محمد وارث

لائبریرین
فہرست



- تعارف از محمد وارث
- دیباچوں کا دیباچہ از خواجہ حسن نظامی
- پہلا دیباچہ از لیلیٰ خواجہ بانو
- دوسرا دیباچہ از ملا محمد الواحدی
- تیسرا دیباچہ از مولوی شیخ محمد احسان الحق
- آپ بیتی حسن نظامی
- وجۂ تحریر کتابِ ہذا
- حسن نظامی کا مختصر سراپا
- بیعت
- ذکرِ نسب
- حسن نظامی کی ولادت اور زندگی کا حال
- تعلیم
- شادی
- عجیب واقعہ
- مقصود کا تقرر
- حیاتِ حسن نظامی کے جزئیات
- پہلا دور بچپن
- مکتب میں
- میرے والد
- چوری کرنیکا کا گناہ
- جوتیوں کی حفاظت کا ایک آنہ
- آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زیارت
- مطبع اور اخبار
- بہن کا وقتِ آخر
- والدہ کا وقتِ آخر
- والد کا وقتِ آخر
- خانگی تکلیفات
- منشی غلام نظام الدین صاحب
- حافظ عبدالغنی صاحب
- تھیٹر کا شوق
- اخبار کا شوق
- سب سے پہلا مضمون
- سفلی اعمال کا شوق
- شادی اور رسومات کا جھگڑا
- تعزیہ کی مخالفت
- حکامِ انگریزی سے میل جول
- ہندؤں کے تیرتھوں کی سیر
- پنجاب کا تیسرا سفر
- میرزا قادیانی کی ملاقات
- مولانا شبلی
- رزق کی تنگی
- مزدوری کی خوشی
- سفرِ بمبئی
- 1908ء
- واحدی صاحب
- 1913ء
- کہو تکبیر
- زندگی میں موت
- گھر میں ماتم کی صف
- شیخ احسان الحق صاحب
- 1913ء سے 1919ء تک
- سب سے پہلی تصنیف
- دوسری تصنیف
- تیسری تصنیف
- یقین کی قوت
- چوتھی تصنیف
- ان کتابوں پر رائے
- الفاظ کی تکرار
- ایک برس سے کوئی کتاب نہیں لکھی
- تصنیف کی مشکلات
- میں کتنا کام کرتا ہوں
- میری اچھی بری خصلتیں
- خود پسندی
- خوشامد پسند
- مروت کی افراط
- رائے کی بے استقلالی
- ضد اور ہٹ
- سنگدلی
- قناعت
- ہمدردی
- غریبوں سے محبت
- میرے مصلح
- مریدوں پر رائے
- خلفا کی خصوصیات
- زندگی کے تجربے اور مشاہدے
- پہلا مشاہدہ خدا کا اقرار
- رسول خدا (ص) سے محبت
- بزرگوں سے عقیدت
- اعتدال کا مشاہدہ
- میرا نقص
- زیادہ خط و کتابت
- اپنا کام اپنے ہاتھ سے
- صفائی کی نا قابلیت
- نکمے اور کاہل نوکر
- ہنسی خوشی کا ایک منٹ بھی قیمتی ہے
- محبت اچھی یا وقعت
- قیلولہ نہ کرنا
- غریب کا فروغ
- امیر کا زوال
- سفارش
- قیافہ شناسی
- مکاشفہ
- عادت ایک طاقت ہے
- توقع سے رنج و راحت
- مزا مشکل کے اندر ہے
- بے محنت کی دولت
- اولاد کا ورثہ
- قرابت موت کے بعد ختم
- دشمن بڑا دوست ہے
- دشمن کو مات کرنے کی چال
- سادے پانی کا لطف
- دنیا کا سب سے بڑا مزا
- میرا جھوٹا کھانا
- الحمدللہ کہنے کا وقت
- آنسو تزکیۂ باطن کی بھٹی
- آپ بیتی لکھنی عرفانِ نفس کا کھاتا

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
تعارف



خواجہ حسن نظامی ایک متنوع اور متحرک شخصیت کے مالک تھے، ادیب، مصنف، مؤرخ اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ آپ عملی تصوف یعنی سلسلۂ پیری و مریدی کے قائل تھے اور ہزاروں، لاکھوں مرید انکے ہندوستان میں تھے۔ آپ 1878ء میں پیدا ہوئے اور 77 برس کی عمر پا کر 1955ء میں وفات پائی۔

خواجہ حسن نظامی کی خود نوشت سوانح "آپ بیتی" اردو آپ بیتی میں ایک تاریخی حیثیت رکھتی ہے کہ یہ اردو میں مستقل کتاب کے طور پر پہلی خود نوشت سوانح ہے۔ یہ کتاب 1919ء میں پہلی بار شائع ہوئی، اس سے پہلے خواجہ الطاف حسین حالی نے اپنے کچھ حالات لکھ کر "مسدس حالی" کی طبع دوئم کے شروع میں شامل کر دیے تھے جسکا زمانۂ تصنیف لگ بھگ 1890ء کا ہے لیکن خواجہ حسن نظامی کی خود نوشت تک اردو میں خود نوشت پر کوئی مستقل کتاب موجود نہیں تھی، اور یہی اس کتاب کا سب سے بڑا امتیاز ہے (جیسا کہ خود مصنف اور دیباچہ نگاروں نے بھی اسکا بات کا ذکر کیا ہے۔) اردو کا دامن اگرچہ خود نوشت سے بالکل تو تہی نہیں ہے لیکن ابھی تک بھی معدودے چند خود نوشت ہی ایسی ہیں جنکی علمی اور ادبی حیثیت مسلم ہے جیسے عبدالمجید سالک کی "سرگزشت"، احسان دانش کی "جہانِ دانش"، جوش ملیح آبادی کی "یادوں کی برات"، قدرت اللہ شہاب کی "شہاب نامہ"، دیوان سنگھ مفتوں کی "ناقابلِ فراموش" اور اسکا دوسرا حصہ "سیف و قلم" اور قرۃ العین حیدر کی ناول کے رنگ میں لکھی ہوئی "کارِ جہاں دراز ہے"۔

خواجہ صاحب اپنی آپ بیتی کے پہلے ایڈیشن کے بعد 36 سال تک بقیدِ حیات رہے لیکن شاید عدیم الفصرتی نے انہیں اس کتاب پر نظرِ ثانی اور مزید حالات لکھنے کی کبھی فرصت نہ دی، اسلئے اس کتاب میں صرف 1919ء تک کے حالات ہیں۔ اس آپ بیتی کا اسلوب بھی دلچسپ اور منفرد ہے، شروع میں خواجہ صاحب نے صیغہ واحد غائب استعمال کیا ہے لیکن بعد میں صیغہ واحد متکلم۔ اس کتاب کی ترتیب کے متعلق بھی نیچے شیخ احسان الحق کے دیباچے میں آپ انکی رائے پڑھیں گے۔

خواجہ صاحب تصوف اور وحدت الوجود کے کس حد تک قائل تھے اسکا اندازہ انکی کتاب "کرشن بیتی" سے ہوتا ہے اور یہی ان کا اندازِ فکر تھا جسکی وجہ سے قریب قریب چار سال تک انہوں نے اقبال کے خلاف مضامین لکھے اور ہندوستان کے ہر کونے اور ہر گوشے سے اقبال کے خلاف "کفر" کے فتوؤں کی بھر مار ہو گئی۔ 1915ء میں جب اقبال کی "اسرارِ خودی" چھپی تو وہ خواجہ صاحب کے ایک طرح سے عروج کا زمانہ تھا۔ اقبال کی کتاب میں تصوف کی مذمت میں مقدمہ اور جا بجا "عجمی تصوف" اور حافظ شیرازی کے خلاف اشعار تھے، بس اسی وجہ سے خواجہ صاحب نے اقبال اور اسرارِ خودی کے خلاف مضامین لکھنے شروع کر دیئے۔ اس سے پہلے خواجہ حسن نظامی صاحب، اقبال کو "سرّ الوصال" کا لقب دے چکے تھے لیکن اس کتاب کے چھپنے کے بعد خواجہ صاحب نے اقبال کے خوب لتے لیئے۔ اقبال نے اپنا موقف واضح کرنے کیلیئے کئی خطوط بھی خواجہ صاحب کو لکھے لیکن انکا کچھ اثر نہ ہوا۔ اس بحث میں لسان العصر سید اکبر الہ آبادی بھی شامل تھے کہ وہ بھی تصوف کے قائل تھے، شروع شروع میں تو وہ بھی اقبال کے خلاف رہے لیکن اقبال کے خطوط لکھنے کے بعد انہوں نے اپنا موقف کچھ نرم کیا اور خواجہ حسن نظامی کو سمجھاتے رہے، گو خواجہ صاحب، اکبر الہ آبادی سے بہت متاثر تھے لیکن یہاں پر خواجہ صاحب نے انکی بات بھی نہ سنی اور اپنی بات پر اڑے رہے۔ بالآخر اقبال نے "اسرارِ خودی" کے دوسرے ایڈیشن میں اپنا مقدمہ اور حافظ شیرازی کے خلاف 35 اشعار حذف کر دیئے اور یوں خدا خدا کر کے خواجہ صاحب کا غصہ ٹھنڈا ہوا۔ (یہاں پر اقبال اور خواجہ صاحب کا تذکرہ میں نے مجملاً بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس دور کا یہ اہم واقعہ ہے لیکن مصنف نے اسے بیان نہیں کیا، جو احباب تفصیلی واقعات پڑھنا چاہیں وہ اقبال کے خطوط اور "شرح اسرارِ خودی" از پروفیسر یوسف سلیم چشتی میں انہیں دیکھ سکتے ہیں۔)

خواجہ صاحب نے دو سو سے زائد چھوٹی بڑی کتب تحریر فرمائیں جن میں سے کچھ مشہور اور اہم کتب میں سی پارۂ دل، غدرِ دہلی کے افسانے، میلاد نامہ، محرم نامہ، یزید نامہ، گاندھی نامہ، کرشن بیتی، فلسفۂ شہادت، بیگمات کے آنسو، گورنمنٹ اور خلافت، فاطمی دعوتِ اسلام اور تاریخِ فرعون وغیرہ شامل ہیں۔

قارئین اس کتاب یا میرے تعارف پر اپنے تبصرے، استفسارات، رائے تبصروں کے زمرے میں پیش کر سکتے ہیں، وہاں میں نے خواجہ صاحب کی کچھ کتب جو تصویری اردو میں موجود ہیں کا ربط بھی دے دیا ہے۔

خواجہ حسن نظامی صاحب کی "آپ بیتی" چونکہ ایک تاریخی اہمیت کی حامل ہے کہ اردو زبان کی پہلی خود نوشت سوانح ہے سو اسے نیٹ کی دنیا میں پہلی بار پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں، امید ہے کہ اربابِ ذوق کو میری یہ کاوش پسند آئے گی۔


(محمد وارث)


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
دیباچوں کا دیباچہ



اس کتاب پر تین آدمیوں نے دیباچے لکھے ہیں، پہلا خواجہ بانو نے دوسرا واحدی صاحب نے تیسرا بھیا احسان نے۔

بھیا احسان بہت تفصیل سے لکھنے کا قصد رکھتے تھے مگر بیمار ہو گئے اور بحالتِ بخار یہ مختصر سا دیباچہ لکھ سکے، امید کے موافق انہوں نے اس کتاب کے نقائص پر اعتراض بھی کئے ہیں لیکن زیادہ لطف جب آتا کہ وہ خود میری ذات پر آزادانہ نکتہ چینی کرتے جس پر وہ پوری طرح آمادہ تھے۔ خدا کو منظور ہے تو کتاب ہذا کے طبع دوم کے وقت میں انکی نکتہ چینی حاصل کر کے شائع کروں گا۔

بھیا احسان نے جو کچھ لکھا ہے اس میں ایک بات اس قابل ہے کہ میں اسکی تشریح بیان کروں ورنہ ناواقف لوگوں کی سمجھ میں نہ آئے گی۔

اصل قصہ یہ ہے کہ میں نے اپنی زندگی کے ہر اچھے برے واقعہ کو اس کتاب میں لکھ دیا تھا۔ کتاب کے شروع میں اسکا اشارہ بھی میں نے کیا ہے کہ زندگی کے عیب و صواب سب لکھنے چاہتا ہوں جنانچہ ایسا ہی ہوا اور کوئی مخفی سے مخفی بات میں نے باقی نہ رکھی، سب کچھ قلم بند کر دیا۔ اسکی خبر صوبہ بمبئی کے تعلیم یافتہ مریدوں کو ہو گئی کہ میں اس قسم کی آزادانہ کتاب لکھ رہا ہوں تو انہوں نے شد و مد سے مخالفت کی اور لکھا کہ بعض امور ایسے ہوتے ہیں جنکے اظہار سے نفع نہیں ہوتا بلکہ بندگانِ خدا کو نقصان پہنچ جاتا ہے۔

دہلی میں واحدی صاحب اور بھیا احسان کی رائے تھی اور خود میں بھی یہی چاہتا تھا کہ خدا کی مخلوق کے سامنے میری وہی صورت پیش ہو جیسی کہ وہ تھی یا جیسی کہ وہ ہے۔ روکنے والے جواب دیتے تھے کہ جو تھا وہ گزر گیا اسکے ذکر کی ضرورت نہیں، جو ہے اسی کا تذکرہ کافی ہے۔

