صلال یوسف

محفلین

آپ لوگ جانتے ہیں پردیس کیا بلا ہے کسی اذیت کا نام ہے پردیس ، یہ صرف وہی جان سکتا ہے جو یہ سزا بھگت رہا ہوتا ہے، ایسی عجیب سی تنہائی کا عالم کے بیشمار لوگوں کے ہوتے ہوئے بھی اکیلاپن ہو
ہے ناں عجیب سزا، مگر حالات اور انسانی ضروریات کی وجہ سے
بندہ یہ سزا قبول کرتا ہے
ہمارے ملک کے موجودہ حالات ؟ہمارے معاشرے کی فرسودہ رسمیں، ہماری زندگی میں ایسے موڑ پیدا کردیتے ہیں کہ اکثر نا چاہتے ہوئے بھی انسان اپنے لئے اس راہ کو منتخب کرلیتا ہے، اب یہ بھی ٹھیک سے نہیں پتا کہ یہ فیصلہ انسان کا اپنا ہوتا ہے یا قدرت کرواتی ہے یہ فیصلہ، انسان تو شاید بڑی باتیں کرتے ہوئے یہی کہتا ہے کہ میں نے ایسا فیصلہ کر لیا اور دیکھومیں آج کدھر ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔کیا اتنی ہمت ہے انسان میں کہ خود سے فیصلہ کرسکے؟ ارے ہوتا وہی ہے جو میرا ربا سوہنا کرتا ہے، بندہ معصوم اور خوش فہمی کا مارا ہوا یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ نہیں نہیں یہ میں ہوں جو کر رہا ہوں۔۔۔۔
پردیس.......آنا مشکل نہیں ، بلکہ بہت مشکل ہے، پہلے تو جو رستے کی دشواریاں ہیں اپنی جگہ........مگر جواصل بات ،کہ کچھ ریال، کچھ دینار، کچھ ڈالر کمانے کے لئے اپنے معصوم بچوں سے جدائی قبول کرنا،اُن کی زندگی کے وہ دن جو پلٹ کرنہیں آتے وہ کھو دینا۔۔۔۔۔۔۔۔اُن کی ہنسی ، اُن کی ضرورت کے وقت اُن کے پاس ہونے کی طلب، اُن کی بیماری میں اُن کو لے کر بھاگنا اور پریشان ہونا، اُن کے چھوٹے چھوٹے جھگڑے نمٹانا، کبھی پنسل لے کر آنا اور کبھی کتاب و کاپی پر کور کرنا الغرض ایسے بہت سارے معصوم کام.....جو نہ کرسکے اور اُن لمحات کے عوض کچھ دینار و ریال لے لئے تاکہ اُنہی کی کامیاب زندگی کے لئے بندبست کیاجاسکے.... !یہ پردیس ہے
کبھی بیماری میں خود پڑے رہنا، تنہا اور کوئی نہ ہو ساتھ دینے والا، کمرے کی گھٹی فضا، سگریٹ کا دھواں اور بدبو، بکھری چیزیں، میلاکمبل، پھٹا ہوا پردہ، بکھری سوچیں، یہ سب کیا ہے، پردیس میں رہنے کا بونس ہے شاید، اور یہی بندہ جب وقت کی مار کھا کر اور اپنی حصے کی بیگار کاٹ کر واپس لوٹتا ہے، تو حقیقت میں کچھ بھی اس کا نہیں ہوتا اُدھر......دیمک کی طرح لمحے سب چاٹ چکے ہوتے ہیں، معاشرے میں ان فِٹ کردار، سنکی کھانستا ہوا بڈھا وجود....! یہ ہے پردیس شاید۔۔۔۔۔
شاید بہت کچھ لکھ دینا باقی ہے مگر ضروری تو نہیں ہر بات لکھی ہی جائے ، یا یوں کہیں ضروری تو نہیں انسان میں اتنی ہمت ہو کہ وہ سب لکھ سکے، تلخیاں بھگتنا ایک بات ہے، تحریر کرنا ایک بات ہے، تحریر کرتے دماغ کی ایل سی ڈی پر جو فلم چلتی ہے ناں ، بڑی بُری ہوتی ہے۔
اللہ سب کو اپنی امان میں رکھے اور خوشیاں دے، اور سب بہن بیٹیوں کو اپنی حفاظت میں رکھے امین

تحریر: ابوحمزہ
 

شمشاد

لائبریرین
صلال بھائی بہت اچھا لکھا ہے گو کہ بہت مختصر لکھا ہے۔

پردیس کے دکھ پردیسی ہی سمجھ سکتا ہے۔
 

صلال یوسف

محفلین
شمشاد بھائی مختصر،اصل میں لکھا جاتا ہی نہیں اس ٹوپک پر، بہت تلخی بھر جاتی ہے لفظ نشتر لگتے ہیں ایسے میں، یہ بھی پتا نہیں کیسے لکھا گیا
دعائیں
 

نایاب

لائبریرین
میٹھی جیل ہے بابا یہ پردیس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا کیا دکھ سنائیں ۔۔۔۔۔ ؟
بہت خوب ابوحمزہ بھائی
 
بہت خوب لکھا بھائی
ایک بہت ہی تلخ حقیقت
ہم اپنے بچوں کی زندگی بنانے کے لئے یہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں کھو دیتے ہیں
اکیلا پن کیا ہوتا ہے
وہ ہی جان سکتا ہے جس پر گزرتی ہے
اللہ آپ کو شاد و آباد رکھے آمین
 

مہ جبین

محفلین
یقیناً تنہائی کا عذاب سہنا آسان نہیں شاید لوہے کے چنے چبانے جیسا۔۔۔۔۔
اپنوں سے ہزاروں میل دور رہنا بہت مشکل ہے ان کے لئے جو اپنے خاندان سے بہت محبت کرتے ہیں
صحیح کہا بھائی ابوحمزہ ۔۔۔۔کچھ باتیں بیان کرنا اتنا سہل بھی نہیں ہوتا
اس دکھ کو پردیس میں اپنوں سے دور رہنے والے ہی جان سکتے ہیں
 
کچھ ڈالر کمانے کے لئے اپنے معصوم بچوں سے جدائی قبول کرنا،اُن کی زندگی کے وہ دن جو پلٹ کرنہیں آتے وہ کھو دینا۔۔۔۔۔۔۔۔اُن کی ہنسی ، اُن کی ضرورت کے وقت اُن کے پاس ہونے کی طلب، اُن کی بیماری میں اُن کو لے کر بھاگنا اور پریشان ہونا، اُن کے چھوٹے چھوٹے جھگڑے نمٹانا،


کیا خوب لکھا ہے جناب
اور وہ لکھا ہے یعنی پردیسی کے دل میں اتر کر الفاظ لائے ہو آپ۔
ماشااللہ
 

ظفری

لائبریرین
پہروں اپنے دل سے لپٹ کر چپکے چپکے روئے ظفر
اس انجانے شہر میں ہم کو جب بھی وطن کی یاد آئی
 

سیما علی

لائبریرین
صلال صاحب!!!!
بہت خوب لکھا ۔۔۔;

وہ جو پردیس رہتے ہیں
کبھی سوچا ہے کیسے دن بِتاتے ہیں
جو چہروں سے نظر آتے ہیں آسودہ
بظاہر پرسکوں لیکن
ٹٹولو تو سہی اِن کو
کبھی اِن کے دِلوں میں جھانک کر دیکھو
غموں کا اک سمندر ہے
سمندر جو بظاہر پرسُکوں لیکن
کسی کمزور لمحے میں
فصیلیں توڑ کر دل کی نکل آتا ہے آنکھوں سے
اکیلے پن کی وحشت سے جو دل میں ہول اٹھتے ہیں
تو تنہائی میں روتے ہیں
کسی سے کچھ نہیں کہتے
سنو اہلِ وطن پردیس میں
اُس وقت دل پر جو گزرتی ہے
بیاں بھی ہو نہیں سکتا
اچانک جب خبر آئے تمہاری منتظر آنکھیں
ابھی ہیں موند ہونے کو
ذرا جلدی سے آنا تم
کہیں اب دیر نہ کرنا
تو تب پھر درد کی ٹیسیں جو دل کا حال کرتی ہیں
سمجھ میں کچھ نہیں آتا
جو سینے میں دھڑکتا ہے
اچھل کر حلق میں آ کر دھڑکتا ہے
خدایا خیر ہو سب کی
مگر پردیس میں مجبور بے چارے
پہنچتے ہیں جنازوں پر
کبھی وہ بھی نہیں ملتے
کلیجہ منہ کو آتا ہے
تمہیں اب کیا بتاؤں میں
یہ جو خوش باش لگتے ہیں
خلاء ہے ذات میں کتنا
کوئی نہ جان پائے گا
مگر زندہ بھی رہنا ہے
تو پھر یوں غم بھلاتے ہیں
بہت سے ٹوٹے دل مل کر
تو ایسی محفلیں آباد کرتے ہیں
اداسی کے سمندر سے نکل آتے ہیں پل بھر کو
بہت ہی عام باتوں پر
بڑے زوروں سے ہنستے مسکراتے ہیں
وہ جو پردیس رہتے ہیں
وہ ایسے دن بِتاتے ہیں.

ساؔنول عباسی
 

بابا-جی

محفلین
یہ دُرست ہے کہ جب اِنسان اپنے آبائی مسکن سے دُور کسی خطے، یعنی دیارِ غیر میں آباد ہو جائے، اور اُسے وہاں اچھا خاصا طویل عرصہ گزر جائے، تو دراصل وُہ پر دیس نہیں رہتا ہے۔ اُس نئے خطے کی گلیاں، عمارات، مناظر اور بُو باس انسانی وجُود کا حِصہ بن جاتی ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
جب کبھی آپ پاکستان جائیں اور کچھ عرصہ وہاں رہیں تو پھر اُسے پردیس کہا جائے گا ۔ :D
ظفری آپکو اور رضا کو آفرین ہے۔شروع شروع میں جب یہ گیا تو میں روز روتی اور صبح صبح رضا کو میل لکھتی آفس پہنچ کے سب سے پہلا کام یہی ہوتا کیونکہ نو بجے آفس شروع ہوتا اور ہم آٹھ بجے پہنچے ہوتے تو یہ وہ زمانہ ہے جب صرف ایم ایس این میسینجر سے بات ہوتی اور ہم ہفتے کو بات کرتے تو میں روتے روتے میل لکھتی تو اسکی جب اسکی جوابی میل آتی اور شروع یہاں سے ہوتی Maa please don’t cry
اور میں لکھتی میں کب روئی بابا تو جواب ہمیشہ آتا When you cry I feel it
تو دکھ وہی سمجھ سکھتے ہیں جنھوں نے اُٹھائے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
جب کبھی آپ پاکستان جائیں اور کچھ عرصہ وہاں رہیں تو پھر اُسے پردیس کہا جائے گا ۔ :D
جی ہاں آپ بجا فرماتے ہیں۔ جیسے ہمارے کچھ بے شرم حکمران موقع ملتے ہی پردیس میں حکمرانی کرنے آ جاتے ہیں۔ اور جب حکمرانی چھن جاتی ہے تو اپنے دیسوں کو لوٹ جاتے ہیں۔
 
Top