تعارف اتنا ہی اب عیاں ہوں، جتنا کبھی نہاں تھا (مریم)

گئے دنوں کی بات ہے، میں سوچا کرتی تھی کہ تعارف کے نام پر اکثراوقات وہ معلومات جاننا مقصود ہوا کرتا ہے جو زیادہ تر انسانوں نے اپنے لیے خود نہیں چنی ہوتیں۔ زندگی کے ان میں سے اکثر فیصلے بہت پہلے طے ہو چکے ہوتے ہیں۔ وہ حالات اور ان کے نتیجے میں آنے والی کنڈیشنننگ کسی انسان کو بنانے یا بگاڑنے میں کردار تو خوب ادا کرتے ہیں مگر اس کی سمت کا تعین نہیں کر پاتے۔ سمت ہر روح کے اندر کسی تہہ میں پنہاں ہے کہ وہ اپنے حالات سے تعمیر یا تخریب کی کن جہتوں کو دریافت کر پائے گی اسی لیے دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک ہی والدین کی اولاد یا ایک ہی استاد کے شاگرد متعدد بار مخالف سمتوں میں نکل پڑتے ہیں۔ ان میں سے بعض کو لوٹنا نصیب ہو جاتا ہے مگر بہتوں کو اپنی منزل کا ایقان لے ڈوبتا ہے۔ حالانکہ وہ شخص جس نےایک بار منزل کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر دیکھ لیا ہو، یہ راز دریافت کر لیتا ہے کہ منزلیں کبھی بھی ویسی نہیں ہوا کرتیں جیسی سفر کے ارادے سے قبل چشم تصور میں سمائی ہوتی ہیں۔ منزل میں بھی وہی دونوں پہلو ہوا کرتے ہیں جن سے کسی انسان کا مفر ممکن نہیں۔ پڑھتے ہیں تو مزید پڑھیے کہ یہ سبھی سیاق و سباق کسی ایسی تحریر کا نہیں جس میں ہم زندگی کا اپنے حصے کا راز آپ سب کے لیے فاش کرنے جا رہے ہوں۔ بلکہ یہ تحریر عرفان سعید صاحب کی شروع کردہ ایک حالیہ لڑی کی بائی پروڈکٹ ہے۔ انہوں نے کہا اور ہم نے مانا کہ محفل میں تعارف ایک ہی بار پیش کیا جائے یہ ضروری تو نہیں۔ مزید برآں ہم اس بات کا بھی اضافہ کیے دیتے ہیں کہ محفل کی کوئی رول بک یا گنیز بک آف محفل ریکارڈ وغیرہ بھی تاحال منظر عام پر نہ آئیں۔ تو کیوں نہ اپنا تعارف مکرر پیش کیا جائے؟ تاہم یہ تعارف وہ معلومات نہیں ہوگی جس کا اوپر ذکر ہے کیونکہ ایسی معلومات ہمارے گزشتہ تعارف و انٹرویو میں یا انٹرنیٹ پر مزید پروفیشنل پروفائلز میں بآسانی مل ہی جائے گی۔ اگرچہ یہ میری ہیں، مگر میں ان کی نہیں!

میں ایک خام اور عام انسان ہوں جس کو آپ کبھی اگر ملیں گے تو خامیاں نوٹ نہ کرنی پڑیں گی کیونکہ یہ ڈسپلے پر موجود رہیں گی، اور نہ ہی میرے عام ہونے پر آپ کو کوئی شبہ ہو گا کیونکہ عام انسان دوسرے انسانوں کے لیے دستیاب رہا کرتا ہے۔ نہ میں کم یاب ہوں نہ نایاب اور نہ ہی ایسی کوئی خواہش پال رکھی ہے۔ میں بس ایک ایسا انسان ہوں جو سنجیدگی سے سوچنے بیٹھتا ہے تو لگتا ہے کہ زندگی نے اپنے گھر دعوت تو دی تھی، مگر مہمان نوازی کرنا بھول گئی۔ ہم ہی اس کے گھر آ کر جھاڑ پونجھ کر رہے ہیں اور ہم ہی اس کا گھر چلائے رکھنے کے لیے چولہا چوکا سنبھال رہے ہیں۔ چلو اچھا ہے، اگلے گھر جانے کی پریکٹس ہو جائے گی! (یہی کہتے ہیں نا سبھی لڑکیوں کو؟)۔ چلو زندگی میں بھی اگلے گھر کی تیاری کرتے ہیں۔ مگر لڑکیوں کا کیا مذکور؟ میں تو ایک انسان ہوں! ہاں، بھئی انسان تو ہوں مگر معاشرے کے انسان مجھے ایک انسان کے طور پر بہت کم دیکھتے ہیں۔ لڑکی ہونے کا امتیازی سلوک ہمیشہ ساتھ ساتھ ہی رہا ہے۔ مگر میں نے اپنے اندر کا انسانی ذہن مرنے نہیں دیا کہ ذہن کی کوئی جینڈر آج تک دیکھی نہ سنی۔ انسان اکثر اپنے خواب کی اونچائی یا خوف کی گہرائی سے پہچانا جاتا ہے، کیونکہ یہی چیزیں اس کی قوت فیصلہ کو سمت دیتی ہیں۔ آئیے، آج دیکھیے مجھ سا انسان جس نے وہ خواب دیکھ رکھے ہیں جن کو دیکھنے کی "اجازت" فقط لڑکوں کوملتی ہے مگر میرے خوف؟ ہائے! میرے خوف! کیا آپ میرے تعارف میں میرے خوف جانیں گے؟ میرے سبھی خوف لڑکیوں والے ہیں۔ زندگی تو ہر انسان کی ہی موت کی امانت ہے، میں جس دن بھی مر جاؤں میں اسی راستے پر ہوں جس پہ مرنا پسند کروں گی اور منزلیں آ آ کر ملتی اور پیچھے چھوٹتی رہیں یا سرے سے پردہ اوڑھے رکھیں مجھے کچھ ایسی پرواہ نہیں، کیونکہ میرے ہاتھ میں فقط کوشش اور قصد تھے، سو کر لیے۔ موت کا خوف نہیں کہ صحیح دھج سے مقتل میں جانا عین جوانمردی ہے۔ مگر میرے اندر کی عورت؟ ہر روز صرف یہی نہیں کہ کوئی کام یا بات کرتے ہوئے بلکہ فقط ایگزسٹ کرتے ہوئے بھی یہ سوچتی ہے کہ خدا جانے کب کس نام پر مار دی جائے اور مارنے والے اسے عین حق سمجھیں کہ میں اسی سلوک کی مستحق تھی کیونکہ میں عورت تھی۔ میں وہ لڑکی ہوں جس کے باپ، بھائیوں اور شوہر نے اسے تمام عمر اپنی ہتھیلیوں پر اٹھا کر رکھا اور اپنے پر بھی مجھے اڑنے کے لیے دیے کہ میں ایمپاورڈ وومن کہلاؤں۔ اگر مجھ جیسی لڑکی یہ محسوس کرتی ہے تو خدا جانے باقی لڑکیوں کا حال کیا ہوگا۔