بمبئی میں اتفاق سے گجرات و کاٹھیا واڑ کے تمام چیدہ و منتخب مرید جو باعتبارِ زمانہ شناسی اور نئی تعلیم کے چیدہ و منتخب کہے جا سکتے ہیں، جمع تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جن میں سے اکثر میری ابتدائی حالت کے شریک اور راز دار رہ چکے تھے، مثلاً غلام نظام الدین قریشی پریمی احمد آبادی، رضا الحق عباسی پرائیوٹ سکریٹری نواب صاحب منگرول، ولی محمد مومن پرائیوٹ سکریٹری ریاست مانا ور اور نواب فیض محمد خان آف کھمبائت، چاند میاں بی-اے آف کھمبائت وغیرہ۔ میں بھی وہاں موجود تھا، آپ بیتی کا مسئلہ پیش ہوا اور اہلِ مجلس کے دو حصہ ہو گئے۔ ایک فریق کہتا تھا سب کچھ درج ہونا چاہیئے، اسکے سرغنہ مسٹر ولی محمد مومن تھے۔ دوسرا کہتا تھا نہ ہونا چاہیئے، اسکے لیڈر مسٹر رضا الحق عباسی تھے۔ دونوں کی دلیلیں زبردست تھیں، آخر فیصلہ کچھ نہ ہوا اور میری مرضی پر بات منحصر رہ گئی۔

میرے فاضل دوست جناب مولوی عبدالماجد صاحب مصنف فلسفۂ جذبات و فلسفۂ اجتماع وغیرہ نے بھی یہی رائے دی کہ سب واقعات بے کم و کاست ہونے ضروری ہیں، اس سے مجھے تقویت ہوئی اور میں نے کتاب لکھنے کو دیدی۔ اسی اثنا میں حضرت مولانا سید اکبر حسین صاحب جج الہ آبادی کا حکم پہنچا، کہ جن سے میں نے مشورہ لیا تھا، کہ وہ واقعات ہر گز درج نہ کیے جائیں ان سے کچھ حاصل نہیں۔ حضرتِ اکبر کے ارشاد کے بعد میں مجبور ہوگیا کیونکہ میرا عقیدہ میں انکی رائے تمام ہندوستان کے باشندوں کے مقابلہ میں بھی زیادہ وزنی تھی۔ اسی زمانہ میں جناب اللہ بندی عرف امی صاحبہ نے ریاست کوئٹہ سے حضرتِ اکبر کی تائید میں ایک مستند خط لکھا جس میں آیات و احادیث و اقوالِ مشائخ کے حوالے جمع کر کے مجھ کو اس حرکت سے روکا گیا تھا۔ امی صاحبہ عالمہ ہیں، فاضلہ ہیں اور کوچۂ تصوف میں بڑے پایہ کی کاملہ اور عارفہ ہیں۔ ان دو خطوط کو دیکھنے کے بعد میں نے مجبوراً بادلِ ناخواستہ کاپی نویس کو منع کر دیا کہ ان حالات کو کتاب میں نہ لکھا جائے۔

واحدی صاحب اور بھیا احسان کو اس کا افسوس ہوا اور بھیا احسان نے آخر دیباچہ میں اس کا ذکر کر ہی دیا۔

جناب غلام نظام الدین صاحب خاکسار عالم تاجر کتب جن کے نام یہ کتاب منسوب ہے اور جن کا حال کتاب ہذا سے اچھی طرح معلوم ہو جائے گا، اتنی تفصیل سے بھی ناراض ہوئے جو میں نے اس کتاب میں لکھ دی ہے۔ انکا ارشاد ہے کہ چوری کرنے کا ذکر اور جوتیوں پر بیٹھنے کا اظہار میری شانِ موجودہ کے سراسر منافی ہے، اس سے میرے دشمن مجھ کو ذلیل اور حقیر خیال کریں گے۔

جناب خاکسار صاحب نے یہ رائے جس سچی محبت سے دی اسکا میں شکر گزار ہوں کیونکہ انکی نظر میں میری بہت بڑی شان اور عزت ہے مگر میں خود اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھتا ہوں تو شرم آتی ہے کہ میں کسی شان کا مستحق بھی نہیں ہوں اور احباب میں جو کچھ حسنِ ظن میری نسبت قائم ہو گیا ہے یہ سب خدا کے فضل سے ہے۔

میں نے سب کچھ اس کتاب میں لکھ دیا اور جو رہ گیا وہ اتنا اہم نہ تھا کہ جس کے نہ ہونے سے کتاب ناقص سمجھی جائے۔

مرنے کے بعد ہر شخص کے حالات پر بحث کی جاتی ہے اگر اسکا تعلق پبلک سے رہا ہو مگر یہ میری خوش نصیبی ہے کہ میں نے زندگی میں اپنی نسبت لوگوں کو شدید اور پر جوش مباحثہ کرتے ہوئے سن لیا اور دیکھ لیا اور جو لطف مرنے کے بعد روح کو آتا وہ مجھ کو جسم و روح کے اجتماع میں حاصل ہو گیا۔

ترتیب وغیرہ کی نسبت بھیا احسان کی رائے صحیح ہے کہ جلدی میں بعض خامیاں اس کتاب کی درست نہ ہو سکیں۔ اب میں خدا کا شکر اور خواجہ بانو اور واحدی صاحب اور بھیا احسان کے دیباچوں کی نسبت اپنی ممنونیت ادا کر کے اردو زبان میں آپ بیتی لکھنے کا افتتاح کرتا ہوں تا کہ اس ابتدائی نقشہ و خاکہ پر دوسرے لوگ بڑی بڑی عمارتیں کھڑی کر کے دکھائیں۔


(حسن نظامی)


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
پہلا دیباچہ


(از جناب لیلیٰ خواجہ بانو صاحبہ)



خدا کا شکر ہے کہ جو باتیں ہم زبانی سنا کرتے تھے ان میں سے بعض اس کتاب میں جمع ہو گئیں۔ خواجہ صاحب کا یہ فرمانا بالکل درست ہے کہ ہر آدمی کی زبدگی خود اس کے لیے اور دوسروں کے واسطے نصیحت ہے اگر وہ اس پر غور کرے۔ یہ کتاب بھی ایک نصیحت نامہ ہے۔

لاہوتی آپ بیتی کو میں بالکل نہیں سمجھی اور شاید بہت کم آدمی اس کو سمجھیں گے، میں نے خیال کیا تھا کہ شاید خواجہ صاحب ہندوؤں کی طرح آواگون کے قائل ہیں کیونکہ آپ بیتی لاہوتی کے پڑھنے سے یہی شبہ ہوتا ہے، جب پوچھا تو انہوں نے کہہ دیا نہیں میں تناسخ یا آواگون کا قائل نہیں ہوں میں نے اس مضمون میں جو کچھ لکھا ہے وہ کسی اور چیز کا بیان ہے۔ لاہوتی آپ بیتی اب کتاب ہذا سے علیحدہ چھاپی گئی ہے۔

اپنی بہنوں سے کہتی ہوں جو اس کتاب کو پڑھیں کہ وہ بھی اسی طرح اپنی زندگی پر غور کیا کریں۔

جو بہنیں میرے پیر اور میرے شوہر خواجہ صاحب کی مرید ہیں ان سے میرا کہنا یہ ہے کہ اور عورتوں کو بھی یہ کتاب پڑھ کر سنایا کریں تا کہ ان کو بھی اس زندگی کے بیان سے نصیحت حاصل ہو۔

ہر مرید کی چاہت یہ ہوتی ہے کہ سب آدمی اس کے پیر کے مرید ہو جائیں، میری پیاری بہنوں کو بھی چاہیئے کہ اپنی جان پہچان عورتوں کو اپنے پیر کے حالات کی یہ کتاب سنا کر اپنی پیر بہن بنائیں کہ جتنی زیادہ گنتی ہماری پیر بہنوں کی ہوگی اتنی ہی زیادہ آپس کی محبت بڑھے گی کیونکہ پیر بہنوں میں ما جائی بہنوں سے زیادہ محبت ہوتی ہے۔

اس کتاب سے میں نے کیا حاصل کیا
میں نے اس کتاب سے یہ حاصل کیا کہ آدمی کو اپنا برا اور تکلیف کا وقت اچھے اور خوشی کے زمانہ میں یاد کرنا چاہیئے، اس سے اس کو غرور نہیں ہوتا۔

اور یہ حاصل کیا کہ آدمی وہی ہے جو نکما نہیں رہتا اور کام میں وقت خرچ کرتا ہے۔ اور یہ حاصل کیا کہ بناوٹ اور ریا کاری اور دکھاوے کے بغیر بھی سیدھی سادی زندگی رکھنے سے آدمی دنیا میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ اور یہ حاصل کیا گیا کہ پیر لوگ اگر خواجہ صاحب کی طرح محنت مشقت سے روزی کمایا کریں اور مریدوں کی نذر و نیاز کا خیال نہ کریں تو وہ بھی نصیحت کرنے میں بے خوف ہو جائیں۔ خدا مجھ کو اور میرے بچوں حسین نظامی و علی ہلال و روح بانو اور سب مسلمان عورتوں اور بچوں اور مردوں کو دنیا میں اسکی توفیق دے کہ اسکی بخشی ہوئی زندگی کی قدر کریں اور اسکی عبادت اور اسکے بندوں کی خدمت کا حق ہم سے ادا ہو، آمین۔


خاکسار
لیلیٰ خواجہ بانو


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
دوسرا دیباچہ

(از جناب ملا محمد الواحدی صاحب ایڈیٹر اخبار خطیب و رسالہ نظام المشائخ، دہلی)



سیدی و مولائی حضرت خواجہ حسن نظامی کی تحریر میں جہاں اور بہت سی خوبیاں ہیں اور خوبیاں کیا وہ ایک البیلے سٹائل کے بانی اور خاتم ہیں، وہاں ایک خصوصی و امتیازی خوبی اور صفت یہ بھی ہے کہ ان کو سب سے انوکھے اور نرالے مضمون سوجھتے ہیں اور جن عنوان پر دوسرا قلم نہیں اٹھا سکتا ان پر یہ صفحے کے صفحے رنگ ڈالتے ہیں اسطرح کہ ہر سطر اور ہر لفظ کیفیت و اثر میں ڈوبا ہوتا ہے۔ کتاب ہذا اسی شہنشاہِ قلم کی آپ بیتی خود نوشت سوانح عمری یا بایوگرافی ہے، پھر سمجھ لیجیے کہ اس میں کیا کچھ دلچسپی کے سامان نہ ہونگے۔ میں نے آپ بیتی خواجہ حسن نظامی کو سرسری نظر سے دیکھا، میرے نزدیک کم از کم اردو لٹریچر میں یہ بالکل جدید اضافہ ہے۔ آپ بیتی خواجہ حسن نظامی کی لکھی ہوئی ہے اور اس میں ہم کو صرف ندرت و جدت کو تلاش کرنا چاہیئے۔ اول تو جیسا اوپر کہہ چکا ہوں، خود نوشت سوانح عمری کا ہمارے ہاں دستور ہی کہاں ہے، علاوہ ازیں آپ بیتی خواجہ حسن نظامی جسی بایوگرافی تو قطعی اپنی زبان میں آپ کسی کی پیش نہیں کر سکتے۔ آپ بیتی میں خواجہ صاحب نے اپنے عیب و ہنر کو اتنی صفائی سے بیان کیا ہے کہ ان کے سوا اتنی صفائی برتنے والا مشکل سے ملے گا۔ آپ بیتی خواجہ صاحب نے خاص طور سے اپنے مریدوں کے لیے تیار کی ہے اور اسکی تیاری میں از ابتدا تا انتہا مرید ان کے سامنے رہے ہیں لیکن غیر مرید بھی اس سے مریدوں کے برابر حظ و فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔ لوگ فرضی افسانوں سے اخلاقی نتائج نکالتے ہیں اور دنیا ان سے محظوظ و مستفید ہوتی ہے مگر کاش ہم حقیقی زندگیوں سے سبق سیکھنے کے عادی ہو جائیں کہ وہ بہترین افسانہ اور بہترین ناصح ہیں۔ یہ تو ہمہ شما کی زندگی کا حال تھا، نامور اور خوائص کی زندگی کا ذکر کیا۔ حضرت خواجہ حسن نظامی گو بڑے برگزیدہ خاندان کے فرد ہیں پر پیدا جب ہوئے کہ اس خاندان کی برگزیدگی خاک میں مل چکی تھی۔

سونے سے سونا نکلنا تو تعجب نہیں لیکن خاک سے سونے کا نکلنا بڑی بات ہے، خواجہ صاحب سونا ہیں جو خاک سے نمودار ہوئے۔ انکی زندگی کا معمولی سے معمولی واقعہ سبق آموز ہے، نصائح کا گنجینہ ہے۔

