مراد پانی کی جمع پانیوں ؟ عرصے سے اس کا استعمال چلا آ رہا ہے تو اسے درست ماننا ہی چاہیے۔ ویسے ظفری نے مصرع الٹا لکھ کر بے بحر کر دیا!!اب ناؤ سے پانیوں کا ناطہ نہیں رہا
اس بارے میں تو الف عین استادِ محترم ہی بہتر بتا سکتے ہوں ۔ باقی ڈانٹ تو مجھے پڑنی ہی ہے کہ اپنا سبق تو یاد نہیں رکھتے۔ دوسروں کو بھاشن دیتے ہو۔![]()
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دیمیری بھی ایک ایسی غزل کہیں کھو گئی تھی ۔ جو مل نہیں رہی ۔
شکریہ۔ یہ آپ کی سخن فہمی ہے۔گو کہ غزل ہی ساری اچھی ہے مگر مقطع کمال کا ہے ۔ زبردست ۔
وہ تو صحیح ہے لیکن اس طرح ناؤ ، بحر میں ڈوب جائے گی۔اب ناؤ سے پانیوں کا ناطہ نہیں رہا
بہت خوب! اچھے اشعار ہیں لاالمٰی صاحبہ!اب پانیوں کا ناؤ سے ناطہ نہیں رہا
کرنا تھا جس کو پار وہ دریا اتر گیا
منزل نہ راہِ شوق، نہ ہی کوئی رہنما
ہر شخص ابتلائے سفر میں ہے مبتلا
مدت تلک رہا تھا جو مجھ سے گریز پا
اک روز آکے مجھ سے وہ سایہ لپٹ گیا
بنتی ہیں ایک بات سے باتیں کئی ہزار
بنتی ہے جس سے بات، نہ کوئی بنا سکا
مہندی لگے جو ہاتھ پہ، یا زخم ہوں ہرے
چڑھتا نہیں ہے ہر کسی پر رنگ ایک سا
ڈھلتا رہا خیال کسی صورتِ بتاں
اڑتی رہی تھی خاک حقیقت کی جا بجا
المٰیؔ عذابِ ہجر کا کیوں تذکرہ کریں
ذکرِغمِ وصال جب اِس سے بھی ہے سوا
یہاں تو پیپر ری چیک ہو گیا!!!بہت خوب! اچھے اشعار ہیں لاالمٰی صاحبہ!
مطلع ٹھیک نہیں ہے ۔ دوسرے ، پانچویں اور چھٹے اشعار میں نحوی مسائل ہیں ۔ انہیں ضرور دیکھ لیجیے۔ آپ کہیں گی تو تفصیل سے عرض کردوں گا۔
جی ضرور۔ ذیل میں لکھتا ہوںیہاں تو پیپر ری چیک ہو گیا!!!
کیسا سقم ہے ضرور آگاہ کیجئے ۔ مجھ پر واضح نہیں ہو سکا۔
چونکہ یہ شعر ناؤ کے نقطۂ نظر سے کہا گیاہے اس لیے ناؤ کے ناطے کی بات ہونا چاہیے نہ کہ پانیوں کے ناطے کی۔ یعنی مصرع اول یوں ہونا چاہیے:اب پانیوں کا ناؤ سے ناطہ نہیں رہا
کرنا تھا جس کو پار وہ دریا اتر گیا
مصرع اول میں جو روز مرہ اسلوب آپ نے استعمال کیا ہے اس میں " ہی "کی گنجائش نہیں۔ اصولاً یوں ہونا چاہیے: منزل نہ راہِ شوق نہ کوئی رہنما ۔ جیسے کہتے ہیں: نہ آدم نہ آدم زاد ، نہ نماز نہ روزہ وغیرہمنزل نہ راہِ شوق، نہ ہی کوئی رہنما
ہر شخص ابتلائے سفر میں ہے مبتلا
اس شعر میں لفظ جو کا کوئی محل نہیں ہے ۔ اس کی نثر بنا کر دیکھیے تو واضح ہوجائے گا۔مہندی لگے جو ہاتھ پہ، یا زخم ہوں ہرے
چڑھتا نہیں ہے ہر کسی پر رنگ ایک سا