اپنے تعارف میں مزید اپنی آپ بیتی لکھنے کی تاب تو نہیں اور نہ ہی اب ممتاز مفتی بننے کا یارا ہے۔ کسی دور میں بہت دل تھا کہ تحت الشعور کے ان موضوعات پر کلام کروں جہاں زندگی کسی نوزائیدہ بچے کی طرح خون میں لت پت چیختی کرلاتی ہے مگر جلد ہی ایک بار پھر باور ہوا کہ میں عورت ہوں اور ممتاز مفتی ٹھہرا مرد! وہ لکھ سکتا تھا، میں نہ لکھ سکوں گی کہ میرے پاس کوئی مستقل ٹھکانہ بھی نہیں جسے ساری دنیا سے بغاوت کر کے اپنا سکوں اور ایک نئے بہانے سے بحیثیت عورت موت کے گھاٹ نہ اتار دی جاؤں۔ خیر، موت کا ذکر بھی اس لیے کر رہی ہوں کیونکہ اس سے بھی برے ہر روز ہونے والے واقعات کا ذکر کرنے کی تاب نہیں۔ ہاں، مگر میں نے بہت قریب سے ان عورتوں کو دیکھا ہے۔ ان میں سے ایک کو جنازے سے قبل غسل میت بھی فراہم کیا ہے۔ یہ دیکھیں کہ میں نے اپنے خواب ترک نہیں کیے اور اپنی آواز نہیں دبائی۔ آپ مجھے جو بھی سمجھتے رہیے اور زمانہ مجھ پر جیسے بھی حالات کی بوچھاڑ کرتا رہے، میں وہ انسان ہوں جو یہ سمجھتا ہے کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ زمانے میں زیادہ تر جو نظریات و روایات ہیں وہ فقط مرد کا پرسپیکٹو ہیں۔ مجھے انتظار ہے اس دن کا جب عورتیں اپنی کہانیاں خود سنائیں گی۔ تاہم اے عورتو! تم تب بھی ممتاز مفتی نہ بننا، وگرنہ مونچھوں کو تاؤ دینے والے متعدد ہاتھ دوبارہ اٹھ نہ پاویں گے۔ بس اتنا کرنا کہ تمہارے بعد آنے والی وہ بچیاں جن کے آسمان کو چھونے کے خواب ہوں، وہ خوف میں نہ جیتی رہیں اور ہراس میں نہ گھٹتی رہیں۔ تم اٹھو اور اپنے آپ کو آگے بڑھ کر خود ڈیفائن کرو۔۔۔اس سے پہلے کہ لوگ تمہاری خاموشی کو اپنی مرضی کے معنی پہناتے پہناتے مر جاویں اور نئے آنے والوں میں یہ ورثہ منتقل کرنے کی عادت بھی دہراتے جاویں!
 
آخری تدوین:

یاز

محفلین
بہت عمدہ اور پراثر تعارفِ دوم لکھا ہے مریم افتخار ۔
ویسے میں اس کو تعارف کی بجائے ہمارے معاشرے اور معاشرتی سوچ و فہم کا نوحہ یا ماتم نامہ کہنا مناسب سمجھوں گا۔ اس پہ لکھتی رہیے کہ روایت شکنی کی یہ شمع جلتی رہنی چاہیے۔
 

یاز

محفلین
ہمارے پاس لکھنے کو الفاظ کی پرکاری اور جادوگری تو نہیں ہے، تاہم کیفی اعظمی کی ذیلی نظم آپ کے اس تعارف کی نذر کہ کبھی کبھی ہمیں لگتا ہے کہ کیفی صاحب نے ہمارے ہی خیالات کو نظم کی صورت دی ہے۔ نظم کا عنوان ہی "عورت" ہے۔

عورت از کیفی اعظمی
اٹھ میری جان! میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے
زندگی جہد میں ہے صبر کے قابو میں نہیں
نبضِ ہستی کا لہو کانپتے آنسو میں نہیں
اڑنے کھلنے میں ہے نکہت خمِ گیسو میں نہیں
جنت اک اور ہے جو مرد کے پہلو میں نہیں
اس کی آزاد روش پر بھی مچلنا ہے تجھے
اٹھ میری جان! میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

گوشے گوشے میں سلگتی ہے چتا تیرے لئے
فرض کا بھیس بدلتی ہے قضا تیرے لئے
قہر ہے تیری ہر اک نرم ادا تیرے لئے
زہر ہی زہر ہے دنیا کی ہوا تیرے لئے
رُت بدل ڈال اگر پھلنا پھولنا ہے تجھے
اٹھ میری جان! میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

قدر اب تک تری تاریخ نے جانی ہی نہیں
تجھ میں شعلے بھی ہیں، اشک فشانی ہی نہیں
تو حقیقت بھی ہے دلچسپ کہانی ہی نہیں
تیری ہستی بھی ہے اک چیز جوانی ہی نہیں
اپنی تاریخ کا عنوان بدلنا ہے تجھے
اٹھ میری جان! میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

توڑ کر رسم کے بت بندِ قدامت سے نکل
ضعفِ عشرت سے نکل وہمِ نزاکت سے نکل
نفس کے کھینچے ہوئے حلقہء عظمت سے نکل
قید بن جائے محبت، تو محبت سے نکل
راہ کا خار ہی کیا گل بھی کچلنا ہے تجھے
اٹھ میری جان! میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