صاحبانِ عزت و ثروت کی اولاد آج ہزار کوشش و سعی کے باوجود بزرگوں کی عزت و ثروت کو مٹائے دیتی ہے مگر خواجہ صاحب کی زندگی بتاتی ہے کہ غریبوں کے بچے اگر تعلیم و تربیت پا سکیں تو ان میں ترقی کی کیا کچھ اہلیت ہے۔ خواجہ صاحب نے حسبِ عادت زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات لے لیئے ہیں اور قریباً کل واقعات سے ایک نتیجہ نکال کر بتلایا ہے۔ آپ بیتی گویا متعدد اور چھوٹی چھوٹی کہانیاں ہیں جن سے نتائج اخذ کئے گئے ہیں، مسلسل مضامین کا مجموعہ ہے جو ہمیں ہماری زندگی کے راستے میں روشنی دکھاتا ہے، اردو کی گلستاں ہے، تجرباتِ حیات ہے، کتاب النصائح ہے، کتاب الاصلاح ہے۔


عبدہ

واحدی


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
تیسرا دیباچہ


(از جناب مولوی شیخ محمد احسان الحق صاحب قادری ایڈیٹر رسالہ اسوۂ حسنہ، دہلی)




مصورِ فطرت سیدی حضرت خواجہ حسن نظامی صاحب نے فنِ انشا پردازی میں جو قابلِ رشک کمال پیدا کیا ہے اسکے خد و خال کو نمایاں کرنے کیلیئے ایک طویل مضمون اور مستقل بحث کی صرورت ہے اور اس فرض کو وہ حضرات جو زیادہ اہل ہیں مناسب موقعوں پر کچھ ادا کر چکے ہیں اور آئیندہ ادا کرینگے۔ میں یہاں صرف آپ بیتی تک اپنی رائے زنی کو محدود کہہ کر یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ وہ کیسی کتاب ہے، اسکی اشاعت سے اردو علم و ادب اور قوم و ملک کو کیا نفع ہوگا اور اسکی تالیف و تحریر میں خواجہ صاحب سے کہاں کہاں لغزشیں ہوئی ہیں۔ جہاں تک مجھے علم ہے اردو کے کسی مشہور مصنف یا با کمال انشا پرداز نے اپنی مبسوط سوانح عمری خود لکھ کر ایک مستقل کتاب کی صورت میں شائع نہیں کی۔ اس لحاظ سے آپ بیتی کی اشاعت اردو علم و ادب میں ایک نئی اور قیمتی دلچسپی کا اضافہ کرے گی اور یہ دلچسپی ایسی مفید ہوگی کہ اس کیلیئے حامیانِ ادبِ اردو کو یقیناً خواجہ صاحب کا ممنون ہونا پڑے گا۔

خواجہ صاحب کی زندگی کے حالات شروع سے آخر تک نہ صرف دلچسپ بلکہ سبق آموز اور مفید بھی ہیں کیونکہ خواجہ صاحب بھی ہندوستان کے ان چند منتخب نفوس میں ہیں جن کو انگریزی میں "سیلف میڈ" کہا جاتا ہے یعنی ممدوح نے غریب اور علم و روشن خیالی سے تقریباً بے بہرہ سر پرستوں کی نگرانی میں معمولی تربیت پا کر اور سخت عسرت و گمنامی کی حالت سے خود ترقی کر کے حاسدوں کی شدید مخالفتوں کے با وجود اس بامِ شہرت و کمال پر اپنا جھنڈا نصب کیا ہے جسکی طرف دیکھنے سے انکے حریفوں کی آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی ہیں اور جسکی آستاں بوسی کو آج دولت مند بھی باعثِ فخر سمجھتے ہیں اور علم پرست بھی۔ پھر یہ تمام عروج و کمال جو خواجہ صاحب کو حاصل ہوا ہے صرف انکی فطری و کسبی قابلیت و ذاتی کوششوں کا رہینِ منت ہے نہ کہ کسی اتفاقیہ خوش قسمتی یا دوسروں کی غیر معمولی دستگیری کا۔ ایسے لوگوں کے حالات جو خود اپنی کوشش و قابلیت سے ترقی کر کے انتہائی پستی سے معراجِ کمال پر پہنچتے ہیں اول تو عموماً خود ہی سبق آموز اور مفید ہوا کرتے ہیں لیکن جس ناصحانہ رنگ میں اپنے مختلف الحیثیت حالات کو خواجہ صاحب نے تحریر کیا ہے اور جس مصلحانہ اہتمام کے ساتھ ان سے نتائج اخذ کر کے مریدوں اور متوسلوں کو مستفید کرنے کی کوشش کی ہے اس سے انکی آپ بیتی اصلاحی اعتبار سے اور بھی زیادہ قابلِ قدر ہو گئی ہے جو ہمارے سامنے ایک مختلف کمالات رکھنے والے برزگ کی کامیاب زندگی کا نمونہ پیش کر کے خود ہم کو بہترین طریقہ سے کامیاب بننے کی تلقین کر رہی ہے۔ "سیلف میڈ" لوگوں کی سوانح عمریوں کے مطالعہ کو زندہ قومیں اپنی ضروریاتِ زندگی میں شمار کرتی ہیں اسلیئے خواجہ صاحب جیسے "سیلف میڈ" بزرگ کی خود نوشت سوانح عمری آپ بیتی اردو میں ایک ایسی کتاب ہوگی جس کو غیر اردو داں قومیں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھیں گی اور جسکی ضرورت اور نفع رسانی ہمارے ملک میں روز بروز بڑھتی جائے گی۔

خواجہ صاحب نے آپ بیتی میں اپنی زندگی کے کل حالات من و عن اور بے کم و کاست لکھے ہیں یا نہیں اور ان کو قلمبند کرنے میں ذاتی یا اجتماعی مصلحتوں کی بنا پر کچھ قطع و برید کی ہے یا نہیں؟ ان سوالوں کا جواب آپ بیتی کے ان پڑھنے والوں کو جو خواجہ صاحب کے حالات سے بطور خود واقف نہیں ہیں، آپ بیتی میں مشکل سے ملے گا لیکن جو لوگ خواجہ صاحب کے ساتھ عرصہ سے دوستانہ یا نیاز مندانہ تعلقات رکھتے ہیں وہ بلا تامل یہ کہہ دیں گے کہ حالات مکمل نہیں ہیں اور ان میں کچھ قطع و برید بھی ہوئی ہے اور یہی میرے نزدیک آپ بیتی میں وہ سب سے بڑا نقص ہے جس نے گو اسکی نفع رسانی اور دلچسپی پر شاید زیادہ مضر اثر نہیں ڈالا ہے لیکن اسکے موضوعِ تالیف یعنی تاریخی اہمیت کو یقیناً گھٹا دیا ہے۔ مجھ کو معلوم ہے کہ خواجہ صاحب نے انتہائی جرأت و صداقت سے کام لیکر اپنے تمام حالات کو من و عن قلمبند کر لیا تھا لیکن بعض برزگوں اور دوستوں کے سخت اصرار پر ان کو کچھ حصے مسودہ میں سے علیحدہ کرنے پڑے اور کچھ حصوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ کاش اس کتاب کا مسودہ اپنی اصلی شکل میں برقرار رہتا اور بزرگان و احباب کی مصلحتیں اس کی تاریخی اہمیت کا خون نہ کرنے پاتیں۔ خواجہ صاحب اور انکے بعض دوستوں کو اس کا احساس نہ ہو لیکن مجھ کو یقین ہے کہ انکی زندگی اپنے دلچسپ نشیب و فراز میں بہت سی تاریخی اہمیتیں پوشیدہ اور نمایاں رکھتی ہے اور جو داغ دھبے آج بعض لوگوں کو اس میں سیاہ و بد نما نظر آتے ہیں وہ بھی آئیندہ نسلوں کے لیے شمع ہدایت کا کام دے سکتے ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ بحالتِ موجودہ بھی خواجہ صاحب نے اپنی عیب نمائی میں بہت ہی غیر معمولی جرأت و صداقت سے کام لیا ہے اور آجکل انکی حیثیت کے کسی شخص سے اتنی جرأت و صداقت کے اظہار کی بہت کم توقع ہو سکتی ہے لیکن میں آپ بیتی کو بہت زیادہ قابلِ قدر بلکہ دنیا کی ایک بہترین کتاب سمجھتا اگر وہ حصے بھی جو مسودہ میں سے خارج کر دیئے گئے ہیں اس میں شائع کر دیئے جاتے۔

جس جرأت و صداقت کے ساتھ خواجہ صاحب نے آپ بیتی میں اپنے عیبوں کو ظاہر کیا ہے افسوس ہے کہ اپنی خوبیاں بیان کرنے میں اتنی جرأت و صداقت سے کام نہیں لیا۔ عجز و انکسار کے جذبہ اور خود ستائی کا الزام آنے کے اندیشہ نے ان کو اپنی بہت سی واقعی خوبیوں کے اظہار سے باز رکھا ہے اور جہاں کچھ خوبیاں بیان کی ہیں وہاں انکی اہمیت گھٹانے کے لیئے بھی آپ کو کچھ نہ کچھ کوشش ضرور کرنی پڑی ہے۔ اپنی سوانح عمری آپ لکھنے والوں کو اس قسم کی دقتیں ضرور پیش آتی ہیں اس لیئے ہر شخص کو اس میدان میں قدم رکھنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ خواجہ صاحب نے ان دقتوں کا بڑی بہادری اور استقلال سے مقابلہ کیا ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اس مقابلہ میں ہر جگہ کامیاب ہوئے ہیں۔

خواجہ صاحب نے آپ بیتی میں اپنے کیریکٹر کی ایک کمزوری یہ بیان کی ہے کہ وہ واقعات کی ظاہری شکل اور انکے سطحی نتائج سے جلد متاثر و مرعوب ہو جاتے ہیں، اسکا ثبوت آپ بیتی میں بھی ملتا ہے۔ اپنی زندگی کے بعض حالات سے جو اصلاحی نتائج خواجہ صاحب نے اخذ کیئے ہیں ان میں بعض ایسے بھی ہیں جو محض سطحی ہیں اور جن کو اخذ کرنے میں فلسفیانہ دقتِ نطر کی بجائے شاعرانہ احساسات اور تخیلات سے کام لیا گیا ہے۔ اس لیئے آپ بیتی کے واقعات پر خواجہ صاحب کے حواشی سب قابلِ تسلیم نہیں ہیں، اگرچہ وہ بھی اس اعتبار سے ضرور کار آمد ہیں کہ ان سے خواجہ صاحب کے طریقۂ استنباطِ نتائج پر روشنی پڑتی ہے۔

جدت طرازی و ندرت آفرینی نہ صرف خواجہ صاحب کے تخیل و انشا پردازی کا بلکہ انکی زندگی کے تقریباً ہر اک شعبہ کا جزوِ لاینفک بن گئی ہے اور کبھی کبھی خواجہ صاحب اپنی اس قابلِ رشک قابلیت کو بے محل بھی استعمال کر جاتے ہیں، چنانچہ شاید اسی جدت طرازی نے کہ آپ بیتی کی ترتیب بھی دوسری سوانح عمریوں کی ترتیب سے ممتاز رہے، آپ بیتی کے مضامین میں ایک قسم کی الجھن پیدا کر دی ہے۔ شروع میں اپنی زندگی کا مجمل حال لکھا ہے جس میں بہت سی جزئیات بھی آ گئی ہیں، جہاں جزئیات کو تفصیل وار بیان کیا ہے وہاں بہت سی باتیں مجمل رہ گئی ہیں۔ درگاہ حضرت محبوب الٰہی (رض) میں سکونت کی وجہ بیان کرنے کے لیئے جو باب قائم کیا ہے وہ زیادہ تر بیانِ نسب سے تعلق رکھتا ہے۔ اسی طرح کی اور بھی چند خرابیاں ترتیب میں ہیں جن سے واقعات کے تاریخی تسلسل میں رخنے پڑتے ہیں۔

مذکورہ بالا چند خامیوں اور لغزشوں کے باوجود خواجہ صاحب نے آپ بیتی بہت اچھی لکھی ہے۔ اردو ادب میں وہ ایک قیمتی اضافہ ثابت ہوگی۔ مشہور لوگوں کو اسے پڑھ کر اپنی سوانح عمریاں خود لکھنے کا شوق پیدا ہوگا۔ آئیندہ نسلیں اس سے متعد بہ فائدہ حاصل کرینگی اور ایک بڑے شخص کی قابلِ تقلید زندگی کے اہم حالات اسکے ذریعہ سے محفوظ ہو جائیں گے۔


احسان غفرلہ

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
آپ بیتی حسن نظامی


بسم اللہ الرحمن الرحیم


احمدک و استغفرک و استعینک یا اللہ
صلاتی و سلامی بعبدک و رسولک یا اللہ


یا اللہ میری مدد کر، میں یہ کتاب تیرے ان بندوں کیلیئے لکھتا ہوں جنہوں نے تیری محبت اور تیری طلب اور تیرے دین اسلام کی حقانیت و روحانیت حاصل کرنے کو میرے ہاتھ پر بیعت کی، اسی واسطے میں نے اس کتاب کا نام پیر بھائی رکھا ہے کہ تو ہم سب کا پیر ہے اور ہم آپس میں (تیرے مرید ہونیکے سبب) پیر بھائی ہیں۔ تو مراد ہے ہم مرید ہیں، تو حقیقت ہے ہم مجاز ہیں، تو جڑ ہے ہم شاخیں ہیں، تو نور السمٰوات و الارض ہے ہم تیری شعاعیں ہیں۔

ظاہر میں میرا ہاتھ تیرے بندوں کو مرید کرتا ہے اور انکی بیعت لیتا ہے مگر باطن میں تیرا ہی ہاتھ ہمارے ہاتھوں پر ہے اور تو ہی ہمارے ہاتھوں پر اپنا ہاتھ رکھ کر بیعت قبول کرتا ہے، جیسا کہ تو نے قرآن شریف میں فرمایا ہے۔