صورتِ بتاں کی ترکیب سے پہلے "کسی" کا لفظ نہیں آئے گا۔ صورتِ بتاں کا مطلب ہوتا ہے بتوں کی طرح ، مثلِ بتاں ، بتوں کی صورت۔ڈھلتا رہا خیال کسی صورتِ بتاں
اڑتی رہی تھی خاک حقیقت کی جا بجا
نوٹِڈ اینڈ اکنالجڈ وِد تھینکسجی ضرور۔ ذیل میں لکھتا ہوں
چونکہ یہ شعر ناؤ کے نقطۂ نظر سے کہا گیاہے اس لیے ناؤ کے ناطے کی بات ہونا چاہیے نہ کہ پانیوں کے ناطے کی۔ یعنی مصرع اول یوں ہونا چاہیے:
اب پانیوں سے ناؤ کا ناطہ نہیں رہا
دوسری بات یہ کہ پانیوں کا لفظ اُس سیاق و سباق میں درست ہوتا ہے جب زندگی کے ایک سے زیادہ مراحل /مشکلات/ سلسلوں کی بات ہو ۔ لیکن اس شعر کے دوسرے مصرع میں واحد دریا کا ذکر ہے کہ جو چڑھا ہوا تھا اور اب اتر گیا۔ اس لیے مصرعِ اول میں پانیوں کے بجائے پانی کا محل ہے۔ اسے یوں کر کے دیکھیے:
طغیانیوں سے ناؤ کا ناطہ نہیں رہا
کرنا تھا جس کو پار وہ دریا اتر گیا
مصرع اول میں جو روز مرہ اسلوب آپ نے استعمال کیا ہے اس میں " ہی "کی گنجائش نہیں۔ اصولاً یوں ہونا چاہیے: منزل نہ راہِ شوق نہ کوئی رہنما ۔ جیسے کہتے ہیں: نہ آدم نہ آدم زاد ، نہ نماز نہ روزہ وغیرہ
اسے یوں کر دیکھیے:
منزل نہ راہِ شوق نہ اب کوئی رہنما
ہر شخص ابتلائے سفر میں ہے مبتلا
اس شعر میں لفظ جو کا کوئی محل نہیں ہے ۔ اس کی نثر بنا کر دیکھیے تو واضح ہوجائے گا۔
جو ہاتھ پر مہندی لگے یا زخم ہرے ہوں
یہ جملہ بے معنی ہے ۔ "جو " ضمیر موصول ہے اور اسے استعمال کرنے کے بعد صلہ آنا ضروری ہے ۔ جیسے جو لوگ چلے گئے تھے وہ آگئے ، جو بات میں چاہتا تھا وہ ہوگئی ۔ وغیرہ ۔
جو کا لفظ "اگر "کے معنوں میں استعمال کیا جائے تو پھر بعد کا فقرہ تو سے شروع کرنا ہوتا ہے ۔ جیسے : مہندی لگے جو ہاتھ پر تو ماتھا نہ پونچھئے ۔ وہ آئیں جو یہاں تو دروازہ نہ کھولیے ۔ وغیرہ
صورتِ بتاں کی ترکیب سے پہلے "کسی" کا لفظ نہیں آئے گا۔ صورتِ بتاں کا مطلب ہوتا ہے بتوں کی طرح ، مثلِ بتاں ، بتوں کی صورت۔
کسی بت کی طرح ، کسی بت کی مثل ، کسی بت کی صورت تو ٹھیک ہے لیکن کسی صورتِ بتاں درست نہیں ۔
آپ کی آرا کا بہت شکریہ۔خوبصورت اشعار۔
بہت خوب!
یہی مزاج زندگی کا بھی ہے۔کہیں دکھ ہیں، مایوسی ہے اور کہیں امید جگمگا رہی ہے۔
کسرِنفسی اپنی جگہ لیکن حقیقت پسندی بھی ضروری ہے ۔نوٹِڈ اینڈ اکنالجڈ وِد تھینکس
بر سبیلِ تذکرہ ،ابھی تلک تو ہم اردو نحو کی طغیانیوں سے ہی نبرد آزما ہیں۔ جانتے ہیں کہ ہنوز ساحل دور است۔ کبھی کنارے پہنچیں گے تو معلوم ہو گا کہ کوئی گوہرِ ادب ہاتھ لگا یا نہیں۔
سرِ دست تو ہم پہ یہ مثال صادق آتی ہے کہ
“ نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم”