تعارف اتنا ہی اب عیاں ہوں، جتنا کبھی نہاں تھا (مریم)

ظفری

لائبریرین
گئے دنوں کی بات ہے، میں سوچا کرتی تھی کہ تعارف کے نام پر اکثراوقات وہ معلومات جاننا مقصود ہوا کرتا ہے جو زیادہ تر انسانوں نے اپنے لیے خود نہیں چنی ہوتیں۔ زندگی کے ان میں سے اکثر فیصلے بہت پہلے طے ہو چکے ہوتے ہیں۔ وہ حالات اور ان کے نتیجے میں آنے والی کنڈیشنننگ کسی انسان کو بنانے یا بگاڑنے میں کردار تو خوب ادا کرتے ہیں مگر اس کی سمت کا تعین نہیں کر پاتے۔ سمت ہر روح کے اندر کسی تہہ میں پنہاں ہے کہ وہ اپنے حالات سے تعمیر یا تخریب کی کن جہتوں کو دریافت کر پائے گی اسی لیے دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک ہی والدین کی اولاد یا ایک ہی استاد کے شاگرد متعدد بار مخالف سمتوں میں نکل پڑتے ہیں۔ ان میں سے بعض کو لوٹنا نصیب ہو جاتا ہے مگر بہتوں کو اپنی منزل کا ایقان لے ڈوبتا ہے۔ حالانکہ وہ شخص جس نےایک بار منزل کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر دیکھ لیا ہو، یہ راز دریافت کر لیتا ہے کہ منزلیں کبھی بھی ویسی نہیں ہوا کرتیں جیسی سفر کے ارادے سے قبل چشم تصور میں سمائی ہوتی ہیں۔ منزل میں بھی وہی دونوں پہلو ہوا کرتے ہیں جن سے کسی انسان کا مفر ممکن نہیں۔ پڑھتے ہیں تو مزید پڑھیے کہ یہ سبھی سیاق و سباق کسی ایسی تحریر کا نہیں جس میں ہم زندگی کا اپنے حصے کا راز آپ سب کے لیے فاش کرنے جا رہے ہوں۔ بلکہ یہ تحریر عرفان سعید صاحب کی شروع کردہ ایک حالیہ لڑی کی بائی پروڈکٹ ہے۔ انہوں نے کہا اور ہم نے مانا کہ محفل میں تعارف ایک ہی بار پیش کیا جائے یہ ضروری تو نہیں۔ مزید برآں ہم اس بات کا بھی اضافہ کیے دیتے ہیں کہ محفل کی کوئی رول بک یا گنیز بک آف محفل ریکارڈ وغیرہ بھی تاحال منظر عام پر نہ آئیں۔ تو کیوں نہ اپنا تعارف مکرر پیش کیا جائے؟ تاہم یہ تعارف وہ معلومات نہیں ہوگی جس کا اوپر ذکر ہے کیونکہ ایسی معلومات ہمارے گزشتہ تعارف و انٹرویو میں یا انٹرنیٹ پر مزید پروفیشنل پروفائلز میں بآسانی مل ہی جائے گی۔ اگرچہ یہ میری ہیں، مگر میں ان کی نہیں!

میں ایک خام اور عام انسان ہوں جس کو آپ کبھی اگر ملیں گے تو خامیاں نوٹ نہ کرنی پڑیں گی کیونکہ یہ ڈسپلے پر موجود رہیں گی، اور نہ ہی میرے عام ہونے پر آپ کو کوئی شبہ ہو گا کیونکہ عام انسان دوسرے انسانوں کے لیے دستیاب رہا کرتا ہے۔ نہ میں کم یاب ہوں نہ نایاب اور نہ ہی ایسی کوئی خواہش پال رکھی ہے۔ میں بس ایک ایسا انسان ہوں جو سنجیدگی سے سوچنے بیٹھتا ہے تو لگتا ہے کہ زندگی نے اپنے گھر دعوت تو دی تھی، مگر مہمان نوازی کرنا بھول گئی۔ ہم ہی اس کے گھر آ کر جھاڑ پونجھ کر رہے ہیں اور ہم ہی اس کا گھر چلائے رکھنے کے لیے چولہا چوکا سنبھال رہے ہیں۔ چلو اچھا ہے، اگلے گھر جانے کی پریکٹس ہو جائے گی! (یہی کہتے ہیں نا سبھی لڑکیوں کو؟)۔ چلو زندگی میں بھی اگلے گھر کی تیاری کرتے ہیں۔ مگر لڑکیوں کا کیا مذکور؟ میں تو ایک انسان ہوں! ہاں، بھئی انسان تو ہوں مگر معاشرے کے انسان مجھے ایک انسان کے طور پر بہت کم دیکھتے ہیں۔ لڑکی ہونے کا امتیازی سلوک ہمیشہ ساتھ ساتھ ہی رہا ہے۔ مگر میں نے اپنے اندر کا انسانی ذہن مرنے نہیں دیا کہ ذہن کی کوئی جینڈر آج تک دیکھی نہ سنی۔ انسان اکثر اپنے خواب کی اونچائی یا خوف کی گہرائی سے پہچانا جاتا ہے، کیونکہ یہی چیزیں اس کی قوت فیصلہ کو سمت دیتی ہیں۔ آئیے، آج دیکھیے مجھ سا انسان جس نے وہ خواب دیکھ رکھے ہیں جن کو دیکھنے کی "اجازت" فقط لڑکوں کوملتی ہے مگر میرے خوف؟ ہائے! میرے خوف! کیا آپ میرے تعارف میں میرے خوف جانیں گے؟ میرے سبھی خوف لڑکیوں والے ہیں۔ زندگی تو ہر انسان کی ہی موت کی امانت ہے، میں جس دن بھی مر جاؤں میں اسی راستے پر ہوں جس پہ مرنا پسند کروں گی اور منزلیں آ آ کر ملتی اور پیچھے چھوٹتی رہیں یا سرے سے پردہ اوڑھے رکھیں مجھے کچھ ایسی پرواہ نہیں، کیونکہ میرے ہاتھ میں فقط کوشش اور قصد تھے، سو کر لیے۔ موت کا خوف نہیں کہ صحیح دھج سے مقتل میں جانا عین جوانمردی ہے۔ مگر میرے اندر کی عورت؟ ہر روز صرف یہی نہیں کہ کوئی کام یا بات کرتے ہوئے بلکہ فقط ایگزسٹ کرتے ہوئے بھی یہ سوچتی ہے کہ خدا جانے کب کس نام پر مار دی جائے اور مارنے والے اسے عین حق سمجھیں کہ میں اسی سلوک کی مستحق تھی کیونکہ میں عورت تھی۔ میں وہ لڑکی ہوں جس کے باپ، بھائیوں اور شوہر نے اسے تمام عمر اپنی ہتھیلیوں پر اٹھا کر رکھا اور اپنے پر بھی مجھے اڑنے کے لیے دیے کہ میں ایمپاورڈ وومن کہلاؤں۔ اگر مجھ جیسی لڑکی یہ محسوس کرتی ہے تو خدا جانے باقی لڑکیوں کا حال کیا ہوگا۔

اپنے تعارف میں مزید اپنی آپ بیتی لکھنے کی تاب تو نہیں اور نہ ہی اب ممتاز مفتی بننے کا یارا ہے۔ کسی دور میں بہت دل تھا کہ تحت الشعور کے ان موضوعات پر کلام کروں جہاں زندگی کسی نوزائیدہ بچے کی طرح خون میں لت پت چیختی کرلاتی ہے مگر جلد ہی ایک بار پھر باور ہوا کہ میں عورت ہوں اور ممتاز مفتی ٹھہرا مرد! وہ لکھ سکتا تھا، میں نہ لکھ سکوں گی کہ میرے پاس کوئی مستقل ٹھکانہ بھی نہیں جسے ساری دنیا سے بغاوت کر کے اپنا سکوں اور ایک نئے بہانے سے بحیثیت عورت موت کے گھاٹ نہ اتار دی جاؤں۔ خیر، موت کا ذکر بھی اس لیے کر رہی ہوں کیونکہ اس سے بھی برے ہر روز ہونے والے واقعات کا ذکر کرنے کی تاب نہیں۔ ہاں، مگر میں نے بہت قریب سے ان عورتوں کو دیکھا ہے۔ ان میں سے ایک کو جنازے سے قبل غسل میت بھی فراہم کیا ہے۔ یہ دیکھیں کہ میں نے اپنے خواب ترک نہیں کیے اور اپنی آواز نہیں دبائی۔ آپ مجھے جو بھی سمجھتے رہیے اور زمانہ مجھ پر جیسے بھی حالات کی بوچھاڑ کرتا رہے، میں وہ انسان ہوں جو یہ سمجھتا ہے کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ زمانے میں زیادہ تر جو نظریات و روایات ہیں وہ فقط مرد کا پرسپیکٹو ہیں۔ مجھے انتظار ہے اس دن کا جب عورتیں اپنی کہانیاں خود سنائیں گی۔ تاہم اے عورتو! تم تب بھی ممتاز مفتی نہ بننا، وگرنہ مونچھوں کو تاؤ دینے والے متعدد ہاتھ دوبارہ اٹھ نہ پاویں گے۔ بس اتنا کرنا کہ تمہارے بعد آنے والی وہ بچیاں جن کے آسمان کو چھونے کے خواب ہوں، وہ خوف میں نہ جیتی رہیں اور ہراس میں نہ گھٹتی رہیں۔ تم اٹھو اور اپنے آپ کو آگے بڑھ کر خود ڈیفائن کرو۔۔۔اس سے پہلے کہ لوگ تمہاری خاموشی کو اپنی مرضی کے معنی پہناتے پہناتے مر جاویں اور نئے آنے والوں میں یہ ورثہ منتقل کرنے کی عادت بھی دہراتے جاویں!
آپ کی تحریر پڑھ کر یوں لگا جیسے کسی نے چیخے بغیر وہ سب کچھ کہہ دیا جو اکثر لوگ چِلّا کر بھی نہیں کہہ پاتے۔آپ نے جو کچھ لکھا، وہ صرف ایک عورت کا تجربہ نہیں، بلکہ ایک ایسا انسانی تجربہ ہے جو کسی بھی باشعور اور بیدار ذہن کو اندر سے ہلا کر رکھ دے۔ آپ کا یہ کہنا کہ "زندگی نے دعوت تو دی تھی، مگر مہمان نوازی کرنا بھول گئی" ۔ اس ایک جملے میں کیا عورت، کیا مرد، سب کی مایوسیوں، سب کی بھاگ دوڑ، سب کی خاموش اذیتیں سما گئی ہیں۔لیکن پھر آپ کی تحریر صرف تجربہ نہیں، وہ احتجاج بھی ہے، ایک خاموش مزاحمت، اور ایک خواب کی بقا کا اعلان بھی۔ آپ نے کہا کہ آپ وہ خواب دیکھتی ہیں جن کی اجازت صرف لڑکوں کو ہے ۔ اور یہ بات دل میں کانٹے کی طرح چبھتی ہے۔ کیا واقعی خوابوں پر بھی اب جنس کا حق ہے؟
آپ نے ممتاز مفتی کا ذکر کیا۔ میں ممتاز مفتی کو پڑھ چکا ہوں، اور مانتا ہوں کہ اس کا قلم بے باک تھا، مگر اس بے باکی کو صرف اس کے مرد ہونے کا کمال کہنا شاید اُس عورت کی تحریری طاقت کو کم تر کرنا ہوگا جو آپ جیسے الفاظ میں اپنا درد بھی لکھتی ہے اور عزت نفس کو بھی بچا کر رکھتی ہے۔
آپ نے لکھا: "میں نہ کم یاب ہوں نہ نایاب"۔ مگر میں کہوں گا، آپ جیسی سوچ رکھنے والے لوگ کم از کم عام نہیں ہوتے۔اور سچ تو یہ ہے کہ میں نے اس اردو محفل پر بہت کم لوگوں کو اس فکری بلوغت تک پہنچتے دیکھا ہے جہاں انسان نہ صرف زندگی کی بے ثباتی کو شدت سے محسوس کرے، بلکہ اس کا اظہار بھی جرات اور سچائی سے کرے۔آپ نےاپنے باطن کے سوالات کو جس طرح صفحے پر اتارا ہے، وہ محض تحریر نہیں بلکہ ایک داخلی جدوجہد کا نچوڑ بھی ہے۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں میں ایک قاری سے بڑھ کر ایک شریکِ فکر بننے پر مجبور ہو جاتا ہوں۔
مگر میں ایک سوال اٹھانا چاہتا ہوں ۔ کیا ہم واقعی ممتاز مفتی نہیں بن سکتے؟ یا کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نے معاشرے کے خدشات کو سچ مان لیا ہے اور اب خود اپنے ہی سچ کو صفحے پر آنے سے روکتے ہیں؟
آپ نے تحریر کے آخر میں جو خواہش ظاہر کی کہ عورتیں اپنی کہانیاں خود لکھیں ۔ تو میں کہنا چاہتا ہوں کہ وہ وقت آ چکا ہے، اور شاید یہ تحریر خود اس کا آغاز ہے۔ لیکن ضروری یہ ہے کہ عورت صرف کہانی لکھے نہیں، بلکہ اپنے خوف کے حقائق اور خواب کی ہمت کو یکجا کر کے کہانی کو مستقبل کی بنیاد بنا دے۔
اگر میں اس مکالمے کو کسی جملے پر ختم کروں تو شاید یہی عرض کروں گا،آزادی، اختیار، تحریر، خواب ۔ یہ سب صرف حقوق نہیں، بلکہ امانتیں ہیں۔ اور آپ نے جس وقار کے ساتھ اس امانت کا بوجھ اُٹھانے کی کوشش کی ہے ، وہ مجھ جیسے کئی لوگوں کے لیے ایک آئینہ ہے۔ اگر آپ لکھتی رہیں، تو ہم پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ بطور انسان، اور پھر بطور ایک حساس معاشرہ، جس کی تشکیل کا خواب ہم سب نے کسی نہ کسی طور ، کسی نہ کسی صورت دیکھ ہوگا ۔
 

باباجی

محفلین
بہت خوب مریم
آپ نے نوحہ و المیہ کو باہم بیان کردیا
میں نے پچھلے کچھ عرصے میں جو کچھ دیکھا ، سنا
اس نے مجھے دہلاکر رکھ دیا ۔۔ اب اسے بزدلی کہئے یا فرار لیکن بالکل اکیلے رہنے میں عافیت جانی کہ شاید میں طرفین کی تکلیف کو برداشت نا کرپاتا
لیکن آپ کو لکھنا آتا ہے وہ جو کوئی خاتون بغیر متنازعہ ہوئے لکھ نا پائے
اسلیے ضرور لکھیے کہ لفظوں نے آپ کو خود پہ دسترس دی ہے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیراحمدظہیر بھائی ۔ آپ کا شمار اُن اہلِ قلم میں ہوتا ہے جن کے الفاظ میں فکری گہرائی بھی ہوتی ہے اور جذبوں کی سچائی بھی۔ آپ کی تحریریں اور اشعار اکثر قاری کو رکنے، سوچنے مجبور کرتے ہیں ۔ اور یہ وصف ہر کسی کو میسر نہیں آتا۔اسی محبت اور احترام کے رشتے کی بنیاد پر میں جسارت کر رہا ہوں کہ مریم افتخار کی تحریر پر آپ کے تبصرے پر ایک چھوٹی سی گفتگو پیش کروں ۔ کہ شاید بات کو مزید زاویے بھی مل سکیں۔
آپ کی بات میں وزن ہے کہ ایک تحریر میں اگر نکات بکھر جائیں تو قاری کی روانی متاثر ہو سکتی ہے۔ ابلاغ واقعی ادب کا بنیادی مقصد ہے۔
تاہم، جہاں تک مریم کی اس مخصوص تحریر کا تعلق ہے، میرا مشاہدہ کچھ یوں ہے کہ اس میں جو (موضوعات کا تنوع)ہے، وہ دراصل ایک مکمل انسانی تجربے کی بازگشت ہے۔ یہ صرف خیالات کا بیان نہیں، ایک ایسی اندرونی خودکلامی ہے جو ذہن کی منطقی ترتیب سے نہیں، دل کے دباؤ یا بوجھ سے جنم لیتی ہے۔زندگی کا دکھ، صنف کی کشمکش، معاشرتی خوف، باطنی مزاحمت، اور فرد کی پکار ۔ یہ سب مریم کی اس تحریر میں ایک ساتھ گونجتے ہیں۔ وہ شاید کسی ادبی مضمون کے اصول پر نہیں لکھ رہیں، بلکہ اپنے اندر کے بوجھ کو ان الفاظ میں ڈھالنے کی کوشش کر رہی ہیں، جنہیں شاید ابھی مکمل ادبی تربیت کی نہیں بلکہ سچے جذبے اور یکسوئی کی ضرورت ہے۔
ادب کا ایک اور زاویہ یہ بھی ہے کہ وہ صرف ترتیب اور مہارت کا فن نہ رہے، بلکہ اثر اور صداقت کا اظہاریہ بھی ہو۔ کبھی کبھار، بکھرے الفاظ ہی اصل زخم کی ساخت بتاتے ہیں۔چنانچہ، آپ کی تنقیدی نظر اور فکری وضاحت اپنی جگہ ، مگر میں اسے ایک غیر روایتی مگر جرات مند اظہار کے طور پر دیکھتا ہوں، جو اپنی راہ تلاش کر رہا ہے۔جو اپنے سوالات کے جوابات ڈھونڈ رہا ہے ۔ اور شاید یہ ادب کا حسن ہی ہے کہ ہم سب اپنے اپنے زاویئے اور فکری ارتقاء کے زیر ِ اثر چیزوں کا دیکھتے اور سمجھتے ہیں ۔ :)

ظفری بھائی ، مریم افتخار کی تحریر پر آپ کے مشاہدات و ملاحظات سے تقریباً سو فیصد متفق ہوں۔ بس بری عادت میری ایسی ہے کہ جہاں کسی اچھے شعر و نثر میں ایک آنچ کی کسر نظر آئی جی چاہتا ہے کہ وہ دور ہو جائے۔ ظاہر ہے کہ میرا تبصرہ میرا ذاتی نقطۂ نظر ہوتا ہے اور اس سے مصنف یا قارئین کا متفق ہونا قطعی ضروری نہیں ہوتا۔
بے شک اردو فورم کوئی ادبی جریدہ نہیں بلکہ ایک پبلک پلیٹ فارم ہے جہاں نوے پچانوے فیصد سے زیادہ مراسلات بے ساختہ اور فی البدیہہ لکھے جاتے ہیں۔ چنانچہ فصاحت و بلاغت اور ادبی شکوہ وغیرہ انہی تحریروں میں ڈھونڈتا ہوں کہ جو باقاعدہ ادب پارے کے طور پر لکھی گئی ہوں مثلاً مریم کا یہ تعارف نامہ۔ میرا آٹھ نو برسوں پر محیط مشاہدہ ہے کہ مریم بہت اچھی نظم و نثر لکھتی آئی ہیں اور ان کا قلم وقت کے ساتھ ساتھ نکھرتا سنورتا نظر آتا ہے۔ خصوصاً مذکورہ تحریر کا اسلوب اور زبان و بیان پر گرفت خوب ہے۔ یہ تحریر مضمون نہیں بلکہ انشائیہ ہے۔ چنانچہ اس کو کسی قلم برداشتہ مراسلے کے بجائے ایک باقاعدہ ادب پارے کے تناظر میں دیکھنا اور پرکھنا اتنا نامناسب بھی نہیں۔ خیر ، یہ تو ایک معمولی سا ضمنی سا نکتہ اور میری اپنی صفائی ہے۔
اس انشائیے کے موضوع اور خیال کی رو سے تو اختلاف ہو ہی نہیں سکتا۔ آرٹ اور قلم کو کتھارسس کا ذریعہ بنانا تو ظاہر ہے کہ ایک آفاقی انسانی رویہ ہے اور میری رائے میں یہ بہت ہی مؤثر اور دیرپا ذرائع اظہار ہیں کہ جو معاشرے پر دور رس اثرات بھی چھوڑ سکتے ہیں۔ میں خود ان عوارض میں مبتلا ہوں۔ یہ الگ بات کہ عموماً ہر اضطراب کو مزاح کے پردے میں لپیٹ دینے کا عادی ہوتا جارہا ہوں۔ اگر آپ خود ستائی اور بے ادبی پر محمول نہ کریں تو اس وقت اپنی ایک پرانی غزل یاد آرہی ہے کہ شاید یہاں بہتر طور پر میری ترجمانی کر سکے۔ ہم جسے ان کہی سمجھتے تھے
عورت اور سماج کا باہمی تعلق اور تعامل بھی ایک آفاقی اور قدیم موضوع چلا آتا ہے۔ بلا شبہ بنتِ حوّا مظلوم ہے اور بلا تفریق ہر معاشرے میں استحصال کا شکار ہے۔ مغرب اور مشرق میں کوئی فرق اگر ہے تو جبر و استبداد کے طریقوں کا ہے یا کچھ فرق شرح اور مختلف شماریات کا ہے۔ ورنہ عورت ہر جگہ غیر مساوی سلوک کا شکار ہے۔ مجھے اللہ الکریم الرحیم الحکیم البصیر نے بیٹی کی نعمت سے نہیں نوازا۔ پاکستان سے دور ہوئے بھی آدھی عمر گزر گئی۔ سو پاکستانی معاشرے کا براہِ راست مشاہدہ و مطالعہ ماند پڑ چکا ہے۔ پچھلےبتیس برسوں میں یقیناً پاکستانی معاشرے میں بھی بہت کچھ بدل گیا ہے۔ میں نے تو امریکا آنے سے چھ سات سال پہلے ہی ریت میں سر چھپا لیا تھا۔ اخبار پڑھنا اور خبریں دیکھنا سننا بند کر دی تھیں کہ ذہنی صحت کا قرار اسی میں تھا۔ یہاں آکر تو یہ عادت پختہ تر ہو گئی۔ میرا عقیدہ ہے کہ جو خبر میرے لیے اہم ہے اور کوئی معنی رکھتی ہے وہ کسی نہ کسی طرح مجھ تک ضرور پہنچ جائے گی۔ مجھے اس کے لیے پیسے خرچ کر کے دردِ سر اور دردِ دل کی سبسکرپشن لینے کی قطعی ضرورت نہیں۔ ویسے بھی ٹیلیفون اور واٹس ایپ نے بہت سہولت پیدا کر دی ہے۔ اس طویل تمہید کے لیے معذرت۔ کہنا یہ ہے کہ پاکستان سے صنفِ مظلوم کی ذہنی کشمکش اور باطنی مزاحمت کی صدائیں اگر مجھ تک فلٹر ہو کر پہنچتی ہیں تو اس کا قصور وار میں اور میرا موجودہ ماحول ہیں۔ اپنی اس کم حساسیت یا کم حسی کے لیے مریم افتخار اور دیگر قلمکاروں سے معذرت!
افتخار عارف بھی جب پاکستان سے دور ایک طویل عرصہ انگلستان میں رہ لیے تو گویا میری ترجمانی میں یوں شکوہ کناں ہوئے تھے کہ:

خوابِ خس خانہ و برفاب کے پیچھے پیچھے
گرمیِ شہرِ مقدر کے ستائے ہوئے لوگ
کیسی یخ بستہ زمینوں کی طرف آنکلے
موجِ خوں برف ہوئی جاتی ہے ، سانسیں بھی ہیں برف
وحشتیں جن کا مقدر تھیں وہ آنکھیں بھی ہیں برف
دلِ شوریدہ کا مواج سمندر بھی ہے برف
یادِ یارانِ دل آویز کا منظر بھی ہے برف
ایک اک نام ، ہر آواز ، ہر اک چہرہ برف
منجمد خواب کی ٹکسال کا ہر سکہ برف
اور اب سوچتے ہیں شام و سحر سوچتے ہیں
خوابِ خس خانہ و برفاب سے وہ آگ بھلی
جس کے شعلوں میں بھی قرطاس و قلم زندہ ہیں
جس میں ہر عہد کے ہر نسل کے غم زندہ ہیں
خاک ہو کر بھی یہ لگتا تھا کہ ہم زندہ ہیں
 
ظہیراحمدظہیر بھائی ۔ آپ کا شمار اُن اہلِ قلم میں ہوتا ہے جن کے الفاظ میں فکری گہرائی بھی ہوتی ہے اور جذبوں کی سچائی بھی۔ آپ کی تحریریں اور اشعار اکثر قاری کو رکنے، سوچنے مجبور کرتے ہیں ۔ اور یہ وصف ہر کسی کو میسر نہیں آتا۔اسی محبت اور احترام کے رشتے کی بنیاد پر میں جسارت کر رہا ہوں کہ مریم افتخار کی تحریر پر آپ کے تبصرے پر ایک چھوٹی سی گفتگو پیش کروں ۔ کہ شاید بات کو مزید زاویے بھی مل سکیں۔
آپ کی بات میں وزن ہے کہ ایک تحریر میں اگر نکات بکھر جائیں تو قاری کی روانی متاثر ہو سکتی ہے۔ ابلاغ واقعی ادب کا بنیادی مقصد ہے۔
تاہم، جہاں تک مریم کی اس مخصوص تحریر کا تعلق ہے، میرا مشاہدہ کچھ یوں ہے کہ اس میں جو (موضوعات کا تنوع)ہے، وہ دراصل ایک مکمل انسانی تجربے کی بازگشت ہے۔ یہ صرف خیالات کا بیان نہیں، ایک ایسی اندرونی خودکلامی ہے جو ذہن کی منطقی ترتیب سے نہیں، دل کے دباؤ یا بوجھ سے جنم لیتی ہے۔زندگی کا دکھ، صنف کی کشمکش، معاشرتی خوف، باطنی مزاحمت، اور فرد کی پکار ۔ یہ سب مریم کی اس تحریر میں ایک ساتھ گونجتے ہیں۔ وہ شاید کسی ادبی مضمون کے اصول پر نہیں لکھ رہیں، بلکہ اپنے اندر کے بوجھ کو ان الفاظ میں ڈھالنے کی کوشش کر رہی ہیں، جنہیں شاید ابھی مکمل ادبی تربیت کی نہیں بلکہ سچے جذبے اور یکسوئی کی ضرورت ہے۔
ادب کا ایک اور زاویہ یہ بھی ہے کہ وہ صرف ترتیب اور مہارت کا فن نہ رہے، بلکہ اثر اور صداقت کا اظہاریہ بھی ہو۔ کبھی کبھار، بکھرے الفاظ ہی اصل زخم کی ساخت بتاتے ہیں۔چنانچہ، آپ کی تنقیدی نظر اور فکری وضاحت اپنی جگہ ، مگر میں اسے ایک غیر روایتی مگر جرات مند اظہار کے طور پر دیکھتا ہوں، جو اپنی راہ تلاش کر رہا ہے۔جو اپنے سوالات کے جوابات ڈھونڈ رہا ہے ۔ اور شاید یہ ادب کا حسن ہی ہے کہ ہم سب اپنے اپنے زاویئے اور فکری ارتقاء کے زیر ِ اثر چیزوں کا دیکھتے اور سمجھتے ہیں ۔ :)
آپ کی نظر عنایت اور اس قدر حوصلہ افزائی کی بے حد مقروض ہوں۔ دو دن غور و فکر کیا کہ یہ قرض کیسے اتارا جائے، پھر خیال آیا آپ سے پوچھوں کہ اگر اس جھولے کی اب جان خلاصی ہوگئی ہو جس پر آپ تشریف فرما تھے تو باقی کا وقت پارٹ ٹائم وکیل استغاثہ بنناپسند فرمائیں گے؟ :D
 