ید اللہ فوق ایدیھم (خدا کا ہاتھ انکے ہاتھوں پر ہے) پس مجھ کو توفیق دے کہ اپنے ہاتھ پر مرید ہونے والوں کو اپنے وجود سے کم تر نہ سمجھوں۔ اپنی ذات کو پیر اور مراد خیال نہ کروں بلکہ تجھ کو مراد اور پیر تصور کر کے اپنے مریدوں کو تیرا مرید اور اپنا پیر بھائی جانوں، اور انکی خدمت اسطرح بجا لاؤں جسطرح برابر کا بھائی اپنے دوسرے بھائی کی کرتا ہے۔

یا اللہ تو ہی اپنی قدرت سے میرے دل کو اس کبر و غرور سے پاک رکھ سکتا ہے جو آجکل بعض پیروں پر مسلط ہے اور وہ مریدوں کو اپنا غلام سمجھتے ہیں اور اپنی ہستی کو مریدوں سے اتنا بڑا خیال کرتے ہیں جتنا تو اپنے بندوں سے بڑا ہے۔ الٰہی مجھ کو اس گھمنڈ سے بچا اور کسی قسم کی بڑائی اور خود بینی میرے اندر نہ آنے دے۔

اے مولیٰ جسطرح تیرے محبوب اور رسول بندہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تیرے مرید تھے اور تیرے ہی نام پر تیرے بندوں کو اپنے ہاتھ کے ذریعہ تیرا مرید کرتے تھے اور باوجود اس بزرگی کے کہ انکے برابر تو نے کسی پیغمبر اور نیک انسان کو مرتبۂ بلند نہیں دیا، وہ اپنی ذاتِ مبارک کو سب آدمیوں کی اور اپنے سب مریدوں کی برابر تصور فرماتے تھے۔ تصور ہی نہیں انکے عمل سے ثابت ہوتا تھا کہ وہ کسی شخص کو جو انکا مرید ہو جاتا تھا کسی حال میں بھی حقیر اور اپنے سے کمتر نہیں سمجھتے تھے۔ اسی طرح مجھ کو کہ تیرے ممدوح رسول (ص) کا خون ہوں، ایسا دل اور ایسی عبادت مرحمت فرما کہ میرے نفس کو پیری اور بزرگی کا غرور پیدا نہ ہو اور میں تجھ کو اپنا پیر اور تیرے بندوں کو پیر بھائی سمجھتا رہوں اور میرا عمل بھی اسی کے موافق رہے۔

یا اللہ اپنی عاجزی کے اظہار اور تیری اطاعت کی طلب کے بعد اب میں تجھ سے ان بندوں کی انکساری و اطاعت کی دعا بھی کرتا ہوں جو میرے ہاتھ پر تیرے مرید ہوئے ہیں۔ جسطرح کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ میرا دل اپنی پیری اور بزرگی پر گھمنڈ نہ کرے اور سب مریدوں کو برابر کا بھائی سمجھے اسی طرح میں مریدوں کیلیئے یہی تجھ سے مانگتا ہوں کہ انکو بھی اطاعت و ادب کی توفیق دے اور انکو یورپ کے ان نافرمان بندوں کی طرح نہ بنا جو اپنے بادشاہوں اور پیشواؤں کا حکم نہیں مانتے اور تیرے بتائے ہوئے قواعدِ خسروی و بزرگی کو توڑ توڑ کر اپنی مطمئن زندگی کا شیرازہ پراگندہ کر رہے ہیں۔

الٰہی میرے مریدوں کو ویسی ہی اطاعت و حکم برداری سکھا جیسی تو نے اپنے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مریدوں (صحابہ کرام رض) کو سکھائی تھی کہ وہ رسول (ص) کی آواز سے اپنی آواز بلند نہ کرتے تھے۔ اور رسول (ص) کے حکم کے سامنے اپنی عقلوں اور اپنی تمام خواہشوں کو دبا دیتے تھے۔ رسول (ص) کی بات کو سب باتوں سے افضل جانتے تھے اور رسول (ص) کی خوشی کو سب مرضیوں سے اعلیٰ کہتے تھے۔ انکو یقین تھا کہ رسول (ص) کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے کیونکہ قرآن شریف نے بھی ایسا ہی ارشاد فرمایا تھا، اسی لیئے وہ اطاعتِ رسول (ص) پر اپنی جانوں، اپنے مالوں اور اپنی عزتوں کو قربان کر دیتے تھے۔

خدایا یہ تیرے ہی فضل سے تھا کہ تیرے رسول (ص) غریبوں اور مسکینوں کو برابر کا بھائی سمجھتے تھے اور اپنی زندگی غریبانہ بسر کرنی پسند فرماتے تھے اور اپنی بڑائی و برتری کا کوئی برتاؤ مریدوں سے نہ کرتے تھے اور وہ مرید بھی (صحابہ رض) انکی برتری و بزرگی کے سامنے دل و جان سے جھکے رہتے تھے۔

ایسا ہی یا اللہ ان لوگوں کو بنا دے جنہوں نے میرے ہاتھ پر تیری بیعت کی ہے کہ وہ میرے احکام کو (اگر وہ تیرے احکام کے خلاف نہ ہوں) تسلیم کریں اور میرے ادب کو (جو در حقیقت تیرے محکمہ کا ادب ہے) ہر حال میں ملحوظ رکھیں کیونکہ اسکے بغیر انکی دینی و دنیاوی فلاح ممکن نہیں ہے اور اطاعت ہی انکے طرزِ عمل کی بہترین رہنما ہو کر انکو مراد مند کر سکتی ہے جیسا کہ مجھ سے پہلے اطاعت ہی نے تیرے بندوں کو مراد مند دونوں جہان میں کیا تھا۔

یا اللہ اس دعا کو قبول کر، آمین۔ اور میرے ارادہ اور نیت کو صلاحیت دے کہ اب میں وہ بیان کروں جو تیرے میرے مرید بندوں اور میرے پیر بھائیوں کو دین دنیا میں مفید ہو، آمین۔

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
وجۂ تحریر کتابِ ہذا



ایک عرصہ ہوا میں نے آپ بیتی حسن نظامی کے نام سے ایک کتاب لکھنی شروع کی تھی مگر پھر اس کو ترک کر دیا کیونکہ اس میں مجھے خود نمائی کی بو آئی۔ اب خیال آیا کہ پیر بھائیوں کے تجربہ کیلیئے اپنے سب نیک و بد حالات مرتب کر دینے مناسب ہیں کہ اس میں ان کو میری زندگی کے تاریک حالات بھی معلوم ہو جائیں گے۔ میں کوشش کروں گا کہ اپنی کسی مخفی بات کو پردہ میں نہ رکھوں اور اپنے ان کاموں کو بھی لکھ دوں جو لوگوں کی نظر میں اچھے ہیں اور ان کو بھی بیان کردوں جو عیب، گناہ اور خلافِ آدمیت ہیں۔

دوسرا آدمی میرے حالات لکھے گا تو چن چن کر خوبیاں بیان کرے گا اور عیبوں کو چھپائے گا اور ضرورت یہ ہے کہ خدا کے بندوں کو دھوکا نہ دیا جائے، انسان کی جو اصلی حالت ہو وہی لکھی جائے تا کہ سب اچھی بری باتیں معلوم کر کے دوسرے لوگ اس شخص کی نسبت صحیح رائے قائم کر سکیں۔

اور میرے صحیح حالات کا شائع ہونا تو اس واسطے بھی بہت ضروری ہے کہ میں مرید کرتا ہوں اور ہزاروں آدمی ایسے میرے مرید ہوتے ہیں جنہوں نے مجھ کو نہیں دیکھا، خط کے ذریعے مرید ہو جاتے ہیں یا لاکھوں آدمی ایسے ہیں کہ میری تحریریں دیکھ کر حسنِ عقیدت رکھتے ہیں۔ تو مرید ہوتے وقت ان کو یہ غور کر لینے میں آسانی ہوگی کہ ایسا آدمی پیر بنانے کے قابل بھی ہے یا نہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
حسن نظامی کا مختصر سراپا



میرا نام علی حسن عرف حسن نظامی، والد کا نام حافظ سید عاشق علی، والدین زندہ نہیں ہیں (میں بارہ سال کا تھا جب ان کا انتقال ہو گیا۔) میری قومیت سید ہے، پیدایش کا مقام بستی درگاہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء (رض) پرانی دہلی ہے ،اور وہیں آجکل اقامت ہے۔ معاش کتابوں اور دواؤں کی تجارت پر ہے۔ تعلیم عربی، فارسی، اردو۔ عمر 41 سال۔ حلیہ یہ ہے، بہت لمبا قد، اس قدر دبلا کہ سوائے ہڈیوں اور کھال کے گوشت کا نام نہیں، رنگ گورا، چہرہ کتابی، آنکھیں سفید و سیاہ اور بڑی بڑی، دونوں لبوں کے وسط میں میں ہلکا سا ایک سرخ نشان (جس کو بچپن سے آج تک پیشین گوئیاں کرنے والوں نے خوش نصیبی کی علامت بیان کیا) پیشانی چوڑی، ناک سیدھی، رخسار نہ بہت پچکے ہوئے نہ گوشت سے بھرے ہوئے، ہونٹ موٹے موٹے، دہانہ بڑا، دانت اب تک سلامت، ڈاڑھی یکمشت اور بھری ہوئی، سر کے بال کمر تک جن میں بل ہیں یعنی گھونگر والے ہیں (2 محرم 1340ھ کو بال کٹوا دیئے) سینہ بہت چھوٹا جیسا کہ بارہ سال کے بچہ کا ہوتا ہے۔ سینہ کی ہڈیاں اتنی ابھری ہوئیں کہ ایک ایک ہڈی گن لو، ان پر گوشت بالکل نہیں۔ گردن بہت پتلی اور خمیدہ (جو بچپن میں بہت لمبی اور بہت سیدھی تھی) گردن سے ناف تک کا حصہ بہت لمبا اور یہی وجہ ہے کہ کمر چلنے میں ذرا جھکی رہتی ہے۔ کان درمیانی، ٹانگیں لمبی، پاؤں درمیانے، سر لمبوترا اور بڑا۔

آواز بہت بڑی اور ذرا گرجدار (جو لحن کی شیرینی نہیں رکھتی اگر گانے کی کوشش ہو تو بہت بھدی اور مکروہ معلوم ہوگی) بال بالکل سیاہ۔ جسم کے کسی عضو میں کمزوری نہیں ہے سوائے جگر اور معدہ کے کہ دماغی کام کرنے سے وہ عموماً خراب رہتے ہیں۔ دماغ میں اب تک شدید سے شدید محنت کی برداشت ہے اور رات دن میں بارہ گھنٹے مسلسل کام کر سکتا ہے۔

زبان میں پہلے لکنت تھی اب بھی کبھی کبھی بولنے میں گرفت ہوتی ہے، حافظہ درست نہیں ہے، گفتگو میں اس وجہ سے سلسلۂ کلام قائم نہیں رہتا۔

ڈاڑھی صرف ایک دفعہ منڈائی تھی پھر کتروانے لگا، اب پوری ہے سالہا سال سے۔ شادیاں دو ہوئیں، پہلی بیوی سے چار بچے ہوئے، ابنِ حسن نظامی، حسن بصری، حور بانو، نور بانو۔ ان بیوی کا انتقال ہو گیا اور سوائے حور بانو کے تینوں بچے بھی مر گئے۔ سابقہ اہلیہ کے انتقال کے سات برس بعد دوسرا عقد کیا، ان سے ایک لڑکا حسین نظامی ہے جو اس وقت ڈھائی سال کا ہے اور دوسرا لڑکا علی ہلال دو مہینہ کا ہے۔

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بیعت



میں گیارہ سال کی عمر میں اپنے مرحوم والد کے ہمراہ سب سے پہلے تونسہ شریف ضلع ڈیرہ غازیخان صوبہ سرحدی گیا تھا اور حضرت شاہ اللہ بخش صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پر حسبِ ہدایت والدِ ماجد بیعت کی تھی (جنکے میرے والد اور تمام خاندان والے مرید تھے) پھر والد کے انتقال کے بعد اپنے برادرِ مرحوم سید حسن علی شاہ کے ہمراہ سولہ برس کی عمر میں حضرت خواجہ غلام فرید صاحب رحمۃ اللہ علیہ سجادہ نشیں چاچڑاں شریف علاقہ ریاست بہاولپور کی خدمت میں حاضر ہوا اور بھائی کے کہنے سے ان سے بیعت کی۔ (یہ دونوں ارادتیں اپنے ارادہ اور اپنے خیال سے نہ تھیں کیونکہ اس وقت اسکی عقل نہ رکھتا تھا۔) اسکے بعد درگاہ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ میں بمقام پاکپٹن شریف ضلع منٹگمری حضرت مولانا پیر سید مہر علی شاہ صاحب سے بہ اشارہ روحِ حضرت بابا صاحب و بحسنِ عقیدت ذاتی خوب سوچ سمجھ کر بیعت کی۔ اس وقت میری عمر 24 سال کی تھی اور میں نے تعلیم و مطالعہ کے ذریعہ سے معلوماتِ تصوف کا کچھ ذخیرہ مہیا کر لیا تھا۔ (یہ آخری بیعت حضرت خواجہ اللہ بخش اور حضرت خواجہ غلام فرید کے وصال کے بعد ہوئی تھی۔)

دست بدست مرید ہوا تھا، مرید ہونے کے بعد دینی ترقی تو فوراً شروع ہو گئی اور دنیاوی حالت میں اتنا زوال ہوا کہ فاقہ کشی کرتا رہا۔ معیشت کا اطمینان 1908ء سے ہوا جسکو گیارہ سال ہوئے۔ اسکے بعد دنیاوی ترقی بھی برابر عروج کرتی رہی۔

مرید ہونے کی ترغیب خود میرے دل نے دی۔ میں حضرت خواجہ اللہ بخش صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور غلام فرید صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو کامل اور مکمل پیر تصور کرتا تھا مگر ان کے بقیدِ حیات نہ ہونے کے سبب ایک زندہ ہادی کی ضرورت تھی، اس واسطے اکثر استخارے کیا کرتا تھا کہ کسی رہنما کا پتہ ملے۔ ایک رات حضرت محبوب الٰہی (رض) کو خواب میں دیکھا کہ حضور دریافت فرماتے ہیں "کس کے مرید ہو؟۔ عرض کیا میں خود آپ سے پوچھتا ہوں کہ کس کا مرید ہونا چاہیئے، فرمایا اپنے آپ کو دیکھو۔"

میں نے تعبیر لی کہ اصلاح نفس کا اشارہ ہے جسکی تعمیل میں میں نے مدتوں کتابیں دیکھ دیکھ کر مجاہدے کیے۔ اسکے بعد خیال آیا کہ حضرت محبوب الٰہی (رض) نے میرے نسب کا اشارہ نہ کیا ہو کہ میں حضرت محبوب الٰہی (رض) کے نسب میں ہوں۔ اپنے آپ کو دیکھنا گویا خود حضرت کے طرزِ عمل کو دیکھنا ہے۔ اس واسطے ارادہ ہوا کہ جسطرح حضرت محبوب الٰہی (رض) اپنے پیر حضرت بابا گنج شکر (رض) کی خدمت میں دہلی سے پاکپٹن شریف تک پیدل جایا کرتے تھے میں بھی پیدل جاؤں مگر اتنی ہمت نہ کر سکا تاہم منچن آباد سے پاکپٹن تک پیدل گیا جو غالباً بارہ کوس کا فاصلہ ہے اور ریگستانی راستہ ہے۔

یہ سفر بہت بے سر و سامانی کا تھا، نہ کوئی آدمی ساتھ تھا نہ پیسہ جیب میں تھا نہ روٹی، بھوکا پیاسا ایک شوق اور لطف میں روانہ ہو گیا تھا۔ بارہ بجے دن کو دریا کے کنارے پہنچا، کشتی موجود نہ تھی، پیدل چلنے کی عادت نہ تھی راستہ صاف نہ تھا۔ گرمی کی شدت اور دھوپ کی تیزی سے حواس گم تھے۔ کنارہ پر جا کر بیٹھ گیا، بھوک نے اتنا بے حال کیا کہ وہیں نیم غشی کی سی حالت طاری ہو گئی، اتنے میں کوئی درویش مسافر آئے، انکے پاس آدھ سیر کی ایک موٹی روٹی تھی اس میں سے انہوں نے مجھ کو پاؤ روٹی دی اور مسکرا کر کہا۔ "اسکو کھاؤ، پانی پیؤ، تم کو تو روٹی تقسیم کرنی ہے ابھی سے بیہوش ہو گئے۔" میں نے وہ ٹکڑا کھایا، دریا کا پانی پیا، کشتی آ گئی اس میں سوار ہو کر پار گئے اور شام کو پاکپٹن شریف پہنچ گئے۔

رات کو میں نے حضور بابا صاحب کے مزار پر عرض کیا کہ طلبِ شیخ میں حاضر ہوا ہوں، صبح کو خود بخود حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب کی طرف دل مائل ہوا اور میں نے اسی وقت انکے پاس حاضر ہو کر بیعت کر لی۔

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ذکرِ نسب


حسن نظامی کے جدِ اعلٰی حضرت مولانا سید بدرالدین اسحٰق (رض) حضرت بابا فریدالدین گنج شکر (رض) کے داماد تھے۔

حضرت مولانائے موصوف دہلی میں مقیم تھے اور تحصیلِ علوم اسی شہر میں کی تھی۔ دہلی کے شہرۂ آفاق اور ممتاز فاضلوں میں اول درجہ پر مانے جاتے تھے۔ بعض مسائل میں حضرت مولانا کو کچھ شبہات واقع ہو گئے تھے، جب دہلی میں کوئی ایسا عالم نہ ملا جس سے وہ شکوک و شبہات رفع ہوتے تو آپ نے بخارے کا قصد کیا جو ان دنوں علم و فضل کا مرکز تھا۔ جب دہلی سے روانہ ہوئے تو اثنائے راہ میں قصبہ اجودہن بھی آیا جس کو آج کل پاکپٹن شریف کہا جاتا ہے، یہاں اس زمانے میں شیخ الاسلام حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ تشریف رکھتے تھے، جنکی بزرگی کا شہرہ چار دانگ عالم میں پھیلا ہوا تھا۔ حضرت مولانا جب حضرت گنج شکر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مجلس میں بیٹھے تو حضرت بابا گنج شکر (رض) نے زبانِ مبارک سے برسبیلِ حکایات و تمثیلات بغیر سوال کئے ان تمام شکوک و شبہات کا حل بیان کرنا شروع کیا جن میں آپکی طبیعت الجھی ہوئی تھی۔ حضرت مولانا کو بہت تعجب ہوا کہ جن مشکل اور ادق مسائل کیلیئے میں بخارے کو جاتا تھا وہ ان درویش نے باتوں باتوں میں حل کر دیئے اور ایسے آسان اور سیدھے سادھے پیرایہ میں کہ پھر کسی سوال کی گنجایش ہی نہ رہی۔ اسلیئے حضرت مولانا نے حضرت بابا سے اسی وقت بیعت کر لی اور قیامِ دہلی ترک کر کے وہیں پاکپٹن میں رہنے لگے (اب مزار بھی وہیں ہے)۔

حضرت بابا صاحب نے بھی انکے کمالاتِ علمی اور شرافتِ نسبی کا خیال کر کے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ بی بی کا عقد حضرت مولانا سے کر دیا اور اپنے مکان کے قریب رہنے کو جگہ دی۔

جب حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوبِ الٰہی (رض) شروع شروع میں بغرضِ بیعت پاکپٹن شریف حاضر ہوئے تو حضرت محبوبِ الٰہی (رض) کی نو عمری تھی۔ حضرت بابا صاحب نے حضرت محبوبِ الٰہی (رض) کو حضرت مولانا سید بدرالدین اسحٰق (رض) کے پاس ٹھہرایا کہ دہلی والے مہمان کے دہلی والے ہی میزبان بنیں اور مدارات کا حق ادا ہو۔

فوائد الفوائد اور سیر الاولیاء وغیرہ میں تذکرہ ہے کہ حضرت محبوبِ الٰہی (رض) نے خود فرمایا کہ حضرت مولانا بدرالدین اسحٰق نے میری روحانی تعلیم و تربیت میں خاص حصہ لیا اور حضرت بابا صاحب کے آدابِ مجلسی اور لوازماتِ شیخوخیت سکھائے۔


غور طلب

حضرت مولانا بدرالدین اسحٰق (رض) حسبِ بیان سیر الاولیاء و فوائد الفوائد بڑے عابد زاہد اور صاحبِ کرامات تھے۔ سوز و دردِ باطن کا یہ عالم تھا کہ ہر وقت آنکھیں آنسوؤں سے ڈبڈبائی رہتی تھیں اور جہاں خدا، رسول (ص) کا ذکر سنتے بے اختیار زار و قطار رونے لگتے تھے۔


تفصیل طلب

حضرت مولانا کی متعدد تصانیف تھیں، جن میں اسرار الاولیاء حضرت بابا صاحب کا ملفوظ اب بھی موجود ہے، اور صرف یا نحو کا ایک رسالہ بھی کہیں کہیں قلمی صورت میں پایا جاتا ہے۔
حضرت بابا صاحب کی صاحبزادی سے حضرت مولانا بدرالدین اسحٰق کے دو فرزند پیدا ہوئے، ایک خواجہ سید محمد امام دوسرے خواجہ سید موسٰی۔

جب حضرت بابا صاحب اور حضرت مولانا سید بدرالدین اسحٰق کا انتقال ہو گیا اور حضرت مولانا کی اہلیہ دو یتیم بچوں کے ساتھ کچھ تکلیف میں سنی گئیں اور حضرت محبوبِ الٰہی (رض) کو اسکی خبر پہنچی تو آپ کو بہت صدمہ ہوا کیونکہ ایک تو اپنے پیر کی صاحبزادی ہونے کی حیثیت سے آپ کو بی بی فاطمہ سے ہمدردی تھی، دوسرے اپنے روحانی معلم و مربی حضرت مولانا کی اہلیہ ہونے کے سبب آپ کو ان بی بی صاحبہ کا خیال تھا۔

سیر الاولیاء میں مذکور ہے کہ حضرت محبوبِ الٰہی (رض) نے حضرت سید محمد کرمانی صاحب کو پاکپٹن بھیج کر ان بی بی صاحبہ کو دونوں یتیم بچوں سمیت دہلی میں بلا لیا اور اپنے پاس نہایت ادب و دلجوئی سے رکھا۔


حسن نظامی کے جدِ اعلٰی کے فضائل، وہی حضرت محبوبِ الٰہی (رض) کے سجادہ نشین تھے۔

حضرت محبوبِ الٰہی (رض) نے ان بچوں کو بطور متبنٰی اور فرزندِ معنوی کے پرورش کیا اور خاص نگرانی کے ساتھ انکی تعلیم و تربیت کرائی اور جب بڑے بچے سید محمد صاحب کی عمر بڑی ہو گئی تو ان کو اپنی امامت عطا فرمائی یعنی حضرت محبوبِ الٰہی (رض) کی نماز میں حضرت سید محمد امام بنائے جاتے ہیں، اس وقت سے انکے نام کے ساتھ لفظ امام شامل ہو گیا اور لوگ ان کو خواجہ سید محمد امام کہنے لگے۔

سیر الاولیاء میں جو سب سے مستند تذکرہ اور حضرت محبوبِ الٰہی (رض) کے وقت کی لکھی ہوئی کتاب ہے، لکھا ہے کہ حضرت محبوبِ الٰہی (رض)، حضرت خواجہ سید محمد امام کو اس قدر عزیز رکھتے تھے کہ قطع نظر فرائضِ امامت کے ان کو ہر وقت اپنی خلوت و جلوت کی صحبت میں شرکت کا موقع عطا فرماتے تھے، یہاں تک غلو حضرت محبوبِ الٰہی (رض) کو حضرت خواجہ سید محمد امام کی عظمت و بزرگی میں تھا کہ اپنے سامنے خواجہ سید محمد امام سے لوگوں کو مرید ہونے کی اجازت دیتے تھے اور خواجہ سید محمد امام کو اپنے روبرو دوسروں کو مرید کرنے کی فہمایش ہوتی تھی۔ یہ بہت بڑی بات تھی کہ حضرت محبوبِ الٰہی (رض) خود اپنی موجودگی میں کہ شیخِ کامل تھے ایک نو عمر شخص کی بیعت کا دوسروں کو حکم دیتے تھے اور اپنی آنکھوں کے سامنے خواجہ سید محمد کی بیعت دوسروں سے کراتے تھے۔ یہ بیان بھی سیر الاولیاء میں ہے کہ حضرت خواجہ سید محمد امام حضرت محبوبِ الٰہی (رض) کا عطا کردہ لباس زیبِ تن فرماتے تھے۔

صاحبِ سیر الاولیاء کا بیان ہے کہ حضرت سلطان المشایخ محبوبِ الٰہی (رض) کی مجلس میں حضرت خواجہ سید محمد امام سے کوئی شخص اونچی جگہ نہیں بیٹھ سکتا تھا، نیز حضرت محبوبِ الٰہی (رض) کے اقربا، یاران، خلفاء وغیرہ میں کسی کو یہ درجہ حاصل نہ تھا کہ حضرت محبوبِ الٰہی (رض) کی موجودگی میں خود میرِ مجلس یا صاحبِ سماع بنے سوائے حضرت خواجہ سید محمد امام کے، کہ ان کو حضرت محبوبِ الٰہی (رض) نے یہ امتیاز مرحمت فرمایا تھا کہ حضرت کے سامنے میرِ مجلس اور صاحبِ سماع بنتے تھے۔ حضرت خواجہ سید محمد امام کے یہ پانچ اوصاف کہ اول تو حضرت محبوبِ الٰہی (رض) کے پیر کے حقیقی نواسہ تھے، دوسرے حضرت محبوبِ الٰہی (رض) کے معلم روحانی کے فرزند تھے، تیسرے حضرت محبوبِ الٰہی (رض) کے امام تھے، چوتھے یہ کہ حضرت محبوبِ الٰہی (رض) نے باوجود اسکے کہ انکے اقربا اور خلفاء میں بڑے بڑے اکابر موجود تھے مگر انھوں نے خواجہ سید محمد امام کی جگہ مجلس میں سب سے بالاتر رکھی تھی اور اپنے سامنے انکی بیعت لوگوں سے کراتے تھے اور پانچویں یہ کہ حضرت محبوبِ الٰہی (رض) اپنی موجودگی میں ان کو میرِ مجلس اور صاحبِ سماع قرار دیتے تھے، ایسے ہیں کہ ان سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت خواجہ سید محمد امام ہی حضرت محبوبِ الٰہی (رض) کے نسبی و روحانی اور ہر حیثیت کے سجادہ نشین اور وارث تھے کیونکہ حضرت محبوبِ الٰہی (رض) کے کوئی اولاد نہ تھی، آپ نے ساری عمر نکاح ہی نہیں کیا تھا اور حضرت خواجہ سید محمد امام ہی انکے فرزندِ معنوی اور فرزندِ حقیقی کے طور پر مانے جاتے تھے۔ اور وہی لفظاً، معناً اور مجازاً و حقیقۃً اور عملی اعتبار سے حضرت محبوبِ الٰہی (رض) کے جانشین تھے۔

حسن نظامی انہی حضرت خواجہ سید محمد امام کی اولاد میں ہے اور یہی وجہ اسکی اس درگاہ میں سکونت کی ہے کہ چھ سو برس سے اسکے بزرگ نسلاً بعد نسل یہاں مقیم رہے ہیں اور انشاءاللہ تعالٰی مقیم رہیں گے۔

خواہر زادگی کا لفظ جو حسن نظامی کے نام کے ساتھ ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ حضرت خواجہ سید محمد امام کی اولاد کی قرابت حضرت محبوبِ الٰہی (رض) کی خواہر زاد اولاد سے ہوتی رہی اور اب بھی ہوتی ہے۔

ان مستند اور معتبر حالات کی بنا پر درگاہ حضرت محبوبِ الٰہی (رض) کی سجادگی کا حق اولادِ حضرت خواجہ سید محمد امام کا ہے اور قیامت تک رہے گا۔ خدا کرے کہ یہ اولاد اصلی معنوں میں فرائضِ سجادگی کو ادا کرنے کے قابل ہو اور اپنے جد کی طرح حقیقی فرزند حضرت محبوبِ الٰہی (رض) کی بن جائے، آمین۔

یہاں مجھے اپنی آنے والی نسل سے یہ خطاب ضروری معلوم ہوتا ہے کہ وہ نسب کے اس فخر اور حضرت محبوبِ الٰہی (رض) کی مقرر کردہ سجادگی اور امتیازاتِ خصوصی ہر گھمنڈ نہ کرے، ضرورت عمل کی ہے کہ عمل ہی سے تمھارے دادا حضرت خواجہ سید محمد امام کو یہ درجہ حاصل ہوا تھا جو حضرت محبوبِ الٰہی (رض) کے نہ کسی خلیفہ کو حاصل ہوا نہ قرابت دار کو۔
 

محمد وارث

لائبریرین
حسن نظامی کی ولادت اور زندگی کا حال


تیرہویں صدی کے خاتمہ کے قریب 96 ہجری (1296ھ) میں 2 محرم کو جمعرات کے دن صبح صادق کے وقت حسن نظامی پیدا ہوا، جسکی رو سے آجکل کہ جمادی الاول 1337ھ ہے اسکی عمر 41 سال کی ہے۔

حسن نظامی نے ہوش سنبھال کر اپنے ایک بڑے بھائی سید حسن علی شاہ کو دیکھا (جو سات برس ہوئے رحلت کر گئے) اور ایک بہن حسن بانو کو (یہ بھی تیس برس ہوئے انتقال کر گئیں۔)


تعلیم

حسن نظامی نے پہلے ناظرہ قرآن شریف پڑھا، پھر فارسی کی چند معمولی کتابیں۔ اسکے بعد عربی صرف و نحو شروع کی (انگریزی بالکل نہیں آتی، بڑی عمر میں کوشش بہت کی مگر حاصل کچھ نہ ہوا۔)

اسکے استاد اول دن سے حضرت مولانا محمد اسمٰعیل صاحب مرحوم ساکن کاندھلہ ضلع مظفر نگر تھے جو دہلی کے شاہی خاندان کی ملازمت کے سبب یہاں درگاہ شریف کے قریب ساری عمر مقیم رہے اور یہیں انکا انتقال ہوا اور اسی جگہ انکا مزار بنا۔

حسن نظامی شرح تہذیب اور کنز الدقائق پڑھتا تھا، بارہ سال کی عمر تھی کہ ایک ہی سال کے اندر اسکے والدین کا انتقال ہو گیا اور اسکی پرورش اسکے بڑے بھائی مرحوم سید حسن علی شاہ نے کی اور اسکی عربی تعلیم کے جاری رکھنے میں مددگار رہے۔

جلالین اور مشکوٰۃ شریف ختم کرنے اور سنن ابوداؤد و ترمذی شروع کرنے کے بعد حسن نظامی شہر دہلی چلا گیا اور وہاں اس نے مولوی وصیت علی صاحب مرحوم اور مولوی عبدالعلی صاحب محدث اور مولوی حکیم اللہ دین صاحب پنجابی اور مولوی حکیم رضی الحسن صاحب ساکن کاندھلہ سے کچھ دنوں مختلف کتب کی تعلیم حاصل کی اور درگاہ کے قیام میں بعد وفات مولانا محمد اسمٰعیل صاحب کے انکے بڑے صاحبزادے مولانا میاں محمد صاحب سے بھی مدتوں سبق لیئے۔

اسکے بعد جناب مولانا محمد یحییٰ صاحب مرحوم خلف جناب مولانا محمد اسمٰعیل صاحب ساکن کاندھلہ جو حضرت مولانا رشید احمد صاحب محدث گنگوہی کے شاگردِ رشید تھے مجھ کو گنگوہ لے گئے اور وہاں میں نے ڈیڑھ سال قیام کیا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شادی


گنگوہ سے واپسی کے بعد حسن نظامی کا نکاح اس کے مرحوم چچا سید معشوق علی صاحب کی لڑکی حبیب بانو سے ہوا اور اس نکاح کے بعد متواتر کئی سال نہایت عسرت و پریشان حالی میں گزرے۔ یہ ایام اخباری مضامین لکھنے، مطالعہ کتب، قومی مجالس کی شرکت اور مختلف و بے اصول تجارتی جستجو میں بسر ہوئے۔

اگرچہ زندگی کا یہ دور معیشت کے لحاظ سے مصیبت کا زمانہ تھا تاہم اطاعت شعار بیوی اور دوست نواز احباب کی اعانت اور ذاتی محنت و تلاش کے سبب حسن نظامی نے اہلِ درگاہ کے پیشہ پیر زادگی کو ترک کر دیا تھا۔ اگر بیوی بے صبر ہوتیں اور احباب اسکی ضرورتوں کی کفالت نہ کرتے (جن میں خان بہادر محمد مزمل اللہ خانصاحب رئیس بھیکم پور علی گڈھ اور مرحوم راجہ نوشاد علی خاں تعلقہ دار لکھنؤ اور شیخ غلام محمد صاحب مرحوم مالک اخبار وکیل امرتسر اور سب سے زیادہ منشی غلام نظام الدین صاحب تاجر کتب دہلی اور نواب خواجہ غلام نصیر الدین خانصاحب رئیس شیخ پورہ ضلع میرٹھ اور شہزادہ میرزا امیر الملک صاحب دہلوی تھے) تو شاید بہت دشواریاں، استقلال میں پیش آتیں۔

اس دور میں حسن نظامی نے اہل درگاہ کی مروجہ طرز معاش کو ترک کر دیا تھا اور کسی ظاہری سہارے کے نہ ہونے کے سبب روٹی کا میسر آنا محال نظر آتا تھا۔

خدا مغفرت کرے حسن نظامی کی سابقہ زوجہ حبیب بانو کو جنہوں نے اس تلخ اور بھوک میں سلانے والے وقت میں اپنے شوہر کا نہایت رازداری کے ساتھ حقِ رفاقت ادا کیا۔

اسی زمانہ کے آخر میں خدا تعالٰی نے غیبی مدد بھیجی اور ایک یورپین جنرل ڈکسن سے ملاقات ہوئی جو اسلام کے شیدا اور تصوف کے شیفتہ تھے اور ہر سال لندن سے دہلی آتے تھے۔ جنرل ڈکسن کے ہاتھوں اللہ تعالٰی نے حسن نظامی کی وسعتِ رزق کا فتحِ باب فرمایا۔ جنرل موصوف ہر سال کے شروع میں اتنی کثیر رقم دیتے تھے جس سے تمام برس کے اخراجات فراغت سے ہو جاتے تھے اور حسن نظامی کو مشاغلِ علمی میں مصارفِ حانگی کا فکر و تردد نہ کرنا پڑتا تھا۔

جنرل ڈکسن پہلے شخص تھے جنہوں نے اسلامی اور روحانی تعلق میں حسن نظامی کو اپنا پیر سمجھا تھا اور حسن نظامی کو بھی پہلا تجربہ ایک انگریز کی اخلاص شعاری اور بے غرض دوست نوازی کا ہوا تھا۔ وہ وقت بھی عجیب تھا، خلقت کہتی تھی کہ یہ انگریز کوئی جاسوس ہے جو مہینوں دہلی آ کر رہتا ہے اور گھنٹوں حسن نظامی کے حجرہ میں تخلیہ رکھتا ہے۔ کوئی کہتا، حسن نظامی کرسٹان ہو گیا جو انگریز کے ساتھ کھاتا پیتا ہے، کوئی کہتا، انگریزوں کی قوم بڑی چالاک ہے خبر نہیں یہ انگریز کس منصوبہ کو لے کر آیا ہے اور کیوں حجرہ کے اندر کواڑ بند کر کے چپکے چپکے باتیں کیا کرتا ہے۔ مگر حسن نظامی کہہ سکتا ہے کہ جنرل ڈکسن کسی سیاسی غرض کے آدمی نہ تھے، ان کو اسلام اور مسلمین کے ساتھ ایک عشق تھا۔ وہ صوفیوں کی روش کے عاشق زار تھے۔ ان کو روحانی ریاضتوں اور سلوک تصوف کے اسرار معلوم کرنے کا شوق تھا۔ وہ اسلامی دنیا کے بہت بڑے سیاح تھے۔ سوڈان و ٹرانسوال کے محاربات میں انھوں نے بڑے بڑے کام کئے تھے۔ مصر کے مفتی محمد عبدہ سے انکی دوستی رہ چکی تھی۔ ہندوستان میں موجودہ مہاراجہ گوالیار و بیکانیر و نواب صاحب رام پور انکے دوست تھے۔ انکی عمر ساٹھ سے زیادہ تھی، وہ بڑے تجربہ کار اور جہاندیدہ انگریز تھے۔ اردو بولتے تھے اور کچھ اردو لکھ پڑھ بھی سکتے تھے۔

جنرل ڈکسن جنگِ یورپ (پہلی جنگِ عظیم م-و) کے بعد پھر ہندوستان نہیں آئے، نہ انکا خط آیا تاہم سنا ہے کہ وہ زندہ ہیں (خدا ان کو زندہ رکھے)۔ وہ انگریزی خصلت کا نمونہ تھے اگر ایسے ملنسار اور محبت شعار انگریز ہندوستان کی حکومت پر مقرر ہوا کریں تو موجودہ باہمی نفرت حاکم و محکوم میں کبھی پیدا نہ ہو۔ حسن نظامی انکا ذکر اس واسطے لکھتا ہے کہ انکے احسانات کو زندگی حاصل ہو اور انکی یاد حسن نظامی کے ذکر میں ہمیشہ سلامت رہے کہ وہ دورِ دشوار کے غیبی فرشتہ تھے جنکو خدا نے حسن نظامی کی مدد کے لئے بھیجا تھا۔

فراغت زمانہ میں ایک روسی بھی حسن نظامی کا مرید ہوا تھا اور حسن نظامی نے اس کو خرقہ دیا تھا، اپنے ملک میں جا کر اس نے لکھا کہ مجھ کو اپنے پاس فقیر بنا کر رکھو اور تصوف کی تعلیم دو مگر جنگِ یورپ کے سبب مسٹر ہیلی چیف کمشنر دہلی نے مجھ کو اجازت نہ دی اور میں اس روسی کو دہلی نہ بلا سکا۔

قصہ مختصر یہ چند سال ایسے تھے جن میں حسن نظامی نے اخباروں میں مضامین لکھے، تمام قومی جلسوں کی سیر دیکھی، ترقیِ سلوک کے لئے مجاہدات کیے اور اپنے ایک مقصود اور طرزِ عمل قایم کرنے پر مسلسل غور و خوض کی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
آخر 1908ء میں سید محمد ارتضٰی صاحب عرف محمد الواحدی نے حسن نظامی کے ہاتھ پر بیعت کی اور حلقہ نظام المشائخ اور رسالہ نظام المشائخ کی بنیاد انکی شرکت و امداد سے ڈالی گئی۔

