آپ کی زندگی کا اپنا مزاحیہ واقعہ ۔

یہ واقعہ ایک سینیٹر نے کیپیٹل ٹاک پروگرام میں سنایا تھا۔
انضمام الحق جب کرکٹ ٹیم کا کپتان تھا تو اسی دور میں باب وولمر کا انتقال ہوگیا تھا۔
چونکہ انضمام کو زیادہ انگریزی نہیں آتی تھی تو اس نے کچھ مخصوص انگریزی کے جملے رٹے ہوئے تھے اور میچ کے بعد ہمیشہ وہی جملے کر انٹرویو کا آغاز کرناانضمام کی عادت تھی۔
وہ کہتا تھا:-
"بسم اللہ الرحمن الرحیم"
"السلام علیکم۔ فرسٹ آف تھینکس ٹو اللہ۔ دی کریڈٹ گوز ٹو آل گائز"
باب وولمر کی اچانک موت کے بعد کوئی میڈیا کا بندہ اس کے خیالات جاننے کے لئے اس کے پاس پہنچا اور اس سے پوچھا کہ "باب کی موت کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہتے ہیں ؟"
جواباً انضمام نے یوں اپنی بات کا آغاز کیا
"بسم اللہ الرحمن الرحیم"
"السلام علیکم۔ فرسٹ آف تھینکس ٹو اللہ۔ دی کریڈٹ گوز ٹو آل گائز"
:):):)
 
یہ واقعہ ایک سینیٹر نے کیپیٹل ٹاک پروگرام میں سنایا تھا۔
انضمام الحق جب کرکٹ ٹیم کا کپتان تھا تو اسی دور میں باب وولمر کا انتقال ہوگیا تھا۔
چونکہ انضمام کو زیادہ انگریزی نہیں آتی تھی تو اس نے کچھ مخصوص انگریزی کے جملے رٹے ہوئے تھے اور میچ کے بعد ہمیشہ وہی جملے کر انٹرویو کا آغاز کرناانضمام کی عادت تھی۔
وہ کہتا تھا:-
"بسم اللہ الرحمن الرحیم"
"السلام علیکم۔ فرسٹ آف تھینکس ٹو اللہ۔ دی کریڈٹ گوز ٹو آل گائز"
باب وولمر کی اچانک موت کے بعد کوئی میڈیا کا بندہ اس کے خیالات جاننے کے لئے اس کے پاس پہنچا اور اس سے پوچھا کہ "باب کی موت کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہتے ہیں ؟"
جواباً انضمام نے یوں اپنی بات کا آغاز کیا
"بسم اللہ الرحمن الرحیم"
"السلام علیکم۔ فرسٹ آف تھینکس ٹو اللہ۔ دی کریڈٹ گوز ٹو آل گائز"
:):):)
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
یہ سن ۲۰۰۸ کی بات ہے میں نیا نیا دُبئی گیا ، وہاں گھر والوں سے دل بہت اداس رہنے لگا۔ سوچا کہ کہیں سے سِم کارڈ خرید لوں گھر بات ہی ہو سکے گی ،، ایک دوست سے پوچھا کہ کیا طریقہ ہو گا ،،، اس نے بتایا کہ اپنے پاسپورٹ کی کاپی دینی ہو گی اور بس ،،، اس نے بتایا کہ دو ہی کمپنیاں ہیں یہاں اتِصلات ( Etisalat ) اور ڈوُ ( Du ) ، تو اتصلات بہتر ہے۔ خیر طے پایا کہ اگلے دن صبح صبح اتصلات دفتر جاؤں گا ،،، صبح دفتر پہنچے اور اپنی باری کا ٹکٹ کٹوایا ،،، انتظار کرنے لگے ،،، سامنے ہی سات یا آٹھ کاؤنٹر تھے ،،،، جن پر مزکر اور مونث اٹنڈینٹ بیٹھے تھے ،،، میری باری کا ٹکٹ جب برقی تختی پر چمکا تو وہ ایک ہم عمر خاتون کے ڈیسک پر تھا ،،، ہلکی گھبراہٹ کے ساتھ ڈیسک تک پہنچا ،، کچھ تو نئی دُنیا اور کُچھ صنف مخالف سے بات کرنے والے خیال کا پریشر ( وہ بھی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں :unsure: ) سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا !! ،،، ہم نے انگریزی ( جتنی آتی تھی :rolleyes: ) میں ہلیو ہائے کہا !! اس نے جواب دیا ،،، ہم نے فوراً ہی بستے سے ڈھیر سارے پیپر نکال کر اس کی میز پر دھرے اور پھر صرف ایک پاسپورٹ کی ننھی سی کاپی نکال کر اس کے حوالے کی ،،، کاپی لیتے وقت وہ مجھے ایسی نظروں سے دیکھ رہی تھی جیسے میں اس دنیا کی مخلوق ہی نہ تھا !!:alien: ،،، :cool2: ،،، خیر اس نے ایک فارم پُر کیا اور میرے ہاتھ میں تھما کر مُجھے سمجھانے لگی کہ کہاں کہاں کیا کیا لکھنا ہے ،،، کوئی ۵ یا ۷ منٹ کی تاکید سُننے کے بعد میں نے معصوم سا چہرا بنا کر اُسے کہا:

Please excuse me , I cannot understand Arabic !!

ایک دفعہ تو اس نے یوں گھوُرا جیسے ابھی سالم ہی نِگل جائے گی :atwitsend: :angry2:

اس کے بعد بڑے پیارے انداز میں مسکرا کر بولی :

Ahh !! Never mind, I'm speaking in English not ARABIC ،،، :battingeyelashes:

اور میں بس ایسے ہی رہ گیا ،،،،، :noxxx: :surprise: :idontknow:

:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:

ماہی احمد عائشہ عزیز ابن سعید اُمِ اریبہ سیدہ شگفتہ ناعمہ عبد الرحمن قیصرانی
 
آخری تدوین:

سلمان حمید

محفلین
یہ سن ۲۰۰۸ کی بات ہے میں نیا نیا دُبئی گیا ، وہاں گھر والوں سے دل بہت اداس رہنے لگا۔ سوچا کہ کہیں سے سِم کارڈ خرید لوں گھر بات ہی ہو سکے گی ،، ایک دوست سے پوچھا کہ کیا طریقہ ہو گا ،،، اس نے بتایا کہ اپنے پاسپورٹ کی کاپی دینی ہو گی اور بس ،،، اس نے بتایا کہ دو ہی کمپنیاں ہیں یہاں اتِصلات ( Etisalat ) اور ڈوُ ( Du ) ، تو اتصلات بہتر ہے۔ خیر طے پایا کہ اگلے دن صبح صبح اتصلات دفتر جاؤں گا ،،، صبح دفتر پہنچے اور اپنی باری کا ٹکٹ کٹوایا ،،، انتظار کرنے لگے ،،، سامنے ہی سات یا آٹھ کاؤنٹر تھے ،،،، جن پر مزکر اور مونث اٹنڈینٹ بیٹھے تھے ،،، میری باری کا ٹکٹ جب برقی تختی پر چمکا تو وہ ایک ہم عمر خاتون کے ڈیسک پر تھا ،،، ہلکی گھبراہٹ کے ساتھ ڈیسک تک پہنچا ،، کچھ تو نئی دُنیا اور کُچھ صنف مخالف سے بات کرنے والے خیال کا پریشر ( وہ بھی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں :unsure: ) سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا !! ،،، ہم نے انگریزی ( جتنی آتی تھی :rolleyes: ) میں ہلیو ہائے کہا !! اس نے جواب دیا ،،، ہم نے فوراً ہی بستے سے ڈھیر سارے پیپر نکال کر اس کی میز پر دھرے اور پھر صرف ایک پاسپورٹ کی ننھی سی کاپی نکال کر اس کے حوالے کی ،،، کاپی لیتے وقت وہ مجھے ایسی نظروں سے دیکھ رہی تھی جیسے میں اس دنیا کی مخلوق ہی نہ تھا !!:alien: ،،، :cool2: ،،، خیر اس نے ایک فارم پُر کیا اور میرے ہاتھ میں تھما کر مُجھے سمجھانے لگی کہ کہاں کہاں کیا کیا لکھنا ہے ،،، کوئی ۵ یا ۷ منٹ کی تاکید سُننے کے بعد میں نے معصوم سا چہرا بنا کر اُسے کہا:

Please excuse me , I cannot understand Arabic !!

ایک دفعہ تو اس نے یوں گھوُرا جیسے ابھی سالم ہی نِگل جائے گی :atwitsend: :angry2:

اس کے بعد بڑے پیارے انداز میں مسکرا کر بولی :

Ahh !! Never mind, I'm speaking in English not ARABIC ،،، :battingeyelashes:

اور میں بس ایسے ہی رہ گیا ،،،،، :noxxx: :surprise: :idontknow:

:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
ہاہاہاہا بے اختیار ہنسی چھوٹ گئی :rollingonthefloor::rollingonthefloor:
 

ساقی۔

محفلین
(پہلے بھی شیئر کر چکا ہوں موضوع کی مناسبت سے دوبارہ یاد تازہ کر لیتا ہوں ۔)
دس ، بارہ سال پہلے کی بات ہے۔
ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ایک ٹریکٹر والے نے اپنے ٹریکٹر کے پیچھے "سوہاگہ" باندھ رکھا تھا۔ وہ میرے پاس سے گزرا تو میری سائیکل سے ٹکرایا میں غصہ میں سائیکل سے نیچے آ پڑا۔۔ اور اسے کہا۔
انا ہویں آں ویں ۔۔۔ دِسدا کجھ نیوں؟
ٹریکٹر والا: معذرت پا جی ۔
میں: او چاچا توں ویکھ کے تے چلیا کر!
ٹریکٹر والا: پا جی مافی تے منگی اے تواڈے کولوں ۔ غلطی ہو گئی اے۔
میں:توں اپنی مافی(معافی) اپنے کول رکھ ۔مینوں ٹکر کیوں ماری آ؟
ٹریکٹر والا: اچھا توں کر لے جو کرنا ای فیر!۔
میں: چل جا معاف کیتا تینوں۔
 
آخری تدوین:

سید فصیح احمد

لائبریرین
(پہلے بھی شیئر کر چکا ہوں موضوع کی مناسبت سے دوبارہ یاد تازہ کر لیتا ہوں ۔)
دس ، بارہ سال پہلے کی بات ہے۔
ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ایک ٹریکٹر والے نے اپنے ٹریکٹر کے پیچھے "سوہاگہ" باندھ رکھا تھا۔ وہ میرے پاس سے گزرا تو میری سائیکل سے ٹکرایا میں غصہ میں سائیکل سے نیچے آ پڑا۔۔ اور اسے کہا۔
انا ہویں آں ویں ۔۔۔ دِسدا کجھ نیوں؟
ٹریکٹر والا: معذرت پا جی ۔
میں: او چاچا توں ویکھ کے تے چلیا کر!
ٹریکٹر والا: پا جی مافی تے منگی اے تواڈے کولوں ۔ غلطی ہو گئی اے۔
توں اپنی مافی(معافی) اپنے کول رکھ ۔مینوں ٹکر کیوں ماری آ؟
ٹریکٹر والا: اچھا توں کر لے جو کرنا ای فیر!۔
میں: چل جا معاف کیتا تینوں۔
ہاہاہاہاہا :laughing: :laughing:
 

شمشاد

لائبریرین
(پہلے بھی شیئر کر چکا ہوں موضوع کی مناسبت سے دوبارہ یاد تازہ کر لیتا ہوں ۔)
دس ، بارہ سال پہلے کی بات ہے۔
ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ایک ٹریکٹر والے نے اپنے ٹریکٹر کے پیچھے "سوہاگہ" باندھ رکھا تھا۔ وہ میرے پاس سے گزرا تو میری سائیکل سے ٹکرایا میں غصہ میں سائیکل سے نیچے آ پڑا۔۔ اور اسے کہا۔
انا ہویں آں ویں ۔۔۔ دِسدا کجھ نیوں؟
ٹریکٹر والا: معذرت پا جی ۔
میں: او چاچا توں ویکھ کے تے چلیا کر!
ٹریکٹر والا: پا جی مافی تے منگی اے تواڈے کولوں ۔ غلطی ہو گئی اے۔
میں:توں اپنی مافی(معافی) اپنے کول رکھ ۔مینوں ٹکر کیوں ماری آ؟
ٹریکٹر والا: اچھا توں کر لے جو کرنا ای فیر!۔
میں: چل جا معاف کیتا تینوں۔
ہونا تے اے چائیدا سی کہ تُسی اپنی سیکل نال اوہدے ساہاگے نوں ٹکر ماردے۔
 

نایاب

لائبریرین
پچھلے ہفتے مجھے دانت درد کا سامنا کرنا پڑا ۔ اوپر والی رائٹ سائیڈ کی داڑھ کے ساتھ والے دانت نے درد کی شدت سے رلا ہی دیا ۔ اس سال اقامے کی تجدید کے ساتھ 1450 ریال انشورنس کے بھی دینے پڑے تھے ۔ تعاونیہ والوں کی انشورنس تھی ۔ اس کا کارڈ لیکر قریب ہی واقع اک مستوصف " العروبہ " پہنچ گیا ۔ استقبالیہ کاونٹر پر پورے تین ریا ل کنسلٹیشن فیس وصول کی گئی اور مجھے دانتوں کے ڈاکٹر کے کمرے کی جانب روانہ کر دیا گیا ۔ جب باری آئی تو اک خاتون معالج کا سامنا ہوا ۔ اس نے تو میری جانب نگاہ بھی نہ کی اور نہ ہی کچھ پوچھا ۔ کچھ دیر اپنے پی سی پر مصروف رہنے کے بعد اک سلپ مجھے دی کہ استقبالیہ سے " موافقہ " لے آؤ ۔ دانت میں شدت کا درد تھا ۔ کاونٹر پر پہنچا انہوں نے سلپ دیکھی ۔ اور مجھ سے نقد 97 ریال لیکر اک رسید مبلغ 1065 ریال کی بنا کر مجھے دی اور کہا کہ سامنے " ایکسرے روم " سے ایکسرے کروا آؤ ۔۔
ایکسرے کروا کر ایکسرے کو معالج تک پہنچایا اور فرصت سے بیٹھ کر درد برداشت کرتا رہا ۔
میری باری آ ہی گئی ۔ روم میں داخل ہوا تو معالج نے کہا کہ سامنے ٹیبل پر لیٹ جاؤ ۔ اورسرنج ہاتھ پکڑ اک بڑی سی لائٹ میرے چہرے پہ فوکس کر کے مجھے کہا کہ منہ کھولو ۔ میں نے منہ کھولا اس نے جھٹ سے انجیکشن میرے مسوڑھوں میں لگا دیا ۔
میں نے اسے بتانا چاہا کہ میرے اوپر والے دانت میں درد ہے ۔ مگر اس نے میری بات سنی ان سنی کر دی ۔ ۔۔ " انا دکتورہ "کہہ کر اپنے چھری کانٹوں کے ساتھ میری داڑھوں کو کھرچنے میں مصروف ہو گئی ۔ کوئی بیس منٹ تک داڑھ کھرچنے کے بعد اس نے اک گم سی میری داڑھ پر رکھ کر کہا کہ منہ بند کرو ۔
چونکہ میرے نیچے والے مسوڑھے بالکل سن تھے اس لیئے مجھے بولنے میں دقت تھی ۔۔۔۔۔۔ میں نے اس سے بڑی مشکل سے کہا کہ دکتورہ میرے اوپر والے دانت میں درد ہے ۔ اور انجیکشن کے باوجود مجھے درد ہو رہا ہے ۔۔
کہنے لگی میں نے ایکسرے کو دیکھ کر جڑ پکڑ لی ہے ۔ تم گھر جاؤ یہ گولیاں کھاؤ ۔ اوردوبارہ 14 دن کے بعد مراجعے کی تاریخ دے دی ۔ میں کھپ ڈال ڈال ٹھک گیا مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی ۔ چار دن تو درد برداشت کیا پھر مستوصف پہنچ گیا مگر وہ ڈاکٹر مجھے دیکھنے پر تیار ہی نہ تھی کہ 9 تاریخ کو آپ کا معائنہ ہوگا ۔ میں سیدھا مرکز شکایات پہنچ گیا ۔ اور مدیر کے کمرہ کا دروازہ کھول دہائی دینی شروع کر دی ۔ مدیر کو ساری کہانی سنائی ۔ وہ اپنے ساتھ لیکر ڈاکٹر کے پاس آیا تو محترمہ نے مجھے ٹیبل پر لٹا میرے درد والے دانت کو ہلا کر بولیں کہ یہ تو ہل رہا ہے ۔ اس کو تو نکالنا پڑے گا ۔۔۔۔۔
میں نے مدیر کو کہا کہ مجھ سے قریب 1200 ریال فیس لی گئی ہے ۔ اگر دانت ہی نکلوانا ہوتا تو کسی بھی کلینک سے 100 ریال دیکر نکلوا لیتا ۔
مدیرمجھے دوسری ڈاکٹر کی پاس لے گیا اس نے دانت کا معائنہ کیا ۔÷ اور انجیکشن لگا کر صفائی کرکے فلنگ کر دی ۔ اور مجھے کچھ سکون آیا ۔۔۔۔۔ اسے دعائیں دیتا گھر آیا ۔۔۔۔۔
کیا یہ اک مزاحیہ واقعہ ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔؟
 

عمر سیف

محفلین
یہ سن ۲۰۰۸ کی بات ہے میں نیا نیا دُبئی گیا ، وہاں گھر والوں سے دل بہت اداس رہنے لگا۔ سوچا کہ کہیں سے سِم کارڈ خرید لوں گھر بات ہی ہو سکے گی ،، ایک دوست سے پوچھا کہ کیا طریقہ ہو گا ،،، اس نے بتایا کہ اپنے پاسپورٹ کی کاپی دینی ہو گی اور بس ،،، اس نے بتایا کہ دو ہی کمپنیاں ہیں یہاں اتِصلات ( Etisalat ) اور ڈوُ ( Du ) ، تو اتصلات بہتر ہے۔ خیر طے پایا کہ اگلے دن صبح صبح اتصلات دفتر جاؤں گا ،،، صبح دفتر پہنچے اور اپنی باری کا ٹکٹ کٹوایا ،،، انتظار کرنے لگے ،،، سامنے ہی سات یا آٹھ کاؤنٹر تھے ،،،، جن پر مزکر اور مونث اٹنڈینٹ بیٹھے تھے ،،، میری باری کا ٹکٹ جب برقی تختی پر چمکا تو وہ ایک ہم عمر خاتون کے ڈیسک پر تھا ،،، ہلکی گھبراہٹ کے ساتھ ڈیسک تک پہنچا ،، کچھ تو نئی دُنیا اور کُچھ صنف مخالف سے بات کرنے والے خیال کا پریشر ( وہ بھی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں :unsure: ) سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا !! ،،، ہم نے انگریزی ( جتنی آتی تھی :rolleyes: ) میں ہلیو ہائے کہا !! اس نے جواب دیا ،،، ہم نے فوراً ہی بستے سے ڈھیر سارے پیپر نکال کر اس کی میز پر دھرے اور پھر صرف ایک پاسپورٹ کی ننھی سی کاپی نکال کر اس کے حوالے کی ،،، کاپی لیتے وقت وہ مجھے ایسی نظروں سے دیکھ رہی تھی جیسے میں اس دنیا کی مخلوق ہی نہ تھا !!:alien: ،،، :cool2: ،،، خیر اس نے ایک فارم پُر کیا اور میرے ہاتھ میں تھما کر مُجھے سمجھانے لگی کہ کہاں کہاں کیا کیا لکھنا ہے ،،، کوئی ۵ یا ۷ منٹ کی تاکید سُننے کے بعد میں نے معصوم سا چہرا بنا کر اُسے کہا:

Please excuse me , I cannot understand Arabic !!

ایک دفعہ تو اس نے یوں گھوُرا جیسے ابھی سالم ہی نِگل جائے گی :atwitsend: :angry2:

اس کے بعد بڑے پیارے انداز میں مسکرا کر بولی :

Ahh !! Never mind, I'm speaking in English not ARABIC ،،، :battingeyelashes:

اور میں بس ایسے ہی رہ گیا ،،،،، :noxxx: :surprise: :idontknow:

:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:

ماہی احمد عائشہ عزیز ابن سعید اُمِ اریبہ سیدہ شگفتہ ناعمہ عبد الرحمن قیصرانی
کمال ۔۔
 

عمر سیف

محفلین
پچھلے ہفتے مجھے دانت درد کا سامنا کرنا پڑا ۔ اوپر والی رائٹ سائیڈ کی داڑھ کے ساتھ والے دانت نے درد کی شدت سے رلا ہی دیا ۔ اس سال اقامے کی تجدید کے ساتھ 1450 ریال انشورنس کے بھی دینے پڑے تھے ۔ تعاونیہ والوں کی انشورنس تھی ۔ اس کا کارڈ لیکر قریب ہی واقع اک مستوصف " العروبہ " پہنچ گیا ۔ استقبالیہ کاونٹر پر پورے تین ریا ل کنسلٹیشن فیس وصول کی گئی اور مجھے دانتوں کے ڈاکٹر کے کمرے کی جانب روانہ کر دیا گیا ۔ جب باری آئی تو اک خاتون معالج کا سامنا ہوا ۔ اس نے تو میری جانب نگاہ بھی نہ کی اور نہ ہی کچھ پوچھا ۔ کچھ دیر اپنے پی سی پر مصروف رہنے کے بعد اک سلپ مجھے دی کہ استقبالیہ سے " موافقہ " لے آؤ ۔ دانت میں شدت کا درد تھا ۔ کاونٹر پر پہنچا انہوں نے سلپ دیکھی ۔ اور مجھ سے نقد 97 ریال لیکر اک رسید مبلغ 1065 ریال کی بنا کر مجھے دی اور کہا کہ سامنے " ایکسرے روم " سے ایکسرے کروا آؤ ۔۔
ایکسرے کروا کر ایکسرے کو معالج تک پہنچایا اور فرصت سے بیٹھ کر درد برداشت کرتا رہا ۔
میری باری آ ہی گئی ۔ روم میں داخل ہوا تو معالج نے کہا کہ سامنے ٹیبل پر لیٹ جاؤ ۔ اورسرنج ہاتھ پکڑ اک بڑی سی لائٹ میرے چہرے پہ فوکس کر کے مجھے کہا کہ منہ کھولو ۔ میں نے منہ کھولا اس نے جھٹ سے انجیکشن میرے مسوڑھوں میں لگا دیا ۔
میں نے اسے بتانا چاہا کہ میرے اوپر والے دانت میں درد ہے ۔ مگر اس نے میری بات سنی ان سنی کر دی ۔ ۔۔ " انا دکتورہ "کہہ کر اپنے چھری کانٹوں کے ساتھ میری داڑھوں کو کھرچنے میں مصروف ہو گئی ۔ کوئی بیس منٹ تک داڑھ کھرچنے کے بعد اس نے اک گم سی میری داڑھ پر رکھ کر کہا کہ منہ بند کرو ۔
چونکہ میرے نیچے والے مسوڑھے بالکل سن تھے اس لیئے مجھے بولنے میں دقت تھی ۔۔۔ ۔۔۔ میں نے اس سے بڑی مشکل سے کہا کہ دکتورہ میرے اوپر والے دانت میں درد ہے ۔ اور انجیکشن کے باوجود مجھے درد ہو رہا ہے ۔۔
کہنے لگی میں نے ایکسرے کو دیکھ کر جڑ پکڑ لی ہے ۔ تم گھر جاؤ یہ گولیاں کھاؤ ۔ اوردوبارہ 14 دن کے بعد مراجعے کی تاریخ دے دی ۔ میں کھپ ڈال ڈال ٹھک گیا مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی ۔ چار دن تو درد برداشت کیا پھر مستوصف پہنچ گیا مگر وہ ڈاکٹر مجھے دیکھنے پر تیار ہی نہ تھی کہ 9 تاریخ کو آپ کا معائنہ ہوگا ۔ میں سیدھا مرکز شکایات پہنچ گیا ۔ اور مدیر کے کمرہ کا دروازہ کھول دہائی دینی شروع کر دی ۔ مدیر کو ساری کہانی سنائی ۔ وہ اپنے ساتھ لیکر ڈاکٹر کے پاس آیا تو محترمہ نے مجھے ٹیبل پر لٹا میرے درد والے دانت کو ہلا کر بولیں کہ یہ تو ہل رہا ہے ۔ اس کو تو نکالنا پڑے گا ۔۔۔ ۔۔
میں نے مدیر کو کہا کہ مجھ سے قریب 1200 ریال فیس لی گئی ہے ۔ اگر دانت ہی نکلوانا ہوتا تو کسی بھی کلینک سے 100 ریال دیکر نکلوا لیتا ۔
مدیرمجھے دوسری ڈاکٹر کی پاس لے گیا اس نے دانت کا معائنہ کیا ۔÷ اور انجیکشن لگا کر صفائی کرکے فلنگ کر دی ۔ اور مجھے کچھ سکون آیا ۔۔۔ ۔۔ اسے دعائیں دیتا گھر آیا ۔۔۔ ۔۔
کیا یہ اک مزاحیہ واقعہ ہو سکتا ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ؟
آپ کے ساتھ مکمل ہمدردی ہے نایاب بھائی ۔۔ یہ عرب ڈاکٹروں کا ککھ نئیں پتا ہوتا ۔۔ رب تعالی کا شکر ادا کریں کہ سارے دانت نہیں نکلوا آئے ۔۔
 

عمر سیف

محفلین
نایاب بھائی میں یہاں ہیلتھ سینٹر اپنے پیٹ کی خرابی کے سلسلے میں گیا ۔۔
ڈاکٹرنی نے دیکھا ۔۔ کہا منہ کھولو ۔۔ میں نے آ کر دیا ۔۔ ابھی اتنا ہی کہا کہ پیٹ سخت خراب ہے۔۔ ڈاکٹرنی نے پرسکپشن لکھ کر ہاتھ میں تھما دیا کہ میڈکل سٹور سے لے لو ۔۔
میں نے سوچا بڑی سیانی ڈاکٹرنی ہے ۔۔ مریض دیکھتے ہی مرض جان گئی ۔۔
رات سسٹر سے سکائپ پر بات ہو رہی تھی تو اسے میں نے اپنی دواؤں کے بارے بتایا (وہ فارمیسی پڑھ رہی ہے) اس نے بتایا کہ آپ کو نزلہ زکام کی دوا دے دی ہے اس نے ۔۔۔
 
پچھلے ہفتے مجھے دانت درد کا سامنا کرنا پڑا ۔ اوپر والی رائٹ سائیڈ کی داڑھ کے ساتھ والے دانت نے درد کی شدت سے رلا ہی دیا ۔ اس سال اقامے کی تجدید کے ساتھ 1450 ریال انشورنس کے بھی دینے پڑے تھے ۔ تعاونیہ والوں کی انشورنس تھی ۔ اس کا کارڈ لیکر قریب ہی واقع اک مستوصف " العروبہ " پہنچ گیا ۔ استقبالیہ کاونٹر پر پورے تین ریا ل کنسلٹیشن فیس وصول کی گئی اور مجھے دانتوں کے ڈاکٹر کے کمرے کی جانب روانہ کر دیا گیا ۔ جب باری آئی تو اک خاتون معالج کا سامنا ہوا ۔ اس نے تو میری جانب نگاہ بھی نہ کی اور نہ ہی کچھ پوچھا ۔ کچھ دیر اپنے پی سی پر مصروف رہنے کے بعد اک سلپ مجھے دی کہ استقبالیہ سے " موافقہ " لے آؤ ۔ دانت میں شدت کا درد تھا ۔ کاونٹر پر پہنچا انہوں نے سلپ دیکھی ۔ اور مجھ سے نقد 97 ریال لیکر اک رسید مبلغ 1065 ریال کی بنا کر مجھے دی اور کہا کہ سامنے " ایکسرے روم " سے ایکسرے کروا آؤ ۔۔
ایکسرے کروا کر ایکسرے کو معالج تک پہنچایا اور فرصت سے بیٹھ کر درد برداشت کرتا رہا ۔
میری باری آ ہی گئی ۔ روم میں داخل ہوا تو معالج نے کہا کہ سامنے ٹیبل پر لیٹ جاؤ ۔ اورسرنج ہاتھ پکڑ اک بڑی سی لائٹ میرے چہرے پہ فوکس کر کے مجھے کہا کہ منہ کھولو ۔ میں نے منہ کھولا اس نے جھٹ سے انجیکشن میرے مسوڑھوں میں لگا دیا ۔
میں نے اسے بتانا چاہا کہ میرے اوپر والے دانت میں درد ہے ۔ مگر اس نے میری بات سنی ان سنی کر دی ۔ ۔۔ " انا دکتورہ "کہہ کر اپنے چھری کانٹوں کے ساتھ میری داڑھوں کو کھرچنے میں مصروف ہو گئی ۔ کوئی بیس منٹ تک داڑھ کھرچنے کے بعد اس نے اک گم سی میری داڑھ پر رکھ کر کہا کہ منہ بند کرو ۔
چونکہ میرے نیچے والے مسوڑھے بالکل سن تھے اس لیئے مجھے بولنے میں دقت تھی ۔۔۔ ۔۔۔ میں نے اس سے بڑی مشکل سے کہا کہ دکتورہ میرے اوپر والے دانت میں درد ہے ۔ اور انجیکشن کے باوجود مجھے درد ہو رہا ہے ۔۔
کہنے لگی میں نے ایکسرے کو دیکھ کر جڑ پکڑ لی ہے ۔ تم گھر جاؤ یہ گولیاں کھاؤ ۔ اوردوبارہ 14 دن کے بعد مراجعے کی تاریخ دے دی ۔ میں کھپ ڈال ڈال ٹھک گیا مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی ۔ چار دن تو درد برداشت کیا پھر مستوصف پہنچ گیا مگر وہ ڈاکٹر مجھے دیکھنے پر تیار ہی نہ تھی کہ 9 تاریخ کو آپ کا معائنہ ہوگا ۔ میں سیدھا مرکز شکایات پہنچ گیا ۔ اور مدیر کے کمرہ کا دروازہ کھول دہائی دینی شروع کر دی ۔ مدیر کو ساری کہانی سنائی ۔ وہ اپنے ساتھ لیکر ڈاکٹر کے پاس آیا تو محترمہ نے مجھے ٹیبل پر لٹا میرے درد والے دانت کو ہلا کر بولیں کہ یہ تو ہل رہا ہے ۔ اس کو تو نکالنا پڑے گا ۔۔۔ ۔۔
میں نے مدیر کو کہا کہ مجھ سے قریب 1200 ریال فیس لی گئی ہے ۔ اگر دانت ہی نکلوانا ہوتا تو کسی بھی کلینک سے 100 ریال دیکر نکلوا لیتا ۔
مدیرمجھے دوسری ڈاکٹر کی پاس لے گیا اس نے دانت کا معائنہ کیا ۔÷ اور انجیکشن لگا کر صفائی کرکے فلنگ کر دی ۔ اور مجھے کچھ سکون آیا ۔۔۔ ۔۔ اسے دعائیں دیتا گھر آیا ۔۔۔ ۔۔
کیا یہ اک مزاحیہ واقعہ ہو سکتا ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ؟
یہ تو بہت دکھی واقعہ ہے ۔ جہالت اور بے حسی سے بھرپور۔ البتہ جن ڈاکٹروں نے یہ کارنامہ کیا وہ شاید اسے جان کو ہنس پڑیں :(
 
یہ سن ۲۰۰۸ کی بات ہے میں نیا نیا دُبئی گیا ، وہاں گھر والوں سے دل بہت اداس رہنے لگا۔ سوچا کہ کہیں سے سِم کارڈ خرید لوں گھر بات ہی ہو سکے گی ،، ایک دوست سے پوچھا کہ کیا طریقہ ہو گا ،،، اس نے بتایا کہ اپنے پاسپورٹ کی کاپی دینی ہو گی اور بس ،،، اس نے بتایا کہ دو ہی کمپنیاں ہیں یہاں اتِصلات ( Etisalat ) اور ڈوُ ( Du ) ، تو اتصلات بہتر ہے۔ خیر طے پایا کہ اگلے دن صبح صبح اتصلات دفتر جاؤں گا ،،، صبح دفتر پہنچے اور اپنی باری کا ٹکٹ کٹوایا ،،، انتظار کرنے لگے ،،، سامنے ہی سات یا آٹھ کاؤنٹر تھے ،،،، جن پر مزکر اور مونث اٹنڈینٹ بیٹھے تھے ،،، میری باری کا ٹکٹ جب برقی تختی پر چمکا تو وہ ایک ہم عمر خاتون کے ڈیسک پر تھا ،،، ہلکی گھبراہٹ کے ساتھ ڈیسک تک پہنچا ،، کچھ تو نئی دُنیا اور کُچھ صنف مخالف سے بات کرنے والے خیال کا پریشر ( وہ بھی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں :unsure: ) سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا !! ،،، ہم نے انگریزی ( جتنی آتی تھی :rolleyes: ) میں ہلیو ہائے کہا !! اس نے جواب دیا ،،، ہم نے فوراً ہی بستے سے ڈھیر سارے پیپر نکال کر اس کی میز پر دھرے اور پھر صرف ایک پاسپورٹ کی ننھی سی کاپی نکال کر اس کے حوالے کی ،،، کاپی لیتے وقت وہ مجھے ایسی نظروں سے دیکھ رہی تھی جیسے میں اس دنیا کی مخلوق ہی نہ تھا !!:alien: ،،، :cool2: ،،، خیر اس نے ایک فارم پُر کیا اور میرے ہاتھ میں تھما کر مُجھے سمجھانے لگی کہ کہاں کہاں کیا کیا لکھنا ہے ،،، کوئی ۵ یا ۷ منٹ کی تاکید سُننے کے بعد میں نے معصوم سا چہرا بنا کر اُسے کہا:

Please excuse me , I cannot understand Arabic !!

ایک دفعہ تو اس نے یوں گھوُرا جیسے ابھی سالم ہی نِگل جائے گی :atwitsend: :angry2:

اس کے بعد بڑے پیارے انداز میں مسکرا کر بولی :

Ahh !! Never mind, I'm speaking in English not ARABIC ،،، :battingeyelashes:

اور میں بس ایسے ہی رہ گیا ،،،،، :noxxx: :surprise: :idontknow:

:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:

ماہی احمد عائشہ عزیز ابن سعید اُمِ اریبہ سیدہ شگفتہ ناعمہ عبد الرحمن قیصرانی
اس سے ملتا جلتا واقعہ میرے ساتھ پیش آیا۔
1999 میں میں ایک کمپیوٹر مرمت کی دکان پر کام کرتا تھا۔ وہاں ایک امریکن عورت اپنے ایک مصری نائب کے ساتھ اپنا کمپیوٹر لیکر آئی۔ چہرے سے سخت پریشان لگ رہی تھی ۔ انگریزی زبان میں مجھے اپنی پریشانی بتانے لگی، کہنے لگی میرا یہ کمپیوٹر چلتے چلتے رک جاتا ہے۔ یعنی ہینگ ہوجاتا ہے۔ میں اس کی کمپنی میں گئی تو انہوں نے کہا ہے کہ اس کا مدر بورڈ خراب ہے اور 80 دینار کا خرچہ آئے گا۔ 80 دینار کافی بڑی رقم تھی۔ جب ساری بات بتا چکی تو اسے خیال آیا کہ یہ تو داڑھی والا بندہ ہے انگریزی کیا خاک سمجھا ہوگا ۔ اپنے مصری نائب سے کہا کہ اسے عربی میں بتاو۔
میں اس وقت ابھی کویت میں نیا تھا اس لئے عربی کوئی خاص نہیں سمجھتا تھا البتہ انگریزی میں ساری بات سمجھ چکا تھا۔ مصری نے ساری کہانی مجھے عربی میں شروع سے آخر تک سنائی ۔
ساری عربی کہانی سننے کے بعد میں نے اس امریکن عورت سے انگریزی میں بات شروع کر دی اور اسے بتایا کہ میں پاکستانی ہوں مجھے ابھی عربی نہیں آتی۔ بے چاری تھوڑی سی شرمندہ ہوگئی۔
اگلے دن اسے میں نے یہ خوش خبری سنائی مدر بورڈ بالکل ٹھیک ہے صرف پروسیسر کا پنکھا اپنی جگہ سے ہلا ہوا تھا۔ اور اس کا خرچہ صرف 5 دینار ہے :)
اس دن کے بعد سے ہماری دکان پر امریکی اور یورپی گاہکوں کی لائن لگ گئی۔ :)
 

ماہی احمد

لائبریرین
یہ سن ۲۰۰۸ کی بات ہے میں نیا نیا دُبئی گیا ، وہاں گھر والوں سے دل بہت اداس رہنے لگا۔ سوچا کہ کہیں سے سِم کارڈ خرید لوں گھر بات ہی ہو سکے گی ،، ایک دوست سے پوچھا کہ کیا طریقہ ہو گا ،،، اس نے بتایا کہ اپنے پاسپورٹ کی کاپی دینی ہو گی اور بس ،،، اس نے بتایا کہ دو ہی کمپنیاں ہیں یہاں اتِصلات ( Etisalat ) اور ڈوُ ( Du ) ، تو اتصلات بہتر ہے۔ خیر طے پایا کہ اگلے دن صبح صبح اتصلات دفتر جاؤں گا ،،، صبح دفتر پہنچے اور اپنی باری کا ٹکٹ کٹوایا ،،، انتظار کرنے لگے ،،، سامنے ہی سات یا آٹھ کاؤنٹر تھے ،،،، جن پر مزکر اور مونث اٹنڈینٹ بیٹھے تھے ،،، میری باری کا ٹکٹ جب برقی تختی پر چمکا تو وہ ایک ہم عمر خاتون کے ڈیسک پر تھا ،،، ہلکی گھبراہٹ کے ساتھ ڈیسک تک پہنچا ،، کچھ تو نئی دُنیا اور کُچھ صنف مخالف سے بات کرنے والے خیال کا پریشر ( وہ بھی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں :unsure: ) سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا !! ،،، ہم نے انگریزی ( جتنی آتی تھی :rolleyes: ) میں ہلیو ہائے کہا !! اس نے جواب دیا ،،، ہم نے فوراً ہی بستے سے ڈھیر سارے پیپر نکال کر اس کی میز پر دھرے اور پھر صرف ایک پاسپورٹ کی ننھی سی کاپی نکال کر اس کے حوالے کی ،،، کاپی لیتے وقت وہ مجھے ایسی نظروں سے دیکھ رہی تھی جیسے میں اس دنیا کی مخلوق ہی نہ تھا !!:alien: ،،، :cool2: ،،، خیر اس نے ایک فارم پُر کیا اور میرے ہاتھ میں تھما کر مُجھے سمجھانے لگی کہ کہاں کہاں کیا کیا لکھنا ہے ،،، کوئی ۵ یا ۷ منٹ کی تاکید سُننے کے بعد میں نے معصوم سا چہرا بنا کر اُسے کہا:

Please excuse me , I cannot understand Arabic !!

ایک دفعہ تو اس نے یوں گھوُرا جیسے ابھی سالم ہی نِگل جائے گی :atwitsend: :angry2:

اس کے بعد بڑے پیارے انداز میں مسکرا کر بولی :

Ahh !! Never mind, I'm speaking in English not ARABIC ،،، :battingeyelashes:

اور میں بس ایسے ہی رہ گیا ،،،،، :noxxx: :surprise: :idontknow:

:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:

ماہی احمد عائشہ عزیز ابن سعید اُمِ اریبہ سیدہ شگفتہ ناعمہ عبد الرحمن قیصرانی
:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor: توبہ
 

عمر سیف

محفلین
اس سے ملتا جلتا واقعہ میرے ساتھ پیش آیا۔
1999 میں میں ایک کمپیوٹر مرمت کی دکان پر کام کرتا تھا۔ وہاں ایک امریکن عورت اپنے ایک مصری نائب کے ساتھ اپنا کمپیوٹر لیکر آئی۔ چہرے سے سخت پریشان لگ رہی تھی ۔ انگریزی زبان میں مجھے اپنی پریشانی بتانے لگی، کہنے لگی میرا یہ کمپیوٹر چلتے چلتے رک جاتا ہے۔ یعنی ہینگ ہوجاتا ہے۔ میں اس کی کمپنی میں گئی تو انہوں نے کہا ہے کہ اس کا مدر بورڈ خراب ہے اور 80 دینار کا خرچہ آئے گا۔ 80 دینار کافی بڑی رقم تھی۔ جب ساری بات بتا چکی تو اسے خیال آیا کہ یہ تو داڑھی والا بندہ ہے انگریزی کیا خاک سمجھا ہوگا ۔ اپنے مصری نائب سے کہا کہ اسے عربی میں بتاو۔
میں اس وقت ابھی کویت میں نیا تھا اس لئے عربی کوئی خاص نہیں سمجھتا تھا البتہ انگریزی میں ساری بات سمجھ چکا تھا۔ مصری نے ساری کہانی مجھے عربی میں شروع سے آخر تک سنائی ۔
ساری عربی کہانی سننے کے بعد میں نے اس امریکن عورت سے انگریزی میں بات شروع کر دی اور اسے بتایا کہ میں پاکستانی ہوں مجھے ابھی عربی نہیں آتی۔ بے چاری تھوڑی سی شرمندہ ہوگئی۔
اگلے دن اسے میں نے یہ خوش خبری سنائی مدر بورڈ بالکل ٹھیک ہے صرف پروسیسر کا پنکھا اپنی جگہ سے ہلا ہوا تھا۔ اور اس کا خرچہ صرف 5 دینار ہے :)
اس دن کے بعد سے ہماری دکان پر امریکی اور یورپی گاہکوں کی لائن لگ گئی۔ :)
یعنی مز مز مزے ۔۔ مزکورے ۔۔۔
 

نوشاب

محفلین
اس سے ملتا جلتا واقعہ میرے ساتھ پیش آیا۔
1999 میں میں ایک کمپیوٹر مرمت کی دکان پر کام کرتا تھا۔ وہاں ایک امریکن عورت اپنے ایک مصری نائب کے ساتھ اپنا کمپیوٹر لیکر آئی۔ چہرے سے سخت پریشان لگ رہی تھی ۔ انگریزی زبان میں مجھے اپنی پریشانی بتانے لگی، کہنے لگی میرا یہ کمپیوٹر چلتے چلتے رک جاتا ہے۔ یعنی ہینگ ہوجاتا ہے۔ میں اس کی کمپنی میں گئی تو انہوں نے کہا ہے کہ اس کا مدر بورڈ خراب ہے اور 80 دینار کا خرچہ آئے گا۔ 80 دینار کافی بڑی رقم تھی۔ جب ساری بات بتا چکی تو اسے خیال آیا کہ یہ تو داڑھی والا بندہ ہے انگریزی کیا خاک سمجھا ہوگا ۔ اپنے مصری نائب سے کہا کہ اسے عربی میں بتاو۔
میں اس وقت ابھی کویت میں نیا تھا اس لئے عربی کوئی خاص نہیں سمجھتا تھا البتہ انگریزی میں ساری بات سمجھ چکا تھا۔ مصری نے ساری کہانی مجھے عربی میں شروع سے آخر تک سنائی ۔
ساری عربی کہانی سننے کے بعد میں نے اس امریکن عورت سے انگریزی میں بات شروع کر دی اور اسے بتایا کہ میں پاکستانی ہوں مجھے ابھی عربی نہیں آتی۔ بے چاری تھوڑی سی شرمندہ ہوگئی۔
اگلے دن اسے میں نے یہ خوش خبری سنائی مدر بورڈ بالکل ٹھیک ہے صرف پروسیسر کا پنکھا اپنی جگہ سے ہلا ہوا تھا۔ اور اس کا خرچہ صرف 5 دینار ہے :)
اس دن کے بعد سے ہماری دکان پر امریکی اور یورپی گاہکوں کی لائن لگ گئی۔ :)
کیا کمپنی والے اتنے بے ایمان تھے ۔ کہ صرف پروسیسر کا پنکھا ہلنے کو مدر بورڈ کی خرابی بتا رہے تھے ۔
 
پچھلے ہفتے مجھے دانت درد کا سامنا کرنا پڑا ۔ اوپر والی رائٹ سائیڈ کی داڑھ کے ساتھ والے دانت نے درد کی شدت سے رلا ہی دیا ۔ اس سال اقامے کی تجدید کے ساتھ 1450 ریال انشورنس کے بھی دینے پڑے تھے ۔ تعاونیہ والوں کی انشورنس تھی ۔ اس کا کارڈ لیکر قریب ہی واقع اک مستوصف " العروبہ " پہنچ گیا ۔ استقبالیہ کاونٹر پر پورے تین ریا ل کنسلٹیشن فیس وصول کی گئی اور مجھے دانتوں کے ڈاکٹر کے کمرے کی جانب روانہ کر دیا گیا ۔ جب باری آئی تو اک خاتون معالج کا سامنا ہوا ۔ اس نے تو میری جانب نگاہ بھی نہ کی اور نہ ہی کچھ پوچھا ۔ کچھ دیر اپنے پی سی پر مصروف رہنے کے بعد اک سلپ مجھے دی کہ استقبالیہ سے " موافقہ " لے آؤ ۔ دانت میں شدت کا درد تھا ۔ کاونٹر پر پہنچا انہوں نے سلپ دیکھی ۔ اور مجھ سے نقد 97 ریال لیکر اک رسید مبلغ 1065 ریال کی بنا کر مجھے دی اور کہا کہ سامنے " ایکسرے روم " سے ایکسرے کروا آؤ ۔۔
ایکسرے کروا کر ایکسرے کو معالج تک پہنچایا اور فرصت سے بیٹھ کر درد برداشت کرتا رہا ۔
میری باری آ ہی گئی ۔ روم میں داخل ہوا تو معالج نے کہا کہ سامنے ٹیبل پر لیٹ جاؤ ۔ اورسرنج ہاتھ پکڑ اک بڑی سی لائٹ میرے چہرے پہ فوکس کر کے مجھے کہا کہ منہ کھولو ۔ میں نے منہ کھولا اس نے جھٹ سے انجیکشن میرے مسوڑھوں میں لگا دیا ۔
میں نے اسے بتانا چاہا کہ میرے اوپر والے دانت میں درد ہے ۔ مگر اس نے میری بات سنی ان سنی کر دی ۔ ۔۔ " انا دکتورہ "کہہ کر اپنے چھری کانٹوں کے ساتھ میری داڑھوں کو کھرچنے میں مصروف ہو گئی ۔ کوئی بیس منٹ تک داڑھ کھرچنے کے بعد اس نے اک گم سی میری داڑھ پر رکھ کر کہا کہ منہ بند کرو ۔
چونکہ میرے نیچے والے مسوڑھے بالکل سن تھے اس لیئے مجھے بولنے میں دقت تھی ۔۔۔ ۔۔۔ میں نے اس سے بڑی مشکل سے کہا کہ دکتورہ میرے اوپر والے دانت میں درد ہے ۔ اور انجیکشن کے باوجود مجھے درد ہو رہا ہے ۔۔
کہنے لگی میں نے ایکسرے کو دیکھ کر جڑ پکڑ لی ہے ۔ تم گھر جاؤ یہ گولیاں کھاؤ ۔ اوردوبارہ 14 دن کے بعد مراجعے کی تاریخ دے دی ۔ میں کھپ ڈال ڈال ٹھک گیا مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی ۔ چار دن تو درد برداشت کیا پھر مستوصف پہنچ گیا مگر وہ ڈاکٹر مجھے دیکھنے پر تیار ہی نہ تھی کہ 9 تاریخ کو آپ کا معائنہ ہوگا ۔ میں سیدھا مرکز شکایات پہنچ گیا ۔ اور مدیر کے کمرہ کا دروازہ کھول دہائی دینی شروع کر دی ۔ مدیر کو ساری کہانی سنائی ۔ وہ اپنے ساتھ لیکر ڈاکٹر کے پاس آیا تو محترمہ نے مجھے ٹیبل پر لٹا میرے درد والے دانت کو ہلا کر بولیں کہ یہ تو ہل رہا ہے ۔ اس کو تو نکالنا پڑے گا ۔۔۔ ۔۔
میں نے مدیر کو کہا کہ مجھ سے قریب 1200 ریال فیس لی گئی ہے ۔ اگر دانت ہی نکلوانا ہوتا تو کسی بھی کلینک سے 100 ریال دیکر نکلوا لیتا ۔
مدیرمجھے دوسری ڈاکٹر کی پاس لے گیا اس نے دانت کا معائنہ کیا ۔÷ اور انجیکشن لگا کر صفائی کرکے فلنگ کر دی ۔ اور مجھے کچھ سکون آیا ۔۔۔ ۔۔ اسے دعائیں دیتا گھر آیا ۔۔۔ ۔۔
کیا یہ اک مزاحیہ واقعہ ہو سکتا ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ؟
یہ تو افسوسناک واقعہ ہے شاہ جی، اللہ ایسے ڈاکٹروں سے بچائے۔۔۔
اس سے ملتا جلتا ایک واقعہ ہے جس میں مزاح کا عنصر بھی موجود ہے۔ لیکن یہ واقعہ میرے ساتھ نہیں بلکہ نانا جی مرحوم کے ساتھ پیش آیا تھا۔ نانا جی بڑے گرم مزاج اور جلالی طبیعت کے آدمی تھے۔ ایک دفہ انکو داڑھ کا شدید درد ہوا اور مسوڑھے سوج گئے۔ بولنا مشکل ہوگیا۔ آخر کار ڈاکٹر کے پاس گئے۔ بھاٹی دروازے سے باہر سرکلر روڈ پر ایک ہسپتال ہے جسکا نام ہے جلال دین وقف ہسپتال۔۔۔وہاں پہنچے تو مریضوں کی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ پرچی بنوا کر انتظار کرنے لگے۔ باری آئی تو ڈاکٹر نے معائنہ کیا اور مسوڑھوں کی حالت دیکھ کر اس نے کہا کہ داڑھ نکالنی پڑے گی۔ چنانچہ زنبور ہاتھ میں پکڑا ، اب حالت یہ ہے کہ نانا جی نے منہ کھولا ہوا ہے۔ ڈاکٹر نے جو دانت نکالنا چاہئیے تھا اسکی بجائے ساتھ والے دانت پر زنبور رکھا۔ اب نانا جی سمجھ گئے کہ معاملہ غلط ہے۔ انکا تکیہ کلام تھا "پاء"۔۔۔ چناچہ انہوں نے کہنا چاہ کہ اوئے پاء۔۔۔لیکن منہ کھلا ہونے کی وجہ سے آ آ کی آواز ہی نکل سکی۔ ڈاکٹر سمجھا کہ انہیں درد ہورہا ہے جسکی وجہ سے یہ آوازیں نکال رہے ہیں۔ چنانچہ اس نے جلدی سے کام ختم کرنا چاہا اور ادھر سے آ آ اور آں آں میں بھی شدت پیدا ہوئی اور ہاتھ سے بھی اسے رکنے کے اشارے کئے کہ یہ دانت نہیں ہے لیکن ڈاکٹر صاحب نے دانت نکال کر نانا جی کے ہاتھ پر رکھ دیا۔۔۔۔بس اس سے اگلے لمحے ایک زناٹے دار تھپڑ ڈاکٹر صاحب کے منہ پر تھا اور ساتھ میں "الو دا پٹھا" وغیرہ وغیرہ جیسے کچھ مزید القابات۔۔۔۔۔
 

ماہی احمد

لائبریرین
(پہلے بھی شیئر کر چکا ہوں موضوع کی مناسبت سے دوبارہ یاد تازہ کر لیتا ہوں ۔)
دس ، بارہ سال پہلے کی بات ہے۔
ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ایک ٹریکٹر والے نے اپنے ٹریکٹر کے پیچھے "سوہاگہ" باندھ رکھا تھا۔ وہ میرے پاس سے گزرا تو میری سائیکل سے ٹکرایا میں غصہ میں سائیکل سے نیچے آ پڑا۔۔ اور اسے کہا۔
انا ہویں آں ویں ۔۔۔ دِسدا کجھ نیوں؟
ٹریکٹر والا: معذرت پا جی ۔
میں: او چاچا توں ویکھ کے تے چلیا کر!
ٹریکٹر والا: پا جی مافی تے منگی اے تواڈے کولوں ۔ غلطی ہو گئی اے۔
میں:توں اپنی مافی(معافی) اپنے کول رکھ ۔مینوں ٹکر کیوں ماری آ؟
ٹریکٹر والا: اچھا توں کر لے جو کرنا ای فیر!۔
میں: چل جا معاف کیتا تینوں۔
:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
یہی امید تھی ساقی بھائی آپ سے تو
 
Top