آپ کی تحریر پڑھ کر یوں لگا جیسے کسی نے چیخے بغیر وہ سب کچھ کہہ دیا جو اکثر لوگ چِلّا کر بھی نہیں کہہ پاتے۔آپ نے جو کچھ لکھا، وہ صرف ایک عورت کا تجربہ نہیں، بلکہ ایک ایسا انسانی تجربہ ہے جو کسی بھی باشعور اور بیدار ذہن کو اندر سے ہلا کر رکھ دے۔ آپ کا یہ کہنا کہ "زندگی نے دعوت تو دی تھی، مگر مہمان نوازی کرنا بھول گئی" ۔ اس ایک جملے میں کیا عورت، کیا مرد، سب کی مایوسیوں، سب کی بھاگ دوڑ، سب کی خاموش اذیتیں سما گئی ہیں۔لیکن پھر آپ کی تحریر صرف تجربہ نہیں، وہ احتجاج بھی ہے، ایک خاموش مزاحمت، اور ایک خواب کی بقا کا اعلان بھی۔ آپ نے کہا کہ آپ وہ خواب دیکھتی ہیں جن کی اجازت صرف لڑکوں کو ہے ۔ اور یہ بات دل میں کانٹے کی طرح چبھتی ہے۔ کیا واقعی خوابوں پر بھی اب جنس کا حق ہے؟
آپ نے ممتاز مفتی کا ذکر کیا۔ میں ممتاز مفتی کو پڑھ چکا ہوں، اور مانتا ہوں کہ اس کا قلم بے باک تھا، مگر اس بے باکی کو صرف اس کے مرد ہونے کا کمال کہنا شاید اُس عورت کی تحریری طاقت کو کم تر کرنا ہوگا جو آپ جیسے الفاظ میں اپنا درد بھی لکھتی ہے اور عزت نفس کو بھی بچا کر رکھتی ہے۔
آپ نے لکھا: "میں نہ کم یاب ہوں نہ نایاب"۔ مگر میں کہوں گا، آپ جیسی سوچ رکھنے والے لوگ کم از کم عام نہیں ہوتے۔اور سچ تو یہ ہے کہ میں نے اس اردو محفل پر بہت کم لوگوں کو اس فکری بلوغت تک پہنچتے دیکھا ہے جہاں انسان نہ صرف زندگی کی بے ثباتی کو شدت سے محسوس کرے، بلکہ اس کا اظہار بھی جرات اور سچائی سے کرے۔آپ نےاپنے باطن کے سوالات کو جس طرح صفحے پر اتارا ہے، وہ محض تحریر نہیں بلکہ ایک داخلی جدوجہد کا نچوڑ بھی ہے۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں میں ایک قاری سے بڑھ کر ایک شریکِ فکر بننے پر مجبور ہو جاتا ہوں۔
مگر میں ایک سوال اٹھانا چاہتا ہوں ۔ کیا ہم واقعی ممتاز مفتی نہیں بن سکتے؟ یا کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نے معاشرے کے خدشات کو سچ مان لیا ہے اور اب خود اپنے ہی سچ کو صفحے پر آنے سے روکتے ہیں؟
آپ نے تحریر کے آخر میں جو خواہش ظاہر کی کہ عورتیں اپنی کہانیاں خود لکھیں ۔ تو میں کہنا چاہتا ہوں کہ وہ وقت آ چکا ہے، اور شاید یہ تحریر خود اس کا آغاز ہے۔ لیکن ضروری یہ ہے کہ عورت صرف کہانی لکھے نہیں، بلکہ اپنے خوف کے حقائق اور خواب کی ہمت کو یکجا کر کے کہانی کو مستقبل کی بنیاد بنا دے۔
اگر میں اس مکالمے کو کسی جملے پر ختم کروں تو شاید یہی عرض کروں گا،آزادی، اختیار، تحریر، خواب ۔ یہ سب صرف حقوق نہیں، بلکہ امانتیں ہیں۔ اور آپ نے جس وقار کے ساتھ اس امانت کا بوجھ اُٹھانے کی کوشش کی ہے ، وہ مجھ جیسے کئی لوگوں کے لیے ایک آئینہ ہے۔ اگر آپ لکھتی رہیں، تو ہم پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ بطور انسان، اور پھر بطور ایک حساس معاشرہ، جس کی تشکیل کا خواب ہم سب نے کسی نہ کسی طور ، کسی نہ کسی صورت دیکھ ہوگا ۔
آپ کی یہ ساری تحریر میرے لیے کس قدر حوصلہ افزا ہے کاش یہ لفظوں میں بیاں ہو پاتا۔ میں نے تو ایک بات کی۔۔۔۔آپ نے کمال کر دیا!!!
یہ بذات خود ایک ایسی تحریر ہے جسے میں اپنے ایگزسٹینشئیل کرائسز کے دوران پڑھوں تو شفا پاؤں۔ اللہ تعالی آپ کا حسن ظن سلامت رکھیں! (سیما علی آپا جی، ادھر بھی آمین کے لیے ٹیگ کر رہی ہوں)
 
مگر میں ایک سوال اٹھانا چاہتا ہوں ۔ کیا ہم واقعی ممتاز مفتی نہیں بن سکتے؟ یا کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نے معاشرے کے خدشات کو سچ مان لیا ہے اور اب خود اپنے ہی سچ کو صفحے پر آنے سے روکتے ہیں؟
میں شاید کبھی بے باکی کے بغیر لکھ ہی نہ پاؤں۔ اسی لیے ایک عرصے سے قلم روک رکھا ہے۔ میرے ذہن میں یہ جھوٹی معاشرتی زنجیریں نہ کبھی تھیں نہ ان کی کوئی جگہ بن سکتی ہے! یہ بس ایک ڈھونگ ہے جسے بظاہر رچانا ہے، جب تک اپنا ٹھکانہ نہیں اور اپنا ٹھکانہ کب ہوگا؟ یہ ایک سوال ہے، انسانوں کے لیے بالعموم اور عورتوں کے لیے بالخصوص۔ کوئی تو جگہ ہو جہاں آپ غیر مشروط طور پر رہ سکیں اور آپ کا سچ کتنا بھی قبیح ہو، وہی آپ ہوں۔ ارے اگر بیان کرنا ہی اتنا مسئلہ ہے تو ایسے کام کرتے کیوں ہو کہ کوئی بیان کرے تو ایسی ٹیسیں پورے معاشرے میں اٹھیں!!!
آپ نے تحریر کے آخر میں جو خواہش ظاہر کی کہ عورتیں اپنی کہانیاں خود لکھیں ۔ تو میں کہنا چاہتا ہوں کہ وہ وقت آ چکا ہے، اور شاید یہ تحریر خود اس کا آغاز ہے۔ لیکن ضروری یہ ہے کہ عورت صرف کہانی لکھے نہیں، بلکہ اپنے خوف کے حقائق اور خواب کی ہمت کو یکجا کر کے کہانی کو مستقبل کی بنیاد بنا دے۔
میں بحیثیت انسان ایسی نہ ہوں کہ اپنی بات بار بار کرتی پھروں، مگر جب عورت برادری کو دیکھتی ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ ان کی اپنی آواز تک نہیں ۔ یہ سب کچھ جو زمانے کے چال چلن سے مختلف معاشروں میں بدلا ہے، یہ ایسے ہی ہے کہ کسی بچے کو دکان پر لے جا کر سویٹس کو شیشے کے باہر سے دکھانا اور پھر انگلی لگا کے گھر پہنچانا۔ یعنی عورت کو مزید کھل کر ادراک ہو گیا ہے کہ وہ کیا کیا کر سکتی ہے، مگر کرنے کے لیے اسے جتنے لوگوں کے ذہن بنانے ہیں اور ان لوگوں نے آگے جتنے لوگوں کو جواب دینے ہیں یا پھر حق ملکیت میں ہی طیش کھانا ہے، یہ الگ کہانیاں ہیں۔ خیر یہ تو بنیادی خوابوں کی بات تھی۔ ہم تو سفر و حضر میں اپنے خوف سے ہی نہیں نکلتے، تو خوابوں کی باتیں تو سروائیول موڈ سے نکل کر ڈھنگ سے کریں گے۔ میں فی الحال کچھ بھی نہیں ہوں سوائے اس کے کہ میں خود کو کسی اور کو ڈیفائن نہ کرنے دوں، کسی اور عورت یا مرد پر زد و کوب کی وجہ یا خاموش گواہ نہ بنوں اور میرے خوابوں پر اگر کام نہیں بھی ہو سکتا پھر بھی انہیں اپنے دماغ کی دنیا میں ہی ترک نہ کر دوں۔ کل کس نے دیکھی ہے؟ لیکن شاید اگر میں کل نہ بھی ہوئی، میرے یہ لفظ کسی عورت میں تو ہلچل پیدا کریں گے، یا کسی مرد میں تو کسی وحشی لمحے میں یہ خیال آئے گا کہ اس کے سامنے والی انسان بھی ویسی ہی حقدار ہے زندگی کی جیسا کہ وہ، شاید نہ آئے! کون جانے!
 
جو باقاعدہ ادب پارے کے طور پر لکھی گئی ہوں مثلاً مریم کا یہ تعارف نامہ۔ میرا آٹھ نو برسوں پر محیط مشاہدہ ہے کہ مریم بہت اچھی نظم و نثر لکھتی آئی ہیں اور ان کا قلم وقت کے ساتھ ساتھ نکھرتا سنورتا نظر آتا ہے۔ خصوصاً مذکورہ تحریر کا اسلوب اور زبان و بیان پر گرفت خوب ہے۔ یہ تحریر مضمون نہیں بلکہ انشائیہ ہے۔ چنانچہ اس کو کسی قلم برداشتہ مراسلے کے بجائے ایک باقاعدہ ادب پارے کے تناظر میں دیکھنا اور پرکھنا اتنا نامناسب بھی نہیں۔
استاذی!
میں سراپا سپاس گزار ہوں کہ آپ نے میری تحریر کو نہ صرف بنظر غائر دیکھا بلکہ ہمیشہ ایسا تفصیلی تبصرہ کیا کہ میں خود بھی شاید اس کو اتنا وقت لکھتے ہوئے نہ دے پائی تھی۔ میں بہت عجیب سی ہوگئی ہوں کرونک پروکریسٹینیشن سے لڑتے ہوئے، بس کچھ بھی فورا کر دیتی ہوں یا پھر تا ابد بیٹھی سوچتی رہتی ہوں۔ نئیر پرفیکشن کام کرنا ناپید سا ہوگیا ہے۔ تبھی آپ سے عرض کی تھی کہ اپنی ٹائم اور ٹاسک مینجمنٹ سکلز کے متعلق کچھ شاگردوں کے لیے بھی روشنی ڈالیے گا۔
مقتبس بالا سطور میرے لیے ایسی ہیں کہ انہیں گولڈن فریم میں لگا کر نیچے آپ کے دستخط لوں اور گھر کے داخلی دروازے کے پاس ٹانگ دوں۔ ایسی حوصلہ افزائی، اللہ اللہ! آئی ہوپ آئی ایم الائیو!!! :D
 
آخری تدوین:

ظفری

لائبریرین
آپ کی نظر عنایت اور اس قدر حوصلہ افزائی کی بے حد مقروض ہوں۔ دو دن غور و فکر کیا کہ یہ قرض کیسے اتارا جائے، پھر خیال آیا آپ سے پوچھوں کہ اگر اس جھولے کی اب جان خلاصی ہوگئی ہو جس پر آپ تشریف فرما تھے
ابھی تو جاب سے گھر روانگی ہے ۔ راستے بھر سوچوں گا کہ اس جھولے سے کیسے اُترا جائے ۔ :D
توباقی کا وقت پارٹ ٹائم وکیل استغاثہ بنناپسند فرمائیں گے؟ :D
فکر معاش ،عشق بتاں ،یاد رفتگاں
اس زندگی میں اب کوئی کیا کیا کیا کرے
:thinking:
 

عرفان سعید

محفلین
خوب!

بیٹی کی پیدائش کے وقت سے سوچ رہا ہوں کہ وہ وقت کب آئے گا جب ایک لڑکی اور خاتون ہونا ہینڈیکیپ نہ ہو گا معاشرے میں۔
امریکہ کی معاشرتی اور پیشہ وارانہ زندگی کے حساب سے آپ اپنے تجربے کی روشنی میں کیسے دیکھتے ہیں؟
نارڈک اور اپنے فن لینڈ کے تجربے کے لحاظ سے کہہ سکتا ہوں یہ ممالک باقی دنیا کے مقابلے میں بہت بہتر ہیں۔
میں چونکہ ڈی ای اینڈ آئی ٹیم کو بھی لیڈ کر رہا ہوں تو کبھی کبھی تفنن کے طور پر اپنی ٹاپ مینجمنٹ کو کہتا رہتا ہوں کہ کبھی مردوں کو بھی موقع دو اگر کچھ مساوات چاہیے!
 

زیک

ایکاروس
امریکہ کی معاشرتی اور پیشہ وارانہ زندگی کے حساب سے آپ اپنے تجربے کی روشنی میں کیسے دیکھتے ہیں؟
نارڈک اور اپنے فن لینڈ کے تجربے کے لحاظ سے کہہ سکتا ہوں یہ ممالک باقی دنیا کے مقابلے میں بہت بہتر ہیں۔
میں چونکہ ڈی ای اینڈ آئی ٹیم کو بھی لیڈ کر رہا ہوں تو کبھی کبھی تفنن کے طور پر اپنی ٹاپ مینجمنٹ کو کہتا رہتا ہوں کہ کبھی مردوں کو بھی موقع دو اگر کچھ مساوات چاہیے!
نارڈک ملک مع نیوزی لینڈ اس معاملے میں کافی عرصہ سے بہتر ہیں۔

امریکا ان کے مقابلے پر نہیں۔ میرے یہاں تقریباً تیس سالوں میں اس سلسلے میں کافی بہتری ہوئی ہے۔ مثلاً خواتین اگرچہ ابھی بھی کم کماتی ہیں لیکن فرق کم ہوا ہے۔ تعلیم میں اب خواتین آگے ہیں۔ سیاسی لیڈرشپ میں پارٹیز کو الگ الگ دیکھیں تو دونوں میں بہتری آئی ہے لیکن ڈیموکریٹس میں زیادہ خواتین لیڈرشپ میں ہیں۔ violence میں بھی 1990 کی دہائی کے مقابلے میں کافی چینج ہے۔

ان مثبت تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ نوجوانوں میں جینڈر کی بنیاد پر سوشل اور پولیٹکل خیالات میں فرق بڑھ گیا ہے۔ اس سے معاشرے پر سٹریس بڑھا ہے۔
 
Top