یہ لکھنا رہ گیا کہ مذکورہ ایام میں حضرت مولانا پیر سید مہر علی شاہ صاحب نے حسن نظامی کو مرید کرنے کی اجازت دیدی تھی اور ریاست الور میں مولوی عمر دراز نظامی درگاہی شاہ کی معیت میں ایک معقول جماعت نے حسن نظامی کے ہاتھ پر بیعت کر لی تھی یہی نہیں بلکہ خطوط کے ذریعہ سے لگاتار اور جوق در جوق خلقت بیعت ہو رہی تھی۔

حلقہ نظام المشائخ قائم کرنے کے بعد مشکلات کا ایک نیا دور شروع ہوا، گھر کے مخالف اس کو بچوں کا کھیل کہتے تھے اور مذاق اڑاتے تھے اور بات بھی سچی تھی کہ ابتدا میں حلقہ کے ممبر اور کام کرنے والے عموماً نو عمر لوگ تھے۔

واحدی صاحب، میرزا یعقوب بیگ صاحب نامی ایم-اے، سید وحید الرحمٰن صاحب عرفانی بی-اے، ضیاءالدین احمد صاحب برنی بی-اے، علاؤالدین صاحب نصیری پیرزادہ درگاہ حضرت چراغ دہلی صاحب، قاضی لطیف الدین صاحب پیرزادہ درگاہ حضرت خواجہ قطب صاحب وغیرہ نوخیز لوگ حلقہ کے ابتدائی شرکا تھے جن پر آوازہ کشی کی جاتی تھی۔

اسی زمانہ میں حسن نظامی پر مصائب کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، اسکی صابر اہلیہ حبیب بانو نے انتقال کیا، اسکے لڑکے مر گئے اور اسکے خلاف درگاہ کی برادری نے ایک باضابطہ یورش برپا کی، روزانہ درگاہ میں آنے والوں کے سامنے حسن نظامی کی برائیاں بیان کی جاتی تھیں اور طرح طرح کے غلط بہتان اسکے ذمہ لگائے جاتے تھے۔ اس شورش نے یہاں تک ترقی کی کہ ایک دفعہ عرس کے موقع پر جبکہ ختم کی شرکت کے لئے ہزار آدمی مزار شریف کے سامنے جمع تھے ایک قرابتی بھائی صاحب نے حسن نظامی کے خلاف نہایت دل آزار لکچر دیا اور جو الزامات اس میں لگائے گئے انکی تائید و تصدیقِ خاص حسن نظامی کے قریبی کنبہ داروں نے کی جو اسکے جد شریک بھائی تھے۔

ایک طرف تو یہ کیا اور دوسری طرف پولیس میں رپورٹ کی کہ حسن نظامی درگاہ میں فساد کرانے والا ہے، اس رپورٹ کی بنا پر پولیس نے حسن نظامی اور اسکی محدود جماعت کا محاصرہ کر لیا۔ عین اسی ہنگامہ کے وقت ایک دوسرے قرابت دار نے حسن نظامی کے سامنے آ کر ایسی سخت و درشت گفتگو کی جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ حرب و ضرب کا بہانہ ڈھونڈتے ہیں۔

یہ بہت نازک وقت تھا، حسن نظامی کے دل کی نظریں خدا کی ذات کو دیکھ رہی تھیں کہ میرا کچھ گناہ نہیں ہے اور بے خطا یہ یورش مجھ پر کی جاتی ہے اور کوئی حمایتی دکھائی نہیں دیتا۔

اسی اثنا میں جناب میر جالب صاحب (موجودہ ایڈیٹر اخبار ہمدم) تشریف لائے اور انھوں نے کہا کہ اگر آپ پسند کریں تو میں ان لکچرار صاحب کی تقریر کا تقریر میں جواب دوں۔ حسن نظامی نے کہا کچھ ضرورت نہیں ہے، آپ کو خدا جزائے خیر دے، ہم کو صبر کرنا چاہیئے۔ مگر حکیم محمود علی خانصاحب ماہر اکبر آبادی سے (جو آجکل دہلی میں مطب کرتے ہیں) نہ رہا گیا اور انھوں نے وہیں مجمع لکچر میں جا کر مخالفوں کو جواب دیئے، حسن نظامی کو اطلاع ہوئی تو اس نے حکیم صاحب کو واپس بلا لیا، اور کہا، حضرت محبوب الٰہی (رض) نے فرمایا ہے، "کشندہ کشندہ بود" جو برداشت کر لیتا ہے وہ مار ڈالتا ہے۔ یہ وقت ضبط اور برداشت کا ہے، میں اپنی قوم کا بدخواہ نہیں ہوں، خدا اس کو جانتا ہے، وہی میری حمایت کرے گا اور ان شرارتوں سے بچائے گا۔ جب میرا کچھ قصور نہیں ہے اور میں صرف یہی چاہتا ہوں کہ بعض خلافِ شریعت مراسم کی اصلاح ہو اور طوائفین مزار کے سامنے رقص نہ کریں تو اس مخالفت کو وہی دور کرا دے گا جس کے حکم کی اطاعت سے مجھ پر یہ حملہ کیا گیا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اس واقعہ کے بعد ایک محضر تیار کیا گیا جس میں حسن نظامی کو خارج از اسلام اور خارج از مشربِ تصوف ثابت کیا گیا اور درگاہ کے حقوق سے بھی اس کو محروم کرنے کی درپردہ سعی کی گئی تھی۔ اس محضر پر تمام خاندان یعنی باشندگانِ درگاہ شریف نے دستخط کئے تھے۔ صرف ان چند آدمیوں نے اس فتویٰ سفاکی پر دستخط کرنے سے انکار کیا تھا، سید حسن علی شاہ صاحب برادرِ حقیقی حسن نظامی، سید محمد صادق صاحب برادر ماموں زاد و موجودہ خسر حسن نظامی، سید صمصام الدین صاحب، سید واجد علی صاحب مرحوم، سید اکبر علی صاحب۔

اسکے بعد مشائخ و علما و روسائے دہلی سے بھی اس پر دستخط کرائے گئے اور حسن نظامی کو یاد رہے گا کہ اسکے دوست اور روشن خیال بزرگوں نے بھی اس پر دستخط کر دیئے مگر حضرت مولانا شاہ ابوالخیر صاحب نقشبندی سجادہ نشین خانقاہ نقشبندیہ اور حضرت مولانا محمد عمر صاحب اخوندجی قادری نے دستخط کرنے سے انکار کیا۔

دہلی میں میرزا حیرت ایک اخباری معاون بھی ان مخالفین کے تھے جو میرے خلاف نہایت دل آزار مضامین شائع کرتے تھے، ان مشکلات کے ساتھ ساتھ بیماری نے بھی حملہ کیا اور حسن نظامی کو نمونیہ ہو گیا۔ اس وقت حکیم محمود علی خان ماہر اور واحدی صاحب اور برادر سید محمد صادق صاحب نے حسن نظامی کی بہت خدمت کی اور شورش کی خبروں کو اس کے کان سے بچائے رکھا۔

بیماری کے بعد حسن نظامی کلکتہ گیا اور لارڈ منٹو وائسیرائے ہند تک اس کی رسائی ہوئی اور وائسیرائے نے اس کو گورنمنٹ ہاؤس میں مدعو کیا، یہ خبریں دہلی میں آئیں تو مخالفین کی آتشِ حسد بھڑکی اور ان کو اندیشہ ہوا کہ ہم کو درگاہ سے خارج کرنے کو حسن نظامی نے کوئی منصوبہ تیار کیا ہے۔

حکیم حاذق الملک بہادر دہلوی نے حسن نظامی سے بیان کیا کہ درگاہ کے چند بڑے آدمی انکے پاس گئے اور کہا ہم نے سنا ہے کہ حسن نظامی لاٹ صاحب سے اس لئے ملا ہے کہ ہم سب کو درگاہ سے نکال دے اور خود مالک بن جائے اور آپ اس کے مدد گار ہیں۔ حکیم صاحب نے ان لوگوں کو مطمئن کیا اور فرمایا، حسن نظامی کی یہ نیت ہر گز نہیں ہے، وہ آپ لوگوں کا بدخواہ و دشمن نہیں ہے بلکہ حامی ہے، آپ اس خیال کو دل میں نہ آنے دیجیئے۔

ایک رشتہ دار صاحب نے مخالفت کو یہاں ختم نہ کیا اور وہ پیرانِ کلیر شریف کے عرس میں گئے اور تمام مشائخ کو مجبور کیا کہ حسن نظامی کے خلاف محضر پر دستخط کریں۔ بعض نے کیئے بعض نے انکار کیا، چنانچہ بانسہ شریف کے سجادہ نشین حضرت غلام جیلانی شاہ صاحب اور حضرت مولانا پیر مہر علی شاہ صاحب نے دستخط کرنے سے انکار کیا۔

حسن نظامی کو معلوم ہے کہ سفر بنگالہ کے زمانے میں جبکہ دہلی میں شدید یورش حسن نظامی کے خلاف تھی، واحدی صاحب اور قاضی لطیف الدین صاحب پیرزادہ درگاہ حضرت خواجہ قطب صاحب اور منشی غلام الدین صاحب تاجر کتب برابر ایسی تدابیر میں مصروف رہے جن سے یہ شعلے فرو ہوں، اور یہی معلوم ہوا ہے کہ مخالفین جلسہ مسلم لیگ دہلی کے مہمانوں میں (سابقہ جلسہ لیگ دہلی جو ہز ہائینس آغا خان کی صدارت میں ہوا تھا) حسن نظامی کے خلاف اشتہارات تقسیم کرنے گئے تھے تو غلام نظام الدین قریشی پریمی احمد آبادی (جو اب حسن نظامی کے مخلص مرید ہیں) اور انکی جماعت نے ان اشتہاریوں پر حملہ کیا اور ان کو مکان سے باہر نکال دیا۔

ضرورت نہ تھی کہ اتنی بڑی رام کہانی خواہ مخواہ یہاں بیان کی جاتی مگر آئندہ نسلوں کی یادداشت خصوصاً اپنے بچوں کی معلومات کے لئے اس کا مختصر سا ذکر مناسب تھا تاکہ وہ اپنے عمل کے وقت مخالفتوں سے گھبرائیں نہیں اور ان کو یاد رہے کہ استقلال اور ہمت ہر مخالفت کو جیت لیتی ہے، چنانچہ حسن نظامی کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ جو سب سے زیادہ شدید مخالف تھے (سوائے چند کے) وہ رفتہ رفتہ دوست بن گئے۔ اور انکے عناد و حسد کی آگ دلوں میں دب گئی گو اس کا بجھنا محال تھا مگر حسن نظامی نے باوجود قدرت حاصل ہونے کے اپنے دشمن سے انتقام کی خواہش نہ کی بلکہ حتی المقدور انکے ساتھ احسان کرنے کی کوشش کرتا رہا۔

درگاہ والوں کو یہ خیال تھا کہ حسن نظامی کی شہرت و ترقی ہماری معاش کے لئے مضر ہوگی اور حسن نظامی کے سامنے ہم کو کوئی نہ پوچھے گا مگر جب انہوں نے دیکھ لیا کہ حسن نظامی ہماری آمدنی سے کچھ غرض نہیں رکھتا اور اسکی روزی تجارت پر منحصر ہے تو رفتہ رفتہ خاموش ہوتے ہو گئے۔



عجیب واقعہ

مگر بے موقع نہ ہوگا اگر ایک عجیب واقعہ کا ذکر یہاں کیا جائے اور وہ یہ ہے کہ ایک صاحب حسن نظامی اور حلقۃ المشائخ کے بڑے مخالفین میں تھے اور کوئی اہم کام انکے مشورہ کے بغیر نہ ہوتا تھا۔ ایک دن وہ دہلی میں (جہاں ان دنوں میرا قیام تھا) منزلگاہ حلقۃ المشائخ کے اندر آئے اور روتے ہوئے آئے اور کہا کہ ان کو حضرت محبوب الٰہی (رض) نے خواب میں بشارت دی ہے کہ حسن نظامی میرا ہے، اسکی مخالفت نہ کرو (مفہوم یہ تھا، الفاظ یہ نہ تھے جو اس وقت یاد نہیں) اس واسطے میں تمھارے حلقہ کا ممبر بنتا ہوں اور آئندہ مخالفت کرنے سے تائب ہوتا ہوں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے ہاتھ سے یہ خواب لکھ دیا اور حلقہ کے ممبر بن گئے بلکہ اس خواب کو چھپوا کر تقسیم بھی کیا گیا تھا، مدت کی بات ہے عبارت یاد نہیں رہی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مقصود کا تقرّر

ان تمام امتحانات و مشکلات کے بعد اللہ تعالٰی نے حسن نظامی کے قلب کو ہدایت کی اور اس نے اپنی زندگی کا ایک مقصود قرار دے لیا اور وہ یہ تھا کہ اسلامی تصوف کو نئے انداز اور جدید طرز میں لکھا جائے، کہا جائے، برتا جائے۔

چنانچہ اس مقصود کے پیش نظر رکھنے کے ماتحت اس نے اپنا عمل شروع کیا، حلقہ نظام المشائخ کی اغراضِ اربعہ بھی اسی اصول پر قائم کی گئ تھیں، جن میں ایک تصوف کی حفاظت و اشاعت، دوسری مشائخ صوفیہ کو مرکزِ اتحاد پر لانا، تیسری عرسوں اور خانقاہوں کی ان مراسم کی اصلاح تھی جو دائرہ شریعت و طریقت سے خارج ہو گئی ہیں، چوتھی مشائخ کے سیاسی حقوق کی حفاظت۔

حلقہ کی پہلی غرض، حفاظت و اشاعتِ تصوف پر عمل کرنے کیلیئے رسالہ نظام المشائخ جاری کیا گیا، اگرچہ اس سے پہلے ایک صوفی پرچہ مولوی نہال الدین صاحب علوی نے الاحسان کے نام سے جاری کیا تھا جو عام فہم نہ ہونے کے سبب بند ہو گیا تھا اور لکھنؤ سے مولوی عبدالحلیم صاحب شرر بھی ایک کوشش الفرقان کے نام سے جاری کر چکے تھے جو مقاصد اصلی کے پیشِ نظر نہ ہونے کے سبب جاری نہ رہ سکا تھا۔

نظام المشائخ نے وہ کام کیا کہ نہ صرف خود زندہ رہا اور زندہ ہے اور بہت کامیابی اور شان کے ساتھ موجود ہے بلکہ اس نے ایک عام تحریک ملک میں اس قسم کے علم و ادب کی پیدا کر دی۔ چنانچہ پنجاب سے صوفی و طریقت انوار الصوفیہ، پھلواری سے رسالہ معارف، میرٹھ سے اسوۂ حسنہ وغیرہ پرچے اس مقصدِ اہم کی تکمیل کیلیئے جاری ہو گئے، جو آج تک سوائے دو ایک کے جاری ہیں۔ یہ اثر پرچوں تک محدود نہ تھا بلکہ متعدد نامہ نگار پیدا ہو گئے جو صرف تصوف کے رنگ میں اسلامی، تاریخی اور ادبی مضامین لکھنے لگے۔

خدا کے فضل سے نظام المشائخ کو آج تک کہ گیارہ برس سے زیادہ عرصہ اس کے اجرا کو ہو گیا، کسی قسم کی مالی یا قانونی دشواری پیش نہیں آئی اور اسکی اشاعت اکثر بلکہ تمام ماہوار اردو پرچوں سے بڑھی رہی اور بڑھی ہوئی ہے۔

حلقہ کی غرضِ حفاظت کے ماتحت درگاہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا محبوبِ الٰہی (رض) میں ایک کتب خانہ قائم کیا گیا، جہاں بے شمار قلمی و نایاب کتب کا ذخیرہ موجود ہے۔

اصلاحِ مراسم کی کوششوں میں ایک اصلاح بہت زیادہ کامیاب ہوئی کہ درگاہوں سے بازاری عورتوں کا ناچ گانا بند ہو گیا جسکی بدولت حسن نظامی نے بڑے بڑے مصائب برداشت کئے تھے۔ حسن نظامی نے پادشاہ دکن میر عثمان علی خاں بہادر نظام الملک آصف جاہ سے بھی زبانی درخواست کی تھی کہ مملکت دکن کی خانقاہوں میں یہ بدعت بکثرت رائج ہے کہ وہاں فاحشہ عورتیں مزارات کے سامنے ناچتی گاتی ہیں تو اعلٰی حضرت نے فوراً احکام جاری کرا دیئے اور اپنی تمام قلمرو میں حکمِ شدید کے ساتھ اس بدعت کو بند کرا دیا۔

باقی اغراض پر حکومت کے چند در چند شبہات کے سبب عمل نہ ہو سکا جو مسلسل چار سال قائم رہے۔ حکومت ہی کے شبہات نہ تھے بلکہ مشائخ بھی اس جدید طریقہ سے مانوس نہ ہوتے تھے اور طرح طرح کی مشکلات حلقہ کے کام میں ڈالتے تھے۔

حکومت کے شکوک کا باعث یہ ہوا کہ حسن نظامی نے ممالکِ اسلامیہ کا ایک طولانی سفر حلقہ کی اغراض کے ماتحت کیا تھا تا کہ بیرونی مشائخ اور خانقاہوں کے حالات سے آگاہی حاصل کرے۔ چنانچہ وہ 1911ء میں ممالکِ مصر، فلسطین، شام، حجاز کا ایک مفصل دورہ کر کے واپس آیا اور بہت وسیع تجربے ساتھ لایا جو ایسے تھے کہ اگر سلطنت رخنہ انداز نہ ہوتی تو ان سے بہت اچھے اور بڑے فائدے حاصل کئے جا سکتے تھے۔

حکومت کا شبہ بعض ترکوں کی ملاقات اور مصر کی آزاد جماعت کے پیشواؤں سے ملنا جلنا تھا، جو زمانۂ سفر میں حسن نظامی کیلیئے ایک لازمی امر تھا کیونکہ وہ تصوف و اہلِ تصوف کی نسبت جدید جماعتوں کے خیالات معلوم کرنے چاہتا تھا۔

واپسی سفر کے بعد پولیس کی زبردست نگرانی شروع ہو گئی اور جنگِ طرابلس و بلقان کے ایام نے اس کو اور بڑھایا، اور کانپور کا واقعہ اس سونے کیلیئے سہاگہ ثابت ہوا، اور کوئی مرحلہ مشکلات و تکلیفات کا باقی نہ رہا جو حسن نظامی کے جسم، مال اور روح کو نہ پہنچا ہو۔

اس نگرانی نے حلقہ کے ان ماہواری اور ہفتہ وار جلسوں کو بھی بند کرا دیا جو نوجوانوں میں ذوقِ تصوف پیدا کرتے اور بڑھاتے تھے۔ ایک اعتبار سے تو حلقہ کی نمودی زندگی اس آشوب نے بالکل ہی ختم کر دی گو حسن نظامی کی تحریروں اور تقریروں نے حلقہ کی روح کو دنیا سے جانے نہ دیا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
قصّہ مختصر 1908ء سے لیکر 1919ء تک حسن نظامی کی زندگی مضامین نویسی، تصنیف و تالیفِ کتب اور خدمتِ مریدین میں صرف ہوئی اور ہر سال خدا کی عنایت سے اسکے کاموں کو ترقی ہوتی گئی۔ مریدوں کی تعداد ساٹھ ہزار تک پہنچ گئی، تالیفات و تصنیفات چالیس سے زائد ہو گئیں اور عقدِ ثانی کر لینے کے سبب اسکی خانگی زندگی میں بھی ایک اطمینان اور سکون پیدا ہو گیا۔

1913ء میں حسن نظامی نے نظام المشائخ تمام و کمال واحدی صاحب کے سپرد کر کے میرٹھ سے ایک اخبار توحید جاری کیا جو پانچ مہینے زندہ رہ سکا اور اس قلیل زمانہ میں اسکی ایسی شہرت ہوئی کہ ہندوستان میں کسی ہفتہ وار اردو اخبار کی نہ ہوئی ہوگی اور ایسی ہی اسکی اشاعت و مقبولیت کی وسعت تھی۔ آخر حکامِ سلطنت نے اس کو جبراً ضبط کر لیا اور حسن نظامی کو قیامِ میرٹھ ترک کر کے دہلی آنا پڑا۔

جنگِ یورپ کے بعد حسن نظامی نے ملک کے تعلیمی، مذہبی اور سیاسی جلسوں میں شریک ہونا چھوڑ دیا اور سیر و سیاحت میں بھی کمی ہو گئی کیونکہ پولیس کی زیادتیاں اتنی زیادہ تھیں کہ اس کو کسی جگہ امن و چین نہ ملتا تھا۔ پولیس والے ریل میں ایک ڈاکو یا خوفناک مجرم کی طرح ہر جنکشن پر تفتیشِ حال کرتے تھے اور آدھی رات، پچھلی رات کی نیند بھی انکی نذر ہوتی تھی کیونکہ اگر ان اوقات میں کوئی جنکشن آتا تھا تو پولیس آ کر اس کو جگاتی تھی اور پرسشِ احوال کرتی تھی اسکے علاوہ جس شخص کے ہاں قیام کیا جاتا تھا اسکا بھی ناک میں دم آ جاتا تھا، پولیس اس کو بھی ستانے سے باز نہ رہتی تھی۔

یہی وہ امتحان کا زمانہ تھا جس میں ہمت و بے ہمتی آزمائی جاتی تھی، حسن نظامی کو جن دوستوں اور مریدوں کی جوانمردی پر اعتماد تھا وہ پولیس کی یورش سے گھبرا جاتے تھے اور ایسے بد دل ہوتے تھے کہ حسن نظامی کو مجبوراً ان کے گھر سے نکلنا پڑتا تھا اور جن کو وہ کمزور اور بزدل خیال کرتا تھا وہ دلیر اور بے پروا ثابت ہوتے تھے۔

حسن نظامی پسند نہیں کرتا کہ ان مقامات و اشخاص کے نام لکھے کیونکہ اس سے ناظرین کو کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔

البتہ حضور نظام میر عثمان علی خان بہادر بادشاہ دکن کی شاہانہ ہمت کا ذکر بے موقع نہ ہوگا کہ انہوں نے اور ان کے سابق مدار المہام مہاراجہ سر کشن پرشاد بہادر نے ایک موقع پر کمال استقلال سے حسن نظامی کے ساتھ برتاؤ کیا جب کہ انگریزی پولیس اور انگریزی حکام اعلٰی ریزیڈنٹ کے بعض نا گفتہ بہ اشارات سے حسن نظامی کو بہت عجلت کے ساتھ حیدر آباد چھوڑنا پڑا اور وہ بمبئی چلا گیا تو بادشاہ دکن نے خود تار بھیج کر حسن نظامی کو راستہ سے واپس بلا لیا اور کئی روز اپنا مہمان رکھا اور اس کی پروا نہ کی کہ حکام انگریزی کو حسن نظامی سے باغیانہ شکوک شکوہ ہے۔

1917ء میں آنر ایبل مسٹر ہیلی چیف کمشنر دہلی اور سر چارلس کلیئولینڈ ڈائرکٹر جنرل خفیہ پولیس اور مسٹر اورڈ سپرنٹنڈنٹ خفیہ پولیس دہلی کی مہربانی سے حسن نظامی کی نگرانی دور کی گئی اور اس وقت سے آج تک اب کسی قسم کی اذیت شک و شبہ کی پولیس کے ہاتھوں سے اس کو نہیں ہے، سوائے اس کے کہ اب بعض عوام انگریزوں کے میل جول کے سبب حسن نظامی کو خفیہ پولیس کا ملازم یا حکام سے سازش کنندہ یا انگریزوں کا خوشامدی تصور کرتے ہیں۔

اسی موقع پر یہ ذکر بھی دلچسپ ہوگا کہ 1911ء میں جب حسن نظامی ممالکِ اسلامیہ کی سیاحت کے لیئے ہندوستان سے باہر گیا اور بیت المقدس کے واقعہ سرقہ تبرکات پر اسکی رائے رائٹر کمپنی نے بذریعہ تار ہندوستانی اخبارات میں شائع کرائی تو اخبار وطن، لاہور اور پیسہ اخبار، لاہور نے اس قسم کے مخالفانہ مضامین حسن نظامی کے خلاف لکھے کہ مسلمانوں کو شبہ ہوگیا کہ حسن نظامی انگریزی جاسوس بن کر ان ملکوں میں گیا ہے اور انگریزوں نے اپنے خرچ سے اس کو بھیجا ہے۔ یہ بد گمانی اتنی بڑھ گئی تھی کہ واحدی صاحب کو میرے سفر کے ایام میں باقاعدہ اسکی تردید شائع کرنی پڑی تب بھی بد ظنی دور نہ ہوئی اور جب ہندوستان واپس آ کر پولیس کی یورش حسن نظامی پر عام طور سے دیکھی گئی، اس وقت خیالات بدلے۔

خدا کی شان ہے کہ وطن اور پیسہ اخبار نے ایک جھوٹی بدگمانی پھیلانے کا خمیازہ بہت جلد ہی بھگت لیا اور وہ دونوں اپنے اس مسلمہ اعتبار سے جو مسلمانوں کو ان پر تھا گر گئے یہاں تک کہ اب مسلمان ان اخباروں کا نام لینے سے نفرت کرتے ہیں، پڑھنا اور خریدنا تو امر دیگر ہے۔

وطن تو بالکل پردۂ گمنامی میں چُھپ گیا، پیسہ اخبار کہیں کہیں دیکھا جاتا ہے اور حکام کی عنایت کے سبب اسکی رسائی اونچی اونچی جگہوں میں ہو جاتی ہے تاہم پبلک کی نظر میں اس کی ایک ذرہ کے برابر بھی وقعت نہیں ہے۔

مگر حسن نظامی آج بھی بدگمان نہیں ہے اور ان بدگمان اخباروں کو قومی خادم اور ایک خاص قسم کا کام آنے والا خدمت گزارِ قوم تصور کرتا ہے اور انکے ایڈیٹروں کی دوستی اور ذاتی ملاقات پر اس کو مسرت ہے۔

یہ سرسری اور مجمل بیان حسن نظامی کی زندگی کا تھا، اب زندگی کے جزئی واقعات کا فرداً فرداً ذکر کر کے ان سے مفیدِ عوام نتائج نکال کر دکھائے جاتے ہیں تا کہ پیر بھائیوں کو ان سے سبق حاصل ہو اور وہ سوانح عمری کے ان حصوں سے بہرہ ور ہوں جو خود انکی زندگی کو بھی پیش آتے ہیں اور بے خبری میں ان سے کچھ حاصل نہیں کیا جاتا۔
 
Top