تو فلاطون و ارسطو ہے، تو زہرہ پروین
تیرے قبضے میں ہےگردوں تری ٹھوکرمیں زمیں
ہاں اُٹھا جلد اُٹھا، پائے مقدر سے جبیں
میں بھی رکنے کا نہیں تو بھی رکنے کا نہیں
لڑکھڑائے گی کہاں تک کہ سنبھلنا ہے تجھے
اٹھ میری جان! میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے
 

جاسمن

لائبریرین
تو فلاطون و ارسطو ہے، تو زہرہ پروین
تیرے قبضے میں ہےگردوں تری ٹھوکرمیں زمیں
ہاں اُٹھا جلد اُٹھا، پائے مقدر سے جبیں
میں بھی رکنے کا نہیں تو بھی رکنے کا نہیں
مریم! افتخار ہو ہمارا۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
گئے دنوں کی بات ہے، میں سوچا کرتی تھی کہ تعارف کے نام پر اکثراوقات وہ معلومات جاننا مقصود ہوا کرتا ہے جو زیادہ تر انسانوں نے اپنے لیے خود نہیں چنی ہوتیں۔ زندگی کے ان میں سے اکثر فیصلے بہت پہلے طے ہو چکے ہوتے ہیں۔ وہ حالات اور ان کے نتیجے میں آنے والی کنڈیشنننگ کسی انسان کو بنانے یا بگاڑنے میں کردار تو خوب ادا کرتے ہیں مگر اس کی سمت کا تعین نہیں کر پاتے۔ سمت ہر روح کے اندر کسی تہہ میں پنہاں ہے کہ وہ اپنے حالات سے تعمیر یا تخریب کی کن جہتوں کو دریافت کر پائے گی اسی لیے دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک ہی والدین کی اولاد یا ایک ہی استاد کے شاگرد متعدد بار مخالف سمتوں میں نکل پڑتے ہیں۔ ان میں سے بعض کو لوٹنا نصیب ہو جاتا ہے مگر بہتوں کو اپنی منزل کا ایقان لے ڈوبتا ہے۔ حالانکہ وہ شخص جس نےایک بار منزل کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر دیکھ لیا ہو، یہ راز دریافت کر لیتا ہے کہ منزلیں کبھی بھی ویسی نہیں ہوا کرتیں جیسی سفر کے ارادے سے قبل چشم تصور میں سمائی ہوتی ہیں۔ منزل میں بھی وہی دونوں پہلو ہوا کرتے ہیں جن سے کسی انسان کا مفر ممکن نہیں۔ پڑھتے ہیں تو مزید پڑھیے کہ یہ سبھی سیاق و سباق کسی ایسی تحریر کا نہیں جس میں ہم زندگی کا اپنے حصے کا راز آپ سب کے لیے فاش کرنے جا رہے ہوں۔ بلکہ یہ تحریر عرفان سعید صاحب کی شروع کردہ ایک حالیہ لڑی کی بائی پروڈکٹ ہے۔ انہوں نے کہا اور ہم نے مانا کہ محفل میں تعارف ایک ہی بار پیش کیا جائے یہ ضروری تو نہیں۔ مزید برآں ہم اس بات کا بھی اضافہ کیے دیتے ہیں کہ محفل کی کوئی رول بک یا گنیز بک آف محفل ریکارڈ وغیرہ بھی تاحال منظر عام پر نہ آئیں۔ تو کیوں نہ اپنا تعارف مکرر پیش کیا جائے؟ تاہم یہ تعارف وہ معلومات نہیں ہوگی جس کا اوپر ذکر ہے کیونکہ ایسی معلومات ہمارے گزشتہ تعارف و انٹرویو میں یا انٹرنیٹ پر مزید پروفیشنل پروفائلز میں بآسانی مل ہی جائے گی۔ اگرچہ یہ میری ہیں، مگر میں ان کی نہیں!

میں ایک خام اور عام انسان ہوں جس کو آپ کبھی اگر ملیں گے تو خامیاں نوٹ نہ کرنی پڑیں گی کیونکہ یہ ڈسپلے پر موجود رہیں گی، اور نہ ہی میرے عام ہونے پر آپ کو کوئی شبہ ہو گا کیونکہ عام انسان دوسرے انسانوں کے لیے دستیاب رہا کرتا ہے۔ نہ میں کم یاب ہوں نہ نایاب اور نہ ہی ایسی کوئی خواہش پال رکھی ہے۔ میں بس ایک ایسا انسان ہوں جو سنجیدگی سے سوچنے بیٹھتا ہے تو لگتا ہے کہ زندگی نے اپنے گھر دعوت تو دی تھی، مگر مہمان نوازی کرنا بھول گئی۔ ہم ہی اس کے گھر آ کر جھاڑ پونجھ کر رہے ہیں اور ہم ہی اس کا گھر چلائے رکھنے کے لیے چولہا چوکا سنبھال رہے ہیں۔ چلو اچھا ہے، اگلے گھر جانے کی پریکٹس ہو جائے گی! (یہی کہتے ہیں نا سبھی لڑکیوں کو؟)۔ چلو زندگی میں بھی اگلے گھر کی تیاری کرتے ہیں۔ مگر لڑکیوں کا کیا مذکور؟ میں تو ایک انسان ہوں! ہاں، بھئی انسان تو ہوں مگر معاشرے کے انسان مجھے ایک انسان کے طور پر بہت کم دیکھتے ہیں۔ لڑکی ہونے کا امتیازی سلوک ہمیشہ ساتھ ساتھ ہی رہا ہے۔ مگر میں نے اپنے اندر کا انسانی ذہن مرنے نہیں دیا کہ ذہن کی کوئی جینڈر آج تک دیکھی نہ سنی۔ انسان اکثر اپنے خواب کی اونچائی یا خوف کی گہرائی سے پہچانا جاتا ہے، کیونکہ یہی چیزیں اس کی قوت فیصلہ کو سمت دیتی ہیں۔ آئیے، آج دیکھیے مجھ سا انسان جس نے وہ خواب دیکھ رکھے ہیں جن کو دیکھنے کی "اجازت" فقط لڑکوں کوملتی ہے مگر میرے خوف؟ ہائے! میرے خوف! کیا آپ میرے تعارف میں میرے خوف جانیں گے؟ میرے سبھی خوف لڑکیوں والے ہیں۔ زندگی تو ہر انسان کی ہی موت کی امانت ہے، میں جس دن بھی مر جاؤں میں اسی راستے پر ہوں جس پہ مرنا پسند کروں گی اور منزلیں آ آ کر ملتی اور پیچھے چھوٹتی رہیں یا سرے سے پردہ اوڑھے رکھیں مجھے کچھ ایسی پرواہ نہیں، کیونکہ میرے ہاتھ میں فقط کوشش اور قصد تھے، سو کر لیے۔ موت کا خوف نہیں کہ صحیح دھج سے مقتل میں جانا عین جوانمردی ہے۔ مگر میرے اندر کی عورت؟ ہر روز صرف یہی نہیں کہ کوئی کام یا بات کرتے ہوئے بلکہ فقط ایگزسٹ کرتے ہوئے بھی یہ سوچتی ہے کہ خدا جانے کب کس نام پر مار دی جائے اور مارنے والے اسے عین حق سمجھیں کہ میں اسی سلوک کی مستحق تھی کیونکہ میں عورت تھی۔ میں وہ لڑکی ہوں جس کے باپ، بھائیوں اور شوہر نے اسے تمام عمر اپنی ہتھیلیوں پر اٹھا کر رکھا اور اپنے پر بھی مجھے اڑنے کے لیے دیے کہ میں ایمپاورڈ وومن کہلاؤں۔ اگر مجھ جیسی لڑکی یہ محسوس کرتی ہے تو خدا جانے باقی لڑکیوں کا حال کیا ہوگا۔

