھنے والے اس خوف سے دلیل نہ مانگیں اور سادہ لوگوں کو اس کاچیلنج نہ کیا جانا اس کے حق کی دلیل لگے تو پھر؟
 

نوید خان

محفلین
جھوٹے نبی سے ان کی نبوت کا دلیل مانگنا۔۔ مانگنے والا بھی دائرہ اسلام سے خارج ہوتا ہے۔۔۔۔۔
پہلے لوگوں کو دائرہ اسلام میں داخل کرنے پہ تدبر ہوتا تھا اور آج کل نکالنے پہ!
یہی صورتحال رہی تو چند عرصے میں ہر شخص ہی خود کے علاوہ ہر دوسرے شخص کو دائرہ اسلام سے خارج تصور رہے گا!
 
آخری تدوین:
Top