اپنے تعارف میں مزید اپنی آپ بیتی لکھنے کی تاب تو نہیں اور نہ ہی اب ممتاز مفتی بننے کا یارا ہے۔ کسی دور میں بہت دل تھا کہ تحت الشعور کے ان موضوعات پر کلام کروں جہاں زندگی کسی نوزائیدہ بچے کی طرح خون میں لت پت چیختی کرلاتی ہے مگر جلد ہی ایک بار پھر باور ہوا کہ میں عورت ہوں اور ممتاز مفتی ٹھہرا مرد! وہ لکھ سکتا تھا، میں نہ لکھ سکوں گی کہ میرے پاس کوئی مستقل ٹھکانہ بھی نہیں جسے ساری دنیا سے بغاوت کر کے اپنا سکوں اور ایک نئے بہانے سے بحیثیت عورت موت کے گھاٹ نہ اتار دی جاؤں۔ خیر، موت کا ذکر بھی اس لیے کر رہی ہوں کیونکہ اس سے بھی برے ہر روز ہونے والے واقعات کا ذکر کرنے کی تاب نہیں۔ ہاں، مگر میں نے بہت قریب سے ان عورتوں کو دیکھا ہے۔ ان میں سے ایک کو جنازے سے قبل غسل میت بھی فراہم کیا ہے۔ یہ دیکھیں کہ میں نے اپنے خواب ترک نہیں کیے اور اپنی آواز نہیں دبائی۔ آپ مجھے جو بھی سمجھتے رہیے اور زمانہ مجھ پر جیسے بھی حالات کی بوچھاڑ کرتا رہے، میں وہ انسان ہوں جو یہ سمجھتا ہے کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ زمانے میں زیادہ تر جو نظریات و روایات ہیں وہ فقط مرد کا پرسپیکٹو ہیں۔ مجھے انتظار ہے اس دن کا جب عورتیں اپنی کہانیاں خود سنائیں گی۔ تاہم اے عورتو! تم تب بھی ممتاز مفتی نہ بننا، وگرنہ مونچھوں کو تاؤ دینے والے متعدد ہاتھ دوبارہ اٹھ نہ پاویں گے۔ بس اتنا کرنا کہ تمہارے بعد آنے والی وہ بچیاں جن کے آسمان کو چھونے کے خواب ہوں، وہ خوف میں نہ جیتی رہیں اور ہراس میں نہ گھٹتی رہیں۔ تم اٹھو اور اپنے آپ کو آگے بڑھ کر خود ڈیفائن کرو۔۔۔اس سے پہلے کہ لوگ تمہاری خاموشی کو اپنی مرضی کے معنی پہناتے پہناتے مر جاویں اور نئے آنے والوں میں یہ ورثہ منتقل کرنے کی عادت بھی دہراتے جاویں!
مریم ، یہ ایک ہی تحریر میں کچھ کھچڑی سی پکادی آپ نے کئی موضوعات کی۔:)
ان میں سے ہر موضوع شاید ایک الگ تحریر کا متقاضی ہے ۔ چونکہ تقریر اور تحریر کا بنیادی (بلکہ واحد)مقصد ابلاغ ہوتا ہے اس لیے تحریر کو موثر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مضامین یا نکات کو اس طرح ترتیب دیا جائے کہ لکھے ہوئے میں ایک روانی آجائے ، بات سے بات مربوط ہوتی جائے ، اور قاری کو رک رک کر ذہنی قلابازیاں نہ کھانی پڑیں۔ قلم کی طاقت تبھی حاوی ہوتی ہے جب اسے تلوار کی طرح دیکھ بھال کر چلایا جائے۔
اگر یہ تبصرہ گراں گزرے تو پیشگی معذرت۔
محفل جارہی ہے لیکن میری تعمیری تنقید کی عادت نہیں جارہی۔:(
 

اے خان

محفلین
ہمرے پاس کہنے کو بہت کچھ ہوتا ہے لیکن یہ الفاظ ساتھ نہیں دیتے،
جو مشکلیں تھیں گزر گئی
جو مشکلات ہے ان کو گزرنا ہی ہے کیونکہ ان سے لڑنا ہے،
آپ لڑی آپ لڑ رہی ہیں شاید
آپ لوگوں سے اپنے تجربات شئیر کریں تاکہ بعد میں آنے والوں کے لیے مشعل راہ ہو
لیکن لیکن
زندگی کو مہمان نوازی کا موقع دیں،
جہاں تک پہنچ چکی ہیں آپ، بہت سے لوگوں کے لیے یہ حسرت ہی بنی ہو ،
اور نہیں لکھا جارہا
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
گئے دنوں کی بات ہے، میں سوچا کرتی تھی کہ تعارف کے نام پر اکثراوقات وہ معلومات جاننا مقصود ہوا کرتا ہے جو زیادہ تر انسانوں نے اپنے لیے خود نہیں چنی ہوتیں۔ زندگی کے ان میں سے اکثر فیصلے بہت پہلے طے ہو چکے ہوتے ہیں۔ وہ حالات اور ان کے نتیجے میں آنے والی کنڈیشنننگ کسی انسان کو بنانے یا بگاڑنے میں کردار تو خوب ادا کرتے ہیں مگر اس کی سمت کا تعین نہیں کر پاتے۔ سمت ہر روح کے اندر کسی تہہ میں پنہاں ہے کہ وہ اپنے حالات سے تعمیر یا تخریب کی کن جہتوں کو دریافت کر پائے گی اسی لیے دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک ہی والدین کی اولاد یا ایک ہی استاد کے شاگرد متعدد بار مخالف سمتوں میں نکل پڑتے ہیں۔ ان میں سے بعض کو لوٹنا نصیب ہو جاتا ہے مگر بہتوں کو اپنی منزل کا ایقان لے ڈوبتا ہے۔ حالانکہ وہ شخص جس نےایک بار منزل کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر دیکھ لیا ہو، یہ راز دریافت کر لیتا ہے کہ منزلیں کبھی بھی ویسی نہیں ہوا کرتیں جیسی سفر کے ارادے سے قبل چشم تصور میں سمائی ہوتی ہیں۔ منزل میں بھی وہی دونوں پہلو ہوا کرتے ہیں جن سے کسی انسان کا مفر ممکن نہیں۔ پڑھتے ہیں تو مزید پڑھیے کہ یہ سبھی سیاق و سباق کسی ایسی تحریر کا نہیں جس میں ہم زندگی کا اپنے حصے کا راز آپ سب کے لیے فاش کرنے جا رہے ہوں۔ بلکہ یہ تحریر عرفان سعید صاحب کی شروع کردہ ایک حالیہ لڑی کی بائی پروڈکٹ ہے۔ انہوں نے کہا اور ہم نے مانا کہ محفل میں تعارف ایک ہی بار پیش کیا جائے یہ ضروری تو نہیں۔ مزید برآں ہم اس بات کا بھی اضافہ کیے دیتے ہیں کہ محفل کی کوئی رول بک یا گنیز بک آف محفل ریکارڈ وغیرہ بھی تاحال منظر عام پر نہ آئیں۔ تو کیوں نہ اپنا تعارف مکرر پیش کیا جائے؟ تاہم یہ تعارف وہ معلومات نہیں ہوگی جس کا اوپر ذکر ہے کیونکہ ایسی معلومات ہمارے گزشتہ تعارف و انٹرویو میں یا انٹرنیٹ پر مزید پروفیشنل پروفائلز میں بآسانی مل ہی جائے گی۔ اگرچہ یہ میری ہیں، مگر میں ان کی نہیں!

میں ایک خام اور عام انسان ہوں جس کو آپ کبھی اگر ملیں گے تو خامیاں نوٹ نہ کرنی پڑیں گی کیونکہ یہ ڈسپلے پر موجود رہیں گی، اور نہ ہی میرے عام ہونے پر آپ کو کوئی شبہ ہو گا کیونکہ عام انسان دوسرے انسانوں کے لیے دستیاب رہا کرتا ہے۔ نہ میں کم یاب ہوں نہ نایاب اور نہ ہی ایسی کوئی خواہش پال رکھی ہے۔ میں بس ایک ایسا انسان ہوں جو سنجیدگی سے سوچنے بیٹھتا ہے تو لگتا ہے کہ زندگی نے اپنے گھر دعوت تو دی تھی، مگر مہمان نوازی کرنا بھول گئی۔ ہم ہی اس کے گھر آ کر جھاڑ پونجھ کر رہے ہیں اور ہم ہی اس کا گھر چلائے رکھنے کے لیے چولہا چوکا سنبھال رہے ہیں۔ چلو اچھا ہے، اگلے گھر جانے کی پریکٹس ہو جائے گی! (یہی کہتے ہیں نا سبھی لڑکیوں کو؟)۔ چلو زندگی میں بھی اگلے گھر کی تیاری کرتے ہیں۔ مگر لڑکیوں کا کیا مذکور؟ میں تو ایک انسان ہوں! ہاں، بھئی انسان تو ہوں مگر معاشرے کے انسان مجھے ایک انسان کے طور پر بہت کم دیکھتے ہیں۔ لڑکی ہونے کا امتیازی سلوک ہمیشہ ساتھ ساتھ ہی رہا ہے۔ مگر میں نے اپنے اندر کا انسانی ذہن مرنے نہیں دیا کہ ذہن کی کوئی جینڈر آج تک دیکھی نہ سنی۔ انسان اکثر اپنے خواب کی اونچائی یا خوف کی گہرائی سے پہچانا جاتا ہے، کیونکہ یہی چیزیں اس کی قوت فیصلہ کو سمت دیتی ہیں۔ آئیے، آج دیکھیے مجھ سا انسان جس نے وہ خواب دیکھ رکھے ہیں جن کو دیکھنے کی "اجازت" فقط لڑکوں کوملتی ہے مگر میرے خوف؟ ہائے! میرے خوف! کیا آپ میرے تعارف میں میرے خوف جانیں گے؟ میرے سبھی خوف لڑکیوں والے ہیں۔ زندگی تو ہر انسان کی ہی موت کی امانت ہے، میں جس دن بھی مر جاؤں میں اسی راستے پر ہوں جس پہ مرنا پسند کروں گی اور منزلیں آ آ کر ملتی اور پیچھے چھوٹتی رہیں یا سرے سے پردہ اوڑھے رکھیں مجھے کچھ ایسی پرواہ نہیں، کیونکہ میرے ہاتھ میں فقط کوشش اور قصد تھے، سو کر لیے۔ موت کا خوف نہیں کہ صحیح دھج سے مقتل میں جانا عین جوانمردی ہے۔ مگر میرے اندر کی عورت؟ ہر روز صرف یہی نہیں کہ کوئی کام یا بات کرتے ہوئے بلکہ فقط ایگزسٹ کرتے ہوئے بھی یہ سوچتی ہے کہ خدا جانے کب کس نام پر مار دی جائے اور مارنے والے اسے عین حق سمجھیں کہ میں اسی سلوک کی مستحق تھی کیونکہ میں عورت تھی۔ میں وہ لڑکی ہوں جس کے باپ، بھائیوں اور شوہر نے اسے تمام عمر اپنی ہتھیلیوں پر اٹھا کر رکھا اور اپنے پر بھی مجھے اڑنے کے لیے دیے کہ میں ایمپاورڈ وومن کہلاؤں۔ اگر مجھ جیسی لڑکی یہ محسوس کرتی ہے تو خدا جانے باقی لڑکیوں کا حال کیا ہوگا۔

اپنے تعارف میں مزید اپنی آپ بیتی لکھنے کی تاب تو نہیں اور نہ ہی اب ممتاز مفتی بننے کا یارا ہے۔ کسی دور میں بہت دل تھا کہ تحت الشعور کے ان موضوعات پر کلام کروں جہاں زندگی کسی نوزائیدہ بچے کی طرح خون میں لت پت چیختی کرلاتی ہے مگر جلد ہی ایک بار پھر باور ہوا کہ میں عورت ہوں اور ممتاز مفتی ٹھہرا مرد! وہ لکھ سکتا تھا، میں نہ لکھ سکوں گی کہ میرے پاس کوئی مستقل ٹھکانہ بھی نہیں جسے ساری دنیا سے بغاوت کر کے اپنا سکوں اور ایک نئے بہانے سے بحیثیت عورت موت کے گھاٹ نہ اتار دی جاؤں۔ خیر، موت کا ذکر بھی اس لیے کر رہی ہوں کیونکہ اس سے بھی برے ہر روز ہونے والے واقعات کا ذکر کرنے کی تاب نہیں۔ ہاں، مگر میں نے بہت قریب سے ان عورتوں کو دیکھا ہے۔ ان میں سے ایک کو جنازے سے قبل غسل میت بھی فراہم کیا ہے۔ یہ دیکھیں کہ میں نے اپنے خواب ترک نہیں کیے اور اپنی آواز نہیں دبائی۔ آپ مجھے جو بھی سمجھتے رہیے اور زمانہ مجھ پر جیسے بھی حالات کی بوچھاڑ کرتا رہے، میں وہ انسان ہوں جو یہ سمجھتا ہے کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ زمانے میں زیادہ تر جو نظریات و روایات ہیں وہ فقط مرد کا پرسپیکٹو ہیں۔ مجھے انتظار ہے اس دن کا جب عورتیں اپنی کہانیاں خود سنائیں گی۔ تاہم اے عورتو! تم تب بھی ممتاز مفتی نہ بننا، وگرنہ مونچھوں کو تاؤ دینے والے متعدد ہاتھ دوبارہ اٹھ نہ پاویں گے۔ بس اتنا کرنا کہ تمہارے بعد آنے والی وہ بچیاں جن کے آسمان کو چھونے کے خواب ہوں، وہ خوف میں نہ جیتی رہیں اور ہراس میں نہ گھٹتی رہیں۔ تم اٹھو اور اپنے آپ کو آگے بڑھ کر خود ڈیفائن کرو۔۔۔اس سے پہلے کہ لوگ تمہاری خاموشی کو اپنی مرضی کے معنی پہناتے پہناتے مر جاویں اور نئے آنے والوں میں یہ ورثہ منتقل کرنے کی عادت بھی دہراتے جاویں!
بہت دلچسپ تعارف ہے۔۔۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ آپ کو کسی دن تین تین تحاریر آگے پیچھے دلچسپ پڑھنے کا مل جائیں۔۔۔ پہلے ظہیر بھائی۔۔۔ پھر عرفان بھائی اور اب آپ کی تحریر۔۔۔۔ بھئی واہ۔۔۔ کیا ہی شاندار دن ہے۔
 
بہت عمدہ اور پراثر تعارفِ دوم لکھا ہے مریم افتخار ۔
ویسے میں اس کو تعارف کی بجائے ہمارے معاشرے اور معاشرتی سوچ و فہم کا نوحہ یا ماتم نامہ کہنا مناسب سمجھوں گا۔ اس پہ لکھتی رہیے کہ روایت شکنی کی یہ شمع جلتی رہنی چاہیے۔
میں تو خود کو جو سمجھتی ہوں اس سے متعارف کروا دیا۔ اب آپ ہمارے آئنے میں معاشرہ دیکھیں یا جو چاہے دیکھیں ہمارے اندر وہی عالم آباد پائیں گے۔ یونہی تو ہم اس مٹی کے پھول نہ ہوئے!

آپ کی موٹیویشن کا ہر ہر لفظ ہمارا قیمتی سرمایہ ہے۔ سنبھال کر رکھا جاوے گا!
ہمارے پاس لکھنے کو الفاظ کی پرکاری اور جادوگری تو نہیں ہے، تاہم کیفی اعظمی کی ذیلی نظم آپ کے اس تعارف کی نذر کہ کبھی کبھی ہمیں لگتا ہے کہ کیفی صاحب نے ہمارے ہی خیالات کو نظم کی صورت دی ہے۔ نظم کا عنوان ہی "عورت" ہے۔

عورت از کیفی اعظمی
اٹھ میری جان! میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے
زندگی جہد میں ہے صبر کے قابو میں نہیں
نبضِ ہستی کا لہو کانپتے آنسو میں نہیں
اڑنے کھلنے میں ہے نکہت خمِ گیسو میں نہیں
جنت اک اور ہے جو مرد کے پہلو میں نہیں
اس کی آزاد روش پر بھی مچلنا ہے تجھے
اٹھ میری جان! میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

گوشے گوشے میں سلگتی ہے چتا تیرے لئے
فرض کا بھیس بدلتی ہے قضا تیرے لئے
قہر ہے تیری ہر اک نرم ادا تیرے لئے
زہر ہی زہر ہے دنیا کی ہوا تیرے لئے
رُت بدل ڈال اگر پھلنا پھولنا ہے تجھے
اٹھ میری جان! میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

قدر اب تک تری تاریخ نے جانی ہی نہیں
تجھ میں شعلے بھی ہیں، اشک فشانی ہی نہیں
تو حقیقت بھی ہے دلچسپ کہانی ہی نہیں
تیری ہستی بھی ہے اک چیز جوانی ہی نہیں
اپنی تاریخ کا عنوان بدلنا ہے تجھے
اٹھ میری جان! میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

توڑ کر رسم کے بت بندِ قدامت سے نکل
ضعفِ عشرت سے نکل وہمِ نزاکت سے نکل
نفس کے کھینچے ہوئے حلقہء عظمت سے نکل
قید بن جائے محبت، تو محبت سے نکل
راہ کا خار ہی کیا گل بھی کچلنا ہے تجھے
اٹھ میری جان! میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے

تو فلاطون و ارسطو ہے، تو زہرہ پروین
تیرے قبضے میں ہےگردوں تری ٹھوکرمیں زمیں
ہاں اُٹھا جلد اُٹھا، پائے مقدر سے جبیں
میں بھی رکنے کا نہیں تو بھی رکنے کا نہیں
لڑکھڑائے گی کہاں تک کہ سنبھلنا ہے تجھے
اٹھ میری جان! میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے
اس نظم کے جواب میں اے خان بھائی کے الفاظ میں جواب دوں گی جو انہوں نے عبداللہ محمد بھائی کے کسی پسندیدہ ناول کے تبصرے میں لکھا تھا۔ "ستارے ملتے ہیں!" 🤣
تو فلاطون و ارسطو ہے، تو زہرہ پروین
تیرے قبضے میں ہےگردوں تری ٹھوکرمیں زمیں
ہاں اُٹھا جلد اُٹھا، پائے مقدر سے جبیں
میں بھی رکنے کا نہیں تو بھی رکنے کا نہیں
مریم! افتخار ہو ہمارا۔ :)
بجو! آپ کے مراسلے نے سیروں خون بڑھا دیا۔شاید ایک عورت کے طور پر آپ بھی کچھ پہلوؤں سے تو اتفاق کریں!
مریم ، یہ ایک ہی تحریر میں کچھ کھچڑی سی پکادی آپ نے کئی موضوعات کی۔:)
ان میں سے ہر موضوع شاید ایک الگ تحریر کا متقاضی ہے ۔ چونکہ تقریر اور تحریر کا بنیادی (بلکہ واحد)مقصد ابلاغ ہوتا ہے اس لیے تحریر کو موثر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مضامین یا نکات کو اس طرح ترتیب دیا جائے کہ لکھے ہوئے میں ایک روانی آجائے ، بات سے بات مربوط ہوتی جائے ، اور قاری کو رک رک کر ذہنی قلابازیاں نہ کھانی پڑیں۔ قلم کی طاقت تبھی حاوی ہوتی ہے جب اسے تلوار کی طرح دیکھ بھال کر چلایا جائے۔
اگر یہ تبصرہ گراں گزرے تو پیشگی معذرت۔
محفل جارہی ہے لیکن میری تعمیری تنقید کی عادت نہیں جارہی۔:(
استاذی، استاذی، استاذی!
سر آنکھوں پر کہ آپ تشریف لائے اور تعمیر میں حصہ ہمیشہ ڈالتے رہے۔ آپ ہمارے لیے مشعل راہ ہیں اور ہمیں اپنی تحریر کی خامیوں کا کسی حد تک ادراک بھی تھا اور آپ نے سپیسیفائے بھی کر دیا۔ امید ہے اگلی تحریر کچھ بہتر ہوگی۔ میں نے یہ تحریر بھی شاید تین سال بعد صرف اس لیے لکھی ہے کہ میرے بلاگ کے کچھ سنجیدہ قارئین نے شکایت کی کہ اتنا لمبا وقفہ!!! جب کہ مجھے لگتا ہے میرے اندر کچھ ہے نہ اسے کہنے کا ڈھنگ رہ گیا ہے۔ٹریجڈیز ہی ٹریجڈیز ہیں جو لفظوں میں پروئی نہیں جا سکتیں۔ابھی بھی یہ میں نے بس دس منٹ بیٹھ کر خود کو متعارف کروانے کا کام کیا اور سوچا نہ تھا کہ اسے سنجیدہ تحریر سمجھا جاوے گا اور لوگ ہمیں محفل میں باردگر خوش آمدید نہ کہیں گے۔۔۔🤣
ہمرے پاس کہنے کو بہت کچھ ہوتا ہے لیکن یہ الفاظ ساتھ نہیں دیتے،
جو مشکلیں تھیں گزر گئی
جو مشکلات ہے ان کو گزرنا ہی ہے کیونکہ ان سے لڑنا ہے،
آپ لڑی آپ لڑ رہی ہیں شاید
آپ لوگوں سے اپنے تجربات شئیر کریں تاکہ بعد میں آنے والوں کے لیے مشعل راہ ہو
لیکن لیکن
زندگی کو مہمان نوازی کا موقع دیں،
جہاں تک پہنچ چکی ہیں آپ، بہت سے لوگوں کے لیے یہ حسرت ہی بنی ہو ،
اور نہیں لکھا جارہا
عبداللہ بھائی، آپ کے مراسلے میں جو بھائی بہن چارہ ہے اس کی مشکور ہوں اور آپ کی مقروض۔ بس آج سے میں نے سوچ لیا ہے کہ زندگی کو مہمان نوازی کا موقع دینا ہے ۔" لیہہ، آ پیا جے جھاڑو تے آ پیا جے سیکا۔۔۔! آپے کرے جو کرنا اے۔
بہت دلچسپ تعارف ہے۔۔۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ آپ کو کسی دن تین تین تحاریر آگے پیچھے دلچسپ پڑھنے کا مل جائیں۔۔۔ پہلے ظہیر بھائی۔۔۔ پھر عرفان بھائی اور اب آپ کی تحریر۔۔۔۔ بھئی واہ۔۔۔ کیا ہی شاندار دن ہے۔
نین بھیا، میری آنکھیں سچ میں بھر آئیں کہ آپ نے میرا نام ایک ہی جملے میں عرفان صاحب اور ظہیر صاحب کے ساتھ لیا۔ اللہ ان اساتذہ کی صحبت اور ان کی تحریر کا سا رنگ مجھے بھی نصیب کرے۔ میں تے خوشی نال مر جاں سی!
 

زیک

فوٹوگرافر
خوب!

بیٹی کی پیدائش کے وقت سے سوچ رہا ہوں کہ وہ وقت کب آئے گا جب ایک لڑکی اور خاتون ہونا ہینڈیکیپ نہ ہو گا معاشرے میں۔
 

زیک

فوٹوگرافر
امریکی معاشرے کے حساب سے آپ کیا تجزیہ کریں گے؟
پاکستان اور امریکا کا مقابلہ نہیں۔ مسائل یہاں پر بھی ہیں لیکن نوعیت اور انٹینسٹی فرق ہے۔

آپ کے سوال سے مجھے کوئی سترہ اٹھارہ سال پرانی بلاگ پوسٹ یاد آ گئی جس میں میں نے لکھا تھا کہ میں کیوں کبھی بھی اپنی بیٹی کو پاکستان میں نہیں پالوں گا
 

یاز

محفلین
پاکستان اور امریکا کا مقابلہ نہیں۔ مسائل یہاں پر بھی ہیں لیکن نوعیت اور انٹینسٹی فرق ہے۔

آپ کے سوال سے مجھے کوئی سترہ اٹھارہ سال پرانی بلاگ پوسٹ یاد آ گئی جس میں میں نے لکھا تھا کہ میں کیوں کبھی بھی اپنی بیٹی کو پاکستان میں نہیں پالوں گا
ہمارے خیال میں پاکستان میں زیادہ مسائل گریٹر فیملی کی انوالومنٹ اور معاشی خودمختاری نہ ہونے کی بدولت ہیں، اور یہی وجوہات امریکہ میں تقریباً ناپید ہوں گی۔
 
آخری تدوین:

زیک

فوٹوگرافر
ہمارے خیال میں پاکستان میں زیادہ مسائل گریٹر فیملی کی انواولمنٹ اور معاشی خودمختاری نہ ہونے کی بدولت ہیں، اور یہی وجوہات امریکہ میں تقریباً ناپید ہوں گی۔
پاکستان میں یہ وجوہات سامنے کی ہیں لیکن جب یہ کم ہوں گی تو دیگر باتیں ان کی جگہ لے لیں گی کہ یہ پورا سسٹم ہے۔

امریکا میں آپ کے بیان کردہ دو فیکٹر تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں
 
پاکستان میں یہ وجوہات سامنے کی ہیں لیکن جب یہ کم ہوں گی تو دیگر باتیں ان کی جگہ لے لیں گی کہ یہ پورا سسٹم ہے۔
یہ بات!

یقین کریں میں جب تک پاکستان سے باہر نہیں گئی تھی، مجھے یہی بتایا گیا تھا کہ یہ برصغیر کی عورت کے مسائل ہیں کیونکہ ہم ہندووں کے ساتھ رہے۔۔۔وہاں عورتوں کے ساتھ فلاں فلاں چیزیں ہوتی تھی۔ لیکن میرا چھے ماہ کا یو کے کا تجربہ عورت کے متعلق میرا پرسپیکٹو ہی بدل گیا!
 
ہمارے خیال میں پاکستان میں زیادہ مسائل گریٹر فیملی کی انوالومنٹ اور معاشی خودمختاری نہ ہونے کی بدولت ہیں، اور یہی وجوہات امریکہ میں تقریباً ناپید ہوں گی۔
اگر اس کو سمجھانے کے لیے دور کی کوڑی لاؤں تو میسلو کی ہائیریرکی آف نیڈز کی بات کروں گی۔۔۔کہ جب بیسک نیڈز میٹ ہوتی ہیں تو اوپر والی نیڈز سر اٹھاتی ہیں۔۔۔مگر نیڈز سر اٹھاتی رہتی ہیں۔ مختلف معاشروں میں عورتوں کا نیڈز کے مختلف لیول پر استحصال ہے۔ مگر ہر جگہ ہے! ہر جگہ عورت اپنے اندر apologetic ہوئی پھرتی ہے کہ وہ exist کر رہی ہے!
 
ذاتی تجربات کی بات کروں تو پاکستان میں ہی میری اپنی پھپھو کی وفات کی خبر ہمیں ملی ان کے سسرال کی جانب سے اور آج تک کوئی ادارہ ایک بھی مشاہدہ یا ثبوت یا گواہ نہ لا پایا۔ کیونکہ جب بیٹیاں بیاہ دی جاتی ہیں تو ان کے ساتھ گواہ اور ثبوت اکٹھے کرنے کسی کو بھیجا تو نہیں جاتا۔۔۔آگے گھر میں جو بھی معاملہ تھا وہ آج تک علم نہ ہوسکا، مگر ان کا سر ان کے دھڑ سے جدا تھا!
میری تیرہ سالہ بیسٹ فرینڈ کے ساتھ زنا بالجبر کا واقعہ ہوا اوراس کے اندر اتنی ہمت نہیں کہ وہ کسی کو بتا پائے۔ اس سب میں شکار بھی عورت ہے اور قصوروار بھی وہی۔ کیونکہ عزت اسی کے ساتھ منسوب ہے۔ میں سوچتی ہوں کہ مجھے مر جانا چاہیے تھا مگر میں نہ مری۔ یقین کریں اپنے پیاروں کی تکلیف ایسی ہوتی ہے کہ کبھی کبھی وہ خود اس سے نکل جاتے ہیں لیکن ہم وہیں اٹکے رہ جاتے ہیں کہ کچھ نہ کر پائے۔
مار پیٹ، نکھٹو اور نشئی مرد، اور سینکڑوں طرح کے abuse کے کیسز ہر چند دن بعد سامنے آتے رہتے ہیں کیو نکہ میں ایک فلاحی ادارہ "خود" ہوں، کسی سے منسلک نہیں۔ میرے اردگرد کی عورتیں جن کی کوئی نہیں سنتا وہ مجھے اپروچ کرتی ہیں۔ کسی فرینڈز اینڈ فیملی کے ذریعے اور میں جو کر سکتی ہوؤں، جو لوگ مجھ پہ ٹرسٹ کرتے ہیں ان کے ساتھ مل کر کر پاتی ہوں۔

اور آپ سمجھتے ہیں یا پاکستان کے کیسز ہیں؟ رکیے ذرا! اب انگلینڈ کے لکھ دیتی ہوں!
 
Top